دینی مدارس کا نظام: بنیادی مخمصہ

محمد عمار خان ناصر

تحریک انصاف کی حکومت نے بعض دوسرے اہم قومی ایشوز  کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کے حوالے سے یکساں نصاب تعلیم  کی ترویج  کا  سوال بھی اٹھایا ہے۔  مدارس کے نظام کی بہتری اور اصلاح کا مسئلہ ہماری سیاسی حکومتوں کے ہاں یہ بنیادی طور دو حوالوں سے زیر غور آتا ہے: ایک، مذہبی فرقہ واریت، شدت پسندانہ رجحانات اور  امن وامان کے  تعلق سے ،اور پچھلی دو تین دہائیوں سے ریاستی زاویہ نظر پر اس رجحان کا غلبہ بتدریج بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس کے ساتھ مکالمہ یا پالیسی سازی کا مرکز وزارت تعلیم کے بجائے عموما وزارت خارجہ ہوتی ہے، حالانکہ بنیادی طور پر مدارس، دینی تعلیم کے ادارے ہیں۔مدارس کے نظام کے حوالے سے ریاست کے سامنے دوسرا بڑا سوال دینی اسناد کی  سرکاری سطح پر قبولیت کا ہے، اور مدارس کے نصاب میں عصری مضامین کی شمولیت اور بعض دیگر   تعلیمی معیارات کے ساتھ ہم آہنگی کا سوال  اسی حوالے سے اٹھایا جاتا ہے۔ 

ان دونوں حوالوں سے  مختلف حکومتوں کی حکمت عملی اب تک بنیادی طور پر ایک ہی رہی ہے، اور وہ یہ کہ مختلف مذہبی مکاتب فکر  کے ساتھ وابستہ مدارس کے جو امتحانی بورڈ  بنے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ گفت وشنید کر کے  کارپردازان کو اس پر آمادہ کیا جائے کہ وہ مطلوبہ اصلاحات کو اپنے نظام کا حصہ بنائیں۔ جہاں تک مطلوبہ تبدیلی کے لیے مکالمہ، گفت وشنید اور مدارس کی قیادت کو اعتماد میں لینے کا تعلق ہے تو اس کی اہمیت ناقابل انکار ہے ، تاہم ایسی کوششوں کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کے پاس اپنا ایک واضح  vision اور اس کے حق میں  مضبوط استدلال ہو  اور قوت استدلال کی بنیاد پر مکالمہ کے ذریعے سے  ارباب مدارس کو مطلوبہ اصلاحات  قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ چونکہ ایسا کوئی  vision حکومتوں کے پاس نہیں ہے، اور  بڑی حد تک سادہ فکری کے ساتھ  اس عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے، اس لیے   کم وبیش تین  دہائیوں سے  جاری اس سلسلہ جنبانی کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ رہے۔

ہمارے نزدیک اس پوری بحث میں بعض بہت بنیادی ابہامات پائے جاتے ہیں جن کے حوالے سے  فکری وضوح پیدا ہوئے بغیر کوئی بامعنی عملی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔  ان سطور میں ہم مسئلے کے بعض  اہم پہلووں کے حوالے سے اپنے غور وفکر کے نتائج  مختصرا پیش کریں گے۔

مدارس کے موجودہ  نظام کی بنیادی الجھن کو سمجھنے کے لیے  یہ حقیقت پیش نظر  رہنی چاہیے کہ یہ نظام اپنی بنیادی نوعیت کے لحاظ سے ۱۸۵۷ء سے پہلے کے تعلیمی سیٹ اپ کا تسلسل نہیں، بلکہ برطانوی حکومت کے جاری کردہ پبلک ایجوکیشن سسٹم کے خطوط پر استوار کیا گیا نظام ہے۔ اس سے پہلے عام دینی تعلیم کی ضروریات گھروں میں یا محلے کے مکتبوں میں پوری کی جاتی تھیں، جبکہ فرنگی محل، خیرآباد، جون پور اور دہلی وغیرہ کے علمی مراکز صرف اعلی سطحی علوم کی تدریس کے لیے خاص تھے۔ ابتداءا دار العلوم دیوبند کا آغاز بھی اسی مقصد کے لیے ہوا تھا، لیکن بہت جلد اس میں عوامی دینی تعلیم کی ترجیحات شامل ہوتی گئیں جس پر مولانا نانوتوی وغیرہ کے تحفظات بھی منقول ہیں جو صرف چند منتخب اور ذی استعداد طلبہ کو محنت اور توجہ کا مرکز بنانے کے حق میں تھے۔

مدارس کی اس پالیسی میں بلاشبہ حالات کے جبر کا گہرا دخل تھا۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے کی طرح اب اختصاصی علوم سکھانے والے علمی مراکز کو نہ تو ریاست کی سرپرستی میسر تھی اور نہ ارباب ثروت کی۔ چنانچہ عوامی چندے پر انحصار کرنے والے کسی بھی نظام کے لیے عوامی perceptions، مزاج اور توقعات کی رعایت کرنا بلکہ انھیں بنیادی ترجیح دینا، ایک عملی مجبوری کا درجہ رکھتا تھا۔ تاہم یہ مجبوری کثیر الاولاد مجبوری ثابت ہوئی اور اس کے بطن سے کئی دوسری مجبوریاں جنم لیتی گئیں۔  ان میں سب سے اہم مجبوری یہ تھی کہ مرور زمانہ کے ساتھ اس نظام تعلیم کو broad-based  بنانے اور عوام کے ایک بڑے حصے کو اس سے متعلق کرنے کی کوشش میں اس نظام کی نوعیت بتدریج “آدھے تیتر اور آدھے بٹیر” کی بلکہ سے بھی زیادہ پیچیدہ ہوتی چلی گئی اور اب یہ نظام تضادات کے ایک مجموعے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسے بظاہر عنوان تو دینی علوم کی تدریس کا دیا جاتا ہے اور مقصد مذہبی علماء ومتخصصین پیدا کرنا بتایا جاتا ہے، لیکن زیادہ سے زیادہ تعداد کو دینی ماحول سے وابستگی فراہم کرنے کے لیے علمی استعداد اور تدریسی مواد پر مسلسل کمپرومائز نے نصاب کو تسہیل، ترمیم اور تطہیر کے عمل سے گزار کر اس کی شکل وصورت بالکل بدل دی ہے۔ جو چند افراد اب بھی اس نظام سے پیدا ہو رہے ہیں، اس میں نظام کا کوئی کمال نہیں۔ وہ ان افراد کی اپنی ذاتی استعداد اور بعض اساتذہ کا فیض ہے اور کسی تردد کے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ ایسے افراد اس نظام سے وابستہ نہ ہوتے تو بھی انھیں کسی علمی محرومی کا شکار نہ ہونا پڑتا۔

چونکہ اس نظام کے دینی تشخص کو محفوظ اورنمایاں رکھنا  اس کے بقا کی بنیادی شرط تھا، اس لیے  دوسری مجبوری یہ پیدا ہوئی کہ  عصری تعلیم کے ساتھ ایک فاصلہ قائم رکھا جائے اور مدارس کے تعلیمی مقاصد  کو خالص دینی  مضامین تک محدود  رکھا جائے۔  اس اصرار کا نتیجہ بہت بڑی تعداد میں فضلاء کی پیداوار کی صورت میں نکلا جن کی مجبوری یہ تھی کہ ان کے پاس دینی تعلیم کے شعبے کے علاوہ کسی دوسرے شعبے میں کام کرنے کی کوئی مہارت نہیں، چنانچہ ان کے لیے واحد میدان عمل یہی بچا کہ وہ مدارس کی تعداد میں اضافہ کرتے چلے جائیں۔ اسی نوعیت کی ایک مجبوری یہ بھی پیدا ہوئی کہ دینی تعلیم کے مختلف پراڈکٹس بنا کر ان کی مارکیٹنگ کی جائے اور اپنی بقا اور تسلسل کے مختلف راستے نکالے جائیں۔ اس کا ایک مظہر ہمارے ہاں پچھلی نصف صدی میں قرآن مجید کو حفظ کروانے کی روایت کو عوامی سطح پر حاصل ہونے والا وہ شیوع ہے کہ اس پر بعض دفعہ الامان والحفیظ کہنا پڑتا ہے۔

اس صورت حال میں المیہ یہ ہے کہ مدارس کے نظام کی اس بنیادی الجھن اور اس سے پیدا ہونے والے تضادات کا کوئی شعور اور ادراک ارباب مدارس کے ہاں نہیں پایا جاتا۔  چنانچہ ان حضرات سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ دینی علوم میں تخصص پیدا کرنے کے علاوہ عمومی تعلیم کے بعض دائروں کو بھی اپنے نظام کا حصہ بنائیں تو ان کا عمومی رد عمل یہ ہوتا ہے کہ جب انجینئرنگ اور قانون کی تعلیم کے اداروں سے علماء پیدا کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا تو مدارس سے ایسا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے۔ تاہم معمولی غور سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ایک منطقی مغالطہ ہے۔ اگر تو صورت حال یہ ہو کہ مدارس کا نظام معاشرے کی ضروریات کے مطابق معیار اور تعداد کے اعتبار سے صرف دین کے ماہر علماء پیدا کر رہا ہو تو یقیناً‌ اس نظام سے اس سے ہٹ کر کوئی دوسرا مطالبہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ صورت حال یہ نہیں ہے اور مدارس اپنی ترجیحات کے لحاظ سے سرے سے “دینی علماء” کے معیار اور تعداد کے سوال پر کوئی توجہ ہی نہیں دے رہے۔ انھوں نے معاشرے کے مالی وسائل کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اصل توجہ زیادہ سے زیادہ تعداد جمع کرنے پر مرکوز کر رکھی ہے اور اتنی بڑی تعداد کو کسی بھی اعتبار سے معاشرتی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی سرے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کر رکھی۔ مدارس سے رجوع کرنے والے طلبہ کی اکثریت صلاحیت اور استعداد کے لحاظ سے ’’عالم دین’’ بننے کی اہلیت نہیں رکھتی، جبکہ اس کے علاوہ کوئی دوسری مہارت ان میں پیدا کرنے کا مدارس کے نظام میں کوئی اہتمام نہیں جو کل کو معاشرے کے لیے کارآمد ہو سکے۔ اس طرح یہ نظام ایک طرف معاشرے کے وسائل اور دوسری طرف اپنے فارغ التحصیل طبقے، دونوں کے ساتھ صریح اور سنگین زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے۔

اس ذہنی رویے کو نرم سے نرم لفظوں میں بھی  شتر مرغ جیسا رویہ کہا جا سکتا ہے۔ تقاضا کیا جائے کہ اتنی مقدار میں وسائل کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں فضلاء (جن میں سے بہت کم متخصص علماء بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کی تعلیم وتربیت ایسے خطوط پر کی جائے جس سے وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی کارآمد ہو سکیں تو ہمارا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم تو متخصصین پیدا کر رہے ہیں، ہم سے دوسرے شعبوں کی ضروریات پوری کرنے کا مطالبہ کیوں؟ لیکن داخلی طور پر تعلیمی معیار اور علمی سطح کا سوال اٹھایا جائے تو ہمیں زمینی حقائق یاد آ جاتے ہیں کہ اب طلبہ کا ذوق وشوق اور علمی استعداد وہ نہیں رہی، ہمتیں قاصر ہو گئی ہیں، ماحول کے بڑے منفی اثرات ہیں، وغیرہ وغیرہ۔  گویا ہم نہ تو اس نظام کو تخصص کی سطح تک محدود کرنے اور اس کے علمی وتعلیمی تقاضے پورے کرنے کے لیے آمادہ ہیں (اس نظام کے ساتھ وابستہ ہو جانے والی معاشی حرکیات نے اس امکان کو کم وبیش ختم کر دیا ہے) اور نہ یہ ذمہ داری لینا چاہتے ہیں کہ اگر عوام ہم پر اعتماد کر کے وسائل کا ایک معتد بہ حصہ ہمارے سپرد کر رہے ہیں تو ہم اس کا بدلہ معاشرے کو، عام تعلیم کی بعض ضروریات پورا کرنے کی صورت میں دے دیں جو اپنی جگہ دین ہی کی خدمت کا ایک کام ہوگا۔

ہمارے نزدیک اس بنیادی مخمصے سے پوری فکری اور اخلاقی جرات کے ساتھ نبرد آزما ہوئے بغیر  مدارس کے موجودہ نظام  میں بہتری اور اصلاح کی کوئی تجویز کارگر نہیں ہو سکتی۔  مدارس کو اخلاقی اور شرعی طور پر دو میں سے ایک کام کرنا لازم ہے۔ یا تو اپنے دائرے کو اتنا محدود کریں اور اسی کے لحاظ سے معاشرے سے وسائل بھی لیں جو واقعتاً‌ “دین کے جید علماء” تیار کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اور اگر وسائل میں سے حصہ کم کرنا نہیں چاہتے تو پھر معاشرے کی عمومی تعلیمی ضروریات میں سے بھی کچھ کو اپنے نظام کا حصہ بنائیں تاکہ ان وسائل کے استعمال کا جواز پیدا ہو اور بدلے میں معاشرے کو ایسے افراد مل سکیں جو دینی علوم کے ماہر نہ بھی ہوں، لیکن کچھ دوسری ایسی مہارتیں رکھتے ہوں جن کی معاشرے کو ضرورت ہے۔

اگر درکار فکری اوراخلاقی جرات بہم پہنچانے کا اہتمام کر لیا جائے تو  اصلاح احوال کی عملی شکل زیادہ مشکل یا پیچیدہ نہیں ہے۔  اس حوالے سے سب سے بنیادی اور دوٹوک قدم یہ اٹھانے کی ضرورت ہے کہ مدرسے میں آنے والے ہر طالب علم کو، اس کی دلچسپی، صلاحیت اور رجحان طبع کا لحاظ کیے بغیر، آٹھ یا چھ سال کی دلدل میں پھینک دینے کا رجحان کلیتاً‌ ترک کر دیا جائے۔ اس رجحان کے تحت اس وقت مدارس سے فراغت حاصل کرنے والے طلبہ کی اکثریت کے صرف کردہ آٹھ سال دینی تعلیم، مدارس کے نظام اور معاشرہ، کسی کے لیے بھی کوئی افادیت نہیں رکھتے اور اس کا تسلسل محض حصول ثواب، تبرک اور بزرگوں کی نسبت سے روا رکھا جا رہا ہے۔ 

دینی تعلیم میں مہارت اور اختصاص کے لیے صلاحیت اور استعداد نیز رجحان طبع کا ایک معیار مقرر کیا جائے اور انھی طلبہ کو اس میں آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے جو ایک “عالم دین” کے طور پر معاشرے میں کردار ادا کر سکیں۔ ان کے علاوہ مدارس سے رجوع کرنے والے عام طلبہ کے لیے مختلف سطحوں پر ان کی ضرورت اور صلاحیت کے لحاظ سے مختلف دورانیے کے متبادل نصابات تشکیل دیے جائیں جنھیں مکمل کرنے کے بعد دو سال، تین سال یا چار سال میں وہ سسٹم سے باہر جا سکیں۔ ایسے حضرات کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے ہنر لازماً‌ سکھائے جائیں جو کل کو روزگار کے سلسلے میں ان کی مدد کریں، مثلاً‌ انگریزی زبان، ریاضی، کمپیوٹر آپریٹنگ، اداراتی انتظام وغیرہ۔ پنجاب حکومت کا ادارہ TEVTA اس حوالے سے یہ سہولت دے رہا ہے کہ مختلف تکنیکی ہنر سکھانے کے لیے دینی اداروں کے اندر سرکاری اخراجات سے سیٹ اپ قائم کیے جا سکتے ہیں اور مختلف اداروں میں یہ تجربہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ اگر مدارس سے رجوع کرنے والے تمام طلبہ کو “علماء” بنا کر فارغ التحصیل کرنے کے ہدف میں ترمیم کر لی جائے اور عام طلبہ کے لیے بھی اپنے سسٹم میں گنجائش پیدا کر لی جائے تو طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے ایک سال، دو سال یا تین سال کے دورانیے پر مبنی دینی تعلیم کے نصاب کے ساتھ مختلف تکنیکی ہنر شامل کر کے وسیع معاشرتی افادیت رکھنے والا ایک تعلیمی نظام آسانی سے قائم کیا جا سکتا ہے۔

یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ داعی کا معاشرے کی نظر میں محترم اور باوقار ہونا دعوت دین کے موثر ہونے کے لیے بہت اہم ہے اور ذریعہ معاش کا سوال اس مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جس معاشرے میں دین کو فکری غلبہ اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہو، وہاں معاشرہ اہل دین کی ضروریات کے بندوبست کو اپنا فریضہ اور ذریعہ سعادت تصور کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں حکمران اور ارباب ثروت ہمیشہ دراہم ودنانیر نیاز مندانہ اہل علم کی خدمت میں پیش کرتے رہے ہیں۔ تاہم جدید معاشرے میں دین اور اہل دین کی یہ حیثیت برقرار نہیں رہی اور لازم ہے کہ معاشرتی وقار کی بحالی کے لیے حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لائی جائے۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ وقت کے مروجہ معیارات کے مطابق ایسی صلاحیتیں اور اہلیتیں پیدا اور ایسے ہنر حاصل کیے جائیں جو باوقار روزگار کا ذریعہ تصور کیے جاتے ہوں۔ اہل دین معاشرے کو دینے والے ہوں اور جو کچھ وہ دیں، اس میں دوسری خدمات کے ساتھ ساتھ دعوت دین کی خدمت بھی شامل ہو۔

دینی تعلیم کا مروجہ نظام ایسی مہارتیں سکھاتا ہے جن کی، عموماً‌، معاشرے کی نگاہ میں کوئی خاص قدر نہیں۔ معاشرہ حصول ثواب کی غرض سے یا مذہب کے ساتھ ایک روایتی وابستگی کے زیر اثر اس کام کے لیے صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات وغیرہ تو دے دیتا ہے، لیکن اس عمومی تاثر اور احساس کے ساتھ کہ مذہبی طبقہ لوگوں کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے۔ کسی عالم کو قوت لا یموت سے زیادہ کچھ مل جائے تو معاشرے کو ہضم نہیں ہوتا، کیونکہ اس طبقے کا درجہ معاشرے نے یہی متعین کیا ہے۔ اس رویے پر معاشرے کو قصور وار ٹھہرانے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ جواز۔ یہ فطری انسانی رویہ ہے۔ اہل دین اگر بحیثیت طبقہ اپنے لیے وقار اور احترام چاہتے ہیں، جو دعوت دین کے لیے بے حد ضروری ہے، تو انھیں خود اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لانا ہوگی۔

دینی مدارس میں عقلی علوم کی تعلیم

برصغیر میں اکبری عہد میں ملا فتح اللہ شیرازی کے زیراثر معقولات کی تعلیم کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس نے مقامی تعلیمی روایت پر گہرا اثر ڈالا، چنانچہ اس کے قریبی زمانے میں ملا قطب الدین اور ملا نظام الدین نے “درس نظامی” مرتب کیا تو اس میں یونانی فلسفہ، یونانی منطق اور علم الکلام کے علاوہ ریاضی اور ہیئت کے مضامین بطور خاص نصاب کا حصہ بنائے گئے۔ پورے نصاب پر معقولی رنگ بے حد غالب تھا اور معقولات کے عنوان سے کم وبیش ہر شعبہ علم میں ایسی اعلیٰ سطحی کتابیں شامل کی گئیں جن پر یونانی منطق کی اصطلاحات میں مباحث کی تنقیح کا رنگ کا غالب تھا۔ اس رجحان کے خلاف، شاہ ولی اللہ کی فکری مساعی کے زیر اثر، اصلاح نصاب کی ایک عمومی لہر پیدا ہوئی جس میں منطق وفلسفہ کے مضامین کی فی نفسہ اہمیت نیز ان کی تدریس کے لیے دقیق اور غامض متون کی افادیت پر سوالات اٹھائے گئے اور نتیجتاً نقلی علوم، بالخصوص ترجمہ وتفسیر، حدیث اور زبان وادب سے متعلق تدریسی مواد کا تناسب بڑھتا چلا گیا۔ نصاب میں مختلف مراحل پر ہونے والی تدریجی اصلاحات کے نتیجے میں موجودہ نصاب تعلیم میں معقولی علوم کا تناسب بہت کم ہو چکا ہے اور منطق، فلسفہ اور کلام کے مضامین سے متعلق نصاب سکڑتا ہوا چند مختصر کتابوں تک محدود ہو گیا ہے۔

