(۱)
مکرمی مدیر ’الشریعہ‘
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
’الشریعہ‘ کے دسمبر ۲۰۰۶ء کے شمارے میں میاں انعام الرحمن صاحب کا مضمون ’’قدامت پسندوں کا تصور اجتہاد‘‘ دیکھنے کا موقع ملا۔ میاں صاحب کی تحریریں ندرت او ر تازگی کی وجہ سے ہمیشہ ہی لائق توجہ ہوتی ہیں، مگر ان کے موضوعات میرے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث نہیں ہوتے، اس وجہ سے میں ان کو زیادہ توجہ نہیں دے سکا۔ اس مضمون کی کاٹ کے حوالے سے ایک دوست کے توجہ دلانے پر مضمون کو پڑھا تو ان کی جرات وجسارت کا اعتراف کرنا پڑا۔ الشریعہ کی مجلس ادارت کے رکن اول ہوتے ہوئے ادارہ کے رئیس التحریر کے انداز فکر اور اس حلقے کے انتہائی محترم بزرگوں پر موصوف نے جس طرح تنقید کی، اس سے موصوف کے والد مرحوم کی یاد تازہ ہو گئی۔ مرحوم کا دبنگ طرز عمل جانا پہچانا ہے۔ میاں صاحب نے سپوت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اپنے حلقے اور ماحول میں تنقید کی جسارت کبھی خوشگوار نہیں رہی۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔ یقیناًیہ انہی کا حصہ ہے۔ مضمون میں میاں انعام صاحب نے جتنا بے لاگ طرز اختیار کیا ہے، وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ان کے بعض جملوں کا اعادہ کیا جائے۔ اس کے بغیر ان کی تحریر کا بانک پن قاری پر واضح نہیں ہو سکتا۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ میرا منشا تحریر میں احترام کی حدود سے تجاوز کو کھلے لائسنس کے طور پر لینا نہیں، بلکہ تحریر کے پس منظر میں حریت فکر کو اجاگر کرنا ہے۔ اس میں بھی ادارہ ’الشریعہ‘ نے جس تحمل اور بر دباری سے اتنے جری مضمون کو پرچے میں جگہ دی ہے، وہ تحسین و داد کا جس قدر مستحق ہے، وہ اپنے مقام پر آئے گی۔ میاں انعام صاحب کے چند جملے ملاحظہ کیجیے:
’’جناب تقی صاحب ایک رسمی معاشرتی رویے کی نشان دہی کو اصولی و قانونی حوالے سے دیکھ رہے ہیں اور خرد کو جنوں اور جنوں کو خرد کہے جا رہے ہیں۔‘‘
’’زاہد الراشدی صاحب کی تحریر کا جو اقتباس ہم نے نقل کیا ہے، اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ وہ ایک مخمصے میں گرفتار ہیں۔‘‘
’’دیکھنے کی ضرورت باقی ہے کہ قدامت پسند، اجتہاد مطلق سے اتنا کیوں بدکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی خاص نفسیاتی سرحدیں ہیں، جنہیں عبور کرنے سے وہ معذور ہیں۔‘‘
’’قدامت پسند اہل مدرسہ، جن کی نمائندگی زاہد صاحب کر رہے ہیں، ہمیشہ پورا سچ قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں اور تعامل امت میں کار فرما تاریخی عوامل کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘‘
’’زاہد صاحب کا یہ فقرہ ایک پوری مدرسی ذہنیت کی نمائندگی کر رہا ہے۔‘‘
یہ جملے نمونے کے طور پر ہیں۔ میاں انعام صاحب نے اپنے نقطہ نظر کو پورے زور سے پیش کیا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یقیناً خیالات کی رو پیرایہ اظہار اختیار نہ کر پاتی۔ ان کا ذہن پورے طور پر سامنے نہ آتا۔ اس میں اصل قدر اور وزن کی چیز خیالات ہیں۔ ظاہری رکھ رکھاؤ اور سوچ و فکر میں سے کس کو ترجیح حاصل ہے، اس بارے میں دو آرا کی گنجائش نہیں۔ سوچ اور فکر کو ترجیح بھی حاصل ہے اور اسے راہ دینا ہی چاہیے۔ خاص طور پر آپس داری میں تو اس کی رعایت کوئی احسان والی بات بھی خیال نہیں کرنا چاہیے۔ اقبال نے شاید ایسے ہی مواقع پر کہا ہے:
رمزیں ہیں محبت کی گستاخی و بیباکی
ہر رمز نہیں بیباک، ہر عشق نہیں گستاخ
ادارے نے اسی جذبے کے تحت انعام صاحب کو اظہار کا پورا موقع دیا ہے۔ ادارہ ان کے مضمون کو ایڈٹ کر کے ایسے جملوں کو نرم کر سکتا تھا۔ یہ ادارے کا فطری حق تھا۔ ہرپرچے کی تحریر کا ایک مزاج ہوتا ہے۔ اسے استوار رکھنے کا ادارہ مجاز ہوتا ہے، مگر ادارے نے ایسا کرنا مناسب خیال نہیں کیا۔ وجہ یہ ہے کہ اس سے زور بیان میں کمی کا اندیشہ ہو سکتا تھا۔ پھر سوچ اور فکر کے بیان میں لکھنے والے کے ذہن اور بیان میں بعد بھی پیدا ہو سکتا تھا۔ چنانچہ ادارے نے لکھنے والے کے منصب میں کسی طرح مداخلت نہیں کی۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ لکھنے والے کی ہمت افزائی ہوتی ہے۔ اس میں وہ اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کا داعیہ اپنے اندر خود ہی محسوس کرتا ہے۔ اسے ایسی چھوٹی موٹی کوتاہیوں کی جانب توجہ دلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ انعام صاحب اپنی تحریروں میں اتنی جریت کے عادی نہیں۔ موضوع کے لحاظ سے وہ اپنی بات گرد و پیش کے ماحول میں سخت بیزاری کے تحت رد عمل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ایسے میں بات کو روایتی رکھ رکھاؤ سے پیش کرنے میں دعوت فکر کمزور پڑ جاتی ہے۔ بعض اوقات ذہنی جمود کو توڑنے کے لیے مخاطب کو ذہنی صدمہ سے دوچار کر کے ذہن کو بیدار کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس طرح میں انعام صاحب کی جرات و جسارت کی کھل کر داد دیناچاہتا ہوں۔ میں ان کے لکھنے کی آزادی کا دفاع کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ مگر یہاں دفاع کی ضرورت کیسے ہوئی؟ ادارہ تو پہلے ہی اس کا اہتمام کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں ادارے کی جانب سے جس مربیانہ شفقت کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اس کی داد دینے کے ساتھ ساتھ افادیت کا ذکر کرنا بھی ضروری خیال کرتا ہوں۔ میں ۱۹۹۲ء سے الشریعہ کا قاری ہوں۔ اس عرصہ میں یہ پرچہ جن مراحل سے گزرا ہے، وہ میرے سامنے ہے۔ اسی آزادی کا ثمر ہے کہ اس میں لکھنے والوں کی بھرمار ہے۔ مجھ جیسا شخص بھی جسے لکھنے کے لیے یکسوئی میسر نہیں، ادارے کی جانب سے حوصلہ افزا محبت کی وجہ سے کبھی کبھی لکھنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی پرچے میں خطوط کے صفحات لکھنے والوں کے لیے بہترین نرسری ہوتے ہیں۔ اس طرح قاری ادارے کے خیالات اور بیان میں حصہ دار ہو جاتا ہے۔ یہ شراکت اور حصہ داری ہی کام میں وسعت کا سبب بنتی ہے۔
میرے لیے ادارے کے ذمہ داران کی جانب سے ہمیشہ ہی بلند حوصلگی کا جو مظاہرہ ہوا ہے، وہ میرے لیے حیران کن ہے۔ میں اپنے ماحول سے بیزار اور ماحول مجھ سے بیزار رہا ہے، مگر یہاں مجھے جو محبت اور شفقت ملی، اس کا عشر عشیر بھی اپنے حلقے میں مل جاتا تو شاید اب تک میں پر سکون موت کی وادی میں ہوتا۔ ماحول کی ناسازی نے مجھے ماحول کا فسوں توڑنے کے لیے آمادہ کیا اور میں اس کے لیے ہمیشہ بر سرپیکار رہا۔ اقبال کے شعر کو ہمیشہ میں نے حرز جاں بنائے رکھا:
حدیث بے خبراں ہے زمانہ با تو بساز
زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز
ایسی شفقت (انعام صاحب کے کہنے کے مطابق) ’’مدرسی ذہنیت‘‘ والوں کی جانب سے کمال و جمال کی انتہا ہے۔ در اصل یہ کیفیت مدرسی کے بجائے مدرسانہ مزاج کا خاصہ ہے جو جدید پڑھے لکھے طبقے کے ہاں بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ وہاں بالعموم دنیاوی کشش نسبتاً زیادہ زور آور ہوتی ہے۔ اس کا تلخ مظاہرہ حال ہی میں ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ کے رویے سے ہوا۔ بے شک اس کی مجلس ادارت میں بیٹھے ہوئے لوگ، جدید تعلیم کے اعلیٰ ترین مدارج طے کیے ہوئے ہیں، مگر تنگ بینی و تنگ نظری کا ایسا مظاہرہ ہوا کہ سیاسی لحاظ سے بھی یہ بہت بے جوڑ محسوس ہوا۔
’الشریعہ‘ اور ’ترجمان‘ کا موازنہ ایک مذاق معلوم ہوتا ہے، مگر بعض اوقات مذاق سچ ہو جاتا ہے۔ اس موازنے میں کچھ ایسے ہی آثار نظر آتے ہیں۔ دونوں کی عمر معلوم کرنے والی بات ہے۔ فرق کا اندازہ ایک اور اڑھائی کا ہے۔ سرکولیشن میں بھی بعد المشرقین معلوم ہوتا ہے۔ لکھاری بھی ایک جانب پرانے علما تھے اور دوسری جانب نہایت پڑھے لکھے اور جدید تعلیمی اداروں سے تعلیم کی ڈگریاں سجائے اور روشن خیال اور قلم و قرطاس کے دھنی۔ وسائل بھی بظاہر اسی تفاوت کے ساتھ۔ موسس کے لحاظ سے ترجمان، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسے بین الاقوامی مفکر سے منسوب، جب کہ ادھر مولانا سرفراز خان صاحب صفدر کو دینی خدمات کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں سے اتر کر گوجرانوالہ میں بسیرا کیے ہوئے نصف صدی ہونے کو ہے۔ دونوں کی ضخامت میں بھی ایک اور تین کا تناسب ہے۔ بعض باتیں مشترک بھی ہیں۔ ’الشریعہ‘ میں تمام تر محنت مولانا زاہد الراشدی کی نظر آتی ہے۔ انہوں نے گھر کے افراد اور احباب کے ساتھ سفر شروع کیا، ان کی تربیت انہی کی ذمہ داری قرار پائی۔ دوسری طرف سید مرحوم کا خلوص و ایثار بنیادی اثاثہ تھا اور اپنے ساتھیوں کو تیار کرنا تھا۔ بہر حال میں تاریخ کے بجائے تازہ صورت حال پر بات کروں گا۔
ہوا یوں کہ جون ۲۰۰۶ء کے ’ترجمان‘ کے شمار ے میں ’’مجلس عمل کی پارلیمانی پارٹی کی جدوجہد‘‘ کے عنوان سے محترم جناب لیاقت بلوچ صاحب کا ایک مفصل مضمون شائع ہوا۔ ظاہر ہے کہ یہ موضوع کوئی علمی نوعیت کا نہیں، نہ اس میں عقیدے یا نظریے کو لمبا چوڑا دخل ہے۔ پارلیمانی جدوجہد کوئی ایسی بھی نہیں کہی جا سکتی کہ اس پر کلام نہ ہو سکتا ہو۔ چنانچہ میں نے اس کے حوالے سے ایک خط میں چند سوالات کی وضاحت چاہی۔ میرا خط ’ترجمان‘ میں جگہ نہ پا سکا۔ ارباب ’الشریعہ‘ کی مہربانی سے اسے جگہ مل گئی۔ ایک مہینے کے سکوت کے بعد نائب مدیر ترجمان القرآن جناب مسلم سجاد صاحب نے میرے سوالات کی اشاعت پر اعتراض کرتے ہوئے مدیر الشریعہ کو نصیحت فرمائی کہ ان کے ہاں چھپی ہوئی چیز کے بارے میں نقد چھاپنے سے پہلے لیاقت صاحب کا مضمون چھاپنا چاہیے تھا۔ مسلم صاحب کی نصیحت ’الشریعہ‘ میں شائع کر دی گئی۔ سوچنے کی بات ہے کہ ’ترجمان القرآن‘ جیسے پرچے کے ترجمان کس طرح دوہرے معیار کی بات کرتے ہیں۔ اپنے ہاں تو وہ چھاپی ہوئی چیز پر اپنے دیرینہ قاری کو کسی درجے میں جگہ دینے کو تیار نہیں، مگر دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ ان کو جگہ دی جائے۔ اس سے زیادہ معقول بات تو یہ ہو سکتی تھی کہ ترجمان کی جانب سے میرے شائع شدہ مضمون کا جواب بھجوایا جاتا۔ بہر حال ارباب ترجمان عرش نشیں ہیں، مرضی کے مالک ہیں، مگر ان کی من مرضی اپنے نتائج پیدا کرنے سے تو رک نہیں جائے گی۔ ایک اور بات اس مرحلہ میں ذکر کردوں کہ میرے مضمون کو روزنامہ پاکستان نے ’الشریعہ‘ سے نقل کر دیا۔ کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ مسلم سجاد صاحب اجازت دیں تو ان کا خط روزنامہ پاکستان کو بھی اشاعت کے لیے بھجوا دیا جائے؟
میں ذکر کر رہا تھا ارباب ’ترجمان‘ کے جامد رویے اور اس کے نتائج کا۔ مجھے دکھ ہے کہ اتنا بڑا پرچہ اشتہارات، اشارات، اور کتابوں پر تبصروں کے بعد چھپی ہوئی تحریروں سے اپنا پیٹ بھر کر گزارا کرتا ہے۔ ان کو لکھنے والے ہی نہیں ملتے۔ مسلم سجاد صاحب خرم مراد صاحب کے بھائی تو ہیں مگر خرم صاحب مرحوم کا نعم البدل اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہو جاتا تو شاید آج محترم جناب خورشید احمد صاحب کو اپنی ضعیفی کے باوجود بے شمار ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اشارات گھسیٹنے نہ پڑتے۔ معلوم نہیں، ان کے اشارات میں پاگل پن کے درجے کی جذباتیت کو کون داخل کرتا ہے۔ ترجمان کے تازہ شمارے میں مولانا محمد تقی عثمانی صاحب تو لکھتے ہیں کہ حقوق نسواں کے حوالے سے متنازعہ بل کے قانونی مضمرات کو قانونی باریکیوں کا فہم رکھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ وہ سنجیدگی اور حقیقت پسندی سے غور کی دعوت دیتے ہیں، مگر محترم پروفیسر خورشید صاحب اشارات کا عنوان ہی ’’حدود اللہ کے خلاف اعلان جنگ‘‘ قائم کرتے ہیں۔ ان کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کے پہرے میں محصور چھوٹی سی ریلی میں کی گئی تقریر نقل کر دی گئی ہو۔ بہرحال یہاں اشارات پر گفتگو مقصود نہیں۔ یہ اندیشہ بھی ہے کہ مسلم صاحب اشارات پر دو چار جملے ہو جانے پر ناراض ہو کر یہ مطالبہ داغ دیں کہ ان سے پہلے اشارات نقل کیے جائیں۔
میرے مضمون کے حوالے سے میرے ایک عزیز خرم شہزاد صاحب نے اٹھائے ہوئے سوالات کے جوابات دیے ہیں۔ مجھے ان کے احساسات کی قدر ہے۔ میں ان کے خط پر یہاں بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خیال تھا کہ ان کو خط لکھوں مگر معلوم ہوا کہ خط کے نیچے درج پتہ کامونکی کا ہے اور وہ کراچی منتقل ہو گئے ہیں۔ ان کا کراچی کا پتہ معلوم نہیں ہو سکا۔ در اصل میرے خط کا منشا مجلس عمل کی کار کردگی کو زیر بحث لانا نہیں تھا۔ میں نے بنیادی سوال یہ اٹھایا تھا کہ ترجمان القرآن ایک علمی، دینی، نظریاتی پرچہ ہے۔ اسے رہنما کی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں پروپیگنڈے کی سطح کی چیزوں کی گنجائش نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ادارے نے اس کی ضرورت کسی مجبوری کے تحت محسوس کی ہے تو پھر اسے کھلے عام مباحثے کی دعوت کے ساتھ پیش کرنا چاہیے تھا۔ میں نے اپنے خط میں صاف لکھا تھا کہ ترجمان کو ایک ہفت روزے کی سطح پر نہیں آنا چاہیے۔ میرے عزیز خرم صاحب میرے مضمون کا دوسرا پیرا دیکھ لیں تو مہربانی ہو گی۔ باقی مجلس عمل کی پارلیمانی کارکردگی کے بارے میں خرم صاحب کے خیالات کو ’الشریعہ‘ میں جگہ دی گئی ، اس پر میں خرم صاحب اور ادارہ دونوں کا شکر گزار ہوں۔
’ترجمان‘ کو لکھ کر میں ان کے جامد رویے کی جانب توجہ دلانا چاہتا تھا۔ میرے خط کا مقصد ایک دیرینہ قاری کے طور پر خیرخواہی تھا۔ میرے لیے یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ ترجمان اپنے حلقے میں لکھنے والوں کی نرسری تیار کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ ’ترجمان‘ کی کثرت اشاعت تو ماشا ء اللہ روز افزوں ہے، مگر اس کا معیار محل نظر ہے۔ در اصل نقد اور تنقید کو جگہ نہ دی جائے تو حرکت اور زندگی کی علامات معدوم ہو جاتی ہیں۔ ’الشریعہ‘ میں ان کی پرورش کی جاتی ہے۔ نتیجہ سامنے ہے کہ پچھلے چند سالوں میں لکھنے والوں کی کھیپ تیار ہے۔ ان کے ساتھیوں میں نوجوانوں کی پوری ٹیم ہے۔ مجھے تو ان نوجوانوں کی نیاز مندی میں بھی لطف محسوس ہوتا ہے۔
بات ہو رہی تھی نقد و تنقید کی۔ بڑا عجیب رویہ ہے۔ صدر مملکت، وزیر اعظم ہر روز فرماتے ہیں کہ فوج اور عدلیہ پر تنقید نہیں ہو سکتی۔ یہ قومی ادارے ہیں۔ ان کا احترام لازم ہے۔ یہ مقدس گائے کے درجے میں ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بیانات پڑھ کر سلطان راہی یاد آ جاتے ہیں۔ معمولی نوعیت کے تھانے کی سطح کے کیسوں کا خیار بلوغ کی طرح نوٹس لیا جاتا ہے، مگر وہ مقدمات جن سے ہر شہری کا حق متاثر ہوتا ہے، ان میں کوئی قابل ذکر نکتہ بھی نہیں، عشروں سے محروم توجہ ہیں۔ ’’انصاف ہر ایک کے لیے‘‘ کی کانفرنس کے باوجود کورٹ فیس سے متعلقہ اپیل کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کیا بنا ہے اور کیا بنے گا۔ اسمبلی کی مدت پوری ہو رہی ہے مگر قومی اسمبلی کے ارکان کے سند کیس کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ چار سال سے یہ لوگ قومی خزانے سے کروڑوں کے معاوضے اور مراعات لے رہے ہیں، مگر ان کی اہلیت کا مسئلہ سپریم کورٹ میں بدستور معرض التوا میں ہے۔ اردو کو ۱۹۸۸ء تک سرکاری سطح پر رواج دینے کا عمل مکمل ہو جانا لازم تھا مگر اس دستوری تقاضے کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ میری معلومات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں درخواستیں طویل مدت سے پڑی ہیں۔ کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ سود کی لعنت کے بارے میں مقدمات بھی دفن معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ادارے عام آدمی کو کچھ نہ دے سکیں تو اشتہاری مہم جیسی کارکردگی سے کیا فائدہ؟ پھر بات کی جائے تو تنقید سے بالا تر ہونے کا استحقاق جتلایا جائے۔
صدر اور ان سے نیچے کے لوگ کہتے ہیں کہ مثبت اور تعمیری تنقید ہونی چاہیے۔ منفی اور غیر تعمیری تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ مثبت اور منفی قابل تقسیم کیسے ہو گئے؟ مثبت اور منفی پہلو مل کر ایک اکائی بنتے ہیں۔ ان کی تقسیم کس طرح ممکن ہے؟ تخریب کے بغیر تعمیر کیسے ہو گی؟ تخریب اور تعمیر تو لازم ملزوم ہیں۔ لگتا ہے کہ ارباب حل و عقد تنقید کا معنی ہی نہیں جانتے۔ اس سے مراد کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کرنا ہوتا ہے۔ اچھائیاں اور برائیاں دونوں بیان کی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ تعریف اور قصیدہ گوئی کے ماہر ہوتے ہیں اور کچھ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی آزادی رہنی چاہیے۔
تنقید روکنے کے بارے میں ارباب اقتدار کا رویہ اوپر ذکر ہو چکا، جماعتوں کو دیکھا جائے تو وہاں بات دو ہاتھ اور بھی آگے ہے۔ وہ کہتے ہیں اطاعت کی جائے۔ کام کیا جائے۔ صم بکم عمی فہم لا یرجعون کا معیار اختیار کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کے ماحول میں کیا تنقید کے لیے قبرستان کا رخ کرنا چاہیے کہ شاید وہاں پر دفن مردے تنقید پر عذر نہ کریں؟
ادارہ ’الشریعہ‘ کو مبارک باد کرکے اپنی بات کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔ یقیناًانہوں نے انعام صاحب ہی نہیں، ان جیسے کئی اور لکھنے والوں کے حوصلوں کا جلا بخشنے کا سامان کیا ہے۔ انہوں نے اپنے منصب کی شان کو بلند کیا ہے۔ ارباب ’ترجمان القرآن‘ عرش سے نیچے اتر کر معروضی حالات کو دیکھنا گوارا کریں تو ’الشریعہ‘ جیسے چھوٹے سے پرچے سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر یہ ان کی اپنی صوابدید ہے۔ کسی جبر کا کوئی سوال نہیں۔
چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ
عابد کالونی۔ کھوکھرکی۔ گوجرانوالہ
(۲)
محترم ومکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب ،
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اللہ پاک کی ذات عالی سے امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔
عرض ہے کہ آپ کے موقر جریدے ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے شمارہ اکتوبر ۲۰۰۶ء میں مشتاق احمد نام کے کسی صاحب کا خط شائع ہواہے جو مدرسہ الحسنین للبنات کا خادم ہونے کا مدعی ہے۔ صاحب موصوف نے بزعمِ خود حضرات علمائے کرام کو ان کی ذمہ داریاں سمجھائی ہیں اور دعوت وتبلیغ کے کام کو اپنے خیالات کے لیے بطور ہتھیار اور ڈھال کے استعمال کیا ہے ۔خط کے مندرجات بھی کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ کوئی خادم مدرسہ تو درکنار، ایک عام دینی سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی ایسا نہ لکھے گا ۔اللہ پاک محفوظ رکھے ۔آمین! گزارش ہے کہ نہ تو اس نام کے کوئی صاحب مدرسۃ الحسنین للبنات میں کسی حیثیت میں کسی خدمت پر مامور ہیں اور نہ اس خط کے مندرجات کو دعوت اور تبلیغ کے کام سے کوئی تعلق ہے ۔یہ تحریر بظاہر لکھنے والے کے اپنے احساسات وخیالات کی ترجمانی ہے، نہ کہ دعوت وتبلیغ کے مبارک کام کی جو عام مسلمان کا بھی اکرام کرنے کا داعی ہے، چہ جائیکہ علماء کرام!
اللہ پاک آپ حضرات کی دینِ متین کی سربلندی کے لیے کی جانے والی کوششوں کوبہت ہی قبول فرمائے اور آپ کی توجہات سے ہمیں محروم نہ فرمائے ۔آمین!
(مولانا) طارق جمیل
۱۲۲؍بی، گلستان کالونی، فیصل آباد
(۳)
گرامی قدر جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
سلام مسنون مزاج گرامی؟
مجھے آپ سے دلی ہمدردی ہے کہ آپ ’’فکر اسلامی‘‘ کے ایک بحر ناپیدا کنار سے اتر کر فقہ کی تنگنائے میں شناوری کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اخبارات اور ’الشریعہ‘ سے علما کا موقف معلوم ہوا تو حیرت ہوئی کہ تحفظ نسواں ایکٹ کی اصل خرابیوں کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ اس پر چند معروضات لکھ کر ’نوائے وقت‘ کو ارسال کیں تاکہ علما کی فوری توجہ حاصل کر سکیں، لیکن وہاں جس قطع وبرید اور اقساط سے طبع ہو رہی ہیں، اس سے ان کی افادیت کم ہو گئی ہے۔ مزید برآں ’الشریعہ‘ جن حلقوں میں اور جس سنجیدگی سے پڑھا جاتا ہے، وہ روزناموں کو کہاں نصیب! اس لیے سوچا کہ آپ کو ارسال کر دوں، اگر طبع ہو سکیں تو زہے نصیب۔ دعاؤں میں یاد رکھیں۔
(ڈاکٹر) محمد طفیل ہاشمی
ہاؤس ۱۸۹، سٹریٹ ۱۹، گلشن خدادا د
ای الیون ون ۔ اسلام آباد
(۴)
مکرمی ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمدردی کا شکریہ! مگر میرے سامنے فقہ کی تنگنائے سے کہیں زیادہ مغربی فلسفہ وثقافت کا وہ طوفان ہے جو اسلام کی تعبیر وتشریح کے روایتی فریم ورک کو توڑ کر مسلم معاشرہ میں اپنے اثر ونفوذ کو وسیع کرنے میں پوری قوت کے ساتھ مصروف ہے، اس لیے میں کسی ایسی وسعت اور روشن خیالی کا ساتھ دینے کے لیے خود کو تیار نہیں پاتا جو مغرب کے اس ایجنڈے میں کسی حوالے سے بھی پیش رفت کے لیے معاون بن سکتا ہو۔ باقی ’الشریعہ‘ آپ کا اپنا جریدہ ہے۔ جب چاہیں، آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ شکریہ!
ابو عمار زاہد الراشدی