تعلیم اور نصاب کاتعلق صرف استاذ ،شاگرد اور درس گاہ سے نہیں بلکہ اس کا براہ راست تعلق اس زندگی سے ہے جو ہر لمحہ رواں دواں اور تغیر پذیر ہے اس لیے بہترین نصاب وہی ہو سکتاہے، جو ایسے علوم وفنون پر مشتمل ہوجو انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں نیز انسانی فکر کے تاریخی ارتقا کے عکاس ہوں اور جن کے پیشِ نظر ایسے رجال کار کی تیاری ہو ، جو سوسائٹی کے انفرادی اور اجتماعی رویوں کی مثبت تشکیل ممکن بنا سکیں ۔
مسلم تاریخ میں نصاب تعلیم کا ارتقا
اسلامی تاریخ کا سرسری مطالعہ بھی اس بات کی ثبوت کے لیے کافی ہے کہ نبوت کے مکی اور مدنی ادوار میں نظا م تعلیم اور نصاب میں معروضی حالات کے پیش نظر بقدر ضرورت تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔دار ارقمؓ اور شعب ابی طالب میں تعلیم کا نصاب اور نظام اس سے بہرحال مختلف تھا جس کی تعلیم مسجد نبویؑ کی درس گاہ (صفہ)میں دی جاتی تھی۔صفہ میں حالات کے تقاضوں اور ضرورتوں کے پیش نظر قرآن وسنت کی لازمی تعلیم کے ساتھ ساتھ خطاطی،طب،تیر اندازی،تلوار زنی،اور نیزہ بازی کے فنون بھی سکھائے جاتے تھے ۔مرورِ ایام کے ساتھ قرآن وسنت جیسے بنیادی اور لازمی مضامین کی اہمیت و افادیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا ۔ ان کے علاوہ دیگر علوم وفنون ارتقاء اور تبدیلیوں کے مختلف مراحل طے کرتے رہے ۔ ان میں سے بعض مضامین اگر حالات کے تقاضوں کے پیش نظرداخل نصاب ہوئے تو بعض دیگر کو ضرورت پوری ہونے پر نصاب سے خارج بھی کر دیا گیا ۔
ہلاکو خان کے حملہ بغداد ۱۲۵۸ء تک مسلم فکر میں زبردست ارتقاء نظر آتاہے ۔بغداد کی تباہی سے نہ صرف مسلمانوں کی صدیوں کی علمی ترقی اور ذہنی ریاضت دریا برد ہوگئی بلکہ کئی نامور علما بھی تاتاری تلوار کی نذرہوگئے ۔اور پھر ۱۴۹۲ء میں سقوط غرناطہ کے بعد مسلم فکر کے تقریبا تمام علمی سر چشمے خشک ہوگئے ۔اور علمی روایت مکمل طورپر مغر ب کی طرف منتقل ہوگئی۔ اگر چہ ان دو بڑے حادثات کے بعد بھی مسلمانوں کو سیاسی عروج حاصل رہاہے ۔لیکن فکری اور علمی اعتبار سے یہی مسلمانوں کادور انحطاط ہے۔درس نظامی کے روایتی نصاب پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس نصاب میں شامل اکثر کتب اور علوم وفنون اسی دور زوال کی یاد گار ہیں۔جب مسلمانوں کا علمی انحطاط شروع ہوچکاتھا اور مسلم فکر پر جمود کے سائے پڑنا شروع ہوگئے تھے ۔
نئے علوم وفنون اور موضوعات پر غور وفکر کی بجائے ایسی کتابیں منصہ شہود پر آنے لگیں ۔جن میں اختصار نویسی ،لفظی بحثوں اور لفظی موشگافیوں کو ہی کمال فن سمجھا جانے لگا۔بڑا کمال یہی سمجھا گیا کہ عبارت ایسی دقیق اور غامض ہو جس کے لئے شرح وحاشیہ کی ضرورت ہو ، لطیفہ یہ ہے کہ بعض اصحاب علم نے ذہنی عیاشی کی خاطر انتہائی مختصر کتب تصنیف کیں ۔اور پھر خود ہی ان پر طویل حواشی لکھنے بیٹھ گئے اور اب ہمارے مدرسین اپنی عمر عزیز کا زیادہ حصہ انہی دقیق عبارتوں کے سمجھنے اور سمجھانے میں گزار دیتے ہیں۔مصنف کی مراد ،ضمائر کے امکانی مراجع اور عبارت کی اعرابی حالتوں کے ایسے خیالی پلاؤ پکائے جاتے ہیں کہ بسااوقات ایسی بحثوں میں کئی کئی ہفتے گزر جاتے ہیں اور نتیجہ پھر بھی غیر حتمی ہی رہتاہے۔گویا فن میں مہارت کے بجائے کتاب کی تفہیم حقیقی مقصد بن کر رہ گئی ہے۔
برصغیر میں مدارس کا نصاب تعلیم
برصغیر میں انگریزی عہد اقتدار سے قبل مدارس میں جن علوم وفنوں کی تعلیم دی جاتی تھی ان کی افادیت محدود ہوچکی تھی ،تاہم اس وقت جو نظام تعلیم اور نصاب رائج تھا اس میں دینی اور دینوی کی کوئی تفریق نہ تھی۔اور یہ نصاب مسلم دور کی ضرورتوں اور تقاضوں کو کسی نہ کسی حد تک پورا کررہاتھا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغلیہ دور میں جس نظام تعلیم اور نصاب نے مجدد الف ثانیؒ جیسامذہبی عبقری پیداکیااسی نظام نے نواب سعداللہ خان جیسا شخص بھی تیار کیا۔جو سلطنت مغلیہ کاوزیراعظم بنااور جو حضرت مجدؒ د کاہم جماعت تھا،پھر استاذاحمد معمارجس نے تاج محل،جس کاشمار دنیا کے سات عجائبات میں ہوتاہے ، تعمیر کیا۔یہ بھی حضرت مجدؒ د کاکلاس فیلوتھا۔یہ تینوں ایک ہی استاذکے شاگرد اور ایک ہی درس گاہ کے پڑھے ہوئے تھے اور ایک ہی نصاب اور تعلیمی نظام کی پیداوار تھے۔
۱۸۵۷ء میں برصغیر پر انگریز کے مکمل قبضہ واختیار کے بعد ہمارے سامنے نظام تعلیم اور نصاب کے حوالے سے دو گروہ ابھر کر سامنے آتے ہیں ایک گروہ کاتعلق روایتی دینی مدارس سے ہے۔ فی الوقت جن کی نمائندگی شیعہ اور سنی وفاق (بریلوی ،دیوبندی،سلفی)کررہے ہیں۔دوسرے گروہ کاتعلق جدید تعلیم کے علمبرداروں سے ہے۔سر سید احمد خانؒ کی علمی تحریک اسی گروہ کی نمائندہ تحریک ہے۔روایتی دینی مدارس کانصاب ہو یاعلی گڑھ کا،دونوں کانصاب تعلیم دور غلامی کے مخصوص حالات ،تقاضوں اور پس منظر کا عکاس ہے۔یقینی طور پر کہاجاسکتاہے کہ ان دونوں نصاب ہائے تعلیم کی بنیاد خوف اور ذہنی تحفظات پر تھی۔ایک طبقہ اس خوف میں مبتلاتھا کہ جدید تعلیم سے احتراز مسلمانوں کے لیے انتہائی تباہ کن ہوگا۔مسلمان تجارت ،اسباب معیشت ،ملازمتوں اور دیگر قومی معاملات میں پیچھے رہ جائیں گے۔جبکہ دوسرے طبقہ کو یہ خوف دامن گیر تھا کہ انگریزجو برصغیر کو دوسرا اسپین بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیراہیں ،کے عزائم کو ملیامیٹ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وقتی فوائد سے صرف نظر کرتے ہوئے دینی علوم کی تدریس کے لیے مدارس کا ایسا نظام قائم کیا جائے جو قوم کو تہذیبی ارتداد سے بچاسکے اور جو مسلمانوں کے دین ،ایمان اور اسلامی تہذیب وتمدن کے تحفظ کاضامن ہو۔حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں دین وایمان کی بہاریں ہمارے اسلاف کی اسی محنت ،خلوص اور حکمت عملی کا نتیجہ ہیں ، تاہم یہ بات واضح ہے کہ ہر دو طبقات کی حکمت عملی دفاعی نوعیت کی تھی۔اور یہ حکمت عملی اپنے مخصوص پس منظر میں بالکل درست تھی۔
پاکستانی مدارس کا نصاب تعلیم
۱۹۴۷ء کے بعد حالات وضروریات اور تقاضے بدل گئے اس وقت دونوں (دینی ودینوی)نصاب ہائے تعلیم میں انقلابی اور اجتہادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت تھی۔ان دونوں نظام ہائے تعلیم کو ختم کرکے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایسا نصاب مرتب ہونا چاہیے تھا ،جو جدید علمی اور فکری چیلنچز کابھر پورجواب مہیا کرتا۔خاص طور پر پاکستان میں تو اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ علماء کو سوسائٹی میں قائدانہ کرادار اداکرنے کے قابل بنایاجاتا،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس سے فارع ہونے والے علماء جب عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو چونکہ وہ سوسائٹی کے عرف اور محاورے سے واقف نہیں ہوتے اس لیے عجیب طرح کی اجنبیت کاشکار ہو جاتے ہیں۔اور عملا معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں ۔بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی:
’’آج ہمار ا امام سوسائٹی میں جاکر یہ محسوس کرتاہے کہ میں نے جو کچھ پڑھا ہے وہ تو Irrelevantہے اور یہاں لوگ جو سوال کررہے ہیں اس کامیرے پاس جواب نہیں تو وہ پڑھی ہوئی چیزوں کو Relevant بنانے کے لیے وہاں وہ مسائل پیداکرتاہے جو اس کے اپنے مسائل ہیں تاکہ وہ لوگوں کے بھی مسائل بن جائیں اور جب وہ ان کے مسائل بن جائیں گے اور وہ پوچھیں گے تو میں ان کا جواب دوں گا ۔وہ مسائل کیا ہوتے ہیں ؟وہ فرقہ ورانہ ہوتے ہیں اب جن بیچاروں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا اور نہ کبھی ان کے ذہن میں یہ خیال آیاہوتاہے کہ حضور ؑ نور تھے یا بشر تھے،ان کے لیے امام مسئلہ پیدادیتاہے۔رسول اللہ کاحکم واجب التعمیل ہے یہ کوئی نہیں بتاتا،لیکن ایک اس پر زور دیتاہے کہ آپ ﷺ بشر تھے اور دوسرا اس پر کہ آپﷺ نور تھے ۔وہ نور کا ایک محدو د مفہوم بیاں کرتاہے یہ بشر کامحدود مفہوم بیاں کرتاہے۔اور جب علم کی کمی کی وجہ سے لوگوں کا ایک گروہ اس کام کے لئے تیار ہوجائے گا تو اب امام صاحب کی نوکری پکی ہوجا ئے گی اور انہیں کوئی وہاں سے نہیں اٹھائے گا۔یہ ایک افسو س ناک بات ہے جس پر غور کرنا چاہیے‘‘۔(ماہنامہ الشریعہ مارچ ۲۰۰۵ء:۲۶)
ایسے ہی سطحی علم رکھنے والے حضرات معاشرے میں فتنہ وفساد اور فرقہ ورانہ تشدد کا باعث بنتے ہیں ۔یہ صورت حال ایسی خوف ناک اور گھمبیر ہے جس کی وجہ سے ایک طرف سیلم الفطرت لوگ مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں تو دوسری طرف عام لوگ دین سے دوری میں ہی اپنی ’’عافیت‘‘ سمجھنے لگے ہیں بقول علامہ اقبال:
کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ میر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی
ضرورت اس امر کی تھی کہ دور غلامی میں حالت جبر میں اختیار کردہ تعلیمی نظام پر نئے سرے سے غور وفکر کیا جاتا اور قیام پاکستان کے بعد ماہرین تعلیم کی مشاور ت سے مناسب ا ور معقول قومی تعلیمی پالیسی تشکیل دی جاتی ۔لیکن بد قسمتی سے ایسی کوئی بھی سنجیدہ کوشش بروئے کار نہیں لائی گئی ۔ اس وقت صورت حال یہ کہ پاکستان میں طبقاتی نظام تعلیم میں مز ید پھیلاؤ آیا ہے۔
جدید تعلیمی اداروں سے جو نسل تیار ہوکر نکل رہی ہے ان کا دین سے تعلق انتہائی کمزور ہے اور دوسری طرف جو نسل روایتی دینی اداروں سے فارغ التحصیل ہو رہی ہیں ان کا حالات حاضرہ ،جدید معاشی ،سیاسی اور عمرانی علوم سے کوئی تعارف نہیں،عالمی قانون ،عرف،رسم ورواج اور مغربی فکر وفلسفہ توان کے لئے قطعا اجنبی چیزیں ہیں ۔ نصاب کی اس تقسیم کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر نصاب کے پڑھنے والے اس نصاب کے آثارونتائج سے قطعا بے گانہ ہیں جیسے انھوں نے نہیں پڑھا ہے ۔ملک میں پڑھے لکھے طبقہ کی دو مستقل جماعتیں قائم ہوگئیں ہیں ایک طبقہ دوسرے پر فسق والحاد اور بے دینی کا الزام عائد کرتاہے تو دوسرا اس پرتاریک خیالی اور زمانے سے ناواقفیت کی پھبتیاں کستا ہے۔مسڑاور ملا ں کے طنزیہ ناموں سے قائم ان طبقوں میں کشمکش مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے۔
ارباب دانش کی نظر میں نصاب تعلیم کی وحدت کے علاوہ اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے ۔اس حوالے سے حکومتی اور اعلیٰ ترین سطح پر پیش قدمی کی ضرورت تھی تاہم حکومت کی مجرمانہ غفلت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دینی مدارس کے ارباب بست وکشاد بھی اسی عدم تدبر کا مظاہرہ کرتے ،نئے حالات میں ان کی حکمت عملی دفاعی کی بجائے اقدامی ہونی چاہیے تھی ،کیونکہ آزادی کے بعد عوام الناس زندگی کے ہر میدان میں ان سے قائدانہ کردار کی توقع کر رہے تھے لیکن بدقسمتی سے ہماری دینی قیادت اس فہم وفراست کا مظاہرہ نہ کرسکی جس کامظاہر ہ ہمارے اسلاف ہر دور میں کرتے رہے ہیں۔
برِ صغیر کے علما کی فکر مندی
نصابِ تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا احساس تقریباََ تمام مکاتبِ فکر کے اکابرین میں شروع سے ہی رہا ہے ۔ اس حوالے سے ، نصابِ تعلیم کی ماہیت پر مشتمل کتابوں میں تمام مکاتبِ فکر کے اسلاف کی آراء ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔ طوالت سے بچتے ہوئے ہم صرف مولانا قاری محمد طیب ؒ کے ایک خطاب کے اس اقتباس پر اکتفا کرتے ہیں:
’’اب رہا مدارس عربیہ کا نصاب میں تبدیلی کا قضیہ ،سو مجھے اس اصول سے انکا رنہیں اور نہ کسی کو ہو سکتاہے ۔جن تعلیمات کا تعلق وحی الہی سے ہے ،ان کی تبدیلی پر نہ ہم قادر ہیں ،نہ ہمیں حق ہے ۔باقی جو فنون یا کتابیں قرآن کے خادم کی حیثیت سے زیر تعلیم آتی ہیں ،وہ زمانہ اور احوال کے لحاظ سے بدل سکتی ہیں۔قرآن ہر زمانہ میں ایک رہا ،لیکن اس کی تفہیمات کا انداز بدلتارہا ۔جس دور میں مثلاً فلسفہ کا زور ہوا تو قرآن کو فلسفیانہ انداز میں سمجھایا گیا۔جس دور میں تصوف کا زور ہوا تو قرآن کو صوفیانہ انداز میں سمجھایا گیا ۔آج سائنس کازور ہے تو وہ سائنسی رنگ میں تجلی کرے گا۔اس ساری حقیقت کو میں بطور خلاصہ ان الفاظ میں لاسکتاہوں کہ’’مسائل پرانے ہوں تو دلائل نئے ہوں۔ ‘‘ (۲۲،۲۳ فروری ۱۹۴۷ء کو اسمبلی ہال لکھنو میں منعقدہ’’تعلیمی کانفرنس ‘‘سے خطاب)
ضیاء الامت ؒ کے عملی اقدامات اور اصلاحات
ضیاء الامت پیرمحمد کرم شاہ الازہری ؒ نے علماء اور جدید تعلیم یافتہ نسل کے درمیاں بڑھتے ہوئے خلا کو آج سے نصف صدی قبل محسوس کیا۔ چنانچہ آپ نے قدیم اور جدید علوم کے امتزاج سے ایک ایسے نصاب تعلیم کی ضرورت محسوس کی جو علماء کو نہ صرف قومی دھارے سے جوڑے رکھے بلکہ انہیں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل بھی بناسکے ۔چنانچہ پیر صاحبؒ نے ۱۹۵۷ء میں اپنے والد محترم کے قائم کردہ ادارے ’’دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ‘‘ کی نشاۃ ثانیہ کا آغازفرمایا ۔نئے نصاب کی ترتیب ،تدوین ،اور تنفیذ میں پیر صاحبؒ کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ بڑے گھٹن اور صبر آزما تھے ۔چونکہ یہ بالکل نیا اور منفرد تجربہ تھا۔اس لیے جب پیر صاحبؒ نے اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان عمل میں اترے تو وہ اس منزل کے تنہا مسافر تھے ۔پیر صاحبؒ نے ا پنی ذات میں ایک پورے ادارے کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ آپ کے مشہور سوانح نگار پروفیسر حافط احمد بخش صاحب نے پیر صاحب ؒ کی سوانح عمری ’’جمال کرم‘‘جلد اول میں ان تمام حالات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ نئے نصاب کی ترتیب میں حضرت ضیاء الامتؒ کے پیش نظر جو خصوصی امور تھے ان کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’دینی مدارس کا نصاب تعلیم ایسا ہونا چاہیے جس سے فراغت پانے کے بعد انسان میں علوم جدیدہ سے پوری واقفیت اور حالا ت حاضرہ پر گہری نظر ہونے کے ساتھ علوم دینیہ میں ٹھوس قابلیت پیداہوجائے،سطحی قسم کے علماء الحاد وفجور کے اس خوف ناک سیلاب کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ملت کو ایسے علماء کی ہرگز ضرورت نہیں جو اسلام کی ابدی تعلیمات کو حالات حاضرہ سے ہم آہنگ کرنے کے خبط میں قطع وبرید اور تبدیلی وتحریف تک آمادہ ہوں بلکہ ایسے مردان کار کی ضرورت ہے جو ایمانی فراست کو کام میں لاتے ہوئے حالات کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور اس کے لیے علوم دینیہ میں مہارت ضروری ہے۔‘‘(جمال کرم ۱/۳۳۲)
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ میں داخلہ کے خواہش مند طلباء کے لیے میڑک پاس ہونا بنیادی شرط ہے۔نو سالہ دورانیے پر مشتمل اس نصاب میں ایف ۔اے ۔اور بی ۔اے کے امتحانات بالترتیب سرگودھا بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی کے زیر انتظام دلوائے جاتے ہیں ۔جبکہ دارالعلوم کی تکمیلی سند کو حکومت نے ایم۔اے اسلامیات وعربی کے مساوی تسلیم کیا ہے ۔یہاں سے فارغ التحصیل علما کو ’’شاہین‘‘ کہا جاتاہے ۔دارالعلوم میں دینی تعلیم میں رسوخ کو اولیت اور تر جیح حاصل ہے۔
پیر صاحبؒ نے دینی مدارس کے روایتی نصاب میں جو انقلابی اصلاحات تجویزفرمائیں زیر نظر سطور میں ہم اس کے صرف چند اہم پہلووں کا اختصا ر کے ساتھ تعارف پیش کریں گے اور ان کوششوں کے عملی فوائد وثمرات کا تجزیہ کریں گے۔
صرف ونحو
کسی بھی زبان کی سمجھ بوجھ کے لیے گریمر خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے ۔گریمر کا کردار زبان کی تسہیل اور تفہیم سے ہے جبکہ مدارس کے طرز تعلیم میں علمِ صرف اور خاص طور پرعلمِ نحو کو زبان کے مشکل بنانے کے لیے استعمال کیا جاتاہے کافیہ اور شرح جامی جیسی کتب جس تحقیق اور لفظی موشگافیوں کی ابحاث کے ساتھ پڑھی پڑھائی جاتی ہیں ،کاش قرآن وسنت کی تعلیم میں بھی یہی شوق پیش نظر ہو۔عموما اساتذہ کافیہ کی پہلی سطر ’’الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفردا‘‘ کی تقریر میں ہی کئی ہفتے گزار دیتے ہیں۔مولانا ابو الکلام آذاد کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ برصیغیر میں صرف ونحو کی تعلیم میں طلباء پر بیک وقت تین بوجھ ڈال دیے جاتے ہیں۔
ایک اجنبی زبان (کہ صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں زیادہ تر فارسی زبان میں ہیں )۔
دوسرا حلِ عبارت کا ،طالب علم کی بیشتر توانائی مغلق وغامض عبارت کے حل پر صرف ہو جاتی ہے۔
تیسر ا اگر دما غ میں کچھ گنجائش باقی رہ گئی ہے تو وہ اصل علم حاصل کرے ۔
یہی وجہ ہے کہ گوہرِ مقصود ہاتھ نہیں آتا ۔ہمیں یہ چیز ذہن میں رکھنی چاہیے کہ صرف ونحو اور دیگر علوم صرف قرآنی بصیر ت تک رسائی کے وسائل اور ذرائع ہیں اس لیے ایسی تمام کتب کو آسان اور عام فہم ہونا چاہئے ۔پیر صاحب ؒ نے صرف ونحو کے روایتی اسلوب میں جو تبدیلی کی ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:
’’عربی علوم میں دسترس حاصل کرنے کے لیے صرف ونحو کو کلیدی حیثیت ہے اس سے کسے انکار ہے ،اس لیے میں نے مفید خیال کیا کہ ابتدائی سالوں میں صرف ونحو پر زیادہ سے زیادہ زور دیا جائے اور اس کے لیے ایسی کتب کاانتخاب کیا جائے جو آسان اور واضح ہونے کے ساتھ ساتھ فن کی تمام خصوصیتوں کی حامل ہوں اور ان کی تعداد بھی زیادہ نہ ہو‘‘(جمال کرم ۱/۳۳۲)
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ میں صرف ونحو کی تعلیم میں جن چیزوں کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے ان کی نوعیت درج ذیل ہے:
۱۔روایتی دینی مدارس کے بر عکس صرف و نحو کی تعلیم کے لیے کتب کی تعداد واضح طور پر کم کی گئی ہے۔
۲۔جو کتب منتخب کی گئی ہیں وہ سادہ عام فہم اور آسان اردو اور عربی زبان میں ہیں ۔ابتدائی تعلیم کی مادری زبان میں ضرورت واہمیت ماہرین تعلیم کے ہاں مسلم ہے۔تسہیل النحو اور تسہیل الصر ف (مولانا حافظ محمد خان نوری) اردو زبان میں ہیں ۔نیز اس کے ساتھ عربی زبان میں عصر جدید کی مطبوعات النحو الواضح(از علی جارم مصطفی امین )کے چھ حصوں کی تدریس بہت عمدہ انتخاب ہے۔یہ کتا ب اپنے موضوع پر انتہائی مفید اور سلجھے ہوئے انداز میں لکھی گئی ہے ۔اس کتاب کی خاص خوبی یہ ہے ،قواعد عربی کاعملی اجراء بھی ساتھ ساتھ ہوتاجاتا ہے۔اور عربی زبان کے قواعد اس طرح پڑھائے جاتے ہیں کہ جس طرح ایک زندہ زبان کے پڑھائے جانے چاہییں۔
ادب وانشا
درس نظامی کے روایتی نصاب میں ادب وانشاء کی تعلیم برائے نام ہے ۔ادب وانشاء کی جگہ فن بدیع (لفظی صنعت گری)کی کتابین داخل نصاب ہیں ۔مطول جیسی کتابوں کی تعلیم کے بعد طلبہ میں ادبی ذوق پروان چڑھنے کی توقع رکھنا عبث ہے ۔آج کی علمی دنیا میں اگر کسی کو یہ بتایا جائے کہ کچھ’’اصحاب علم‘‘ دنیا میں ایسے بھی ہیں جو بیس پچیس سال تک عربی زبان وادب کی تدریس کے بعد بھی اس میں اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر قادر نہیں تو یقیناًوہ اسے قبل از تاریخ کی کوئی من گھڑت کہانی قرارد یں گے۔ ویسے بھی جس قسم کی عربی زبان ہمارے علماء بولتے ہیں وہ روز مرہ کی زبان نہیں ہے اس لیے جدید نسل کے لیے اس کو سمجھنا کافی مشکل ہے آج کے معروضی حالات میں عالم عرب سے رابطہ وتعلق کیلئے جدید عربی کا جاننا انتہائی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ دینی مدارس کے قیام کااصل مقصد قرآن وسنت کی تفہیم ہے جبکہ قرآن وسنت کے معانی ومفاہیم سے واقفیت کے لیئے قدیم عربی زبان وادب میں مہارت وممارست ضروری ہے ،لہٰذا عربی زبان کے قدیم اور جدید دونوں اسالیب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، اس لیے دونوں کااپنی اپنی جگہ سیکھنا ضروری ہے۔
پیر صاحبؒ نے اپنے مجوزہ نصاب میں ان دونوں ضرورتوں کو پیش نظر رکھا ہے ۔طلباء میں قدیم عربی ادب کاذوق پیدا کرنے کے لیے البلاغۃ الواضحۃ (علی الجارم ومصطفی امین)کے ساتھ دیوان متنبی ،دیوان حماسہ،دیوان حسان ، المفضلیات ،نثر میں العبرات ،مقامات حریری ،الکامل للمبرد،تلخیص المفتاح،اور اسرارالبلاغۃ جیسی کتب شامل نصاب ہیں تو دوسری طرف ابتدائی سالوں میں ہی مفید الطالبین(محمد احسن نانوتوی)تسہیل الانشاء مکمل حصے (محمد سعید الازہری،محمداکرم الازہر یؒ ) معلم الانشاء(محمد رابع حسنی ندوی )اور الاسلوب الصحیح (دوحصے) جیسی کتب سے طلبہ میں جدید عربی زبان وادب کا ذوق پیدا کیا جاتاہے۔عام طورپر کہا جاتاہے کہ ادب لادین ہوتاہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پیر صاحبؒ نے اپنے مرتب کردہ نصاب تعلیم میں ادب کو بھی مشرف بہ اسلام کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور کسی لمحہ بھی زبان دانی کے ساتھ ساتھ طلبہ کی اخلاقی تربیت کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا ۔چنانچہ قصیدہ اطیب النغم (شاہ ولی اللہؒ )اور قصیدہ بردہ شریف (امام بو صیریؒ ) کاشامل نصا ب ہونا ہمارے اس موقف کی تائید کرتاہے۔
معاشیات اور سیاسیات
درس نظامی کے روایتی نصاب کی تدریس میں عموما اسلام کے اجتماعی پہلووں کو بری طرح نظر انداز کر دیا جاتاہے۔بالخصوص اقوام عالم میں رائج نظا م سیاست اور جدید نظام معیشت سے ہمارے علماء کی واقفیت برائے نام ہے جدید علوم سے بے اعتنائی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ طبقہ علماء آہستہ آہستہ ایک ایسا گروہ بنتا جارہاہے جس کا کار گاہ حیات اور زندگی کے عملی اور زندہ مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔سوسائٹی میں ہمارے علماء کاکردار بھی اب دیگر مذاہب کے مذہبی راہنماوں جیسا بنتاجارہاہے جن سے صرف حصول ثواب کی نیت سے مخصوص مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے رجوع کیا جاتاہے۔ظاہر ہے یہ صورت حال اسلام جیسے مکمل ضابطہ حیات کے لیے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے ۔علوم جدیدہ سے علماء کی عدم واقفیت کی وجہ سے ہی اس غلط فہمی نے بھی جنم لیا ہے کہ شاید اسلام جدید معاشی ،سیاسی اور عمرانی افکار کامقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ہمارے اکثر علماء کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ وہ ان علوم میں رسوخ تو بڑی دور کی بات ،ان کی بنیادی اصطلاحات تک سے واقف نہیں ہیں۔بقول مولانا زاہد الراشدی:
’’دینی تعلیم وتدریس اور بحث وتمحیص کے حوالے سے ہماری گفتگو اعتقادات ،عبادات ،اخلاقیات ،یا سے زیادہ خاندانی معاشرت کے چندمسائل تک محدود رہتی ہے جب ہم حدیث یا فقہ کی کوئی کتاب پڑھاتے ہیں تو سارا زور کتاب الطہارت سے کتاب الحج تک ہوتاہے ۔بہت زور مارا تو نکاح وطلاق کے مسائل گویا یہ آخری حد ہے حالانکہ انہی کتابوں میں کتاب البیوع بھی ہے ،کتاب الاجارہ بھی ،کتاب المزارعۃ بھی ،کتاب الجہاد بھی،کتاب الامارہ بھی ہے اور کتاب القاضی بھی۔اس طرح سیاست ،معیشت اور زندگی کے دیگر اجتماعی شعبوں سے تعلق رکھنے والے دوسرے ابواب بھی،لیکن ہم ان ابواب سے اس طرح گزر جاتے ہیں جیسے یہ سب منسوخ ہوں۔‘‘ (مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی دینی ذمہ داریاں )
پیر صاحبؒ اپنی دوررس نگاہوں سے علما اور سوسائٹی میں بڑھتے ہوئے فاصلے کو گہری تشویش کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔چنانچہ انھوں نے اپنے مجوزہ نصاب تعلیم میں اس کمزوری کا ازالہ کرنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے ۔آپؒ فرماتے ہیں:
’’اس نصا ب میں انگریزی ،جغرافیہ ،طبعیات کے علاوہ فلسفہ جدیدہ، علم سیاست (Politics)، علم اقتصادیات (Economics) کو بھی شامل کیا گیاہے۔کیونکہ آج اسلامی تعلیمات کو موثر طور پر پیش کرنے کے لیے ہمارا ان علوم سے روشناس ہونا از حد ضروری ہے ۔علم سیاست واقتصادیات اسلام کے لیے کوئی نئی چیزیں نہیں ہیں اسلام نے جہاں عقائد باطلہ کے بت کدے پاش پاش کیے وہاں اس نے روز ازل سے مستبدانہ ملوکیت اور ظالمانہ نظام معاشیات پر بھی بھر پور وار کیا اور اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں ایسی بنیادی اور عادلانہ اصلاحات کیں جن کی گردِ راہ کو بھی عقل کا کاروانِ تیز گام آج تک نہیں پہنچ سکا ،لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ موجودہ دور میں سیاست ومعاشیات کے علوم کو ایسے خطوط پر مرتب کیا گیا ہے کہ بادی النظر میں وہ بالکل جدید علوم دکھائی دیتے ہیں ،ضروری ہے کہ ہم بھی موجودہ معنی میں ان کو سمجھیں تاکہ اپنے نظریات عہد حاضر کی عقلوں کو سمجھا سکیں ۔اس لیے پہلے ان مضامین کو ان کی موجودہ شکل میں پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہے ۔اس کے بعد اسلام کے نظریات کا دوسرے نظریات کے ساتھ تقابل کیا گیا ہے‘‘( جمال کرم۱/۳۳۴)
ہمارے بعض قارئین کے لیے شاید یہ بات نئی ہو کہ پیر صاحبؒ کے مرتب کردہ نصاب تعلیم میں ایف اور بی اے کی سطح پر معاشیات اور سیاسیات اختیاری کے بجائے بطور لازمی مضامین پڑھائے جاتے ہیں ۔جس کی وجہ سے طلباء کے لیے معیشت اور سیاست کے جدید نظاموں کا سمجھنا اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ان کا تقابل کرنا آسان ہوجاتاہے۔تعلیم یافتہ طبقے میں تبلیغ کا کام کرنے کے لیے یہ صلاحیت انہیں نسبتاً زیادہ اعتماد اور اعتبار مہیا کرتی ہے۔
اردو اور انگریزی زبانوں کی تدریس
چونکہ اسلام کا تمام علمی سرمایہ عربی زبان میں ہے اس لیے قدیم اور جدید عربی زبان وادب سے واقفیت علماء کے لیے نا گزیر ہے لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ عربی زبان کے بعد بر صغیر کے اہل علم کے لیے اردو زبان بڑی اہمیت کی حامل ہے جو بجا طور پر اس خطے کی زندہ علمی زبان ہے اور شاید یہ مبالغہ نہ ہو کہ عربی کے بعد اسلامی کتب کا سب سے بڑا علمی اور تحقیقی ذخیرہ اردو زبان میں ہی ہے لیکن دینی مدارس کے روایتی نصاب سے ہمارے علماء میں عربی ،اردو اور انگریزی کا جو ذوق پید ہو رہا ہے اس کا حقیقی نقشہ ہمارے ایک بزرگ سید عماد الدین قادری نے اپنے مکتوب میں ان الفاظ میں کھینچا ہے :
’’ہمارے وارثان منبر ومحراب!! انگریزی سن کر ہی جن کی اکثریت کو غسل شرعی واجب ہو جاتاہے ،عربی اتنی ہی سیکھتے ہیں جو شاید جنت کی حوریں بولتی ہوں تو ہوں، کیونکہ منتہائے نظر وہی مقام ہے اور اسی غرض سے ہے ،اور رہی اردو،ذرا کسی دارالعلوم میں باوضو ہی سہی ،جانے کی ہمت تو کر لیجئے، اردو کا جنازہ آپ کو دارالافتاء کے باہر ہی رکھا ہوا بے کفن ملے گا۔(ماہنامہ الشریعہ ،گوجرانوالہ بابت ماہ جولائی، ص:۳۹)
محترم قادری صاحب کے الفاظ سخت ضرور ہیں لیکن حقیقت کے قریب ہیں فتوی نویسی میں ’’کیا فرماتے ہیں علماء کرام بیچ اس مسئلہ کے ‘‘جیسے فقروں کا طویل عرصہ سے مسلسل استعمال ہمارے علما کی ’’اردو دانی ‘‘کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پیر صاحب چونکہ خود اردو زبان کے صاحب طرز ادیب تھے اور اردو زبان وادب کی اہمیت سے آگاہ تھے نیز طبقہ علماء سے تعلق رکھنے کی وجہ سے علماء کی اس کمزوری کا احساس رکھتے تھے اس پر انھوں نے اپنے مجوزہ نصاب میں اردو زبان کی تدریس کو خصوصی اہمیت دی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ علماء کے لیے انگریزی زبان میں مہارت کو انتہائی اہم سمجھتے تھے۔چنانچہ فرماتے ہیں:
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریزی زبان ایک علمی اور بین الاقوامی زبان ہے ایک عالم دین کے لیے اس پر عبور حاصل کرنا متعدد افادیتوں کا حامل ہے اس لئے ابتداء سے آخر تک اس کا سلسلہ تعلیم جاری رکھا گیا ہے ۔تاکہ طلباء نصا ب سے فراغت پانے کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ بھی ہو جائیں‘‘۔(جمال کرم۱/۳۳۴)
گلوبلائزیشن کے موجودہ دور میں انگریزی زبا ن کی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے آج سے نصف صدی قبل انگریزی جیسی بین الاقوامی زبان کی تعلیم کو اپنے نصاب تعلیم میں لازمی مضمون کے طور پر داخل کرنا پیر صاحبؒ کی دور اندیشی اور بصیرت کا منہ بولتاثبوت ہے۔
علوم القرآن والحدیث
اسلام کے فکری سرچشمے دو ہیں۔ایک قرآن دوسر ا سنت ،اس لیے منطقی طورپر نظام تعلیم کی اساس بھی ا نہی کو ہونا چاہیے۔لیکن مدارس کے نظام تعلیم میں طلباء کو پہلے دیگر علوم پڑ ھا کر ان کا ایک مخصوص مزاج اور ذہنی سانچا بنا دیا جاتاہے اور پھر اس سانچے کی روشنی میں قرآن پڑھایا جاتاہے ۔قرآن کو اصل معیار اور کسوٹی بنانے کی بجائے اس کا مطالعہ فقہی مذاہب اور اقوال فقہاء کی روشنی میں کیا جاتاہے۔اس سے بڑھ کر قرآن پر اور کیا ظلم ہو گا۔حدیث کی صورت حال اس سے بھی افسوس ناک ہے،رفع یدین ،فاتحہ خلف الامام اور آمین بالجھر جیسے اولی اور خلاف اولی مسائل پر سال کا اکثر حصہ صرف کرنے کے بعد اجتماعی مسائل سے تعلق رکھنے والی احادیث کی تلاوت کے لیے ایسے طالب علم کو تلاش کیا جاتاہے ،جو روزانہ تیس ،چالیس صفحات کی تیز رفتار تلاوت پر’’ قدرت کاملہ‘‘ رکھتاہو۔اللہ کے رسول ؑ کیا فرماتے ہیں اس سے نہ استاذکوغرض ہے اور نہ طلباء کو ۔ ہمارے ممدوح حضرت پیر کرم شاہ الازہرؒ ی اس حوالے سے اپنے احساس کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’مروجہ نصاب میں علوم اسلامیہ یعنی قرآن حکیم ،حدیث اور اصول فقہ کی تعلیم سے عملی طور پر جو بے اعتنائی روا رکھی ہے وہ باعث ہزار تاسف ہے ،اس کو پورا کرنے پر پوری توجہ دی گئی ہے تاکہ ان مضامین سے طلباء کا سرسری تعارف ہی نہ ہو بلکہ ان کی گہرائیوں تک ان کی رسائی ہو ۔ان علوم میں ان کو مہارت حاصل ہو ،تاکہ ہر لحظہ تغیر پذیر حالات میں پوری ذمہ داری کے ساتھ اسلام کے ابدی حقائق کو اس طرح پیش کر سکیں کہ موجودہ ذہن انہیں قبول کرنے بلکہ عملی طورپر انہیں اپنا لینے پر مجبور ہو جائے‘‘(جمال کرم ۱/۳۳۳)
دینی مدارس میں ایک آدھ کتاب کے استثنی کے ساتھ حدیث کی تمام کتب دورہ حدیث شریف کے نام سے مخصوص آخری سال پڑھائی جاتی ہیں ۔لیکن پیر صاحب ؒ نے اپنے مجوزہ نصاب میں ابتدائی سالوں سے لے کر آخری سال تک مسلسل حدیث نبویؑ کی تعلیم وتدریس پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے ۔طلباء کی کردار سازی میں حدیث کی ضرورت واہمیت اور مقام کی وضاحت کر تے ہوئے پیر صاحبؒ رقمطراز ہیں:
’’اخلاقی تربیت کی اہمیت کے پیش نظر تیسرے سال (نو ترقیم شدہ نصا ب میں دوسرے سال)سے احادیث نبویؑ کی دل پذیر یوں اور درخشانیوں سے چشم قلب وخردروشن کرنے کے ساتھ ساتھ مکارم اخلاق کے ان زرین اصولوں سے بھی روشناس ہوں گے جو بعثت نبویؑ کا مقصد اعلی ہیں‘‘(جمال کرم ۱/۳۳۳)
چنانچہ اربعین نووی دوسرے سال، ریاض الصالحین تیسرے،مشکوۃ چوتھے ،شرح معانی الاثار چھٹے ،مو طا امام مالک ساتویں جبکہ صحیحین ،سنن ابی داود اور جامع ترمذی نویں اور آخری سال کے نصا ب میں شامل ہیں۔ اسی طرح اصول حدیث اور تاریخ حدیث پر کئی کتب مختلف سالوں کے نصاب میں شامل کی گئی ہیں۔
اسی طرح دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کے نصاب تعلیم میں قرآن مجید کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔انتسویں اور تیسویں پارے کا حفظ کرنانیز تجوید کے ساتھ تلاوت قرآن کی صلاحیت ہر طالب علم کے لیے لازمی ہے۔اگر چہ تفسیر بیضاوی کے منتخب حصے مختلف سالوں میں داخل نصاب ہیں ،تاہم پورے قرآن کا ترجمہ اور معاصر تفاسیر کی روشنی میں فہم قرآن نصا ب کا لازمی حصہ ہے ۔اس کے علاوہ اصول تفسیر میں الفوز الکبیر ،الاتقان اور تاریخ قرآن جیسے موضوعات بھی نصا ب کا حصہ ہیں۔ اس مختصر جائزے سے یہ واضح ہوتاہے کہ پیر صاحبؒ نے اپنے مرتب کردہ نصاب میں قرآن وسنت کو پوری اہمیت دی ہے۔
تاریخ
اہل دانش کے نز دیک تاریخ کی مثال جھیل کے صاف اور پاک پانی جیسی ہے جس میں قومیں اپنی ماضی کا عکس دیکھتی ہیں اور پھر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ قوموں کا تابناک ماضی ہی ان کو روشن مستقبل کے لیے تگ وتاز پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لیے یہ بات درست ہی معلوم ہوتی ہے کہ’’ جس قوم کاکوئی ماضی نہیں اس کا کوئی مستقبل نہیں ‘‘علامہ اقبال کا نوجوانوں سے یہ مطالبہ اسی پس منظر میں تھا:
کبھی اے نوجواں مسلم !تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیاگردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹاہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالاہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِدارا
اپنے اسلاف کے کارناموں سے بے بہرہ رہ کر کوئی قوم ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی ۔مسلمانوں کے لیے تو سیرت رسول ﷺاور سیرت صحابہؓوخلفاء راشدین سے واقف ہوئے بغیر اسلام کی عملی تعبیر وتشریح کاتصور ہی محال ہے،اور پھر پوری اسلامی تاریخ کو جس طرح روایت اور درایت کے اصول پر پرکھ کر ہر قسم کے خرافات اور قصے کہانیوں سے پاک کرکے خالص ،علمی ،تحقیقی اور عقلی بنیادوں پر مرتب کیا گیا ہے ، تحقیق وتنقید کے اس اسلوب نے اسلامی تاریخ کی قدروقیمت میں اضافہ کردیا ہے۔ علم اسماء الرجال جیسا فن تو خالصتا مسلمانوں کی ہی ایجاد ہے تاریخ میں جس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔
درس نظامی کے روایتی نصاب میں تاریخ سے جس بے اعتنائی کامظاہرہ کیا گیا ہے محترم پیر صاحبؒ نے کسی حد تک اس کا ازالہ کرنے کی سعی فرمائی ہے ۔چنانچہ ان کے رائج نصاب میں تاریخ قرآن ،تاریخ حدیث کے علاوہ سال بہ سال پوری اسلامی تاریخ کا مطالعہ شامل ہے ۔سیرت نبوی ﷺ کے تمام ادوار کا مفصل مطالعہ نصاب کا اہم حصہ ہے ۔زیر تبصرہ نصاب کی یہ ایسی خصوصیت ہے جس نے اس کو تمام وفاقوں کے نصاب سے انفرادی شان عطاکی ہے۔
ضیاء الامت کی کاوشوں کے نتائج واثرات
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ میں جس نظام تعلیم کا تجربہ کیا گیا وہ بالکل نیا اور انفرادی توعیت کا تھا۔پروفیسر حافظ احمد بخش صاحب کا یہ دعوی بجا طور پر درست ہے :
’’یہ ایک تاریخی اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ ہی برصغیر پاک وہند میں وہ پہلا ادارہ ہے جس کے سربراہ نے سب سے پہلے قدیم اور جدید علوم کو یکجا کرکے نصاب کا ایسا حسین گلدستہ قوم کی نذر کیا جس کی مہک پھیلتے پھیلتے آفاق کی وسعتوں میں پہنچ گئی اور نہ صرف پورے پاکستان بلکہ بنگلہ دیش بلکہ یورپ کے مختلف ممالک میں بھی یہ دانش گاہ مختلف واسطوں سے اسلام کا فیضان پہنچا رہی ہے‘‘۔ (جمال کرم،۱/۳۳۸)
لیکن ابتدائی سالوں میں صورت حال قطعا قابل رشک نہ تھی نئے نظام تعلیم کی تنفیذ میں پیر صاحبؒ کو جن مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور پھر آپ نے ان مشکلات کا جس خندہ پیشانی ،استقامت اور مستقل مزاجی سے سامنا کیا اس کی بعض جھلکیاں ’’جمال کرم ‘‘ کی پہلی جلد میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔تاہم جوں جوں وقت گزرتاگیا دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کا نظام تعلیم لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا گیا اور آج تقریبا نصف صدی بعد، جو کسی بھی علمی تحریک کے لیے زیادہ مدت نہیں ہے ،دارالعلوم محمدیہ غوثیہ ایک ایسے علمی اور فکری مرکز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کے ذیلی اداروں کی تعداد سو سے زائدہے جبکہ یورپی ممالک اور دوسرے ملکوں میں دارالعلوم کی ذیلی شاخوں کی حیثیت سے کام کرنے والے ادارے اس کے علاوہ ہیں۔
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ سے فارع التحصیل فضلا کی قومی اور عالمی سطح پر دعوتی خدما ت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ پیر صاحبؒ نے جس شجر سایہ دار کی آبیاری اپنے خون جگر سے کی تھی وہ کاروان نہ تو رکا ہے اور نہ ہی فکر ی جمود کا شکار ہوا بلکہ ایک ایسی علمی تحریک کا روپ دھار چکا ہے جس کے تجربات سے استفادہ کرنا دینی مدارس کے ارباب دانش کی اہم ضرورت اور حالات کا تقاضا ہے۔ دینی اور عصر ی تعلیم کے حسین امتزاج پرمشتمل اس نصاب تعلیم ہی کا یہ ثمرہ ہے کہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کے فضلا اس وقت ،مساجد ،مدارس ،افواج پاکستان ،سکول ،کالج،جامعات اور زندگی کے دیگر شعبوں میں اعلی عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔دارالعلوم کے فضلا کی علمی فکر ی اور ملی خدمات ایک مستقل مضمون کی متقاضی ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے ۔
تجاویز و گزارشات
دارالعلوم کے نصاب تعلیم میں وقتافوقتا ہونے والی تبدیلیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ یہ نصاب کبھی بھی جمود کا شکار نہیں ہوا اور اس کے موسس اعلی نے اپنے علمی ورثاکے لیے عملی مثال قائم کی ہے کہ وہ حالات اور ضرورتوں کے مطابق نصاب میں مناسب تبدیلیوں سے گریز نہ کریں ۔اس پس منظر میں ہم دارالعلوم کی موجودہ نصاب کمیٹی سے چند گزارشات کریں گے ۔
۱۔ عبا سی دور میں یونانی فلسفہ کے اثرات سے امت کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلمان اہل علم اور متکلمین نے شاندار خدمات سر انجام دیں یہاں تک کہ یہ فتنہ فناہوگیا۔ آج پھر یونانی فلسفہ کی مانند مغربی فلسفہ و تہذیب چیلنج بن کر سامنے آئی ہے اس لیے مغربی فکر وفلسفہ کا تفصیلی تعارف اور جائزہ عصر حاضر کا اہم موضوع بن گیا ہے ۔ اس وقت اسلامی فکر کا براہ راست تصادم اور ٹکراو بھی مغربی فکروفلسفہ سے ہے اس لئے ہماری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ معتزلہ ،جبریہ ،قدریہ اور دیگر کلامی فرقوں اور ان کے ائمہ کوکچھ وقت کے لیے معاف کر دیا جائے ۔ مناسب یہ ہوگا کہ تقابل ادیان کی طرز رپر مغربی فکر وفلسفہ کو شامل نصاب کیا جائے ،فرائیڈ ،ڈارون ،مالتھس ،آئن سٹائن ایرک فرام ،ایڈلر ،سارتر اور دیگر مغربی علماء کے افکار کا جائزہ لیا جائے کیونکہ انہی اہل علم کے نظریات مغربی تہذیب کے اصل سر چشمے ہیں ۔نوجوان نسل کومغرب کے فکر ی اثرات سے بچانے کے لیے اس میدان میں بھی دارالعلوم کے قائدانہ کردار کی ضرورت ہے۔
۲۔ ہمارے ہاں مدارس میں زیادہ زور فقہ اور اصول فقہ کی تدریس پر دیا جاتاہے اساتذہ کرام اپنی ساری ذہنی صلاحیتں دیگر فقہی مذاہب پر فقہ حنفی کی فوقیت ثابت کرنے میں صرف کر دیتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ کیا فقہ شافعی یا کسی دوسری فقہ کے عالمی سطح پر غلبے کا خطرہ ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دیگر فقہی مذاہب کی پر زور تردید بلکہ مذمت کا کیا فائدہ ہے؟۔اس سلسلے میں ہماری رائے یہ ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر آئمہ اربعہ کے فقہی مذاہب کے تعارفی مطالعہ کے ساتھ ساتھ اسلامی قانون (فقہ) کا ملکی اور بین الاقوامی قانون کے ساتھ تقابلی مطالعہ وقت کی اہم ضرورت ہے ،تاکہ اسلامی قانون کی آفاقیت اور ابدیت کو مدلل اندز میں پیش کیا جا سکے۔اس کے بغیر نہ فقہ کی تدریس کا حق ادا ہوسکتاہے اور نہ جدید فکری چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکتاہے ۔اس لیے مناسب یہ ہے کہ اقوام متحدہ (UNO) کے چارٹر ’’بنیادی انسانی حقوق کا عالمی منشور‘‘ کو جو اس وقت عالمی قانون کا درجہ رکھتا ہے،شامل نصاب کیا جائے اور پھر تقابلی مطالعہ کے بعد اسلامی حدو د وتعزیرات اور عائلی قوانین پر ہونے والے اعتراضات کا علمی اور تحقیقی انداز میں جواب دیا جائے ۔
۳۔اگر چہ دارالعلوم میں زیر تدریس نصاب تعلیم میں فہم قرآن مجید پر خصوصی توجہ دی گئی ہے تاہم اس پہلو پر ابھی مزید سوچ بچار کی ضرورت ہے ،بالخصوص قرآن مجید کی آیاتِ احکام خصوصی توجہ کی مستحق ہیں ۔اس لیے اگر آیاتِ احکام کو ایک خصوصی پرچے کے طور پر شامل نصاب کیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