اصلاح نصاب کی یہ تحریک اس زاویے سے یقینا مفید اور ضروری تھی کہ تشحیذ اذہان کے لیے دقیق اور غامض متون کے حل کی لفظی مشقیں دراصل نفس مضمون اور اس کے مباحث کی تفہیم کی قیمت پر ہوتی ہیں اور عبارتوں کو حل کر لینا ہی ساری تدریسی ریاضت کا منتہائے مقصود بن جاتا ہے۔ مزید یہ کہ کلی طور پر متن پر مبنی طریقہ تدریس میں پڑھنے والوں کا جو ذہنی سانچہ اور اس ذہنی سانچے میں کسی علم کا جو مجموعی تصور بنتا ہے، وہ بڑی حد تک جامد اور بے لچک ہو جاتا ہے جس میں فکری جدلیات اور کسی بھی علم کے دائرے میں فکر انسانی کے ارتقاءاور تغیرات کو سمجھنے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ تاہم ان خامیوں کے تناظر میں اصلاح نصاب کا جو رجحان پیدا ہوا، اس کا نتیجہ سرے سے عقلی علوم اور عقلی مباحث ہی کو نظر انداز کر دینے کی صورت میں نکلا، حالانکہ اصل ضرورت اس چیز کی تھی کہ طریقہ تدریس کو متوازن بنایا جائے اور دور قدیم کے عقلی مباحث کی جگہ ان علوم ومباحث کو شامل نصاب کیا جائے جو آج کی فکری دنیا میں زیر بحث ہیں اور فکر وذہن کے سانچے بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

اسی طرح کسی خاص علم کے زیر عنوان چند مخصو ص متون یا نظریات پڑھا دینے کے بجائے یہ ضروری ہے کہ اس علم کے مجموعی ارتقائی سفر اور اس دائرے کے مختلف فکری رجحانات سے طلبہ کو روشناس کرایا جائے۔ مثال کے طور پر درس نظامی میں فلسفہ کے مباحث کی تعلیم وسیع تر تناظر میں دیے جانے کے بجائے ان چند مخصوص کتابوں مثلاً ہدایة الحکمة، میبذی، الشمس البازغہ اور ملا صدرا وغیرہ کا انتخاب کیا گیا جو اس دور میں مختلف وجوہ سے ایرانی درس گاہوں میں زیادہ مقبول تھیں۔ ان کتابوں کے مضامین یونانی فلسفے کے ان مباحث کے گرد گھومتے ہیں جن سے عباسی دور میں یونانی علوم کے عربی زبان میں ترجمہ کی وساطت سے مسلمان واقف ہوئے۔ ان چند مخصوص کتابوں پر انحصار اور فلسفے کی بنیادی ماہیت اور اس کی عمومی تاریخ سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے ذہنوں میں عموماً فلسفہ کا جو تصور پایا جاتا ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ فلاسفہ یا حکماءنام کی کوئی ایک جماعت ہے جس کے کچھ مخصوص ومتعین نظریات ہیں جو ان کے ہاں عقائد کا درجہ رکھتے ہیں اور ان نظریات کو “فلسفہ” کہا جاتا ہے۔

فلسفہ کا یہ تصور، ظاہر ہے کہ بے حد ناقص ہے، کیونکہ فلسفہ چند متعین اور طے شدہ نظریات کا نہیں، بلکہ عقلی بنیادوں پر غور وفکر کی ایک مسلسل روایت کا نام ہے جس میں بے شمار مختلف ومتنوع بلکہ متضاد رجحانات ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ خود مسلمانوں کی فکری روایت اس تنوع اور تغیر وارتقا کی ایک رنگا رنگ داستان ہے۔ عرب ابتداءًا یقینا اس طرح کی عقلی بحثوں سے یونانی علوم کے ترجمہ کی وساطت سے واقف ہوئے تھے، لیکن اس کے بعد ان تصورات ونظریات کی تنقیح، تشریح وتوضیح اور تردید واثبات کی ایک مستقل علمی روایت قائم ہو گئی جس میں اگر ایک طرف یونانی فلسفے کے ان تصورات کو اسلامی عقائد کے مطابق ڈھالنے اور انھیں اسلامی عقائد کی عقلی تفہیم کے لیے استعمال کرنے کا رجحان سامنے آیا تو دوسری طرف اس کے برعکس فلسفہ یونان کے اساسی تصورات پر نقد ومحاکمہ کا فکری رجحان بھی پیدا ہوا، چنانچہ دور متوسط میں غزالی اور بعد ازاں ابن تیمیہ وغیرہ نے یونانی منطق وفلسفہ پر جان دار تنقیدیں کیں اور ان عقلی معیارات کو چیلنج کیا جن کی بنیاد پر فلاسفہ کے خلافِ اسلام نظریات کی تائید کی کوشش کی جا رہی تھی۔

