قربانی سے پہلے بال اور ناخن نہ کاٹنا ۔ جناب جاوید احمد غامدی کے موقف پر بعض اشکالات کا جائزہ

محمد حسن الیاس

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے مروی ایک روایت میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا ارادہ رکھنے والے غیر حاجیوں کو ذی الحجہ کی ابتدا سے بال اور ناخن نہ کاٹنے کی تلقین فرمائی ہے ۔روایت کے الفاظ ہیں :

اِذَا رَایتُم ہِلالَ ذِی الحِجَّةِ وَاَرَادَ اَحَدُکُم اَن یُضَحِّیَ فَلیُمسِک عَن شَعرِہِ وَاَظفَارِہِ (مسلم ،رقم ۱۹۷۷) 

“جب تم لوگ ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتاہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے۔”

استاذ مکرم جناب جاوید احمد غامدی نے اِس روایت کو اپنی کتاب “میزان” میں قبول کیا ہے اور قربانی کا قانون بیان کرنے کے بعد لکھا ہے:

“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے البتہ، اِس کے بارے میں چند باتوں کی وضاحت فرمائی ہے: 

اول یہ کہ قربانی کے مہینے میں قربانی کرنے والے نذر کی قدیم روایت کے مطابق قربانی سے پہلے نہ اپنے ناخن کاٹیں گے اور نہ بال کتروائیں گے۔” (ص ۴٠۸)

صاحب “میزان” کے اِس موقف پر اُنھی کے اصولوں کی روشنی میں بعض اصحاب علم نے درج ذیل سوالات اٹھائے ہیں:

اول، کسی ایسی خبر واحد کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے جو دین میں ایک نیااور مستقل حکم بیان کر رہی ہو؟

دوم،بال اور ناخن نہ کاٹنے کی پابندی حالت احرام میں مشروع ہے ،یہ روایت احرام کی بعض پابندیوں کو غیرحاجیوں تک کیوں پھیلا رہی ہے؟

سوم،روایت کے الفاظ اِس ہدایت کے وجوب کا تقاضا کر رہے ہیں ،پھرصاحب “میزان” نے اِسے لازمی ہدایت کے طور پر قبول کیوں نہیں کیا ؟

چہارم،صاحب “میزان” نے نذر کی جس قدیم روایت کا حوالہ دیا ہے ،اُس قدیم روایت میں ناخن تراشنے کا ذکرکیوں موجود نہیں ہے؟

پنجم،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تلقین صحابہ کے دورمیں شائع وذائع کیوں نظر نہیں آتی اور ایسے نادر عمل کو عبادات کے باب میں کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟

ششم، سیدنا عائشہ سے مروی ایک دوسری روایت میں یہ صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدی کے جانور حرم میں بھجوانے کے باوجود احرام کی کوئی پابندی اختیار نہیں کرتے تھے، جب کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت اِس کے برخلاف بعض پابندیاں عائد کر رہی ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جو “میزان” میں اِس روایت کو قبول کرنے پر اٹھائے جاتے ہیں۔اِس آرٹیکل میں ہم کوشش کریں گے کہ ان سوالات کا استاذ مکرم جاوید احمدغامدی صاحب کے فہم دین کے اصولوں کی روشنی میں جائزہ لیں،اور “میزان” میں اِسے قبول کرنے کی وجوہات کو سمجھیں۔اِس لیے اِن سوالا ت پر غور و فکر سے پہلے ضروری ہے کہ اسلام میں عبادات سے متعلق صاحب “میزان” کے چند تصورات کو پیش نظر رکھا جائے۔

پہلا،یہ کہ ہر عبادت چند اعمال پر مشتمل ہوتی ہے۔ مثلاً نماز قیام ،رکوع اور سجدے سمیت کئی اعمال کا مجموعہ ہے۔یہ اعمال اپنی ذات یا واقعیت میں محض حرکات ہیں،یعنی ،قیام صرف کھڑا ہوجانا ہے۔انسان کھڑے ہونے کا یہ عمل زندگی میں کئی مواقع پر کرتا ہے،لیکن نماز میں قیام محض کھڑے ہوجانے کا نام نہیں، بلکہ یہ خدا کے سامنے فریادکناں بن کر حاضر ہونے کی علامت ہے۔یہ علامت اپنی حقیقت سے متعلق ہو کر ایک مقصد متعین کرتی ہے ۔نماز کے یہ سب اعمال انسان کے عملی وجود کی رعایت سے پرستش اوراطاعت کی علامات ہیں۔اِن علامات کووضع کرنے کا مقصد خدا کی یاددہانی اوراُس سے تعلق کے احساس کو زندہ رکھنا ہے۔ قرآن مجیدمیں نمازکے ا ِسی مقصد کو بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:

“ سو میری ہی بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھو۔” (طٰہٰ ۲٠: ۱۴)

یہی معاملہ دیگر مراسم عبودیت کاہے۔وہ اپنے اجزا میں اگرچہ متعین حرکات ہیں، لیکن یہ اعمال کسی مقصد کی علامت کے طور پر وضع کیے گئے ہیں۔ 

دوسرا پہلو اِن عبادات کو ادا کرنے کی نوعیت کا ہے۔اسلام میں عبادات کی دو ہی نوعیتیں ہیں: پہلی، یہ کہ وہ اپنے حدود و شرائط کے ساتھ لازم کر دی گئی ہیں۔اوردوسری، یہ کہ اُن کی ادائیگی ہماری صواب دید پرہے۔ قرآن مجید نے اِس بات کی تصریح کردی ہے کہ تمام عبادات اپنے حدود وشرائط کی رعایت سے تطوعاً بھی ادا کی جا سکتی ہیں، یعنی نماز اگرچہ پانچ اوقات میں لازم ہے ،لیکن ہم اِن اوقات کے علاوہ اپنی خواہش سے کسی بھی وقت نفل نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ارشادفرمایاہے:

“ اور جس نے اپنے شوق سے نیکی کا کوئی کام کیا، اللہ اُسے قبول کرنے والا ہے ، اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔”  (البقرہ۲: ۱۵۸) 

عبادات، خواہ لازم ہوں یا نفل،اُنھیں تطوعا ًادا کرتے ہوئے اُن کے حدود و شرائط کا اہتمام ضروری ہے۔ مثلاً لازمی نمازوں میں جس طرح وضو کی پابندی ہے ،نفل نماز ادا کرتے وقت بھی یہ پابندی برقرار رہے گی۔اِسی طرح بعض عبادات جو مخصوص مقام اور اوقات میں مشروع ہیں،جیسے حج ،اُسے تطوعاً بھی صرف اُنھی اوقات اور مقامات پر ادا کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذ ا عبادات کے حوالے سے جودوسرا پہلو ذہن نشین رہنا چاہیے ،وہ یہ کہ تمام عبادات اپنے حدود و شرائط کی رعایت سے تطوعاً بھی ادا کی جا سکتی ہیں۔

عبادات کے حوالے سے جو تیسرا پہلو سامنے رہنا چاہیے ،وہ یہ ہے کہ تمام مراسم عبودیت جس طرح اعمال کے مجموعوں اور متعین ترتیب کے ساتھ دین میں جاری کیے گئے ہیں، اُسی طرح یہ اعمال اپنے اجزااور انفرادی حیثیت میں بھی عبادت ہی کے مشروع اعمال ہیں۔ مثلاً قیام، جس طرح رکوع اور سجدے کے ساتھ مل کر نماز میں عبادت کا عمل بنتا ہے، اُسی طرح وقوف عرفہ کے موقع پریہی قیام اپنی انفرادی حیثیت میں بھی پوری عبادت سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے نماز کے دوسرے اجزا کو انفرادی طور پر ادا کرنے پر فرمایا ہے:

“اُن کو جب خداے رحمن کی آیتیں سنائی جاتی تھیں تو سجدے میں گر پڑتے اور روتے جاتے تھے۔” (مریم ۱۹: ۵۸)  

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ نماز میںقیام اور رکوع کے بعد سجدے کیے، بلکہ قرآن مجید کی تلاوت کے دوران بھی آپ سجدے کیا کرتے تھے۔اِسی طرح حج بہت سے اعمال کو ایک ترتیب سے ادا کرنے کی عبادت ہے۔طواف اِنھی اعمال میں سے ایک عمل ہے، لیکن جس طرح طواف، مناسک حج کا حصہ بن کر ایک عبادت ہے، اُسی طرح اپنی انفرادی حیثیت میں بھی عبادت کا مکمل عمل ہے۔ لہٰذا عبادات کے اعمال کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ جس طرح اِنھیں دوسرے اعمال کے مجموعے میں ایک خاص ترتیب سے ادا کیا جاتا ہے، اُسی طرح یہ انفرادی حیثیت میں بھی عبادت ہی کے مشروع اعمال ہیں۔

عبادات کے اِ ن تینوں پہلوو ں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب ہم اصل سوالات پر غور کرتے ہیں۔پہلا سوال یہ تھا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ روایت دین میں ایک مستقل عمل اور نیا حکم بیان کر رہی ہے۔ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا ارادہ رکھنے والے لوگوں کو جس عمل کی تلقین فرمائی ہے ، عبادت کا وہ عمل اپنی ذات میں پہلے سے مشروع ہے۔ یہ مشروع عمل نہ صرف یہ کہ حج میں جاری ہے ،بلکہ حج میں بھی اصلاً نذر کی جس قدیم روایت سے اخذکیا گیا ہے، اُس کے شواہد بھی الہامی صحائف میں بکثرت موجود ہیں ۔اِن شواہدکے مطابق نذر کے اِن اعمال کا مقصد خود کو خدا کی رضا کے لیے اُس کے سپرد کردینا ہے۔قدیم الہامی تہذیب میں اِس مقصد کی علامت کے طور پر تین عبادات جاری تھیں: نذر کی پہلی عبادت ،خدا کے نا م پر جانور کو ذبح کرنا تھا۔ دوسری، اِس ذبیحے کو لے کر قربان گاہ کے پھیرے لگانااور تیسری، اپنا سر منڈوانا اور ناخن تراشنا تھا ۔عبادت کے یہ تینوں اعمال جس طرح ایک مجموعے کی صورت میں متعین ترتیب سے ادا کیے جاتے تھے، اُسی طرح اپنی انفرادی حیثیت میں بھی مشروع تھے۔ چنانچہ الہامی صحائف میں جہاں اِنھیں ایک ترتیب سے ادا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے،وہیں نذر کے یہ اجزا انفرادی طور پر ادا کرنے کی روایت کے طور پر بھی جاری تھے۔بائیبل میں نذر کے اِن منفرد اعمال کوایک مجموعے کی صورت میں ادا کرنے کی ہدایات اِس طرح نقل ہوئی ہیں:

“اور اس کی نذرات کی منت کے دنوں میں اس کے سر پر استرا نہ پھیرا جائے جب تک وہ مدت جس کے لیے وہ خداوند کا نذیر بنا ہے پوری نہ ہو تب تک وہ مقدس رہے اور اپنے سر کے بالوں کو بڑھنے دے۔”

“وہ اپنی نذرات کی مدت تک خداوند کے لیے مقدس ہے۔”

“اور اگر کوئی آدمی ناگہان اس کے پاس ہی مر جائے اور اس کی نذرات کے سر کوناپاک کردے تو وہ اپنے پاک ہونے کے د ن اپنا سر منڈوائے، یعنی ساتویں دن سرمنڈوائے۔”

“اور آٹھویں روز دو قمریا ں یا کبوتر کے دو بچے خیمہ اجتماع کے دروازہ پر کاہن کے پاس لائے۔”

“اور جب نذیر اپنی نذرات کے بال منڈوا چکے تو کاہن اس کے مینڈھے کا ابالا ہوا شانہ اور ایک بے خمیری روٹی میں سے اور ایک بے خمیری کلچہ لے کر اس نذیرکے ہاتھوں پر ان کو دھرے۔”

“اور کاہن ایک خطا کی قربانی کے لیے اور دوسرے کو سوختنی قربانی کے لیے گذرانے اور اس کے لیے کفارہ دے، کیونکہ وہ مردہ کے سبب سے گنہگار ٹھہرا ہے اور اس کے سر کو اسی دن مقدس کرے۔”

“پھر وہ نذیر خیمہ اجتماع کے دروازہ پر اپنی نذرات کے بال منڈوائے اور نذرات کے بالوں کواس آگ میں ڈال دے جو سلامتی کی قربانی کے نیچے ہو۔”

“پھر خداوند ان کو ہلانے کی قربانی کے طور پر خداوند کے حضور ہلائے۔ ہلانے کی قربانی کے سینہ اور اٹھانے کی قربانی کے شانہ کے ساتھ یہ بھی کاہن کے لیے مقدس ہیں اس کے بعد نذیر مے پی سکے گا۔” (گنتی۶)

گنتی کے چھٹے باب میں جس طرح نذر کی قدیم روایت کے تمام اجزا کو ایک مجموعے میں خاص ترتیب سے ادا کرنے کی ہدایات دی گئیں، اُسی طرح بائیبل کے دوسرے مقامات پر نذر کے ان اجزا پر انفرادی طور پر عمل کی روایت بھی نقل ہوئی ہے۔چنانچہ جانور کی قربانی کی صورت میں نذر کی صرف ایک عبادت ادا کرنے کے حوالے سے بائیبل میں ہے:

“اور ساتویں سبت کے دوسرے دن تک پچاس دن لینا۔تب تم خداوند کے لیے نذرکی نئی قربانی گرداننا۔” (احبار۲۳)

“اور اگر وہ منت کسی ایسے جانور کی ہے جس کی قربانی لوگ خداوند کے حضور چڑھایا کرتے ہیں تو جو جانور کوئی خداوند کی نذر کرے وہ پاک ٹھہرے گا۔” (احبار ۲۷)

“اور فرماں روا سوختنی قربانیاں اور نذر کی قربانیاں اور تپان عےدوں اور نئے چاند کے وقتو ں اور سبتو ں اور بنی اسرائیل کی تمام مقررہ عےدوں میں دے گا ۔اور خطا کی قربانی اور نذر کی قر بانی اور سوختنی قربانی اور سلامتی کی قربانیاں بنی اسرائیل کے کفارے کے لیے تیار کرے گا۔” (حزقی ایل ۴۵)

“تو اِن چیزوں کی نذر کی قربانی کاچڑھاوا خدا وند کے پاس لانا،وہ کاہن کو دیا جائے گا ،وہ اُسے مذبح کے پاس لائے۔” (احبار۲)

جانور کی قربانی کی طرح سر منڈوانا اور ناخن تراشنا بھی اپنی انفرادی حیثیت میں نذر کی عبادت کے طور پر مشروع عمل تھا۔ اِسے بائیبل میں بدن کی قربانی قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ مختلف کتابوں میں ہے:

