۸ فروری کو میرا ایک کالم ’’دور جدید کے تقاضے اور شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں، میں نے شعبہ کے اساتذہ کی تصانیف کی فہرست پیش کی تھی اور ساتھ عرض کیا تھا کہ اس میں سوائے ایک کتاب (یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ) کے کوئی دوسری کتاب ایسی نظر نہیں آتی جس میں ہمارے سماجی اور ریاستی نظام کو زیر بحث لایا گیا ہو۔ ماضی بعید یا قریب کے کسی مفسر، کسی محدث، کسی سیرت نگار اور کسی فقیہ کو تحقیق کا موضوع بنانا بھی بلا شبہ بہت اہم کام ہے۔ آخر ہم اپنے کلاسیکی دینی لٹریچر کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں، وہ تو ہماری تہذیبی زندگی کی اساس ہے، لیکن میرے نزدیک اساتذہ کرام کی یہ روش کسی طرح بھی موزوں و مناسب نہیں کہ وہ آج کی پر مسائل اور پر مصائب زندگی سے آنکھیں پھیر لیں۔ اگر ہم اسلام کو زندگی کی تمام اطراف کے لیے راہنما دین مانتے ہیں تو پھر اس کی تشریح و توضیح عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق کیوں نہ کریں۔
اساتذہ کرام کی کتابوں کے بعد جب مجھے شعبہ اسلامیات کے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات کی فہرست دیکھنے کا اتفاق ہوا تو سچی بات ہے میرا دل امید کی روشنی سے بھر گیا۔ یوں لگا جیسے راکھ میں ابھی کچھ چنگاریاں باقی ہیں۔ مذکورہ فہرست شعبہ کے اساتذہ ہی نے ترتیب دی اور شعبہ ہی نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1990ء میں منظر عام پر آیا تھا، تب سے آج تک اس کے چھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے علمی برادری میں بہت پذیرائی ملی ہے۔ یقیناًدیگر یونیورسٹیوں اور علمی اداروں میں اس سے بہت کچھ استفادہ کیا گیا ہوگا۔ طبع سوم میں فاضل مرتبین نے تعارفی نوٹ میں لکھا: ’’مقالات کے لکھوانے کا مقصد جہاں طلبہ و طالبات کی تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے، وہاں اہم عصری و تہذیبی مسائل پر قرآن و سنت اور عصری علوم کی روشنی میں معاشرے کی رہنمائی بھی کرنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ تحقیقات محض لائبریریوں کی زینت نہ بنی رہیں بلکہ اہل علم و محققین اور معاشرے کے دیگر طبقات کے سامنے بھی لائی جائیں تاکہ وہ اس سے رہنمائی حاصل کریں۔ مذکورہ فہرست کا ایک مقصد ارباب دانش کو اس تحقیقی کام کی اہمیت و افادیت کی طرف توجہ دلانا ہے۔‘‘
مذکورہ فہرست کے مطابق 1952ء سے 2009ء تک ایم اے کے 1634، ایم فل کے 88 اور پی ایچ ڈی کے 175 مقالات لکھے گئے ۔۔۔ (معلوم نہیں سرورق پر 2010ء - 1952ء کا دورانیہ کیوں ظاہر کیا گیا ہے) ۔۔۔ ایم اے کے بعض مقالات پنجاب یونیورسٹی سے ملحقہ کالجوں میں بھی لکھے گئے، لیکن مرتبین نے پیش لفظ میں یہ وضاحت نہیں دی۔ یہ وضاحت نہ دینے سے یوں لگتا ہے جیسے ایم اے کے تمام مقالات شعبہ ہی کے طلبہ و طالبات نے لکھے ہیں ۔۔۔ ’’فہرست مقالات‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم بے شمار ایسے عنوانات سے متعارف ہوتے ہیں جن کا تعلق آج کے دور سے ہے۔ بعض مقالات کتابی صورت میں بھی اہل علم تک پہنچے ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اساتذہ کے تصنیفی سرمایے پر جو اظہار خیال کیا تھا تو اس کا مقصد خدانخواستہ ان کے مقام و مرتبے کو گھٹانا نہ تھا بلکہ توجہ دلانا تھا کہ وہ معاصر ملی و عالمی مسائل کو بھی موضوع تحقیق بنائیں۔ فہرست مقالات نے شہادت دی ہے کہ اساتذہ کرام نے اپنے شاگردوں سے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی ، تینوں سطحوں پر ایسے موضوعات پر بہت کام کروایا ہے۔ اس حوالے سے اُن کی مساعی یقیناًقابل قدر ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اور زیادہ توفیق عطا کرے۔ یہاں گنجائش تو نہیں کہ مختلف النوع موضوعات پر لکھے گئے سبھی مقالات کا تعارف کرایا جائے، البتہ ایسے عنوانات کی فہرست قارئین کی نذر کی جاتی ہے جس میں قارئین ملی و ملکی اور عالم اسلام کے جدید ترین مسائل پر ہونے والے کام سے تعارف حاصل کر سکتے ہیں۔
ایم اے کے مقالات:
اسلام میں انشورنس کی اہمیت اور پاکستان میں اس کے نفاذ کی تدابیر، موجودہ دور کی تعلیم یافتہ مسلمان عورت کی الجھنیں اور ان کا حل، پاکستان کی نسوانی تحریکیں، ٹیکس کا موجودہ نظام اور زکوٰۃ، سینما کی شرعی حیثیت، موجودہ جہیز۔ ایک غیر اسلامی معاشرتی خرابی، یونیورسٹی میں پردے کا مستقبل، میثاق استنبول، موجودہ مسلمان معاشرے میں لڑکی کی حیثیت، پاکستان کی دینی جماعتوں کا مختصر جائزہ، اسلام اور بہبودئ اطفال، دور حاضر میں عورت کی ملازمت کا مسئلہ، پاکستانی معیشت میں بلاسودی اسکیم کے نفاذ کا جائزہ، نجی سرمایہ کاری کے اسلامی اصول و ضوابط، شریعت بل، الجہاد فی افغانستان، پاکستانی معاشرے پر تہذیب جدید کے اثرات، انشورنس اور اسلام، پاکستان میں بے روزگاری کے عوامل اور اسلام کی روشنی میں انسداد، پاکستان میں نظام سرمایہ داری اور اسلام میں کشمکش، پاکستان میں نظام ٹیکس اور اسلام کے حوالے سے ناقدانہ جائزہ، عصر حاضر میں نابینا افراد کی بحالی اور اسلام، سقوط ڈھاکہ کے نظریاتی اسباب، قرآن و سنت کی روشنی میں مصوری اور مجسم سازی، اعضاء کی پیوند کاری اور انتقال خون، آئین 1973ء کی 8ویں ترمیم، منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحانات، انتظامیہ اور عدلیہ کی علیحدگی کا عصری اور اسلامی تصور، ٹیسٹ ٹیوب کی شرعی حیثیت، تعلیمی پالیسی 1978ء کا تنقیدی جائزہ، پاکستان میں نظام انتخابات، حدود آرڈیننس کا جائزہ، نفسیاتی طریقۂ علاج۔ ایک جائزہ، نیو ورلڈ آرڈر، سانحہ بابری مسجد، نئی نسل کے مسائل، بچوں کی جبری مشقت، حقوق نسواں کی تحریکیں، شیئرز، پرائز بانڈ اور انعامی سکیمیں، مسئلہ ربا اور عصری تفاسیر، سٹاک ایکسچینج، موجودہ دور کے نفسیاتی مسائل، تعلیم یافتہ عورت کے مسائل، معاشی بدحالی کے اسباب و اثرات، کلوننگ کی شرعی حیثیت، دست شناسی، موجودہ نظام وکالت، پاکستان میں جاگیرداری نظام، عائلی زندگی کے مسائل، امریکہ اور اقوام متحدہ کے تعلقات عالم اسلام کے تناظر میں، طالبان کی بت شکنی، این جی اوز کا کردار، جیلوں میں دعوت و اصلاح کے امکانات، خاندانی منصوبہ بندی، فدائی حملے، 11 ستمبر 2001ء کا بحران، جرائم کی صورت حال، خواتین کی تفریحی سرگرمیاں، افغانستان پر امریکی حملے کے مضمرات، ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل، الیکٹرانک میڈیا میں دینی پروگرامات، طلاق کے موجودہ رجحانات، بینکاری میں لیزنگ، بھارتی اقلیتوں کی حالت، دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم، گلوبلائزیشن کے اثرات و نتائج، گداگری، زیردست لوگوں کی معاونت، سود کی جدید صورتیں، تعین اجرت کے اصول، طالبان کا نظام حکومت اور کوٹ میرج۔
ایم فل کے مقالات:
عصر حاضر میں دین کی تفہیم۔ فکر مودودی کا مطالعہ، پاکستان میں دینی یکجہتی کے لیے کی گئی کاوشیں، عصری معاشری مسائل، بیسویں صدی کے اردو فتاویٰ کا تحقیقی و تقابلی مطالعہ، پاکستان میں غیر مسلموں کو دعوت دین۔ طریق کار اور عصری تقاضے، دینی مدارس کا نصاب تعلیم۔ عصری مسائل اور تقاضے، مختلف تجارتی صورتیں اور ادائیگی زکوٰۃ کا طریق کار، عالمی اقتصادی نظام کی تشکیل نو اور اسلامی تعلیمات، مغرب کی تہذیبی و ثقافتی یلغار۔ ذرائع ابلاغ کا کردار، اسلام میں عورت کی وراثت۔ عصری قوانین اور عملی صورت حال، پاکستان میں غیر مسلم اقلیتیں، پاکستان میں عدالتی بحران، پاکستان میں اسلامی بینکاری، کیرن آرمسٹرانگ کا اسلوب مطالعہ، غاصب حکمران کی حکمرانی کا مسئلہ، عالم اسلام کے قدرتی وسائل کے عالمی سیاست پر اثرات، پاکستان کا معاشی بحران اور اس کا اسلامی حل، سود سے متعلق عملی مسائل اور علمائے پاکستان،غلبۂ دین۔ تصور طریقہ کار اور عصر حاضر، معاشرتی اقدار پر ذرائع ابلاغ کے اثرات۔
آخر میں پی ایچ ڈی کی سطح کے تحقیقی کام میں سے اس حصے کو ملاحظہ فرمائیے جس میں دور جدید کے مسائل و افکار پر داد تحقیق دی گئی ہے: اسلامی قانون میں نظریۂ ضرورت کی اہمیت، مالدیپ کی مضاربت اور ادب پر اسلام کے اثرات، معاشرتی بہبود کا تصور، اسلام اور عصری افکار کی روشنی میں، افواج پاکستان کی دینی و نظریاتی تربیت، عورت کی حکمرانی قرآن و سنت اور عصر حاضر کے تناظر میں، فقہ حنفی میں مزارعت و مساقات برصغیر کے تناظر میں، پاکستان میں نفاذ اسلام کی کوششوں کا تنقیدی جائزہ، خانقاہی نظام کے اجتماعی زندگی پر اثرات، برصغیر کی خواتین کے مسائل اور ان کا حل۔کتب فتاویٰ کی روشنی میں، عصر میں سربراہ مملکت کے مالیاتی اختیارات قرآن و سنت کی روشنی میں، عصر حاضر کی جہادی تحریکات کے اثرات، عالمی اقتصادی صورت حال اور گردش دولت کے اسلامی اصول، جدید طبی سائنسی مسائل کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نگاہ، حرام حیوانی اجزاء کے استعمالات اور فقہ اسلامی، عصری اسلامی مملکت کی خارجہ پالیسی۔
فہرست کے مرتبین نے لکھا ہے کہ ’’ہم نے شعبے کی طرف سے ہونے والے تحقیقی کام کی اشاعت کے لیے بعض علمی اداروں سے تعاون کی درخواست کی تو صرف ایک ادارے کی معاونت سے صرف ایک مقالہ کتابی صورت میں چھپ سکا۔‘‘ یہ ہماری تہذیبی زندگی کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ایسے کاموں کی اشاعت میں نہ مخیر حضرات تعاون پر آمادہ ہوتے ہیں نہ ادارے ہی اس کار خیر کو درخور اعتنا سمجھتے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ ہم اجتماعی سطح پر علم کی قدر و قیمت سے ابھی تک کتنے بے خبر اور لا پروا واقع ہوئے ہیں۔ ہمارا کھاتا پیتا طبقہ فقط مسجدیں بنوانے یا مالی صدقہ و خیرات ہی کو کار ثواب سمجھتا ہے۔ ہمارے روایتی علما کی جامد سوچ کی وجہ سے ہماری قوم ابھی تک علمی تحقیق کو عبادت کے زمرے میں شمار نہیں کرتی۔
مجھے امید ہے کہ اس کالم سے میرے ان شکوہ سنج احباب کی تالیف قلب ہو جائے گی جن کا خیال ہے کہ میرے گزشتہ کالم سے اساتذہ کا امیج خراب ہوا ہے۔ یہ بہت غنیمت ہے کہ اساتذہ نے طلبہ و طالبات کو عصری تقاضوں کے مطابق موضوعات بھی دیے اور ان کی مناسب رہنمائی بھی کی۔ ان کا یہ رویہ یقیناًہماری تہذیبی و ثقافتی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کا سبب بنے گا، ان شاء اللہ۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
(بشکریہ روزنامہ پاکستان، لاہور)