یونانیوں سے ورثے میں ملنے والے تصورات ومباحث کے علاوہ مسلمانوں میں ایسے جلیل القدر اہل فکر بھی پیدا ہوئے جنھوں نے نئے اور طبع زاد مباحث پر داد فکر دی اور مابعد الطبیعیات کے علاوہ انسانی نفسیات، علم اخلاق، عمرانیات، سیاسیات اور فلسفہ تاریخ جیسے موضوعات پر اپنے نتائج فکر پیش کیے۔ ان میں الکندی، الفارابی، ابن سینا، ابن باجہ، ابن طفیل، ابن رشد، ابن خلدون اور نصیر الدین طوسی وغیرہ کے نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ عقل اور شریعت کے باہمی تعلق جیسے دقیق سوالات پر علم کلام اور اصول فقہ میں معرکہ آرا بحثیں اٹھائی گئیں اور اس حوالے سے مختلف فکری رجحانات معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ وغیرہ مکاتب فکر کی صورت میں مجسم ہو کر سامنے آئے۔ مسلم صوفیہ نے اہم ترین فلسفیانہ مباحث کے حوالے سے ایک مستقل روایت کی بنیاد ڈالی جس کا بنیادی ماخذ کشف وعرفان اور روحانی سیر ومشاہدہ تھے۔

ان معروضات کا حاصل یہ ہے کہ دینی علوم کے نصاب میں عقلیات کو دوبارہ مناسب اہمیت دینے اور منتہی طلبہ کو کلاسیکی عقلی روایت کے ساتھ ساتھ معاصر فکری وفلسفیانہ بحثوں سے متعارف کروانے کی طرف سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

علوم دینیہ میں تخصص اور دور جدید کے عقلی مباحث

علوم دینیہ میں تخصص کی سطح پر جن عقلی مباحث کو بطور خاص جزو نصاب بنانے اور اعلیٰ اذہان کو ان مباحث کی تنقیح میں مشغول کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے خیال میں وہ حسب ذیل ہیں:

۱۔ فلسفہ علم (Epistemology) ، جس کے بنیادی سوالات اور مشکلات سے، اور ان کے حوالے سے مذہبی فکر کی ممکنہ پوزیشنز سے واقف ہونا ایک متخصص عالم دین کے لیے ناگزیر ہے۔ علم منطق کو اس کے ایک جزو کے طور پر پڑھانا چاہیے، کیونکہ یہ علم دراصل عقل انسانی ہی کے انداز کار  کو مختلف تصورات اور اصولوں کی صورت میں منظم انداز میں بیان کرتا ہے۔ علمیات کے بنیادی تصورات سے طلبہ کو شناسا کیے بغیر موجودہ صورت میں علم منطق کی تدریس بالکل بے فائدہ لفظی مشق کا درجہ رکھتی ہے۔

۲۔ فلسفہ مذہب (Philosophy of Religion) ، یعنی مذہب کے بنیادی تصورات اور ان پر پیدا ہونے والے سوالات کی عقلی تفہیم۔ بنیادی طور پر یہ علم الکلام کا حصہ ہے جسے ابن خلدون نے متاخرین کے علم کلام کا عنوان دیا ہے۔ متقدمین کا علم الکلام اصلاً‌ مسلمان فرقوں کے باہمی اختلافات سے بحث کرتا تھا۔ غزالی نے اس کا دائرہ وسیع کیا اور فلسفے کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات کو بھی کلام کا حصہ بنا دیا۔ فلسفہ مذہب اگرچہ بظاہر جدید علوم میں ایک نیا ڈسپلن ہے، لیکن اس کے دائرے میں آنے والے مباحث نئے نہیں ہیں۔ مختلف جگہوں پر بکھرے ہوئے ان مباحث کو یکجا کر کے “فلسفہ مذہب” کو ایک مستقل شعبہ علم کی حیثیت دے دی گئی ہے۔

۳۔ اصول تفسیر (Hermeneutics) ، یعنی مذہبی متون کی تعبیر وتشریح کے اصول وضوابط۔ یہ بھی بنیادی طور پر نیا علم نہیں ہے۔ اسلامی روایت میں اس کے مختلف مباحث اصول تفسیر، اصول الفقہ، علم البلاغۃ اور علم الکلام میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ تعبیر متن سے متعلق جملہ سوالات کے تناظر میں ان سب مباحث کو یکجا کر کے ایک مربوط ومنتظم علم کی صورت دے دی جائے اور جدید لسانی تصورات نے متن کی تعبیر کے حوالے سے جو نئے سوالات کھڑے کیے ہیں، ان کا بھی بغور جائزہ لیا جائے۔

۴۔ فلسفہ تاریخ (Philosophy of History) ، مغربی روایت میں اس شعبہ علم میں جن سوالات پر غور کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ تاریخ کے مذہبی تصور سے پیدا ہونے والے مباحث کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ کا کام اہم ہے، لیکن بہت سے دوسرے مصادر سے بھی استفادہ  کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید براں اسلامی فکری روایت کے ارتقا اور تغیرات کی تفہیم کا فریم ورک مہیا کرنا بھی اسی شعبہ علم کا وظیفہ بنتا ہے جس پر کافی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

۵۔ فلسفہ سائنس (Philosophy of Science) ،  سائنس کے دائرے میں نظریات وتصورات کیسے وضع کیے جاتے ہیں اور  ان میں تبدیلی وتغیر کی اساسات کیا ہوتی ہیں، اس کو علمی سطح پر سمجھنا بھی دینی علوم کے ایک متخصص کے لیے بہت اہم ہے۔ خاص طور پر یہ کہ سائنس ہمیں عالم طبیعی کے بارے میں جو عمومی تصور دیتی ہے، اس کا  ہمارے مذہبی تصورات سے کیا تعلق بنتا ہے اور سائنسی تصورات میں تبدیلی کے مذہبی عقائد وتصورات پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

دینی علوم کےنصاب میں ان مباحث کی شمولیت اس مفروضے پر نہیں ہونی چاہیے کہ  ان میں ہمارے کلاسیکی علم کلام کی طرح پوزیشنز طے اور سوالات کے جوابات متعین ہو چکے ہیں جن سے طلبہ کو بس واقف ہونا چاہیے۔  علم کی دنیا میں سردست صورت حال یہ نہیں ہے۔ ان مباحث کی شمولیت دراصل اس مرحلے کی طرف بڑھنے کے لیے  اور مذہبی فکر کو اس discourse کا حصہ بنانے کی اسپرٹ  سے ہونی چاہیےجس کے نتیجے میں  علم جدید کے سوالات کے تناظر میں بھی اسی طرح ایک گہری علمی وعقلی روایت جڑ پکڑ سکے جیسی دور قدیم میں یونانی فلسفے کے سوالات ومباحث کے حوالے سے ہمارے متکلمین نے قائم کی تھی۔ ان مباحث سے اعتنا اور ایک اعلیٰ علمی وعقلی ڈسکورس کو وجود میں لانا  دینی لحاظ سے ایک فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔    اس عمل میں یقیناً‌ کئی طرح کے عقلی رجحانات سامنے آئیں گے اور کم وبیش اسی طرح کی ایک کلامی تقسیم پیدا ہوگی جیسی ہماری روایت میں  معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ اور سلفیہ کی صورت میں پیدا ہوئی۔ یہ تقسیم انسانی فکر کے رجحانات ومیلانات کے لحاظ سےآفاقی ہے اور ہر کلامی روایت میں ان کا ظہور ناگزیر ہے۔ ان میں سے ہر رجحان روایت کی مجموعی تشکیل میں ایک منفرد کردار ادا کرتا ہے،اس لیے ہر رجحان اپنی جگہ اہم اور ناگزیر ہے۔علم جدید کے چیلنج کا سامنا پوری فکری جرات کے ساتھ اس پر خطر راستے کا انتخاب کیے بغیر ممکن نہیں۔


تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(نومبر ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter