ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے ستمبر ۲۰۰۶ کے شمارے میں جناب حافظ محمد زبیر کا مضمون ’’غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ‘‘شائع ہوا تھا جو اب ان کی تصنیف ’’فکر غامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ‘‘ کا حصہ ہے۔ اس مضمون میں فاضل ناقد نے یہ بیان کیا ہے کہ سنت کے تصور ،اس کے تعین، اس کے مصداق اور اس کے ثبوت کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف عقل و نقل کی روشنی میں درست نہیں ہے۔ اسی طرح الشریعہ کے جون ۲۰۰۸ کے شمارے میں محترم جناب مولانا زاہد الراشدی نے ’’غامدی صاحب کا تصور سنت‘‘ کے زیر عنوان اپنی تنقید میں غامدی صاحب کے موقف کی تعبیر یوں کی ہے کہ غامدی صاحب اپنی مخصوص اصطلاح کے مطابق ’سنت‘ کے دائرے میں آنے والے امور کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر ارشادات اور افعال وتقریرات کو دین کا حصہ اور حجت نہیں سمجھتے جو ایک گمراہی کی بات ہے۔
زیر نظر تحریر میں ہم مذکورہ دونوں تنقیدات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے فہم کی حد تک غامدی صاحب کے تصور سنت وحدیث کی وضاحت ان کی اپنی تحریرات کی روشن میں کریں گے،اس موضوع پر اہل علم کی آرا کی تنقیح کریں گے اور عقل و نقل کی روشنی میں تنقیدی سوالات کا جائزہ لیں گے۔
تصور ’سنت‘
جناب جاوید احمد غامدی اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے مقدمے ’’اصول و مبادی‘‘ میں دین کے مآخذ کے بارے میں اپنا اصولی موقف ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اُس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اِس کے بعد اُس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔ اِس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اِس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف اُنھی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو اُن کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف اُنھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے:ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ.(الجمعہ ۶۲: ۲ )
’’وہی ذات ہے جس نے اِن امیوں میں ایک رسول اِنھی میں سے اٹھایا ہے جو اُس کی آیتیں اِن پر تلاوت کرتا ہے اور اِن کا تزکیہ کرتا ہے اور (اِس کے لیے ) اِنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘یہی قانون و حکمت وہ دین حق ہے جسے ’’اسلام‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اِس کے ماخذ کی تفصیل ہم اِس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے :
۱۔ قرآن مجید
۲ ۔سنت
... سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ۔ ‘‘ (میزان ۱۳۔۱۴)
اسی مقدمے میں ایک مقام پر انھوں نے سنت کے اس تصور کے پس منظر کو بیان کیا ہے۔ ’’مبادی تد بر قرآن‘‘ کے تحت فہم قرآن کے اصول بیان کرتے ہوئے ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے زیر عنوان یہ واضح کیا ہے کہ قرآن جس دین کو پیش کرتا ہے، تاریخی طور پر وہ اس کی پہلی نہیں، بلکہ آخری کتاب ہے ۔ دین فطرت، ملت ابراہیمی کی روایت اورنبیوں کے صحائف تاریخی لحاظ سے اس سے مقدم ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’... دین کی تاریخ یہ ہے کہ انسان کو جب اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا تو اُس کے بنیادی حقائق ابتدا ہی سے اُس کی فطرت میں ودیعت کر دیے۔ پھر اُس کے ابوالآبا آدم علیہ السلام کی وساطت سے اُسے بتا دیا گیا کہ اولاً، اُس کا ایک خالق ہے جس نے اُسے وجود بخشا ہے،وہی اُس کا مالک ہے اور اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر تنہا وہی ہے جسے اُس کا معبود ہونا چاہیے ۔ثانیاً ،وہ اِس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے اور اِس کے لیے خیر وشر کے راستے نہایت واضح شعور کے ساتھ اُسے سمجھا دیے گئے ہیں ۔پھر اُسے ارادہ و اختیار ہی نہیں ، زمین کا اقتدار بھی دیا گیا ہے۔ اُس کا یہ امتحان دنیا میں اُس کی زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہے گا ۔وہ اگر اِس میں کامیاب رہا تو اِس کے صلے میں خدا کی ابدی بادشاہی اُسے حاصل ہو جائے گی جہاں نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا ہو گا اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔ ثالثاً، اُس کی ضرورتوں کے پیش نظر اُس کا خالق وقتاً فوقتاً اپنی ہدایت اُسے بھیجتا رہے گا ،پھر اُس نے اگر اِس ہدایت کی پیروی کی تو ہر قسم کی گمراہیوں سے محفوظ رہے گا اور اِس سے گریز کا رویہ اختیار کیا تو قیامت میں ابدی شقاوت اُس کا مقدر ٹھیرے گی ۔
چنانچہ پروردگار نے اپنا یہ وعدہ پورا کیا اور انسانوں ہی میں سے کچھ ہستیوں کو منتخب کر کے اُن کے ذریعے سے اپنی یہ ہدایت بنی آدم کو پہنچائی۔ اِس میں حکمت بھی تھی اور شریعت بھی۔حکمت، ظاہر ہے کہ ہر طرح کے تغیرات سے بالا تھی، لیکن شریعت کا معاملہ یہ نہ تھا ۔وہ ہر قوم کی ضرورتوں کے لحاظ سے اترتی رہی، یہاں تک کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نبوت میں پوری انسانیت کے لیے اُس کے احکام بہت حد تک ایک واضح سنت کی صورت اختیار کر گئے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جب بنی اسرائیل کی ایک باقاعدہ حکومت قائم ہو جانے کا مرحلہ آیا تو تورات نازل ہوئی اور اجتماعی زندگی سے متعلق شریعت کے احکام بھی اترے۔ اِس عرصے میں حکمت کے بعض پہلو نگاہوں سے اوجھل ہوئے تو زبور اور انجیل کے ذریعے سے اُنھیں نمایاں کیا گیا۔ پھر اِن کتابوں کے متن جب اپنی اصل زبان میں باقی نہیں رہے تو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے آخری پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث کیا اور اُنھیں یہ قرآن دیا۔...
یہ دین کی تاریخ ہے ۔چنانچہ قرآن کی دعوت اِس کے پیش نظر جن مقدمات سے شروع ہوتی ہے ،وہ یہ ہیں:
۱۔ فطرت کے حقائق
۲۔ دین ابراہیمی کی روایت
۳۔ نبیوں کے صحائف۔‘‘ (میزان ۴۳۔۴۵)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ملت ابراہیمی کی اتباع لازم ہونے کا حکم قرآن مجید میں یوں بیان ہوا ہے:ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا، وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ. (النحل ۱۶ :۱۲۳)
’’پھر ہم نے تمھیں وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔‘‘
غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ عربوں کے ہاں دین ابراہیمی کی روایت پوری طرح مسلم تھی ۔ لوگ بعض تحریفات کے ساتھ کم و بیش وہ تمام امور انجام دیتے تھے جنھیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جاری کیا تھا اور جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تصویب سے امت میں سنت کی حیثیت سے جاری فرمایا۔ چنانچہ ان کے نزدیک نماز، روزہ، حج،زکوٰۃ،نماز جنازہ، جمعہ، قربانی، اعتکاف اور ختنہ جیسی سنتیں دین ابراہیمی کے طور پر قریش میں معلوم و معروف تھیں۔لکھتے ہیں:
’’...نماز ،روزہ ،حج ،زکوٰۃ، یہ سب اِسی ملت کے احکام ہیں جن سے قرآن کے مخاطب پوری طرح واقف ،بلکہ بڑی حد تک اُن پر عامل تھے ۔ سیدنا ابوذر کے ایمان لانے کی جو روایت مسلم میں بیان ہوئی ہے ، اُس میں وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی وہ نماز کے پابند ہو چکے تھے۔ جمعہ کی اقامت کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ قرآن کے مخاطبین کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ نماز جنازہ وہ پڑھتے تھے ۔ روزہ اُسی طرح رکھتے تھے، جس طرح اب ہم رکھتے ہیں۔ زکوٰۃ اُن کے ہاں بالکل اُسی طرح ایک متعین حق تھی، جس طرح اب متعین ہے۔ حج و عمرہ سے متعلق ہر صاحب علم اِس حقیقت کو جانتا ہے کہ قریش نے چند بدعتیں اُن میں بے شک داخل کر دی تھیں، لیکن اُن کے مناسک فی الجملہ وہی تھے جن کے مطابق یہ عبادات اِس وقت ادا کی جاتی ہیں ،بلکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اِن بدعتوں پر متنبہ بھی تھے ۔ چنانچہ بخاری و مسلم، دونوں میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے جو حج کیا ،وہ قریش کی اِن بدعتوں سے الگ رہ کر بالکل اُسی طریقے پر کیا ، جس طریقے پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج ہمیشہ جاری رہا ہے۔
یہی معاملہ قربانی، اعتکاف، ختنہ اور بعض دوسرے رسوم و آداب کا ہے۔یہ سب چیزیں پہلے سے رائج ،معلوم و متعین اور نسلاً بعد نسلٍ جاری ایک روایت کی حیثیت سے پوری طرح متعارف تھیں ۔ چنانچہ اِس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن اِن کی تفصیل کرتا ۔ لغت عرب میں جو الفاظ اِن کے لیے مستعمل تھے ، اُن کا مصداق لوگوں کے سامنے موجود تھا۔ قرآن نے اُنھیں نماز قائم کرنے یا زکوٰۃ ادا کرنے یا روزہ رکھنے یا حج و عمرہ کے لیے آنے کا حکم دیا تو وہ جانتے تھے کہ نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج و عمرہ کن چیزوں کے نام ہیں۔‘‘ (میزان۴۵۔۴۶)
غامدی صاحب نے ’’میزان‘‘ کے مقدمے ’’اصول و مبادی‘‘ میں ’’مبادی تدبر سنت‘‘ کے زیر عنوان سنت کی نوعیت اور اس کی تعیین کے حوالے سے چند رہنما اصول متعین کیے ہیں۔ ان کے مطالعے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اگر انھوں نے کسی چیز کو سنن میں شمار کیا ہے تو کیوں کیا ہے اور اگر سنن میں شمار نہیں کیا تو اس کا کیا سبب ہے۔ ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
پہلا اصول یہ ہے کہ سنت صرف وہی چیز ہو سکتی ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہو۔ چنانچہ وہ چیزیں جو اصلاً عرب کے تہذیب و تمدن یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی پسند و ناپسند پر مبنی ہیں، وہ سنت نہیں ہیں۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ سنت سرتاسر عملی زندگی سے متعلق امور پر مشتمل ہے، یعنی دین کی وہ چیزیں جنھیں عملاً انجام دیا جاتا ہے۔ ایمانیات، اخلاقیات اوراس نوعیت کی دوسری چیزیں اس کے دائرے میں شامل نہیں ہیں۔
تیسرا اصول یہ ہے کہ سنت اگر چہ عملی زندگی سے متعلق ہے، مگر عملی نوعیت کی وہ چیزیں سنت نہیں ہیں جن کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بجاے قرآن سے ہوئی ہے۔چنانچہ صرف وہی چیزیں سنت قرار پائیں گی جو اصلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب پر مبنی ہیں اور جوآپ کا قرآن کے کسی حکم پر عمل یا قرآن ہی کی کسی بات کی تفہیم اور شرح و وضاحت نہیں ہیں ۔
چوتھا اصول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر کسی سنت پر بطور تطوع عمل کیا ہے تو اس کے نتیجے میں اسے نئی اور الگ سنت تصور نہیں کیا جاسکتا۔چنانچہ جو چیزیں اپنی اولین حیثیت میں سنت قرار پا چکی ہیں ،ان پرفقط بطور تطوع عمل کی بنا پر انھیں سنت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثلاً نماز کے سنت قرار پا جانے کے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف اوقات میں نفل نمازیں، روزے کے سنن میں شامل ہونے کے بعد رمضان کے علاوہ نفل روزے،اسی طرح مختلف موقعوں پر نفل قربانی ، اور دین کے کسی عمل کو درجۂ کمال پر انجام دینے والے آپ کے اعمال ، سب اسوۂ حسنہ قرار پا ئیں گے۔ انھیں سنت قرار نہیں دیا جائے گا۔
پانچواں اصول یہ ہے کہ وہ اعمال جو دین میں بیان شریعت کے طور پر نہیں، بلکہ بیان فطرت کے طور پر آئے ہیں، وہ بھی سنت نہیں ہیں۔ البتہ، فطرت کے جن اعمال کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی احکام کی حیثیت سے مقرر کر دیا ہے، انھیں، بہرحال سنت ہی کے زمرے میں شمار کیا جائے گا۔
چھٹا اصول یہ ہے کہ وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہیں جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی رہنمائی تو کی ہے، مگر انھیں سنت کی حیثیت سے جاری نہیں فرمایا۔
غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق حسب ذیل اعمال کو سنن کی حیثیت حاصل ہے:
عبادات:
۱۔ نماز ۔۲۔ زکوٰۃ اور صدقۂ فطر ۔۳۔ روزہ و اعتکاف ۔۴۔ حج و عمرہ ۔۵۔ قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں ۔
معاشرت:
۱۔ نکاح و طلاق اور اُن کے متعلقات ۔ ۲۔حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب۔
خورونوش:
۱۔ سؤر ، خون ، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت ۔ ۲۔ اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ ۔
رسوم و آداب:
۱۔ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا ۔ ۲۔ ملاقات کے موقع پر ’السلام علیکم ‘اور اُس کا جواب۔ ۳۔ چھینک آنے پر ’الحمدللہ ‘اور اُس کے جواب میں ’یرحمک اللہ ‘ ۔ ۴ ۔نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت۔ ۵۔مونچھیں پست رکھنا۔ ۶۔ زیر ناف کے بال کاٹنا۔ ۷۔بغل کے بال صاف کرنا۔ ۸۔ بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ ۹۔لڑکوں کا ختنہ کرنا ۔ ۱۰۔ ناک ،منہ اور دانتوں کی صفائی۔ ۱۱۔استنجا۔ ۱۲۔ حیض و نفاس کے بعد غسل۔ ۱۳۔غسل جنابت۔ ۱۴۔میت کا غسل۔ ۱۵ ۔تجہیز و تکفین ۔ ۱۶۔تدفین ۔۱۷ ۔عید الفطر ۔ ۱۸۔ عید الاضحی ۔
تصور ’حدیث‘
غامدی صاحب کے نزدیک دین اپنے بنیادی مآخذ کے لحاظ سے قرآن وسنت میں محصور ہے، جبکہ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تصویبات کی جو روایات اخبار آحاد کی صورت میں امت نے نقل کی ہیں، اس میں دین کے مستقل بالذات احکام نہیں پائے جاتے، بلکہ یہ اخبار آحاد قرآن وسنت ہی میں بیان ہونے والے احکام کی تفہیم وتبیین اور ان پر عمل کرنے کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو بیان کرتی ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’دین لاریب، انھی دو صورتوں میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اسے دین قرار دیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی درجہ یقین کو نہیں پہنچتا، اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں ان میں آتی ہیں، وہ درحقیقت، قرآن وسنت میں محصور اسی دین کی تفہیم وتبیین اور اس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (میزان، ۱۵)
تاہم حدیث کے دائرے کی اس تعیین سے اس کی دینی حیثیت اور اہمیت میں کسی طرح کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، بلکہ اس دائرے میں وہ دینی علم کا نہایت اہم ذریعہ ہے جس سے کوئی مسلمان بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنھیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس مضمون کی تمہید میں ہم نے پوری صراحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے کہ یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وسوانح، آپ کے اسوۂ حسنہ اور دین سے متعلق آپ کی تفہیم وتبیین کے جاننے کا سب سے بڑا اور اہم ترین ذریعہ حدیث ہی ہے۔ لہٰذا اس کی یہ اہمیت ایسی مسلم ہے کہ دین کا کوئی طالب علم اس سے کسی طرح بے پروا نہیں ہوسکتا۔‘‘ (میزان، ۶۱)
دین کی تفہیم وتبیین کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کے اسوۂ حسنہ کی تشریعی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس دائرے کے اندر، البتہ اس کی حجت ہر اس شخص پر قائم ہوجاتی ہے جو اس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل یا تقریر وتصویب کی حیثیت سے اسے قبول کر لیتا ہے۔ اس سے انحراف پھر اس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اس میں بیان کیا گیا ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘ (میزان، ۱۵)
غامدی صاحب کے موقف کی وضاحت کے بعد اب ہم اس حوالے سے دیگر علما ومحققین کے موقف کا مطالعہ کریں گے۔
علماے محققین کی راے
پہلے ’سنت‘ کو لیجیے جو غامدی صاحب کی اصطلاح میں دین ابراہیمی کی اس عملی روایت کا نام ہے جو اسلام سے پہلے اہل عرب میں اپنی اصولی حیثیت میں موجود تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت اسی کی تجدید واصلاح کر کے اسے امت مسلمہ میں جاری فرمایا۔ دین اسلام کے پس منظر کے حوالے سے کم و بیش یہی موقف ہے جسے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں انھوں نے لکھا ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے ۔ تمام انبیا نے بنیادی طور پر ایک ہی جیسے عقائد اور ایک ہی جیسے اعمال کی تعلیم دی ہے۔ شریعت کے احکام اور ان کی بجا آوری کے طریقوں میں حالات کی ضرورتوں کے لحاظ سے ، البتہ کچھ فرق رہا ہے۔ سر زمین عرب میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اس موقع پر اس دین کے احوال یہ تھے کہ صدیوں کے تعامل کے نتیجے میں اس کے احکام دینی مسلمات کی حیثیت اختیار کر چکے تھے اورملت ابراہیم کے طور پر پوری طرح معلوم و معروف تھے، تاہم بعض احکام میں تحریفات اور بدعات داخل ہو گئی تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوا: ’فَاتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا‘ یعنی ملت ابراہیم کی پیروی کرو۔ آپ نے یہ پیروی اس طریقے سے کی کہ اس ملت کے معلوم و معروف احکام کو برقرار رکھا، بدعات کا قلع قمع کیااور تحریف شدہ احکام کو ان کی اصل صورت پر بحال فرمایا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’جان لو کہ نبوت عام طور پر اسی ملت کے تابع ہوتی ہے (جس میں نبی مبعوث ہوا ہو)، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ‘۔ نیز فرمایا: ’وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہِ لَاِبْرَاہِیْمَ‘۔ اس کا راز اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ جب کسی دین پر بہت صدیاں گزر جاتی ہیں اور اس لوگ اس کی پابندی اور اس کے شعائر کی تعظیم اور احترام میں مشغول رہتے ہیں اور اس کے احکام اس قدر شائع وذائع ہو جاتے ہیں کہ ان کو نہایت بدیہی باتوں کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا، پھر ایک دوسرا نبی آتا ہے تاکہ پہلے نبی کی تعلیمات میں اختلاط پیدا ہو جانے کے بعد جو کجی پیدا ہو گئی ہے، اس کو سیدھا کرے اور جو بگاڑ آ گیا ہے، اس کی اصلاح کرے۔ چنانچہ جو احکام اس قوم میں جس کی طرف وہ مبعوث ہوا ہے، شائع و ذائع ہوتے ہیں، ان پر وہ ایک نظر غائر ڈالتا ہے اور جو احکام سیاست ملیہ کے اصول کے مطابق درست ہوتے ہیں، ان کو تبدیل نہیں کرتا، بلکہ لوگوں کو ان کی دعوت دیتا اور ان کے پابند رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ البتہ جو چیزیں غیر مناسب ہوتی ہیں اور ان میں تحریف ہو چکی ہوتی ہے، ان میں حسب ضرورت تبدیلی کرتا ہے اور جس چیز کا اضافہ کرنا مناسب ہو، اس کا اضافہ کر دیتا ہے۔‘‘ (حجۃاللہ البالغہ ۱/ ۲۰۹)
شاہ صاحب نے ملت ابراہیمی کے حوالے سے اسی بات کو ایک دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت حنیفیہ اسماعیلیہ کی کجیاں درست کرنے اور جو تحریفات اس میں واقع ہوتی تھیں، ان کا ازالہ کرنے اور اس کے نور کو پھیلانے کے لیے مبعوث فرمایا ۔ چنانچہ : ’مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ‘ میں اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ اس ملت کے اصولوں کو تسلیم کیا جائے اور اس کے طریقوں اور سنن کو برقرار رکھا جائے۔ کیونکہ جب نبی کسی ایسی قوم میں مبعوث ہوتا ہے جس کے ہاں سنت راشدہ کسی حد تک محفوظ ہو تو کو بدلنا بے معنی بات ہے، بلکہ لازم ہے کہ اس کو برقرار رکھا جائے، کیونکہ اس کی پیروی پر ان کے نفوس زیادہ آمادہ ہوں گے اور ان کے خلاف حجت قائم کرنے کے لیے بھی وہ زیادہ مضبوط بنیاد ثابت ہوگی۔‘‘ (حجۃاللہ البالغہ ۱/ ۴۲۷)
یہ بات اہل علم کے ہاں پوری طرح مسلم ہے کہ دین ابراہیمی کے سنن عربوں میں قبل از اسلام رائج تھے۔شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ عرب نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اعتکاف، قربانی، ختنہ، وضو، غسل، نکاح اور تدفین کے احکام پر دین ابراہیمی کی حیثیت سے عمل پیرا تھے۔ ان احکام کے لیے شاہ صاحب نے ’سنۃ‘ (سنت)، ’سنن متاکدہ‘ (مؤکد سنتیں)، ’سنۃ الانبیاء‘ (انبیا کی سنت) اور ’شعائر الملۃ الحنیفیۃ‘ (ملت ابراہیمی کے شعار) کی تعبیرات اختیار کی ہیں:
’’یہ بات وہ سب جانتے تھے کہ انسان کا کمال اس میں ہے کہ وہ اپنایظاہر وباطن کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے اور اس کی عبادت میں اپنی انتہائی کوشش صرف کرے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ طہارت عبادت کا جزو ہے اورجنابت سے غسل کرنا اور اسی طرح ختنہ اور دیگر خصال فطرت ان کے ہاں معمول بہ طریقے کی حیثیت رکھتے تھے۔ تورات میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام اور اس کی اولاد کے لیے ختنہ کو ایک نشان قرار دیا تھا۔ یہود اور مجوس وغیرہ میں بھی وضو کرنے کا رواج تھا اور حکماے عرب بھی وضو کیا کرتے تھے۔ نماز بھی ان کے ہاں رائج تھی اور ابوذر غفاری اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے بھی تین سال پہلے نماز پڑھا کرتے تھے۔ اسی طرح قس بن ساعدہ ایادی بھی نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہود اور مجوس اور باقی اہل عرب میں نماز کا جو طریقہ محفوظ تھا، وہ تعظیمی افعال بالخصوص سجدے پر، اور دعا اورذکر پر مشتمل تھا۔ زکوٰۃ بھی ان میں رائج تھی۔ .... صبح صادق سے غروب آفتاب تک روزہ بھی موجود تھا اور جاہلیت میں قریش عاشورا کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ مسجد میں اعتکاف کی عبادت بھی معلوم تھی۔ حضرت عمر نے زمانۂ جاہلیت میں ایک دن کے لیے اعتکاف کی منت مانی تھی۔ ... اور بیت اللہ کے حج اور اس کے شعائر اور اشہر حرم کی تعظیم کا معاملہ تو اظہر من الشمس ہے۔ ..... جانور کو حلق پر چھری پھیر کر اور اونٹ کو سینے میں نیزہ چبھو کر ذبح کرنے کا طریقہ بھی ان کے ہاں رائج تھا۔ وہ جانور کا گلا نہیں گھونٹ دیتے تھے اور نہ اسے چیرتے پھاڑتے تھے۔ ... کھانے پینے، لباس، عید اور ولیمہ، مردوں کی تجہیزوتکفین، نکاح اور طلاق، عدت اور سوگ، خریدوفروخت اور دیگر معاملات کے متعلق ان کے ہاں ایسے واجب الاتباع سنن تھیں جن کے ترک کرنے والے کو مستوجب ملامت قرار دیا جاتا تھا۔ماں بہن اور دیگر محرمات سے نکاح کرنے کو وہ ہمیشہ سے حرام سمجھتے رہے ہیں۔ اسی طرح ظلم وزیادتی کی سزائیں اور حرام کاری اور چوری کے لیے سزائیں بھی ان کے ہاں مقرر تھیں۔‘‘ (حجۃاللہ البالغہ ۱ /۲۹۰۔۲۹۲)
’’انبیا علیہم السلام کی سنت ذبح اور نحر ہے جو سب انبیا کے ہاں متوارث چلی آرہی ہے۔ .... اہل عرب کے ہاں ذبح اور نحر ملت ابراہیمی کے ایک شعار کی حیثیت رکھتا تھا اور ابراہیمی اور غیر ابراہیمی کے مابین امتیاز کا ذریعہ تھا۔ اس طرح اسے ختنہ اور دیگر خصال فطرت کی سی اہمیت حاصل تھی۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت ابراہیمی کے احیا اور تجدید کے لیے بھیجا گیا تو لازم تھا کہ اس شعار کو بھی قائم رکھا جائے۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ ۲/۳۱۹۔۳۲۰)
امام رازی نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ عربوں میں حج اور ختنہ وغیرہ کو دین ابراہیمی ہی کی حیثیت حاصل تھی:
’’... اور یہ بات معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چند مخصوص شرائع اور احکام جیسے بیت اللہ کا حج اور ختنہ وغیرہ مقرر کیے تھے۔... اور اہل عرب ان چیزوں کو اختیار کیے ہوئے تھے۔‘‘ (تفسیر کبیر ۴/ ۱۸)
ختنہ کی سنت کے حوالے سے ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
’’ختنہ کو واجب کہنے والوں کا قول ہے کہ یہ دین ابراہیمی کی علامت، اسلام کا شعار، فطرت کی اصل اور ملت کا عنوان ہے۔... دین ابراہیمی کی اتباع کرنے والے اپنے امام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے لے کر خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک ہمیشہ اسی پر کاربند رہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ملت ابراہیمی کی تکمیل اور توثیق کے لیے مبعوث فرمایا گیا نہ کہ اس میں تغیر و تبدل کرنے کے لیے۔‘‘ (مختصر تحفۃ المولود ۱۰۳۔ ۱۰۴)
قبل از اسلام تاریخ کے محقق ڈاکٹر جواد علی نے اپنی کتاب ’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘ میں نماز ، روزہ، اعتکاف، حج و عمرہ، قربانی ، جانوروں کا تذکیہ، ختنہ، مو نچھیں پست رکھنا ، زیر ناف کے بال کاٹنا، بغل کے بال صاف کرنا، بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا، ناک ، منہ اور دانتوں کی صفائی، استنجا، میت کا غسل، تجہیز و تکفین اور تدفین کے بارے واضح کیا ہے کہ یہ سنن دین ابراہیم کے طور پر رائج تھیں اور عرب بالخصوص قریش ان پر کاربند تھے۔ لکھتے ہیں:
’’بنو معد بن عدنان کی اکثریت دین ابراہیمی کے بعض اجزا پر کاربند تھی۔وہ بیت اللہ کا حج کرتے اور اس کے مناسک ادا کرتے تھے۔ مہمان نواز تھے ، حرمت والے مہینوں کی تعظیم کرتے تھے۔ فواحش ،قطع رحمی اور ایک دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی کو برا جانتے تھے۔ جرائم کی صورت میں سزا بھی دیتے تھے۔‘‘ (۶/ ۳۴۵)
’’بنو معد بن عدنان کی اکثریت دین ابراہیمی کے بعض اجزا پر کاربند تھی۔وہ بیت اللہ کا حج کرتے اور اس کے مناسک ادا کرتے تھے۔ مہمان نواز تھے ، حرمت والے مہینوں کی تعظیم کرتے تھے۔ فواحش ،قطع رحمی اور ایک دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی کو برا جانتے تھے۔ جرائم کی صورت میں سزا بھی دیتے تھے۔‘‘ (۶/ ۳۴۵)
’’روایتوں میں ہے کہ قریش یوم عاشور کا روزہ رکھتے تھے۔ ...روایتوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نبوت سے پہلے یہ روزہ رکھتے تھے۔‘‘ (۶/۳۳۹)
’’دین ابراہیمی کے پیرو نساک، یعنی عبادت گزاروں میں سے تھے۔ وہ قربانی کے جانور کو بھی ’نسک‘ میں شمار کرتے تھے اور زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کے نزدیک قربانی زہد و عبادت کے اہم مظاہر میں سے ایک تھی۔‘‘ (۶/۵۱۰)
’’بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مردوں کی نماز جنازہ پڑھتے تھے جس کا طریقہ یہ تھا کہ میت کو چٹائی پر لٹا دیا جاتا، پھر اس کا وارث کھڑا ہوتا اور اس کے تمام محاسن بیان کرتا اور اس کی تعریف کرتا۔ پھر کہتا: تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔ پھر اس کو دفن کر دیا جاتا۔‘‘ (۶/۳۳۷)
’’غسل جنابت اور مردوں کو نہلانا بھی (زمانہ قبل از اسلام کی) ان سنتوں میں سے ہے جو اسلام میں قائم رکھی گئیں۔ افوہ اودی کے شعر میں غسل میت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اعشیٰ اور بعض جاہلی شعرا کی طرف منسوب اشعار میں بھی مردوں کی تکفین اور ان کی نماز جنازہ پڑھنے کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ روایتوں میں ہے کہ قریش اپنے مردوں کو غسل دیتے اور خوشبو لگاتے تھے۔‘‘ (۶/۳۴۴)
’’مورخین بیان کرتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کے متبعین کے ہاں کچھ ایسی علامات اور عادات تھیں جن کے ذریعے سے وہ اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کرتے تھے۔ ان میں ختنہ، زیرناف بال کاٹنا اور مونچھیں ترشوانا شامل ہیں۔ ... شریعت ابراہیم کی سنتوں میں سے ایک سنت ختنہ بھی تھا اور یہ ان قدیم طریقوں میں سے تھا جو زمانۂ جاہلیت کے بت پرستوں میں رائج تھے۔‘‘ (۶/۵۰۸)
(جاری)