معاصر اسلامی فکر کے اخلاقی چیلنجز

ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

ترجمہ: وارث مظہری (مدیر ماہنامہ ترجمان دار العلوم، انڈیا)


(شاہ مراکش کی طرف سے اسلامی خطبات کے سالانہ سلسلے کے طور پر اکتوبر ۲۰۰۷ میں ’’فاس ‘‘ (مراکش) میں منعقد ہونے والے پروگرام میں پیش کیا گیا۔)


ہم نے اپنے اس مقالے کے لیے ’’معاصر اسلامی فکر کے اخلاقی تحدیات‘‘ کا عنوان منتخب کیا ہے، اس لیے کہ ہمارا یقین ہے کہ مسلمان اپنی ابتدا سے اکثر قوموں کے مقابلے میں اخلاق کی اہمیت سے زیادہ واقف اور متوارث اخلاقی ڈھانچے سے انحراف کے بارے میں زیادہ حساس رہے ہیں۔ تاہم جہاں تک قرآن کے پیش کردہ اور رسول اللہ کے قول و فعل سے ثابت اخلاقیات کے بروئے کار لائے جانے کا مسئلہ ہے، اس میں ہر زمانے میں شدید ترین دشواریاں پیش آتی رہی ہیں۔ ان دشواریوں کا تعلق ایک طرف احوال زمانہ اور اخلاقی نظریات کی عملی تشکیل سے رہا ہے تو دوسری طرف اجتہادی مساعی کے امکانات سے۔ چنانچہ میں اپنے اس محاضرے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو بنیاد بنانا چاہوں گا جو مختلف الفاظ و روایات کے ساتھ کتب حدیث میں وارد ہوئی ہے: ان الدین بدأ غریبا و یرجع غریبا فطوبی للغرباء الذین یصلحون ما افسد الناس من بعدی من سنتی (دین اپنی ابتدا میں اجنبی تھا۔ وہ اجنبی ہونے کی صورت میں ہی لوٹ جائے گا۔ اس لیے ان اجنبیوں کو خوش خبری ہو جو میرے بعد میری سنت میں پیدا کیے گئے بگاڑ کو درست کریں گے۔)

یہ حدیث بخاری و مسلم جیسی حدیث کی اساسی کتابوں میں وارد ہوئی ہے اور اس کے راوی اکابرین صحابہ ہیں جیسے عبداللہ بن عمر، ابو ہریرہ، عمر و بن عوف اور عبد اللہ بن مسعود وغیرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)۔ ہم نے جن الفاظ کے ساتھ اس حدیث کو یہاں ذکر کیا ہے وہ اپنے آخری جز کے ساتھ ابوبکر بن العربی المالکی کی کتاب ’’عارضۃ الاحوذی‘‘ میں موجود ہے۔

اسلامی مفکرین پچھلی دو صدیوں سے فکر اسلامی اور سائنسی و تکنیکی ترقیات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اہم اور حیرت انگیز تبدیلیوں کے درمیان مصالحت اور ہم آہنگی کی کوششیں کرتے آرہے ہیں۔ وہ اپنی ان کوششوں میں اصولی دینی تعلیمات کی عملی تشکیل اور اس سے حاصل ہونے والے ایسے نتیجے کے درمیان حیران و سرگرداں رہے ہیں جس کے تحت انھیں پورا یقین حاصل ہو کہ اللہ کو مطلوب اس کامل و مکمل دین میں ایسی کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہوسکتی جو لوگوں کے حق میں ضروری اور مفید ہو۔ اس تعلق سے عالم اسلام کی سطح پر اجتہادی فکر رکھنے والے علما و مفکرین کے کہکشانی سلسلے کے جو چند نام اس وقت ذہن میں آرہے ہیں، ان میں رفاعہ رافع الطہطاوی،سر سید احمد خاں، شبلی نعمانی، مفتی محمد عبدہ، طاہربن عاشور اور علال فاسی وغیرہ ہیں۔ ان مفکرین کی زیادہ کوششیں اس بات پر مرکوز رہیں کہ تجدد(Modernity) اور روایت (Tradition) کے درمیان ایک قسم کی موافقت اور ہم آہنگی سامنے آجائے۔ ان مفکرین کی غالب سوچ یہ تھی کہ روشن خیالی کے بعد کی فکر (Post-enlightment thought) اور فکر اسلامی (Islamic thought)کے درمیان مشترک عنصر ’عقل‘ ہے۔ چنانچہ ان کی نظر میں اسلامی اور مغربی دونوں فکر عقل اور تعقل پسندی (Rationalism) کو ہی اپنی مشترک اساس بناتے ہیں۔ اس زمرے میں مشہور فلسفی شاعر محمد اقبال (وفات:۱۹۳۸) کا بھی نام آتا ہے جنھیں تجدد اور اس کے وظائف کے ساتھ فکری تعامل برتنے کی حقیقی قدرت حاصل تھی۔ چنانچہ تجدد پسندی اقبال کی نظر میں محض ایک ایسی تہذیب کا ہی نام نہیں جس کی تاسیس عقل پر ہوئی ہو، اس لیے کہ سائنسی اکتشافات اور تیز رفتار فنیاتی ارتقا نے موجودہ اور خیالی زندگی کے مختلف جدید طریقے ایجاد کیے ہیں۔ جدید طریقے خود روز مرہ زندگی سے بھی تعلق رکھتے ہیں، جن کی بنا پر انسان کا ماضی اور ماضی کے اعمال اور سرگرمیوں سے رشتہ منقطع ہوگیا ہے۔ 

تجدد پسندی نے موجودہ زمانے میں فرد کے معاشرتی تخیل (Social imaginary) میں نہایت اہم اور بنیادی قسم کی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں۔ ہم اس جگہ Social imaginary کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے ذریعے ہم ان غیر شعوری مفہومات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جو فرد کے ذہن پر چھائے ہوئے ہیں اور اس کی اپنی ثقافت اور اس زمانے کے مطابق جس میں وہ زندگی گزار رہا ہے، اس کے افکار کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تجدد پسندی نے ہر چیز کی دوبارہ نئی ترتیب قائم کی ہے، جس میں فرد اور اجتماع کے نزدیک معاشرتی تخیل بھی شامل ہے۔ گویا اس طرح تجدد پسندی نے کائنات کے ساتھ انسان کے تعلق اور سیاست و حکمرانی کے تعلق سے اس کے مفاہیم کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ نیز فرد اور خاندان سے متعلق بہت سے مسلمات میں بھی زبردست تبدیلیاں پیدا کردی ہیں، اس لیے کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے فضائی اور فطری سرحدوں پر کمندیں ڈال دی ہیں۔ جس کے نتیجے میں خود انسان کے اندرون سے تعلق رکھنے والی نئی دریافتیں سامنے آئی ہیں۔

تجدد پسندی کے سیاق میں علوم و افکار کے نتائج کے سامنے آنے کے ساتھ جو اہم تبدیلیاں پیدا ہوئیں، ان میں دینی قدر کی باز شناسی (re-evaluation) بھی شامل ہے۔ چنانچہ تجدد پسندی کے سیکولر تصور کے تحت دین کو ایک دوسرے سیاق میں لاکر بحث و گفتگو کا موضوع بنا دیا گیا۔ بعض لوگوں نے یہ کوشش کی کہ اسے صرف فر دکی زندگی تک خاص اور محدود کردیا جائے۔ جہاں تک مسلم مفکرین کی بات ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت کے نزدیک تجدد پسندی کی تعبیر جامع اور ہمہ گیر نہ تھی، اس لیے کہ انھوں نے خاص و عام کی زندگی جن میں سیاسی زندگی بھی شامل ہے کے تعلق سے عقل و دین کے دو مسئلوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی اور اس اعتبار سے ان مسئلوں کو روایتی اسلامی فکر کے لیے انھوں نے چیلنج سمجھا۔ اگرچہ ایسا سمجھنا پوری طرح غلط نہیں، تاہم وہ قضیے کے تمام تر پہلوؤں کا احاطہ نہیں کرتے۔ چنانچہ مسلم مفکرین نے تجدد پسندی کی خامیوں اور خوبیوں سے خوب خوب بحثیں کیں، جن کی تفصیلات تو کجا ان کے اہم محوروں پر بھی روشنی ڈالنا اس وقت ممکن نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تجدد پسندی نے مسلمانوں کی زندگی کے اکثر شعبوں میں زبردست اثرات قائم کیے جو سائنس سے شروع ہوکر صحت، اقتصاد، اجتماعی تنظیم کے ساتھ خاندان اور فرد کے مفاہیم کا احاطہ کرتی ہے۔ تاہم اس سلسلے کی اصل مشکل یہ ہے کہ بعض اسلامی مفکرین اس بات پر اصرار کرتے آرہے ہیں کہ اسلام جدت یا تجدد پسندی کے معارض ہے۔ یہ ان کی نظر میں ایک طرح سے اسلام کے تحفظ کی شکل ہے۔ حالانکہ حقیقت میں اکثر حالات میں وہ محض اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ سے آگے کچھ بھی نہیں۔ حقیقتاً تجدد پسندی اپنے تمام تر عناصر کے ساتھ انسانی زندگی پر پوری طرح حاوی و غالب ہے۔ اکثر اوقات لوگوں کے شعور بلکہ ان کی امیدوں و آرزوؤں اور زندگی کی مجبوریوں کے درمیان ایک قسم کا تضاد اور تناقض (Paradox) پایا جاتا ہے۔

بہت سے اسلامی معاشروں میں ایسے دینی حلقے پائے جاتے ہیں جنھیں تجدد پسندی سے مزاحمت کی اپنی خیالی قدرت پر فخر ہے حالانکہ حقیقت میں ان حلقوں کی یہ حرکت جدید سماجی تصور کے ریلے کے تعلق سے اپنے سر کو مکمل تجاہل کے ساتھ شترمرغ کی طرح ریت میں چھپانے کے مترادف ہے۔ بعض لوگ اسے امر محمود بلکہ ضروری امر تصور کرتے ہیں۔ حالاں کہ اگر اسلام کے دور زریں میں پائی جانے والی اسلامی فکر کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ اسے کس طرح فراریت اور داخلی سکڑاؤ کے بجائے اپنے زمانے کا فہم، نئے پیش آمدہ مسائل اور چیلنجوں کے حل کی دریافت کے ساتھ ان کے ساتھ تعامل کی قدرت حاصل تھی، تو موجودہ دور کے مسلم مفکرین کا یہ رویہ ایک قسم کی فکری پسپائی نظر آتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جدید علوم اور ایک حد تک انسانی اور اجتماعی علوم ہی ان اجتماعی آفاق کی طرف لے جاتے ہیں، جن سے صحت، زراعتی طریقے یہاں تک کہ کھانے پینے کے تعلق سے بھی ہم روزانہ گزرتے اور محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ جدید علوم اپنی شکل میں کامل اور اٹل ہیں وہ مستقل ارتقا اور تغیرات کی راہوں سے گزر رہے ہیں، انھیں جن ثقافتوں سے واسطہ پڑتا ہے وہ ان سے متاثر ہوتے ہیں اور اس طرح تجدد پسندی پر بھی وہ اپنی خصوصیات کی نئی چھاپ قائم کر رہے ہیں۔ اس طرح ایک متعین فہم کے ساتھ مصالحت میں ان اجتماعی تصورات (Social imaginaries) کی ناکامی موجودہ دور کے مسلمانوں کی زندگی میں کمزور نقطے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ اگر روایتی اسلامی فکر جدید علوم کے ساتھ تعامل برت سکے تو اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ ایک نتیجہ خیز اور خلاقیت سے بھرپور چیز وجود میں آجائے۔

یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ تمام اسلامی ممالک میں ایسے علما و مفکرین موجود ہیں جو ان دونوں ثقافتوں کے درمیان مصالحت کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم حقیقت میں ان کی کوششیں اب تک ایسے جزیروں میں بند ہیں، جن کا کوئی اثر ان اہم مراکز اور اداروں تک نہیں پہنچ سکا ہے، جو عمومی اور عالمی سطح پر اپنے افکار کی تشکیل کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی کتاب ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ (Reconstruction of Religious Thought in Islam) میں بیسویں صدی کے رُبع اول میں لکھا تھا:

’’وہ روحانی نظامات جن پر جامد اور مردہ مابعد الطبعیاتی اصطلاحات کی پرت پری ہوئی ہے کسی مختلف فکری پس منظر رکھنے والے شخص کو مطلقاً کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ ایسے میں دور حاضر کے مسلمانوں کی ذمے داری دو چند ہوجاتی ہے۔ ان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ ماضی سے اپنا رشتہ بحال رکھتے ہوئے، اسلام کے پورے نظام میں غور و فکر کریں۔ شاید شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (وفات:۱۷۶۲) وہ پہلے مسلم مفکر ہیں جنھوں نے نئی اسپرٹ کی ضروت کو محسوس کیا۔ ان کے بعد جمال الدین افغانی کا نام آتا ہے۔ اس لیے ہمارے سامنے واحد کشادہ راستہ یہ ہے کہ ہم ایک مستقل، اسی کے ساتھ غیر جانب دار موقف کے ساتھ علوم عصریہ پر متوجہ ہوں اور ان علوم کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کو پہچاننے کی کوشش کریں، خواہ اپنے پیش روؤں کے ساتھ اختلافات سے کام لینا پڑے۔‘‘ (ص:۹۷)

اقبال کی یہ دقیق تشخیص آج بھی اتنی ہی صحیح ہے جتنی وہ کل تھی۔ اپنے اس جملے ’’نظام اسلامی میں نئے سرے سے غور و فکر‘‘ سے اقبال کی جو مراد ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم علم کے اس فریم ورک اور بنیادی ساخت میں جس کا تعلق دینی فکر کے ساتھ معاملت سے ہے، اس انداز میں نئے سرے سے غور و فکر کریں جو ہمارے اجتماعی تصور کے اُس ڈھانچے اور ذہنی و خیالی پیکر کے مطابق ہو جو ہماری معاصر زندگی کی تشکیل کرتا ہے۔ اس کے برعکس یہ اجتماعی تصور ان لوگوں کے ذہنوں کے مطابق نہ ہو، جو ہم سے صدیوں قبل اس دنیا سے گزر چکے ہیں۔

اس لیے وہ اخلاقی چیلنج جس سے متعلق ہم یہاں گفتگو کر رہے ہیں، اس کا تعلق علم و معرفت کی پیداوار اور دینی و اسلامی فکر میں اس کی اہمیت سے ہے۔ اہل فلسفہ اسے ’’علمیاتی مشکل‘‘ (Epistemological problem) سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ بہت سے تعلیمی اداروں جیسے جامعات، دینی مدارس و مکاتب پر جہاں دینی افکار کی تشکیل و تدوین ہوتی ہے، اثر انداز ہوتے ہیں، عالم اسلامی میں ایسی جگہیں بہت کم ہی ہیں جہاں روایتی دینی علوم جیسے تفسیر، حدیث، کلام، فقہ، اصولِ فقہ کے ساتھ عمرانیات، انسانیات، نفسیات اور تاریخ جیسے علوم کے درمیان سنجیدہ اور موثر ’ڈائیلاگ‘ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو۔ یہاں ’ڈائیلاگ‘ سے ہماری مراد جدید علوم کے درمیان سنجیدہ تعامل سے ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم مسلمانوں کے جدید و معاصر حالات کا دینی علوم سے نئے سرے سے ربط قائم کریں۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو دینی علوم عقائد و اعمال کے مسئلے میں اپنی بعض ایسی دخل اندازیوں پر قائم رہیں گے جو عصر حاضر کے سیاق سے ہٹی ہوئی ہیں اور اس طرح ان کے ذریعہ دین و دنیا کے درمیان علاحدگی اور انفصال کو تقویت ملتی رہے گی۔ ان دونوں بُعدوں دین و دنیا کے درمیان ناہم آہنگی نے مسلمانوں خصوصاً نوجوان طبقے کے اندر فکری پراگندگی کو جنم دیا ہے۔ اس مشکل کا حل اس بات کا متقاضی ہے کہ دینی تعلیم کے طریقۂ کار اور مشتملات دونوں کی تجدید کی جائے ۔ نوجوانوں کا طبقہ اس وقت داخلی کشمکش سے دوچار ہے۔ وہ یہ احساس رکھتا ہے کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں دین کے معیاری تقاضوں کے مطابق زندگی بسر نہیں کر پا رہا ہے اور اس طرح وہ ایک طرح کے شدید ترین احساسِ گناہ میں مبتلا ہے۔ کیوں کہ جدید تعلیم کو اب تک ایک معارض ثقافت کی دخل اندازی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 

گزشتہ دو سالوں کے درمیان خاص طور پر ہندوستان و پاکستان کے متعدد مدارس کے اہم ذمہ داروں سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں، جن سے ہمارے اندر یہ احساس پختہ ہوا کہ ان ممالک کے علما پر ہنوز یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فکر اسلامی کے سیاق میں جدید علوم اور ان کے منہاجات سے تعلق رکھنے والی مشکلات کو حل کریں۔ اس تعلق سے علمی و اسلامی حلقوں میں جو کنفیوژن پایا جاتا ہے، اس نے نوجوانوں کے اذہان میں جدید علوم کے تئیں دوہرا رویہ پیدا کردیا ہے ۔ یعنی ایک ہی وقت میں وہ ان سے شغف بھی رکھتے ہیں اور انھیں ناپسند بھی کرتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ایک زبردست فکری اور اکیڈمک گراوٹ ان حلقوں میں دیکھنے کو مل رہی ہے اور عمومی سطح پر معاشرے پر اس کے نہایت منفی اثرات قائم ہو رہے ہیں۔ چنانچہ بہت سے نوجوان دنیوی علوم کی طرف متوجہ ہو ئے ہیں۔ وہ اس میں کامیاب بھی ہیں لیکن دین کے ساتھ ان کا صحیح تعامل نہیں ہو پاتا۔ دوسری طرف وہ طبقہ یا جماعت جو دینی امور کی انجام دہی کے ساتھ عصری علوم کے حصول کی طرف متوجہ ہو رہی ہے، اس کی شدت پسند دینی حلقوں کی طرف سے مذمت کی جاتی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی تخلیقی کارکردگی نصف تک بھی نہیں پہنچ پاتی، اس لیے کہ وہ اپنی تعلیم اور مطالعے میں جوش اور مکمل آمادگی کے ساتھ حصہ نہیں لے پاتے اور اکثر یہ خیال انھیں کچوکے لگاتا رہتاہے کہ ان کا ڈاکٹر، انجینئر، یا بزنس مینیجر ہونا کچھ بھی قیمت نہیں رکھتا۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دنیا دین سے دور اور علیحدہ ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہم دنیوی علوم کو اس حیثیت سے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں کہ وہ مادیت اور دنیوی مال و متاع کے پیچھے دوڑ لگانے کا نام ہے۔جیسے مادی منافع کا حصول اسلام میں حرام ہو۔ حالانکہ مادیت پسندی دراصل اس کا نام ہے کہ انسان خدا کو بھول کر متاع دنیا کے پیچھے اس طرح پڑ جائے جس میں پوری انسانیت کا نقصان ہو۔ جبکہ متوسط طبقہ دنیا کے حصول کو دینی مقاصد کے حصول کا وسیلہ تصور کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں صرف دینی مقصد کی خاطر ہی کوشش و عمل کو صحیح تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن آپ ذرا اس المیے پر غور فرمائیں کہ کروڑوں مسلمان جو اپنے اوقات کا بڑاحصہ اس طرح کے بظاہر دنیوی کاموں میں خرچ کرتے ہیں، وہ اپنے ان کاموں کو دین و اخلاق کا جز تصور نہیں کرتے۔ اسلامی معاشروں میں دین و دنیا کے درمیان اس نوع کی تفریق کا نظریہ اسلامی معاشروں کے فروغ و ارتقا میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔

اقبال نے اس دینی و دنیوی یا مقدس اور ناپاک کے درمیان علاحدگی برتے جانے سے متعلق بصیرت کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اقبال کی بات کا اسلامی حلقوں پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوا۔ اقبال ’’تشکیل جدید‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’روحانی اور مادی میدان الگ الگ نہیں ہیں، کوئی عمل اپنے ظاہر کے اعتبار سے خواہ کتنا ہی دنیوی کیوں نہ ہو، اس کی حقیقت کا دار و مدار اس عمل کے انجام دینے والے کے ذہن اور نیت پر ہوتا ہے۔ غیر مرئی ذہن اور پس منظر (نیت) ہی وہ چیز ہے جو متعلقہ عمل کی حقیقت کو متعین کرتا ہے۔ کوئی عمل اگر کائنات کے ساتھ مضبوط اور قیمتی ولامتناہی رابطے سے ہٹ کر انجام دیا جائے تو وہ بلاشبہ مادی اور دنیاوی ہوگا اور اگر وہ اس لامتناہی ربط سے جڑا ہوا اور اس میں پیوست ہوگا تو یقیناًروحانی ہوگا۔‘‘

ماضی کے مفکرین کی ایک بڑی تعداد نیز حال کے بعض مفکرین نے اس حقیقت کو واحد اور قطعی حقیقت کے طور پر سمجھا کہ جس میں کسی تقسیم کی گنجائش نہیں۔ ابو حامد الغزالی نے مثال کے طور پر ایک قضیہ کی حیثیت سے اس بات کا ادراک کیا کہ ان کے زمانے میں فقہ و اخلاق سے تعلق رکھنے والے اعمال ومشاغل کی صورت حال بگڑ چکی ہے۔ فقہ سے تقویٰ کی روح نکل چکی ہے۔ جب کہ اسلام کے ابتدائی عہد میں یہ اخروی نجات کی طرف رہنمائی کرنے والا علم تھا۔ اس طرح فقہ کوئی ایسا محفوظ اور پاکیزہ شعبۂ علم نہیں جو سراسر تقویٰ اور للہیت پر مبنی ہو بلکہ وہ ایک ایسامنہج ہے جو علم آخرت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔حقیقت میں آخرت کی نجات دنیا میں اخلاقی اعمال سے وابستہ ہے۔ سورہ توبہ میں اللہ کا ارشاد ہے:

وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ. (التوبۃ: ۱۲۲)
’’اور مسلمانوں کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں۔ سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں۔‘‘ 

اسی لیے غزالی کا خیال ہے کہ انسان کے اندر تدین یا اللہ کی خشیت اور اس کی تعظیم کا احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ اس بنیا دپر فقہ کا علم حاصل کرنے والا ہو کہ یہ علم دنیا و آخرت میں اس کی رہنمائی اور نجات کا ضامن ہے۔ فقہ اپنی روح کے اعتبار سے نکاح و طلاق اور خرید و فروخت وغیرہ کی تفصیلات پر ہی مبنی اور مرکوز نہیں۔ غزالی کے نزدیک دین کا اصل جوہر اس بات میں مضمر ہے کہ ہم اپنے تمام اعمال اور سرگرمیوں کے اخلاقی ابعاد (Dimentions) کا ادراک کریں اور یہ جانیں کہ دنیا و دین ایک دوسرے کے لیے معاون ہیں۔

اندلسی فقیہ ابو الولید ابن رشد نے اپنی مشہور و متداول کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :

’’ شرعی احکام کی دو قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جس کا حکام اور قضاۃ فیصلہ کرتے ہیں اور دوسری قسم وہ ہے جس کا قضاۃ (و حکام) فیصلہ نہیں کرتے اور وہ مستحب احکام کے ضمن میں آتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر کا تعلق اخلاق سے ہے لیکن اپنی اہمیت میں وہ کسی بھی طرح احکام سے کم نہیں۔‘‘

پھر ابن رشد اس کی تشریح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ سلوک سے متعلق سنتوں ، جنھیں انھوں نے ’’السنن المشروعۃ العملیۃ‘‘ کا نام دیا ہے، کی ایک ہی غرض یا مقصد ہے اور وہ فرد کے اندر ’’فضیلت‘‘ (الفضیلۃ) پیدا کرنا ہے، اسے انھوں نے ’’الفضائل النفسانیۃ‘‘ کا نام دیا ہے۔ پھر عبادات کے شعائر کو ابن رشد نے کریمانہ اعمال کے طور پر اخلاق کے ضمن میں رکھتے ہوئے ’’السنن الکرامیۃ‘‘ کا نام دیا ہے جو عفت کی فاضلانہ صفت (فضیلۃ العفۃ) پر مبنی ہے، اورجو قبیح عادات سے اجتناب کا نام ہے۔ اس کے بعد ’’عدل‘‘ (العدل)، شجاعۃ (الشجاعۃ) اور سخاوت (السخاء) کا نمبر آتا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی حقیقت اور اس کا جوہر ان چار فضائل میں منحصر ہے۔ جن کا اختیار کرنا فرد کے لیے لازمی ہے۔ تاکہ وہ معاشرے میں ایک ذمہ دار اور کج روی و انحراف سے پاک شخصیت کا کردار ادا کرسکے۔

ابن رشد سے ہی ملتی جلتی بات شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ نے فرمائی ہے۔ اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں وہ لکھتے ہیں کہ:

’’اصول اخلاق چار ہیں: طہارت (الطہارۃ) اخبات (الاخبات)، سماحت نفس (سماحۃ النفس) اور عدالت (العدا لۃ) اس کی شرح وہ اس طرح کرتے ہیں کہ: پہلی چیز ’’طہارت‘‘ ہے اس لیے کہ وہ انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ ملائکہ کی مشابہت اختیار کرسکے۔ دوسری چیز ’’اخبات‘‘ (خشوع و تواضع) ہے۔ اس لیے کہ وہ انسان کو اللہ سے قریب کرتی ہے۔ اور اس لائق بناتی ہے کہ وہ ۔ان کی تعبیر میں۔ جبروت کا مشاہدہ کرنے والا بن جاتا ہے۔ تیسری چیز ’’سماحت نفس‘‘ ہے، جس کے ذریعے انسان اپنے ملکوتی صفت پر غلبے کو یقینی بناتا ہے۔ چوتھی چیز عدالت ہے اور وہ کسی ایسے نظام کو چلانے کی قدرت کا نام ہے جو حیات خاصہ کے حق میں ہو اور اسی کے ساتھ حیات عامہ سے تعلق رکھنے والے امور کا بھی انتظام و انصرام کرنے والا ہو۔ ان کے الفاظ میں: ھی ملکۃ یصدر منھا اقامۃ النظام العادل المصلح فی تدبیر المنزل و سیاسۃ المدنیۃ  (یہ ایسے ملکہ کا نام ہے کہ جس کے ذریعے ایسا عادل نظام قائم ہوتا ہے جو تدبیر منزل اور سیاست مدنیہ میں اصلاح کرنے والا ہو۔ (شاہ ولی اللہ: حجۃ اللہ البالغہ : ۱۸۴-۱۸۷)

اس تفصیل کے بعد میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارا مقصد ابن رشد اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے بیان کردہ فضائل کے مابین تقابل کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ قدیم مسلم مفکرین اخلاق کو مسلمانوں کی زندگی کی اساس تصور کرتے تھے۔ چناں چہ ابن رشد اگرچہ ایک فلسفی اور فقیہ تھے اور ان کے اور شاہ ولی اللہ دہلوی، جو ایک عالم وصوفی تھے، کے زمانے کے درمیان پانچ صدیوں کا فاصلہ ہے۔ اول اندلسی اور ثانی ہندی ہیں، تاہم وہ اور اس طرح کے دوسرے بہت سے ہمارے علما دین کی روح کو اخلاق کے تناظر میں دیکھتے تھے۔ اس لیے کہ اگر دینی اعمال اس سے قاصر رہ جاتے ہیں کہ وہ متعلقہ افراد اور جماعتوں کے اندر اخلاقی شعور و احساس کو ابھار سکیں تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوگا کہ اسلامی تصور (Concept) اور عمل (Practice) میں زبردست خلل پایا جاتا ہے۔

اخلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ زندگی میں ایک اہم مشروع کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا: انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق  (میں اس لیے مبعوث کیا گیا ہوں کہ مکارم اخلاق کی تکمیل کروں) قرآن میں اس مشروع کا اثبات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ان لفظوں میں کیا گیا ہے: انک لعلی خلق عظیم (آپ عظیم اخلاق سے متصف ہیں۔ ۶:۶۸)

آئیے ہم ان اعلیٰ اخلاقی مفاہیم و اقدار کا موازنہ ان اعمال اور سرگرمیوں سے کریں جو اسلام کے نام پر مسلمانوں کی طرف سے انجام دی جا رہی ہیں اور جن کی بنیادوں پر دنیا میں مسلمانوں کی عزت خاک میں مل رہی ہے اور ان کی شبیہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا تعلق غیر مسلموں کی عداوت سے نہیں ہے۔ یہ خود مسلمانوں کے اپنے غلط اعمال بلکہ اسلام اور اس کی اقدار کو پامال کردینے والی حرکتوں کا طبعی نتیجہ ہے۔ ایسے بہت سے لوگ جو دین و سیاست کے تعلق سے خود کو مسلمانوں کا رہنما اور ترجمان تصور کرتے ہیں ان کی طرف سے ان اعلیٰ اخلاقی اصولوں کی پامالی کو جنھیں ابن رشد اور شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ نے مستنبط کیا تھا (جن کی وضاحت اوپر کی گئی) دیکھ کر ان کی کوتاہ فکری پر عقل حیرت میں ڈوب جاتی ہے کہ ایں چہ بو العجبی ست۔ مثال کے طور پر مسلم خواتین کے معاملے میں مسلمانوں پر ہمیشہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے۔ ہم غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہم نے خواتین کے تعلق سے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ ان کے حق میں اخلاقی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ اگر ایسا نہیں تو پھر بہت سے اسلامی ملکوں میں مسلم عورتوں کو ازدواجی معاملات میں توہین آمیز اور ناشائستہ سلوک سے کیوں دوچار ہونا پڑ رہا ہے؟آخر بعض اسلامی معاشروں میں عورتوں کی عزت و عفت کو پامال کردینے والے جرائم سے چشم پوشی کیوں کی جا رہی ہے؟ اس سیاق میں ان مثبت اور جرأت مندانہ اصلاحات کی گونج مغرب اور اسلامی دنیا دونوں میں سنائی دے رہی ہے۔ 

ہر شہری کا یہ حق ہے کہ ان کے ان حقوق کی حفاظت کی جائے جن کی پامالی کا امکان ہے۔ لیکن اکثر اسلامی ملکوں میں ان عادلانہ مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو وسائل استعمال کیے جاتے ہیں وہ اکثر اوقات ان مقاصد سے میل نہیں کھاتے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ’’الغایۃ تبرر الوسیلۃ‘‘ (مقصد طریقہ کار کو جواز عطا کرتا ہے) کا اصول یا شعار اسلامی اخلاق کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اسلامی اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ عادلانہ مقاصد کے لیے عادلانہ طریقہ ہائے کار اختیار کیے جائیں۔ اس تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو مثال کے طور پر خود کش حملوں کا طریقہ اسلام کے اعلیٰ اقدار کی بالکلیہ مسخ کاری ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات ہر اعتبار سے یہ ہے کہ اس طرح کے نہایت درجہ قبیح اعمال کو فقہی حیلوں اور حوالوں سے جائز ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ معرکۂ کارزار میں نبرد آزمائی اور شجاعت کا جوہر دکھانا اور بات ہے۔ خاص طور پر وہ معرکے جو وقار اور قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے ہوں، لیکن ایسے ضروری اور دفاعی معرکوں میں بھی اخلاقیات سے دست کش ہوجانا کسی بھی طور پر صحیح نہیں ہے، کجا کہ پوری دنیا کو میدان جنگ تصور کرلیا جائے اور پوری انسانیت کو اپنے غضب و انتقام کا ہدف بنالیا جائے۔ یہ حد درجہ خوفناک اور شیطانی فعل ہے۔ اسی نوع کی فقہ سے امام غزالی نے لوگوں کو ہوشیار و خبردار کیا ہے۔ چناں چہ وہ دین کے فہم میں خارجی احوال یعنی ’’فقہ باطن‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے ’’فقہ ظاہر‘‘ پر ارتکاز سے منع فرماتے ہیں۔ خاص طور پر جب کہ فقہ ظاہر رحمت، عدل، طہارت اور وہ تمام فضائل جن کا ذکر پچھلی سطور میں کیا گیا، کو بروئے کار لانے سے قاصر ہو۔ 

یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی ایک تعداد ضمنی طور پر بسا اوقات نہ صرف تشدد کے اس نوع کے واقعات کی موافقت کرتی ہے بلکہ اس طرح کے رجحانات نے بہت سے اسلامی معاشروں کو ایک قسم کی گھٹن میں مبتلا کردیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بہت سے منکرات کو معروفات اور معروفات کو منکرات کا جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ ان اعمال اور طریقوں کا دوبارہ احیا کیا جائے جنھیں ہم بھول یا بھلا چکے ہیں۔ یعنی وہ اعمال اور فضائل جن کی اپنے اپنے زمانوں میں غزالی، ابن رشد، اور شاہ ولی اللہ دہلوی علیہم الرحمہ اور دوسرے بہت سے اصحاب ہمت و شجاعت نے لوگوں کو ترغیب دی تھی اور جن سے ہمارا وسیع علمی تاریخی ورثہ مالا مال ہے۔لیکن آج کے دور میں اس طرح کے اصحاب ہمت نہایت کم نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ان مسائل سے متعلق بالکل چپ سادھ رکھی ہے۔ اگر وہ اپنی زبان کھولتے ہیں اور اس طرح کے شاذ و منحرف افعال کی مذمت کرتے ہیں تو ان کی حیثیت حدیث میں مذکور ’’غربا‘‘ جیسی ہوتی ہے۔

امام غزالی نے اس امر (اخلاقی انحراف) سے متعلق اپنے زمانے میں جو کچھ لکھا ہے، اس کا مطالعہ کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے انھوں نے یہ باتیں ہمارے زمانے کے تعلق سے لکھی ہوں۔ اگر ہم دین کے ظاہری امور پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ وہ پوری طرح فروغ پارہے ہیں کیوں کہ ان کے وسائل موجود ہیں۔ اسی طرح عبادات پر کافی زور دیا جا رہا ہے لیکن اگر رسالت محمدی کی روح پر نظر ڈالی جائے جو پوری انسانیت کی نجات کے لیے آئیتھی، خاص طور پر اسلامی اخلاق جنھیں دوسری قوموں کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے، تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دین کو داخل و خارج سے درپیش مختلف قسم کے خطرات اور چیلنجوں نے عجیب و غریب چیز بنا دیا ہے۔ ضرورت ایسے مصلحین کی ہے کہ جو لوگوں کے بگاڑ اور فساد کی اصلاح کرسکیں۔ابن بیہ (عربی اسلامی قلم کار)نے بالکل صحیح طور پر ان مصلحین غربا کو قرآن میں ذکر کردہ ’’اولو بقیہ‘‘ میں شمار کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا کہ : اسلام اپنی ابتدا میں غریب تھا اور اخیر میں پھر غریب ہو جائے گا۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ غربا کون لوگ ہیں؟ آپ نے جواب دیا: غربا وہ لوگ ہیں جو میری سنت میں لوگوں کے پیدا بگاڑ کی اصلاح کرنے والے ہیں اور میری سنت کے اس حصے کو جسے لوگوں نے ترک کر دیا ہے، زندہ کرنے والے ہیں۔‘‘

اسلامی تناظر میں اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ خالص اسلامی معیار کے مطابق اسلامی اقدار پر ایک نیا اجماع منعقد ہو۔ ضروری ہے کہ مسلمانوں کے درمیان آپس میں ایک قسم کا اجتماعی اخلاقی عہد (Collective Moral Consensus) اور مسلمانوں اور سول سوسائٹیز کے درمیان ایک لازمی رشتہ قائم ہو۔ اس کے لیے مسلم دانش وران اور علما کو سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ وہی اس بات کے اہل ہیں کہ تعلیم و ابلاغ کے ذرائع سے عام لوگوں کے درمیان اس کی تبلیغ و توضیح کریں۔ ایسے مستقبل کے لیے جس میں مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود مضمر ہے، ان علما اور دانش وروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اخلاقی عہد کی اہمیت کو واضح اور مدلل کریں۔ اس نوع کے پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہماری نئی نسلیں ان اعلیٰ اخلاقی اقدار سے بہرہ ور ہوں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے جیسے: عفت، طہارت، سماحتِ نفس اور عدالت۔

موجودہ دور میں ہم پر مزید یہ ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم ان اقدار کی فہرست میں نئی قدروں کا اضافہ یا ان کی تخصیص کریں۔ ایسی کئی قدریں میرے ذہن میں اس وقت آرہی ہیں لیکن میں یہاں خصوصیت کے ساتھ دو قدروں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ پہلی قدر تکثیریت و تنوع یا دوسرے لفظوں میں رواداری ہے۔ چنانچہ عام شعبوں اور خاص طور پر ارباب دانش کے تعلق سے ضروری ہے کہ تکثیریت ہمارے معاشرے کا ایک اہم جز بن جائے کیونکہ حق تو یقیناًایک ہے لیکن اس کی تجلیات متعدد ہیں۔ حق مطلق کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ جب کہ ہماری حقیقت کی قدر شناسی علمی اور نسبتی ہے۔ ہم جب کسی چیز سے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس کا قطعی علم ہے تو اس وقت علمی زاویے سے اس سے متعلق گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ آخری سطح پر اشیا کی حقیقت کا علم ہمیں مستقبل میں ہوگا۔ اس لیے کہ ہم انسان ہیں اور کسی چیز سے متعلق ہمارا حکم لگانا کامل نہیں ہوسکتا۔ اس طرح ہمارے حکم لگانے میں غلطیوں کا صدور ہوگا اور ہمارا اجتہاد خواہ کتنی ہی دقت رسی پر مبنی ہو، اس میں کوتاہی کا دخل ہوگا۔ اور صحیح نیت کے ساتھ حق کی تلاش و جستجو میں غلطی کرجانا اسلام میں کبھی حرام نہیں سمجھا گیا۔ بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یعنی اس کے لیے اللہ کی طرف سے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اگر ہم نے راہ حق میں فکری کوشش کی اور ہم نے مطلوبہ حق کو پالیا تو ہمارے لیے دو اجر ہیں جب کہ اگر ہم سے خطا کا صدور ہوا تب بھی ہمارے لیے ایک اجر کا وعدہ ہے۔ اس طرح داخلی سطح پر مسلمانوں کے اندر تکثیریت کا پایا جانا خدا کی رحمت و قوت کی نشانی ہے۔حدیث میں امت کے اختلاف کو رحمت کہا گیا ہے نہ کہ باعث نزاع و جدال۔ اختلاف اور تعدد عمومی سطح پر کائنات کے مزاج، قانون اور اللہ کی سنت سے ہم آہنگ ہے۔

دوسری اہم قدر اختلاف کے حل کے لیے ہمارا تشدد کے راستے کو اختیار کرنا ہے۔ تشدد ہمارے معاشرے کا مزمن مرض بن چکا ہے جو ہماری صلاحیتوں کو گھن کی طرح کھائے جا رہا ہے۔ اس سے ہماری ترقی و خوشحالی کے راستے میں رکاوٹ آرہی ہے۔ انسانی جان کے احترام اور اس کی قیمت و اہمیت پر ازسرنو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی جان کی حفاظت اسلامی شریعت کے مقاصد خمسہ میں سے ایک ہے۔ انسان کا قتل اسلام میں ایک بڑا گناہ ہے۔ اہل اسلام کے ہاتھوں اس کو سستا اور آسان سمجھا جانا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ انسانیت کے ماتھے پر ایک کلنک ہے جسے ہم اسلام پر لگا رہے ہیں حالاں کہ دین اس سے بری ہے۔

محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب ’’ترجمان الاشواق‘‘ میں کعبہ کو ایک ذی روح پیکر کی شکل میں فرض کرتے ہوئے لکھا ہے:

تطوف بقلبی ساعۃ بعد ساعۃ
لوجد و تبریح و تلثم ارکانی
کما طاف خیر الرسل بالکعبۃ التی
یقول دلیل العقل فیھا بنقصان
ّوقبل احجارا بھا و ھو ناطق
و این مقام البیت من قدر انسان
’’تم ہر ہر لمحہ وجد اور دردِ دل سے ہمارے دل کا طواف کرتے ہو اورہمارے ارکان کو چومتے ہو۔ جس طرح پیغمبر اعظم نے اس کعبے کا طواف کیا جس کے بارے میں عقل کہتی ہے کہ اس میں کمی ہے۔ اور لبیک کہتے ہوئے اس کے پتھروں کو چوما۔ بیت اللہ انسان کی اہمیت کو بھلا کیسے پا سکتا ہے۔‘‘

ان اشعار میں ابن عربی کا مقصد اس حقیقت کو ذہن نشیں کرانا ہے کہ انسان کی قدر و اہمیت اسلام کی سب سے مقدس نشانی کعبے سے بھی برتر و بالا ہے جسے تمام مسلمانوں کا قبلہ اور اس کی روحانیت کا مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم ان دونوں قدروں، تکثیریت اور عدم تشدد کو نیز ان اقدار کو جن کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا۔ اولین بنیادی اقدار کے طور پر اپنے معاشرے میں نافذ کرنے میں کامیاب رہے تو ہم اپنی قوم کے لیے زیادہ بہتر مستقبل کی توقع کرپائیں گے۔ چناں چہ جو قوم انسانی جان کا احترام کرتی اور تکثیریت میں یقین رکھتی ہے وہ بہ ذات خود ایسی قدرت کی حامل ہو جاتی ہے کہ وہ علم کی حامل قوم بن جائے۔ جو قوم علوم کو ترقی دینے پر قادر ہوتی ہے وہ قوم اس بات پر بھی قادر ہوتی ہے کہ وہ تہذیبی ارتقا کو تیز رو کرسکے۔ پھر ایسی قوم کی ترقی صرف اسی کی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ دوسری اقوام کے تہذیبی ارتقا کا سبب بنتی ہے۔ یہ انسانیت کی معلم اور حقیقی معنوں میں خیر امم جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے امت اسلام کی طرف کی ہے، ہوتی ہے۔

اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے تعلیم کے ابتدائی مرحلے سے اعلیٰ مرحلے تک مسلم تعلیمی اداروں میں عقل اور اور خیال (Imagination) کی اہمیت و قوت کو زندہ و تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔کسی بھی اسلامی مشروع (Project) کے لیے عقل کی ضرورت مسلم ہے۔ عقل کے بغیر اسلام میں فرد پر کوئی اخلاقی ذمے داری عائد نہیں ہوتی، جسے اصطلاح میں ’’تکلیف‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ عاقلانہ مخاطبت کے لیے شعور و فہم بنیادی عنصر کا درجہ رکھتے ہیں۔ حتی کہ وحی کے ادراک اور اس کے ساتھ تعامل میں ہم عقل پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم اس ضمن میں بہت سے اقوال و مراجع کا حوالہ تو دیتے ہیں لیکن ان اقوال سے فائدہ اٹھانے کی کم ہی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: کونوا للعلم دُعاۃ و لا تکونوا للعلم رواۃ (علم کوسمجھنے والے بنو صرف اس کو روایت کرنے والے نہ بنو) ابن عساکر نے لکھا ہے کہ: ھمۃ العلماء ،الوعایۃ و ھمۃ السفھاء، الروایۃ  (علما کی کوشش علم کو سمجھنے کی اور سفہا کی کوشش علم کو روایت کرنے کی ہوتی ہے)۔ ابن عساکر کے اس قول سے وہ لوگ مراد ہیں جو نصوص کو سمجھے بغیر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن عقل کو خیال سے مزین کرنا چاہیے کیو ں کہ ،جیسا کہ فریڈریکوگار سیا لور کا نے لکھا ہے: 

’’خیال عقل کے گرد اس طرح پھیل جاتا ہے جس طرح خوشبو پھولوں کے گرد، جو ان برگہائے گل سے الگ نہیں ہوتی جن سے وہ پھوٹ رہی ہوتی ہے، بلکہ وہ ایک ہی وقت میں فضا میں بکھر رہی ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ اپنے دائمی اعجاز آفریں مرکز سے وابستہ بھی ہوتی ہے۔‘‘

علامہ اقبال اپنی مشہور اردو نظم ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ میں مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔ رسول اللہ کی سیرت، اقبال کی نظر میں، انسان کو اس کے شعور ذات کو برسر عمل لانے کی قدرت عطا کرتی ہے اور اس کو کائنات کی تمام تر موجودات سے ہم آہنگ اور اسی کے ساتھ بشری ذرائع پر اعتماد کرنے والا بنا دیتی ہے۔ چناں چہ تخلیق نو اور تازہ کاری کی وہ روح جس کی ربانی نوازش سے انسانی تجربات عبارت ہیں ،نیز طبیعات و تاریخ نے ان مواد کو وجود بخشا جن سے زندہ تہذیب کی تخلیق ہوئی۔ اقبال کی خواہش تھی کہ اگر مسلمان اپنے عزم و عہد کو عملی شکل دیں تو اپنی تقدیر کی کلید خود ان کے ہاتھ میں ہوگی۔ اس تناظر میں وہ کہتے ہیں:

عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش خلافت ہے جہاں گیر تری
ما سو اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

(کلیات: ۲۰۸)

مسلمان تاریخ کے مختلف ادوار میں شدید طور پر مصائب و مشکلات سے دوچار ہوتے رہے ہیں، بسا اوقات مسلمان اسلام کے مستقبل کے تعلق سے قنوطیت کا شکار ہوگئے۔ ہم نے مقالے کے شروع میں اسلام کے غریب ہوجانے کے تعلق سے جو حدیث نقل کی تھی، اس کی بعض لوگوں نے ایسی شرحیں کی ہیں، جن سے مزید ان لوگوں کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے ان لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اسلام غربت کا شکار ہوکر ختم ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ تاویل بالکل باطل ہے۔ اس لیے کہ وہ کتاب و سنت میں وارد بہت سے اہم احکام و ہدایات سے متصادم ہے۔ اس میں سرفہرست اللہ کا صالحین بندوں سے یہ وعدہ ہے کہ وہی اس زمین کے وارث ہوں گے۔ اس لیے اس حدیث کو اس روشنی میں دیکھا جانا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو بیدار ہونے کی حوصلہ افزائی کرتی اور احیا و تجدید کے عمل پر مائل کرتی ہے۔ اسلامی عمل میں جب بھی انحراف واقع ہوگا، اس کی اصلاح ضروری ہوگی۔ رسول اللہ کی ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ امت محمدیہ حق پر قائم رہے گی اس کے مخالفین اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں پائیں گے، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے گا۔

اسلام اور عصر حاضر

(مارچ ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter