گلگت بلتستان کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیوں بدگمانیوں کا بنیادی سبب عام شہریوں خصوصا سکول کے طلبہ سے لے کر یونیورسٹیوں کے محققین و اساتذہ تک کو علاقے سے متعلق درست معلومات کی فراہمی نہ ہونا ہے کیونکہ آئین پاکستان سمیت کسی بھی سرکاری قانونی دستاویز، قومی نصاب سمیت دیگر لٹریچر میں گلگت بلتستان کا ذکر کہیں نہیں کیا جاتا۔ نیز قومی پالیسیوں اور ذرائع ابلاغ میں بھی گلگت بلتستان کے وسائل و مسائل، اور حقوق اور احوال پر بحث نہیں ہوتی۔ مقامی صحافت درکار تعلیمی اہلیت و عملی پختگی و مہارت کے علاوہ بہت سے ریاستی قدغنوں کی شکار ہے جبکہ علاقے کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے سیاسی و سماجی کارکنوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عملی طور پر قومی اسمبلی، سینٹ، بین الصوبائی مفادات کونسل، این ایف سی ایوارڈ سمیت کسی بھی آئینی و اقتصادی فورم پر گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں ہے۔ اس لیے گلگت بلتستان سے متعلق عوام و و خواص دونوں کی عمومی آگاہی کا معاملہ ناگفتہ بہ ہے۔ بدقسمتی سے گلگت بلتستان ہماری اسٹبلشمنٹ کی بے حسی، حکمرانوں کی بے حمیتی، جمہوریت پسند، ترقی پسند دانشور طبقات کی گلگت بلتستان سے متعلق کم علمی جبکہ قومی میڈیا پر کاروباری مفاد یا قومی مفاد کے چکر میں گلگت بلتستان جیسے اہم سرحدی و سٹریجک علاقے کی آواز نظر انداز ہوتی ہے۔
پاکستان کے شمال مشرق میں موجود قدرتی وسائل سے مالا علاقہ گلگت بلتستان ہے جس کی آبادی دو ملین سے زاید ہے جس میں سے ایک تہائی آبادی تعلیم اور روزگار کی خاطر کراچی، راولپنڈی اسلام آباد، لاہور اور کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں بستی ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں علاقے کا کچھ حصہ (شقصم اور اقصائے چین) چین کو دیے جانے اور معاہدہ تاشقند کے تحت کچھ حصے بھارت کو دیے جانے نیز سن اکہتر اور اٹھانوے میں کچھ سرحدی علاقے بھارت کے قبضے میں چلے جانے کے باجود بھی گلگت بلتستان کا موجودہ رقبہ تقریباً خیبر پختونخوا کے برابر اور آزاد جموں کشمیر سے تقریباً چھ گنا بڑا یعنی تہتر ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے جس کا محض دو فیصد زرعی طور پر قابل کاشت ہے باقی بڑے بنجر میدانوں، جنگلات، جھیلوں، دریا، برفانی گلیشرز اور بلند پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ موجودہ گلگت بلتستان دس انتظامی اظلاع دیامر، استور، گلگت، ہنزہ، نگر، غذر، سکردو، شگر، گنگچھے اور کھرمنگ پر مشتمل ہے۔ گلگت صدر مقام اور سکردو سب سے بڑا شہر شمار ہوتے ہیں، ان دونوں شہروں میںائیرپورٹس موجود ہیں جہاںاسلام آباد سے روزانہ پاکستان ائیرلائن کی پروازیں چلتی ہیں۔
