خواتین کے نکاح میں سرپرست کا اختیار / سرسید احمد خان اور مذہبی علماء

محمد عمار خان ناصر

خواتین کے نکاح کے ضمن میں سرپرست کے اختیار سے متعلق کتب حدیث میں منقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد ارشادات منقول ہیں جو اس معاملے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس حوالے سے عموماً جن روایات کا حوالہ دیا جاتا ہے، ان میں خاتون کے نکاح میں سرپرست کی رضامندی کو فیصلہ کن حیثیت دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سرپرست کے بغیر کیے گئے نکاح کی کوئی حیثیت نہیں۔ (ترمذی، رقم ۱۱۰۱) اسی طرح ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی عورت کا نکاح سرپرست نے نہ کرایا ہو، اس کا نکاح باطل ہے۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ کہی۔ البتہ اگر خاوند نے اس سے ہم بستری کر لی تو اسے اس کا مہر ملے گا۔ (ترمذی، رقم ۱۱۰۲)

مذکورہ روایات کے الفاظ کا ظاہری عموم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کوئی بھی عورت اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر ازخود اپنا نکاح کرنے کا اختیار نہیں رکھتی اور اگر وہ ایسا کرے گی تو اس کا نکاح باطل قرار پائے گا، تاہم اس مسئلے سے متعلق دیگر روایات واحادیث کو جمع کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ زیر بحث روایات کے الفاظ کا ظاہری عموم شارع کی مراد نہیں ہے، بلکہ یہ ان کنواری لڑکیوں سے متعلق ہے جو کسی معقول وجہ کے بغیر اپنے ولی کی رضامندی اور اجازت کو نظر انداز کر کے ازخود نکاح کر لیں۔ چنانچہ خود روایات ہی میں درج ذیل صورتوں کو مذکورہ حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے: 

ایک یہ کہ ازخود نکاح کرنے والی خاتون کنواری نہیں بلکہ شوہر دیدہ ہو۔ چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’شوہر دیدہ عورت اپنے نفس پر اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے، جبکہ کنواری لڑکی سے اس کا باپ اس کی ذات کے معاملے میں اجازت طلب کرے اور اس کا خاموش رہنا اس کی رضامندی کی دلیل ہے۔‘‘ (مسلم، رقم ۳۴۷۶)

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ قبیلہ بنو اسلم میں سبیعہ نامی ایک عورت نے اپنی خاوند کی وفات کے پندرہ دن بعد بچہ جنم دیا۔ اس طرح اس کی عدت مکمل ہوگئی تو دو آدمیوں نے ،جن میں سے ایک نوجوان اور دوسرا ادھیڑ عمر تھا ،اسے نکاح کا پیغام بھیجا۔ سبیعہ نوجوان کے ساتھ نکا ح کرنے کی طرف مائل ہوگئی تو ادھیڑ عمر آدمی نے اس سے کہا کہ ابھی تیر ی عدت مکمل نہیں ہوئی۔ اس وقت سبیعہ کے گھر والے موجود نہ تھے اور اس آدمی کو توقع تھی کہ جب اس کے گھر والے آجائیں گے تو وہ اس نوجوان کے مقابلے میں اس کو ترجیح دیں گے۔ اس پر سبیعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو صورت حال بتائی۔ آپ نے اس سے فرمایا:

’’تیری عدت پوری ہو چکی ہے، اب تو جس سے چاہتی ہے اس سے نکاح کرلے۔‘‘ (مالک، الموطا، رقم ۱۸۲۹۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۵۷۰۳)

دوسری یہ کہ کسی لڑکی کا سرپرست اس کا نکاح کرنے میں خود لڑکی کی رضامندی کو نظر انداز کر رہا ہو۔ چنانچہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیٹی کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کر دیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور کہاکہ میرے والد نے میری رضامندی کے بغیر ایک شخص سے میرا نکاح کر دیا ہے، جبکہ میرا ایک چچا زاد بھی میرے ساتھ نکاح کا خواہش مند تھا۔ آپ نے اس کے والد سے بلا کر پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیٹی کی خیر خواہی کرتے ہوئے ہی یہ فیصلہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

’’اس نکاح کی کوئی حیثیت نہیں۔ تم جاؤ اور جس سے چاہتی ہو، اس سے نکاح کر لو۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۵۹۵۳)

عبد اللہ بن بریدہ سے مرسلاً روایت ہے کہ ایک نوجوان لڑکی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور کہا کہ میرے والد نے اپنے بھتیجے کی عزت افزائی کے لیے میرا نکاح اس کے ساتھ کر دیا ہے جبکہ مجھے یہ پسند نہیں۔ ام المومنین نے اس سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے تک یہیں بیٹھو اور آپ کو اس بات سے آگاہ کرو۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اس نے آپ کو یہ بات بتائی تو آپ نے اس کے والد کو بلایا۔ جب وہ آیا تو آپ نے اس لڑکی کو اپنا نکاح اپنی مرضی سے کرنے کا اختیار دے دیا۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۳۴۵۴)

تیسری یہ کہ کسی خاتون کا کوئی سرپرست ہی موجود نہ ہو جس کی وساطت سے وہ نکاح انجام دے سکے:

ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر کی وفات کے بعد عدت پوری ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے ان کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس پر تردد کا اظہار کیا اور اس کی ایک وجہ یہ بیان کی کہ اس وقت میرے اولیا میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھارے اولیا میں سے کوئی موجود یا غائب شخص ایسا نہیں ہے جو اس نکاح کو ناپسند کرے گا۔ اس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے نابالغ بیٹے عمر بن ابی سلمہ سے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرا نکاح کردو۔ چنانچہ عمر بن ابی سلمہ نے اپنی والدہ کا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دیا۔ (سنن النسائی، رقم ۳۲۵۶)

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ یا رسول اللہ، میں اس لیے حاضر ہوئی ہوں کہ اپنے آپ کو آپ کی خدمت میں پیش کر دوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نگاہ اٹھا کر اس کو غور سے دیکھا اور پھر اپنا سر جھکا لیا۔ جب اس خاتون نے دیکھا کہ آپ نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس پر ایک آپ کے صحابہ میں سے ایک آدمی اٹھا اور کہا کہ یا رسول اللہ، اگرآپ اس عورت سے نکاح نہیں کرنا چاہتے ہو تو میرا نکاح اس سے کر دیجئے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کا نکاح اس صحابی سے کر دیا۔ (بخاری ، رقم ۵۰۳۰)

مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ ولی کی اجازت اور وساطت کے بغیر کسی خاتون کے نکاح کو باطل قرار دینا کوئی مطلق اور عام حکم نہیں، بلکہ اس کا ایک خاص محل ہے اور یہ اس صورت سے متعلق ہے جب کسی کنواری خاتون نے اپنے سرپرست کی موجودگی میں سرکشی کرتے ہوئے اس کی رضامندی اور وساطت کے بغیر کسی سے نکاح کر لیا ہو۔ منشا ئے کلام دراصل خواتین کو سرکشی کرتے ہوئے اپنے اولیا کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے سے روکنا اور اس طرح کے کسی بھی قدم کو قانونی طور پر غیر موثر قرار دینا ہے، چنانچہ اس خاص محل سے ہٹ کر ہر طرح کی صورت حال میں اس حکم کا اطلاق کرنا درست نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر عورت کے اولیا موجود ہی نہ ہوں اور ان کے آنے تک نکاح کے معاملے کو معلق رکھنا مصلحت کے خلاف ہو یا اس بات کا اطمینان ہو کہ اولیا کو عورت کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا یا ولی موجود تو ہو لیکن اس کے رویے سے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اس معاملے میں عورت کی رضامندی کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور اپنی مرضی یک طرفہ طور پر اس پر ٹھونسنا چاہتا ہے تو ان سب صورتوں میں عورت کو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے کا حق ہوگا اور اسے اس کا اذن شامل نہ ہونے کی بنیاد پر باطل قرار نہیں دیا جائے گا۔ حکم کا صحیح محل متعین ہونے کے بعد ان صورتوں کا اس کے دائرہ اطلاق میں شامل نہ ہونا نہ صرف عقل وقیاس کی رو سے واضح ہے، بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد فیصلوں سے بھی واضح ہوتا ہے۔

فقہائے احناف نے اس حکم کے دائرہ اطلاق میں ایک مزید قیاسی تخصیص کی ہے، چنانچہ وہ اسے اس صورت سے متعلق قرار دیتے ہیں جب عورت نے غیر کفو میں یعنی اپنی برادری یا اپنے ہم پلہ لوگوں کو چھوڑ کر خاندانی لحاظ سے کم تر لوگوں میں نکاح کر لیا ہو۔ اس صورت میں چونکہ خاندان کی عزت ووقار کا سوال ہوتاہے اور بہتر معاشرتی حیثیت رکھنے والے خاندانوں کے یہاں اپنی خواتین کا نکاح معاشرتی لحاظ سے کم تر خاندانوں میں کرنا معیوب سمجھا جاتاہے، اس لیے ولی کی اجازت اور منظوری کے بغیر یہ نکاح درست نہیں۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ ایک روایت کے مطابق غیر کفو میں نکاح کو ولی کی اجازت پر موقوف جبکہ دوسری روایت کے مطابق ایسے نکاح کو باطل قرار دیتے ہیں۔ تاہم اگر یہ معاملہ نہ ہو اور عاقل وبالغ عورت نے خاندانی اعتبار سے ہم پلہ لوگوں میں نکاح کیا ہو جس پر اس کے سرپرست کے اعتراض کا کوئی معقول جواز نہ ہو تو ایسی صورت میں فقہائے احناف کے نزدیک محض اس بنیاد پر اس کے نکاح کو باطل قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس کا سرپرست اس نکاح پر رضامند نہیں تھا۔ 

احناف کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور عقل وقیاس کی رو سے نکاح کرنا اصلاً عورت کا حق ہے اور وہ بالغ ہونے کے بعد جیسے اپنے مال میں خود تصرف کرنے کا حق رکھتی ہے، اسی طرح اپنی ذات کے بارے میں بھی فیصلہ کرنے کا پورا اختیار رکھتی ہے، البتہ اسے فیصلے میں اپنے اولیا اور خاندان کے جذبات واحساسات کی بھی پاس داری کرنی چاہیے۔ چنانچہ اگر وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ نکاح کر لے جس کے ساتھ تعلق داری میں اس کے اہل خاندان عار محسوس کریں تو یقیناًیہ نکاح اس کے سرپرست کی رضامندی پر موقوف ہوگا اور اگر وہ اس پر اعتراض کرے تو نکاح فسخ قرار پائے گا، لیکن مطلقاً اور ہر حالت میں عورت کے حق نکاح کو سرپرست کی رضامندی پر منحصر اور موقوف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (الشیبانی، الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ، ۳/۵۱۲۔ الطحاوی، شرح معانی الآثار، ۲/۳۷۰) 

مزید برآں اس معاملے میں اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر بحث ارشادات بنیادی طور پر ایک قبائلی معاشرت کے پس منظر میں فرمائے گئے ہیں۔ یہ معلوم ہے کہ خاندان اور سماج کی شیرازہ بندی قبائلی معاشرے میں مختلف اصولوں پر ہوتی ہے اور متمدن اور ترقی یافتہ معاشروں میں دوسرے اصولوں پر۔ ایک قبائلی معاشرہ اپنی ساخت کے لحاظ سے رشتے ناتوں کو جس طرح interdependent بناتا ہے، اس میں فرد کے حقوق اور اختیارات بہرحال زیادہ محدود اور خاندان اور سماج کی پسند ناپسند کے زیادہ زیر اثر ہوتے ہیں۔ سماجی تنظیم کے اصولوں کے تحت اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ قبائلی معاشرے میں خاندان ، قبیلہ اور سماج فرد کو ایک غیر قبائلی معاشرے کے مقابلے میں زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس بنا پر اس کا بھی بجا طور پر استحقاق رکھتے ہیں کہ فرد اپنے فیصلوں میں ان کی پسند اور نا پسند کو خاص طور پر ملحوظ رکھے۔ معاشرے کے ارتقا کے ساتھ ساتھ جوں جوں قبائلی نظم کمزور ہوتا جاتا ہے، فرد اور سماج میں اس کو تحفظ دینے والے گروہوں یعنی خاندان اور قبیلوں پر اس کا انحصار بھی کم ہوتا جاتا ہے اور نتیجتاً اسے اپنے فیصلوں کو اپنی صواب دید کی روشنی میں کرنے کی زیادہ آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔ ا س بحث کی روشنی میں دیکھیے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ حکم کی تعبیر اس مخصوص سماجی صورت حال کے تناظر میں بھی کی جا سکتی ہے جس کے پیش نظر آپ نے یہ فیصلہ فرمایا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس حکم کا مقصد دراصل عورت اور اس کے سرپرست کے باہمی حقوق واختیارات کی حتمی وقطعی تعیین نہیں، بلکہ مخصوص زمان ومکان میں سماج کے ایک اہم ادارے یعنی خاندان کو انتشار اور انہدام سے بچانا ہے۔ 

سرسید احمد خان اور مذہبی علماء

سرسید احمد خان اور ان کے مذہبی وسیاسی افکار گزشتہ دنوں سوشل میڈیا میں زیر بحث رہے۔ سرسید کے ناقدین نے ان کی مذہبی تعبیرات اور برطانوی اقتدار سے متعلق ان کے جذبات وفاداری کو موضوع بنایا، جبکہ حامیوں نے اس کے جواب میں ’’ملائیت‘‘ کو بے نقط سنائیں۔ 

اس تناظر میں یہ مختصر وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ سرسید کی مذہبی تعبیرات کو اگرچہ راسخ العقیدہ علماء نے علمی سطح پر رد کیا (بلکہ سچ یہ ہے کہ انھیں سرسید کے علاوہ کسی نے قبول ہی نہیں کیا)، لیکن انھیں ’’ہوا‘‘ نہیں بنایا اور نہ ان کی بنا پر ان کے خلاف مذہبی فتوے بازی کی کوئی مہم ذمہ دار علماء کی طرف سے منظم کی گئی، بلکہ اکابر علماء نے سرسید کی اس کوشش کو ان کے خلوص کی بنا پر ہمدردانہ نظر سے دیکھا اور ان پر کوئی فتویٰ عائد کرنے سے گریز کیا۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادیؒ کے سامنے کسی نے سرسید کے مذہبی خیالات پر سخت الفاظ میں تبصرہ کیا تو مولانا نے کہا کہ ’’ان کی ظاہری تقریر کو نہ دیکھو، ان کے قلب کو دیکھو کہ کیسا ہے‘‘۔ اسی طرح ایک موقع پر انھوں نے چند مولوی صاحبان کو مسجد میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ سرسید روایات صحیحہ کا انکار کرتا ہے، تواتر کا انکار کرتا ہے، کافر ہے وغیرہ وغیرہ، تو اپنے حجرے سے نکلے، مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ’’یہ لوگ اس بے چارے کو کافر بناتے ہیں، مگر اس کے قلب کو دیکھ کہ کیسا ہے۔‘‘ (’’کمالات رحمانی‘‘ از شاہ تجمل حسین بہاری، بحوالہ صدق جدید، ۵؍ مئی ۱۹۶۱ء)

اسی طرح کے خیالات مولانا اشرف علی تھانویؒ کے تھے، چنانچہ خواجہ عزیز الحسن مجذوب، مولانا کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ’’سرسید کا عقیدہ توحید اور رسالت کے متعلق جس درجہ کا بھی تھا، بلا وسوسہ اور نہایت پختہ تھا جیسا کہ ان کی بعض تصانیف سے مجھ کو ظاہر ہوا اور قرآن وحدیث کی جو توجیہات انھوں نے کیں، ان کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین کا اسلام پر کوئی اعتراض وارد نہ ہو۔ گو اس کے لیے انھوں نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ غلط تھا، اس لیے میں ان کو نادان دوست کہتا ہوں۔‘‘ (اشرف السوانح از خواجہ عزیز الحسن مجذوب، جلد اول، ص ۲۱۵)

اس کے علاوہ سرسید کے متعارف کردہ بہت سے نئے مذہبی مباحث سے علماء نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس پہلو پر اب بعض مطالعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت کے ممتاز محقق مولانا رضی الاسلام ندوی نے ’’سرسید کی تفسیر القرآن اور مابعد تفاسیر پر اس کے اثرات‘‘ کے زیر عنوان اپنے مقالے میں سرسید کی تفسیر قرآن کی تالیف کا فکری پس منظر واضح کیا ہے اور سرسید کے منہج تفسیر پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن اور بائبل کے بیانات کے تقابلی مطالعہ، اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کے رد اور غیبیات و معجزات کی عقلی توجیہ کو اس کی اہم خصوصیات میں شمار کیا ہے۔ مصنف نے یہ دلچسپ حقیقت بیان کی ہے کہ تفسیر قرآن کے ضمن میں ان تینوں پہلووں سے بعد کے مفسرین نے سرسید کے اثرات قبول کیے اور اردو تفاسیر میں نہ صرف قرآن اور بائبل کے تقابلی مطالعہ اور اسلام پر اعتراضات کا رد کرنے کی ریت قائم ہوئی، بلکہ غیبیات اور معجزات کی عقلی توجیہ کے باب میں بھی ’’اس تفسیر کے مابعد تفاسیر پر اثرات مرتب ہوئے اور اہل علم نے اس کے اسلوب اور انداز تحقیق کو اپنایا۔‘‘ (ص ۲۳) 

مصنف کے خیال میں اس طرز فکر کے بعض مثبت اثرات بھی ہیں، چنانچہ ’’قدیم مفسرین کی عجوبہ پسندی کا یہ حال تھا کہ وہ ایسے واقعات کو بھی جن کی مناسب عقلی توجیہ ممکن ہے، معجزات قرار دیتے تھے۔ ..... معجزات کے سلسلے میں سرسید کا نقطہ نظر تو قبولیت حاصل نہ کر سکا، لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ عجوبہ پسندی کی شدت میں کمی آئی اور بعض قرآنی واقعات پر اس حیثیت سے بھی غور ہونے لگا کہ ان کی عقلی توجیہ کر کے انھیں غیر معجزانہ واقعات کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ اسے بھی تفسیر سرسید کا ایک قابل لحاظ اثر قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (ص ۲۴) اس نکتے کی وضاحت میں مصنف نے متعدد مثالیں بھی نقل کی ہیں۔ سرسید کی تفسیری خدمات کے حوالے سے مصنف کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ بعض پہلووں سے ’’یہ تفسیر سرسید کی مذہبی خدمات میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور یہ ان کا ایک قابل قدر علمی کارنامہ ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ جہاں ان کی غلطیوں اور لغزشوں پر بے لاگ تنقید کی جائے، وہیں ان کی وقیع تحقیقات کو سراہا جائے۔‘‘ (ص ۱۱) 

جہاں تک برطانوی اقتدار کے حوالے سے سرسید کی فکر کا تعلق ہے تو اس میں اور مذہبی علماء کی ایک بڑی تعداد کے زاویہ نظر میں بنیادی اشتراک دکھائی دیتا ہے، تاہم یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے جس پر ان شاء اللہ ہم آئندہ کسی نشست میں بات کریں گے۔

دین اور معاشرہ

(جنوری ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter