قرآن مجید میں قصاص کے احکام ۔ چند غور طلب پہلو (۲)

پروفیسر میاں انعام الرحمن

وَلا تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً (بنی اسرائیل ۱۷/ ۳۳)
’’قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہوتو بے شک ہم نے اس کے ولی کو اختیار دیا ہے پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے ، ضرور اس کی مدد کی جائے گی ‘‘ 

اس آیت کے آغاز میں وَلا تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ کے بیان سے یہ واضح تاثر ملتا ہے کہ مقتول کو خون کے بدلے یا فساد فی الارض کے بجائے کسی اور وجہ سے قتل کیا گیا ہے اور یہ تاثر زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ دیتا ہے کہ قتل ، قتلِ حق نہیں ، بلکہ قتلِ ناحق ہے۔لیکن قرآنی اسلوب پکار پکار کر قاری کی توجہ اس جانب مبذول کر رہا ہے کہ بات صرف قتلِ ناحق تک محدود نہیں ، بلکہ کافی بڑھی ہوئی ہے۔ اگر وَلا تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ کے بعدیہ بیان کر دیا جاتا کہ: ’’جو قتل کر دیا جائے تو بے شک ہم نے اس کے ولی کو طاقت دی ہے پس چاہیے کہ وہ حد سے تجاوز نہ کرے، اس کی ضرور مدد کی جائے گی ‘‘ تو قتلِ ناحق کے ابلاغ کی حد تک ، بیان میں کسی قسم کی کوئی کمی یا خامی موجود نہیں تھی ، لیکن قرآن نے ایسے بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک لفظ مَظْلُوماً کا اضافہ کیا ہے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس لفظ کے بغیر قرآنی منشا پوری نہیں ہو رہی تھی، اسی لیے یہ لفظ باقاعدہ برتا گیا۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ یہ لفظ اس آیت میں قرآن کی منشا جاننے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔

ظلم کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رہنے دینا ، خواہ کمی کرکے یا زیادتی کر کے ، یا اسے اس کے صحیح وقت یا اصلی جگہ پر نہ رکھنا یا ہٹا دینا ۔ اس لیے ظلم کا اطلاق ہر قسم کی زیادتی اور تجاوز پر ہوتا ہے خواہ تجاوز قلیل ہو یا کثیر ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے قبل ظلم کے قرآنی مفاہیم کا مطالعہ نہایت ضروری ہے ۔قرآن مجید میں ظلم اپنی نوع کے اعتبار سے ، نفس پر ظلم سے لے کر خدا کے شریک ٹھہرانے تک پھیلا ہوا ہے ۔ لیکن ایک بات تقریباََ طے ہے کہ ظلم کی کوئی بھی صورت ہو ، وہ درحقیقت ظلم علی النفس ہی ہے ۔ کیونکہ انسان جب ظلم کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے ۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ظالم اپنے ظلم کا آغاز ہمیشہ اپنی ذات سے کرتا ہے ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ظلم کی یہ نوعیت واضح کی گئی ہے مثلاََ، البقرۃ ۰۲ : ۵۴ ، ۵۷ ، ۲۳۱ / آل عمران ۰۳: ۱۱۷، ۱۳۵ /النساء ۰۴ : ۶۴، ۱۱۰ /الاعراف ۰۷: ۲۳،۱۶۰ ، ۱۷۷ / توبہ ۹: ۳۶ ، ۷۰ / یونس ۱۰: ۴۴/ھود ۱۱ : ۱۰۱ / النحل ۱۶: ۳۳، ۱۱۸ /الکھف ۱۸ : ۳۵ / النمل ۲۷ : ۴۴ / القصص ۲۸: ۱۶ / العنکبوت ۲۹: ۴۰ / الروم ۳۰ : ۰۹/سبا ۳۴ : ۱۹ / الطلاق ۶۵ : ۰۱۔

ظلم اپنی اصل میں ظلم علی النفس ہونے کے باوجود ، محرکات و نتائج میں تنوع کے اعتبار سے ، کئی سمتوں میں پھیلا ہوا ہے ۔ مثلاً قصہ آدم و ابلیس کے اس پہلو کو ہی لیجیے کہ اللہ رب العزت نے وَقُلْنَا یَا آدَمُ اسْکُنْ أَنتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَکُلاَ مِنْہَا رَغَداً حَیْْثُ شِءْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا ہَذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُونَا مِنَ الْظَّالِمِیْنَ ( البقرۃ ۰۲: ۳۵)کے بیان میںآدم ؑ کو متنبہ کیا ہے کہ حکم کی خلاف ورزی کے نتیجے میں وہ ظالم قرار پائیں گے ، لیکن آدم ؑ شیطان کے وسوسے (فَوَسْوَسَ إِلَیْْہِ الشَّیْْطَانُ قَالَ یَا آدَمُ ہَلْ أَدُلُّکَ عَلَی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلَی (طہ ۲۰: ۱۲۰) میں آکر (وَعَصَی آدَمُ رَبَّہُ فَغَوَی (طہ ۲۰:۱۲۱) اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہیں ، جس کی وجہ سے فَتَکُونَا مِنَ الْظَّالِمِیْنَ (البقرۃ ۰۲: ۳۵) کے خدائی حکم کی تتبع میں رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا کہتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی معافی کی درخواست کرتے ہیں  وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَاَ (الاعراف ۰۷:۲۳) ۔معافی کی درخواست میں تشویش اور خوف کا پہلونہایت عیاں ہے۔ لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (الاعراف ۰۷:۲۳) بہرحال ! معافی کی یہ التجا ظاہر کرتی ہے کہ آدم ؑ نے نافرمانی یا پھسلاہٹ کا مظاہرہ ، خدائی حکم کی جان بوجھ کرخلاف ورزی کے لیے نہیں کیا ، ورنہ وہ لازماََ متکبرانہ انداز اختیار کرتے اور اکڑتے پھرتے ، بلکہ اس کے برعکس ان کی التجا ایک لحاظ سے گواہ بن جاتی ہے کہ ان کی نافرمانی کے پیچھے (جس کی وجہ سے وہ ظالمین میں شامل ہو گئے ہیں ) ، کوئی ایسا محرک ہے جس نے ان سے نافرمانی کراتے ہوئے بھی ، انہیں اس اخلاقی سطح پر قائم و دائم رکھا ہے کہ وہ اکڑنے کے بجائے مغفرت و بخشش کے طلب گار ہوئے ہیں ۔ قرآن کے مطابق وہ محرک ،بھو ل نسیان ہے (وَلَقَدْ عَہِدْنَا إِلَی آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہُ عَزْماً (طہ ۲۰: ۱۱۵) ۔ اس لیے انہیں معاف کر دیا جاتا ہے (فَتَلَقَّی آدَمُ مِن رَّبِّہِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْْہِ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (البقرۃ ۰۲ : ۳۷)۔ قرآن مجید میں دیگر مقامات پر بھی ، اسی نوعیت کے بھول چوک والے ظالم کو مغفرت کی بشارت دی گئی ہے، مثلاً: 

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّہِ وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَہُمْ جَآؤُوکَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّہَ تَوَّاباً رَّحِیْماً (النساء ۰۴ : ۶۴)
’’ اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تمہارے حضور حاضر ہوں پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول بھی ان کے لیے اللہ سے معافی چاہے ، تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ‘‘ 
وَمَن یَعْمَلْ سُوء اً أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّہَ یَجِدِ اللّہَ غَفُوراً رَّحِیْماً (النساء ۰۴ : ۱۱۰)
’’ اور جو کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش چاہے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا ‘‘ 

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا زیرِ نظر آیت ( بنی اسرائیل ۱۷ : ۳۳)میں ظلم ، اسی نوعیت کا ہے ؟ اس کابدیہی جواب یہ ہے کہ ظالم (قاتل) کی نہ تو کسی بھول کا بیان ہوا ہے اور نہ ہی توبہ استغفار کا کوئی ذکر کیا گیا ہے، اس لیے اسے ظلم کی مذکورہ نوع میں شامل کرنا کسی طرح مناسب نہیں ۔ ظلم اگرچہ آغاز کے اعتبار سے ، ظلم علی النفس ہی ہے، لیکن محرکات و نتائج اسے نہایت سنگین بنا دیتے ہیں ۔ ظلم کی انتہائی سنگین نوع سے شناسائی بھی قصہ آدم و ابلیس سے ہوجاتی ہے: 

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَاءِکَۃِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہِ أَفَتَتَّخِذُونَہُ وَذُرِّیَّتَہُ أَوْلِیَاء مِن دُونِیْ وَہُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِءْسَ لِلظَّالِمِیْنَ بَدَلاً (الکہف ۱۸: ۵۰)
’’ اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ، قوم جن سے تھا ، تو اپنے رب کے حکم سے نکل گیا ، بھلا کیا اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو ، اور وہ تمہارے دشمن ہیں ، ظالموں کو کیا ہی برا بدل ملا ‘‘۔

ایک اور مقام پر اس کی وضاحت إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (لقمان ۳۱: ۱۳) کے الفاظ میں کی گئی ہے ۔ظلم کے حوالے سے ہی سورۃ المائدۃ (آیات ۲۷ تا ۳۱) میں آدم ؑ کے بیٹوں میں سے ایک کے دوسرے کو قتل کر دینے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس قصے کے ظالم بھائی کی ندامت کو، جو غالباََ لاش چھپانے سے لاعلمی پر مبنی ہے ، بڑھا چڑھا کر بھائی کے قتل تک بھی پھیلا لیا جائے تو یہ ندامت فرعون کے اس نا قابلِ قبول ایمان کے مانند معلوم ہوتی ہے جو وہ ڈوبتے وقت لے آیا تھا ۔ مقتول بھائی نے یہ کہہ کرکہ ’’ میں چاہتا ہوں کہ تم اٹھاؤ میرا بھی گناہ اور اپنا بھی گناہ ، تو ہو جاؤ گے اہلِ دوزخ میں سے ، اور یہ سزا ہے ظالموں کی ‘‘قتل پر آمادہ بھائی کے انجام کے ساتھ ساتھ اپنے قتل کی نوعیت کی بھی نشاندہی کر دی ہے کہ وہ مظلوم مقتول ہے ۔ ’’تو اس کے نفس نے اسے اپنے بھائی کی جان لینے پر رغبت دلائی ، تو اسے قتل کر دیا ، اور خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گیا‘‘ کا بیان آدم ؑ کے مقتول بیٹے کا بیان نہیں ، بلکہ الہی حکم ہے ، جس میں کسی ابہام کے بغیر نہایت صراحت سے ظالم بھائی کو خاسر قرار دیا گیا ہے ۔ قصہ آدم و ابلیس میں ، آدم ؑ کی تشویش کا ذکر ہوا تھا کہ ظالم ہونے کے ناطے ، انہیں خاسر قرار دیے جانے کا ڈر تھا: لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (الاعراف ۰۷:۲۳) ۔لیکن ان کے ظلم کے محرک اور ظلم کی نو عیت نے انہیں خاسر ہونے سے بچا لیا تھا۔ آ دم ؑ کے ظلم کی نوعیت ، کسی دوسرے شخص کی حق تلفی یا اس سے بھی بڑھ کر جان لینے کی حد تک نہیں بڑھی ، بلکہ نسیان کے سبب ، حکمِ الٰہی کی نافرمانی تک محدود ہے ۔ لیکن آدم ؑ کے بیٹوں کے قصے میں حکمِ الہی کی صریحاََ نافرمانی تو ہے ہی ، اس کے علاوہ ظلم اپنی نوعیت کے لحاظ سے کسی دوسرے شخص کی حق تلفی سے بڑھتا ہوا اس کی جان لینے کی انتہائی حد تک جا پہنچاہے ۔ 

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا زیرِ نظر آیت (بنی اسرائیل ۱۷ : ۳۳)کے مظلوم کا قاتل ، آدم ؑ کے ظالم بیٹے سے مماثل ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہر دو جگہ تقریباََ یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ صاف معلوم ہورہا ہے کہ قتل ، ظالمانہ ہے اور ظلم ، کسی دوسرے کی جان لینے کی حد تک بڑھ گیا ہے۔ ’ مَظْلُوما‘ بہت ٹھوس انداز میں مقتول کی مظلومیت کی شہادت دے رہا ہے کہ صرف قتلِ ناحق ہی وقوع پذیر نہیں ہوا ، بلکہ ایسا ظلم رونما ہوا ہے جس میں مقتول نے قاتل کو کسی قسم کا اشتعال نہیں دلایا اور قاتل نے تقریباً یک طرفہ طور پر انتہائی ظالمانہ انداز میں قتل کا ارتکاب کیا ہے جیسا کہ آدم ؑ کے مقتول بیٹے کے بیان سے بھی واضح ہوتا ہے ’’ اگر تم نے میری طرف ہاتھ بڑھایا کہ مجھے قتل کرو تو میں اپنا ہاتھ تمہاری طرف تمہیں قتل کرنے کے لیے نہیں بڑھاؤں گا ، میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘ ۔ لہٰذا ہر دو مقامات پر قاتل کوئی ایسا جواز پیش کرنے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے مقتول کو بھی ایک درجے میں ذمہ دار ٹھہراکر قاتل کے لیے نرمی کی کوئی گنجایش نکالی جا سکے ، اس لیے بنی اسرائیل ۱۷:۳۳ کے مظلوم کا قاتل بھی ، آدم ؑ کے مقتول بیٹے کے اس قول کا مصداق ہے ’’ میں چاہتا ہوں کہ تم اٹھاؤ میرا بھی گناہ اور اپنا بھی گناہ ، تو ہو جاؤ گے اہلِ دوزخ میں سے ، اور یہ سزا ہے ظالموں کی‘‘۔ اور اس امر میں بھی شک کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی کہ مظلوم کے قاتل پر حکمِ الہٰی ’’ اور خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گیا‘‘ کا بھی اطلاق ہوتا ہے ، اسی لیے یہاں معافی و خون بہا کا سرے سے بیان ہی موجود نہیں ۔ المختصر ! زیرِ نظر آیت (بنی اسرائیل ۱۷:۳۳) میں ، ظلم کی نوعیت و معنویت ، قتل کے ساتھ منسلک ہے ۔ قرآن میں قتل کی انواع کا بھی بیان ہوا ہے اور قتلِ خطا و قتلِ عمد کا باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے(النساء ۰۴ : ۹۲، ۹۳) لیکن زیرِ نظر آیت میں قُتِلَ مَظْلُوماً کے الفاظ، قتل و ظلم کے معنوی حدود اربع کے فہم کے لیے، آدم ؑ کے بیٹوں کے قصے سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ 

مَظْلُوماً اور آیت کا تکمیلی لفظ مَنْصُوراً پورے قرآن میں غالباََ اسی مقام پر استعمال ہوئے ہیں ۔ اس لیے ان کا ایک ہی مقام پر خاص انتخاب ، دونوں میں کسی گہرے داخلی تعلق کی غمازی کرتا ہے ۔ اس تعلق سے جنم لینے والی معنویت ، چھپائے نہیں چھپتی ۔مظلوم کی مدد کا یہ بیان بھی دیکھیے : 

أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ (الحج۲۲:۳۹)
’’ اجازت دی جاتی ہے انہیں جن سے جنگ کی جارہی ہے اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا ہے اور بلاشبہ اللہ ان کی مدد پر قادر ہے ‘‘ 

ان دونوں الفاظ (ظلم، نصر ) کے قرآنی محلات ، باہمی تعلق پر مبنی معنویت مزید واضح کرتے ہیں۔ قرآن نے نہایت صراحت سے بیان کیا ہے کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ، جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مظلوم کا کوئی مددگار ہوتا ہے : 

فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِن نَّصِیْرٍ (فاطر ۳۵: ۳۷)
’’ تو اب چکھو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ‘‘ 
وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِن نَّصِیْرٍ (الحج ۲۲ :۷۱)
’’ اور ان ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے ‘‘
وَالظَّالِمُونَ مَا لَہُم مِّن وَلِیٍّ وَلَا نَصِیْرٍ ( الشوری ۴۲/ ۰۸)
’’ اور ظالموں کا نہ کوئی ولی اور نہ مددگار ‘‘ 
بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا أَہْوَاء ہُم بِغَیْْرِ عِلْمٍ فَمَن یَہْدِیْ مَنْ أَضَلَّ اللَّہُ وَمَا لَہُم مِّن نَّاصِرِیْنَ (الروم ۳۰: ۲۹) 
’’ بلکہ ان ظالموں نے بغیر علم کے اپنے خیالات کا اتباع کر رکھا ہے ، سو اسے کون راہ پر لائے جسے خدا گم راہ کرے ، اور ان کا کوئی مددگار نہیں ‘‘

زیرِ نظر آیت ( بنی اسرائیل ۱۷ / ۳۳ ) میں قصاص کے بجائے ’سُلْطَاناً‘ کا استعمال غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔غالباً یہ مقتول کا مظلوم ہونا ہے جس کی وجہ سے یہ لفظ یہاں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ، مقتول کے مظلومانہ قتل کے پیشِ نظر اس کے ولی کی ذہنی حالت اور نفسیاتی کیفیت کا لحاظ رکھنے کے سلسلے میں یہ لفظ یہاں وارد ہو اہے ۔ ہماری رائے میں ’سُلْطَاناً‘ کا آیت کے تکمیلی لفظ ’ مَنْصُوراً‘ کے ساتھ گہرا داخلی ربط قائم ہے، اس ربط کی ایک نظیر قرآن میں ایسی صراحت سے سامنے آئی ہے جس سے زیرِ نظر آیت میں اس ربط کی معنویت و حکمت پوری شان کے ساتھ واضح ہو جاتی ہے: 

وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّیْ مِن لَّدُنکَ سُلْطَاناً نَّصِیْراً ( بنی اسرائیل۱۷:۸۰ ) 
’’ اور کہہ اے میرے رب داخل کر مجھ کو داخل کرنا سچا اور نکال مجھ کو نکالنا سچا ، اور مجھے اپنی طرف سے مددگار غلبہ (سُلْطَاناً نَّصِیْراً) دے ‘‘ 

مقتول کی مظلومیت اور اس کے ولی کو سلطان بنانے کا بیان ، اس لحاظ سے اہم ہے کہ سلطان اور ظالم کے قرآنی اطلاقات، ایک دوسرے کے تقریباََ مقابل کھڑے نظر آتے ہیں : 

سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوبِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَکُواْ بِاللّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَاناً وَمَأْوَاہُمُ النَّارُ وَبِئْسَ مَثْوَی الظَّالِمِیْنَ (آل عمران ۰۳ :۱۵۱)
’’ ہم ابھی کافروں کے دلوں میں رعب ڈالیں گے کہ انہوں نے اللہ کا شریک ٹھہرایا جس پر کوئی دلیل(سُلْطَاناً) اس نے نہیں اتاری ہے اور جگہ ان کی آگ ہے اور کیا برا ٹھکانہ ہے ظالموں کا ‘‘
وَقَالَ الشَّیْْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الأَمْرُ إِنَّ اللّہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّکُمْ فَأَخْلَفْتُکُمْ وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْْکُم مِّن سُلْطَانٍ إِلاَّ أَن دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلاَ تَلُومُونِیْ وَلُومُواْ أَنفُسَکُم مَّا أَنَاْ بِمُصْرِخِکُمْ وَمَا أَنتُمْ بِمُصْرِخِیَّ إِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَا أَشْرَکْتُمُونِ مِن قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِیْنَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ (ابراہیم ۱۴:۲۲)
’’اور شیطان کہے گا کہ بے شک اللہ نے تم سے سچے وعدے کیے تھے اور میں بھی کچھ وعدے کیے تھے سو میں نے وہ وعدے تم سے خلاف کیے تھے اور میرا تم پر اور تو کچھ زور (سُلْطَان) نہ چلتا تھا بجز اس کے کہ میں نے تم کو بلایا تھا سو تم نے میرا کہنا مان لیا تو تم مجھ پر ملامت مت کرو اور ملامت اپنے آپ کو کرو ، نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکوں اور نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکو ، وہ جو تم نے پہلے مجھے شریک ٹھہرایا تھا میں اس سے سخت بیزار ہوں ، بے شک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے ‘‘ 
ہَؤُلَاء قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِہِ آلِہَۃً لَّوْلَا یَأْتُونَ عَلَیْْہِم بِسُلْطَانٍ بَیِّنٍ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللَّہِ کَذِباً (الکہف ۱۸: ۱۵) 
’’ یہ جو ہماری قوم ہے اس نے اللہ کے سوا الہ بنا رکھے ہیں ،کیوں نہیں لاتے ان پر کوئی روشن سند (بِسُلْطَانٍ بَیِّن) تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے ‘‘ 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۳۳ میں مظلوم مقتول کے ولی کو (سُلْطَاناً) بنانے کا بیان خاص حکمت کا حامل ہے ۔ اگر ولی کو صرف طاقت و زور دینا مقصود ہوتا تو کسی اور لفظ کے ذریعے بھی ادائیگی ہو سکتی تھی ۔ اس لیے معنوی سطح پر سُلْطَاناً، ایک طرف (مَظْلُوماً) کے ساتھ اور دوسری طرف (مَنْصُوراً) کے ساتھ ، گہرا داخلی تعلق رکھتا ہے ۔ ذرا مختلف زاویے سے ، اس تعلق کی ایک مثال یہ آیت ہے : 

وَیَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَاناً وَمَا لَیْْسَ لَہُم بِہِ عِلْمٌ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِن نَّصِیْرٍ (الحج ۲۲: ۷۱) 
’’ اور وہ عبادت کرتے ہیں اللہ کو چھوڑ کر اس کی جس کے لیے اللہ نے کوئی دلیل ( سُلْطَاناً )نہیں اتاری اور نہ اس کے متعلق انہیں کچھ علم ہے اور ان ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے ‘‘ 

اندریں صورت ، قرآنی منشا کی تلاش میں ’’ سُلْطَاناً‘‘ کے قرآنی مفاہیم تک رسائی بہت ضروری ہو جاتی ہے : 

أَتُرِیْدُونَ أَن تَجْعَلُواْ لِلّہِ عَلَیْْکُمْ سُلْطَاناً مُّبِیْناً (النساء ۰۴:۱۴۴) 
’’ کیا یہ چاہتے ہوکہ اپنے اوپر اللہ کے لیے صریح حجت(سُلْطَاناً مُّبِیْناً) کر لو ‘‘ 

اس آیت کا استفہامیہ انداز بتاتا ہے کہ سلطان، صفاتِ الہیہ میں سے نہیں ہے ، لیکن چونکہ استفہام کے ایک سرے پر خدا موجود ہے اور اسی کے لیے (سُلْطَاناً مُّبِیْناً) استعمال ہوا ہے ، اس لیے (سُلْطَاناً) کی معنویت کی بابت یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ کسی قسم کی بے انصافی اور اخلاق باختگی اسے چھو کر بھی نہیں گزری ۔حضرت سلیمان ؑ بھی جب ہد ہد کو غیر حاضر پاتے ہیں تو فرماتے ہیں : 

لَأُعَذِّبَنَّہُ عَذَاباً شَدِیْداً أَوْ لَأَذْبَحَنَّہُ أَوْ لَیَأْتِیَنِّیْ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ (النمل ۲۷: ۲۱)
’’ ضرور میں اسے سخت عذاب کروں گا یا ذبح کر دوں گا یا کوئی صاف حجت (بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ) میرے پاس لائے‘‘ 

مذکورہ دو آیات (النساء ۴: ۱۴۴ /النمل ۲۷: ۲۱) کے تقابلی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’سلطان‘‘ ساختیاتی اعتبار سے کسی ایسے جواز پر دلالت کرتا ہے، جس کے بعد مزید حیل و حجت کی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔ البتہ، طرفین کے مقام اور موقع محل کی نسبت سے ، جواز کی نوعیت اور درجے میں تبدیلی ہو سکتی ہے ۔ قرآن میں مختلف مواقع پر ’’سلطان‘‘ کا جس طرح بیان ہوا ہے اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہر قسم کی آلایشوں سے پاک جوازاور صریح حجت ، عطیہ خداوندی ہے ۔ اس لیے جب رسولوں سے ’’سلطان ‘‘ کا تقاضا کیا گیا : 

فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ (ابراہیم ۱۴: ۱۰)
’’ اب کوئی روشن سند (بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ) ہمارے پاس لے آؤ ‘‘

تو انہوں نے جواب دیا : 

وَمَا کَانَ لَنَا أَن نَّأْتِیَکُم بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّہِ (ابراہیم ۱۴:۱۱)
’’ اور ہمارے اختیار کی بات نہیں کہ ہم اللہ کے حکم کے بغیر تم کو دلیل (بِسُلْطَانٍ)دکھائیں‘‘

ایک مقام پر، سلطان کی استثنائی حیثیت کے ساتھ ، جن و انس کو چیلنج کیا گیا ہے : 

یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ (الرحمن ۵۵: ۳۳)
’’ اے جن و انس کے گرو ہ اگر تم سے ہو سکے کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ ، مگر بدون زور (بِسُلْطَانٍ )کے نہیں نکل سکتے ‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ جن و انس ، سلطان کے ساتھ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہیں ، اور سلطان (وَمَا کَانَ لَنَا أَن نَّأْتِیَکُم بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّہِ (ابراہیم ۱۴:۱۱) کے مصداق ، عطیہ خداوندی ہے ۔ بعض مقامات پر تو قرآن نے طنز کی آمیزش کے ساتھ باقاعدہ چیلنج کیا ہے کہ تمہارے پاس ’’سلطان‘‘ ہو ہی نہیں سکتا : 

أَمْ لَہُمْ سُلَّمٌ یَسْتَمِعُونَ فِیْہِ فَلْیَأْتِ مُسْتَمِعُہُم بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ (الطور ۵۲:۳۸)
’’ یا ان کے پاس کوئی زینہ ہے جس میں چڑھ کر سن لیتے ہیں تو ان کا سننے والا کوئی روشن سند ( بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ) لائے ‘‘۔
إِنْ عِندَکُم مِّن سُلْطَانٍ بِہَذَا (یونس ۱۰: ۶۸)
’’ تمہارے پاس اس کی کوئی بھی سند (سُلْطَانٍ )نہیں ‘‘ 

اسی لیے قرآنی اطلاقات میں، کہیں بھی شیطان کوحقیقی معنوں میں ’’ سلطان‘‘ حاصل نہیں : 

إِنَّ عِبَادِیْ لَیْْسَ لَکَ عَلَیْْہِمْ سُلْطَانٌ وَکَفَی بِرَبِّکَ وَکِیْلاً (بنی اسرائیل ۱۷:۶۵)
’’ بے شک جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا کچھ قابو(سُلْطَانٌ ) نہیں ، اور تیرا رب کافی ہے کام بنانے کو ‘‘ 
وَمَا کَانَ لَہُ عَلَیْْہِم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن یُؤْمِنُ بِالْآخِرَۃِ مِمَّنْ ہُوَ مِنْہَا فِیْ شَکٍّ وَرَبُّکَ عَلَی کُلِّ شَیْْءٍ حَفِیْظٌ (سبا۳۴:۲۱)
’’ اور شیطان کا ان پر کچھ قابو (سُلْطَانٍ) نہ تھا مگر اس لیے کہ ہم دکھا دیں کہ کون آخرت پر ایمان لاتا ہے اور کون اس سے شک میں ہے اور تمہارا رب ہر چیز پر نگہبان ہے ‘‘ 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی کو سلطان اس لیے ہی حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اس کا مستحق ہے بلکہ اس کے ذریعے دوسروں کی آزمایش مقصود ہوتی ہے ، اس لیے سلطان کا حامل حقیقی معنوں میں سلطان کا حامل نہیں بھی ہو سکتا ۔ اس نکتے کی مزید وضاحت سورۃ النحل کی ان آیات سے ہوتی ہے : 

إِنَّہُ لَیْْسَ لَہُ سُلْطَانٌ عَلَی الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ إِنَّمَا سُلْطَانُہُ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہُ وَالَّذِیْنَ ہُم بِہِ مُشْرِکُونَ (النحل، ۹۹، ۱۰۰)
’’ بے شک اس کا کوئی قابو (سُلْطَان) ان پر نہیں جو ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔اس کا قابو (سُلْطَانُہُ) انہیں پر ہے جو اس سے تعلق رکھتے ہیں اور اسے شریک ٹھہراتے ہیں ‘‘

غور کیجیے کہ طرفین (انسان اور شیطان ) میں سے انسان جس مقام پر کھڑا ہوتا ہے اسی سے سلطان کی نوعیت اور وقوع پذیری میں فوری تبدیلی آ جاتی ہے ۔ سورۃ النحل ۱۶ آیت ۱۰۰ کے مطابق ، چونکہ انسان(پورے قرآنی سیاق میں ) کذب و ظلم کا مرتکب ہو کر شیطان کو شریک ٹھہراتا ہے ،جو توحید کے مقابل جعل سازی ہے اس لیے شیطان کو بھی ایسے انسان پر جعلی سلطان حاصل ہو جاتا ہے ۔ بہرحال ! سورۃ سبا اور سورۃ النحل کی مذکورہ آیات کو دیکھیے اور غور کیجیے کہ سلطان کے ساتھ، آخرت ، توکل ، اور توحید جیسے اہم قرآنی تصورات وابستہ ہو گئے ہیں ۔قرآن مجید میں بعض مقامات پر ، لوگوں کے شرک کرنے اور دیگر اخلاقی امراض میں مبتلا ہونے پر ، یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا اللہ نے ان کو(ان امور کے لیے کوئی جواز ) سلطان عطا کیا ہے ؟: 

أَمْ أَنزَلْنَا عَلَیْْہِمْ سُلْطَاناً فَہُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوا بِہِ یُشْرِکُونَ (الروم ۳۰: ۳۵)
’’ کیا ہم نے ان پر کوئی سند (سُلْطَاناً )نازل کی ہے کہ وہ ان کو شرک کرنے کو کہہ رہی ہے ‘‘ 
وَأَن تُشْرِکُواْ بِاللّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَاناً (الاعراف ۰۷:۳۳)
’’اور یہ کہ تم شریک بناؤ اللہ کا ان کو کہ نہیں نازل کی اللہ نے ان کے بارے میں کوئی سند(سُلْطَاناً )‘‘

مزید دیکھیے: الانعام ۰۶:۸۱/الاعراف ۰۷: ۷۱/غافر۴۰:۳۵۔ 

سلطان، قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ کی طرف سے ، حجت ، سند ، دلیل ، اختیار اور غلبہ وغیرہ کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے :

وَأُوْلَءِکُمْ جَعَلْنَا لَکُمْ عَلَیْْہِمْ سُلْطَاناً مُّبِیْناً (النساء ۰۴:۹۱) 
’’ اور یہ ہیں جن پر ہم نے تمہیں صریح اختیار(سُلْطَاناً مُّبِیْناً ) دیا ہے۔‘‘ 
وَآتَیْْنَا مُوسَی سُلْطَاناً مُّبِیْناً (النساء ۰۴:۱۵۳)
’’ اور موسیٰ کو صریح غلبہ ( سُلْطَاناً مُّبِیْناً )دیا ‘‘ 
ِّوَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطَاناً (القصص ۲۸:۳۵)
’’ اور تم دونوں کو شوکت (سُلْطَاناً)عطا فرمائیں گے‘‘
وَأَنْ لَّا تَعْلُوا عَلَی اللَّہِ إِنِّیْ آتِیْکُم بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ (الدخان ۴۴: ۱۹)
’’ اور اللہ کے مقابل سرکشی نہ کرو میں تمہارے پاس ایک روشن سند( بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ ) لاتا ہوں ‘‘ 
وَفِیْ مُوسَی إِذْ أَرْسَلْنَاہُ إِلَی فِرْعَوْنَ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ (الذاریات ۵۱:۳۸)
’’ اور موسی میں جب ہم نے اسے روشن سند (َ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ )کے ساتھ فرعون پاس بھیجا ‘‘ 

سلطان کے مذکورہ مفاہیم، اس کی متنوع معنویت کی بابت داخلی شہادت فراہم کر رہے ہیں ۔ اگر ان آیات کو تفصیل سے دیکھا جائے جہاں اللہ نے رسولوں کو سلطان عطا فرمایا ہے تو یہ اہم نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ اس اتمامِ حجت اور عطیہ خداوندی کے بعد حکم عدولی کی صورت میں متعلقہ قومیں تباہ و برباد کر دی گئیں ۔ اب زیرِ نظر آیت (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳) کے اس حصے (فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً) پر غور کیجیے کہ ولی کو آخر سلطان ہی کیوں بنایاگیا ہے ؟۔اگر ولی کواختیار ، طاقت یا زور دینا مقصود تھا تو کسی اور لفظ سے مدعا ادا ہو سکتا تھا ، اور اگر مقصود ، دلیل و حجت یا سند دینا تھا تو اس کے لیے بھی ایسا لفظ برتا جا سکتا تھا جو اسی مفہوم کو قطعیت کے ساتھ ادا کرسکتا تھا ۔ لہٰذا اس آیت میں ( سُلْطَاناً) کا بیان ، معنوی سطح پر کم ازکم دو سمتوں میں پھیلا ہوا ہے۔ اگر ایک سمت میں ولی کو ایسا اختیار، جواز اور زور ملتا نظر آتا ہے جس کے پیچھے خدائی سند موجود ہے تو دوسری سمت میں معاشرے کے لیے انذار کا اہتمام موجود ہے کہ مظلوم مقتول کے ولی کو جب اللہ رب العزت نے سُلْطَاناً بنا دیا تو پھر اس کے بعد حکم عدولی کی صورت میں ، تباہی و بربادی اس معاشرے کا مقدر ہو گی ۔اگر سُلْطَاناً اور آیت کے تکمیلی لفظَ مَنْصُوراً کے باہمی داخلی ربط پر نظر رکھی جائے تو ولی کے لیے بشارت اور معاشرے کے لیے انذار کی مذکور معنویت مزیداجاگر ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں مقتول کی مظلومیت کی وجہ سے ولی کو سُلْطَاناً بنانے کا بیان ، ایک اعتبار سے رسولوں کو سُلْطَاناً عطا کرنے کے مماثل ہے، جس کے انکار کا نتیجہ بربادی ہی بربادی ہے۔ 

بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳ کے اس حصے (فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً) کا، البقرۃ ۰۲: ۱۷۸ کے اس حصے( فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ) سے تقابل و موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک مقام پر مقتول کے وارث کو بھائی کہا گیا ہے اور دوسرے مقام پر ولی ۔ اب اگر قاتل کو معاملہ طے کرنا ہو تو ، جس مقتول کے وارث کو بھائی کہا جارہا ہے، اس کے ساتھ معاملہ طے کرنے میں اسے آسانی ہو گی یا اس کے ساتھ ، جسے مقتول کا ولی قرار دیا جارہا ہے ؟ ۔ ظاہر ہے قاتل کے لیے بھائی کے بجائے ولی کافی روکھا اور سرد لفظ معلوم ہوتا ہے ۔ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ (لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً) کے بیان میں ولی کوایسی زبردست طاقت و جواز دینے کا اہتمام پایا جاتا ہے جس کے بعد کسی دلیل یا حجت کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، جبکہ أَخِیْہِ کے بیان میں ولی کے حوالے سے ، اخوت و الفت جیسی جملہ خصوصیات سموئی گئی ہیں ۔اسی طرح فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً میں ولی،کسی سمجھوتے کے بجائے طاقت و جواز کا جھنڈا لہراتا نظر آتا ہے جبکہ فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْء کے بیان میں مقتول کا وارث معافی کی درخواست ایک حد تک قبول کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ لہٰذا ہر دو مقامات پر مخصوص الفاظ کا انتخاب ، قتل کی مختلف انواع کی غمازی کر تاہے ۔ یعنی جواز کے تحت قتل اور ظالمانہ قتل ، اگرچہ دونوں قتلِ ناحق کے ذیل میں آتے ہیں ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بنی اسرائیل آیت ۳۳میں مقتول کو باقاعدہ مظلوم گرداننا اور اس کے ولی کا طاقت (سُلْطَانا)مکمل اختیار رکھنا ، قتلِ ناحق کی شدید صورت کو ظاہر کرتا ہے ۔ شاید اسی لیے اس آیت میں معافی و خون بہا کا سرے سے ذکر ہی نہیں ۔ ظاہر ہے ایسے اعصاب شکن اور انتہائی تناؤ والے ماحول میں ولی کواسراف فی القتل سے روکنا ہی بڑی بات ہے چہ جائے کہ اس سے معافی کی توقع رکھی جائے ۔ 

بنی اسرائیل ۱۷ کی زیرِ نظر آیت ۳۳ میں سُلْطَانا کی موجودگی اور دیت ، عفو اور صدقے جیسے الفاظ کی عدم موجودگی اس تاثر کو مزید تقویت دیتی ہے کہ قاتل کو کسی بھی قیمت پر ہرگز نہ چھوڑا جائے ۔ ظاہر ہے ظالم قاتل سے کسی کو بھی ہمدردی نہیں ہوگی اور زبان خلق پکار پکار کر کہے گی کہ اسے بالکل نہ چھوڑا جائے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے مطابق کسی شخص کا مظلومانہ قتل ، کسی بھی معاشرے کے ا جتماعی اخلاقی ضمیر کے لیے ناقابلِ برداشت اور ناقبلِ ہضم ہونا چاہیے ۔ مقتول کے ولی کی طاقت و معاونت کے پیچھے درحقیقت یہی ضمیر کارفرما ہے۔ 

جہاں تک قتل کے فعل میں ، اسراف کی ممانعت کا تعلق ہے اس سلسلے میں’’ اسراف‘‘ کے قرآنی اطلاقات راہنمائی فراہم کرتے ہیں ،جن سے صراحت ہوتی ہے کہ قتل کے فعل میں ’’غلو‘‘ سے روکا گیا ہے ، مثلاََ : (النساء ۰۴:۰۶ / الانعام ۰۶:۱۴۱/ الاعراف ۰۷:۳۱)۔قرآن میں ایک مقام پر اسراف کے مقابل دوسری انتہا کا ذکر کرکے مطلوب و مقصود ’’توازن‘‘کی نشاندہی کر دی گئی ہے :

وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْْنَ ذَلِکَ قَوَاماً (الفرقان ۲۵/ ۶۷)
’’اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال پر رہیں ‘‘ 

اگر بنی اسرائیل آیت ۳۳ کے بیان(فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ) میں، دوسری انتہا (وَلَمْ یَقْتُرُوا) کو بوجوہ، شامل سمجھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حدِ اعتدال ، معروف کے مطابق قتل ہے ۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ مظلوم مقتول کے بدلے میں قتل نہ کرنا بھی قرآنی منشا کے منافی ہے ، شاید اسی لیے یہاں معافی و خون بہا کو کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ۔قرآن میں ایک مقام پر اسراف کی معنویت ، زیرِ نظر آیت میں اسراف کی ممانعت کو قتل کرنے کے طریقہ کار تک بڑھا دیتی ہے:

إِنَّکُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِّن دُونِ النِّسَاء بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ (الاعراف ۰۷/۸۱)
’’تم تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر ، بلکہ تم قوم ہو حد سے نکل جانے والے ‘‘ 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ولی پر لازم کر دیا گیا ہے کہ وہ قاتل کو قتل کرنے کے عمل میں ، خلافِ فطرت، خلافِ وضع یا معروف کے خلاف ، کوئی شرم ناک طریقہ نہیں اپنائے گا۔ اس لیے (فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ) کے بعد (إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً) کے الفاظ داخلی شہادت دے رہے ہیں کہ ولی کو کسی ایسے منفی اقدام سے روک کر اس کی مدد کی جائے گی۔قابلِ غور امر یہ ہے کہ اس مدد کرنے کے بیان میں، ولی کو ایک خاص درجے میں متنبہ کیا گیا ہے ، لیکن یہ تنبیہ اتنے لطیف کنایے میں ہے کہ ولی پر گراں نہیں گزرتی ۔ ظاہر ہے کہ تنبیہ پر مشتمل یہ مدد ، ریاستی نظم کے ذریعے سے ہی ممکن ہو سکے گی جس کے پیچھے اجتماعی معاشرتی ضمیر لازماً موجود ہو گا۔ قرآن میں اسراف کا بیان ، اللہ سے لا تعلقی و بے نیازی کے معنی میں بھی آیا ہے :

وَإِذَا مَسَّ الإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِہِ أَوْ قَاعِداً أَوْ قَآءِماً فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہُ مَرَّ کَأَن لَّمْ یَدْعُنَا إِلَی ضُرٍّ مَّسَّہُ کَذَلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ (یونس ۱۰/۱۲)
’’ اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے ہمیں پکارتا ہے لیٹے اور بیٹھے اور کھڑے ، پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو وہ ایسا چلتا ہوتا ہے گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر ہمیں پکارا ہی نہ تھا ، اسی طرح مسرفین کے لیے آراستہ ہوا وہ طرزِ عمل جو وہ اختیار کیے ہوئے تھے ‘‘ 

گویا زیرِ نظر آیت (بنی اسرائیل ۱۷:۳۳)میں یہ معنویت بھی موجود ہے کہ اگرچہ مظلوم مقتول کا ولی مشکل حالات میں اللہ کو پکارتا ہے اور اللہ اس کو ’’سلطان‘‘ بنا دیتا ہے ، لیکن جب قاتل اس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے تو وہ خود کو حق بجانب خیال کرتے ہوئے ظالم قاتل کو انتہائی برے انداز میں قتل کرکے ، اپنے تئیں عین فطرت کے مطابق حق کام سرانجام دینے کی کوشش کر سکتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی شخص کا مظلومانہ قتل ایسی صورتِ حال کو جنم دے سکتا ہے جس میں مقتول کا ولی بھڑک کر اسراف فی القتل کا نہ صرف مرتکب ہو سکتا ہے بلکہ اپنے عمل کو حق بجانب بھی خیال کر سکتا ہے ۔ اس لیے ایسے قتل کی مخصوص نوعیت کے پیشِ نظر ہی اس آیت میں ’’ قصاص ‘‘ کے بجائے اسراف فی القتل کی ممانعت کرکے حقیقت میں قصاص کا حکم دیا گیا ہے اور اس حکم میں مضمر ممانعت کے اندر ہی نہایت لطیف انداز میں ولی کو اسراف سے وابستہ، آراستگی و زینت پر متنبہ بھی کر دیا گیا ہے ۔ قرآن کے مطابق مسرفین ، اسراف کو اس وقت مزین و آراستہ دیکھتے ہیں جب وہ اللہ سے لاتعلقی و بے نیازی کا رویہ اختیار کرتے ہیں ، اس لیے مسرف کو آیاتِ الہی اور خدائی احکامات کا منکر قرار دیا گیا ہے، دیکھیے : یونس ۱۰:۸۳/طہ ۲۰ :۱۲۷/الانبیاء ۲۱:۰۹/ غافر ۴۰: ۲۸ ، ۳۴ ، ۴۳/ الزخرف ۴۳: ۰۵/الدخان ۴۴:۳۱/الذاریات ۵۱:۳۴ ۔اس استشہاد سے، مذکورہ لطیف تنبیہ ابھر کر سامنے آجاتی ہے ۔ لہٰذا نفسیاتی اور اخلاقی لحاظ سے ، ولی کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہنا چاہیے کہ اسراف فی القتل کا عمل اسے آیاتِ الہٰی کے منکرین میں شامل کر سکتا ہے ۔ 

