ربع صدی سے بھی زیادہ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ گکھڑ میں حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر? کی مسجد میں دینی جلسہ تھا، اس دور کے ایک معروف خطیب بیان فرما رہے تھے، موضوعِ گفتگو دارالعلوم دیوبند کی خدمات و امتیازات تھا۔ جوشِ خطابت میں انہوں نے یہ فرما دیا کہ دارالعلوم دیوبند نے شاہ اسماعیل شہید جیسے سپوت پیدا کیے۔ جلسہ کے بعد دسترخوان پر ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ حضرت! دارالعلوم دیوبند کا آغاز 1866ء میں ہوا تھا جبکہ شاہ اسماعیل شہید اس سے تقریباً پینتیس سال قبل بالاکوٹ میں شہید ہوگئے تھے، آپ نے انہیں دارالعلوم دیوبند کے سپوتوں میں کیسے شامل کر لیا؟ فرمانے لگے کہ یہ بات میرے ذہن میں نہیں تھی آئندہ اس کا خیال رکھوں گا۔ بھلے آدمی تھے، انتقال کر گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ شاہ اسماعیل شہید اور ان کے رفقاء کی قربانیوں کے نتیجے میں دارالعلوم دیوبند وجود میں آیا مگر شہدائے بالاکوٹ کو دارالعلوم دیوبند کے ثمرات میں شامل کرنے والی بات درست نہیں ہے۔
ہمارے ہاں تاریخ سے بے خبری کے باعث اس قسم کی باتیں عام طور پر ہو جاتی ہیں جو لاعلمی کی وجہ سے ہوں تو زیادہ سے زیادہ جہالت کا عنوان پاتی ہیں، لیکن اگر ایسی باتیں باخبر ہوتے ہوئے بھی جان بوجھ کر کی جائیں تو اس کے لیے بے خبری اور جہالت کی بجائے دجل اور جاہلیت کا عنوان زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ آج کل ایک بات تواتر کے ساتھ کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے دستور میں اسلامی دفعات جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے شامل کی تھیں اور یہ ان کے دورِ آمریت کی یادگار ہیں۔ حالانکہ دستور کی بنیادی اسلامی دفعات ۱۹۷۳ء اور ۱۹۷۴ء میں منتخب پارلیمنٹ نے طے کی تھیں مثلاً (۱) ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا (۲) سرکاری مذہب اسلام ہوگا (۳) پارلیمنٹ قرآن و سنت کی پابند ہوگی (۴) قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہیں کی جا سکے گی اور (۵) قادیانیوں کا شمار غیر مسلم اقلیتوں میں ہوگا۔ جبکہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم اس وقت فوج کی ہائی کمان کا حصہ بھی نہیں تھے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے مگر ہمارے ہاں چونکہ سیاست میں نکولو میکیاولی اور پراپیگنڈا اور لابنگ میں جوزف گوئبلز کے ذوق و اسلوب کی حکمرانی ہے اس لیے یہ سب کچھ کسی حجاب کے بغیر کہا اور دہرایا جا رہا ہے۔
اسی طرح ایک بات ’’سیاسی اسلام‘‘ کے عنوان سے بھی وضع کر لی گئی ہے کہ جنوبی ایشیا میں اس کا پرچم سب سے پہلے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بلند کیا تھا، اس لیے یہ ان کی اختراع ہے۔ ’’سیاسی اسلام‘‘ کے تعارف کے لیے اس کے عناصر اربعہ کے طور پر جو باتیں آج کل بیان کی جا رہی ہیں وہ یہ ہیں کہ
- مسلم معاشرے میں غیر مسلموں کی حکمرانی اور تسلط کو قبول نہ کیا جائے اور اس کی مزاحمت کی جائے،
- مسلم اکثریت کے علاقے میں اسلامی حکومت قائم کی جائے،
- مسلم ریاست میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ اور عملداری کا اہتمام کیا جائے،
- اور مذہبی قوانین و روایات کی بنیاد پر مسلم معاشرت اور تہذیب و ثقافت کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔
آج کی دنیا میں ان امور کو ’’سیاسی اسلام‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور مغربی دانش و سیاست کا مسلسل یہ تقاضا ہے کہ ہم ان امور سے دست بردار ہو کر دین و مذہب کو عقیدہ و عبادت اور اخلاقیات کے دائرے میں ہی محدود سمجھ لیں۔ اس سلسلہ میں باقی تمام پہلوؤں سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اگر اس کا نام ’’سیاسی اسلام‘‘ ہے تو یہ مولانا مودودی کی ایجاد نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں ہمارے بہت پہلے کے ماضی میں پیوست ہیں۔ حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی اور حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی دخل اندازی بڑھتے دیکھ کر جو تاریخی فتویٰ صادر کیا تھا اس کی بنیاد دو بڑے نکات پر تھی:
- نصارٰی کا تغلب ہوگیا ہے،
- اور اسلامی احکام و قوانین پر عملدرآمد تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔
اس وقت رسمی طور پر مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کی حکومت تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی بادشاہ کے نام پر وہ اقدامات کر رہی تھی جن کی بنیاد پر ہندوستان کے ’’دارالحرب‘‘ ہونے کا یہ فتویٰ صادر کیا گیا تھا۔ پھر اسی فتویٰ کی بنیاد پر سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے مسلح بغاوت اور جہاد کے نتیجے میں جو حکومت قائم کی تھی وہ امیر المومنین کی سربراہی میں اسلامی حکومت تھی۔ کم و بیش اسی دور میں بنگال میں حاجی شریعت اللہ کی ’’فرائضی تحریک‘‘ کا ٹائٹل بھی غیر ملکی تسلط کے خلاف مزاحمت اور نفاذِ شریعت تھا۔ جبکہ اس کے بعد برصغیر کے طول و عرض میں جو بیسیوں تحریکات اٹھیں وہ غیر ملکی تسلط سے نجات اور شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کے عنوان سے آگے بڑھیں۔ حتیٰ کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے خلافت عثمانیہ، جرمنی، جاپان اور افغانستان کی حکومتوں کے تعاون سے جس انقلاب کی منصوبہ بندی کی تھی اس کا ٹائٹل ’’حکومتِ الٰہیہ‘‘ تھا جس کا دستورِ اساسی بھی شائع ہو چکا تھا اور اس کے مسلح لشکر کا عنوان ’’جنود ربانیہ‘‘ تھا۔
اس لیے اگر کسی دانشور کو یہ ’’سیاسی اسلام‘‘ قبول نہیں ہے اور حکومت و سیاست اور غلبہ و بالادستی کے عنوان سے انہیں الرجی ہوتی ہے تو وہ انقلابِ فرانس کے بعد کی مسیحیت کی طرز پر اسلام کو جس لبادے میں چاہیں پیش کرتے رہیں مگر خدارا تاریخی حقائق کو مسخ نہ کریں اور تاریخ کی ترتیب تبدیل کرنے کی کوشش نہ فرمائیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ جسے ’’سیاسی اسلام‘‘ کہہ کر پس منظر میں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ ماضی قریب کی تاریخ میں شاہ عبد العزیز دہلوی، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد شہید، حاجی شریعت اللہ، تیتومیر شہید، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، شیخ الہند مولانا محمود حسن، فقیر ایپی، حاجی صاحب ترنگ زئی، مولانا عبید اللہ سندھی او رپیر صاحب آف پگارا شہید کے پرچم تلے آگے بڑھتا رہا اور آج بھی انہی کے خوشہ چینوں نے اپنے ہاتھوں میں اس کا پرچم بحمد اللہ تعالیٰ تھام رکھا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اگر اس ’’سیاسی اسلام‘‘ کو اپنے اسلوب میں پیش کیا ہے تو ان کے اسلوب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ مولانا مودودی کی بہت سی باتوں سے جمہور علماء اہل سنت کو اختلاف ہے اور ہم اس اختلاف میں جمہور علماء اہل سنت کے ساتھ ہیں لیکن جہاں نفاذِ اسلام کی جدوجہد میں مولانا مودودی کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا، وہاں ان سے اختلاف کی آڑ میں برصغیر کی دو سو سالہ تحریکِ آزادی کے نظریاتی اور دینی مقاصد کو نئی نسل کی نگاہوں سے اوجھل کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