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کے، دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 5 چوٹیوں کے علاوہ چھ ہزار میٹر بلندی کی پچاس برف پوش اور فلک شگاف چوٹیوں، ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش کے عظیم ترین پہاڑی سلسلوں، دنیا میں گلیشئرز کا دوسرا بڑا ذخیرہ، دنیا کی سب سے زیادہ بلندی پر موجود سب سے بڑا سرسبز میدان دیوسائی (پانچ ہزار مربع کلومیٹر کا سرسبز رقبہ)، سطح مرتفع پر پہاڑی سلسلوں کے درمیان دنیا کا سب سے بلند ترین ریتلے صحرا کولڈ ڈیزرٹ بھی اسی علاقے میں موجود ہے۔ پاکستان کو سب سے زیادہ سیراب کرنے والے دریائے سندھ کا آبی ذخیرہ نیز درجنوں خوب صورت جھیلیں اور آبشاریں اور قدرتی گرم و ٹھنڈے چشمے اسی علاقے میں موجود ہیں۔ نادر آبی و جنگلی حیات کے علاوہ طرح طرح کے منفرد پھولوں، پھلوں اور قدرتی معدنیات اور قیمتی پتھروں کا ذخیرہ بھی یہاں پایا جاتا ہے۔ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں اور شفاف پانی کے فقدان کے تناظر میںیہ علاقہ دنیا کے بڑے آبی ذخائر میں سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ بلند پہاڑی ندیوں سے گرنے والے پانی سے براہ راست یا ڈیم بنا کر اس سے ہزاروں میگاواٹ نہایت سستی بجلی پیدا کرنے کی پوٹینشل موجود ہے اور ہزاروں مربع کلومیٹر کے بنجر میدانوں کو قابل کاشت بنائے جا سکتے ہیں۔
مختلف پہاڑی وادیوں میں آباد گلگت بلتستان تاریخی و ثقافتی طور پر مختلف تہذیبوں، مذاہب، نسلوں اور زبانوں کا مرکز رہا ہے۔ اس میں اسلام سے قبل کے مذاہب بدھ مت اور بون مت کے تہذیبی آثار آج بھی محفوظ ہیں۔ آج بھی مختلف نسلی گروہ، زبانیں، اور متنوع ثقافتی روایات سے یہ علاقہ اپنی قدرتی خوبصورتی کو تہذیبی رنگوں سے رنگا رنگ کر رہا ہے۔ بلتی، شینا، بروشاسکی، واخی، کھوار سمیت ہندکو، کشمیری، پشتو زبانیں یہاں بولنے والے موجود ہیں۔ سو فیصد مسلم آبادی پر مشتمل اس علاقے میں اہل تشیع، اہل سنت (دیوبندی و بریلوی و جماعت اسلامی، اہل حدیث، اسماعیلی اور نوربخشی مسالک سے وابستہ ہیں۔مختلف علاقوںاور اضلاع میں عموما کسی ایک مسلک کی بھاری اکثریت ہے۔ تعلیمی اداروں کے فقدان کے باوجود شرح خواندگی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی شرح پاکستان کے دیگر علاقوں سے زیادہ بلند ہے، سماجی طور پر جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ جبکہ مذہبی ہم آہنگی اور امن کا گہوارہ یہ علاقہ پاکستان بھر کے لیے مثال ہے۔ ضیاء الحق دور میں ریاستی ایما پر افغان مجاہدین کے ذریعے فرقہ وارانہ بنیادوں پر لشکر کشی میں تین سو سے زاید لوگوں کو مارے جانے کے بعد اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ملک میں جاری فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشت گردی سے متاثر ہونے کے باوجود عموما گلگت بلتستان میں شیعہ سنی، اہل حدیث، اسماعیلی اور نوربخشی سبھی بھائیوں کی طرح رہتے آ رہے ہیں۔ پاکستان کی بڑی قومی سیاسی جماعتیں یہاں کی مقامی سیاست میں حصہ لیتی ہیں جبکہ چند قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔
گلگت کے چند بنیادی مسائل
گلگت بلتستان کے تقریباً عمومی طور پر معاشی لحاظ سے لوگ مڈل کلاس کے ہیں جن کا ذریعہ معاش زراعت، مال مویشی، یا ملازمت پیشہ ہے۔ جبکہ تجارت و سیاحت اور معدنیات سے جڑے پیشوں کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ تعلیم، صحت، صنعت و تجارت اور سیاحت کے لیے انفراسٹرکچر کا شدید فقدان ہے۔ 2002 میں قراقرم یونی انٹرنیشنل ورسٹی بننے تک علاقے میں ایک بھی اعلیٰ تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔ جبکہ ابھی بھی کوئی میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج، لا، بزنس، مینیجمٹ سمیت کوئی بھی پروفیشنل ادارہ قائم نہیں ہے۔ معدنیات، کوہ پیمائی، سیاحت، تحقیق، زراعت اور معدنیات سمیت اہم شعبوں میں کوئی قابل ذکر سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔
آئینی طور پر یہ علاقہ مسئلہ کشمیر سے جڑا ہوا متنازعہ علاقہ شمار ہوتا ہے جس کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے ہونا باقی ہے۔ یہ متنازعہ علاقہ جعرافیائی اعتبار سے اپنے اطراف میں چار ممالک (پاکستان، چین، انڈیا اور افغانستان جن میں سے تین ایٹمی طاقتیں ہیں) کے درمیان گھرا ہوا ہے، جبکہ ترکمانستان کے راستے روس سے بھی قریب تر ہے۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت چین کا ون بیلٹ ون روٹ منصوبے کے تحت چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اسی متنازعہ خطے سے گزر رہا ہے۔راہداری کے ذریعے چائنہ کو پاکستان سے ملانے کے لیے پانچ سو کلومیٹر سے زائد کا راستہ گلگت بلتستان سے ہی گزر کر بن رہا ہے۔ سنگلاخ پہاڑی سلسلے میں سی پیک کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔ مگر اس اہم منصوبے کے نہ کسی اہم بین الممالک اجلاس میں گلگت بلتستان کو سٹیک ہولڈر کے طور پر حیثیت دی گئی اور نہ ہی یہاں باقی صوبوں کی طرح یہاں منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں جو لوگوں کے احساس محرومی کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔ نیز دیامر بھاشا ڈیم بھی اسی علاقے میں بنے گا۔
انسانی حقوق کی پامالی کا معاملہ بھی انتہائی سنگین ہے۔ قانون و انصاف کی فراہمی کے لیے موجود نظام جس چیف کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ اور سیشن کورٹ شامل ہیں بہت ہی ناقص، سست اور ریاستی جبر سے متاثر ہے اور علاقے میں عوام کے لیے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ قانون و انصاف کے کمزور نظام کے باعث علاقے میں میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر بلا معاوضہ پاکستان کے سول و عسکری اداروں کا قبضہ کرنا، آزادی اظہار پر قدغن لگاتےہوئے سیاسی مسائل وحقوق کے لیے آواز اٹھانے والے دسیوں سماجی کارکنوں کو جھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل کرنا س کی چند واضح مثالیں ہیں۔ ان مسائل پر مرحومہ عاصمہ جہانگیر کی سربراہی میں ہونے والی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی طرف سے مرتب کردہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی کئی رپورٹوں میں تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
آئین کسی بھی ملک میںعوام اور ریاست کے درمیان حقوق و فرائض کا ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان ایک بے آئین سرزمین ہے جس پر وہ آئین و قانون نافذ ہے جس کی تشکیل میںاس کا کوئی کردار نہیںرہا ہے جس کے نفاذ کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیںہے، اس لیے یہ علاوہ ایک آئینی بحران کا شکار ہے۔ کورٹس کا بنیادی کام آئین کی تشریح کرتے ہوئے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے مگر آئین پاکستان گلگت بلتستان کو اپنا آئینی حصہ تسلیم ہی نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود گلگت بلتستان میں آئین پاکستان اور تعزیرات پاکستان اور پاکستانی قوانین کے مطابق ہی فیصلے کیے جاتے ہیں اور ان کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے قانون کا استعمال ہر اس شخص کے خلاف کیا جاتا ہے جو علاقے کے حقوق کی آواز اٹھائے چنانچہ بابا جان، حسنین رمل، افتخار احمد سمیت اہم سماجی کارکنوں پر گزشتہ کئی سالوں سے قید میں رکھا ہوا ہے۔ اور علاقے کے تقریبا ڈیڑھ سو نوجوان طلبہ، اساتذہ، صحافی، وکلا پر تقریبا ایک سال سے انسداد دہشت گردی کا دفعہ چار (شیڈول فورتھ) نافذ کیا ہوا ہے، مگر اس کے برعکس گلگت بلتستان کے مفلوج کورٹس کے فیصلوں کا اطلاق پاکستان کے شہریوں پر نہیں ہوتا جس کے کئی نظائر موجود ہیں۔
چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان میں پبلک سروس کمیشن نہ ہونے کے باعث کلیدی عہدوں کے لیے غیر مقامی اور نچلے گریڈ کی ملازمتوں کے لیے مقامی افراد کا کوٹہ مختص کرنے کے مسائل تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری سمیت تمام کلیدی عہدوں پر وفاق براہ راست اپنے بیوروکریٹس تعینات کرتا ہے جس کی حیثیت و کردار مقامی حکومت میںایک وائسرائے سے کم نہیں ہوتی۔
سن اکہتر اور اٹھانوے کی جنگوں سے متاثر ہونے والے سرحدی مہاجرین کے لیے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے باعث سینکڑوں مہاجرین بے گھر ہو کر در بدر ہورہے ہیں۔ کراچی اور اسلام آباد کی کچی آبادیوں میں گلگت بلتستان کے ایسے سرحدی مہاجرین بڑی تعداد میں مقیم ہیں۔ واہگہ بارڈر اور آزاد کشمیر بارڈر پر سرحد کی دونوں طرف تجارت بھی اور آمد و رفت بھی جاری ہے مگر بلتستان کے سرحدی علاقے شخما، چھوربٹ اور کھرمنگ بارڈر خاص طور پر صدیوں سے قائم روایتی تجارتی راستہ کھرمنگ کرگل روڈ مکمل طور پر تجارت و آمد و رفت کے لیے بند ہے جس کے باعث آزادی اور جنگوں کے دوران بچھڑنے والے خاندان کنٹرول لائن کی دونوں طرف بہت ہی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔
داخلی خود مختاری اور مالیاتی نظام نہ ہونے کے باعث سوست بارڈر کے محصولات سمیت تمام اہم محاصل وفاق لے جاتا ہے جبکہ شاہراہ قراقرم، دریائے سندھ، دیامر بھاشا ڈیم اور سالانہ لاکھوں بین الاقوامی سیاحوں سے لیے جانے والے ریوینو سے گلگت بلتستان کو کوئی حصہ نہیں دیا جاتا جبکہ متنازعہ علاقے ہونے کے باعث ان سب پر اولین حق علاقے کا ہی بنتا ہے اور ان سارے وسائل کی باقاعدہ رائلٹی علاقے کو ملنی چاہیے۔
حالیہ احتجاج کی شدت کی بنیادی وجہ یہی سب عوامل ہیں جو علاقے کے احساس محرومی میں اضافہ کرنے اور لوگوں کے غم و غصہ کو بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔ وفاق کو گلگت بلتستان کی داخلی خود مختاری کے لیے فوری طور پر سیاسی اصلاحات کے عمل کو تیز کر کے اس حساس سرحدی اور تزویراتی علاقے کو مستحکم کرنے میں ستر سال گزرنے کے باوجود مزید تاخیری حربوں سے کام نہیں لینا چاہیے، کیونکہ خظے کی تعمیر و ترقی کے لیے اہم ترین عنصر سمجھا جانے والی چین پاکستان اقتصادری راہداری مضبوط و مستحکم اور پُرامن گلگت بلتستان میں ہی مضمر ہے۔ ہر احتجاج اور تحریک کو سازش کے کھاتے میں ڈال کر پاکستان کے کسی بھی آئینی صوبے سے بڑھ کر اس کے لیے ہزاروں افراد کی قربانی دینے والے علاقے کی بے لوث محبت و وفاداری پر سوال اٹھانے کے بجائے بنیادی انسانی حقوق سے متعلق گلگت بلتستان کے سنجیدہ مسائل کو فوری حل کرے۔ پاکستان کو گلگت بلتستان کے صرف وسائل اور خوبصورتی سے دلچسپی رکھنے کے علاوہ یہاں بنیادی مسائل و حقوق پر توجہ دینی ہوگی۔
گلگت بلتستان میں آئینی بحران کس طرح ہے؟
بھارت اور پاکستان کے مابین متنازعہ کشمیر کے چار حصے ہیں۔ پہلا حصہ بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر ہے جس کو بھارت کے آئین میں عبوری طور پر خصوصی صوبائی خودمختاری کا درجہ حاصل ہے جس کے تحت اسے راجہ سبھا اور لوک سبھا یعنی پارلیمنٹ اور سینٹ دونوں میں نمائندگی حاصل ہے جبکہ سٹیٹ سبجیکٹ رول کے تحت ریاست کی متنازعہ حیثیت کو محفوط بھی رکھا گیا ہے۔ دوسرا حصہ پاکستان کے زیر انتظام خود مختار ریاست آزاد جموں و کشمیر ہے جسے داخلی خود مختاری حاصل ہے اور یہاں بھی سٹیٹ سبجیٹ رول کے نفاذ کے ذریعے اس کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم اور محفوظ کیا گیا ہے۔ تیسرا حصہ شقصم اور اقصائے چین ہے جو چین کے قبضے میں ہے جبکہ چوتھا اور سب سے محروم حصہ گلگت بلتستان ہے جسے نہ پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے اور نہ ہی داخلی خود مختاری بلکہ ایک غیر آئینی صوبے کا لولی پاپ دے کر علاقے کے بیس لاکھ عوام کو بے وقوف بنا کر رکھا گیا ہے۔ الغرض گلگت بلتستان ایسے تمام حقوق سے محروم ہے جو ایک متنازعہ علاقے (بھارتی زیرانتظام اور پاکستانی زیر انتظام جموںو کشمیر)کے لیے حاصل ہیں۔ جبکہ پاکستان ہی کے زیر انتظام آزاد جموں و کشمیر ریاست کو دفاع، خارجہ اور کرنسی کے علاوہ تقریباً تمام دیگر ریاستی امور میں داخلی خود مختاری حاصل ہے۔ ان کا اپنا آئین، جھنڈا، صدر، وزیر اعظم، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ، پبلک سروس کمیشن وغیرہ موجود اور فعال ہیں اسی طرح سٹیٹ سبجیکٹ رول کے تحت سرزمین کشمیر کا تحفظ کیا جاتا ہے اور کوئی بھی غیر مقامی وہاں زمینوں کی خرید و فروخت نہیں کر سکتا۔
اگرچہ آئین پاکستان میں گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کا بھی ذکر موجود نہیں ہے مگر اقوام متحدہ کے مسئلہ کشمیر کے مطابق گلگت بلتستان متنازعہ کشمیر کا حصہ ہے۔ پاکستان کے پاس موجود دو حصوں میں سے ایک حصے یعنی آزاد کشمیر کو خود مختاری دی گئی ہے لیکن گلگت بلتستان کو یہ خود مختاری حاصل نہیں ہے۔
گلگت بلتستان کے سیاسی حقوق کے حل کے لیے ممکنہ آپشنز
گلگت بلتستان کے سیاسی حقوق کے مستقل کے لیے ممکنہ طور پر کئی حل موجود ہیں۔
پانچواں صوبہ
گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں آئینی صوبہ بنایا جائے۔ مگر اسے آئینی صوبہ بنانے کے لیے حکومت پاکستان کو اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر سے متعلق جمع قرارداد میں اپنے اصولی موقف میں تبدیلی اور پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم لانی ہوگی جس کے بعد علاقے میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کرایا جانا ہے۔ پاکستان نے یہ امید بھی لگا رکھی ہے کہ جب بھی مسئلہ کشمیر پر پیش رفت ہو اور پورے متنازعہ خطے میں استصواب رائے کیا جائے تو تقریبا تہتر ہزار مربع کلومیٹر رقبے کے بیس لاکھ باشندے یعنی گلگت بلتستان کا ووٹ مکمل طور پر پاکستان کے حق میں ہوگا جس سے مجموعی صورت حال پاکستان کے حق میں جائے گی۔ ایک بہانہ یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ پاکستان جی بی کو فی الحال آئینی صوبہ نہیں بنانا چاہتا تاکہ بھارت کشمیر پر اپنا موقف مضبوط نہ کر لے۔ بھارت سے کئی جنگیں لڑنے، ہزاروں جانیں دینے اور کھربوں ڈالر کے قومی وسائل خرچ کرنے کے بعد کشمیر کی قیمت پر شاید پاکستان گلگت بلتستان کو کبھی بھی مکمل آئینی صوبہ نہ بنائے، اس کے علاوہ کشمیری قیادت بھی اس کی شدید مخالفت کرتی ہے۔ چنانچہ آئینی صوبہ نہ بنانے کے عزم کا اظہار مختلف وفاقی وزراء سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور رہنماؤں نے متعدد بار کیا ہے۔
گلگت بلتستان میں موجودہ صوبائی شکل کسی طور پر آئینی صوبہ نہیں ہے۔ موجودہ اسمبلی، گلگت بلتستان کونسل، وزیر اعلی اور گورنر خالصتاً نمائشی عنوانات ہیں۔ ان کے اختیارات دونوں ہی مقامی کونسلر سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ موجودہ سیٹ اپ آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے جس میں گلگت بلتستان کے نام کا کوئی صوبہ وجود ہی نہیں رکھتا۔ کسی بھی آفیشل دستاویز، قومی نصاب سمیت دیگر لٹریچر میں گلگت بلتستان کا صوبے کے طور پر ذکر کہیں نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح عملی طور پر قومی اسمبلی، سینٹ بین الصوبائی مفادات کونسل، این ایف سی ایوارڈ سمیت کسی بھی آئینی فورم پر گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں ہے۔ وفاق اپنے ایک وزیر اور اپنی بیوروکریسی کے ذریعے اس علاقے کو انتظامی طور پر کنٹرول کرتا ہے۔ چنانچہ گلگت بلتستان کے تمام کلیدی عہدوں پر وفاق ہی اپنے بندے بھیجتے ہیں۔ علاقے کے معاملات میں وزیر اعلیٰ سے زیادہ چیف سیکٹری کی حیثیت فیصلہ کن اور اہم ہوتی ہے جسے وفاق تعینات کرتا ہے۔
آزاد جموں و کشمیر طرز کی داخلی خود مختاری
دوسرا حل داخلی خود مختاری دینے کا ہے۔ جی بی عوام زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے تصفیے تک اب کشمیر طرز کی خود مختار ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کو داخلی ریاست کا درجہ ملنے کی صورت میں یہاں آزاد کشمیر کی طرح کرنسی، خارجہ پالیسی، دفاع اور مواصلات وغیرہ کے معاملے میں پاکستان کے زیر انتظام ہو گا جبکہ دیگر معاملات میں گلگت بلتستان خود مختار ہوگا۔ سٹیٹ سبجیٹ رول کی بحالی کے ذریعے علاقے کی متنازعہ حیثیت کا تحفظ کیا جا سکے گا جس کی صورت میں گلگت بلتستان ریاست کے باشندے کا قانونی تعریف متعین ہوگی اور صرف وہی گلگت بلتستان میں اراضی کی خریدو فروخت کر سکے گا۔ گلگت بلتستان کی مقامی قوم پرست سیاسی تنظیموں کا دیرینہ مطالبہ و موقف یہی رہا ہے جسے اب دیگر سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں میں بھی بڑی پذیرائی مل رہی ہے۔
آزاد جموں و کشمیر ریاست میں انضمام
تیسرا ممکنہ مگر علاقے کی عوام کے نزدیک انتہائی نا مطلوب آپشن یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان کو موجودہ آزاد کشمیر ریاست میں ضم کیا جائے۔ کشمیری قیادت زیادہ تر اس حل کی حامی ہے مگر ستر سالوں سے کسی طرح تعامل نہ رہنے، جعرافیائی دوری اور وسائل و اختیارات میں غیر متوازن تقسیم نیز سب سے بڑھ کر گلگت بلتستان کے عوام کے اس آپشن کے لیے غیر آمادگی کے باعث یہ حل قابل عمل نہیں ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ
لہذا گلگت بلتستان کے بنیادی انسانی و سیاسی حقوق کے مسئلے پر حکومت پاکستان اسے مسئلہ کشمیر کے تصفیے تک آزاد کشمیر کی طرز پر داخلی خود مختاری دینے کے عزم کا اظہار کرے اور علاقے میں استصواب رائے (ریفرنڈم) کرانے کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کو ریفرنڈم کی نگرانی کرنے کی درخواست کرے۔۔ اس حل میں مسئلہ کشمیر پر بھی فرق نہیں پڑتا اور علاقے کو اس کی خواہش کے عین مطابق سیاسی حقوق پر مبنی خود مختاری بھی حاصل ہو جائے گی۔ یہی آسان ترین اور ہر ایک کی جیت (win-win) حل ہے۔ پاکستان کے لیے بہتر یہی ہے کہ ستر سال سے پکتے ہوئے لاوے کو پھٹنے سے پہلے حل کرے۔ گلگت بلتستان میں سیاسی اصلاحات کی کمیٹیاں بناتے رہنا اور عوام کی مرضی کے بغیر ا ن پر کوئی بھی حکم نامے تھوپنا اب کسی طرح دانشمندی نہیں ہے۔ اس کی تازہ مثال وفاق میں حکمران گزشتہ حکمران پارٹی مسلم لیگ نون کی جانب سے متعارف کردہ سیاسی اصلاحات بعنوان ’’گلگت بلتستان آرڈر ۲۰۱۸ کے نفاذ پر سامنے آنے والاگلگت بلتستان کا عوامی رد عمل ہے۔
اس پورے تناظر میں گلگت بلتستان کے باشعور جوانوں کی جانب سے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت و حقوق سے متعلق آگہی کے لیے پاکستان کے مختلف بڑے شہروں میں قومی سطح کے سیمیناروں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ لاہور، راولپنڈی، کراچی، سکردو اور گلگت میں سیمیناروں کا انعقاد کیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان کی مختلف سیاسی، مذہبی و سماجی تنظیموں کا ۲۰۱۳ سے مسلسل سرگرم عوامی اتحاد ’’گلگت بلتستان عوامی ایکشن کمیٹی‘‘ اس آگہی مہم کو عوامی حلقوں تک پہنچا رہی ہے۔
مختلف تعلیمی، صحافتی، سیاسی، سماجی، مذہبی، قانونی، پالیسی ساز اور تحقیقاتی اداروں،تنظیموں اورانجمنوں سے وابستہ احباب سے ہم درخواست کرتے ہیں کہ وہ بے آئین و بے آواز گلگت بلتستان کے لیے آواز اٹھانے میں گلگت بلتستان کے مہذب و باشعور جوانوں کا ساتھ دیں اور گلگت بلتستان کو آئینی بحران اور سیاسی و معاشی محرومیوں سے نکالنے کی جدو جہد میں اپنا حصہ ڈالیں۔