علامہ اقبال کا تصور اجتہاد اور علمائے کرام

یوسف خان جذاب

اقبال بیسو یں صد ی کے بہت بڑ ے مفکر، فلسفی، شاعر اور مجتہد تھے۔ بیسویں صدی کے ذکر سے یہ مقصد نہیں ہے کہ اُن کی فکر اسی ایک صدی میں مقید تھی۔ یہ بات اُ ن کی ذات کے متعلق تو کہی جا سکتی ہے، لیکن جہا ں تک اُ ن کی فکر کا تعلق ہے تو شا ید جمو د کے اس دور میں بھی اُ ن کی پرو از میں کو تا ہی نہیں آ ئی ہے۔ اجتہاد کے حو الے سے اقبا ل کی فکر کی حکمر انی ان کے دور تک محدود نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک ان کی فکر کو صحیح معنوں میں سمجھا نہیں گیا جو بلاشبہ مسلم امہ کے لیے ایک المیہ ہے ۔ 

ماہنامہ ’الشریعہ‘ نو مبر ۲۰۰۶کے شمار ے میں، اقبا ل کی فکر کے حو الے سے کئی مضا مین سا منے آ ئے ہیں۔ مذکور ہ شمارے کے نصف سے زیاد ہ صفحا ت میں فکر اقبا ل سے متعلق عمو ماً اور اُن کے اجتہاد ی نقطہ نظر سے متعلق خصو صاً لکھا گیا ۔ رئیس التحر یر جنا ب زا ہد الر اشد ی صا حب نے بھی ’کلمہ حق‘ کو اقبا ل کے تصور اجتہا د کے حوالے سے ’’چند ضروری گذارشات‘‘ کے لیے مختص کیا ہے اور نہا یت خو بصورتی سے علامہ اقبا ل کی فکر ی، فلسفیا نہ، دانشورانہ اور شا عرانہ حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انگریز ی استعمار کے دور میں اس فکر ی خلا کی نشا ند ہی کی ہے جو مسلما نو ں کے جمود کی وجہ سے پید ا ہو گیا تھا۔ یہ مو لا نا صا حب کی و سیع النظری ہے کہ وہ اس خلا کے وجود کے معتر ف ہیں، ور نہ ایسے لو گو ں کی کمی نہیں ہے جو کسی فکر ی خلا کے وجود کے ہی سر ے سے انکار ی ہیں۔ تا ہم مو لا نا صاحب کا کہنا ہے کہ چونکہ اقبال خود مجتہداور فقیہ نہ تھے اور نہ ہی اجتہاد اور فقہ سے ان کا عملی علاقہ رہا تھا، اس لیے وہ اجتہاد کے عملی پہلوؤں کے حوالے سے اقبال کی آرا پر اپنے تحفظا ت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں مولانا صاحب نے چند امور کی نشان د ہی کی ہے جو بحث طلب ہیں۔ ذیل میں ہم جنا ب زاہد الراشد ی صا حب کے پیش کردہ ان نکا ت پر ایک نظر ڈالیں گے۔

۱۔ اجتہاد مطلق کا دروازہ بند کیے جانے سے متعلق اقبال کے اعتراض کے جواب میں مو لا نا صا حب کا ارشاد ہے کہ اس کا تعلق اہلیت و صلا حیت کے فقدان سے نہیں بلکہ ضرورت مکمل ہو جا نے سے ہے اور دیگر علو م و فنو ن کی طر ح اجتہاد کے اصول و ضو ابط بھی، جو اسا سی نو عیت کے ہو تے ہیں، طے ہو چکے ہیں اور غیر متبد ل ہیں۔ اس کے خلاف یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دین میں جو چیز بھی ابدی اور اٹل نو عیت کی ہو تی ہے، اس کے لیے قر آن پا ک یا سنت نبو ی سے صراحت پیش کر نا ہوگی۔ کیا مو لا نا صا حب اجتہاد مطلق کے متعلق ایسی کوئی تصریح پیش کر سکتے ہیں؟ ظاہر بات ہے کہ اجتہا دی فیصلے چونکہ قیاسی اور استنبا طی ہو تے ہیں، اس لیے ان کی حتمیت پر اصرار نہیں کیا جا سکتا ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک مسئلے کے حل کے با ر ے میں اربا ب علم متفق ہو جا ئیں، لیکن ہر حال میں یہ اتفا ق ضروری نہیں۔ دوسر ے لفظو ں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن اصو ل و ضوابط کو مو لا نا صا حب نے ’’اساسی قوانین‘‘ کہا ہے، انہیں یہ بنیا دی حیثیت کس نے دی ہے ؟ اگر وہ فرمائیں کہ تا ریخ نے ثابت کر دیاہے تو اس ضمن میں یہ پو چھا جا ئے گا کہ ان پا نچ چھ فقہی مذاہب کے علا وہ دیگر بیسیوں فقہی مذ اہب کے پیر و کاروں کے سا تھ، جو اُ ن کے بقول تار یخ کی نذر ہو گئے، اللہ تعا لی کیا معا ملہ فر ما ئیں گے؟ انہوں نے بھی تو ان اجتہادات سے انحر اف کیا تھا۔ یہ سو ال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ان اجتہا دات کا اقرار یا انکار صرف تا ریخ کا معاملہ نہیں کہ فلا ں فقہی مذہب عملی لحا ظ سے دوام حا صل کر گیا اور فلا ں نا کا م ہو گیا، بلکہ یہ ہمار ی اُ خروی زند گی سے بھی متعلق ہے۔ ممکن ہے مو لا نا صا حب اس دور کو فقہی قو انین کی تشکیل کا عبو ری دور قرار دے کر دیگر مذ اہب کے پیروکاروں کے لیے نجات کی راہ نکا ل لیں مگر میری ا لجھن یہ ہے کہ یہی دور حتمی کیو ں ہے؟ اسلا م میں اجتہاد کا وجود اسے ایک متحر ک (Dynamic) مذہب ثا بت کرتا ہے اور اس تحرک کی بنا پر ہی اسلام تمام زمانوں کے لیے ہے۔ اجتہا د کو فقط ایک دور تک محدود کرنا، اس کی حر کت کو جمود میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے ۔ شا ید الطا ف احمد اعظمی صا حب نے اس لیے لکھا ہے کہ :

’’ قیا سی احکا م حا لات اور ظروف ز ما نہ کے تا بع ہیں اور ان کی تبدیلی سے وہ بھی تبدیل ہو جائیں گے یا یو ں کہہ لیں کہ اُن کی اطلا قی صور تیں بدل جا ئیں گی۔ اس سلسلے میں حنفی فقہا کا رویہ ما ضی کی طر ح آ ج بھی قابل اعترا ض ہے۔ انہو ں نے حنفی فقہ کو، جو زیا دہ تر قیا سی اور استد لا لی احکام پر مشتمل ہے، نا قابل تغیرسمجھ لیا ہے۔‘‘ (۱) 

اگر بقول مو لانا صا حب ان اسا سی قو انین کی حیثیت اب نا قا بل تغیرہے اور ان کی تشکیل کا فقط ایک ہی دور تھا تو خود حضور نبی کریم ؐ اور صحا بہ کرامؓ کے دور ہی میں ان اصو ل اور ضو ابط کو طے کیوں نہیں کر دیا گیا، کیو نکہ وہ بہر طور دین کو بہتر طر یقے سے سمجھ سکتے تھے۔ 

۲۔ رئیس التحر یر نے لکھا ہے کہ اقبا ل نے اجتہا د کا خطبہ دیتے وقت ترکی کی جد ید یت کو سامنے رکھا تھا۔ گزارش یہ ہے کہ کو ئی بڑے سے بڑا لکھا ری بھی اپنے ما حو ل سے اوپر اُ ٹھ کر نہیں لکھتا۔ بیسو یں صدی کے ربع اول میں تر کی اند ھی تقلید سے اپنے آ پ کو آ زاد کر نے کے لیے تگ ودو کر رہا تھا۔ اقبال نے تر کی کی اس کاو ش کو بنظر تحسین دیکھا کیو نکہ اقبا ل کے مطابق مرد مو من اپنی خود ی کو اسی وقت مستحکم کر سکتا ہے جب اس میں حر یت اور آ زادی کاجذبہ بد رجہ اتم مو جو د ہو اور وہ روایا ت کے شکنجوں کو توڑ سکتا ہو۔ ترکی اس وقت بلا شبہ اس اند ھی تقلید کے بت کدو ں کو پا ش پا ش کر رہا تھا۔ تر کو ں کے اس اقدام کو اقبال نے یو ں سر اہا ہے: 

’’دراصل یہ صر ف تر ک ہیں جو امم اسلا میہ میں قد امت پر ستی کے خو اب سے بیدار ہو کر شعور ذات کی نعمت حا صل کر چکے ہیں۔ یہ صرف ترک ہیں جنہو ں نے ذہنی آ زادی کا حق طلب کیاہے اور جو ایک خیالی دنیا سے نکل کر اب عا لم حقیقت میں آ گئے ہیں۔‘‘ (۲)

اقبا ل مسلما نو ں کی نشاۃ ثانیہ کے خواہاں تھے اور نشاۃ ثانیہ کے لیے اند ھی تقلید سے آزاد ہو نا نا گزیر ہے۔ تر کی اس وقت قدامت پسند ی کے خلاف لڑرہا تھا اور اقبال کے مطابق قدامت پسندی اور روایت پر ستی ہی مسلم امہ کے زوال کاسبب تھی، چنا نچہ تر کو ں کی، فر سو دہ ر وایات سے بغا وت اور ان کی عقلی پیش رفت ان کے خیا لی دنیا سے نکل کر عا لم حقیقت میں ٓآنے کے متر ادف تھی۔ اقبال کا خطبہ اجتہا د محض ترکی کی جد یدیت کی نقالی نہیں ہے۔ انہو ں نے تر کی کے مشہور شا عر ضیا سے، جس کا حو الہ بار بار خطبہ اجتہاد میں آیا ہے، جہا ں ضرو ری تھا اختلا ف بھی کیا ہے۔ اقبال ترکی کی جد ید یت کے کہاں کہاں خلا ف تھے، طوالت کے خو ف سے اس بحث سے صرف نظر کیا جا تا ہے۔ اقبال اس اجتہا د کے حق میں تھے جس میں اسلا می روح سر ایت کر چکی ہو۔ تر کی اس وقت لا کے صنم کدو ں کو تو ڑ چکا تھا، تا ہم الا کے معبد تعمیر نہیں کر سکا تھا ۔ اس لیے اقبال نے اس خد شے کا اظہار کیا :

’’آ زاد خیا لی کی یہی تحر یک اسلام کا نا ز ک تر ین لمحہ بھی ہے۔ آ زاد خیا لی کا رجحان با لعمو م تفر قہ اور انتشار کی طر ف ہو تا ہے، لہٰذا نسلیت اور قو میت کے یہی تصورات جو اس وقت دنیا ئے اسلام میں کارفرما ہیں، اس وسیع مطمح نظر کی نفی بھی کر سکتے ہیں جس کی اسلا م نے مسلما نو ں کو تلقین کی ہے ۔ ‘‘ (۳) 

تر کی کی جس لا د ینیت کو مو لا نا صا حب اور الطا ف احمد اعظمی صا حب (۴) اقبا لی فکر کے شجر ۂ طو بیٰ کے بر گ و بار قرار دیتے ہیں، اقبا ل نے پیشگی طور پر اس کی اطلاع دے کر ان کے اس خیا ل با طل کی بسا ط الٹ دی تھی ۔ چنا نچہ لکھتے ہیں :

’’پھر اس کے علا وہ یہ بھی خطر ہ ہے کہ تمہا ر ے مذ ہبی اور سیا سی رہنما حر یت اور آ زاد ی کے جو ش میں، بشر طیکہ اس پر کو ئی روک عا ید نہ کی گئی، اصلا ح کی جا ئز حدود سے تجاوز کر جا ئیں۔‘‘ (۵) 

اقبا ل تر کی کی ایسی کسی پیش رفت کو قبول کر نے کے حق میں نہ تھے جس سے وہ اسلا می روحانیت سے محروم ہو جائیں۔ جا وید نا مہ کے مند رجہ ذیل اشعار ملا حظہ ہو ں جن میں ترکی کی اس بے مہار آزادی کو ہد ف تنقید بنا یا گیا ہے : 

مصطفی کو از تجدد می سرود
گفت نقشِ کہنہ را باید زدود 
نو نگر دد کعبہ را رخت حیات 
گر زافر نگ آ یدش لات ومنات 
تُر ک را آہنگ نو در چنگ نیست
تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست 
سینہ او را دمے دیگر نبود
در ضمیرش عالمے دیگر نبود 
لاجرم باعالم موجود ساخت 
مثل مو م از سو ز ایں عا لم گداخت 
طرفگی ہا در نہاد کائنات
نیست از تقلید تقویم حیات 
زندہ دل خلاق اعصار ودہور 
جانش از تقلید گردد بے حضور
چوں مسلماناں اگر داری جگر 
در ضمیر خویش ودر قرآں نگر 
صد جہانِ تازہ در آیات او ست 
عصرہا پیچیدہ در آنات او ست 
یک جہانش عصر حاضر را بس است 
گیر اگر در سینہ دل معنی رس است 
بندۂ مومن زآیات خدا ست 
ہر جہاں اندر بر او چوں قبا ست 
چو ں کہن گردد جہانے در برش
می دہد قرآں جہانے دیگرش (۶)

یہ با ت ذہن میں رہنی چاہیے کہ کما ل اتا ترک کے نا م کے سا تھ اقبا ل نے ’’ایدہُ اللہ بنصرہ العز یز‘‘ لکھا تھا (۷) مگر جب اس کی جد ید یت دا ئرہ اسلا م سے متجا وز ہو نے لگی تو اسے آ ڑے ہا تھو ں لیا۔ چنا نچہ اگر اقبا ل تر کو ں کی آ ج کی لا دینیت کا مشا ہد ہ فر ما تے تو ان کو بھی ویسے ہی ہد ف تنقید بناتے جیسا کہ انہوں نے مصطفی کو بنا یا۔ اقبا ل کے سامنے اس وقت فقط ترکو ں کی قد امت پسند ی اور روایت پسند ی کے خلاف بغا وت تھی اور انہو ں نے اُ ن کے اسی پہلو کو خر اج تحسین پیش کیا ہے ۔ 

۳۔ مو لا نا صا حب نے تیسرا نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ اقبال کے خطبہ اجتہا د پر پو ن صدی گز ر چکی ہے اور اب دنیا نئے حالات سے گزر رہی ہے، اس لیے ہمیں اپنے مسائل کو نئے حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ 

اس ضمن میں ہماری گزارش یہ ہے کہ جو طبقہ ما ضی کے اجتہا دات کو حتمی تصور کر تا ہے، وہ جدید عا لمی تنا ظر اور بین الاقوامی ماحو ل میں اپنی ضر ور یا ت اور تر جیحات کا از سر نو جا ئز ہ کیسے لے سکتا ہے ؟ عباسی دور میں مر تب شدہ فقہی اصو لوں اور جزئیات میں محصور رہ کر جو ’’اجتہاد‘‘ بھی کیا جائے گا، اس کا حشر اس کا نفر نس سے مختلف نہیں ہو گا جو گز شتہ سال بھا رت میں ایک مذ ہبی ادارے نے منعقد کی تھی ۔ اس میں ٹیلی ویژن اور تصویر سے متعلق علما کی ’’اجتہا دی‘‘ آ را کی ایک جھلک ’الشریعہ‘ کے گز شتہ شما روں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ علما ابھی تک اجتہاد کے متعلق اقبال کے مو قف کو نہیں سمجھ سکے۔ تا ریخ کو ئی سیلاب نہیں ہے جو ہنگا می طور پر غا ر ت گر ی کر کے گزر گیا اور بس۔ اس کی کڑ یا ں حا ل اور مستقبل میں پیو ست ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم ما ضی سے چشم پوشی نہیں کر سکتے۔ خصو صاً اس صور ت میں جب کہ ہم نے حال تو در کنار، ما ضی کے مسا ئل کا حل بھی نہ ڈھو نڈا ہو ۔ اگر ہم حال کے مسا ئل پر واقعی غور و فکر کر نا چا ہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اقبال کے اس خطبے کا از سر نو جا ئز ہ لینا ہو گا اور اس کے متعلق اپنے مو قف پر نظر ثا نی کر نا ہو گی۔ الطا ف احمدا عظمی صا حب نے اقبال کے دوسر ے خطبو ں کا بہت سخت تنقیدی جا ئز ہ لیا ہے ، تا ہم اس خطبے میں وہ ا قبا ل سے بڑ ی حد تک متفق دکھا ئی دیتے ہیں۔ میر ی نظر میں عصرحا ضر کا سب سے بڑا تقا ضا یہ ہے کہ علما اجتہاد کا بند دروازہ دوبارہ کھو لنے کے لیے تگ دود کر یں۔ اسی صورت میں وہ اس فکر ی خلا کو پُر کر نے میں کا میا ب ہو سکیں گے جو مسلسل بڑ ھتا جا رہا ہے۔ جب تک یہ قدم نہیں اُ ٹھا یا جاتا، ہم کولہو کے بیل کی طر ح اقبا ل کے خطبہ اجتہاد ہی کا طو اف کرتے رہیں گے ۔ 


حوالہ جا ت

۱۔ اعظمی ، الطا ف احمد، ’’خطبا ت اقبال ۔ایک مطا لعہ‘‘ ( دارالتذکیر لا ہور،۲۰۰۵ ؁ء ) ص:۲۳۸

۲ ۔ نذ یر نیا زی ، سید ( متر جم )، ’’تشکیل جد ید الٰہیات اسلا میہ‘‘ ، طبع دو م ( بزم اقبا ل ، لا ہور ، ۱۹۸۳) ص : ۲۵۰

۳۔ ایضاً ، ص ص :۲۵۱، ۲۵۲

۴۔ اعظمی ، الطا ف احمد، ’’خطبا ت اقبال۔ ایک مطا لعہ‘‘ ، ص :۲۱۷

۵ ۔ نذ یر نیا زی ، سید ( متر جم)، ’’تشکیل جد ید الٰہیا ت اسلا میہ‘‘ ، ص :۲۵۲

۶۔ محمد اقبال، ’’جا وید نا مہ‘‘ ، طبع ہفتم ، ( شیخ غلا م علی اینڈ سنز ، لا ہور، ۱۹۷۸ ء ) ص:۶۶

۷۔ سلیم چشتی ، پر و فیسر، ’’شر ح جا وید نا مہ‘‘، طبع اول ( عشرت پبلشنگ ہا وس ، لا ہور ،۱۹۵۶ ء ) ص ۶۰۱


شخصیات

(جنوری ۲۰۰۷ء)

تلاش

Flag Counter