(سوسائٹی فار انٹر ایکشن آف ریلجین، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (SIRST) مانسہرہ کے زیر اہتمام ساتویں قومی سیمینار (منعقدہ دسمبر ۲۰۰۹ء) میں گفتگو۔)
میں سب سے پہلے تو جناب پروفیسر عبد الماجد صاحب اور ’’سرسٹ‘‘ میں ان کی پوری ٹیم کو اس دور افتادہ جگہ میں ایسی شاندار علمی و فکری محفل جمانے اور اس سطح کے اہل فکر و دانش کو جمع کرنے پر ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور ان کا شکر گزار بھی ہوں کہ انہوں نے مجھ جیسے طالب علم کو اس محفل میں شریک ہو کر مستفید ہونے اور اپنی گزارشات پیش کرنے کا موقع عطا فرمایا۔
یہ سیمینار انسانیت کے اجتماعی المیے کے حوالے سے چل رہا ہے، مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ انسانیت کو بحیثیت مجموعی موضوع بحث بنایا گیا، تمام انبیاء علیہم السلام بالخصوص خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا بنیادی موضوع انسانیت کی فلاح ہی رہا ہے، بلکہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا دائرہ تو عالمین تک پھیلا ہوا ہے۔ قرآن حکیم نے عالم کی بجائے ’عالمین‘ کی جو بات کی ہے، اس کی صحیح حقیقت کا انکشاف تو شاید آنے والے کسی زمانے میں ہی ہو اور اس وقت پتا چلے کہ قرآن چودہ سو سال پہلے اکیسویں صدی کے سائنس فکشن سے بھی آگے کی بات کر رہا تھا۔ فی الحال اس طرح کی قرآنی تعلیمات اور تعبیرات کا اتنا اثر تو ہونا چاہیے کہ ہم اس کرہ ارضی پر بسنے والی انسانیت کو بحیثیت مجموعی موضوع بحث بنائیں۔ یقیناًجب بھی انسان پر ایک معاشرتی جاندار کی حیثیت سے بحث ہوگی تو دین و اخلاق کا حوالہ لازماً آئے گا۔ خاص طور پر دین اسلام کے نقطۂ نظر سے اس ایشو پر نظر ڈالے بغیر بحث ہی ادھوری اور نامکمل رہے گی اور ظاہر ہے کہ جب انسان کے اجتماعی المیے کے مسئلے کے ساتھ اسلام کے تعلق پر بات ہوگی تو اسلام کی تشریح و تعبیر سے تعلق رکھنے والے طبقات کا حوالہ بھی ناگزیر ہوگا۔ اسی تناظر میں مجھے علماء کی دیگر طبقات کے ساتھ ہم آہنگی کے فقدان پر عرض کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
ہمارے عرف میں جب علماء کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے عموماً دینی مدارس کے فضلاء مراد لیے جاتے ہیں۔ ان علماء کی جدید طبقے کے ساتھ ہم آہنگی کا سوال تو ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے پہلا سوال ان کی معاشرے اور زندگی کے ساتھ ہم آہنگی کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مدارس میں تعلیم و تدریس کا انداز اور عمومی ماحول کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جیتی جاگتی زندگی کے ساتھ ان کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں علماء اور دینی مدارس کے ذمہ داران کے لیے جو بات سب سے پہلے قابل توجہ معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ جب ان حضرات سے کسی طبقے کے ساتھ ہم آہنگی، روابط یا تعلقات کار بہتر بنانے کی بات کی جاتی ہے تو ان میں سے بعض حضرات کے رد عمل سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسی درخواست یا گزارش کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ ان سے اپنے کچھ حقوق سے تنازل و دستبرداری یا اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں کمپرومائز کی بات کی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ یہ محسوس کر رہے ہوں کہ ان سے کسی اور طبقے کے لیے رعایت مانگی جا رہی ہے یا ان کے مد مقابل کے لیے ان کے سامنے وکالت کی جا رہی ہے یا یہ کہ انہیں اس طرح کی بات کہہ کر کسی مفاد کے حصول کے لیے راغب کیا جا رہا ہے جو ان کے خیال میں (بجا طور پر) اخلاقی پستی اور اپنے مشن سے انحراف کے زمرے میں آتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کئی لوگ انہیں اس طرح کے مشورے واقعی اسی نقطہ نظر سے دیتے ہوں، لیکن عمومی طور پر حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے مشورے خود ان کے اپنے مشن کی بھی ضرورت ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تو دینی علوم کو اس نقطہ نظر سے پڑھنا یا پڑھانا ہو کہ یہ دنیا میں پائے جانے والے چند علوم ہیں یا ایسے علوم ہیں جن سے کسی زمانے میں انسانوں کا ایک بڑا طبقہ اعتنا رکھتا تھا اور اب یہ انسانی تاریخ کا ایک حصہ ہیں، جیسا کہ مستشرقین نے عموماً اسلامی علوم کا اسی زاویہ نگاہ سے مطالعہ کیا اور اپنی تحقیقی کاوشیں علمی دنیا کے سامنے پیش کی ہیں، اگر اسلامی علوم کو اسی زاویہ نگاہ سے پڑھنا پڑھانا ہو جس زاویہ نگاہ سے انہیں مستشرقین نے پڑھا ہے یا آج بھی مغرب کے کئی جامعات میں پڑھے پڑھائے جاتے ہیں تو جیتی جاگتی عملی زندگی اور اپنے سماج سے تعلق کی نوعیت کا سوال اور اس کے بارے میں مشورے اور تجاویز سب غیر متعلق ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر ان علوم کو اس نقطہ نظر سے حاصل کرنا ہو کہ یہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت ہیں تو مذکورہ سوالات اور تجاویز سے صرف نظر ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ انبیاء علیہم السلام کا علم محض برائے علم نہیں ہوتا، علم برائے دعوت ہوتا ہے۔ ان کا علم اس لیے ہوتا ہے کہ انسانوں کی زندگی پر نافذ اور جاری ہو اور انسانوں کو فکری و عملی طور پر انہیں قبول کرنے اور اپنے اندر جذب کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔ یقیناًدینی مدارس میں اسلامی علوم کا حصول اسی زاویہ نگاہ سے ہوتا ہے، اس لیے بنیادی طور پر یہ علماء کرام داعیانہ مشن کے حامل ہوتے ہیں اور داعی کی اپنی ضرورت ہوتی ہے، اپنے ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ اس کے مشن کے لیے کہ لوگوں کو اپنے قریب کرے اور خود ان کے قریب ہو، انہیں سمجھے اور اپنا آپ انہیں سمجھائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف قرآن میں مذکور ہیں ان میں ایک صفت من انفسھم کی بھی ہے جو اسی پہلو کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کا اگر جائزہ لیں تو ان سے بھی یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے۔ مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن کی طرف روانہ فرمایا تو انہیں کچھ نصیحتیں فرمائیں۔ یہ حضرات وہاں حاکم بن کر بھی جا رہے تھے، مفتی بھی، معلم دین اور مبلغ و داعی بھی، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحتیں ان سب شعبوں میں کام کرنے والوں سے متعلق ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا : یسرا ولا تعسرا، لوگوں کے لیے آسانی کرنا، انہیں تنگی میں نہ ڈالنا۔ معلوم ہوا کہ مفتی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے لیے یسر اور سہولت کے پہلو کو مد نظر رکھے، معلم کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کو آسان سے آسان بنائے، حاکم کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ رعایا سے آسانی کا برتاؤ کرے اور انہیں تنگی اور مشقت میں نہ ڈالے۔ مبلغ و داعی کے لیے بھی یہی ہدایت ہے۔ ظاہر ہے کہ لوگوں سے روابط، ان سے تعلقات کار اور انہیں سمجھے بغیر ان کے لیے آسانی کا راستہ نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ اس سے اگلی ہدایت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے وہ اس معاملے میں اس سے بھی واضح ہے، آپ نے فرمایا : بشرا ولا تنفرا، دین کو اس انداز سے پیش کرو کہ وہ خوشی خوشی اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ بشرا کا لفظ بشر سے نکلا ہے جس کا معنی جسم بالخصوص چہرے کے ظاہری حصے کے ہیں۔ تبشیر ایسا خوش کرنے کو کہا جاتا ہے جس سے انسان کا چہرہ دمک اٹھے اور اس کی شکل بتا رہی ہو کہ وہ خوش ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ دین ایسے انداز سے پیش کرو کہ جنہیں وہ پیش کیا جا رہا ہے وہ اسے انتہائی رضا و رغبت کے ساتھ قبول کریں، محض خاموشی نیم رضا والی بات بھی نہ ہو۔ اسی ہدایت کے دوسرے جملے میں فرمایا : ولا تنفرا جس کا لفظی ترجمہ ہم کر سکتے ہیں: ’’انہیں بدکاؤ نہیں‘‘۔ یعنی ان سے ایسا برتاؤ نہ کرو، ان کے سامنے اپنی بات ایسے انداز سے نہ رکھو جس سے وہ تم سے اور تمہاری بات سے دور ہوں اور بدکنے لگیں اور تمہارے قریب آنا انہیں مشکل محسوس ہو۔
بات یہاں سے شروع کی گئی تھی کہ علماء کی جدید طبقے کے ساتھ ہم آہنگی کے فقدان پر بات کرنے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کے سوسائٹی کے ساتھ تعلق کے بارے میں بات کی جائے۔ بہت سے مسئلے اسی جڑ کو پکڑ کر درست کرنے سے حل ہو سکتے ہیں۔ اب تک جو عرض کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کی بحث اور گفتگو ضروری نہیں کہ انہیں یا ان کے شاگردں اور حلقہ اثر کو ’’دنیا دار‘‘ بنانے کے لیے ہو، بلکہ یہ بحث ان کے عظیم داعیانہ بلکہ قائدانہ منصب کا تقاضا ہے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے ایک جگہ دینی مدرسے کا تعارف کراتے ہوئے بڑی خوبصورت بات کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ دینی مدرسہ در حقیقت وہ پائپ لائن ہے جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل کرتی اور زندگی کو اس سے سیراب کرتی ہے، اس لیے اس کا کام تب پورا ہوتا ہے جب اس کا ایک سرا دربارِ رسالت سے جڑا ہوا ہو اور دوسرا سرا جیتی جاگتی عملی زندگی سے۔ اس پہلو سے اگر دیکھیں تو ہمارے مدارس کے فضلاء کے مزاج، رویے اور سوچ میں بہتری کی گنجائش اور ضرورت کے موجود ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس سلسلے میں یہاں چند گزارشات پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ہمارے مدارس کا نظام تعلیم و تربیت کچھ ایسا ہے کہ طالب علم شروع ہی سے اپنے ماحول اور معاشرے سے گھل مل نہیں پاتا۔ کم از کم آٹھ سالہ درس نظامی کے دوران سال کے تعلیمی ایام تو اسے گھر سے دور کسی مدرسے میں گزارنے ہی ہوتے ہیں۔ تقریباً دو ماہ کی سالانہ تعطیلات میں بھی بیشتر طلبہ کی اولین ترجیح اور خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ یہ ایام بھی کسی ’’دورہ‘‘ وغیرہ کے عنوان سے کسی مدرسے ہی میں گزاریں۔ یوں وہ تعلیم کے پورے عرصے کے دوران نہ صرف اپنے گاؤں، شہر اور معاشرے سے بلکہ اپنے خاندان تک سے کٹا رہتا ہے۔ (اسی لیے میں تو بیشتر طلبہ کو یہ مشورہ دیا کرتا ہوں کہ وہ تعطیلات اپنے گھر میں گزارنے کی کوشش کریں بلکہ کھیتی باڑی، کاروبار وغیرہ میں والدین کے کام میں کچھ ہاتھ بھی بٹائیں)۔ اوپر سے بعض اوقات جونہی ایک بچہ یا نوجوان دینی تعلیم کے حصول کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ اب وہ چونکہ ’’دنیادار‘‘ سے ’’دین دار‘‘ ہونے جا رہا ہے، اس لیے اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ’’دنیا داری‘‘ کے انتہائی گندے تالاب سے نکل کر ’’دین داری‘‘ کی انتہائی مقدس دنیا کی طرف جا رہا ہے، اب پچھلی دنیا سے اس کا کوئی واسطہ اور لینا دینا نہیں ہے۔ اگر کبھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی ہے تو ان ’’دنیا دار‘‘ اور ’’گنہگار‘‘ لوگوں کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے کے لیے۔ اس طرح اس میں اپنی سوسائٹی میں گھلنے ملنے اور سماج کی فکرمندیوں، غموں اور خوشیوں کا حصہ بننے، اپنے معاشرے اور ملک کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھنے کا داعیہ پیدا نہیں ہو پاتا۔ اس طرح سے اس کی اور اس جیسے کچھ اور لوگوں کی ایک بالکل الگ ذہنی دنیا آباد ہوتی ہے جس سے باہر نکلنا وہ گوارا نہیں کرتا اور یہ صورت حال اس کے گاؤں کی سطح سے لے کر ملکی اور عالمی مسائل تک ہوتی ہے۔ فرض کریں، کبھی ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہوں جس کے نتائج ملک کی سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی تعلقات وغیرہ کے حوالہ سے فیصلہ کن اور گہرے دور رس اثرات مرتب کرنے والے ہوں، اتفاق سے انہی انتخابات میں کسی ایک آدھ نشست پر کسی دینی جماعت کے کوئی راہ نما بھی امیدوار ہوں اور وہاں کسی قدر فرقہ وارانہ نوعیت کا انتخابی معرکہ بپا ہو، ایسے ماحول میں آپ پورے ملک کے مدارس کا دورہ کر کے اور ان میں زیر تعلیم طلبہ کی الیکشن میں دلچسپیوں کے رخ کا جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ ان میں سے کتنے لوگ اس پر بحث کر رہے ہیں کہ بحیثیت مجموعی کون سی جماعت کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں ملک کے اندرونی و بیرونی معاملات پر کیا مثبت یا منفی اثرات ہوں گے اور ملکی پالیسیاں کیا رخ اختیار کریں گی، اور ان طلبہ میں کتنے ایسے ہوں گے جن کی ذہنی سوئی اسی ایک انتخابی نشست پر اٹکی ہوئی ہوگی جس کے بظاہر ملک کی عمومی صورت حال پر کوئی خاص اثرات مرتب ہونے والے نہیں ہوں گے۔ حاصل یہ کہ چھوٹے سے چھوٹے دائرے سے لے کر وسیع سے وسیع تر سطح پر دیکھیں تو ہمارے ان مدارس کے اندر تعلیم حاصل کرنے والوں میں من انفسھم جیسے اہم نبیوں والے وصف کی جھلک بہت کم نظر آئے گی۔ دینی مدارس کے ذمہ داران کو اس صورت حال کے اسباب کا تجزیہ کر کے اس سے نکلنے کی کوئی صورت ضرور نکالنی چاہیے۔
علماء کرام کی جدید طبقے کے ساتھ ہم آہنگی بھی ایک حد تک اسی صورت حال کا شاخسانہ ہے۔ علماء کرام اور جدید طبقے کے تعلقات کی جب ہم بات کرتے ہیں تو ’’جدید طبقے‘‘ میں کئی قسم کے لوگوں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو سرے سے مسلمان ہی نہیں ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جو مسلمان ہونے کے باوجود اپنے کام اور شعبے میں ایسے منہمک ہیں کہ دین کی تشریح و تعبیر یا مسلم امہ کے عمومی مسائل سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ کچھ حضرات ایسے ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر دینی مدارس کے نظام میں تعلیم نہیں پائی ہوتی یا اس میں تعلیم پانے کے باوجود ان کے فکری منہج سے وابستہ نہیں رہے ہوتے، تاہم دینی علوم ان کی محنتوں کا محور ہوتے ہیں لیکن دین کی تفہیم و تعبیر میں ان کا نقطہ نظر دینی مدارس کے حضرات سے مختلف ہوتا ہے۔ بعض حضرات ایسے بھی ہیں جو دینی علوم میں نہ تو مہارت کا دعویٰ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان میں اپنی آرا رکھتے اور ان کا اظہار کرتے ہیں، البتہ مسلم امت کو بحیثیت مجموعی درپیش مسائل اور چیلنجز کے بارے میں وہ سوچتے بھی ہیں اور ان ایشوز پر اپنی رائے بھی رکھتے ہیں اور بسا اوقات ان کے پیش کردہ حل اور تجاویز دینی مدارس کے علماء کی سوچ اور فکر سے مختلف ہوتی ہیں۔ اس وقت بنیادی طور پر ہم موخر الذکر دو طبقات کے ساتھ علماء کرام کے تعلقات کے حوالے سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بات تو کافی حد تک درست ہے کہ ان طبقات اور علماء کرام میں ہم آہنگی کا فقدان ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم آہنگی پیدا کرنے کا مطلب کیا ہے؟ ہم آہنگی سے مراد یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر ہر ایشو پر سب کی رائے بالکل ایک ہو۔ ایسا ہونا نظام قدرت کے خلاف ہونے کے ساتھ تنوع سے پیدا ہونے والے حسن اور اختلاف رائے سے پیدا ہونے والے متبادل راستوں سے ہاتھ دھونے کا بھی باعث ہوگا۔ ہم آہنگی سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف تو ہو مخالفت نہ ہو، سب ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے اور گوارا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ان تمام طبقات کو اس بات کا بھرپور ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے تجویز کردہ راستے اگرچہ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن منزل سب کی ایک ہے۔ منزل ایک ہونے کا ادراک اپنے بارے میں بھی ہو اور دوسروں کے بارے میں۔ اپنے بارے میں اس معنی میں کہ منزل سے نظر ہٹ جانے کی وجہ سے اپنے تجویز کردہ راستے ہی کو منزل سمجھنے کی غلطی نہ ہو، اور دوسروں کے بارے میں اس معنی میں کہ ان کے بارے میں محض اپنے حریف ہونے کا تصور نہ ہو بلکہ ایک معنی میں ہم سفر ہونے یا ہم منزل ہونے کا ادراک بھی ہو اور ان طبقات سے ان کا فرق ملحوظ رہے جن کی منزل ہی بالکل الگ ہے۔ اس ادراک اور استحضا ر کی ذمہ داری صرف ایک خاص طبقے پر نہیں ڈالی جا سکتی، بلکہ یہ گزارش ان تمام طبقات سے کرنی ہوگی جن کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا مقصود ہے۔
دوسری بات اس سلسلے میں قابل گزارش یہ ہے کہ ہر طبقے کو چاہیے کہ وہ دوسرے طبقے سے ربط و تعلق، ان کی بات سننے اور اپنی بات سنانے اور ایک دوسرے کی بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کو خود اپنی، اپنے مشن اور اپنے مقاصد کی ضرورت سمجھے۔ دو وجہ سے، ایک تو اس لیے کہ میں دیانت داری سے اگر ایک نقطہ نظر یا ایک تجویز کو درست سمجھتا ہوں اور میری یہ بھی دیانت دارانہ رائے ہے کہ دوسرا شخص بھی میری بات کو قبول کر لے تو اچھاہوگا، تو میں اس بات کا ایک طرح سے داعی بن گیا ہوں۔ اس لیے دعوتی رویہ اور انداز اپنانا میرے اپنے مقصد کی ضرورت ہے، اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، داعی کا کام تبشیر ہے ، تنفیر اس مقصد کے لیے مضر ہے۔ داعی کا کام تقاضا کرتا ہے کہ وہ خود بھی دوسروں کے قریب ہو اور دوسروں کو اپنے قریب کرے۔ اگر میں کسی کی بات سننے ہی کا روادار نہیں ہوں گا تو اس کے میرے دعوتی مقاصد پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جن طبقات کی ہم بات کر رہے ہیں، ان کی منزل اور بنیادی مقاصد ایک ہیں۔ اپنے مقصد اور اپنی منزل سے سچی لگن کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے بہتر سے بہتر راستے اور موثر سے موثر طریق کار کے لیے متلاشی رہے۔ اپنے مقاصد سے سچی لگن رکھنے والا کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس حصول کے لیے جو کچھ سوچا اور کیا ہے، وہی کافی ہے۔ اگر کسی اور کے ہاں اسے کوئی ایسی چیز ملے جو اسے مقصد کے قریب کر سکتی ہو تو وہ لازماً اس طرف توجہ دے گا اور اس سے محض اس وجہ سے منہ نہیں پھیرے گا کہ وہ بات ہمارے لوگوں کی نہیں ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دانائی کی بات مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں سے بھی اسے ملے وہ اس کا حق دار ہے۔ اس حدیث مبارک میں در اصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشروں کے ایک دوسرے سے استفادے میں حائل ایک بہت بڑی نفسیاتی رکاوٹ کو دور فرمایا ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ اگر اچھی بات اپنے کسی حریف اور مد مقابل کی طرف سے سامنے آئے تو اسے قبول کرنے میں انسان کی انا رکاوٹ بن جاتی ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ میں اس کی بات لے کر ایک طرح سے اس کے زیر احسان ہو جاؤں گا اور اس کی چیز استعمال کرنے والا بن جاؤں گا۔ یہ تصور اس کے دل میں اس کے استعمال کے بارے میں خاص قسم کی ہچکچاہٹ پیدا کرتا ہے۔ اگر میرے پاس اپنی گھڑی نہیں ہے اور کوئی دوسرا شخص کہہ دیتا ہے کہ میری گھڑی تم باندھ لو اور اپنے استعمال میں لے آؤ تو فطری بات ہے کہ مجھے اپنی کمتری کا ایک خاص قسم کا احساس ہوگا کہ میں فلاں کی چیز استعمال کر رہا ہوں، لیکن اگر مجھے یہ بتا دیا جائے کہ یہ چیز ہے ہی تمہاری، یا اس پر تمہارا بھی اتنا ہی حق بنتا ہے جتنا دوسرے کا تو ظاہر ہے کہ میری یہ خاص قسم کی ہچکچاہٹ ختم ہو جائے گی۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث مبارک میں اسی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ کر مسئلے کو جڑ سے پکڑا ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مومن کو یہ نہیں بتا رہے کہ دانائی کی بات کسی سے اگر ملتی ہے تو وہ ہے تو اسی کی مگر تم اسے لے لو، بلکہ آپ یہ فرما رہے ہیں کہ وہ تمہاری ہے، اس لیے اس کے لینے میں تمہیں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ دانائی کی کوئی بھی بات ہو انسان زیادہ سے زیادہ اسے دریافت کرتا ہے اس کا خالق نہیں ہوتا، اسے پیدا کرنے والے کی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے خاص فرد یا خاص قوم کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے پیدا کیا ہے، اس لیے اسے دریافت کرنے والے کو اس دریافت کا کریڈٹ اور صلہ تو ضرور ملنا چاہیے، لیکن اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ دانائی ہے ہی اس دریافت کرنے والی کی، کوئی اور اگر اس سے فائدہ اٹھائے گا تو دوسرے کی چیز سے مستفید ہو کر اس کے مقابلے میں کم تر ہو جائے گا تو یہ غلط فہمی ہوگی۔ اس لیے کہ خالق کائنات نے یہ چیز جن کے لیے بنائی ہے، ان میں صرف اس کو دریافت کرنے والا ہی نہیں، استعمال کرنے والا بھی شامل ہے۔ حاصل یہ کہ مذکورہ بالا قدیم و جدید طبقات کو ایک دوسرے کی بات سننے کا تسلسل جاری رکھنا چاہیے، اپنی ضرورت سمجھ کر کہ ہو سکتا ہے کہ ہماری اپنی متاع دوسرے کے پاس موجود ہو اور اب تک ہم اسے حاصل نہ کر سکے ہوں، یہ ضرورت دونوں طبقوں کی ہے۔ طبقہ علما دیگر طبقات سے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے اور دیگر طبقات کے سیکھنے کے لیے طبقات علماء کے پاس بھی بہت کچھ موجود ہو سکتا ہے۔
یہاں دینی مدارس کے حلقوں کے دو معروف بزرگوں کی مثالیں ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ان میں ایک تو مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی شخصیت ہے جنہیں عموماً بانی دار العلوم دیوبند کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے سوانح قاسمی میں دارالعلوم دیوبند کے جلسہ دستار بندی کے موقع پر دیا گیا مولانا نانوتوی کا ایک خطبہ نقل کیا ہے جس میں انہوں نے اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ ہم نے اپنا نصاب اس انداز سے تشکیل دیا ہے کہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد طالب علم عصری تعلیمی اداروں کا رخ بھی کر سکے۔ دوسری مثال شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی زندگی کا وہ آخری خطبہ صدارت ہے جو ان کی طرف سے جامعہ ملیہ کے افتتاحی جلسے میں پڑھا گیا تھا۔ اس میں انہوں نے کھل کر اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ جب انہوں نے محسوس کیا کہ جس درد اور فکر کو وہ اٹھائے پھر رہے ہیں، اس میں ان کے ہمنوا بننے والے کالجز اور یونیورسٹیز کی لائن میں زیادہ لوگ مل سکتے ہیں تو انہیں خیال ہوا کہ ایک قدم اس طرف بھی بڑھا کر دیکھ لیا جائے۔ ان دو مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دینی مدارس کی لائن کے بزرگوں کے پیش نظر یہ بات نہیں تھی کہ وہ باقی طبقات زندگی سے کٹی ہوئی کوئی مخلوق تیار کریں جو کسی اور کے قریب جانے یا کسی کو اپنے قریب کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔
تیسری گزارش میں یہاں پر یہ کرنا چاہوں گا کہ ایک دوسرے کی بات سننے اور سنانے کے نتیجے میں جہاں بعض باتوں پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے، کئی مشترکہ و متفقہ نکات اور پہلو سامنے آسکتے ہیں یا ایک طبقے کے لوگ دوسرے طبقے کے بعض لوگوں کی کسی بات سے متفق ہو سکتے ہیں، وہیں ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور اس اختلاف کا اظہار بھی ہو سکتا ہے۔ اتفاق ہو یا اختلاف رائے دونوں کے فوائد ناقابل انکار ہیں، لیکن ماضی میں ایک دوسرے طبقے کے ساتھ تخاطب میں دونوں طرف سے بعض ایسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہونے یا کم از کم ایک دوسرے کی بات پر سنجیدہ غور کرنے کی راہ میں حائل ہوگئی ہیں۔ بہت سی جگہوں پر اندازِ بیان حریفانہ ہوگیا ہے جو کہ ظاہر ہے کہ ایک ہی منزل کے راہیوں کے شایان شان نہیں ہے۔ بعض اوقات اندازِ تخاطب میں چبھن یا ایک دوسرے کی تحقیر بھی پیدا ہوگئی۔ مثلاً ایک طبقے کے بعض لوگوں کو کسی قدر استہزا کے انداز میں حالاتِ زمانہ سے ناواقف قرار دیا گیا، دوسرے طبقے کی طرف سے جواب میں پہلے کی نیت یا اسلام سے اس کے لگاؤ ہی پر شک کا اظہار کر دیا گیا، بعض حالات میں ایک دوسرے کی کسی موضوع پر رائے زنی کی اہلیت یا استحقاق ہی کو چیلنج کر دیا گیا گیا جس سے حریفانہ کشمکش میں اضافہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں طرف سے ہی اس طرح کے انداز خطاب نے دوریاں اور بد گمانیاں پیدا کرنے میں کردار ادا کیا ہے، اگرچہ دونوں طرف سے استثناء ات بھی کم نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے، اس لیے کہ اس طرح کے اختلافی امور پر بات یا تو مباحثے کے لیے ہوتی ہے یا دوسرے شخص کو اپنی بات کا قائل کرنے اور اسے دعوت دینے کے لیے۔ مذکورہ لب و لہجہ دونوں مقاصد کے منافی ہے، خاص طور پر ایک دوسرے کی نیت پر حملہ کرنے یا دوسرے فریق کی اس موضوع پر بات کرنے کی اہلیت ہی کو جلدی سے چیلنج کر دینے کا انداز مطلوبہ نتائج کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔
ہمارے ایک استاذ حضرت مولانا عبد المجید انور صاحبؒ اپنا ایک لطیفہ نما واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ وہ کہیں سفر کے لیے ویگنوں کے اڈے پر گئے۔ جیسا کہ ہوتا ہے، مختلف ویگنوں اور بسوں والے ان کے پیچھے ہوگئے، کہاں جانا ہے، فلاں جگہ جانے کے لیے فلاں قسم کی سواری بالکل تیار ہے۔ ہر کوئی اپنی گاری کی طرف بلا رہا ہے، مولانا ان کی صداؤں کو نظر انداز کرتے تشریف لے جا رہے ہیں۔ اتنے میں ایک کنڈکٹر ان کے ہاتھ سے بیگ کھینچتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ مولانا اپنے بیگ پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے اس سے کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہاں جانا ہے اور کون سی گاڑی پر بیٹھنا ہے۔ وہ کارندہ مایوس ہو کر یہ کہتے ہوئے پیچھے ہٹ جاتا ہے: ’’تسیں مولویاں نے ہی ملک دا بیڑا غرق کیتا اے‘‘ (تم مولویوں نے ہی ملک کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے)۔ مولانا فرماتے تھے کہ چونکہ میں اس کی گاڑی میں نہیں بیٹھا، اس لیے صرف میں نہیں، میرے جیسے سارے مولوی ہی ملک کا بیڑا غرق کرنے کے ذمہ دار ہوگئے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہم نے اپنی اپنی ویگنیں اور بسیں بنائی ہوئی ہیں اور جو ہماری بس میں نہ بیٹھے وہ ملک و ملت کا غدار ہے، وہ اس قابل نہیں کہ اس کی بات بھی سنی جائے۔
جس طرح میاں بیوی کے درمیان مزاج کی ہم آہنگی کا فقدان ہو تو بھی ایک چیز ایسی ہوتی ہے جو انہیں ایک دوسرے کے قریب رکھتی اور بنا کر رکھنے پر مجبور کرتی ہے، اور وہ چیز ہے ان کی اولاد۔ اس لیے کہ ان کی بہبود دونوں کا مشترکہ مسئلہ اور خواہش ہے، دونوں کا ان کے ساتھ لگاؤ بھی یکساں نوعیت کا ہے۔ جتنا ان کا اولاد کی طرف دھیان رہے گا، اتنا ہی ان کے باہمی اختلاف اور تنازعے میں کمی آئے گی اور جتنی یہ نظروں سے اوجھل ہوگی، اتنی ہی ان کی باہمی کش مکش اپنے اثرات زیادہ دکھائے گی۔ جن طبقوں کی یہاں ہم بات کر رہے ہیں، ان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہاں بھی ایک چیز ایسی ہے جس کی طرف زیادہ توجہ کرنے سے ان دونوں میں قرب بڑھ سکتا ہے، اور وہ ہے امت کی مجموعی مشکلات و مسائل، اسے درپیش چیلنجز اور عام لوگوں کو دین پر عمل کے سلسلے میں پیش آنے والی دشواریاں۔ ان کی طرف توجہ مبذول ہونے کے لیے عملی اور زمینی حقیقتوں کا ادراک ضروری ہے۔ بعض اوقات دونوں طبقوں میں نظری قسم کی بحثیں زیادہ ہوتی ہیں جو انہیں ایک دوسرے سے زیادہ دور لے جاتی ہیں۔ اگر ان نظری بحثوں کے ساتھ عملی حقائق و واقعات اور لوگوں کی مشکلات، کسی خاص پالیسی، قانون یا حکم کے ان کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات پر بھی نظر ہو تو یہ چیز ان کے درمیان فاصلے اسی طرح کم کر سکتی ہے جیسے اولاد میاں بیوی کے درمیان۔
اس سلسلے میں ہم یہاں مثال دے سکتے ہیں عائلی قوانین پر پچھلی صدی کے پچاس کے عشرے میں شروع ہونے والی بحث کی جس نے اپنی بحثوں کو نظریاتی چیزوں تک ہی محدود رکھا، کسی نے بھی بالتفصیل عملی حقائق معلوم کرنے اور یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ کس طرح کے قانون یا حکم سے لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ بالخصوص عورتوں اور بچوں پر کس صورت پر کیا بیتے گی۔ حکومت کے مقرر کردہ عائلی کمیشن رپورٹ میں قرآن کی تشریح و تعبیر کے لیے نئے اجتہاد کی ضرورت جیسی عمومی بحثوں پر کئی صفحات موجود ہیں، لیکن حیرت کی بات ہے کہ زیر بحث خاندانی مسائل میں امر واقعہ کیا ہے؟ کس مسئلے میں کیا ہو رہا ہے؟ اور اس پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس بارے میں اعداد و شمار اور معلومات اس رپورٹ میں موجود ہی نہیں اور نہ ہی انہیں اکٹھا کرنے اور میدانی تحقیق (فیلڈ ورک) کرانے کی کوئی ضرورت محسوس کی گئی۔ جب تک معاشرے کے بارے میں جس پر مجوزہ قوانین لاگو ہونے ہیں، درست معلومات موجود نہیں ہوں گی، تب تک یہ فیصلہ کیسے کیا جا سکے گا کہ جو کچھ تجویز کیا جا رہا ہے، اس سے مطلوبہ نتائج برآمد ہوں گے۔
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک ان مسئلوں پر بحث کسی نہ کسی سطح پر جاری ہے اور اس میں ایک فریق دوسرے کو یہ الزام دے رہا ہے کہ وہ معاشرے کو پیچھے کی طرف لے جانا چاہتا ہے اور دوسرا پہلے کو یہ الزام کہ وہ مطلوبہ رفتار سے زیادہ تیزی کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ کہ یہ تیز رفتاری خطرناک ہو سکتی ہے، لیکن معاشرے میں کیا ہو رہا ہے، کن کن علاقوں میں کتنے فیصد بچپن کے نکاح ہو رہے ہیں؟ ان کے محرکات اور عوامل کیا ہوتے ہیں؟ ان میں کتنے نکاحوں میں رخصتی تک نوبت پہنچتی ہے اور کتنوں میں رخصتی سے پہلے ہی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں؟ رخصتی ہو جانے کے بعدان میں کتنے فیصد نکاح کامیاب ثابت ہوتے ہیں؟ یا مثلاً ہماری عورتیں خلع یا فسخِ نکاح کا دعویٰ لے کر عدالتوں میں آتی ہیں، اس کی وجوہات عموماً کیا ہوتی ہیں؟ وکیل کے تیار کیے ہوئے کیس اور حقیقی وجوہات میں کتنی یکسانیت ہوتی ہے؟ کتنے فیصد مقدمات میں واقعی بیوی اپنے خاوند سے علیحدگی چاہتی ہوتی ہے اور کتنے فیصد کیسوں میں وہ اپنے خاندان کی انا کی بھینٹ چڑھ کر دباؤ کے تحت عدالت میں بیان دے رہی ہوتی ہے؟ میاں بیوی کے درمیان تفریق کے بعد کیا ہوتا ہے اور کسے کس طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے؟ اس طرح کے بے شمار سوالات ہیں جن کے بارے میں قابل اعتماد اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، حالانکہ آج شماریات کا دور ہے، ہر کامیاب پالیسی کے پیچھے میدانی تحقیق (field research)، مصدقہ سروے اور اعداد و شمار ہوتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جدت پسندی کا دعویٰ کرنے والوں کو بھی اس طرح کے مسائل میں امرِ واقعہ جاننے اور اس کے لیے سائنٹیفک انداز اپنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ حکومتی وسائل کے ساتھ اسلام پر کام کرنے والے اداروں نے اس طرح کا کام کروانے کی غالباً کبھی ضرورت محسوس نہیں کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جدید دینی موضوعات پر ہماری بحثوں اور تحقیقات کی نوعیت نظری زیادہ اور عملی کم ہے، حالانکہ سائنسی انداز سے سامنے لائے جانے والے حقائق کا نہ تو انکار ممکن ہوتا ہے اور نہ کوئی اس سے صرف نظر کر سکتا ہے، ہم عملی صورت حال اور جیتی جاگتی زندگی سے جتنا متعلق ہوں گے، اتنا ہی ایک دوسرے کے قریب ہوں گے۔
بہرحال ہم آہنگی کی اساس یہی ہے کہ ایک دوسرے کی بات کو سنا اور سنایا جائے، اس پر غور کیا جائے۔ الحمد للہ آج کی صورت حال گزشتہ ایک آدھ عشرے کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے۔ کئی ایسے فورم موجود ہیں جہاں دونوں طبقے کے لوگ اکٹھے ہوتے اور ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں اور ایسے ہر پروگرام کے بعد ہر طبقے کے شرکا اس کی افادیت اور اس طرح کے پروگرام مزید ہونے کی ضرورت کا اعتراف کرتے ہیں۔ ’’سرسٹ‘‘ بھی اسی نوعیت کی اچھی کوشش ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے زیادہ سے زیادہ بار آور بنائیں۔ آمین۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
(بشکریہ مجلہ ’’سائنس ریلیجین ڈسکورس‘‘ ۲۰۱۰ء)