ملک کے معروف معیاری جرائد ورسائل میں ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں مختلف الخیال لوگوں کے آرا وافکار اورجدید افکار ونظریات رکھنے والے ارباب علم ودانش اور مفکرین کے مضامین ومقالات شائع ہوتے ہیں جس سے ان کے خیالات سے آگاہی ہوتی ہے اورغور وفکر کاموقع ملتا ہے۔ دوسروں کا نقطہ نظر سامنے آتاہے اور ان کے موقف کی کمزوری یابرتری ثابت ہوتی ہے۔ علمی دنیا میں اس کی جتنی ضرورت ہے، شاید ہی کسی صاحب علم کواس سے اختلاف ہو ۔
’’الشریعہ ‘‘میں وقتاًفوقتاًدینی مدارس کے مسائل کوزیر بحث لایاجاتاہے اور نظام تعلیم، اساتذہ اور طلبہ کی تعلیم وتربیت سے متعلق ماہرین تعلیم کی آرا پیش کی جاتی ہیں۔ گزشتہ چند شماروں میں دینی مدارس کے نظام تعلیم، اساتذہ اورطلبہ کی تعلیم و تربیت سے متعلق مسائل اور ان کے حل پر متعدد اصحاب علم ودانش کے خیالات پڑھنے کاموقع ملا اور دینی مدارس کے مسائل سے آگاہی ہوئی۔ یہ مفید سلسلہ آئندہ بھی چلتا رہنا چاہیے۔
بندہ دینی مدارس کے طلبہ کی اردودانی اور اردو زبا ن وادب میں کمزوری سے متعلق ارباب مدارس کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے۔ دینی مدارس کے طلبہ کی ایک معتد بہ تعداد کی اردو بول چال کیسی ہے اور اردو گفتگو کااندازہ کیا ہے، اس کی ایک جھلک ذیل کے واقعات میں ملاحظہ فرمائیں:
معروف اسلامی اسکالر اورمتعددکتابوں کے مصنف ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن صاحب سے بندہ نے یہ واقعہ خود سنا۔ فرماتے ہیں:
’’ایک دن میں شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیرعلی شاہ صاحب سے ملنے کے لیے ان کے پاس دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک گیا۔ حضرت اس وقت دارالحدیث میں دورۂ حدیث کے طلبہ کوسبق پڑھارہے تھے۔ جب گیٹ کراس کرکے اندر پہنچا تومیں نے ایک طالب علم سے پوچھا کہ ڈاکٹر شیرعلی شاہ صاحب کہاں ہیں؟اس طالب علم نے جواب دیا کہ ’’وہ دارالحدیث پڑھتی ہے ‘‘۔ میں حیران ہوا کہ اب اس عمر میں حضرت کو پڑھنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے۔ میں دارالحدیث میں پہنچا تو دیکھاکہ حضرت ،طلبہ کوبخاری شریف کاسبق پڑھارہے ہیں ۔‘‘
ایک اورواقعہ خود بند ہ کے ساتھ پیش آیا۔ دوتین سال قبل کی بات ہے کہ بندہ مغر ب کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلا توایک منتہی طالب علم (جو ماشاء اللہ اپنے رقبے کے طول وعرض کے اعتبار سے بڑے وسیع واقع ہوئے تھے) نے سلام کیا۔ بندہ نے ابھی سلام کاجواب دیاہی تھا کہ کہنے لگا: ’’استادجی !تومجھے بہت اچھی لگتی ہے‘‘۔ بندہ نے متعجبانہ اور سوالیہ انداز سے اس کی طرف دیکھا توکہنے لگا کہ ’’تونے ہم کو بہت اچھا’’ کنز‘‘ پڑھاتی تھی ‘‘یہ دوواقعے توبطور نمونہ لکھ دیے ہیں ،ورنہ دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے احباب کواس طرح کے کلمات واحوال سے روزانہ کسی نہ کسی طرح واسطہ پڑتا رہتا ہے، ورنہ کم ازکم طلبہ سے سبق سننے کے دوران یاان سے گفتگو کے وقت توضرور موقع مل ہی جاتاہے۔ صرف کسی خاص علاقے اوروہاں کے باشندگان کی بات نہیں، بلکہ ملک کے دوسرے مختلف حصوں سے آنے والے طلبہ سے بھی اردو گفتگو کے وقت ان کی اردوزبان کی غلطیاں ایک ایک کرکے واضح ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگرلفظی اورزبان کی غلطی نہ بھی ہو، تب بھی کم از کم مادری زبان کا لب ولہجہ اردو گفتگو میں ضرور شامل ہو جاتا ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ متکلم کی مادری زبان کیاہے اورکس علاقے کا رہنے والاہے ۔
ہمارے اکثردینی مدارس میں درس نظامی کاکورس اگرچہ اردوزبان میں پڑھایاجاتاہے،لیکن بطور زبا ن کے اردونہیں پڑھاتی ہے اورنہ اس کی طرف ارباب مدارس کی توجہ ہے۔ اس لیے فراغت کے بعد بھی ہمارے طلبہ کی اردوبول چال، تقریر اور گفتگومیں صریح غلطیاں ہوتی ہیں جواہل مدارس کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی ہیں۔ اس وقت اردوزبان کی ضرورت واہمیت سے کوئی بھی ذی فہم انسان انکارنہیں کرسکتا۔ اس کااثرورسوخ پوری دنیا میں دن بدن پھیل رہاہے، بلکہ بہت سے علوم اردو میں منتقل ہوچکے ہیں اور کیے جارہے ہیں۔ ہماری ملکی زبان اردوہونے کے ناتے سے اور شرعی لحاظ سے بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سب اردوزبان پرمکمل طور پر عبور حاصل کریں، اس کو ترقی دیں اور اس کو ضائع ہونے سے بچائیں۔
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ (جن کو اللہ تعالیٰ نے دین کے تقریباً تمام شعبوں کی خدمت سے نوازا تھا) انہوں نے اردوزبا ن کی شرعی حیثیت پر ایک وقیع مقالہ تحریر فرمایا تھا۔ حضرت نے دنیامیں رائج مختلف زبانوں کاشرعی لحاظ سے جائزہ لیا، ان میں سے عربی زبان کی مختلف جہات سے فوقیت وبرتریت اورفضیلت ثابت فرمائی اور واقعتاً عربی زبان مختلف حوالوں سے ہے بھی فضائل کامجموعہ۔ اس کی فضیلت ایک مسلمان کے لیے تواتنی ہی کافی ہے کہ یہ عربی زبان قرآن کی اور رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے اوراہل جنت کی زبان ہے۔ عربی کے بعد دوسرے درجے میں فارسی زبان ہے کیونکہ فصاحت میں فارسی عربی کے قریب ترہے اور اشرف اللغات ہے۔ عربی سے مناسبت کی وجہ سے فارسی کو فضیلت حاصل ہے، حتیٰ کہ ایک وقت میں توحضرت امام اعظم ؒ فارسی میں قراء ت کوجائز قرار دیتے تھے، اگرچہ بعدمیں رجوع فرما لیا تھا۔ اور دینی علوم کا بہت سا ذخیرہ بھی فارسی زبان میں ہے، خاص طورپر علم تصوف کااکثر وبیشتر حصہ توفارسی زبان میں ہی ہے۔ تیسرے درجے میں حضرت تھانوی ؒ نے اردو زبان کو بیان کیا ہے۔ اردوزبان کے بکثرت الفاظ عربی کے ہیں اور عربی اوراردوکے الفاظ تقریباًملتے جلتے ہیں۔
حضرت تھانوی ؒ نے اردوزبان کی تین فضیلتیں بیان کی ہیں۔
۱۔اردوکوعربی اورفارسی سے جزئیت کی مناسبت حاصل ہے ،کہ ان کے الفاظ باہم ملتے جلتے ہیں۔
۲۔علوم دینیہ بالخصوص تصوف صحیح ومقبول کاذخیرہ اردو میں ہے جس کو علما ومشائخ نے صدیوں کی محنت اورمشقت سے جمع فرمایاہے۔
۳۔ اردو کا سلیس اورآسان ہونا۔ جتنی یہ ز بان آسان ہے، شاید ہی اتنی کوئی اورزبان ہو اورقرآنی آیت ’فانما یسرنہ بلسانک لتبشربہ المتقین‘ اور ’فانما یسرنہ بلسانک لعلھم یتذکرون‘ سے بھی مشکل زبان کی بہ نسبت آسان زبان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ۔
خاتم المحدثین حضرت مولانا محمد انورشاہ کشمیری ؒ کے بارے میں متعدد حضرات سے سناہے کہ آپ اردوزبان کی اہمیت کے قائل نہیں تھے لیکن جب حضرت تھانوی ؒ کی تفسیر بیان القرآن دیکھی تو فرمایا کہ ہم سمجھتے تھے کہ اردوزبان شاید علوم سے خالی ہے، لیکن بیان القرآن دیکھنے سے معلو م ہواکہ اردوزبان بھی علوم کاذخیرہ ہے۔
حضرت تھانوی ؒ اردوزبان کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اس وقت اردوزبان کی حفاظت دین کی حفاظت ہے ، اس بنا پر یہ حفاظت حسب استطاعت اورواجب ہوگی، اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اورسستی کرنامعصیت اورموجب مواخذہ آخرت ہوگا۔‘‘ (البلاغ ،۲،۱۷)
ہمارے ہاں چونکہ اکثر مدارس میں اردوزبان بطور نصاب اور زبان کے نہیں پڑھائی جاتی جبکہ عصری تعلیم گاہوں میں اردو زبان بطور نصاب پڑھائی جاتی ہے اور اس پر خوب توجہ دی جاتی ہے، اس لیے مدارس کے طلبہ کے لیے اس میں متعد د مشکلات ہیں۔ اس کے لیے طلبہ کی خدمت میں گزارش ہے کہ جب تک اردوزبان مدارس کے نصاب میں شا مل نہیں کی جاتی، اس وقت تک اپنے طورپر اس کو سیکھنے کی کوشش کریں۔ اردو کے نامور اور معروف ادیبوں کی تحریریں پڑھیں اوراگر موقع میسر ہو توان کی اردو گفتگو کو توجہ سے سنیں اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں۔ اپنی بول چال اور اپنی تقریر وتحریر میں اردو الفاظ سوچ سمجھ کراستعمال کریں، پھرا ن کی خوب عملی مشق کریں۔
اردو ادب پرلکھی جانے والی اچھی کتابوں کااپنے اساتذہ کرام سے انتخاب کرا کے ان کانہ صرف مطالعہ کریں بلکہ بآواز بلند ان کی خواندگی کریں اور ایک دوسرے کو ان کی تحریر پڑھ کرسنائیں۔ بلند آواز سے پڑھتے ہوئے تلفظ کی صحت، لب و لہجہ کی عمدگی اور آوازکے اتارچڑھاؤ کا ضرور خیال رکھیں۔ ہلکے پھلکے اور زور دار جملوں کو پڑھتے وقت بھی آواز میں اتار چڑھاؤ کوظاہر کریں۔ اسی طرح الفاظ کے معانی کے ساتھ آواز کی مناسبت کابھی لحاظ کریں۔
اس مقصدکے لیے ہمیں کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل وکرم سے یہ ملکہ بھی ہمارے اکابرین کو حاصل ہے۔ ہمارے اکابر میں ایک سے بڑھ کر ایک اردو ادب پر ماہرانہ دسترس رکھنے والے موجود ہیں اور ان کی کتابیں موجود ہیں۔ بالخصوص مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا سید ا بوالحسن ندوی، مولانا محمد یوسف لدھیانوی اور موجودہ اکابر میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا زاہدالراشدی، مولانا عبدالقیوم حقانی، مولانامفتی ابو لبابہ، مولانا ابن الحسن عباسی کی کتابیں اور ان کے مضامین و مقالات کو پڑھیں۔ اس سے ان شاء اللہ اردو زبان کی درستی کے ساتھ ساتھ معلومات میں بھی اضافہ ہوگا۔ اور بھی بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