(۱)
مکرمی و محترمی مدیر الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ستمبر کے شمارے میں آپ نے محمد یوسف صاحب کی ایک تحریر شائع کی جو ’ترجمان القرآن‘ میں شائع نہیں کی گئی تھی۔ مدیر کی حیثیت سے آپ اپنے فیصلے میں آزاد تھے، تاہم کچھ عرض ہے۔
ایک مدیر کی حیثیت سے یقیناًآپ کو ایسے افراد سے سابقہ پیش آتا ہوگا جو کسی رسالے کو کچھ لکھ کر بھیجتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ایسی چیز لکھ دی ہے جو رسالے کو لازماً شائع کرنی چاہیے۔ جب شائع نہ ہو تو وہ اپنی تحریر پہ غور نہیں کرتے، بلکہ مدیر کو قصور وار اور مجرم قرار دیتے ہیں۔ جب تحریر کی نوعیت جوابی ہو اور شائع نہ ہو تو وہ سمجھتے ہیں کہ رسالے کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں، ان کی بات اتنی مدلل اور مسکت ہے۔ ایک وکیل کی حیثیت سے محمد یوسف صاحب کو جاننا چاہیے کہ بالکل کیس نہ ہو، جب بھی تفصیلی بلکہ دلیل کی کمی پوری کرنے کے لیے زیادہ تفصیلی جواب دیا جاتا ہے۔
بہت صاف بات تھی جو آپ کو سمجھنا چاہیے تھی۔ ’ترجمان‘ اس موضوع پر بحث نہیں چلانا چاہتا تھا، اس لیے چار صفحے کی یہ تحریر شائع نہیں کی۔ اگر آپ دلچسپی رکھتے تھے تو انصاف کا تقاضا تھا کہ لیاقت بلوچ صاحب کا اصل مضمون بھی مکمل شائع کرتے جس پر یوسف صاحب کو یہ ابال آیا۔ یوں آپ کے قارئین کی حق تلفی نہ ہوتی۔
تاخیر اس لیے ہوئی ہے کہ میرا پہلا رد عمل یہ تھا کہ کوئی رد عمل نہ دوں، لیکن پھر سوچا کہ مدیر ہونے کے ناتے کچھ حق نصیحت ادا کرنا دینی فریضہ ہے، وہ تو ادا کر دوں۔
مسلم سجاد
نائب مدیر ماہنامہ ’ترجما ن القرآن‘
۵۔اے، ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور
(۲)
محترم مدیر ماہنامہ الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
’الشریعہ‘ کے اگست ۲۰۰۶ کے شمارے میں مولانا حافظ محمد یوسف صاحب کا مضمون ’’دین کی جامعیت اور ہمارا عمومی مذہبی رویہ‘‘ پڑھنے کو ملا۔ ماشاء اللہ تعریف کے پردے میں تنقید کا اچھا انداز ہے۔ حافظ صاحب سے گزارش ہے کہ ہر موضوع پر اظہار خیال کے لیے رسائل وجرائد کا سہارا لینا مناسب نہیں ہوتا۔ اس میں اگر چند خوبیاں ہوتی ہیں تو کئی جہتوں سے دین کا نقصان ہوتا ہے۔ تبلیغ کا کام اب کسی محلے تک محدود نہیں کہ اس کو کسی رسالے میں مضمون لکھ کر ترقی یا تنزل کی طرف موڑا جا سکے۔ تبلیغ کے کام میں خوبیاں غالب ہیں اور خامیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو خامیاں ہیں، وہ انفرادی ہیں، اجتماعی نہیں۔ اور انفرادی بھی اس سطح کی نہیں کہ ان پر گرفت کرتے ہوئے آدمی کا قلم اتنی دور نکل جائے۔
جناب حافظ صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت مفتی زین العابدین صاحبؒ استاذی المکرم مولانا سرفراز صفدر مدظلہ کے پاس دوران سبق حاضر ہوئے اور یوں فرمایا کہ تبلیغ کا کام فرض عین ہو چکا ہے، جس پر حضرت نے فرمایا کہ آپ سے اس بات کی توقع نہیں تھی تو حضرت مفتی صاحب خاموش ہو گئے۔ گزارش ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے یہ بات کس انداز سے فرمائی ہوگی اور حضرت شیخ صاحب نے کیا جواب دیا ہوگا اور مفتی صاحب مرحوم کی خاموشی کا انداز کیا ہوگا، یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال آپ کا اس واقعے کو نقل کرنا مناسب نہیں۔ تبلیغ کا کام فرض کفایہ ہے یا فرض عین، یہ ایک علمی بحث ہے۔ اگر فرض کفایہ ہی کا درجہ ہے تو بھی میں اور آپ یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے سبک دوش نہیں ہو سکتے کہ یہ فرض کفایہ ہے۔ ہم سب کو یہ کام کم از کم اتنی محنت سے ضرو رکرنا چاہیے کہ امت کا ہر فرد یہ جان لے کہ یہ کام فرض کفایہ کا درجہ رکھتا ہے اور میں اس کو زندگی میں ایک مرتبہ ضرور کروں گا۔
دوسری بات جو آپ نے فرمائی کہ ایک صاحب کو کتاب ’’اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ دی گئی اور اس پر جماعت کے امیر صاحب نے اعتراض کیا تو عرض یہ ہے کہ یہ بات بھی اول تو نقل کرنے کی نہیں تھی، دوسرے یہ کہ یہ ہماری اپنی کمزوری اور نادانی ہے کہ جس آدمی کو ہم کوئی کتاب دیتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ اس میں کتاب سمجھنے کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں۔ کیا آپ درجہ متوسطہ کے کسی طالب علم کو اونچے درجے کی کتاب دے سکتے ہیں؟ جماعت کے عام احباب کے لیے فقط ’’فضائل اعمال‘‘ اور ’’فضائل صدقات‘‘ ہی مناسب ہیں اور ان کے ساتھ علماے کرام کا قریبی تعلق ازحد ضروری ہے۔
ایک واقعے پر بات کو ختم کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ رائے ونڈ میں حاجی عبد الوہاب صاحب کا عربوں میں بیان تھا تو بیان کے دوران میں ایک نوجوان عربی کھڑا ہوا اور یوں گویا ہوا جیسے کوئی جارح کسی پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس نے بڑی سخت زبان استعمال کی اور تبلیغ کے کام پر خوب اعتراض کیے۔ حاجی صاحب نے سن کر جواب دیا کہ ایک مصور نے تصویر بنا کر چوک میں لٹکا دی اور نیچے لکھا کہ اس میں غلطیوں کی نشان دہی کریں۔ شام کوگیا تو دیکھا کہ تصویر کا حشر نشر ہو چکا ہے۔ بہت پریشان ہوا۔ پھر اسے خیال آیا اور اس نے ایک نامکمل اور ادھوری تصویر بنا کر اسی چوک میں لٹکا دی اور نیچے لکھا کہ اس کو مکمل کر دیں۔ شام کو دیکھنے کے لیے گیا تو تصویر جوں کی توں موجود تھی۔ پس بات یہ ہے کہ کسی کام میں غلطیاں تو ہم سب کو نظر آتی ہیں لیکن ہمارا اپنا حال اس پٹھان والا ہے کہ ’’خوچہ، کلمہ تو ہم کو بھی نہیں آتا۔‘‘
قاری شجاع الدین
ٹھاکر میرا۔ پڑہنہ۔ مانسہرہ