اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۲)

مولانا سمیع اللہ سعدی

 شیعہ حدیثی ذخیرہ قبل از تدوین (تحریری سرمایہ )

دوسری طرف قبل از تدوین اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کی تحریری شکل و صورت کا مسئلہ بھی (تقریری و تدریسی  صورت کی طرح )خفا   کے دبیز پردوں میں لپٹا  ہے ،یہ سوال بجا طور پر پیدا ہوتا ہے کہ  تین صدیوں تک ان ہزارہا روایات(صرف کتب اربعہ کی روایات چالیس ہزار سے زائد ہیں) کا مجموعہ کس  طرح  اور کس شکل میں محفوظ رہا ؟کتب ِاربعہ کے مصنفین نے جمع روایات میں کن ماخذ و مصادر   پر اعتماد کیا ؟ اہل سنت میں صرف ایک صدی کے اندر ساڑھے چار سو مجموعات ِحدیث  مرتب ہوتے ہیں ،تو اہل تشیع کے ہاں تین صدیوں میں کتنے مجموعے مرتب ہوئے ،جنہوں نے   بنیادی مصادر کے لیے خام مال کا کردار ادا کیا ؟اس سوال کا  اہل تشیع محققین نے دو طرح سے جواب دیا ہے ،جنہیں ہم  تقریب ِفہم  کے لیے "اجمالی جواب " اور "تفصیلی جواب "کا نام دیں گے۔

1۔ اجمالی جواب 

علمائے شیعہ کی ایک بڑی جماعت نے  اس سوال کا اجمالی جواب یہ دیا ہے کہ کتب اربعہ سے پہلے  حدیث کے چار سو متعمد نسخے رائج تھے ،جو ائمہ کے براہ راست تلامذہ نے بڑی جانفشانی اور محنت سے تیا ر کیے تھے ،ان چار سو مجموعوں کو "الاصول الاربعمائۃ"کا نام دیا گیا ،انہی چارسو اصولوں  کو کتب ِاربعہ کے مصنفین  نے ماخذ ومصدر بنایا اور ان کی مدد سے اپنی کتب میں ائمہ کی روایات کو مدون کیا ،دسویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم زین الدین  عاملی المعروف بالشہید الثانی   لکھتے ہیں:

كان قد استقر أمر الإماميۃ علی أربعمائۃ مصنف سموھا أصولاً فكان عليھا اعتمادھم، وتداعت الحال إلی أن ذھب معظم تلك الأصول ولخصھا جماعۃ في كتب خاصۃ تقريبا علی المتناول، وأحسن ما جمع منھا (الكافي) و(التھذيب) و(الاستبصار) و(من لا يحضرھ الفقيہ)

امامیہ کے ہاں روایت کا معاملہ چار سو مصنفین کی لکھی ہوئی چار سو اصولوں پر جا ٹھرتا ہے ،انہی کتب پر امامیہ کا اعتماد تھا ،پھر مرور زمانہ سے ان اصولوں کا اکثر حصہ ختم ہوگیا اور ان کی تلخیص   شیعہ محدثین کی ایک جماعت نے اپنی کتب میں کیں ،جن میں سے سب سے بہترین کتب الکافی ،تہذیب ،استبصار اور من لایحضرہ الفقیہ یعنی کتب اربعہ ہیں۔

شیعہ کتب کی سب سے وسیع ڈائریکٹری لکھنے والے محقق آغا بزرگ طہرانی اپنی کتاب "الذریعہ الی تصانیف الشیعہ "میں لکھتے ہیں:

ھذہ الأصول كلھا موجودۃ جملۃ منھا بالھيئۃ التركيبيۃ الأوليۃ التي وجدت موادھا بھا والبقيۃ باقيۃ بموادھا الأصليۃ بلا زيادۃ حرف ولا نقيصۃ حرف ضمن المجاميع القديمۃ التي جمعت فيھا مواد تلك الأصول مرتبۃ مبوبۃ منقحۃ مھذبۃ1

یعنی  سب  کے سب موجود ہیں ،ان میں سے بعض اپنی اصلی ترتیب کے ساتھ بمع مواد کے موجود ہیں ،جبکہ باقی کا مواد بغیر کسی حرف کی زیادتی و کمی کے ان قدیم مجموعات ِحدیث کے ضمن میں موجود ہیں ،جن میں ان  اصولوں کا مواد مرتب ،مبوب،منقح اور مہذب شدہ انداز میں  جمع کیا گیا ہے۔

 اصول اربعمائۃ   کی تحقیق و استناد اور   پس منظر  سے متعلق چند  باتیں پیش خدمت ہیں:

اصل کا  اصطلاحی معنی و مفہوم

اصول اربعمائۃ کو سمجھنے  کے لیے سب سے پہلے لفظ اصل کا پس منظر اور معنی و مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے ،شیخ طوسی و نجاشی نے کتب شیعہ کی فہارس تیار کیں ہیں ،ان فہارس میں  تصانیف کا ذکر کرتے ہوئے  بعض رجال کے ساتھ "لہ کتاب" کا لفظ اور بعض کے ساتھ "لہ اصل"کا لفظ لکھا ہے ،چنانچہ   ابراہیم بن عبد الحمید کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

ابراھيم بن عبد الحميد، ثقۃ. لہ اصل، اخبرنا بہ أبو عبد اللہ محمد بن محمد بن النعمان المفيد والحسين بن عبيداللہ، عن ابي جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويہ، عن محمد بن الحسن بن الوليد، عن محمد بن الحسن الصفار، عن يعقوب ابن يزيد ومحمد بن الحسين بن ابي الخطاب وابراھيم بن ھاشم2

جبکہ اس  ابراہیم  بن محمد الاشعری کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

ابراھيم بن محمد الاشعري. لہ كتاب، بينہ وبين اخيہ الفضل بن محمد، اخبرنا بہ ابن ابي جيد، عن محمد بن الحسن بن الوليد، عن محمد بن الحسن الصفار، عن محمد بن الحسين، عن الحسن بن علي بن فضال، عنھما.3

 شیخ طوسی و نجاشی نے اپنی کتب میں  اصل و کتاب میں فرق یا مفاہیم بیان نہیں کئے ،اس لیے علمائے شیعہ نے اصل کے مختلف مفاہیم بیان کئے ،چند اقوال درج کئے جاتے ہیں:

محمد مہدی طباطبائی بحر العلوم اصل کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

الاصل في اصطلاح المحدثين من اصحابنا بمعنی الكتاب المعتمد الذي لم ينتزع من کتاب آخر 4

یعنی اصل محدثین اہل تشیع کی اصطلاح میں اس کتاب کو  کہتے ہیں ،جو معتمد ہو اور دوسری کتاب سے منقول نہ ہو۔

مجمع الرجال کے مصنف لکھتے ہیں:

الاصل: مجمع عبارات الحجۃ، و الكتاب يشتمل عليہ و علی الاستدلالات و الاستنباطات شرعاً و عقلاً 5

یعنی کہ اصل امام معصوم کی عبارات کے مجموعے کا نام ہے ،جبکہ کتاب امام معصوم کی عبارات کے ساتھ مصنف کے شرعی و عقلی استدلالات و استنباطات پر مشتمل ہوتی ہے۔

علامہ تستری قاموس الرجال میں لکھتے ہیں:

الظاھر أن الاصل ماكان مجرد روايۃ أخبار بدون نقض و أبرام و جمع بين المتعارضين و بدون حكم بصحۃ خبر او شذوذ خبر6.

یعنی اصل محض روایات و آثار کی روایت کا نام ہے ،ان آثار  پر صحت ،ضعف ،یقین کا حکم اور متعارض روایات  میں تطبیق دیے بغیر ،

 یہ تعریف پچھلی تعاریف کے برعکس ہے ،کیونکہ اس سے اصل کے مفہوم میں متعمد و غیر متعمد دونوں قسم کی کتب آگئیں۔

اس کے علاوہ بھی اصل کی متعدد تعریفیں کی گئیں ،ان کی تفصیل کے لیے  محمد حسین جلالی کی کتاب "دراسۃ حول الاصول الاربعمائۃ "ص 7 تا 9  ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

ان سب تعاریف کے بارے میں معروف شیعہ محقق  سید محسن الامین  اپنی ضخیم کتاب "اعیان الشیعہ "میں لکھتے ہیں:

وكل ذلك حدس وتخمين7

یہ سب تعریفات ظن و اندازوں پر مبنی ہیں۔

اسی طرح محقق جلالی نے بھی ان تعریفات کو ظن و تخمین قرار دینے پر سید محسن الامین کی موافقت کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:

"و من ھنا نجد ان التعاریف مستندۃ  الی الظن و التخمین  بل یحق ان نقول انہم اصطلحوا لمفہوم الاصل  اصطلاحا جدیدا 8

ان تعاریف سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سب تعاریف ظن پر مبنی ہیں ،بلکہ حق بات یہ ہے کہ اصل  کا ایک خاص مفہوم بیان کرنا   جدید اصطلاح ہے۔

لہذ طوسی و نجاشی نے جو لفظ اصل ذکر کیا ،اس کا  واقعی مفہوم کیا ہے؟وہ کس  قسم کی کتاب کو کہتے ہیں ؟اس کے بارے میں بعد کے علمائے شیعہ نے ظن و تخمین پر مختلف تعریفیں کی ہیں ،جن میں سے بعض ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔

اسی طرح محقق فاضل جبوری اپنے پی ایچ ڈی مقالے "تراجم الاصول الاربعمائۃ "میں اصل کی آٹھ کے قریب تعریفات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

ھذہ التعاريف لاتخلوا من الاشكالات لأنھا لم تحدد ظابطۃ دقيقۃ لمعنی الاصل9

یہ سب تعریفات اشکالات سے خالی نہیں ہیں ،کیونکہ ان میں  اصل کے مفہوم کی باریک و منضبط تحدید نہیں کی گئی ہے۔

اصول اربعمائہ کی اصطلاح اور زمانہ تدوین

 اصول اربعمائۃ کی اصطلاح کا تاریخی جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ اصطلاح   چھٹی صدی ہجری یا  علی الاقل پانچویں صدی ہجری  (الکافی کی تصنیف کے  تقریبا ڈھائی سو  سال بعد )اور اس کے بعد کی پیداوار ہے، متقدمین  اہل تشیع بشمول اصحاب کتب اربعہ و طوسی و نجاشی  کے ہاں چار سو اصولوں کی  اصطلاح کا  کوئی تصور نہیں تھا، چار سو اصولوں کا سب سے پہلے ذکر  ابن شہر آشوب   مازندرانی (588ھ) نے اپنی کتاب  "معالم العلماء "میں  بیان کیا ہے ،چنانچہ لکھتے ہیں:

"صّنفت الإماميۃ من  عھدِأمير المؤمنين إلی عصرِ أبي محمد الحسن العسكري أربعمائۃ كتاب، تسمی الأصول وھذا معنی قولھم: لہ أصلٌ10

کہ امامیہ نے حضرت علی رضی اللہ کے زمانے سے لے کر امام عسکری تک چار سو کتب لکھی ہیں ،جنہیں اصول کہا جاتا ہے ،لہ اصل کا یہی مفہوم ہے۔

لیکن مازندرانی کے برعکس  دیگر علماء نے ان چار سو اصولوں کو خاص امام جعفر صادق کے تلامذہ کی تصنیف قرار دیا ہے ،چنانچہ امام طبرسی   اپنی کتاب اعلام الوراء باعلام الھدی  میں لکھتے ہیں:

روی عن الإمامِ الصادق من مشھوري أھل العلم أربعۃ آلاف إنسان و صنف من جواباتہ في المسائل أربعمائۃ كتاب تسمی الأصول رواھاأصحابہ وأصحاب ابنہ موسی الكاظم"11

یعنی امام جعفر صادق سے چار ہزار معروف اشخاص نے روایات لی ہیں ،انہوں نے آپ کے جوابات کو چار سو کتب میں جمع کیا ہے ،جنہیں اصول کہا جاتا ہے ،یہ کتب آپ کے شاگردوں اور آپ کے صاحبزادے امام موسی کاظم  کے شاگردوں نے روایت کی ہیں۔

یہی بات علامہ حلی اور شہید ثانی نے لکھی ہے۔12

یہاں پر بجا طور پر سوال پید اہوتا ہے کہ چار سو اصول ،جو شیعہ تراث حدیث کا بنیادی ماخذ و مصدر بنے ،ان کے زمانہ تدوین کے بارے میں علمائے شیعہ میں اتنا بڑا اختلاف  کیسے اور کیوں پیدا ہوا  کہ بعض اسے صرف امام جعفر صادق  کے تلامذہ کی تصنیف قرار دیتے ہیں  اور بعض حضرت علی کے زمانے سے لے کر امام عسکری  کے ائمہ شیعہ کی تصنیف قرار دیتے ہیں ؟ شیعہ محقق حسین جلالی لکھتے ہیں:

تکاد الاراء فی عصر  التالیف تختلف اشد الاختلاف 13

یعنی ان اصولوں کی تالیف کے زمانے میں آراء کا شدید ترین اختلاف ہے۔

الاصول الاربعمائہ   کی تعیین اور  مصنفین

چار سو اصولوں کے زمانہ تدوین کی طرح ان کے مصنفین بھی پردہ خفا میں ہیں ،شیعہ کی موجود علمی تراث میں تلاش ،جستجو ، ضعیف و صحیح روایات و عبارات  اور ثقہ و ضعیف رواۃ کو ملا کر ایک سو سے کچھ اوپر رواۃ کے بارے میں "لہ اصل " کا لفظ ملتا ہے ،چنانچہ شیخ طہرانی نے اپنی ضخیم کتاب "الذریعہ الی تصانیف الشیعہ " میں تلاش و جستجو کے بعد 117 اصولوں کا ذکر کیا ہے،14 محقق شیخ فاضل جبوری  اپنے ضخیم مقالے "تراجم  رواۃ الاصول الاربعمائہ " میں اس پر صرف پانچ کا اضافہ کر سکے ،باقی278  اصولوں    کے مصنفین کا ضعف ،ثقاہت ،تعارف و احوال تو کجا  نام ہی نا معلوم ہیں ،یعنی  دو سو اٹھتر اصول ایسے ہیں ،جو صرف عالم ِخیال میں موجود ہیں ،ان کا زمانہ ،تدوین ، موضوع،مصنفین کے نام و تعارف  میں سے کوئی بھی چیز معلوم نہیں ہے ،ان میں سے بھی شیخ طوسی و نجاشی، جنہوں نے  لفظ اصل کو رواج دیا ،انہوں نے صرف 60 اصولوں کا ذکر کیا ہے ،جبکہ طوسی نے اپنی کتاب  الفہرست کے مقدمے میں تصریح کی ہے کہ میں نے اپنے اصحاب کی اکثر تصانیف و اصولوں  کا اس میں ذکر کیا ہے ،  نیز یہ بات بھی کسی علمی لطیفے سے کم نہ ہوگی کہ طوسی کتب اربعہ میں سے دو کے مصنف ہیں ،اگر کتب اربعہ چار سو اصولوں سے ماخوذ ہیں ،تو یقینا شیخ طوسی کو ان کا خصوصی علم ہوگا ،لیکن شیخ طوسی  کتب شیعہ کی فہارس مرتب کرتے وقت صرف 60 کا ذکر کرتے ہیں ،علمی دنیا میں اسے شاید کوئی بڑا عجوبہ ہوگا کہ جس نے  بقول اہل تشیع محققین "چار سو اصولوں "سے کتاب تیار کی ،انہیں تو صرف ساٹھ کا علم ہوا ،جبکہ بعد میں آنے والے سب اصولوں کے بارے میں جان گئے۔

اگر اس جواب کو مان لیا جائے کہ کتب اربعہ چار سو اصولوں سے اخذ کی گئی  ہیں ،تو اس سے کتب اربعہ کا استناد،صحت ،وثوق اور  علمی وزن  بڑھنے کی بجائے شدید گھٹ جاتا ہے کہ کتب اربعہ میں 278 ایسی کتب بھی ہیں ،جو تاریخی اعتبار سے محض فرضی ہیں ،ان کا زمانہ تدوین ،اخذ و نقل ،مصنفین  میں سے کوئی بھی چیز معلوم نہیں ہے۔ شیعہ محقق حسین جلالی نے بجا طور پر لکھا ہے:

لو کانت الاصول اربعمائۃ کما ھو المشہور  فلما ذا لم یذکراھما وھما قد ضمنا الاستیفاء، و لو کانت اقل، فمن این جاء  التحدید بالاربعمائۃ کما ھو المشہور؟ 15

یعنی اگر اصول واقعی چار سو ہیں ،تو شیخ طوسی و نجاشی نے کیوں  ذکر نہیں کئے ،جبکہ  ان دونوں نے شیعہ کتب کا احاطہ کرنے کا بیڑا اٹھایا  اور اگر چار سو سے کم ہیں ،تو چار سو کی تحدید کیوں اور کس بنا پر  کی گئی؟

 278 اصولوں کے  محض فرضی ہونے (فرضی ہونے سے مراد یہ ہے کہ ان پر کوئی بھی تاریخی  دلیل نہیں ہے ،خواہ مصنف کے نام کی صورت میں ہی ہو ) کے باوجود علمائے شیعہ ان اصول اربعمائہ کو کس طرح مشہور باور کراتے ہیں ،اس کا نمونہ  شیخ علی النمازی کی کتاب "الاعلام  الھادیۃ الرفیعہ فی اعتبار الکتب الاربعۃ المنیفہ " میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ،مصنف لکھتے ہیں:

لا نحتاج الی الطریق نحو الاصول الاربعمائہ  التی صنفھا  الثقات الاجلاء  المعروفہ  المشہورہ  الثابتہ نسبتہا  الی مصنفیھا"16

ہم اصول اربعمائہ کی طرف کسی بھی سند کے محتاج نہیں ہیں ،کیونکہ ان اصولوں کو ثقہ ،اجل ،معروف و مشہور رواۃ نے لکھا ہے اور ان رواۃ کی طرف ان کتب کی نسبت  بھی مشہور ہے۔

 کیا شیخ نمازی   یا کوئی بھی اہل تشیع  محقق ان "ثقہ ،معروف ،اجل و مشہور "چار سو مصنفین کے صرف  نام   ہی مکمل کر کے دکھا سکتے ہیں ؟

یہ ساری بحث اس صورت میں ہے جب ہم اہل تشیع محققین کے بیان کردہ جملہ مفروضات کو من و عن قبول کریں ،لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ   طوسی و نجاشی  نے جو لہ اصل کا لفظ بولا ہے ،کیا وہ واقعی حدیث کی کتاب کے لیے بولا ہے؟ یہ بات محتاج ثبوت ہے ، اگر  اصل کا لفظ  حدیث کی کتاب کے لیے  ہے ،تو شیخ طوسی و نجاشی نے جو "لہ کتاب "کا لفظ بولا ہے ،اس کا مصداق کیا ہوگا ؟ اس لیے  محض کتاب یا اصل کہنے  کو حدیثی مجموعے پر محمول کرنا قیاس و تخمین ہے،کیونکہ شیخ طوسی و نجاشی نے   اپنے اسلاف کے جملہ تصنیفی ذخیرے کی فہرست مرتب کی ہے ،جس میں تفسیر، حدیث، فقہ ،سوانح اور دیگر اصناف شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے  کہ اس میں تفسیر ،حدیث ،فقہ،تاریخ  جملہ قسم کی تصانیف کا ذکر ہے ،اس لیے  کتب اربعہ سے پہلے کے حدیثی ذخیرے کو ثابت کرنے کے لیے حدیثی کتب و مجموعات  کی تصریح  کی ضرورت ہوگی ،محض اصل یا کتاب کا لفظ دیکھ کر اسے حدیثی کتاب قرار دینا تحکم اور دعوی بلا دلیل ہے ، اور  تحقیقی میزان میں ظن ،تخمین اور احتمالات کی بنیاد پر کیے گئے دعاوی ثابت   شمار نہیں  ہوتے ۔،نیز کتب اربعہ کے مصنفین نے بھی اپنی کتب کے مقدمات یا کسی اور مقام   پر  اپنی کتب کو اصول اربعمائہ سے ماخوذ و منقول  قرار نہیں دیا ،بلکہ کتب اربعہ کے مصنفین کی جملہ کتب میں ہمیں  اصطلاح(الاصول الاربعمائۃ) کا نام و نشان نہیں ملتا۔

2۔تفصیلی جواب

کتب ِ اربعہ سے پہلے حدیثی ذخیرے کو ثابت کرنے کے لیے معاصر شیعہ مصنفین نے ایک اور طریقہ اختیار کیا ہے ،جسے ہم نے آسانی کے لیے "تفصیلی جواب "کانام دیا ہے ،اہل تشیع کی  تاریخ حدیث لکھنے والے  معاصر مصنفین نے  ہر امام کے دور میں حدیثی مجموعات کی ایک فہرست مرتب کرنے کی کوشش کی ہے ،ان  کتب میں ڈاکٹر محمد مہدوی کی ضخیم کتاب " تدوین الحدیث عند الشیعۃ الامامیہ "محمد رضا المودب کی کتاب " تاریخ الحدیث "سید محمد علی الحلو کی کتاب "تاریخ الحدیث بین  سلطۃ النص و نص السلطۃ "الحاج حسین الشاکری کی کتاب "تدوین الحدیث و تدوین الفقہ " علی شہرستانی کی "تاریخ الحدیث النبوی " جبکہ فارسی کتب میں  ڈاکٹر مجید معارف کی "پژو ھشی  در تاریخ حدیث شیعہ "مدیر کاظم کی "تاریخ حدیث "سید احمد میرخانی کی "سیر حدیث در اسلام "اہم کتب ہیں ،ان مصنفین نے اصول اربعمائۃ پر بحث کے ساتھ شیعہ حدیثی ذخیرے کے مختلف مراحل بیان کئے ہیں ،جن میں عمومی طور پر ہر امام  کے دور کو ایک مرحلہ قرار دیا گیا ہے ،ان میں سے ایک دو کتب کو چھوڑ کر باقی سب کتب  کا  ہم نے تفصیلی جائزہ لیا ،تاکہ اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کی قبل از تدوین کی  صورتحال سامنے آجائے ،ان کتب کے تفصیلی مطالعے سے جو نکات ہمارے سامنے آئے ،انہیں  ترتیب وار پیش کیا جاتا ہے:

1۔ان سب کتب  میں ایک مشترک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں صرف حدیثی مجموعوں کا ذکر نہیں ہے ،بلکہ مواد کی کثرت ظاہر کرنے کے لیے دیگر فنون کی کتب کا بھی ساتھ ذکر کیا گیا ہے ،مثلا محمد رضا المودب نے "الاثار الروائیہ  الاخری فی القرن الاول"کا عنوان باندھ کر درجہ ذیل کتب کا ذکر کیا ہے:

1۔السنن والقضایا و الاحکام لابی رافع 

2۔کتاب علی بن رافع

3۔نصاب زکاۃ الانعام الثلاثۃ لربیعۃ بن سلیمان

4۔کتاب الاصبغ بن نباتہ الذی روی عہد مالک الاشتر

5۔کتاب زید بن  وہب المشتمل علی خطب علی

6۔کتاب ابی ذر الغفاری حول ما وقع بعد وفاۃ النبی ﷺ

7۔کتاب عبد اللہ بن الحر الجعفی

8۔کتاب نعمان بن سعید

9۔کتاب عبد اللہ بن بلال المشتمل علی روایات عن بلال

10۔کتاب سلمان الفارسی الذی روی حدیث الجاثلق

11۔کتاب میثم  التمار فی تفسیر القرآن

12۔کتاب ابی مقدام من روایات علی بن الحسین

13۔کتاب بریر بن خضیر الہمدانی

14۔کتاب الحارث بن  اعور الہمدانی من روایات الامام علی

15۔کتاب سلیم بن قیس فی شرح وقائع الاسلام

16۔کتاب محمد بن قیس البجلی

17۔کتاب یعلی بن مرۃ الثقفی  17

پہلی صدی ہجری میں مصنف  نے تلاش و جستجو کے بعد سترہ کتب کا ذکر کیا ،ان  کی درجہ بندی یوں کی جاسکتی ہے:

الف: چار کتب ایسی ہیں ،جو براہ راست حدیثی روایات کی بجائے دیگر موضوعات پر بھی  مشتمل  ہیں :1۔کتاب الاصبغ بن نباتہ الذی روی عہد مالک الاشتر 2۔ کتاب ابی ذر الغفاری حول ما بعد وفات النبی ﷺ 3۔کتاب میثم التمار فی تفسیر القران 4۔کتاب سلیم بن قیس فی شرح وقائع الاسلام

ب:ائمہ کی روایات پر صراحتا مشتمل صرف تین کتب ہیں :1۔کتاب زید بن وھب المشتمل علی خطب علی 2۔کتاب ابی مقدام من روایات  من روایات علی بن  الحسین 3۔کتاب الحارث بن اعور الہمدانی من رویات الامام علی

اگر ہم فقہ کی دو  کتب "السنن ولقضایا و الاحکام لابی رافع" اور  "کتاب زکاۃ الانعام الثلاثہ" کو بھی حدیثی کتب شمار کریں ،تو ان سترہ کتب میں صرف پانچ کتب حدیث کی ہیں۔

ج ۔بقیہ آٹھ کتب ایسی ہیں ،جن میں مطلقا کتاب کا ذکر ہے ،جس میں اس کی  کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ حدیثی ذخیرہ ہے یا کسی اور فن کی کتاب ہے ؟ان کو حدیثی ذخیرہ کی فہرست میں شمار کرنا   دعوی بلا دلیل ہے۔

یہی روش تاریخ حدیث کی  بقیہ کتب میں بھی ہے ،یہاں تک کہ   مصاحف کا بھی ذکر کیا گیا ہے 18،حدیثی ذخیرے کی فہارس مرتب کرنے والی کتب میں مصاحف کا ذکر کس قدر علمی و تحقیقی  وزن رکھتا ہے ،اہل علم پر مخفی نہیں ہے۔

2۔  حدیث و غیر حدیث کے مجموعات کے باوجود تعداد انتہائی کم بنتی ہے ،مثلا محمد مہدوی نے جو ذخیرہ ذکر کیا ہے ، وہ کچھ یوں ہے:

 الف:حضرت علی کے دور میں حدیث و غیر حدیث کو ملا کر  تیرہ اشخاص کی تصانیف کا ذکر کیا ہے۔

ب:حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے دور میں کسی کتاب  کا ذکر نہیں کیا ،صرف ان کے اقوال ذکر کئے ،جو روایات کی کتابت کی ترغیب پر مشتمل ہیں۔

ج:امام زین العابدین کے دور میں حدیث و غیر حدیث کو ملا کر  کل گیارہ مجموعات کا ذکر کیا۔

د:امام باقر کے دور میں  حدیثی و غیر حدیثی کل  سولہ  مجموعات کا ذکر کیا۔

ر:امام جعفر صادق کے دور میں کل تیس مجموعات کا ذکر کیا۔

ذ:امام موسی کے دور میں تیرہ مجموعات کا ذکر کیا۔

س:امام رضا کے دور میں  بائیس مجموعات کا ذکر کیا۔

ش:امام محمد ہادی کے دور میں کسی کتاب  کا ذکر نہیں کیا ،اور امام علی و امام حسن عسکری کے ادوار کو ملا کر کل پندرہ مجموعات کا ذکر کیا۔

یہ تقریبا کل ملا کر 133 مجموعات ہوگئے۔ حدیثی و غیر حدیثی مجموعات کو ملا کر یہ تعداد بنتی ہے ،محض حدیثی مجموعات اس سے کہیں کم بنتی ہیں ،یوں  امام حسن عسکری (260ھ)  تک ڈھائی  سو سال میں اہل تشیع کے مجموعات حدیث سو تک بھی نہیں پہنچتے ،لیکن پھر کتب اربعہ کی صورت میں  ایک صدی کے اندر چالیس ہزار سے زائد روایات منظر عام پر آجاتی ہیں۔

3۔ بعض کتب میں جیسے محمد رضا   المودب کی تاریخ الحدیث اور سید  احمد میرخانی کی کتب میں  ہر مرحلے کے مجموعات کی تعداد  سینکڑوں  میں بتائی گئی ہے ،مثلا صرف امام رضا کے دور میں دو سو سے اوپر کتب  کا ذکر کیا گیا ہے ،لیکن ان میں نام و مصنف کی تفاصیل نہیں دی گئی ،صرف یہ کہا گیا ہے کہ اس دور میں ان کتب سمیت دوسو افراد نے بھی کتب لکھی ہیں ،مثلا رضا المودب لکھتے ہیں:

وکان لثمانین تلمیذا من تلامذتہ مولفات فی الحدیث بلغ عددھا 207 کتاب 19

آپ کے اسی شاگردوں  نے حدیث کی کتب لکھی ہیں ،جن کی تعداد 207 تک پہنچتی ہے۔

اب یہ کتب  کن کی تصانیف ہیں ؟کیا واقعی یہ حدیث کی کتب ہیں ،یا دیگر فنون و مطلق کتاب  کے عنوان پر مشتمل کتب بھی اس میں شامل ہی،نیز یہ تعداد کہاں سے  ثابت ہے ؟اس طرح  کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔

دراصل تفصیلی فہارس مرتب کرنے والے  معاصر اہل تشیع مصنفین نے دو مفروضات پر یہ عمارت کھڑی کی ہے:

1۔ ائمہ کا ہر شاگرد شیعی امامی ہے ،حالانکہ ائمہ سے خصوصا امام جعفر صادق سے بہت سے اہل سنت حضرات نے بھی استفادہ کیا۔

2۔ ائمہ  کے تلامیذ کے ساتھ کتاب  کے عنوان کا مطلب یہ ہے کہ  وہ کتاب ضرور ائمہ سے منقول رویات و احادیث پر مشتمل ہوگی۔

کیا کسی کے شاگرد بننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ  عالم اب جو بھی کتاب ،جس موضوع پر بھی لکھے گا ،وہ اسی استاد کی روایات پر مشتمل متصور ہوگی؟امام شافعی نے امام محمد سے استفادہ کیا ،اب کیا امام شافعی کی ہر کتاب کو امام محمد کی  روایات کا مجموعہ کہا جائے؟اور یہ کہا جائے کہ امام محمد کی روایات کو امام شافعی نے الام  جیسی ضخیم کتاب میں جمع کیا ؟ اگر یہ نتیجہ غلط ہے اور یقینا غلط ہے تو محض ائمہ کے شاگردوں کے تذکرے میں لفظ "کتاب "دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا کہ  یہ کتاب حدیث کی ہی ہے اور اس میں ائمہ کی ہی احادیث جمع ہوئی ہیں ،نتیجہ نکالنا بھی  تحقیق کے میزان میں کوئی وزن نہیں رکھتا ۔جبکہ اس کے برخلاف ڈاکٹر مصطفی اعظمی صاحب نے جو مجموعات حدیث کی فہرست دی ہے، وہ مختلف محدثین کی اپنے اساتذہ سے سنی ہوئی روایات پر مشتمل ہیں ،ان میں اس طرح کے  غیر  ثابت مفروضوں سے  کام نہیں لیا گیا ،چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

1۔ذکوان ابو صالح السمان کی احادیث کا تذکرہ یوں کیا ہے :

من کانت عندہ احادیث مکتوبۃ :
الاعمش ،قال الاعمش کتبت عند ابی صالح الف  حدیث ۔۔۔۔
سہیل بن ابی صالح ،کانت لدیہ صحیفۃ عن ابیہ 20

2۔سالم ابن ابی الجعد کا مجموعہ حدیث یوں ذکر کیا :

قال منصور  قلت لابراہیم النخعی ،ما لسالم ابن ابی الجعد اتم  حدیثا منک؟قال لانہ کان یکتب 21

3۔ شہر بن حوشب الاشعری کا مجموعہ یوں ذکر کیا :

و روی  عبد الحمید بن بہرام عن شہر نسخۃ 22

اس طرح سے ڈاکٹر صاحب نے مختلف شیوخ اور ان کے تلامذہ کے مرتب کردہ 456 مجموعات   ِ حدیث کی فہرست مرتب کی ہے ، الغرض  اہل تشیع کی تفصیلی فہارس اولا تو انتہائی کم تعداد میں ہیں ،ثانیا انہیں بلا دلیل مجموعات ِحدیث  اور ائمہ کی روایات پر مشتمل صحائف باور کرایا گیا ہے ۔

   اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اہل تشیع کی کتب اربعہ سے پہلے حدیثی ذخیر ہ    خواہ تحریری صورت ہو یا تقریری یعنی درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کی صورت ہو ،ا خفا کے دبیز پردوں میں مستور ہے ،اس  کا تاریخی ثبوت    دستیاب مواد کی مدد سے از حد مشکل ،بلکہ ناممکن ہے ۔

حواشی


    1.  الذریعہ الی تصانیف الشیعہ 134/2

    2.  الفہرست ،ص35

    3.  ایضا ،ص36

    4.  الفوائد الرجالیہ ،ص367/2

    5.  مجمع الرجال ،9/1

    6.  مقدمہ قاموس الرجال ،ص 7

    7.   اعیان الشیعہ ،140/1

    8.  دراسۃ حول الاصول الاربعمائۃ ،ص8

    9.  تراجم رواۃ الاصول الاربعمائۃ ،ص15

    10.  معالم العلماء ،ص 39 (یہ بات مازندرانی نے شیخ مفید سے نقل کی ہے ،لیکن شیخ مفید کی کتب میں  چار سو اصولوں کا کوئی ذکر نہیں ہے فافہم )

    11.  اعلام الوراء باعلام الھدی ص 166

    12.  المعتبر شرح المختصر للحلی ،26/1 ،ذکری الشیعہ فی احکام الشریعہ للعاملی ،ص6

    13.  دراسۃ حول الاصول الاربعمائۃ ص22

    14.  الذریعہ 135-168/2

    15.  دراسۃ حول الاصول الاربعمائۃ ،ص 27

    16.  الاعلام  الھادیۃ الرفیعہ فی اعتبار الکتب الاربعۃ المنیفہ،ص 108

    17.  تاریخ الحدیث ،ص 53

    18.  تدوین الحدیث عند الشیعۃ الامامیہ ،ص419 ( مصحف علی کا ذکر کیا گیا ہے )

    19.  تاریخ الحدیث ،ص71

    20.  دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ ،ص 147

    21.  ایضا ،ص148

    22.  ایضا،ص151

(جاری)

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(جولائی ۲۰۱۹ء)

تلاش

Flag Counter