“پَس اَے بھائِیو۔ مَیں خُدا کی رحمتیں یاد دِلا کر تُم سے اِلتماس کرتا ہُوں کہ اپنے بَدَن اَیسی قُربانی ہونے کے لِیے نذر کرو جو زِندہ اور پاک اور خُدا کو پسندِیدہ ہو۔ یہی تُمہاری معقُول عِبادت ہے۔” (رومیوں۱۲)

“اور اس وقت خداوند رب الافواج نے رونے اور ماتم کرنے اور سر منڈوانے اور ٹاٹ سے کمر باندھنے کا حکم دیا تھا۔” (یسعیاہ ۲۲)

“وہ تیری سبب سے سر منڈائیں گے اور ٹاٹ اوڑھیں گے۔وہ تیرے لیے دل شکستہ ہو کر روئیں گے اور جاں گداز نوحہ کریں گے۔”(واعظ ۲۷)

بائیبل کی درج بالا تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ قدیم الہامی روایت میں نذرکی یہ تینوں عبادات جس طرح ایک مجموعے کی صورت میں مخصوص ترتیب سے ادا کی جاتی تھیں، اُسی طرح اِنھیں انفرادی طور پر ادا کرنے کی روایت بھی جاری تھی۔ اِن تصریحات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر جانور کو ذبح کرنے کے ساتھ ، سر منڈوانے اور ناخن تراشنے کی دوسری عبادت پر ایک ساتھ عمل پیش نظر ہو تواِس صورت میں جانور کی قربانی تک سر کے بال اور ناخن بڑھنے دیے جائیں گے اور جانورکی قربانی کے بعد ہی نذر کی اِس دوسری روایت پر عمل کیا جائے گا اور سر منڈوایا اور ناخن تراشے جائیں گے۔

دین ابراہیمی کی روایت میں حج کے موقع پر نذر کی اِنھی تینوں عبادات کو جمع کردیا گیا ہے ۔چنانچہ مناسک حج میں جہاں جانور کی قربانی اور اُسے معبد کے پھیرے لگوانے کی علامت کے طور پر طواف اور سعی جاری ہے، وہیں قربانی سے پہلے بال اور ناخن نہ تراشنے اور جانور ذبح کرنے کے بعد ہی سر منڈوانے کی روایت بھی موجود ہے۔اِس عمل کی حقیقت اور فلسفہ کیا ہے؟ صاحب ”میزان“ نذر کے اِن اعمال کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“قربانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ ہم اپنی جان کا نذرانہ قربانی کے جانوروں کو اُس کی علامت بنا کر بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے ہیں تو گویا اسلام و اخبات کی اُس ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس کا اظہار سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے فرزند کی قربانی سے کیا تھا۔” (میزان ۴٠۶)

“اِس لحاظ سے دیکھیے تو قربانی پرستش کا منتہاے کمال ہے۔ اپنا اور اپنے جانور کامنہ قبلہ کی طرف کر کے ’بِسمِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ اَکبَرُ‘  کہہ کر ، ہم اپنے جانوروں کو قیام یا سجدے کی حالت میں اِس احساس کے ساتھ اپنے پروردگار کی نذر کر دیتے ہیں کہ یہ درحقیقت ہم اپنے آپ کو اُس کی نذر کر رہے ہیں۔” (میزان ۴۰۴)

“یہی نذر اسلام کی حقیقت ہے، اِس لیے کہ اسلام کے معنی ہی یہ ہیں کہ سر اطاعت جھکا دیا جائے اور آدمی اپنی عزیز سے عزیز متاع، حتیٰ کہ اپنی جان بھی اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے۔ قربانی، اگر غور کیجیے تو اِسی حقیقت کی تصویر ہے۔” (میزان ۴۰۴)

“قربانی جان کا فدیہ ہے اور سر کے بال مونڈنا اِس بات کی علامت ہے کہ نذرپیش کردی گئی ہے اور اب بندہ اپنے خداوند کی اطاعت اور دائمی غلامی کی اِس علامت کے ساتھ اپنے گھر لوٹ سکتا ہے۔ یہ دین ابراہیمی کی ایک قدیم روایت ہے۔” (میزان ۳۷۶)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کی اِس قدیم روایت کے تمام اجزا کو جس طرح حج میں جاری کیا، اُسی طرح اِس عبادت کے ایک جز، یعنی جانور کی قربانی کو عید الاضحی میں جاری فرمایا ہے۔عید الاضحی میں جانور کی قربانی کی یہ سنت اجماع اور تواتر عملی سے منتقل ہوئی ہے اور پوری امت میں جاری ہے ۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حج میں جس طرح نذر کی تینوں روایات پر عمل کیا جاتا ہے،کیا عید الاضحی میں جانور کی قربانی کی عبادت اداکرتے ہوئے،نذرکی کوئی دوسری عبادت کی جاسکتی ہے؟ قرآن مجید نے اِس حوالے سے تمام عبادات کے بارے میں یہ بات تصریح کردی ہے کہ وہ اپنے حدود و شرائط کی رعایت سے تطوعاً بھی ادا کی جاسکتی ہیں۔ ہمارے نزدیک ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی اِس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی اِسی اجازت کے تحت حج میں جاری نذر کی اِس قدیم عبادت کو اپنے حدود و شرائط کے ساتھ تطوعاً ادا کرنے کی ترغیب دے ر ہے ہیں اورروایت میں قربانی تک بال اور ناخن نہ تراشنے کی تلقین، دونوں عبادات پر ایک ساتھ عمل کرنے کے آداب کا بیان ہے ۔حج میں چونکہ اِ ن آداب کا التزام احرام باندھنے کے بعد ہی شروع ہوجاتا ہے، جب کہ غیر حاجی کے لیے دین میں اِس کے لیے کوئی مخصوص دن مقرر نہیں کیا گیا،اِسی اجازت کو پیش نظر رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسند کیا ہے کہ قربانی کے مہینے کی ابتدا ہی سے اِس پر عمل کیا جائے۔ذی الحجہ کی ابتدا سے یوم النحر تک عبادات کے اِن اوقات کی حکمت پراگر غور کیا جائے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تلقین حج میں شرکت سے محروم رہ جانے والے ایک بندہ مومن میں یہ نفسیاتی احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ حج میں موجود اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اِس عبادت کو ادا کرنے میں گویا شریک ہو گیا ہے۔

اِسی ضمن میں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر نذر کی روایت کے تحت قربانی کی سنت پر عمل ممکن نہ ہو تو کیا اِس صورت میں بھی نذر کی کوئی دوسری عبادت ادا کی جاسکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک دوسری روایت اِسے واضح کرتی ہے۔چنانچہ ایک موقع پر جب آپ سے کسی نے پوچھا کہ میرے پاس قربانی کے لیے جانور نہیں ہے،تو آپ نے فرمایا: جاو اپنے ناخن تراشو اور بال کتروا ،یہی مکمل قربانی سمجھی جائے گی۔ روایت کے الفاظ ہیں:

عن عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لرجل: ”امرت بیوم الاضحٰی عیدًا جعلہ اللّٰہ عز وجل لہذہ الامة“، فقال الرجل: ارایت ن لم اجد لا منیحة انثی افاضح بہا؟ قال: ”لا ولکن تاخذ من شعرک وتقلم اظفارک وتقص شاربک وتحلق عانتک فذلک تمام اضحیتک عند اللّٰہ عز وجل“(نسائی، رقم ۴۳۶۵)

“ عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی آدمی سے کہا: مجھے اضحی کے دن کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ اِسے بطور عید مناو¶ں، جسے اللہ عزوجل نے اِس امت کے لیے خاص کیا ہے۔ ایک آدمی نے پوچھا: میرے پاس تودودھ دینے والی ایک بکری ہے جو عاریتاً لی ہوئی ہے،کیا اُسی کی قربانی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ،بلکہ اپنے بال کاٹ لو، ناخن اور مونچھیں تراش لو اور زیرناف کی صفائی کر لو۔ اﷲکے ہاں تمھاری یہی کامل قربانی شمار ہوگی۔”

اِس روایت سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ نذر کی قدیم روایت کے تمام اجزا اپنی ذات میں ایک مکمل عبادت ہیں۔اِن کی ادائیگی ایک دوسرے کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ حج میں جانور کی قربانی نفل اور اختیاری عبادت ہے ،جو ایک حاجی ترک بھی کر سکتا ہے،اِس کے باوجود سر کے بال منڈوانے کی اِس لازمی عبادت پر عمل کرتا ہے۔ لہٰذا جس طرح عید الاضحی میں جانور کی قربانی اپنے آپ کو خدا کی نذر کرنے کی ایک علامت ہے،اُسی طرح خدا کی غلامی قبول کرنے کی علامت کے طور پر سر منڈوا دینا قربانی کی دوسری عبادت ہے۔اگر غور کیا جائے تو قربانی کی یہی علامات ہیں جو انسان کو اطاعت اور سرافگند گی کی منتہا تک پہنچا دیتی ہیں ۔ قربانی کی اِس حقیقت کو قرآن مجید نے تقابل کے اسلوب میں نہایت بلیغ انداز میں بیان کیا ہے۔ارشاد ہوا ہے:

“کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب اللہ پروردگارعالم کے لیے ہے۔” (الانعام ۶: ۱۶۲)

صاحب “البیان” اِس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

“یہ نہایت خوب صورت تقابل ہے۔ بندہ مومن جیتا ہے تو روزوشب کی ہر کروٹ پر نماز میں ہوتا ہے اور مرتا ہے تو اِسی آرزو میں کہ جان و مال کی جس قربانی کے لیے وہ ہمیشہ تیار رہا، اُس کا پروردگار اُسے قبول کرلے۔ چنانچہ نماز کے مقابل میں زندگی اور قربانی کے مقابل میں موت ہے۔” (البیان ۲/ ۱۲۵)

یہی وجہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنے کی اِن عبادات کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے مناسک حج کا حصہ بنا دیا ہے۔اِن تمام پہلووں پر غور کرنے سے درج ذیل حقائق واضح ہوتے ہیں :

۱۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ روایت دین میں کوئی مستقل عمل نہیں بیان کر رہی، بلکہ نذر اور قربانی کی اُسی قدیم روایت کی ایک عبادت پر تطوعاً عمل کا بیان ہے جس عبادت کے تما م اجزا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج میں اور ایک جز کو عید الاضحی میں بطور سنت جاری فرما چکے ہیں۔

۲۔ جانور کی قربانی کی سنت اجماع اور تواترعملی سے منتقل ہوئی ہے۔قربانی سے پہلے بال اور ناخن نہ کاٹنے کی تلقین،نذر کی دونوں عبادتوں پرایک ساتھ عمل کے آداب کا بیان ہے جو حج اور قدیم الہامی روایت میں پہلے سے جاری تھے۔ 

۳۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ روایت نذر کی عبادات ادا کرنے کی تلقین اوراُن کے آداب کی یاددہانی پر مشتمل ہے ،کوئی نیا حکم ہر گز بیان نہیں کر رہی۔

“میزان” میں اِس روایت کو قبول کرنے پردوسرا سوال یہ اٹھایا گیا تھا کہ بال اور ناخن نہ کاٹنے کی پابندی حالت احرام میں مشروع ہے ،یہ روایت احرام کی بعض پابندیوں کو غیر حاجیوں تک کیوں پھیلا رہی ہے؟

اِس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اِس بات کا جائزہ لیں کہ حالت احرام میں موجود پابندیوں کی اصل حقیقت کیا ہے اور جن پابندیوں کی توسیع کی گئی ہے، اُن کی حکمت کیاہے؟

حالت احرام کی پابندیاں یہ ہیں:

۱۔ شکار کی ممانعت ۔

۲۔ زیب و زینت سے پرہیز۔

۳۔ زن و شو کے تعلقات سے اجتناب۔

۴۔ بال اور ناخن نہ کاٹنے کا التزام۔

اِن میں سے پہلی پابندی، یعنی شکار نہ کرنے کو قرآن مجید نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:

“ایمان والو، احرام کی حالت میں شکار نہ مارو۔ (یہ ممنوع ہے)، اور (یاد رکھو کہ)تم میں سے جس نے جانتے بوجھتے اُسے مارا، اُس کا بدلہ تمھارے مواشی میں سے اُسی کے ہم پلہ کوئی جانور ہے، جیسا اُس نے مارا ہے، جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے۔ یہ نیاز کی حیثیت سے کعبہ پہنچایا جائے گا، یا نہیں تو اِس گناہ کے کفارے میں مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا یا اِسی کے برابر روزے رکھنا ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کی سزا چکھے۔ اِس سے پہلے جو کچھ ہو چکا، اُسے اللہ نے معاف کر دیا ہے، لیکن اب اگر کسی نے اُسے دہرایا تو اللہ اُس سے بدلہ لے گا۔ اللہ زبردست ہے، وہ بدلہ لینے والا ہے۔” (المائدہ ۵: ۹۵)

صاحب “البیان”  اِس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

“یہ تنبیہ نہایت سخت ہے۔ ابتلا کے احکام چونکہ بندوں کی وفاداری کا امتحان ہوتے ہیں، اِس لیے اُن کی خلاف ورزی یا اُن سے بے پروائی کی سزا بھی نہایت سخت ہوتی ہے۔ خدا کے ماننے والوں کو اِس پر ہمیشہ متنبہ رہنا چاہیے۔” (البیان ۱/ ۶۷۹) 

اِس آیت سے صاف واضح ہے کہ شکار کی اِس پابندی کا تعلق اصلاً حالت احرام سے ہے ،اور اِس پابندی سے مقصود امتحان کا محل بھی حرم ہی کی سرزمین ہے۔

دوسری پابندی زیب و زینت سے پرہیز کی ہے ۔اِس کا تعلق بھی اصلاً احرام کی پابندیوں سے ہے۔ حالت احرام میں ایک انسان کا اپنا لباس ترک کر کے دو چادریں اوڑھ لینا اِسی زیب و زینت سے لاتعلقی کا اظہار ہے۔ قرآن مجید نے مناسک حج کو شعائر، یعنی علامت قرار دےا ہے ، ہم جانتے ہیں کہ ہر علامت اصلاً کسی حقیقت کا شعور قائم رکھنے کے لیے مقرر کی جاتی ہے۔ صاحب “میزان” کے نزدیک اِن علامات ِحج میں درحقیقت مومنین کی ابلیس کے خلاف ازل سے جاری جنگ کو ممثل کر دیا گیا ہے، اور احرام باندھنا بھی اِسی مشق کا حصہ ہے۔ وہ حج کے مناسک کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

“(حج میں) اللہ کے بندے اپنے پروردگار کی ندا پر دنیا کے مال ومتاع اوراُس کی لذتوں اورمصروفیتوں سے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ 

پھر ’لبیک لبیک‘ کہتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچتے اوربالکل مجاہدین کے طریقے پر ایک وادی میں ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔

اگلے دن ایک کھلے میدان میں پہنچ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے،اِس جنگ میں کامیابی کے لیے دعا و مناجات کرتے اور اپنے امام کا خطبہ سنتے ہیں۔

تمثیل کے تقاضے سے نمازیں قصر اورجمع کرکے پڑھتے اور راستے میں مختصر پڑا¶و کرتے ہوئے دوبارہ اپنے ڈیروں پرپہنچ جاتے ہیں۔

پھر شیطان پرسنگ باری کرتے، اپنے جانوروں کی قربانی پیش کرکے اپنے آپ کو خداوند کی نذر کرتے، سرمنڈاتے اور نذر کے پھیروں کے لیے اصل معبد اورقربان گاہ میں حاضر ہوجاتے ہیں۔” (میزان ۳۷۴)

اِس کے بعد احرام کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“اِس لحاظ سے دیکھیے تو حج وعمرہ میں احرام اِس بات کی علامت ہے کہ بندہ مومن نے دنیا کی لذتوں، مصروفیتوں اور مرغوبات سے ہاتھ اٹھالیا ہے اور دو اَن سلی چادروں سے اپنا بدن ڈھانپ کر وہ برہنہ سر اور کسی حد تک برہنہ پا بالکل راہبوں کی صورت بنائے ہوئے اپنے پروردگار کے حضور میں پہنچنے کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوا ہے۔” (میزان ۳۷۴)

اِس سے واضح ہوتا ہے کہ حج کے دوران زیب و زینت سے پرہیز جس طرح احرام کو لازم کرتا ہے،اُسی طرح حالت احرام میں خوشبو لگانایا کسی دوسری زینت سے بچنے کی پابندی بھی اِسی کا ناگزیر تقاضا ہے۔

تیسری پابندی زن و شو کے تعلقات سے اجتناب کی ہے، ہمارے نزدیک اِس پابندی کا تعلق حالت احرام میں اُس مقام مقدس پر حج ادا کرنے سے ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : 

“حج کے متعین مہینے ہیں ۔ سو اِن میں جو شخص بھی (احرام باندھ کر) حج کا ارادہ کر لے ، اُسے پھر حج کے اِس زمانے میں نہ کوئی شہوت کی بات کرنی ہے ، نہ خدا کی نافرمانی کی اور نہ لڑائی جھگڑے کی کوئی بات اُس سے سرزد ہونی چاہیے۔” (البقرہ ۲: ۱۹۷)

 گویا یہ پابندی اصلاً حج میں شرکت اوراِن مخصوص ایام میں اِس مقام مقدس میں مناسک حج ادا کرنے سے متعلق ہے۔یہی وجہ ہے کہ ۱٠ ذوالحجہ کو قربانی کے بعد سر منڈوا کر احرام کھول دیا جاتا ہے اور احرام کی سب پابندیاں اٹھ جاتی ہیں،لیکن اِس کے باجودزن و شو کے تعلقات اُس وقت قائم نہیں کیے جا سکتے، جب تک طواف افاضہ نہ ادا کر دیا جائے۔اِس پابندی کا تعلق محض حالت احرام سے ہوتا تو احرام اتارتے ہی اِس کی اجازت ہونی چاہیے تھی ،لیکن ہم جانتے ہیں کہ حج کی شریعت میں اِس کی اجازت نہیں ہے۔

چوتھی پابندی بال اور ناخن کاٹنے سے اجتناب کی ہے،ہمارے نزدیک اِس کا تعلق بھی محض احرام سے نہیں، بلکہ حالت احرام میں انجام دینے والی قربانی یا نذر کی اُس قدیم روایت سے ہے جسے مناسک حج کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ جس طرح حج میں طواف اور سعی نذر کی قدیم روایت کے تحت جانور کومعبد کے پھیرے لگوانے کی علامت ہیں،اِسی طرح حج میں قربانی کے بعدسر منڈوانا بھی بالکل اِسی روایت کے تحت ہے۔اِس پابندی کی ابتدا یقینا احرام باندھنے کے بعد ہوتی ہے ،لیکن اصلاً یہ نذر کی قدیم روایت کی علامات ہیں،جنھیں احرام میں اپنا لیا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حج میں قربانی کے بعد ہی سر منڈوایا جاتا ہے۔

حالت احرام کی پابندیوں کی حقیقت جان لینے کے بعد اب اِس سوال پر غور کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی پابندیوںمیں سے صرف بال اور ناخن نہ کاٹنے کی تلقین کی ہے ،باقی پابندیاں کیوں نہیں بیان کیں؟ تواِس سوال کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کے موقع پر جانور کی قربانی کی صورت میں نذر کی ایک عبادت جاری کی ہے،بال اور ناخن نہ تراشنے کا تعلق محض احرام کی پابندیوں سے نہیں، بلکہ نذر کی قدیم عبادت سے ہے،اِسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کی قربانی کا ارادہ رکھنے والے شخص کو نذر کی ایک دوسری عبادت کے اہتمام کی تلقین کی ہے۔یہاں یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسک حج میں سے صرف نذر کی عبادات پرہی عمل کی تلقین کیوںکی؟ تواِس سوال پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور کی قربانی ،سر منڈوانے اور ناخن تراشنے اور تکبیرات تشریق کے علاوہ حج میں ادا کیے جانے والے تمام اعمال کا تعلق مقامات حج سے ہے،مثلاً طواف کا تعلق بیت اللہ سے ہے،اِسی طرح سعی کا تعلق صفا اور مروہ سے ہے،رمی کا تعلق جمرات اوروقوف کا تعلق عرفہ کے مقام سے ہے، جب کہ جانور کی قربانی،بال کتروانے اور ناخن تراشنے اور تکبیرات تشریق اپنے مقام سے مجرد ہوکر بھی اپنی حقیقت پوری طرح قائم رکھتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحی میں قربانی کی توسیع کی ، نذر کی عبادت سر منڈوانے اور ناخن تراشنے کی تلقین کی اور ایام تشریق میں غیر حاجیوں میں بھی تکبیرات تشریق ادا کرنے کی روایت کو جاری فرمایا۔

تیسرا سوال یہ پیش کیا گیا تھا کہ روایت کے الفاظ اِس ہدایت کو لازم قرار دینے کا تقاضا کر رہے ہیں،لیکن صاحب “میزان” نے اِسے لازمی ہدایت کے طور پر قبول نہیں کیا۔جو اہل علم اِسے لازمی ہدایت میں شمار کرتے ہیں، اُن کا استدلال یہ ہے کہ اِس روایت میں امر کا فعل نقل ہوا ہے اور صیغہ امر اصلاً وجوب کے لیے آتاہے۔ اُن کے نزدیک اِسے کسی اور معنی میں مراد لینے کے لیے قرینہ درکار ہوتا ہے ،جو یہاں مذکور نہیں، لہٰذااِس روایت میں بھی صیغہ امر کے ساتھ جو ہدا یت دی گئی ہے،وہ ایک لازمی ہدایت سمجھی جائے گی ۔ 

ہمارے نزدیک اُن کا یہ نقطہ نظر درست نہیں ہے، اِس لیے کہ کوئی مستقل دینی حکم قرآن و سنت کی محکم بنیاد کے سوا اخذ نہیں کیا جاسکتا۔دین کی تمام ہدایات قرآن و سنت کی صورت میں صحابہ کے اجماع اور قولی اور عملی تواتر کے قطعی اور بے شبہ ذرائع سے ہم تک پہنچی ہیں، جب کہ خبر واحد کا معاملہ یہ نہیں ہے۔تمام اخبار آحاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی باتوں کا تاریخی ریکارڈ ہیں، جسے لوگ ’روایت بالمعنٰی‘ کے اصول پر نقل کرتے ہیں،یعنی راویوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے کسی موقع کی کوئی بات پہنچی تو اُنھوں نے اِس کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں نقل کردیا۔ لہٰذا خبرواحد کے الفاظ سے کسی حکم کی فرضیت کا استدلال ہی نہیں کیاجاسکتا۔ مزید یہ کہ صیغہ امر سے فرضیت کا جو استدلال کیا جاتا ہے، وہ بھی محل نظر ہے، اِس کی وجہ یہ ہے کہ صیغہ امر اصلاً وجوب کے لیے نہیں آتا۔ صیغہ امر وجوب، استحباب، اباحت، ندب، تہدید، تعجیز، احتقار، درخواست، تفویض، تعجب اور اِن کے علاوہ دیگر کئی معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے، صرف قرآن مجید میں دیکھ لیا جائے تو صیغہ امر اِن سب معنی میں استعمال ہوا۔ مثلاً ارشاد ہوا ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا کُلُوا مِن طَیِبٰٓتِ مَا رَزَقنٰکُم وَاشکُرُوا لِلّٰہِ اِن کُنتُم اِیَّاہُ تَعبُدُونَ  (البقرہ۲: ۱۷۲) 

“ایمان والو، (یہ اگر اپنی اِن بدعتوں کو نہیں چھوڑتے تو اِنھیں اِن کے حال پر چھوڑو، اور) جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمھیں عطا فرمائی ہیں، اُنھیں (بغیر کسی تردد کے) کھاؤ اور اللہ ہی کے شکرگزار بنو، اگر تم اُسی کی پرستش کرنے والے ہو۔”

اِس آیت میں صیغہ امر محض اباحت کے لیے آیا ہے ، یعنی یہاں’کُلُوا‘ صیغہ امر کہہ کر ہر ایک پر طیبات کھانے کو لازم نہیں کردیا گیا، بلکہ اِس لفظ کے استعمال سے ایک غلط بات کی تردید کی گئی ہے ،اور وہ یہ ہے کہ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی جائز چیز کو دوسروں پر حرام قرار دے ،اللہ تعالیٰ نے جو طیبات پیدا کی ہیں،انھیں کھانا ہو تو بلاتردد کھایا جا سکتا ہے۔

لہٰذا یہ بات کہ امر اصلاً وجوب کے لیے آتا ہے، درست نہیں ہے۔ صیغہ امر کے معنی کی تعیین کلام کی لفظی صراحت، اُس کا سیاق، عقلی قرائن اور اسلوب ہی کرسکتا ہے۔مجرد فعل امر کو اصلاً کسی ایک معنی میں قرار دینا زبان اور بیان کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے۔ہر صیغہ امر کا معنی کسی کلام میں اُس مقام پر ہی طے کیا جا سکتا ہے، جہاں متکلم نے اُسے استعمال کیا ہے ۔

اب ہم غور کرتے ہیں کہ اِس روایت میں صیغہ امر کس معنی میں آیا ہے۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عمل کے بارے میں صیغہ امر استعمال کیا ہے، وہ عمل حج میں ایک لازمی پابندی کے طور پر جاری ہے ،جسے امت نے اجماع اور تواتر عملی سے منتقل کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حج میں اِس کے وجوب پر کوئی اختلاف نہیں ہے،لیکن غیر حاجی کے لیے قربانی کی اِس عبادت کو قرآن و سنت نے لازم کیا ہے، نہ اِس روایت میں اِسے فرض قرار دینے کی لفظاً کوئی صراحت موجود ہے۔ لہٰذا یہاں صیغہ امروجوب کے معنی میں نہیں ہے۔اِس روایت میں شارع کا منشا بالکل واضح ہے کہ اگر کوئی قربانی کی عبادت ادا کرنا چاہتا ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ نذر کی ایک دوسری عبادت کا بھی اہتمام کرے۔ لہٰذا یہ ایک عبادت پر تطوعاً عمل کا بیان ہے۔چنانچہ صیغہ امر یہاں استحباب کے معنی میں ہے ۔اِسے وجوب کے معنی میں استعمال کرنے کی کوئی لفظی صراحت موجود نہیں ہے۔

بالکل یہی صورت ایک دوسری روایت میں بھی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

عَن قَیسٍ، قَالَ: سَمِعتُ اَبَا مَسعُودٍ، یَقُولُ: قَالَ النَّبِیُّ صَّلَی اللّٰہُ عَلَیِہ وَسَلَّمَ: ” اِنَّ الشَّمسَ وَالقَمَرَ لاَ یَنکَسِفَانِ لِمَوتِ اَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، وَلٰکِنَّہُمَا آیَتَانِ مِن آیَاتِ اللّٰہِ، فاذَا رَاَیتُمُوہُمَا فَقُومُوا فَصَلُّوا“  (بخاری، رقم ۱٠۴۱) 

“ قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ اُنھوں نے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند میں گرہن کسی شخص کی موت سے نہیں لگتا ۔ یہ دونوں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں، اس لیے اسے دیکھتے ہی کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو۔”

 اِس روایت میں بھی فعل امر کے ساتھ چاند اور سورج گرہن کے وقت نماز ادا کرنے کا کہا گیا ہے۔اب یہاں فعل امر کو وجوب کے معنی میں مراد لینے کے لیے کلام میں کوئی لفظی صراحت موجود نہیں ہے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ شارع نے نماز کو صرف پانچ اوقات میں لازم قرار دیاہے ۔اِس کے علاوہ ہر نماز نفل ہے۔ لہٰذا یہاں بھی صیغہ امر استحباب ہی کے معنی میں ہوگا۔ 

ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی بعض دوسرے طرق میں صیغہ امر کے بجاے نفی موکد کا اسلوب نقل ہوا ہے، روایت کے الفاظ ہیں: ’فلا یاخذن شعرًا ولا یقلمن ظفرًا‘، (مسلم، رقم ۵۲۳۳) ہمارے نزدیک یہ اسلوب بھی استحباب ہی کے لیے ہے، تاہم تاکید کا یہ اسلوب اِس ہدایت کو استحباب موکد تک لے جاتا ہے،لیکن یہاں بھی اِس تلقین کو لازم قرار دینے کی لفظاً کوئی صراحت مذکور نہیں ہے۔

چوتھا سوال یہ تھا کہ صاحب “میزان” نے نذر کی جس قدیم روایت کا حوالہ دیا ہے ،اُن صحائف میں ناخن تراشنے کا ذکر کہیں موجود نہیں ہے۔ہمارے نزدیک اِس کی وجہ الہامی صحائف کا منفرد ادبی اسلوب ہے۔ کسی بھی ادبی کلام میں زیر بحث موضوع کے تمام اجزا کو منطقی ترتیب سے بیان کیا جاتا ہے، نہ ہر موقع پر جملہ حدود و شرائط ذکر کر کے کسی عمل کی مکمل تنقیح کی جاتی ہے، ایک ادبی کلام ہمیشہ اپنے مخاطبین کی رعایت سے رواں دواں اسلوب میں بات کرتا ہے اورکسی ہدایت کے تمام اجزا کو بیان کرنے کے بجاے ،بسا اوقات ایک جامع علامت کا حوالہ دے کر ہی پوری حقیقت بیان کر دی جاتی ہے۔بلاغت کی اصطلاح میں اِسے ’علی سبیل التغلیب‘ کا اسلوب کہا جاتا ہے ۔ الہامی صحائف میں بھی قانون و منطق کی کتابوں کی طرح قیود و شرائط اور حکم کی تحدید کا انداز نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک زندہ اور رواں ادبی کلام کی طرح گفتگو کرتے ہیں ،مثلاً دیکھیے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو جب صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ ادا کیے بغیر واپس لوٹنا پڑا تو اللہ تعالیٰ نے اُنھیں تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

“یقینا اللہ نے چاہا تو تم مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے،پورے امن کے ساتھ، اِس طرح کہ اپنے سر منڈوائیں گے اور بال کترواؤ گے، تمھیں کوئی اندیشہ نہیں ہو گا۔” (الفتح ۴۸: ۲۷)

اِس آیت میں صرف سر منڈوانے اور بال کتروانے کا ذکر ہے جو عمرے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا آخری فریضہ ہے، لیکن اِس ایک فریضے کو پورے عمرے کی ایک جامع تعبیر کے طور پر بیان کردیا گیا ہے ، جس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ عمرے کی جس عبادت کے لیے تم جا رہے ہو، اُس کے تمام مناسک پورے کرو گے،اُس کی تکمیل کے اِس منسک سمیت۔ اِس مقام پر عمرے کے تمام مناسک بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،اِس لیے کہ مخاطبین اُن سے بخوبی واقف تھے۔ لہٰذا متکلم نے محض آخری علامت کو بیان کرکے پوری حقیقت کی جانب توجہ مبذول کروا دی ہے۔

یہی اسلوب ایک دوسرے موقع پر بھی ہے، قرآن مجید نے جب یہ بتایا کہ اگر ہدی کے جانور لے کر عمرے کی نیت سے نکلے ہو، اور حرم تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ حائل ہو جائے تو قربانی ہی اِس کا قائم مقام ہے، جب تک قربانی نہ کر دی جائے ،سر نہیں منڈوایا جائے گا، ارشاد ہوا ہے:

“اور حج و عمرہ (کی راہ اگر تمھارے لیے کھول دی جائے تو اُن کے تمام مناسک کے ساتھ اُن)کو اللہ ہی کے لیے پورا کرو، لیکن راستے میں گھر جا¶ تو ہدیے کی جو قربانی بھی میسر ہو، اُسے پیش کردو ، اور اپنے سر اُس وقت تک نہ مونڈو، جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔” (البقرہ ۲: ۱۹۶)

یہاں دیکھیے ،اصلاً مقصود یہ ہے کہ قربانی کر کے سر منڈوانے تک احرام کی پابندی ختم نہیں ہو گی ،لیکن احرام کی اِن سب پابندیوں کا ذکر نہیں کیا گیا، بلکہ صرف سر منڈوانے کا کہا گیا ،کیونکہ مخاطبین جانتے تھے کہ یہی وہ آخری عمل ہے جس کے بعد احرام کی تمام پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں،چنانچہ جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس ہدایت پر عمل کیا تو جانور ذبح کرتے ہی احرام کھول دیا۔

ہمارے نزدیک یہی وجہ ہے کہ الہامی صحائف نے نذر کی اِس عبادت میں ناخن تراشنے کا ذکر نہیں کیا، بلکہ اِسے سر منڈوانے کی ایک جامع تعبیر سے ادا کر دیا گیا ہے ،گویا ناخن تراشنے کی ہدایت اِس میں آپ سے آپ موجود ہے۔تاہم بائیبل کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو چونکہ خدا نے بطور قوم ایک ذمہ داری کے لیے منتخب کیا تھا، اِس لیے اُن میں اگر باہر سے کوئی لونڈی بھی شامل ہوتی تو پہلے وہ خود کو علامتاً خدا کی نذر کرتی، اور نذر کی جو علامات اُس موقع پر نقل ہوئی ہیں، اُن میں سر منڈوانے کے ساتھ ناخن تراشنے کا ذکر بھی صراحتاً مذکور ہے۔چنانچہ استثنا میں ہے:

“اور اُن اسیروں میں سے کسی خوبصورت عورت کو دیکھ کر تُو اُس پر فریفتہ ہو جائے اور اُس کو بیاہ لینا چاہے۔ تو تُو اُسے اپنے گھر لے آنا اور وہ اپنا سر منڈوائے اور اپنے ناخن ترشوائے۔” (کتاب استثنا ۲۱: ۱۱- ۱۲)

لہٰذا یہاں ناخن تراشنے کے صریح ذکر کے بعد سے یہ سوال مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے کہ قدیم الہامی صحائف میں سر منڈوانے کے ساتھ ناخن تراشنے کا ذکرکہیں موجودہی نہیں ہے۔

پانچواں سوال یہ تھا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تلقین دور صحابہ میں شائع و ذائع کیوں نظر نہیں آتی؟ ہمارے نزدیک، اِس سوال کا وہی درست جواب ہے جو ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والے تابعی سعید بن مسیب نے دیاتھا ۔صحیح مسلم میں یہ جواب اِ س پس منظر میں نقل ہوا ہے کہ عید الاضحی سے پہلے بعض لوگوں نے بال کتروا لیے تو حمام والوں نے اُنھیں بتایا کہ سعید بن مسیب اِس سے منع کرتے ہیں۔ایک راوی کہتے ہیں کہ میں سعید بن مسیب سے ملا اور پوچھا کہ یہ لوگ جنھوں نے بال کٹوالیے ہیں ،وہ اِس عمل سے بے خبرکیوں ہیں؟ تو سعید بن مسیب نے اِس کے جواب میں کہا: ’قَد نُسِیَ وَتُرِکَ‘، یعنی بھلا دیا گیا، یوں ترک کر دیا گیا(مسلم ،رقم ۱۹۷۸)۔ اگر غور کیا جائے توسعید بن مسیب کا یہ جواب چند پہلووں کو واضح کرتا ہے:

۱۔ صحابہ کی معیت میں وقت گزارنے والے مدینے کے مشہور تابعی سعید بن مسیب کی نظر میں اِس عمل کے بارے میں پہلے لوگوں کا رویہ نہیں تھا،گویا صحابہ اِس عبادت سے پوری طرح واقف تھے ،اِس لیے کہ حج میں نذر کی یہی عبادت ہے جسے صحابہ نے اجماع اور تواتر عملی سے منتقل کیا ہے اور اُس میں کوئی اختلاف نہیں۔

۲۔ عیدالاضحی سے پہلے بال کتروانے پر حمام والوں کی تنبیہ بھی اِسی جانب اشارہ کرتی ہے کہ معاملہ یوں نہیں ہوا کہ اُس عہد کے تمام لوگ اِس عبادت پر تطوعاً عمل سے بے خبر تھے، بلکہ حمام جہاں لوگوں کے بالعموم بال تراشتے ہیں، وہاں کے لوگ بھی اِس سے بخوبی واقف ہیں۔

۳۔ سعید بن مسیب کا یہ کہنا کہ “بھلا دیا گیا اوریوں ترک کر دیا گیا”، بتاتا ہے کہ نذر کی یہ عبادت غیر حاجیوں کے لیے لازم نہیں تھی،بلکہ ایک مستحب عمل تھا، اِس لیے لوگوں کواُس درجے میں مستحضر نہیں رہا اور بعض لوگوں نے اِسے چھوڑ دیا۔

