طلاق کا اسلامی تصور: اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز کے تناظر میں

ڈاکٹر محمد شہباز منج

اسلامی نظریاتی کونسل  کی طرف سے ، حال ہی میں اکٹھی تین طلاقوں پر سزا کی تایید کے حوالے سے طلاق کا مسئلہ ایک دفعہ پھر علمی حلقوں میں زیرِ بحث آیا ہے۔ طلاق کے بارے میں  افراط و تفریط پر مبنی رویے بالعموم اس بنا پر سامنے آتے ہیں کہ لوگ اسلام میں طلاق کی حیثیت و مشروعیت اور اس سے متعلق فقہا کے مواقف کو اچھی طرح نہیں سمجھتے۔ راقم نے کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر تفصیلی تحقیقی مطالعے کے دوران  کچھ نوٹس لیے تھے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے زیرِ نظر فیصلے پر اپنے تاثرات سے قبل ،حوالوں کی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان نوٹس کو  یہاں سادہ انداز سے اور اس ترتیب سے  پیش کر دیا جائے کہ  جہاں عام قارئین اسلام میں طلاق کے صحیح تصور اور اس سے متعلق فقہا کے مواقف سے آگاہ ہو سکیں،وہاں بعض اہم مسائل کے حوالے سے بنیادی فقہی مآخذ کی طرف  کیے گئے  اشارات کی روشنی میں محققین میں  زیرِ نظر موضوع سے متعلق   تفصیلی تحقیقی مطالعات   کی تحریک و تشویق پیدا ہو سکے۔

طلاق کی شرعی حیثیت

 اسلام نے معاہدۂ نکاح کو نہایت اہم اور مقدس ٹھہرایا ہے۔ اس کا اپنے ماننے والوں سے تقاضا ہے کہ شادی اور نکاح کے رشتے کو کھیل نہ سمجھا جائے، میاں بیوی حتی المقدور اس کو توڑنے سے احتراز کریں۔ میاں بیوی میں باہم اختلاف یا جھگڑا وغیرہ ہو جانا فطری سی بات ہے، لیکن اس کو جدائی پر منتج نہ ہونا چاہیے۔ اگر بات بات پر طلاق ہو گی تو دو افراد ہی نہیں کئی خاندانوں حتیٰ کہ پوری سو سائٹی پر اس کے نہایت مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ چناں چہ زوجین کے متعلقین کا فریضہ ٹھہرتا ہے کہ وہ ان میں کشیدگی کی صورت میں مل کر اصلاح کی کوشش کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ  ہے:

 وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُما(النساء 35:4)

“ اگر تمھیں ان دونوں میں کشیدگی کا خوف ہو، تو ایک حکم اس (مرد) کے اہل خانہ میں سے اور ایک حکم اس (عورت) کے اہل خانہ میں  سےمقر رکرو۔ (اور اصلاح کی کوشش کرو) اگر وہ اصلاح کے خواہش مند ہوں گے، تو اللہ ان میں موافقت پیدا کر دے گا۔”

اسلام عقدِ نکاح کو باقی رکھنے کا اس درجہ خواہاں ہے کہ بیوی ناپسند ہو تو بھی صبر کے ساتھ نباہ کا حکم دیتا ہے: 

فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شيئا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا (النساء19:4) 

“اگر تم انھیں (یعنی اپنی بیویوں کو) ناپسند بھی کرتے ہو (تو بھی ان سے برا سلوک نہ کرو) عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو، لیکن اللہ نے اس میں بڑی بھلائی رکھی ہو۔”

 اگر بیوی کو شوہر سے شکایت ہو تو اسے بھی صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ اپنے خاوند کے برے سلوک پر صبر کرنے والی بیوی فرعون کی بیوی آسیہ کا سا اجر پائے گی۔ تاہم اسلام اعتدال پسند دین ہے۔ وہ لوگوں کو مجبور و لاچار نہیں بناتا اور نہ ان پر ناقابلِ برداشت پابندیاں عائد کرتا ہے۔ بعض اوقات ایسی صورت ِحال پیدا ہو جاتی ہے کہ میاں بیوی کا عقدِ نکاح میں بندھے رہنا محال ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں اسلام نے اس بات کی گنجائش رکھی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو سکیں۔ طلاق کے جائز ہونے کا ثبوت متعدد آیات قرآنی (مثلاً البقرہ 227:2 تا 232 ) اور احادیثِ نبوی سے ملتا ہے۔ تاہم یہ باور کرانے کی سعی برابر کی گئی ہے کہ طلاق کو معمول اور مشغلہ نہ بنایا جائے اور اسے نہایت مجبوری کے عالم میں آخری حل اور چارۂ کار کے طورپر استعمال کیا جائے۔ حدیث نبوی ہے:

اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلَّاقُ (ابو داؤد، بیہقی،دارقطنی، مصنف ابن ابی شیبہ)

“اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔”

(بعض  لوگوں اس حدیث  کے ضعیف ہونے کا “فتویٰ” دے کر اسلام میں طلاق کی ناپسندیدگی  کے تصور کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی خدمت میں ہماری  گزارش ہے کہ اس حدیث کو ایک طرف رکھ دیا جائے،  تو بھی اسلام میں طلاق کا  حلال  چیزوں میں سے ناپسندیدہ ہونا واضح ہے۔میاں بیوی میں اصلاح کی کوشش اور میاں  کو ناپسندیدگی کے باوجود  بیوی سے نباہ کی ترغیب سے متعلق اوپر درج آیات اس حقیقت کو عیاں کر رہی ہیں کہ شریعت طلاق کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو  میاں بیوی کے رشتے کو ٹوٹنے سے بچانے کی ترغیب کیوں دی جاتی!)

طلاق سے متعلق الفاظ اور ان کے اثرات

 فقہِ اسلامی کی رو سےطلاق شوہر کی طرف سے صریح الفاظِ طلاق کی ادائی سے بھی ہو جاتی ہے، اور غیر صریح یا کنایہ کے الفاظ سے بھی۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو صریح الفاظ سے طلاق دے گا ،یعنی لفظ طلاق یا اس کے مشتقات استعمال کرے گا ،تو چاہے اس کی نیت طلاق کی ہو یا نہ ہو، طلاق واقع ہو جائے گی۔ مثلاً اگر وہ کہتا ہے: اَنْتِ طَالِق، “تجھے طلاق ہے”  تو آدمی کی نیت کا اعتبار نہ ہو گا، اور طلاق پڑ جائے گی۔ اگر وہ صریح الفاظ سے طلاق نہ دے، بلکہ کنایہ کرے ،یعنی ایسے الفاظ استعمال کرے، جس کے طلاق کے علاوہ اور معنی بھی ہو سکتے ہیں ، مثلاً یوں کہے: تو جدا ہے، تو آزاد ہے، تو شوہر کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ اگر اس کی نیت طلاق کی تھی ،تو طلاق ہوجائے گی ورنہ نہیں۔ شیعہ فقہا کے نزدیک البتہ صرف صریح الفاظ ہی سے طلاق واقع ہو سکتی ہے۔

اقسامِ طلاق

 طلاق کو مختلف تناظر میں مختلف قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سنت و بدعت ہونے کے اعتبار سے یہ طلاقِ احسن، طلاقِ حسن اور طلاقِ بدعت میں منقسم ہے اور اثرات کے اعتبار سے طلاقِ رجعی، طلاقِ بائن اور طلاقِ مغلظہ میں۔ ان سب اقسام کی ضروری وضاحت درجِ ذیل ہے:

طلاقِ احسن

طلاقِ احسن طلاق کا سب سے پسندیدہ اور بہترین انداز ہے۔ اس میں خاوند اپنی بیوی کو طہر (حیض سے پاک ہونے) کی حالت میں جب کہ اس نے ابھی بیوی سے مباشرت نہ کی ہو، لفظِ طلاق کی ایک ہی دفعہ ادائی سے طلاق دیتا ہے اور عدت کے دوران اس سے مباشرت نہیں کرتا۔

طلاقِ حسن

طلاقِ حسن طلاقِ احسن سے کم پسندیدہ طریقِ طلاق ہے۔ اس میں خاوند اپنی بیوی کو تین طہر تک ہر طہر میں ایک ایک طلاق دیتا ہے اور عدت کے دوران اس سے صنفی تعلق قائم نہیں کرتا۔

طلاقِ بدعت

طلاقِ بدعت خلافِ سنت اور ناپسندیدہ طلاق ہے۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں یا ایسے طہر میں، جس میں اس نے بیوی سے مباشرت کی ہو، یا حالتِ حمل میں، یا ایک ہی مرتبہ ایک سے زیادہ الفاظ سے طلاق دے، تو وہ طلاقِ بدعت ہو گی۔

طلاقِ رجعی

طلاق رجعی وہ ہے، جس میں مرد کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے یعنی اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر لینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ رجعی طلاق دو طلاقوں تک ہوتی ہے۔ یعنی پہلی طلاق کے بعد بھی مرد کو واپسی کا اختیار ہوتا، اور دوسری کے بعد بھی۔عدت کے دوران رجوع کا حق ان الفاظِ قرآنی سے واضح ہے:

 وَ بُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا (البقرہ 228:2) 

“اور ان کے خاوند اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں تو، اس دوران ان کو واپس لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔”

 رجوع صنفی تعلق ہی سے ہو گا یا الفاظ سے بھی ہو سکتا ہے؟ اس میں فقہا کا اختلاف ہے۔ “ہدایہ”سے احناف کی یہ رائے معلوم ہوتی ہے کہ رجوع الفاظ سے بھی ہو سکتا ہے لیکن “المجموع” میں شوافع (شافعی فقہا) سے منقول ہے کہ رجوع کے باب میں محض الفاظ اور رویہ معتبر نہیں۔ مالکیہ البتہ “المدونہ الکبری” کے مطابق نیت کے ساتھ رویے کا اعتبار کرتے ہیں۔

طلاقِ بائن

پہلی اور دوسری طلاق کے بعد اگر مرد رجوع نہ کرے، اور عدت گزر جائے تو طلاقِ بائن واقع ہو جاتی ہے۔ اب اگر عورت چاہے تو وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔ قرآن حکیم میں ہے:

 وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ (البقرہ 232:2) 

“جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دے دو، اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں (اپنے دیگر) خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔”

 تاہم اگر میاں بیوی راضی ہوں تو تحلیل (یعنی حلالہ) کے بغیر ہی دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ اگر طلاق صریح الفاظ کی بجائے کنایہ کے الفاظ سے دی جائے، تو بھی طلاقِ بائن واقع ہو گی۔ اس صورت میں بھی مرد رجوع نہیں کر سکے گا ،البتہ باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہو سکے گا۔ اگر شوہر کنایہ کے الفاظ سے طلاق دے، لیکن بعد میں نیتِ طلاق کا انکار کرے اور معاملہ عدالت میں چلا جائے، تو عدالت آدمی کی نیت کی تحقیق کرکے فیصلہ سنائے گی۔ طلاقِ بائن کی صورت میں میاں بیوی میں مکمل علاحدگی نہیں ہوتی بلکہ واپسی کا موقع باقی ہوتا ہے۔ طلاقِ بائن کو طلاقِ بائن بینونہ صغری بھی کہا جاتا ہے۔

طلاقِ مغلّظہ

اگر دو کے بعد تیسری طلاق بھی دے دی ،تو یہ طلاقِ مغلظہ ہو جائے گی۔ اب نہ صرف یہ کہ خاوند بیوی سے رجوع نہیں کرسکتا بلکہ اس سے نکاح بھی نہیں کر سکتا، یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کر لے۔ ارشاد خاوندی ہے:

 فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ (البقرہ 230:2) 

“پھر اگر خاوند نے اسے (تیسری) طلاق دی ،تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی،یہاں تک کہ اس کے علاوہ (دوسرے) خاوند سے نکاح کرے۔”

 طلاق مغلظہ کوطلاقِ بائن بینونہ کبری بھی کہا جاتا ہے۔

حلالہ اور اس کی روا و ناروا صورتیں

اگر عورت کو تیسری طلاق بھی ہو جائے، تو اب وہ پہلے خاوند کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتی جب تک کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے اور اور وہ اسے طلاق نہ دے دے۔ دوسرا مرد عورت کو اپنے پاس رکھنے کے بعد اپنی آزاد مرضی سے، کسی وجہ سے طلاق دے دے ،اور عورت عدت گزار کر اپنی مرضی سے سابقہ خاوند سے نکاح کر لے، تو اسے شریعت میں حلالہ یا تحلیل کہاجاتا ہے۔ یہ حلالہ کی جائز صورت ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ (البقرہ 230:2)

“ پھر اگر وہ (دوسرا خاوند) اسے طلاق دے دے، تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ باہم رجوع کر لیں۔”

 لیکن کچھ لوگ یہ کرتے ہیں کہ طلاق ہو جانے کے بعد طے شدہ پروگرام کے تحت اپنی عورت کا دوسرے مرد سے نکاح کرتے ہیں، اور پھر اس سے طلاق لے کر خود سے نکاح کر لیتے ہیں۔ حلالہ کی یہ صورت ناجائز اور بہت بڑا گناہ ہے۔ احادیث میں اس عمل سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ کوئی صاحبِ عزت اور صاحبِ شرم و حیا عورت یا مرد اس دھندے میں ملوث نہیں ہو سکتا۔ ناجائز حلالے کی صورت میں نکاح درست ہوتا ہے یا نہیں؟ اس پر فقہا میں اختلاف ہے۔ “ہدایہ” اور “بدائع الصنائع” میں احناف کی یہ رائے ہے کہ نکاح منعقد تو ہو جاتا ہے، لیکن مکروہ ہوتا ہے۔ جب کہ “مغنی المحتاج” اور “الشرح الکبیر بمع حاشیہ الدسوقی” کے مطابق فقہاے مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔

ایک مجلس کی تین طلاقوں کی حیثیت

 گو ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دینا بدعت ہے، اور سب علما اس کے ناپسندیدہ ہونے پر متفق ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایسا کر ڈالے کہ تینوں طلاقیں اکٹھی ہی دے دے، تو ان کی کیا حیثیت ہو گی؟ ایسی طلاق واقع ہو گی یا نہیں؟ اگر ہو گی تو طلاق رجعی ہو گی یا بائن یا مغلظہ؟ اس پر اہلِ علم میں بڑی بحث ہے۔ احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ چاروں مذاہبِ فقہ کی عام رائے ہے کہ ایسی طلاق بدعت ہونے کے باوجود واقع ہوجائے گی، نیز یہ طلاقِ مغلظہ ہو گی اور عورت پہلے خاوند کے لیے حلالے کے بغیر حرام ہو گی۔ لیکن ابن تیمیہ، ابن قیم اور بعض دیگر اہلِ علم ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ،اور خاوند کو دورانِ عدت رجوع کا حق دیتے ہیں، جب کہ شیعہ فقہا ایسی طلاق کو طلاق ہی شمار نہیں کرتے، کیونکہ شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہے۔

مطلقہ سے حسنِ سلوک

 اسلام، جو دشمنوں سے بھی خیر خواہی کا خواہاں ہے، اس بات کوکیسے گوارا کر سکتا تھا کہ طلاق دینے والا مرد اپنی مطلقہ بیوی سے بدسلوکی کرے۔ چناں چہ اس نے حکم دیاکہ طلاق دینے والے خاوند اپنی مطلقہ بیویوں سے بھلائی اور احسان کا رویہ اپنائیں۔ اگر انھیں کوئی تحفہ دیا تھا تو وہ واپس نہ لیں، (البقرہ 229:2) ان سے رجوع کرنا ہو تو نیک نیتی سے کریں اور عزت و اکرام سے اپنے پاس رکھیں، تکلیف دینے اور زیادتی کرنے کے لیے رجوع نہ کریں۔ اگر چھوڑنا ہو تو بھلے طریقے سے چھوڑ دیں، (البقرہ 231:2) مطلقہ عورتیں حاملہ ہوں تو بچے پیدا ہونے تک اور شیر خوار بچوں کی مائیں ہوں ،تو دودھ پلانے کے زمانے تک کا ان کا خرچ اٹھائیں اور حیثیت کے مطابق اپنی رہایش ایسی رہایش فراہم کریں۔ (الطلاق 6:65)

طلاق اور اس کا اسلامی طریقہ: ایک رحمت 

طلاق اور اس کا اسلامی طریقہ بنی نوع انسان بالخصوص خواتین کے لیے ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ اللہ کے اس انعام کا صحیح اندازہ اس وقت ہوتا ہے، جب آدمی دیگر مذاہب اور معاشروں کے نظام ہائے نکاح و طلاق سے اس کا تقابل کر کے دیکھے۔ دیگر مذاہب اورمعاشروں میں اس حوالے سے سخت افراط و تفریط ہے۔ کہیں نکاح کا بندھن ایک کھلونا بن کر رہ گیا ہے ،اور بات بات پر طلاق ہو جاتی ہے، اور کہیں میاں بیوی کا انتہائی مجبوری و ناگواری کے عالم میں بھی ایک دوسرے سے جدا ہونا محال ہے، یہاں تک کہ بعض جگہ خاوندکے مر جانے پر بھی عورت اس کی قید سے نہیں چھوٹتی ،یا اس کے ساتھ ہی مرنے پر مجبور ہوتی ہے، اور کہیں عورت کو بار بارطلاق دینے اور بار بار واپس لے لینے کا رواج نظر آتاہے۔ نیز مطلقہ عورتوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ جب کہ اسلام کا طریقِ طلاق نہایت احسن اور رحمت و رافت کے نوع بنوع پہلوؤں سے مملو ہے، نہ طلاق ایک مشغلہ ہے نہ غیر ممکن، نہ عورت کو خاوند کے ساتھ مرنا ہے نہ بے بسی سے اس کے ظلم سہنا۔ خاوند کو اسے رکھنا ہے تو عزت سے، چھوڑنا ہے تو وقار کے ساتھ۔

ایک مجلس کی  تین طلاقوں پر سزا اور اسلامی نظریاتی کونسل کا حالیہ فیصلہ

 گذشتہ رمضان المبارک میں معروف صحافی اور اینکر جناب سبوخ سید کی میزبانی میں ایک ٹی وی پروگرام میں مسئلہ طلاق ِ ثلاثہ زیربحث آیا۔ جانبین نے اپنا اپنا موقف بیان کیا۔ ایک طرف تین طلاقوں کو ایک قرار دینے کا موقف اور دوسری طرف جامعہ اشرفیہ کے ایک مفتی صاحب اس پر مصر کی فقہا بیک وقت تین طلاقوں کے انعقاد کے قائل ہیں، لہذا نھیں تین شمار نہ کرنے کی رائے سے ہر گز اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔  مجھ سےرائے لی گئی تو میں نے عرض کیا:

“ائمۂ فقہ جو بیک وقت تین طلاقوں کے انعقاد کے قائل ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں۔بالفاظ دیگر فقہا تین طلاقیں ہونے کے قائل ہیں، دینے کے قائل نہیں۔ ایسی   طلاق کو طلاقِ بدعت قرار دینا فقہا کی اس پر ناپسندیدگی کا اظہار ہی تو ہے۔ لہذا طلاقِ بدعت کی حوصلہ شکنی کرنا فقہا کے موقف کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے!جانبین اپنی اپنی پوزیشن پر قائم رہتےہوئے ،ایسی طلاق کی حوصلہ شکنی کی تائید کر سکتے ہیں۔ سو اگر بیک وقت تین طلاقوں کے خلاف قانون سازی کی جائے تو فریقین کو قابل قبول ہوگی۔ اس رائے کو جانبین کے نمائندوں نے نہ صرف پسند کیا، بلکہ راقم کی  اس  رائے پر اتفاق ہوا کہ اسلامی نظریاتی کونسل اگر اس سلسلے میں رول ادا کرے تو بہت مفید اقدام ہو گا۔”

اس سے چند دن قبل یہ خبر سنی اور27ستمبر 2018ءکے جنگ اخبار میں پڑھی کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے اکٹھی تین طلاقوں پر سزا کے معاملے کی تایید کی گئ ہے ،تو بہت مسرت ہوئی۔ واقعہ یہ ہے کہ یہی موقف ہے، جو فریقین کو قابلِ قبول بھی ہے اور سوسائٹی کے بہت سے موجودہ خاندانی مسائل کے  حل  کےلئے اکسیر بھی۔ ہم اس فیصلے پر چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل محترم ڈاکٹر قبلہ ایاز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

بات کو ذرا کھولیں تو حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ  فقہا تین طلاقیں ہو جانے پر کہتے ہیں طلاق ہو جائے گی، یہ نہیں کہتے کہ طلاق یوں دینی چاہیے، یا یہ کوئی پسندیدہ طریقۂ طلاق ہے۔ بلکہ ان کے نزدیک بھی طلاق کا درست طریقہ یہی ہے کہ الگ الگ طلاق دی جائے اور سب سے اچھا طریقہ، جسے طلاقِ احسن سے تعبیر کیا جا تا ہے، یہ ہے  کہ ایک ہی طلاق دی جائےاور عدت گزرنے دی جائے۔اکٹھی تین طلاقیں ان کے نزدیک واقع ہو جاتی ہیں، لیکن یہ برا طریقۂ طلاق ہے، جس کو وہ طلاقِ بدعت سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ  فقہا کی طرف سے کسی امر کے جواز کا یہی مطلب نہیں ہوتا کہ ایسا کرنا مطلوب ہے،بلکہ اس کا مطلب ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا،  بہت دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا امر واقع ہوجائے تو قانوناً موثر ہے، نہ کہ وہ ایسا کرنے کی تایید کر رہے ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر کسی فقیہ کا فتوی ٰ ہو کہ جانور کی بیٹ لگی ہو تو نماز ہو جائے گی ،اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بیٹ لگا کر نماز پڑھیں ۔بات فقط اتنی ہے کہ اگر مجبوری میں کہیں ایسا کرنا پڑ جائے، تو نماز ٹھیک ہو جائے گی ، لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔اب ذرا زیرِ بحث مسئلے کو دیکھیے۔ فقہا کا یہ کہنا کہ تین طلاقین بیک وقت دینے سے طلاق واقع ہو جائے گی ، اس کے علاوہ کیا معنی رکھتا ہے کہ طلاق منعقد ہو جائے گی! نہ یہ کہ وہ ایسے جذباتی اور احمقانہ فعل کی تایید کر رہے ہیں۔بلکہ  یہاں تو وہ خود اس کی مخالفت کر رہے، اور اسے طلاقِ بدعت قرار دے رہے ہیں۔اگر کہیں ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ لوگ نماز کے بارے میں اتنے بےپرواہ ہو جائیں کہ نماز ایسی عبادت سے متعلق طہارت و نفاست کو ملحوظ رکھنے  کی بجائے، بیٹوں وغیرہ ایسی چھوٹی نجاستوں کے ساتھ نماز پڑھنے لگیں، اور بعد کا کوئی فقیہ یا فقہی ادارہ ، بیٹ کے ساتھ نماز نہ ہونے کا فتویٰ دے یا کم ازکم ایسی نماز کو لوٹانے کا حکم دے ،تو یہ ان فقیہ کے موقف کی مخالفت کیسے ہو سکتی ہے! اس لیے کہ لوگ جو کرنے لگے ہیں یہ فقیہ کا مطلب ہی نہیں تھا۔ اسی طرح تین طلاقوں کے انعقاد کے فتوے سے ان کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ جاہل اور جذباتی  لوگ   اکٹھی تین تین طلاقین دیتے جائیں اور  چند منٹوں کے بعد حلالے کی شرم ناک صورتوں کی طرف لپک کر انسانیت کی تذلیل کا راستہ اختیار کریں۔ ایسا تو خال ہی ہوتا ہے کہ مطلقہ کہیں اور نکاح کر ے اوروہ دوسرا شخص  اتفاق سے کبھی اس کو طلاق دے دے اور وہ پہلے خاوند سے نکاح کر لے۔ جو ہو رہا ہے وہ یہی تماشا ہے ، جس میں مرد دیوسیت کی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی  بیوی کو ایک رات کے لیے دوسرے کے حوالے کر دیتا ہے، اور پھر اپنے نکاح میں لے آتا ہے۔(ازراہ تفنن کہے گئے اس جملے میں کیا تفقہ  ہے کہ حلالہ تو اس بے غیرت کا ہونا چاہیے ، جس کو نہ اپنے جذبات اور شخصیت پر کچھ کنٹرول حاصل ہے اور نہ  یہ پتہ  ہے کہ شریعت طلاق کے بارے میں فی الواقع کیا چاہتی ہے!) حوّا کی بیٹی کی اس سے بڑی تذلیل کیا ہو گی  کہ ایک احمق مرد کے احمقانہ فعل پر اس کی عزت نیلام ہو۔

بعض لوگ کہتے ہیں  کہ  فقہا یا علما اس نوع کے حلالے کی کب اجازت دیتے ہیں ! یہ حرام کاری تو لوگ خود کرتے ہیں! سوال یہ ہے کہ اس کا راستہ کیسے کھلتا ہے؟ اسی سبب سے نا کہ تین طلاقوں پر کوئی روک نہیں۔ لوگ یہ بیوقوفی کرتے ہیں اور کچھ نیم ملا  انھیں اس نوع  کے حلالے سے گزارنے کا نہ صرف  فتوی دیتے ہیں، بلکہ باقاعدہ(لاجسٹک)سپورٹ  فراہم کرتے ہیں۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طلاقِ ثلاثہ پر سزا کی بجائے انھیں قانوناً غیر موثر قرار دینا چاہیے۔ ہم سرِ دست اس  بات کے درست یا نادرست ہونے کی بحث میں نہیں  پڑنا چاہتے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ فقہا کی اکثریت اور ہمارے علما کی بھی  اکثریت تین طلاقوں کو غیر موثر ماننے کی شدید مخالفت کرے گی اور عملاً کچھ بھی حاصل نہ ہو سکے گا۔ زیرِ بحث رائے سے  اس اکثریت  کی اکثریت متفق ہو سکتی ہے۔ اسے تحفظات اسی پر ہیں کہ تین طلاقیں ہو جائیں، تو چونکہ فقہی اعتبار سے موثر ہوتی ہیں ، لہذا ان کو غیر موثر نہیں مانا جا سکتا، لیکن اگر تین واقع ہی نہ ہونے دی جائیں ، اوراس پر کوئی قانونی روک لگا دی جائے ،تو ان کے بعض لوگوں کو اگر کوئی اعتراض ہو گا تو فقط یہی کہ فقہ میں  اس پر پابندی کی روایت نہیں رہی، لیکن عموماً اور اصولاً وہ اس  پر اس لحاظ سے اتفاق کریں گے کہ طلاقِ بدعت کو وہ بھی پسند نہیں کرتے، اور اس کے سبب سوسائٹی بہت سی  نفسیاتی اور معاشرتی الجھنوں کا شکار ہوتی ہے۔

رہا یہ سوال کہ اس پر سزا کیوں رکھی جائے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ غلط کام ، جو سب کے نزدیک غلط ہے،اس سے روکنے  کا  طریقہ سزا ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سزا  بہت سخت سزا نہیں ہوگی ، لیکن  اس سے سوسائٹی  میں عام ہو ئے ہوئے طلاقِ ثلاثہ کے  فقہی ، قانونی، اخلاقی  ہر اعتبار سے  مکروہ اور اس کے نتیجے میں بروئے کار آنے والے حلالہ ایسے دیوثانہ  فعل کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

فقہ / اصول فقہ

(نومبر ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter