حیدر آباد سے شائع ہونے والے ماہنامہ بیداری کے مدیر شہیرجناب محمد موسیٰ بھٹو صاحب نے اپنے جریدے کے ستمبر کے شمارے میں مدیر الشریعہ جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کی شخصیت پر قلم اٹھایا ہے اور اپنے مخصوص اسلوب میں (جس میں وہ شخصیات کو اہم مسائل پر ان کے موقف کے حوالے سے زیربحث لاتے ہیں) دینی مدارس میں اصلاح اور بہتری کے ضمن میں مولانا زاہد الراشدی (اور بعض دیگر اہل علم) کے اس موقف سے اختلاف کیا ہے جس کی رو سے وہ دینی مدارس میں جدید تعلیم کے شمول کے حامی ہیں۔ چونکہ ہم بھی کئی برسوں سے (تحریک اصلاح تعلیم ٹرسٹ کے تحت) پاکستان کے نظام تعلیم و تربیت میں جدید تعلیم میں اصلاح کے علاوہ) دینی مدارس کے نظام میں عصری تقاضوں کے حوالے سے اصلاح و بہتری کے لیے نہ صرف سوچ رہے ہیں بلکہ جو کچھ ہم سے ہوسکے عملاً کر بھی رہے ہیں، اس لیے جو موضوع موسیٰ بھٹو صاحب نے چھیڑا ہے، اسے آگے بڑھاتے ہوئے ہم بھی اپنی کچھ معروضات اہل فکر و نظر کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔
دینی مدارس میں جدید علوم کی تعلیم دی جائے یا نہ دی جائے؟ اس سے فائدہ ہوگا یا نقصان؟ اور اگر دی جائے تو کس سطح پر ، کتنی اور کیسے دی جائے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا آج دینی مدارس چلانے والے علماء کرام اور دینی موضوعات و مسائل پر سوچنے والے دینی اسکالرز کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مغرب کا دباؤ
ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اس بحث یا مسئلے کا فوری محرک مغرب کا دباؤ ہے جو بظاہر مطالبہ یہ کر رہا ہے کہ دینی مدارس میں جدید تعلیم دی جائے کیونکہ اس کی رائے میں دینی مدارس میں جو دینی تعلیم اس وقت دی جاتی ہے اور جس طرح دی جاتی ہے اس سے انتہا پسندی اور دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ اس لیے مدارس کے ماحول میں روا داری اور کھلاپن پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ معاشرے کے مرکزی دھارے میں کھپ سکیں۔ یہ مغرب کا ظاہری موقف ہے لیکن متعدد عوامل سے اندازہ ہوتا ہے کہ بباطن اس کی خواہش یہ ہے کہ دینی مدارس کو غیر موثر کر دیا جائے اور ہوسکے تو ختم ہی کر دیا جائے کیونکہ وہ ایسی شخصیت پیدا کرتے ہیں جو مغربی تہذیب کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرتی۔ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمران مغرب کا یہ دباؤ بلاسوچے سمجھے آگے دینی مدارس تک منتقل کر دیتے ہیں اور جیسا کہ ہم سب کے علم میں ہے کہ حکومت پاکستان نے دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے نصابات کی تبدیلی کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں اور مزید کیے جا رہے ہیں اور دینی تعلیم کے وفاقوں کے سربراہوں کے ساتھ ان کے مذاکرات اور مباحثات ہوتے رہتے ہیں۔ ان مذاکرات کا عمومی رخ یہی ہوتا ہے کہ حکومت اپنے مطالبات منوانے پر زور دیتی ہے اور اہل مدارس کا رویہ مزاحمت کا ہوتا ہے۔ تاہم پچھلے دنوں، ہماری معلومات کی حد تک، مدارس کی اعلی رابطہ کمیٹی نے حکومت کے سامنے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ دینی مدارس ان طلبہ کو جو میٹرک پاس نہیں ہیں، میٹرک پاس کروانے کا اہتمام کریں گے۔ لیکن ہمارا مشاہدہ یہ ہے اور بڑے مدارس کی اکثریت نے اپنے طلبہ کے لیے شام کے وقت میٹرک کے علاوہ ایف اے اور بی ا ے کے مضامین کی تدریس اور امتحانات کی تیاری کا اہتمام بھی شروع کر دیا ہے۔
مخلصانہ مساعی
اب ذرا دوسری طرف آئیے۔ کئی علماء کرام اور دینی اسکالرز جو موجودہ حالات میں دینی مدارس کے کردار کو زیادہ موثر بنانے کے خواہاں ہیں۔ ماضی میں یہ سوچتے رہتے ہیں اور اب بھی سوچتے ہیں کہ مدارس کے نظام تعلیم و نصاب میں عصری حوالے سے اصلاح و تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور کم از کم یہ تو ہونا ہی چاہیے کہ علماء کرام جدید مغربی افکارو علوم کی کنہ و ہیئت سے واقف ہوں کیونکہ جب تک وہ ان کی حقیقت کو نہیں سمجھیں گے ان کا رد بھی نہیں کر سکیں گے۔
دوسروں کو چھوڑیے خود ہم نے ۲۰۰۰ء میں لاہور میں دینی وفاقوں کے ذمہ داران کے ساتھ مل کر ۱۸ ماہ کی محنت سے دینی مدارس کے نظام تعلیم کے حوالے سے ایک اصلاحی پیکج بنا کر ان سے منظور کروایا اور متبادل نصاب بھی بنا کر پیش کیا۔ اس کے بعد ہم نے ۲۰۰۴ء سے دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کا پروگرام بھی شروع کر رکھا ہے جس میں طرق تدریس کے علاوہ انگریزی زبان اور مغربی فکرو تہذیب اور علوم کا تعارفی مطالعہ بھی شامل ہے۔ اندریں حالات جب ہم نے مدارس میں جدید تعلیم کی قبولیت اور مدارس کے اپنے زیر اہتمام میٹرک، ایف اے، بی اے کے امتحانات دلوانے کا رحجان دیکھا تو ہمیں تشویش ہوئی۔ چنانچہ ہم نے پچھلے سال مولانا زاہد الراشدی صاحب کو تجویز دی کہ آیئے مل کر لاہور میں دینی مدارس کا ایک کنونشن منعقد کرتے ہیں اور یہ مسئلہ وہاں زیر بحث لاتے ہیں کہ دینی مدارس کے جدید علوم کو اسی صورت میں جیسے کہ وہ اس وقت پاکستان کے جدید تعلیمی اداروں میں پڑھائے جا رہے ہیں، اپنا لینے کے نتائج کیا نکلیں گے؟ کیونکہ ہمارے نزدیک دینی مدارس کی اس جدید روش میں بہت سے خطرے پنہاں ہیں اس لیے کہ ہمارے ہاں جدید تعلیم مغربی فکرو تہذیب کا محض چربہ ہے او رمغرب کی فکر اپنی اصل میں ملحدانہ ہے لہٰذا مغرب میں سارے علوم کی اٹھان اور ان کا مواد و ہیئت الحادی اور غیر اسلامی ہے۔ ملحدانہ فکر پر مبنی ان علوم نے جدید تعلیم کے راستے مسلم فکر اور مسلم معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور مسلمانوں کی دین سے دوری اور ان کے بے کرداری کا سب سے بڑا سبب یہی جدید تعلیم ہے لہٰذا ہمارے نزدیک یہ بہت خطرناک امر ہے کہ دینی مدارس نے انہی جدید علوم کو اپنے مدارس میں پڑھانے اور ان کا امتحان دلوانے کا اہتمام شروع کر دیا ہے۔ مولانا زاہدالراشدی صاحب نے، جن کی ان معاملات پر خوب نظر ہے، بلکہ وہ خود بھی فارغ التحصیل علماء کرام کے لیے ایک سالہ کورس منعقد کرتے ہیں، جس میں جدید علوم کا تعارفی مطالعہ انہیں کرواتے ہیں، ہماری اس تجویز کو قبول کر لیا لیکن عملاً کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ پھر ہم نے چند ماہ پیشتر دینی مدارس کے سارے وفاقوں کے سربراہوں اور ناظمین اعلیٰ کو ایک خط لکھا اور اس صورت حال میں مضمر خطرناک پہلوؤں کی طرف ان کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے انہیں اس موضوع پر مل بیٹھنے اور اس کاحل سوچنے کی دعوت دی اور یہ پیشکش بھی کی کہ اگر اصحاب وفاق چاہیں تو ہم تحریک اصلاح تعلیم ٹرسٹ کی طرف سے جدید علوم کی ایسی کتب مدون کر کے دے سکتے ہیں جن میں مغرب کی ملحدانہ فکر کا زہر نہ ہو اور وہ ٹھیٹھ اسلامی نقطۂ نظر پر مبنی ہوں۔ اس کے جواب میں وفاق المدارس العربیۃ کے ناظم اعلیٰ جناب مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب نے ہمیں ایک مدافعانہ قسم کا جواب دیا اور اس کی کاپیاں سارے وفاقوں کے صدور و ناظمین کو بھجوائیں، جس سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ معاملے کی خطرناکی اور گہرائی تک ان کی نظر نہیں پہنچی۔ دریں اثناء ہمارے بعض شرکاء کار نے ہمیں ڈرایا کہ اگر و فاقوں نے سچ مچ ہمیں یہ کام کرنے کا کہہ دیا تو اس کام کے لیے جو وسیع مادی وسائل درکار ہیں وہ ہمیں میسر نہیں ہیں (اور شاید وفاق بھی وہ مہیا نہ کر سکیں) مزید یہ کہ ہم خود ایک دوسرے بڑے دینی پراجیکٹ میں مصروف تھے،چنانچہ ان حالات میں ہم نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ اب موسیٰ بھٹو صاحب نے یہ موضوع چھیڑا ہے تو ہم نے مناسب سمجھا کہ اس معاملے کو دوبارہ اٹھائیں تاکہ اس کے فکری اور عملی پہلو زیادہ واضح ہو کر سامنے آسکیں۔
عصری تقاضے
ہمارے نقطۂ نظر سے مغرب کے دباؤ سے قطع نظر دینی مدارس کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ عصری تقاضوں کے حوالے سے موثر علماء کیسے تیار کیے جائیں؟ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس چیز کا تعین کر لیا جائے کہ یہ ’’عصری تقاضے‘‘ کیا بلا ہیں اور ان کی کیا اہمیت ہے؟ کیونکہ بہت سے علماء کرام یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو قرآن و حدیث پڑھانا ہے، ہمیں عصری تقاضوں سے کیا لینا؟ دیکھیے ! دین نام ہے اس ہدایت کا ہے جو اللہ تعالیٰ بندوں کو اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے عطا فرماتا ہے تو گویا دین کا ہماری دنیوی زندگی سے گہرا ربط اور تعلق ہے بلکہ دین ہے ہی زندگی گزارنے کا لائحہ عمل تاکہ انسان دنیا کی یہ زندگی اللہ کے احکام کے مطابق اس کی عبادت و اطاعت میں گزارے تاکہ آخرت میں اس کی خوشنودی سے بہرہ ور ہوسکے۔
پیغمبر کتاب کی جو تبیین کرتا ہے وہ بھی اس ہدایت کو معاشرے کے زندہ حقائق سے مربوط کرنے کاہی ایک ذریعہ ہوتی ہے۔ لہٰذا دین کس مجرد ہدایت کا نام نہیں جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہ ہو بلکہ زندہ مسلم معاشرہ ہی دین کا ہدف اور نمائندہ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم کردہ مدنی معاشرہ اسلام کے استحکام اور اشاعت کا سبب بنا کیونکہ وہ صحیح اسلام کا نمائندہ تھا اور آج چونکہ صحیح اسلامی فرد اور معاشرہ موجود نہیں اس لیے غیر مسلم اسلام سے متاثر نہیں ہوتے حالانکہ ہمارے پاس وہی قرآن و سنت موجود ہیں جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھے۔ خلاصہ یہ کہ دین کو عصری حوالے کے بغیر پیش کیا ہی نہیں جاسکتا۔
یہاں ہمیں دینی مدارس چلانے والے علماء کرام کی فطانت سے توقع ہے کہ وہ دو چیزوں میں فرق کریں گے ، ایک ہے تقدس اور دوسرے ہے قدامت۔ قرآن و سنت میں تقدس قدامت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ہمارے دین کا مآخذ ہیں اور ان کی نصوص ناقابل تغیر ہیں۔ ان کے علاوہ جتنے علوم ہیں وہ محض اپنی قدامت کی وجہ سے ’مقدس‘ نہیں ہوسکتے بلکہ ان کی اہمیت کی وجہ ان کی افادیت ہی ہوسکتی ہے اور اس افادیت میں زبان و مکان کے تغیر سے کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ ہم چند مثالوں سے اپنی بات کی وضاحت کریں گے:
۱۔ دینی مدارس میں جو فلسفہ پڑھایا جاتا ہے وہ یونانی فلسفہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں کے لیے چیلنج تھا۔ آج یونانی فلسفے کی بجائے مغربی فلسفہ ہمارے لیے چیلنج ہے تو ہم یونانی فلسفے کی بجائے مغربی (یورپی و امریکی) فلسفہ کیوں نہ پڑھیں پڑھائیں؟
۲۔ برصغیر میں مسلم نظام تعلیم کے انگریزوں کے ہاتھوں خاتمے کے وقت ذریعۂ تعلیم فارسی زبان تھی اور اس وقت صرف و نحو اور دوسرے علوم فارسی میں پڑھائے جاتے تھے۔ آج فارسی زبان ہمارے ہاں غیر متداول ہوگئی ہے تو ہم کیوں اصرار کریں کہ اسے ہی ذریعۂ تعلیم ہونا چاہیے اور یہ ضروری ہے کہ صرف و نحو کی کتابیں فارسی ہی میں رہیں۔ پہلے ہم اپنے بچوں کو فارسی پڑھائیں اور پھر فارسی میں لکھی گئی صرف و نحو کی کتابیں!
یہ دو مثالیں ہم نے محض بطور نمونہ مشتے از خروارے دی ہیں ورنہ ایسی چیزوں کی فہرست کافی طویل ہے جو مدارس میں عصری حوالے سے تبدیل کیے جانے کے لائق ہیں اور قرآن و سنت کی طرح مقدس اور ناقابل مس (Untouchable) نہیں ہیں کہ ہم ان کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے۔ بلکہ ہم تو عرض کرتے ہیں کہ مدارس میں علوم القرآن و علوم السنہ کے نصابات میں بھی تغیر کی ضرورت ہے اور ان کے طریق تدریس میں بھی اور ہم کوئی نئی بات نہیں کر رہے۔ اہل علم ہمیشہ ان باتوں پر غور کرتے رہے ہیں ، مثلاً علامہ ابن خلدون نے اپنے مشہور عالم ’مقدمہ‘ میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ مبحث بھی چھیڑا ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیم بچے کو کس عمر میں دینی چاہیے؟ عربی زبان کی باقاعدہ تعلیم سے پہلے یا بعد؟ پھر دونوں صورتوں کے بارے میں تفصیل دی ہے کہ اسلامی دنیا کے کن ممالک میں پہلی صورت پر ، عمل ہوتا ہے اور کن ممالک میں دوسری صورت پر، اور دونوں کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں؟
تو بات عصری تقاضوں کی ہورہی تھی کہ کبھی عصری تقاضا یہ تھا کہ مدارس میں یونانی فلسفہ اور اس کا رد پڑھایا جائے، آج عصری تقاضا یہ ہے کہ یونانی فلسفے کی بجائے (یا اس کے ساتھ) مغربی فلسفہ اور اس کا رد پڑھایا جائے۔ کبھی عصری تقاضا یہ تھا کہ فارسی ذریعۂ تعلیم ہو، آج عصری تقاضا یہ ہے کہ فارسی ذریعۂ تعلیم نہ ہو بلکہ پاکستان میں اردو ہو، برطانیہ میں انگریزی ہو اور ایران میں فارسی ہو وغیرہ۔ آج عصری تقاضے کیا ہیں ہم چند اہم امور کی طرف اشارات پر اکتفا کرتے ہیں:
۱۔ مسلمان پہلے غالب تھے، آج مغلوب ہوگئے۔ (ایک ضمنی بات۔ ہمارے بس میں ہو تو دینی مدارس کے آخری سالوں میں ایک نئے مضمون کا اضافہ کریں جس میں یہ مسئلہ تفصیل سے زیربحث آئے کہ مسلمان امت کو زوال کیوں آیا اور وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ کیسے حاصل کر سکتی ہے؟ اور یہ کہ ہمارا تعلیمی نظام اس کا کس حد تک ذمہ دار ہے؟)
۲۔ مغربی فکر اور تہذیب اور اس کے علوم جو لادینیت اور الحاد پر مبنی ہیں آج دنیا پر غالب آگئے ہیں۔
۳۔ مسلم معاشرہ مغربی فکر و تہذیب کے اثرات قبول کر رہا ہے۔ اس کا نظام تعلیم، نظام قانون، نظام معیشت ، طرز معاشرت غرض سب کچھ تغیر کی زد میں ہے۔
۴۔ مغرب کا تصور دین ہم سے مختلف سے لیکن مغرب کے تہذیبی اور سیاسی غلبے کی وجہ سے وہ ہمارے تصورِ دین کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
مندرجہ بالا صرف چند کلیات ہیں۔ ان کے تقاضے کیا ہیں مثلاً علماء کرام اگر مغرب کی ملحدانہ فکر و فلسفے کا رد کرنا چاہتے ہیں اور مسلم معاشرے کو اس کے اثرات بد سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے ان کا مطالعہ کیا جائے اور انہیں سمجھا جائے۔ یہ علوم انگریزی میں ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ انگریزی زبان سیکھی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا علماء کرام اس نصابی تغیر کے لیے تیار ہیں؟
فقہ کی مثال لیجیے۔ ائمہ اربعہ نے جب فقہی احکام مرتب کیے تھے تو اس وقت کے حالات اور اس وقت کے مسائل ان کے پیش نظر تھے۔ آج نہ وہ حالات ہیں اور نہ وہ مسائل۔ آج عصری تقاضا یہ ہے کہ آج کے حالات اور آج کے مسائل پر غور کیا جائے اور ان کا فقہی حل دریافت کیا جائے۔ کیا دینی مدارس نے اس تغیر کو قبول کیا ہے اور جدید مسائل پر غور وفکر کو اپنے نصاب میں شامل کیا ہے؟
جدید تعلیم کے نصاب کی اہمیت
یہ باتیں ہم نے صرف اس لیے کی ہیں کہ علماء کرام اس بات پر غور فرمائیں کہ عصری تقاضوں کی وجہ سے دینی مدارس کے نظام و نصاب تعلیم میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس اصولی اور عمومی بحث کے بعد اب آئیے دینی مدارس میں جدید علوم کی تدریس کے معین سوال کی طرف۔
- کیا دینی مدارس کے طلبہ کو مغربی فکرو علوم کا تعارفی مطالعہ اور انگریزی زبان پڑھانی چاہیے؟ ہمارا جواب ہے ، ’’ہاں‘‘۔
- کیا دینی مدارس کو اس غرض سے وہ کتابیں پڑھائی جائیں جو جدید تعلیمی اداروں میں میٹرک، ایف اے ، بی اے ، ایم اے میں مروج ہیں۔ ہمارا جواب ہے ’’بالکل نہیں‘‘۔
ممکن ہے آپ کہیں کہ ہمارے جواب میں تضاد ہے۔ ہم کہتے ہیں با لکل نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مسئلے کو پوری طرح سمجھا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کی ملحدانہ اور غیر اسلامی فکر و تہذیب اس وقت دنیا پر غالب ہے۔بدقسمتی سے مسلم معاشرے خصوصاً مسلم حکمرانوں کی کمزوری سے آج کے مسلم معاشرے میں مروج جدید تعلیم اسی مغربی ملحدانہ اور غیر اسلامی فکر پر مبنی ہے۔ اب اگر دینی مدارس نے بھی اسی الحادی مغربی فکر و فلسفے کے تحت مرتب کی گئی کتب کو اپنے ہاں پڑھانا شروع کر دیا تو لامحالہ جلد یا بدیر وہ بھی انہی ساری خرابیوں کا شکار ہوجائیں گے جنہوں نے ہماری جدید تعلیم بلکہ ہمارے معاشرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے اور اس کے اسلامی افکار و اقدار کو متزلزل اور مضمحل کر کے رکھ دیا ہے۔
یہ بات جو ہم کہہ رہے ہیں کہ غلط اور غیر اسلامی نصاب تعلیم انسانی شخصیت کو مسخ کر دیتا اور معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے، ممکن ہے عام لوگ نہ سمجھیں لیکن دینی مدارس کے اہل حل و عقد کو ضرور یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کیونکہ وہ خود معلم ہیں اور جانتے ہیں کہ جیسی تعلیم ہوتی ہے ویسی ہی ذہنیت اور شخصیت اور ویسے ہی افراد بنتے ہیں اور یہ کہ قوموں کے عروج و زوال اور ان کے بناؤ اور بگاڑ میں تعلیم اور نصاب بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا انہیں خدا کے لیے معاملے کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔
خلاصہ یہ کہ دینی مدارس کو میٹرک، ایف اے ، بی اے کی مروجہ کتب نہیں پڑھانی چاہئیں بلکہ ان کی جگہ انہیں خود ایسی کتب مرتب کرنی اور کروانی چاہئیں جو مغربی فکر و تہذیب کے زہر سے آلودہ نہ ہوں۔ اگر وہ اس کا ارادہ اور ہمت کر لیں تو یہ مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ عملاً اس کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ جدید علوم اپنے طلبہ کو اپنے نظام کے اندر رہ کر پڑھائیں اور اسے حکومتی ڈگری سے متعلق نہ کریں تو وہ پھر بالکل آزاد ہیں کہ جو کتب چاہیں وہ اپنے ہاں لگائیں اور پڑھائیں، حکومت پاکستان کو اس سے سروکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے توخوش ہونا چاہیے کہ دینی مدارس جدید علوم پڑھائیں گے۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مدارس اپنی خصوصی حیثیت کے پیش نظر میٹرک، ایف اے، بی اے کی اپنی مرتب کردہ کتب حکومت پاکستان سے منظور کروا لیں۔ ان کتب کو اس طریقے سے مرتب کیا جاسکتا ہے کہ وہ حکومتی نصاب کے خلاف بھی نہ ہوں لیکن ان میں مغربی تہذیب کا زہر بھی نہ ہو اور وہ اسلامی تقاضوں کے بھی مطابق ہوں (یہ ایک فنی کام ہے اور پیشہ ورانہ مہارت کا تقاضا کرتا ہے اور ہم اپنی اس پیشکش پر قائم ہیں کہ ہم مدارس کے لیے یہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
مقاصد تعلیم میں وسعت کا مسئلہ
دینی مدارس میں جدید تعلیم کے حوالے سے یہاں ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کیا دینی مدارس اپنے مقاصد تعلیم میں وسعت پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں؟ دوسرے لفظوں میں کیا اب بھی وہ صرف مساجد اور مدارس کے لیے علماء تیار کرنا چاہتے ہیں یا معاشرے کو اسلامی خطوط پر چلانے کے لیے اہم شعبوں کے ماہرین پیدا کرنا بھی ان کے پیش نظر ہے؟ اس سوال کی نوعیت اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
دیکھیے! انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کر لیا تو بتدریج مسلمانوں کا نظام تعلیم ختم کر دیا اور اپنا نظام تعلیم نافذ کر دیا۔ اس پر اہل فکر و نظر پریشان ہوگئے کہ ہندوستان کا حشر کہیں اندلس جیسا نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے سوچا کہ جیسے تیسے ہو بنیادی دینی علم کو زندہ رکھا جائے تاکہ مسجدیں آباد رہیں اور مسلمان نکاح و طلاق اور غم و خوشی کے روزمرہ کے امور میں دین سے جڑے رہیں۔ چنانچہ علماء کرام نے درختوں کے نیچے بیٹھ کر اور کچی مٹی کے بنے حجروں میں بیٹھ کر قرآن و سنت اور فقہ کی تعلیم دینی شروع کی اور چونکہ قوم اس وقت ہزیمت خوردہ، منتشر اور مفلس تھی اس لیے اس کام سے دنیا وابستہ نہ تھی بلکہ علماء کرام کو ایثار سے کام لیتے ہوئے پیٹ پر پتھر باندھ کر یہ کام کرنا پڑا (جس کے لیے قوم کے سرہمیشہ علماء کے اس احسان کے سامنے جھکے رہیں گے)۔ یہ اس وقت کے حالات کے دباؤ کا نتیجہ تھا کہ علماء کرام نے یہ تعلیمی پروگرام شروع کیا اور بعد میں جب مسلمانوں نے ’جدید تعلیم‘ کے اپنے ادارے کھولنے شروع کیے تو دیوبند کے بانیوں خصوصاً مولانا رشید احمد گنگوہی کا خیال ابتداءً یہ تھا کہ وہ اپنے تعلیمی پروگرام کو کچھ مختصر کر کے اپنے طلبہ کو یہ موقع دیں گے کہ دینی تعلیم سے فراغت کے بعد وہ جدید تعلیم کے لیے چند سال فارغ کر سکیں لیکن غاصب انگریز کے خلاف جذبات اس وقت اتنے شدید تھے اور دونوں طرف کی تعلیم کے علمبرداروں کے درمیان سیاسی، سماجی، دینی اور معاشرتی حوالوں سے خلا اتنا زیادہ تھا کہ تعلیمی تبادلے کے اس پروگرام پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ چنانچہ دینی تعلیم دنیوی علوم سے کٹ کر اور جدید تعلیم مغربی فکر وتہذیب کے سانچے میں ڈھل کر آگے بڑھتی رہی۔ ندوہ اور جامعہ ملیہ کی صورت میں باہم انجذاب کی کچھ کوشش ہوئی جو کامیاب نہ ہوسکی اور بدقسمتی سے یہ دونوں تعلیمی دھارے آج تک متوازی انداز میں کام کرتے چلے آرہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ نظام تعلیم کی وحدت کا انتظام کرتے اور اسلامی تعلیم اور جدید علوم کی مناسب انداز میں یکجائی کا اہتمام کرتے لیکن انہوں نے اس ضمن میں کچھ نہ کیا۔ عوام اور اسلامی قوتوں کے دباؤ پر انہوں نے صرف اتنا کیا کہ جدید نظام تعلیم میں جومغربی فکر و تہذیب پر مبنی تھا، کچھ سطحی قسم کی پیوند کاری ’دینیات‘ کی تعلیم کے اضافے سے کی جو حسب توقع غیر موثر ثابت ہوئی۔ دینی مدارس اور دینی تعلیم ان کا درد سر نہ تھی، چنانچہ نہ کبھی حکومت نے دینی مدارس کی سرپرستی کی ، نہ ان کے لیے بجٹ مختص کیا، نہ کبھی ان کے نصابات کی اصلاح کے لیے کچھ کیا اور یوں نہ صرف مدارس سے سرد مہری اور لاتعلقی کا رویہ رکھا بلکہ الٹا مغربی حکومتوں کے زیر اثر اوراپنی سیاسی مصلحتوں کی خاطر انہوں نے دینی مدارس کی مخالفت کی۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ارباب دینی مدارس نے بھی اس امر پر غور نہ کیا کہ عہد غلامی میں انہوں نے دینی تعلیم کو صرف مساجد و مدارس تک محدود رکھنے کی جو روش اپنائی تھی اب ایک آزاد مسلم معاشرے میں اس میں تبدیلی کی ضرورت تھی۔ علماء کرام اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے نظام تعلیم میں ہمیشہ وحدت رہی ہے۔ دین و دنیا کی الگ الگ تعلیم کا تصور اسلامی دور حکومت میں کبھی بھی نہیں رہا۔ ماضی میں مسلمان معاشرے میں ’دینی مدارس‘ نہیں محض ’مدارس‘ ہوتے تھے جو دینی تعلیم بھی دیتے تھے اور ان علوم کی تعلیم بھی دیتے تھے جن کی مسلمانوں کو دنیا میں ضرورت تھی۔ چنانچہ مسلمانوں کے مدارس میں دینی تعلیم میں تخصص کے علاوہ سائنسی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی (جیسے طب (میڈیکل) ، ہندسہ (انجینئرنگ) ، ہیئت (اسٹرانومی اور سپیس سائنس)، کیمیا (کیمسٹری)، حساب (ریاضی و الجبرا وغیرہ) ۔ اسی طرح ان مدارس میں سماجی و عمرانی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی (جیسے فلسفہ، منطق، تاریخ، جغرافیہ، ادب وغیرہ)۔ زبانیں بھی یہاں سکھائی جاتی تھیں چنانچہ عربی کے علاوہ مقامی زبانیں جیسے فارسی، ترکی وغیرہ کی تعلیم بھی عام تھی بلکہ فارسی تو برصغیر میں ذریعۂ تعلیم بن گئی تھی۔ غرض یہ کہ مسلمانوں کے مدارس سے نہ صرف دین کے متخصص علماء تیار ہو کر دینی شعبے کی خدمت کرتے تھے بلکہ زندگی کے سارے شعبوں کو چلانے کے لیے مردان کار یہیں سے تیار ہو کر نکلتے تھے۔ حکومت چلانے والے منتظم، انصاف کرنے والے جج (قاضی)، مالی شعبے کے ٹیکس کلیکٹر، شعبۂ تعمیرات کے لیے انجینئر، دھاتوں کو سونے میں بدلنے والے کیمیا گر اور علم الافلاک کے ماہر منجم سب انہی مدارس سے نکلتے تھے۔ بلکہ ان مدارس کی ایک بڑی اور بنیادی خوبی یہ تھی کہ مذکورہ بالا شعبوں کے یہ سارے متخصصین دینی علوم کے ماہر اور آج کی زبان میں عالم دین بھی ہوتے تھے۔ گویا یوں کہیے کہ ابتدائی اورعمومی تعلیم کی بنیاد سب کے لیے دینی تھی اور تخصص کے لیے حسب ذوق و ضرورت کچھ لوگ دینی علوم میں سند لیتے تھے، کچھ سائنسی علوم میں اور کچھ عمرانی علوم میں۔
اور آج پھر دینی مدارس کے سامنے سوال یہ ہے کہ ان کا مقصد تعلیم کیا ہونا چاہیے؟ کیا صرف مسجد و مدرسے کے امام و معلم پید اکرنا یا معاشرے کے لیے درکار دوسرے شعبوں کے ماہرین بھی پیدا کرنا۔ موسیٰ بھٹو صاحب اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ دینی مدارس کو مسجد و مدرسے تک محدود رہنا چاہے جیسا کہ ہمارے دینی مدارس کی موجودہ پالیسی ہے۔ ہم اس رائے کو صحیح نہیں سمجھتے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں:
دین و دنیا کی تعلیم کی علیحدگی کے نقصانات
۱۔ اس پالیسی نے مسلم معاشرے میں دین و دنیا کی تفریق کے تصور کو مستحکم کیا ہے۔ معاف کیجیے گا اسی کو سیکولرزم کہتے ہیں اور یہ سیکولرازم بالبداہت خلاف اسلام ہے۔ ہم مغربی تہذیب کو الزام دیتے ہیں کہ وہ سیکولزم کی علمبردار ہے اور اس نے بے دینی پھیلائی ہے اور ہم اس امر پر غور نہیں کرتے کہ ہم خود دین کے نام پر جو سیکولرزم پھیلا رہے ہیں کیا اس کا اس کا نتیجہ بے دینی نہیں نکلا؟ اور کیا مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہ نہیں کہ ہمارے علماء و صلحاء نے مساجد و مدارس اور خانقاہوں میں ڈیرہ لگا کر سیاست اور اجتماعی زندگی کو بے دینوں کے حوالے کر دیا اور یوں صدیوں سے ہمارا سیاسی نظام برائے نام خلافت کا لبادہ اوڑھ کر منہاج نبوت اور منہاج خلافت راشدہ سے دور رہا اورآج بھی ہے۔
۲۔ اس پالیسی نے مسلم معاشرے کو مسٹر اور ملا میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس تقسیم کے منفی اثرات بہت دوررس اور گہرے ہیں۔ اس سے مسلم معاشرہ ہی تقسیم نہیں ہوا بلکہ اس کا بنیادی نقصان یہ ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے مسلم شخصیت میں وحدت نہیں پیدا ہو پاتی اور یہ علمی و فکری انتشار کو جنم دیتی ہے جو ہماری بے کرداری کا بنیادی سبب ہے۔ موجودہ نفسیات نے یہ ثابت کیا ہے (اور اسلامی علم النفس بھی یہی کہتا ہے) کہ انسانی اعمال کا منبع اس کی فکر ہوتی ہے۔ فکر منظم ہو کر نیت ، ارادے اور عزم کے ذریعے عمل کو جنم دیتی ہے، عمل کا دوام عادات بناتا ہے اور جیسی عادات ہوتی ہیں ویسی ہی شخصیت وجود میں آتی ہے۔ لہٰذا فکر میں یکسوئی اور وحدت شخصیت کی جان ہوتے ہیں۔ آپ دین و دنیا میں تفریق کو قبول کر کے اورمسلمانوں کو جدید تعلیم کے لیے مغربی فکر کے حوالے کر کے ( جس کا تصورِ دین و دنیا اسلام کے بالکل الٹ ہے) مسلم شخصیت کو تباہ کرنے کی بنیاد رکھ دیتے ہیں، لہٰذا ہم اس معاملے میں بالکل یکسو ہیں کہ ہماری بے کرداری کا بنیادی سبب فکری عدم یکسوئی ہے اور ہماری فکری عدم یکسوئی کا سبب ہمارے نظام تعلیم کی ثنویت اور دوئی ہے جس کے کچھ ذمہ دار ہمارے دینی مدارس بھی ہیں، فھل من مدکر؟
۳۔ اس پالیسی نے مسلم معاشرے میں مغرب پرست سیکولر حکمرانوں کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا ہے اور وہ معاشرے کو بڑی آسانی سے بگٹٹ اپنی مرضی کے مطابق سیکرلر بنیادوں پر چلائے بلکہ بھگائے جا رہے ہیں کیونکہ دینی عناصر اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کا ر پیداہی نہیں کر رہے۔ سوال یہ ہے کہ آج کے میڈیا کو اسلامی انداز میں چلانے کے لیے جو آدمی درکار ہیں کیا دینی مدارس وہ آدمی پیدا کر رہے ہیں؟ آج کے معاشرے میں اسلامی انداز میں نظام معیشت چلانے کے لیے جو ماہرین درکار ہیں کیا دینی مدارس وہ اشخاص پیدا کر ہے ہیں؟ اور یہی حال زندگی کے دوسرے شعبوں کا ہے خصوصاً نظام تعلیم، نظام قانون، قضا، انتظامیہ وغیرہ کا، کہ آپ ان شعبوں کے ماہرین پیدا ہی نہیں کر رہے۔ اس قحط الرجال کا نقصان یہ ہے کہ آج اگر دینی عناصر کو پاکستان میں اقتدار مل بھی جائے تو وہ صحیح اور موثر نظام حکومت چلا کر نہیں دکھا سکتے (جس کا مظاہرہ حال ہی میں دو صوبوں میں دینی عناصر کو اقتدار ملنے کی صورت میں ہوا ہے اور جس کے نتائج سے مایوسی پیدا ہوئی ہے)۔
۴۔ اگر علماء کرام معاف فرمائیں تو ہم عرض کریں گے کہ ثنویت پر مبنی اس نظام تعلیم سے معاشرے میں علماء کرام کی بے توقیری ہوئی ہے۔ جاگیر دار اپنی مسجد کے مولوی صاحب کو کمیں سمجھتے ہیں اور دیگر اہل حرفہ موچی، ترکھان، لوہار کی طرح مولوی صاحب کو بھی سالانہ ایک دو من گندم دے کر فارغ کر دیتے ہیں اور بعض دیہات میں تو ابھی تک مولوی صاحب شام کے وقت گھر گھر جا کر روٹی مانگ کر لاتے ہیں اور یوں بچوں کا پیٹ پالتے ہیں اور سرمایہ دار مولوی صاحب کو معمولی ملازم سمجھتے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں مسجد کے مولوی اور خطیب زیادہ سے زیادہ دس گیارہ گریڈ کے ملازم ہوتے ہیں جب کہ افسر کا گریڈ ۱۷ سے شروع ہوتا ہے۔ اس لیے افسر مولوی صاحب کو ادنی درجے کا ملازم سمجھنے میں حق بجانب ہیں اور یہ تاثر لینے میں بھی حق بجانب ہیں کہ مولوی بننا اسی سطح کے لوگوں کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے مدارس اندھوں، لنجوں، ناداروں (جو غریب والدین اپنے بچوں کو پال نہیں سکتے یا سکولوں میں تعلیم نہیں دلوا سکتے، وہ انہیں مدرسہ بھجوا دیتے ہیں) اور نالائقوں (جو سکولوں میں کسی وجہ سے چل نہیں سکتے ) کی آماجگاہ رہے ہیں اور قوم کے کھاتے پیتے لوگ اپنے ذہین بچوں کو یہاں بھجوانا پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ اہل دین کی دنیاوی شوکت سے یہ محرومی معاف کیجئے گا، خود دین کے استخفاف کا سبب بنی ہے اور معاشرے پر اس کے برے اثرات انتہائی گہرے ہیں۔
اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ مولوی صاحب مانگنے والے بن گئے ہیں۔ کوئی بھی سرمایہ دار یا مرفہ الحال شخص جب مولوی صاحب کو آتے دیکھتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ مولوی صاحب چندہ مانگنے کے لیے آئے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ علماء مسجد اور مدرسے کے لیے مانگنے جانتے ہیں اپنی ذات کے لیے نہیں لیکن بقول اقبال ۔۔۔مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج۔ اورلینے والے ہاتھ کا نیچے ہونا اور دینے والے ہاتھ کا اوپر ہونے کا فلسفہ بہر حال ایک خاص نوع کی ذہنیت اور رویے کو جنم دیتا ہے اور بعض لوگ تو اس امر کو بھی مدارس کی بے برکتی کی ایک وجہ گردانتے ہیں کہ مولوی صاحب کو سرمایہ دار سے مانگتے ہوئے اس سے صرف نظر کرنا پڑتا ہے کہ اس کی کمائی حلال کی بھی ہے یا نہیں، ان کو توبہر حال مسجد اور مدرسے کو چلانے کے لیے فنڈز درکار ہوتے ہیں۔
دینی تعلیم کو مسجد اور مدرسے تک محدود رکھنے کے یہ چند بڑے نقصانات جو ہم نے گنوائے ہیں (امید ہے کوئی صاحب ہمارے نیک نیتی پر مبنی اس نا گزیر تجزیے کی بناء پر ہمیں علماء کرام اور دینی مدارس کے استخفاف کا مرتکب قرار نہیں دیں گے) وہ اس قابل ہیں کہ ہمارے دینی مدارس کے اہل حل و عقد ان پر غور فرمائیں اور ان کی بنیاد پر جس استدلال کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اس کا وزن کو محسوس کریں۔
علماء کرام کے خدشات
ہمارے علم میں ہے کہ علماء کرام کی ایک خاصی بڑی تعداد خصوصاً پرانے اور بزرگ علماء ہماری اس تجویز کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔ اس کی وجہ ان کے بعض خدشات ہیں اور وہ اپنے موقف کو صحیح سمجھنے کے لیے بعض دلائل بھی رکھتے ہیں۔ ہم خواہ مخواہ بحث کو طول دینا نہیں چاہتے لیکن جو نقطۂ نظر ہم پیش کر رہے ہیں، اس کے اثبات کے لیے ان خدشات و دلائل کا ذکر اور رد ناگزیر ہے۔ اپنے نقطۂ نظر کے حق میں علماء کرام جو دلائل اور خدشات رکھتے ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱۔ اگر ہم نے اپنے طلبہ کو انگریزی اور جدید علوم پڑھانے شروع کر دیے تو مسجدیں اور مدرسے ویران ہو جائیں گے اور علماء کی اکثریت دفتروں اور اسکولوں میں ملازمت کرلے گی۔
۲۔ ہم پہلے ہی مانگ تانگ کر اور رو پیٹ کر گزارہ کر رہے ہیں، اگر ہم نے جدید علوم بھی پڑھانے شروع کر دیے تو لا محالہ اخراجات بڑھیں گے اور ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
۳۔ یہ حکومتوں کا کام ہے کہ وہ اس سطح کے آدمی تیار کرے۔ ہم اگر اس کام میں لگ گئے تو جو کام ہم کر رہے ہیں وہ بھی متاثر ہو گا اور کمزور ہو جائے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دلائل نہیں محض خدشات ہیں اور خدشات بھی ٹھوس نہیں محض خوف پر مبنی ہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ:
۱۔ اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ دینی مدارس کے طلبہ کے انگریزی اور جدید علوم پڑھنے سے مدرسے اور مسجدیں ویران ہو جائیں گی کیونکہ جتنے طلبہ اس وقت سالانہ دینی مدارس سے فارغ ہوتے ہیں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ سب مساجدو مدارس میں کھپ نہیں سکتے لہٰذا ان میں سے بعض دیگر شعبوں میں چلے جاتے ہیں، بعض بے روزگار رہ جاتے ہیں اور بعض جدید تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کی ایک تعداد اگر مساجد و مدارس کا رخ نہ بھی کرے تو ان شاء اللہ مسجدیں و مدارس پھر بھی آباد رہیں گے۔
۲۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے مسلم معاشرے میں مغرب کی مادہ پرستی نے خاصا غلبہ حاصل کر لیا ہے اور اعلیٰ معیار زندگی کی دوڑ، راتوں رات امیر بن جانے کا جنون، بیرون ملک جانے کا خبط، تعلیم میں کمرشل ازم کا غلبہ وغیرہ ان سارے رحجانات سے دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء کا متاثر ہونا بہت اچنبھے کی بات نہیں کہ وہ بھی بالآخر اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اس کے باوجود ان قباحتوں سے بچنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ تاہم تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ جائز ذرائع سے اپنی مالی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا کوئی جرم نہیں۔ لہٰذا دینی مدارس سے فارغ ہونے والے علماء کرام کے لیے اگر مدارس و مساجد سے ہٹ کر اچھی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونے کی کوئی صورت بنے تو اسے بالآخر مذموم کیوں سمجھا جائے؟ دین کے لیے ایثار و قربانی بوقت ضرورت بلا شبہ محمود ہے۔ ہمارے علماء کرام یہ ایثار ماضی میں کرتے آئے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے لیکن علماء کرام کے اعلی تعلیم یافتہ ہونے سے اگر موجودہ مساجد کمیٹیاں اس امر پر مجبور ہوتی ہیں کہ وہ مساجد کے ائمہ و خطباء کی تنخواہیں بڑھائیں تو یہ بھی وقت کی ضرورت ہے اور علماء کرام اس کے مستحق ہیں۔ پھر جیسا کہ ہم نے سعودی عرب میں دیکھا کہ یونیورسٹیوں کے علوم اسلامیہ کے سارے پروفیسر مسجدوں کے خطیب ہیں۔ اسی طرح کا کلچر ہمیں پاکستان میں بھی پروان چڑھانا چاہیے کہ اعلی تعلیم یافتہ علماء کرام خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہوں، مساجد کی خطابت (بلکہ امامت بھی) انہی کے پاس ہونی چاہیے۔ اس سے علماء کا وقار بھی بڑھے گا، ان کی آمدنی بھی بڑھے گی اور مساجد کا کردار بھی پہلے سے زیادہ موثر ہو جائے گا جو ہماری فوری دینی اور معاشرتی ضرورت ہے۔
۲۔ مقاصد تعلیم میں توسیع سے بلاشبہ مدارس کے اخراجات بڑھیں گے لیکن جو قوم اس وقت بھی دینی مدارس کو کروڑوں نہیں بلکہ کئی ارب روپے سالانہ امداد دیتی ہے، جب وہ دیکھے گی کہ دینی مدارس کا کردار معاشرے کے لیے زیادہ موثر اور وسیع ہوگیا ہے تو وہ یقیناًمدارس کی اضافی ضروریات بھی پوری کرے گی۔ الحمدللہ! کہ مدارس کی اکثریت معاشرے کے اعتماد کی حامل ہے اور لوگ محض ثواب کی خاطر مدارس کی امداد کرتے ہیں۔ قوم کھلی آنکھوں سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ اس لیے ہم نہیں سمجھتے کہ اگر دینی مدارس اپنے مقاصد تعلیم میں توسیع کا فیصلہ کریں تو قوم انہیں مایوس کرے گی۔
دوسری بات یہ کہ پچھلی دو تین دہائیوں میں معاشرے کے رجحان میں یہ تبدیلی محسوس کی گئی ہے کہ اب نادار لوگوں کے علاوہ (جو اپنے بچے مجبوراً دینی مدارس میں بھجواتے تھے) ، اب بعض متوسط طبقے کے اور بعض کھاتے پیتے گھروں کے بچے بھی دینی مدارس میں آنے لگے ہیں جو کسی مجبوری سے نہیں بلکہ اپنی خوشی و مرضی سے مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا اس امر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ مدارس میں ’مفت تعلیم‘ کے تصور پر بھی نظرثانی کی جائے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کے لیے باقاعدہ فیس مقرر کی جائے بلکہ درمیان کے راستے بھی سوچے جاسکتے ہیں مثلاً ایسے کھاتے پیتے والدین کو مدرسے کے وقف کی رکنیت دے دی جائے (اور ایسی رکنیت کو عام کر دیا جائے) والدین مدرسے کے آمد و خرچ سے آگاہ ہوں اور ہر ماہ یا ہر سال اپنی مالی حیثیت کے مطابق مدرسہ کے وقف کی مدد کرتے رہیں تاکہ مدرسہ کے اخراجات پورے ہوتے رہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے لہٰذا جب مدارس اپنے منہاج میں تبدیلی کریں گے تو سب متعلقہ لوگ اس پر سوچیں گے اور ذرائع آمدنی کے حصول کے لیے بھی کئی دوسرے راستے ان شاء اللہ سامنے آئیں گے اور خدانخواستہ یہ صورت نہیں بنے گی کہ دینی مدارس مالیات نہ ہونے کی وجہ سے کام بند کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں اس ضمن میں کامیاب تجربے ہوئے ہیں۔
۳۔ تعلیم خواہ دینی ہو یا دنیوی اور خواہ ابتدائی سطح کی ہو یا اعلیٰ سطح کی بلاشبہ حکومت کی، ذمہ داری ہے لیکن ہماری تیرہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ علماء نے کبھی بھی اس کے لیے حکومتوں پر انحصار نہیں کیا اور وہ معاشرے کی مدد سے کمیونٹی کو متحرک کر کے ہمیشہ مسلم عوام کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتے رہے ہیں اور مسلمان علماء و صلحا نے پرائیویٹ سیکٹر میں ہزاروں مدارس اور خانقاہیں قائم کر کے تعلیمی و تربیتی نظام کو قائم و دائم رکھا ہے۔ خود برصغیر کی تعلیمی روایت بھی یہی ہے کہ یہاں حکومتی سرپرستی سے محروم ہونے کے باوجود مسلم ملت نے دیوبند، ندوہ، علی گڑھ، جامعہ ملیہ، انجمن حمایت اسلام، اسلامیہ کالج پشاور غرض ایک پورا تعلیمی نظام اور نیٹ ورک قائم کیا اورچلایا۔ اب بھی اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو علماء کرام کو حکومت کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے اور اس کے لیے حکومت پر انحصار کرنا ہی نہیں چاہیے۔ جس طرح وہ مساجد و مدارس کے لیے حکومتی مدد کے بغیر آج تک افراد کار مہیا کرتے آئے ہیں اگر وہ ہمت کر کے اپنا دائرہ کار امت کے مفاد میں وسیع کر لیں تو وہ ان شاء اللہ اس کو بھی کامیابی سے چلالیں گے جیسے کہ ہمارے اسلاف ماضی میں کرتے آئے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی نیا کام نہیں بلکہ اسلاف کی پیروی میں سابقہ کامل و شامل تعلیمی منہج کا احیا ہی ہے۔
یہ بھی محض خدشہ ہے کہ منہج کی توسیع سے دینی مدارس کا موجودہ نظام کمزور ہوجائے گا۔ ہم دینی مدارس کے موجودہ نظام میں، جس سے مقصود دین کے متخصص عالم پیدا کرنا ہے، کسی بنیادی تبدیلی کی تجویز نہیں دے رہے بلکہ اس میں ایک خاص نوع کی توسیع کی بات کر رہے ہیں مثلاً یوں سمجھیے کہ اگر اس وقت دینی مدارس مڈل پاس طلبہ کو داخلہ دیتے ہیں جو آٹھ سال میں شہادۃ عالمیہ (علوم اسلامیہ و عربیہ میں ایم اے) کرتے ہیں تو اس سسٹم کو علی حالہ باقی رکھا جائے البتہ طلبہ کا ایک اور گروپ ہو جو ثانویہ خاصہ میں دوسرے طلبہ کے ساتھ سارے اسلامی مضامین پڑھنے کے ساتھ ایک اضافی مضمون مثلاً معاشیات کا پڑھے۔ اسی طرح عالیہ میں دوسرے اسلامی مضامین کے ساتھ وہ اسلامی معاشیات کا مضمون بھی پڑھے۔ پھر عالمیہ میں دو سال لگا کر وہ اسلامی معاشیات پڑھے (مغربی معاشیات کا تقابلی مطالعہ بھی اس کا جزو ہوگا) اور اسلامی معاشیات میں وہ شہادۃ عالمیہ حاصل کرے۔ اسی طرح انگریزی، اردو، قانون، تربیت اساتذہ، ابلاغ عامہ، فلسفہ وغیرہ میں دینی مدارس شہادہ عالمیہ کروا سکتے ہیں اور حکومت سے اپنی سند منظور کروا سکتے ہیں۔ اور حکومت کو یہ سند اصولاً خوشی سے منظور کرنی چاہیے کیونکہ اس کی تو خواہش اور مطالبہ ہی یہ ہے کہ دینی مدارس جدید تعلیم دیں۔
ہم ارباب دینی مدارس کی خدمت میں مزید عرض کرتے ہیں کہ علوم کے تین بڑے شعبے ہیں: ۱۔ دینی علوم ۲۔سماجی یا عمرانی علوم اور ۳۔ سائنسی علوم ۔علماء کرام اس وقت پہلے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ وہ دوسرے شعبے یعنی سماجی علوم میں سے بھی بعض اہم تخصصات ہاتھ میں لے لیں کیونکہ یہ علوم بھی درحقیقت اسلامی ہی ہیں کیونکہ یہ مسلم شخصیت کی تکوین میں اہم حصہ لیتے ہیں اور مسلم معاشرے کو اسلام کے مطابق چلانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں مثلاً اگر علماء کرام اچھے ذہن کے اساتذہ تیار کر یں تو وہ سارے پاکستان کی کایا پلٹ سکتے ہیں۔ اگر وہ اسلامی ذہن رکھنے والے میڈیا کے افراد تیار کر دیں تو عوام کے ذہنوں کو اسلام پر عمل کے لیے آسانی سے تیار کیا جاسکتا ہے۔ اگر وہ قانون کے شعبے کو ہاتھ میں لیں تو ایسے جج اور وکلاء تیار کر سکتے ہیں جو اسلامی فقہ اور جدید قانون میں بیک وقت ماہر ہوں گے۔ وقس علی ذلک۔ اور یہ کوئی نیا کام نہیں بلکہ یہ کام وہ پہلے ہی جزوًا کر رہے ہیں مثلاً سماجی علوم میں سے لغت، ادب، فلسفہ، منطق، قانون (فقہ) وہ پہلے ہی پڑھا رہے ہیں ہم ان میں چند ایک مضامین کے محض اضافے کی بات کر رہے ہیں اور ان میں تخصص کروانے کی بات کر رہے ہیں۔
صحیح نظام تعلیم کی اہمیت
اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم علماء کرام کی خدمت میں عرض کریں گے کہ اگر وہ غور فرمائیں تو وہ بھی ہماری طرح اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ امت زوال کے موجودہ گرداب سے اس وقت تک نہیں کل سکتی جب تک وہ اپنے نظام تعلیم کو صحیح نہیں کر لیتی اور اس کا نظام تعلیم اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے سارے نظام تعلیم کو اسلامی بنیادوں پر استوار نہیں کر لیتی اور مغرب کی ذہنی غلامی سے نجات نہیں حاصل کر لیتی۔ صحیح اسلامی نظام تعلیم سے ہماری مراد دینی مدارس کا نظام نہیں بلکہ ایک موحد نظام تعلیم ہے جس میں دینی علوم (عصری تقاضوں کے مطابق ۔۔۔ جن کا کچھ ذکر پہلے ہوچکا ) کے علاوہ دنیوی علوم کی تعلیم بھی اسلامی تناظر میں اور مغربی فکر کو رد کر تے ہوئے ، شامل ہو۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ:
۱۔ دینی علوم کی موجودہ تعلیم میں عصری ضرورتوں کے مطابق ضروری تبدیلیاں لائی جائیں۔
۲۔ سماجی علوم (معاشیات، سیاسیات، قانون، ابلاغ عامہ، فلسفہ، تاریخ وغیرہ) از سرنو اسلامی بنیادوں پر مرتب کیے جائیں۔
۳۔ سائنسی علوم (کیمیا، طبیعیات، حیاتیات، علم الافلاک وغیرہ) اور ٹیکنالوجی کو اسلامی ذہن کے ساتھ فروغ دیا جائے۔
اس کے ساتھ ہی اسلامی تناظر میں اساتذہ کی تدریب اور طلبہ کی تربیت کا انتظام کیا جائے اور تعلیمی اداروں کے ماحول کو بدلا جائے۔
مندرجہ بالا کام انتہائی مشکل اور وسیع کام ہے اور اس کے لیے وسیع مادی وسائل اور اسلامی ذہن کی بہترین افرادی قوت درکار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہماری مغرب کی گماشتہ حکومتوں کو یہ کام کرنے کا احساس نہیں تو کیا پرائیویٹ سیکٹر خصوصاً علماء کرام بھی اس کے لیے متحرک نہ ہوں اور وہ ٹھنڈ سے پیٹوں برداشت کرتے رہیں کہ قوم جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی اور زوال کے گڑھے میں ڈبکیاں کھاتی رہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ بہرحال دینی مدارس کے اہل حل و عقد کو اس کام کے کرنے کا دوسروں سے بڑھ کر احساس ہونا چاہیے اور اگر وہ اس کی اہمیت کا ادراک کر لیں تو یقیناًقوم اس کام کے کرنے میں ان کا ساتھ دے گی۔ ہم کہتے ہیں کہ چلیے وہ اس سارے پراجیکٹ میں ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو کم از کم ان چند مضامین کی کتب ہی نئے سرے سے مدون کر لیں جنہیں وہ اپنے طلبہ کو میٹرک، ایف اے اور بی اے میں پڑھانا چاہتے ہیں اور اپنے نظام میں عصری ضرورتوں کے مطابق وہ چند تبدیلیاں ہی کر لیں جن کی طرف سطور بالا میں ان کی توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔ ھذا ما عندنا والعلم عند اللہ۔