زیرِ نظر آیت میں چونکہ مقتول ، مظلوم ہے اس لیے معاشرے کی اس کے ساتھ فطری ہمدردی اور اس کے ولی کی ذہنی حالت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ، اسراف فی القتل کی ممانعت کے حکم کے باوجود ، اسراف ہوجانے کی صورت میں لچک کا پہلو رکھا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ قرآن مجید میں اسراف کی جو معنوی پرتیں پائی جاتی ہیں ان میں اسراف کے محرکات و نتائج کو کافی اہمیت دی دگئی ہے، مثلاً: ’’اور مت مانو حکم مسرفین کا ، جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور نہیں اصلاح کرتے‘‘ (الشعراء ۲۶/۱۵۱، ۱۵۲) لیکن جہاں کہیں انسان ضد اور ہٹ دھرمی کے بجائے بے اختیاری و مجبوری میں اسراف کا ارتکاب کرتا ہے، وہاں اللہ رب العزت نے بخشش و رحمت کی بھر پور امید دلائی ہے : 

وَمَا کَانَ قَوْلَہُمْ إِلاَّ أَن قَالُواْ ربَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِیْ أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ (آل عمران ۰۳/۱۴۷)
’’اور وہ کچھ بھی نہ کہتے تھے سوائے اس دعا کے کہ اے ہمارے رب بخش دے ہمارے گناہ اور جو زیادتیاں ہم نے اپنے کام میں کیں اور ہمارے قدم جما دے اور مدد دے ہم کو اوپر قوم کافروں کے ‘‘ 
قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ (الزمر ۳۹/۵۳) 
’’ تم فرماؤ اے میرے وہ بندو اجنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بے شک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے ‘‘ 

چونکہ مظلوم مقتول کا ولی اسراف کرنے کی صورت میں ، بے اختیاری کی کیفیت میں اسراف کرتا ہے ، اس لیے وہ جان بوجھ کر ایک خاص باغی ذہن کے ساتھآیاتِ الہی اور منشائے ربانی کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔ اب چونکہ ولی ، ذہنی حالت کے لحاظ سے خدا کا باغی نہیں ہے اس لیے اسراف ہو جانے کی صورت میں اسے مغفرت و رحمت کی امید لازماََ رکھنی چاہیے ۔ زیرِ نظر آیت کے تکمیلی الفاظ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً سے اس نکتے کی مزید تصریح ہوتی ہے ۔ کیونکہ قرآن میں اسراف کی ممانعت کی آیات کا خاتمہ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (الانعام ۰۶/۱۴۱، الاعراف ۰۷/۳۱)کے الفاظ میں کیا گیا ہے ، لہذ اسراف کی صورت میں، اگر ولی کے لیے لچک کی گنجایش مقصود نہ ہوتی تو اس آیت کے اختتام پر بھیِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً کے بجائے إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن کے الفاظ پائے جاتے ۔لہٰذاِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً کے الفاظ دلالت کر رہے ہیں کہ قرآن نے مقتول کی مظلومیت اور ولی کی ذہنی حالت کا پورا خیال رکھا ہے ۔ اگر إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن کے الفاظ برتے جاتے تو مقتول کی مظلومیت اور ولی کی ذہنی حالت دھیان میں نہیں رہ سکتی تھی ، اس پر مستزاد یہ تاثر ملتا کہ قرآن، قاتل کو (ظالم ہونے کے باوجود ) کسی نہ کسی حوالے سے کوئی تحفظ دینا چاہتا ہے ۔ 

اسراف کے محرکات و نتائج کے حوالے سے ، بنی اسرائیل ۱۷/آیت ۳۳ کا تقابل المائدۃ ۰۵/۳۲ سے کیا جائے تو اس مسرف کو چہرہ سامنے آتا ہے جو قرآن کی نظر میں معتوب ہے: 

مِنْ أَجْلِ ذَلِکَ کَتَبْنَا عَلَی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ أَنَّہُ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً وَلَقَدْ جَاء تْہُمْ رُسُلُنَا بِالبَیِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ کَثِیْراً مِّنْہُم بَعْدَ ذَلِکَ فِیْ الأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ (المائدۃ ۰۵/۳۲)
’’اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی ، مگر ان کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے درپے کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں ‘‘

اس کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقی (سزا کا مستحق )مسرف وہ ہے جو خون کے بدلے یا فساد فی الارض کے علاوہ کسی اور وجہ سے قتلِ نفس کا رتکاب کر کے احکامات الہٰی کی دھجیاں اڑا تاہے۔ لہٰذا بنی اسرائیل کی زیرِ نظر آیت میں مقتول کا قاتل ، مقتول کے ’’ مظلوم ‘‘ ہونے کی وجہ سے مسرفین میں شمار کیا جا سکتا ہے کہ وہ مذکورہ وجوہات کے علاوہ کسی اور وجہ سے پہل کرتے ہوئے قتل کا مرتکب ہوا ہے ۔ مظلوم مقتول کے ولی کی پوزیشن اس سے کافی مختلف ہے، وہ اگر اسراف کا مرتکب ہوتا بھی ہے تو اولاََ ، پہل نہیں کرتا ، دوم ، خون کے بدلے میں اسراف کرتا ہے جس کے پیچھے بشری کم زوری چھپی ہوتی ہے نہ کہ حقیقی مسرف کے مانند احکاماتِ الہٰی کو چیلنج کرنے کی باغیانہ ذہنیت ۔اسی لیے محرکات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، مسرف ہونے کی صورت میں اس کے لیے لچک کی گنجایش باقی رکھی گئی ہے ۔ 

المختصر ! بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳ سے واضح ہوتا ہے کہ مظلومانہ قتل کا واقعہ رونما ہونے کی صورت میں ، مقتول کے ولی کے پاس بدلہ لینے کا، خدائی سند پر مبنی پورا جواز موجود ہوگا ، یہ جواز اسے طاقت و اختیار سے نوازے گا ۔ خدائی سند اور سماجی منظوری کی حامل ایسی زبردست طاقت ملنے کے بعد ولی کو اسراف فی القتل کی آراستگی سے بچنا ہو گا کہ وہ آیاتِ الہی کے منکرین میں شمار ہو سکتا ہے ۔ اگر وہ نہیں بچ پاتا تو معاشرے و ریاست کوچاہیے کہ اس پر آیاتِ الہی کے منکرکا لیبل چسپاں نہ کریں اور اس کے عمل کو بشری کم زوری پر محمول کرتے ہوئے حکمت و تدبر سے کام لیں۔ 

(جاری) 

قرآن / علوم القرآن

(اکتوبر ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter