ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوم نے سلمان رشدی کو ’’سر‘‘ کا خطاب دے کر مسلمانوں کے بہت سے پرانے زخموں کو ایک بار پھر تازہ کر دیا ہے اور اس پر عالم اسلام میں احتجاج کی ایک نئی لہر شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملکہ برطانیہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک ایک انتہائی قابل نفرت شخص کو اس اعزاز کے لیے کس بنیاد پر چنا ہے، اس کی باقاعدہ وضاحت تو وہی کر سکتی ہیں لیکن ایک عام مسلمان کا دنیا کے کسی بھی خطے میں تاثر یہی ہے کہ اس سے سلمان رشدی کی ان خرافات کی ملکہ برطانیہ کی طرف سے تائید جھلکتی ہے جن کے ذریعے سے اس نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس شخصیت کے خلاف خبث باطن کا اظہار کیا تھا اور جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں کا شدید احتجاج اور غیظ وغضب ریکارڈ پر ہے۔
جہاں تک آزادئ رائے کا تعلق ہے تو مسلمانوں نے اپنے اس موقف کی ہمیشہ وضاحت کی ہے کہ استدلال، منطق اور تحقیق کا میدان اور ہے اور طنز، استہزا، توہین اور تحقیر کا دائرہ اس سے بالکل مختلف ہے جسے کسی صورت میں بھی ’’آزادئ رائے‘‘ کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا، مگر مغرب ان دونوں میں فرق نہیں کر رہا اور ملکہ برطانیہ کے حالیہ اقدام سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ان کے نزدیک سر ولیم میور کی کتاب ’’لائف آف محمد‘‘ اور سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی آیات‘‘ ایک ہی زمرہ کی کتابیں ہیں، ورنہ اگر یہ فرق ملکہ ایلزبتھ اور ان کے حواریوں کے ذہن میں ہوتا تو وہ ’’شیطانی آیات‘‘ جیسی بے ہودہ اور متنازعہ کتاب کے مصنف کو کسی اعزاز سے نوازنے کا تصور بھی نہ کرتے۔
اس کے ساتھ ایک او رخبر بھی شامل کر لیں جو روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۱۸؍ جون ۲۰۰۷ کو شائع کی ہے کہ امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ توہین مذہب کو غیر مجرمانہ قرار دے۔ گویا کمیشن کے نزدیک مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین سرے سے جرائم میں ہی شامل نہیں ہے اور اسے اس بات پر تکلیف ہے کہ جو بات مغرب کے نزدیک جرم ہی نہیں، پاکستان نے اس کے لیے دفعہ ۲۹۵۔سی کے تحت موت تک کی سزا مقرر کر رکھی ہے۔
اس صورت حال میں ملکہ برطانیہ کے فیصلے کے خلاف ہمارے بیشتر سیاسی ومذہبی راہ نماؤں نے جس رد عمل کا اظہار کیا ہے، وہ ایمانی جذبات کے حوالے سے حوصلہ افزا ہے، البتہ اسے منظم اور مربوط انداز میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جذبات کا اظہار اور غیرت وحمیت کا مظاہرہ بہت اچھی بات ہے۔ یہ ایمان اور غیرت وحمیت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ ساتھ مسئلے کو قوت فراہم کرتا ہے اور اسے زندہ رکھتا ہے، لیکن اصل ضرورت اس ’’اسٹیم‘‘ کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی ہے اور ہمارے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ ’’آزادئ رائے‘‘ کی حدود اور دائرے کے حوالے سے مغرب کے ساتھ سنجیدہ اور دوٹوک بات کی جائے اور آزادئ رائے کے نام پر اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور گستاخی کے اس مذموم عمل کے نقصانات سے مغرب کو آگاہ کرنے کے لیے علمی اور فکری جنگ لڑی جائے۔