سعید بن مسیب کی اِس روایت پر غور کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک نفل عبادت پر تطوعاً عمل لوگوں کی نظر سے اوجھل بھی ہو سکتا ہے۔بالکل اِسی طرح کا معاملہ آج عمرے کی قربانی میں ہوا ہے۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح حج کے مناسک میں قربانی کو شمار کیا ہے، اُسی طرح عمرے میں بھی قربانی کو جاری فرمایا ہے ،یہی وجہ ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر آپ عمرے کی نیت سے جا رہے تھے اور ہدی کے جانور آپ کے پاس تھے ،لیکن آج اگر جائزہ لیا جائے تو کم و بیش ساری امت اِسے نظر انداز اور فراموش کر کے ترک کر چکی ہے۔لہٰذا غور ہمیشہ اِس پہلو پر کرنا چاہیے کہ کسی روایت کے ترک ہونے کے اسباب کیا ہیں،نہ کہ بعض لوگوں کے نسیان اور ترک کو بنیادبنا کر کسی عمل کی نفی کر دی جائے ۔حج میں جہاںنذر کی اِ س عبادت کو لازم کردیا گیا ہے ،وہاں یہ بلا اختلاف ہر عہد میں پورے اہتمام سے جاری ہے،لیکن چونکہ غیر حاجی کے لیے یہ ایک مستحب عمل تھا ، اس لیے معاشرے میں اِس کا اہتمام اُس درجے میں نہیں تھا۔

آخری سوال سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک دوسری روایت کے بارے میں تھا۔وہ روایت کچھ یوں ہے کہ ایک صاحب جو خود تو حج پر نہیں گئے، لیکن اپنے کسی ساتھی کے ہمراہ وہاں قربانی کے لیے جانور بھجوا دیا، اُنھیں یہ تردد لاحق ہوا کہ حج نہ کرنے کی صورت میں محض وہاں قربانی کرنے سے کیا احرام کی پابندیاں لازم ہو جائیں گی؟ اِس پر سیدہ عائشہ نے انھیں جواب دیا۔ روایت کے الفاظ ہیں:

عَن مَسرُوقٍ، اَنَّہُ اَتَی عَائِشَةَ، فَقَالَ لَہَا: یَا اُمَّ المُمِنِینَ، ِانَّ رَجُلاً یَبعَثُ بِالہَدی اِلَی الکَعبَةِ، وَیَجلِسُ فِی المِصرِ، فَیُوصِی اَن تُقَلَّدَ بَدَنَتُہُ، فَلاَ یَزَالُ مِن ذٰلِکَ الیَومِ مُحرِمًا حَتّٰی یَحِلَّ النَّاسُ قَالَ: فَسَمِعتُ تَصفِیقَہَا مِن وَرَاء الحِجَابِ، فَقَالَت: لَقَد کُنتُ اَفتِلُ قَلاَئِدَ ہَد¸یِ رَسُولِ اللّٰہِ صَّلَی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ فَیَبعَثُ ہَدیَہُ اِلَی الکَعبَةِ، فَمَا یَحرُمُ عَلَیہِ مِمَّا حَلَّ لِلرِّجَالِ مِنَہ لِہِ، حَتّٰی یَرجِعَ النَّاسُ (بخاری، رقم ۵۲۴۶) 

“مسروق سے مروی ہے کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ ام الم¶منین، اگر کوئی شخص قربانی کا جانور کعبہ میں بھیج دے اور خود اپنے شہر میں مقیم ہو اور جس کے ذریعے سے بھیجے، اسے اس کی وصیت کر دے کہ اس کے جانور کے گلے میں (نشانی کے طور پر) ایک قلادہ پہنادیا جائے تو کیا اس دن سے وہ اس وقت تک کے لیے محرم ہو جائے گا  جب تک حاجی اپنا احرام نہ کھول لیں۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے پردے کے پیچھے ام المو¶منین کے اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر مارنے کی آواز سنی اور انھوں نے کہا: میں خودنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے قلادے باندھتی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کعبہ بھیجتے تھے، لیکن لوگوں کے واپس ہونے تک آپ پر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی تھی جو آپ کے گھر کے دوسرے لوگوں کے لیے حلال ہو ۔”

ہمارے نزدیک اِس روایت میں ایک اطلاقی سوال کا اجمالی جواب دیا گیا ہے۔ہدی کے جانور بھجوانے پر احرام کی پابندیاں اپنا لینے کی یہ غلط فہمی غالباً قرآن مجید کی اُس ہدایت سے پیدا ہوئی ہے جو حدیبیہ کے موقع پر عازمین عمرہ کودی گئی تھی کہ جب تک وہ قربانی نہ کر لی جائے، وہ سر نہیں منڈوا سکتے،یعنی وہ اپنا احرام نہیں کھولیں گے۔

سیدہ عائشہ نے اِسی غلط فہمی کا جواب دیا ہے کہ یہ پابندیاں صرف حالت احرام ہی میں ہوتی ہیں، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہدی کے جانور بھیجنے کے باوجود احرام کی پابندیاںاختیار نہیں کرتے تھے۔یہ اِس روایت کا پس منظر ہے۔اِسے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی نفی میں پیش کرنے سے پہلے چند پہلووں پر غور کرنا چاہیے:

۱۔ سوال کرنے والے نے عید الاضحی کی قربانی کے ساتھ نذر کی دوسری عبادت پر عمل کا سوال نہیں کیا ،بلکہ روایت میں زیر بحث مسئلہ ہدی کے جانوروں سے متعلق ہے ۔

۲۔ سیدہ کا جواب اِسی پس منظر میں ہے کہ احرام کی جملہ پابندیاں ہدی کا جانور بھیجنے والوں پر نہیں ہیں۔ 

۳۔ بال اور ناخن نہ کاٹنے کا اصلاً تعلق نذر کی قدیم روایت سے ہے،محض احرام کی پابندیوں سے نہیں ۔

۴۔ سیدہ عائشہ کی روایت میں قربانی کے موقع پر نذر کی ایک دوسری عبادت ادا کرنے کی نفی نہیں کی گئی ہے۔

ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو “میزان” میں قبول کرنے پر جو سوالات اٹھائے گئے تھے ،ہم نے استاذ مکرم جاوید احمد غامدی کے اصولوں کی روشنی میں اُن کا جائزہ لیا اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ “میزان” میں جب کسی خبر واحد کو قبول کیا جاتا ہے تو اُس کے پس منظر میں کیا فکر کار فرما ہوتی ہے۔ صاحب “میزان” کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تلقین ایک مشروع عبادت پر تطوعاً عمل کا بیان ہے ۔اورقربانی سے پہلے بال اور ناخن نہ کاٹنا نذر کی قدیم عبادات کو جمع کرنے کے آداب کا تقاضا ہے جنھیں حج میں ایک سنت کی حیثیت سے جاری کردیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ روایت دین میں کوئی مستقل عمل بیان کر رہی ہے، نہ کوئی نیا حکم دے رہی ہے۔

ہمارے نزدیک یہی معاملہ “میزان” میں زیر بحث اُن بارہ سو سے زائد روایات کا ہے، جنھیں صاحب “میزان” نے قبول کیا ہے۔وہ تمام روایات بھی دین کے احکام کی تفہیم و تبیین پر مشتمل ہیں،اِس میں کسی قسم کا کوئی اضافہ یا کمی نہیں کر رہیں۔اِس بحث کو دقت نظر سے دیکھنے سے یہ پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کسی خبر واحد پر غور و فکر کا صحیح علمی طریقہ کیا ہے اور صاحب “میزان” کے ہاں اِس کے رد و قبول میں کس درجہ کا تفحص اور احتیاط ہے۔

آراء و افکار

(نومبر ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter