برا ہمسایہ کتنا بڑا عذاب ہوتا ہے، اس کا تجربہ محلوں اور آبادیوں میں رہنے والوں کو آئے دن ہوتا رہتا ہے۔ ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں بخاری اور مسلم میں حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ:
قال ما زال جبرئیل یوصینی بالجار حتی ظننت انہ سیورثہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ جبریل، پڑوسی کے حق کے بارے میں مجھے برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں خیال کرنے لگا کہ وہ اس کو وارث قرار دے دیں گے۔‘‘
اسلام میں شفعہ کے حق کی بنیاد جائیداد کے ساتھ الحاق اور ہمسایگی پر رکھی گئی ہے۔ رواج کی بنیاد پر شفعہ کے حق کو بیع اور معاہدے کی آزادی پر ایک پابندی خیال کرتے ہوئے کمزور حق قرار دیا جاتا تھا۔ جب شفعہ کے قانون کو اسلامی احکامات کے مطابق بنانے کا سوال اٹھا تو یہاں بھی اسے کمزور حق کے طور پر ہی زیر بحث لایا گیا۔ لہٰذا اسے مسدود کرنے کے لیے ایسے قانونی شکنجے تیار کیے گئے جن سے یہ حق عملاً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ ہمسایگی کے حقوق میں سے ایک حق شفعہ بھی ہے۔ اسے کمزور حق گرداننا قرآن و سنت کی واضح تعلیمات کے خلاف ہے۔ قانون شفعہ کو اسلامائز کرتے ہوئے اس قریب الوراثت حق کو کمزور کرنے کے لیے علما ججوں (مولانا جسٹس محمد تقی عثمانی او جسٹس پیر کرم شاہ) نے جو ’’خدمت‘‘ انجام دی، وہ کوئی جج شاید انجام نہ دے سکتا۔ یہ سب کچھ اسلامائزیشن کے نام پر ہوا۔ قانون شفعہ کی ایک دفعہ کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے ہم دیگر دفعات کی بحث کو سر دست الگ رکھتے ہیں۔ یہ دفعہ ۱۲ ہے۔ سب سے پہلے اس دفعہ کا انگریزی متن ملاحظہ فرمائیں:
Right to revoke sale:- Where the vendor has stipulated in the contract of sale that it is subject to revocation by him within a period, not exceeding sixty days, specified in such contract, the right of pre-emption shall not be exercised until such period has expired."
''معاہدہ بیع کی تنسیخ کا حق-: جب کوئی بائع بیع کے معاہدہ کو، منسوخی بیع کے حق سے مشروط کردے تو اس حق کے استعمال کے لیے رکھی گئی میعاد کے اندر حق شفعہ بروئے کار نہیں لایا جا سکے گا۔ البتہ بیع منسوخ کرنے کی شرط کے لیے میعاد ساٹھ دن سے زیادہ نہیں ہو گی۔''
اس دفعہ میں بیع منسوخ کرنے کا حق اور اس کے لیے ساٹھ دن کی میعاد کی شرعی حیثیت کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ فقہ کی اصطلاع میں اس حق کو خیار شرط کہا جاتا ہے۔ عدالت میں اس شرط کی شرعی حیثیت پر سیر حاصل بحث نہیں ہوئی، البتہ شرط کے لیے دو ماہ کی میعاد پر مفصل بحث ہوئی۔ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس جناب تنزیل الرحمن نے بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنی کتاب ’’مجموعہ قوانین اسلام‘‘ کی جلد ۶، صفحہ ۲۰۳۲ سے درج ذیل اقتباس نقل کیا ہے:
’’خیار شرط میں تین دن کی تعیین نصاً ثابت ہے، جس کے سبب امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ اس کی تعیین تین یوم کرتے ہیں۔ عام فقہا کا بھی یہی مسلک بیان کیا جاتا ہے، البتہ صاحبین امام ابو یوسف و محمد رحمہما اللہ تعالیٰ کا اس سلسلے میں اختلاف ہے۔ ان کے نزدیک حبان ابن منقذ الانصاری سے مروی حدیث مرفوع میں تین یوم کا ذکر اتفاقاً آیا ہے۔ چنانچہ صاحبین اپنے قول کی بنیاد ابن عمر کے قول (حدیث موقوف) پر رکھتے ہیں جس میں ابن عمر نے مدت کی تعین دو ماہ تک فرمائی اور اس مدت کے انقضا پر خیار شرط کی اجازت دی۔ راقم الحروف کے نزدیک بیع کا خیار شرط کے تعلق سے زیادہ دنوں معلق رہنا تمدنی تقاضوں کے لحاظ سے بھی مناسب نہیں معلوم ہوتا، لہٰذا تین یوم کی مدت نصاً ثابت قرار دی جانی چاہیے۔‘‘
اس کے مطابق وفاقی شرعی عدالت نے اس دفعہ میں خیار شرط میں تین دن سے زائد میعاد کو خلاف شریعت قرار دیا۔ فیصلہ کی تفصیل کے لیے پی ایل ڈی ۱۹۹۱ ایف ایس سی ۸۰ بر صفحہ ۱۰۲ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل ہوئی۔ اپیل کا فیصلہ شریعت اپیلیٹ بنچ کے فل بنچ نے کیا۔ اس بنچ میں پانچ جج شامل تھے۔ یہ فیصلہ پی ایل جے ۱۹۹۴ سپریم کورٹ ۲۲۱پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی نے فیصلہ لکھتے ہوئے خیار شرط کے لیے میعاد کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے لیے ساٹھ دن کی میعاد کو شریعت کے مطابق قرار دیا اور اس بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔
وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے اپیلیٹ بنچ کے فیصلوں میں، زیر بحث مسئلے سے متعلق حدیث کا متن نقل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ یہ حدیث حبان بن منقذ انصاری کی ہے۔ ہمارے نزدیک مسئلے کی نوعیت واضح کرنے کے لیے حدیث کا متن سامنے رکھنا بے حد ضروری ہے۔ ہم اس کا متن درج کر کے کلام کریں گے۔
عن محمد بن یحیی بن حبان قال ھو جدی منقذ بن عمرو کان رجلا قد اصابتہ آمۃ فی راسہ فکسرت لسانہ وکان لا یدع علی ذالک التجارۃ وکان لا یزال یغبن فاتی النبی فذکر ذالک لہ فقال لہ اذا انت بایعت فقل لا خلا بۃ ثم انت فی کل سلعۃ ابتعتھا بالخیار ثلاث لیال فان رضیت فامسک وان سخطت فارددھا علی صاحبھا (سنن ابن ماجہ ج ۲،ص۷۸۹، حدیث نمبر ۲۳۵۵)
’’منقذ بن عمرو کے سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے زبان متاثر ہو گئی تھی لیکن وہ اس کے باوجود خرید و فروخت سے باز نہیں آتے تھے اور مسلسل دھوکہ کھاتے تھے۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو یہ بات بتائی۔ آپ نے ان سے کہا کہ جب تم سودا کیا کرو تو کہا کرو کہ دھوکہ نہیں چلے گا۔ پھر تمہیں ہر خریدے ہوئے سودے میں تین دن تک اختیار ہوگا۔ اگر تمہیں پسند آئے تو رکھ لو اور اگر پسند نہ ہو تو بائع کو واپس کر دو۔‘‘
حدیث کا متن بہت واضح ہے۔ ایک خاص شخص کو، اس کی معذوری کی بنا پر،خیار شرط کی اجازت دی گئی۔ یہ ایک استثنائی صورت تھی۔ اس کے لیے بھی تین دن کی میعاد رکھی گئی۔ اس اجازت کو عام اصول کے طور پر اختیار کر کے باقاعدہ قانون بنانے کی گنجائش کس طرح نکل سکتی ہے؟ پھر حدیث میں، مخصوص حالات میں سودے کو منسوخ کرنے کے لیے تین دن کی میعاد رکھی گئی ہے۔ امام ابو حنیفہ،امام شافعی اور دیگر فقہا بھی تین دن کی میعاد کے ہی قائل ہیں۔ اسے ساٹھ دن تک کھینچ لے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اس سے معاملات میں غیر یقینی پن کی راہ نہیں کھلتی؟ جسٹس تنزیل الرحمن صاحب کا یہ کہنا کہ نص سے ثابت شدہ میعاد سے زائد میعاد تمدنی تقاضوں کے مطابق معلوم نہیں ہوتی، اس دلیل کا کیا جواب ہے؟ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ کے فیصلے میں مولانا تقی عثمانی صاحب نے جسٹس تنزیل الرحمن کے بیان کردہ دلائل پر قریب قریب سکوت ہی اختیار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں یہ لکھا ہے کہ قرآن کی کسی آیت اور حدیث میں تین دن سے زائد میعاد کی ممانعت نہیں، لہٰذا دو ماہ کی میعاد درست ہے۔ سوال یہ ہے کہ متعلقہ حدیث جو اس مسئلے کے ہر پہلو پر جامع ہے، اس کے متن سے باہر دو ماہ کی میعاد کی ممانعت کیسے تلاش کی جا سکتی ہے؟ متعلقہ حدیث میں درج میعاد کو نظر انداز کرنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر اس حوالے کے ساتھ کوئی استدلال موجود نہیں۔ اسلامی تعلیمات میں معاملہ طے کرنے کے ساتھ اسے لکھنے کا ترجیحی حکم قرآن مجید میں موجود ہے۔ معاہدوں کی پابندی پر زور تو اسلام کے ساتھ ہی مخصوص نہیں، انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ حدیث کے واضح الفاظ سے ہٹ کر قانون کی تعبیر و تشریح، ہمارے ہاں رائج اصول تعبیر سے بہر حال تجاوز ہے۔ اس سے محدود فقہی سوچ کو راہ مل سکتی ہے مگر مملکت کے دستور اور عدالتوں کی جانب سے اختیار کردہ اصول تعبیر و تشریح میں اس کی کوئی گنجائش مشکل ہی سے نظر آتی ہے۔
قانون شفعہ کی دفعہ نمبر ۳ کے الفاظ یہ ہیں:
Interpretation:- In interpretation of the provisions of this Act, the court shall seek guidance from the Holy Qur'an and Sunnah.
’’اس قانون کی تشریح اور اطلاق میں عدالت، قرآن اور سنت سے رہنمائی لے گی۔ ‘‘
در اصل ہمارے ہاں عدالتوں میں بالعموم موثر اور طاقت ور طبقات کی خدمت کے نقطہ نظر سے فیصلے دینے کا رجحان کافی مضبوط ہے۔ اس رجحان کے تحت ہی شفعہ جیسے مضبوط حق کو کمزور حق تعبیر کرتے ہوئے مسدود کرنے کے لیے کئی فیصلے کیے گئے ہیں۔ اس کی پوری ایک تاریخ ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھی کے مکتب کی رائے تو پورے فقہی ذخیرے کے بارے میں اسی قسم کی ہے۔ ایک حوالہ بطور نمونہ پیش خدمت ہے:
’’افسوس ہے کہ ہمارے علما اورمفسرین نے بھی عوام کے متعلق یہی رویہ اختیار کیا اور ساری مسلم تاریخ ملوکیت کے استبداد، جاگیر داروں کے استحصالِ محنت اور ان طبقوں کے مفاد کی حمایت کرنے والے اسلام پسند اور دوسرے دانشوروں کی کی آئینہ دار ہے۔ ‘‘ (اسلامی انقلاب کا عہد نامہ، از الطاف جاوید)
ہمارے ملک میں ہندو رواج اور شریعت کے ملے جلے رجحانات کی بنا پر شفعہ کا قانون، ۱۹۱۳ء سے رائج تھا۔ ۱۹۷۲ء میں بھٹو صاحب نے مارشل لا ریگو لیشن نمبر ۱۱۵ کے پیرا گراف نمبر ۲۵ کی رو سے مزارع کو فائق ترین حق شفعہ دیا۔ ظاہر ہے، یہ حق جاگیر داری اور زمینداری سے مغلوب ماحول میں کیسے ہضم ہو سکتا تھا۔ چنانچہ سید کمال کے کیس میں مزارع کے حق شفعہ کے ساتھ کم و بیش پورے قانون شفعہ کی شرعی حیثیت کو چیلنج کیا گیا۔ اس طرح مزارع اور رشتے داری کی بنیاد پر حاصل حق شفعہ کو خلاف شریعت قرار دیا گیا۔
ہم یہاں متعلقہ فیصلوں کے بارے میں اظہار خیال نہیں کرنا چاہتے، مگر صوبائی حکومتوں کے طرز عمل کا ذکر کر کے یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ موثر طبقات کس طرح اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس بارے میں حکومت پنجاب کا ذکر بطور خاص اہم ہے۔ میاں نواز شریف اس زمانے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ لاہور کے نواح میں میاں نواز شریف اراضی کی بڑی بڑی خریداریاں کر رہے تھے۔ شفعہ کے حق سے ان کو تحفظ کی ضرورت تھی۔ چنانچہ انہوں نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کس طرح فائدہ اٹھایا، اس کا اندازہ حالات کے سرسری تذکرے ہی سے ہو جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے مروجہ قانون شفعہ کو خلاف شریعت قرار دیتے ہوئے ۳۱ جولائی ۱۹۸۶ء تک اسے شریعت کے مطابق بنانے کی ہدایت کی۔ بصورت دیگر، رائج قانون غیر موثر ہو جانا تھا۔ حکومت پنجاب نے ۱۹۸۶ء سے ۱۹۹۱ء تک شفعہ کے بارے میں کوئی قانون نہ بنایا۔ میاں نواز شریف کی جانب سے اراضی کی خریداریوں کا سلسلہ تیزی سے جاری رہا۔ ان خریداریوں کو شفعہ سے تحفظ دینے کی یہ بہترین صورت تھی کہ قانون میں خلا رہنے دیا جائے۔ چنانچہ قانون سازی میں قریباً پانچ سال کا خلا قائم رکھا گیا۔ اس دوران میں قانون نہ بنانے کے مسئلے پر احتجاج ہوا، مگر پنجاب کی حکومت نے اس کی پروا نہ کی۔
حقوق کا خاتمہ اور اسے مسدود کرنے کی کوششوں میں اجتہادی کاوشوں کا ممد و معاون ہونا کچھ لوگوں کے نزدیک قابل تحسین ہو گا، مگر حکومت پنجاب کا طرز عمل کس قدر مفاد پرستانہ اور مجرمانہ رہا، وہ بالکل واضح ہے۔ ارباب عدالت و شریعت کو اس صورت حال کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کا کچھ بھی شعور و احساس ہوتا تو لوگوں کی اس طرح حق تلفی نہ ہونے دیتے۔ قانون میں خلا کی کبھی گنجائش نہیں ہوتی۔ عدالتی نظائر اس کے سد باب کے لیے بہت واضح ہیں۔ اگر ہمارے علما جج اس اصول کو بروئے کار لاتے تو لوگ حقوق سے محروم نہ ہوتے۔ قانون کے خلا کی صورت میں قانون عامہ اسے پر کرتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ایسی صورت میں برطانوی قانون عامہ کو اختیار کیا جاتا تھا، مگر الٰہ آباد کے جسٹس محمود اس وقت بھی اسے اسلامی تعلیمات سے پر کرنے کے لیے واضح موقف رکھتے تھے، چنانچہ انہوں نے کوئین ایمپریس بنام پوہپی وغیرہ (۱۸۹۱، الٰہ آباد ۱۷۱) میں باقی ججوں سے اختلافی فیصلہ لکھا۔
تقسیم کے بعد تو ہمارے ہاں قانون کے خلا کو اسلامی تعلیمات سے پر کرنے میں کوئی رکاوٹ ہی نہیں تھی۔ چنانچہ جسٹس محمد افضل ظلہ نے نظام خان بنام سرکار کے کیس میں بڑی سیر حاصل بحث کر کے اس اصول کو واضح کیا ہے۔ موصوف اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے جج تھے۔ ان کا یہ فیصلہ پی ایل جے ۱۹۷۶ء لاہور کے صفحہ نمبر ۵۹۰ پر دیکھا جا سکتا ہے۔
جناب جسٹس ظلہ صاحب نے اپنے فیصلے میں کم و بیش ایک سو سال کے کیسوں کے پورے سلسلے کو تسبیح کی طرح پرو کر بنیادی اصول اخذ کیا ہے۔ کاش ہمارے علما جج صاحبان نے جسٹس افضل ظلہ صاحب کے اس فیصلے سے استفادہ کیا ہوتا۔ اگر ایسا ہوتاتو شاید لوگوں کی محرومی دور کرنے کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی۔ جسٹس ظلہ صاحب کا فیصلہ انتہائی فاضلانہ ہے ۔ معلوم نہیں، علما جج دوسرے ججوں کے فیصلے پڑھنا اپنی شان کے خلاف نہ سمجھتے ہوں۔ ویسے بھی کئی بار ایسا ہوا کہ ہمارے بعض علما نے پڑھے بغیر ہی بڑی بڑی دستاویزات کی تائید کر دی۔ اس میں سترھویں آئینی ترمیم اور حدود کے سلسلہ مذاکرات میں علما کمیٹی کا سمجھوتہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اس سمجھوتے کی تفصیلات جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بیان فرمائی ہیں۔ ان کے مطابق علما و فقہاے اسلام جمع ہوئے مگر حضرت جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی صاحب بیرون ملک دورہ پر تھے۔ علماے کرام نے ان کے بغیر رائے دینے سے معذرت کر دی۔ عثمانی صاحب کا انتظار ہوا، وہ تشریف لائے تو سمجھوتے پر دستخط ہو گئے۔ سمجھوتے کی شق نمبر ۲ کی زبان اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ اسے پڑھے بغیر دستخط کیے گئے۔ یہ شق حسب ذیل ہے:
’’۲۔ حدود آرڈنینس میں زنا موجب تعزیر کی بجائے فحاشی کے عنوان سے ایک نئی دفعہ کا تعزیرات پاکستان (PPC) میں اضافہ کیا جائے گا، جس کا متن درج ذیل ہے:A man and a woman are said to commit lewdness if they willfully have sexual intercourse with one another without being married, and shall be punished with imprisonment which may extend to five years, shall be liable to fine.
متن کے بارے میں عجیب و غریب صورت حال ہے۔ مجوزہ دفعہ کا یہ متن ’الشریعہ‘ میں شائع شدہ رپورٹ، معارف اسلامی کے شائع کردہ کتابچے اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کی کتاب’’حدود آرڈیننس اور تحفظ نسواں بل‘‘ میں اسی طرح درج ہے۔ سمجھوتے کی فوٹو کاپی میرے سامنے ہے۔ اس میں بھی متن میں کوئی فرق نہیں۔ کاپی کے آخر پر علماے کرام کے دستخط بھی ہیں۔ اب دفعہ کے دو سطری مسودے میں زبان کی واضح غلطی ہے۔ لفظ being married اور shall be کے درمیان لفظ and زائد ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسودے پر پڑھے بغیر دستخط کیے گئے۔ اگر اسے پڑھا جاتا تو اس بدیہی غلطی کو درست کرا لیا جاتا۔ سمجھوتے کے مسودے کے اردو حصے کے بارے میں مولانا زاہد الراشدی صاحب کا کہنا ہے کہ وہ ان کا لکھا ہوا ہے۔ اس میں شامل انگریزی سطورکے بارے میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ چوہدری شجاعت یا جناب وصی ظفر صاحب کی لکھی ہوئی ہوں گی۔ بہرحال مسودے کی دوسری جگہ رپورٹس میں زبان کی یہ غلطی موجود نہیں۔
سمجھوتے کا موثر حصہ پانچ سطروں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے دو سطریں اردو اور دو انگریزی میں ہیں۔ انگریزی سطریں سادہ زبان میں ہیں۔ ان میں کوئی فنی اور مشکل زبان بھی نہیں۔ اب انتہائی فضیلت رکھنے والے علما نے جن انگریزی سطور والی شق کو سمجھوتے کے طور پر قبول کیا ہے، ان کے بارے میں یہ گمان تو نہیں کیا جا سکتا کہ وہ زنا بالرضا کو محض فحاشی قرار دے کر اسے پانچ سال کی تعزیر کے تحت لانے پر متفق ہو رہے تھے، مگر یہ گمان کرنا کہ وہ sexual intercourse کا مطلب نہیں سمجھ سکے، بڑا مشکل ہے۔ مگر ان کی یہ بہت بڑی پھسلن ہے۔ اتنے بڑے مرتبے کے لوگوں کی پھسلن ہی تھی کہ خورشید ندیم صاحب کو یہ لکھنے کی جسارت ہوئی کہ شادی کے بغیر رضامندی کے ساتھ جنسی عمل اگر زنا نہیں اور محض فحاشی ہے تو علماے کرام وضاحت کریں کہ زنا کیا ہوتا ہے۔ بہرحال اگر علما جج صاحبان اس خوش گمانی کی اجازت دیں کہ وہ دیگر ججوں کے فیصلوں کو پڑھنے کا ذوق رکھتے ہیں تو جسٹس محمد افضل ظلہ جیسے ججوں کے فیصلوں کو پڑھیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں ایسے فیصلوں کو لا جرنلز سے منتخب کر کے اردو میں منتقل کر کے دینی حلقوں کے لیے پیش کروں تاکہ ان کو اندازہ ہو سکے کہ اجتہادی ضروریات کیا ہوتی ہیں۔
مگر مشکل یہ ہے کہ علما عدالت میں جج ہوں یا ایوان اقتدار میں کسی درجہ میں شریک ہو جائیں تو وہ اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک انعام خیال کرتے ہیں۔ وہ اسے ایک بھاری ذمہ داری خیال کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس میں حکومت کا منشا جس قدر پورا کرنا ممکن ہو، اس کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔علما کمیٹی کے مذاکرات، سترہویں آئینی ترمیم کے موقع پر واضح طور پر ایسا ہی ہوا۔ اس کے علاوہ سود کے کیس میں حکومت کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست پر جو کچھ ہوا، اس کا میں خود تذکرہ کرنے کے بجائے سود کے خلاف فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس وجیہ الدین کا بیان نقل کر دینا کافی خیال کرتا ہوں:
’’ربا کے فیصلہ میں حکم یہ تھا کہ آخر جون ۲۰۰۱ء تک سودی نظام ختم کر دیا جائے۔ اس کے باوجود کہ حکومت نے ڈیڑھ پونے دو سال بغیر کچھ کیے گزار دیے تھے، موجودہ جج صاحبان جن میں مولوی تقی عثمانی بھی شامل تھے، کے سامنے جب نظر ثانی کی درخواست لگی، تو انہوں نے ایک سال کا وقت اور دے دیا، یعنی ۳۰ جون ۲۰۰۲ء تک۔ اس وقت کے اخبارات میں ان کے جو آبزرویشن آئے، وہ یہ تھے کہ جی ہم مسلمان ہیں، ہم سود کے حق میں فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں، زیادہ سے زیادہ ہم آپ کو تھوڑا سا ٹائم دے سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ پھر انہوں نے اطمینان سے سال بھر کا وقت دے دیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ نظر ثانی کی درخواست کو خارج تک نہیں کیا۔ اس کو التوا میں رکھا۔‘‘ (میزان، صفحہ نمبر ۱۷۰)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈیڑھ سال کی دی ہوئی میعاد کے اندر عدالت کے حکم کی تعمیل میں کچھ بھی نہ کرنے کے بعد میعاد کس جواز پر مانگی جا سکتی تھی اور کس بنیاد پر یہ میعاد دی جا سکتی تھی؟ اس بارے میں مولانا تقی عثمانی صاحب کی عنایت خسروانہ کیا ایک نہایت فاضل عالم اور اسی علم و فضل کے ناتے سے سپریم کورٹ تک پہنچنے والے جج کے شایان شان ہے؟ گیارہ سال کی طویل عدالتی معرکہ آرائی کے بعد ایک فیصلہ آتا ہے۔ اس کے بعد بھی ڈیڑھ سال میعاد دی جاتی ہے۔ سماعت کے گیارہ سال کے عرصہ میں اگر حکومت چاہتی تو سودی نظام کے متبادل نظام لانے کے اقدامات کر سکتی تھی۔ نظریاتی کونسل اس بارے میں عدالت میں کیس آنے سے پہلے بھی اپنی سفارشات پیش کر چکی تھی۔ ضیا ء الحق کے دور میں پروفیسر خورشید احمد نے بطور چیئر مین اقتصادی پلاننگ کمیشن اچھا خاصا کام کیا تھا۔ اس کے بعد سال بھر کی نئی میعاد، درخواست نظر ثانی کو نمٹائے بغیر دے دینا کتنے بڑے اجر و ثواب کاباعث ہوا، اس کا حساب تو آخر کار ہو گا۔
ججوں کی ذمہ داری حکومتوں کو ان کی کوتاہیوں اور غیر ذمہ داریوں میں رعایت اور سہولت دینے کی نہیں، بلکہ کوتاہیوں اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کو چیک کرنے کی ہے۔ وہ مملکت کے آئین اور نظریے کے محافظ ہیں۔ اس حیثیت سے ان کو اپنی صلاحیتوں اور بصیرتوں سے بھر پور کام لینا چاہیے۔ اس سلسلے میں جناب جسٹس ظلہ صاحب کے ایک دو فیصلوں کا کچھ تذکرہ موقع کی مناسبت سے کرنا چاہتاہوں۔
قانون کے خلا کی تکمیل میں قرآن و سنت کے احکام کو موثر کرنے کا کام قصاص و دیت کے حوالے سے ظلہ صاحب نے کمال طور پر انجام دیا۔ اس میں اس وقت کے حکمرانوں کی، اسلامی احکامات سے فرار کی تمام چال بازیاں ناکام ہو گئیں۔ اس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ تعزیرات پاکستان میں قتل و جرح سے متعلقہ دفعات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ان کو قرآن و سنت کے خلاف قرار دیتے ہوئے قصاص و دیت کے احکامات کی پوری طرح وضاحت کر دی گئی۔ مثبت طور پر قانون سازی کے لیے حکومت کو ایک میعاد دی گئی۔ میعاد میں توسیع اور عدالتی حکم پر نظر ثانی کی کئی درخواستوں کے ذریعے سے حکومت نے قانون سازی کے بجائے وقت گزاری سے کام لیا۔ ایک مرحلہ پر حکومت نے قصاص و دیت آرڈیننس جاری کیا، مگر اسے پارلیمنٹ سے منظور نہ کرایا۔ اس طرح وہ ساقط ہو گیا۔ عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے آرڈنینس کے بار بار کے اجرا کے بعد اسے غیر موثر ہونے دیا گیا۔ آخر کار ظلہ صاحب نے اپنے فیصلے میں قطعی طور پر یہ قرار دیا کہ مزید دی ہوئی میعاد میں اگر موثر قانون نہ بنایا گیا یا آرڈنینس جاری کیا گیا مگر اسے پارلیمنٹ سے عدم منظوری کی بنا پر غیر موثر ہونے دیا گیا تو قصاص و دیت کے بارے میں قرآن و سنت میں درج احکامات موثر ہو جائیں گے۔ آرڈنینس ان احکامات کے بارے میں معاون اور رہنما کے طور پر کام آئیں گے۔ ظلہ صاحب کے اس فیصلے سے وفاقی حکومت کی جانب سے مملکت کی اعلیٰ ترین عدالت کے ساتھ مذاق کا کھیل آخر کار انجام کو پہنچا اور قصاص و دیت کے قوانین کو کتاب قانون میں شامل کیا گیا۔
جناب ظلہ صاحب نے اس طرح کے احکامات کئی دوسرے کیسوں میں بھی صادر فرمائے۔ ان میں سے ایک کیس انکم ٹیکس کمشنر بنام سائمن اے جی تھا۔ اس کی رپورٹ پی ایل ڈی ۱۹۹۱، سپریم کورٹ ۳۶۸ پر ہے۔ اس کے صفحہ نمبر ۳۷۲ پر ظلہ صاحب نے لکھا:
’’اس کیس میں اٹھنے والے تمام سوالات قوانین کی تعبیر سے متعلق ہیں۔ نظام خان کے کیس میں لاہور ہائیکورٹ (اوپر حوالہ آ چکا ہے) یہ قرار دے چکی ہے کہ جب تک موجودہ قوانین کو اسلامی احکامات کے مطابق نہیں بنایا جاتا، اس وقت تک عدالتیں مروجہ قوانین کی تشریح، تعبیر اور اطلاق میں اپنی صوابدید کی حد تک اسلامی فلسفے اور اس کے قانون عامہ اور اصول فقہ کے مطابق فیصلہ کریں گی۔ اس فیصلے کو کئی دیگر فوجداری، مالیاتی قوانین سے متعلقہ معاملات میں کنفرم کیا گیا ہے۔ اس کے لیے دستور کا آرٹیکل ۲۲۷ عدالتوں کو مروجہ قوانین کی تعبیر، تشریح اور اطلاق میں قرآن و سنت سے رہنمائی لینے کا پابند بناتا ہے۔‘‘
بہر حال اس اصول کو ایک مسلمہ اصول کے طور پر وسیع پیمانے پر اختیار کیا جانا چاہیے کہ قانون میں خلا کی صورت میں عدالتیں قرآن و سنت کے احکامات کو موثر طور پر نافذ کریں گی۔ تکمیل خلا کا یہ ایک ایسا اصول ہے جس کے بغیر سوسائٹی اپنے تحفظ کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں پا سکتی۔ نظام خان کے کیس سے جسٹس ظلہ کی چند سطور مزید ملاحظہ فرمائیے:
Gaps remain and will always remain, since no one can foresee every way in which wickedness of man may disrupt the order of society,.. must we wait until Parliament finds time to deal with such conduct? I say my Lords that if the common law is powerless in such an event, then we should no longer do her reverence. But I say that her hand is still powerful and that it is for Her Majesty judges to play the part. (PLD 6791 Lah 631)
''خلا رہیں گے، اور ہمیشہ رہیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ آدمی کی بدمعاشانہ ذہنیت معاشرے کے سکون کو برباد کرنے کے لیے کیا کچھ کر سکتی ہے، کوئی بھی پیشگی طور پر اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ کیا ہمیں اس بات کا انتظار کرنا ہو گا کہ پارلیمنٹ فرصت حاصل کر کے صورت حال کے بارے میں قانون بنائے؟ میرا خیال ہے کہ اگر قانون عامہ اس بارے میں بے بس ہے تو ملکہ معظمہ کے جج کسی طرح بے بس نہیں، بلکہ پوری طرح با اختیار اور ذمہ دار ہیں۔‘‘
برطانوی قانون عامہ خلا کی صورت میں بے بس ہو تو جج بے بس نہیں ہوتے، ہمارے جج کیسے بے بس ہو سکتے ہیں؟ خلا کی تکمیل کے لیے قرآن و سنت کی پیروی کا اصول عدالتوں کی جانب سے قانون سازی کا راستہ، صراط مستقیم کی طرح ہے جس کے لیے اللہ تعالی کی مدد اور ہدایت کی دعا ہر مسلمان دن میں پینتیس بار طلب کرتا ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ اس میں فقہ کی روشنی میں قرآن و سنت تک پہنچنے کی کوشش نہ کی جائے۔ یہ یقینی طور پر گھوڑے کو چھکڑے کے پیچھے باندھنے والی بات ہے۔ اس میں ایسا ہو سکتا ہے کہ فقہ کی چکا چوند میں قرآن و سنت تک پہنچنے سے پہلے ہی آنکھیں چندھیا جائیں، جیسا کہ قانون شفعہ کی دفعہ نمبر ۱۲ کی بحث میں ہم واضح کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اصول قانون میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے کہ ضابطے اور قانون، ان کی تعبیر و اطلاق، حقوق دینے کے لیے ہیں، حقوق سے لوگوں کو محروم کرنے کے لیے نہیں۔ یہ دادرسی فراہم کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ دادرسی سے محروم کرنا مقصود ہو تو تمام تر عدالتی اور قانونی نظام لوگوں کے لیے بیکار اور محض ظلم بن جاتا ہے۔
دستور میں شریعت کورٹ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں کسی بھی قانون کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے تو ایک میعاد کے بعد اسے غیر موثر کر سکتی ہے، لیکن عدالتوں کو ظلہ صاحب کے نظائر کی روشنی میں اس امر کا بہر صورت لحاظ رکھنا چاہیے کہ اس طرح پیدا ہونے والا خلا قرآن و سنت کے احکام سے پر ہو۔ ایسا نہ ہو کہ حکومت خلا پر اصرار کرے اور معاشرے کو ظلم کا شکار بننے کے لیے چھوڑ دے۔