انسانی زندگی گونا گوں پہلووں سے عبارت ہے اور ان تمام پہلووں پر تاریخ کی بسیط چادر تنی ہوئی ہے ۔ صرف اسی ایک فقرے کو بغور دیکھیے کہ اس کے دو ٹکڑے ہیں۔ ’’ اور ‘‘ نے ان ٹکڑوں میں ربط اور معانی پیدا کیے ہیں ۔ اگر ’’ اور ‘‘ کے بعد والا ٹکڑا بے معنی ہے تو اس کا ذمہ دار ’’ اور ‘‘ سے پہلے والا ٹکڑا ہے کیونکہ اس کی بنیاد پر ہی دوسرے ٹکڑے کی تخلیق ممکن ہوئی ہے ، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دوسرا ٹکڑا ’’ تخلیق ‘‘ ہوتے ہوئے بھی، پہلے ٹکڑے سے الگ، اپنی ذات میں کوئی آزاد معنی نہیں رکھتا ۔ اسی طرح اگر ’’ اور ‘‘ کے بعد والا ٹکڑا ہمیں نئے مفاہیم سے روشناس کراتا ہے تو اس کا کریڈٹ بھی اصلاً ’’اور ‘‘ سے پہلے والے ٹکڑے کو ملنا چاہیے کہ اس نے بہت فراخی سے بامعنی بنیاد فراہم کی ہے۔ یہ صورتِ حال صرف اسی فقرے یا مجموعی طور پر کسی بھی تحریر کے لیے مخصوص نہیں ہے ، بلکہ اس کا دائرہ کار گفتگو اور اعمال تک پھیلا ہوا ہے ۔مثلاً ، اگر کوئی فر د دورانِ گفتگو میں ، اپنے ہی بیان کیے ہوئے نکات بھول جائے تو خالی الذہن ہونے اور بے بنیاد ہو جانے کے باعث اس کی آئندہ گفتگو مجہول اور انتہائی بے معنی ہو جائے گی ۔ اگر کوئی فرد، بھول اور نسیان کا شکار نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود اس کی بات دانش و حکمت سے تہی اور بے معنی معلوم ہو تو سمجھ لیا جانا چاہیے کہ اس کی گفتگو کی بنیاد ہی انتہائی ناقص ہے اور اس ناقص بنیاد پر وہ کوئی حکیمانہ نکات اٹھانے سے معذور اور قاصر ہے۔ یہی بات فرد کے اعمال کی بابت بھی سچ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی زندگی کا ’’حال‘‘ اپنے ماضی سے جدا اور الگ وجود نہیں رکھتا۔ اپنے متصل ماضی کے ساتھ حال کا گہرا اور با معنی تعلق ہوتا ہے۔ ماضی کے ساتھ اسی تعلق اور تعلق کی نوعیت سے انسانی زندگی کے ’’حال‘‘ کی نہ صرف تعمیر ممکن ہوتی ہے بلکہ حال کے رخ اور سمت کا تعین بھی ماضی سے ہوتا ہے ۔
اگر مذکورہ گفتگو پر گہری نظر ڈالی جائے تو انسانی زندگی کے دو پہلو نمایاں ہو جاتے ہیں : (۱) حافظہ ، جس کا معکوس بھول اور نسیان ہے ۔ (۲) معقول بنیاد، جس کا معکوس ناقص اور لایعنی بنیاد ہے ۔ اب اگر انہی نکات کو توسیع دیتے ہوئے، گروہی زندگی پر منطبق کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ گروہی زندگی کے اعمال، گفتگو اور تحریری سرمایے کے معیار و ساخت میں ’’حافظے اور معقول بنیاد‘‘ کی حیثیت کلیدی ہے۔ جہاں تک حافظے کا تعلق ہے، کسی گروہ کی تاریخ اس کا حافظہ ہے اور معقول بنیاد اس کی تاریخ کا سرِ آغاز ہے ( اگر وہ دستیاب ہو سکے ) ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ گروہی زندگی کے اعمال ، گفتگو اور تحریری سرمائے میں اگر کوئی گڑ بڑ پائی جائے تو موردِ الزام ، تاریخ ( اور سرِ آغازِ تاریخ) کو ہی ٹھہرایا جانا چاہیے، کیونکہ اس کے پیچھے یہی عوامل کار فرما ہیں۔ اسی طرح اگر گروہی زندگی کے اعمال مثبت جہات لیے ہوئے ہیں، گفتگو میں ادب آداب اور شائستگی کے اسالیب مستور ہیں اور تحریری کاوشیں حسن وخوبصورتی اور تخیل آفرینی کی بوقلمونی سے مالا مال ہیں تو اس کا کریڈٹ بھی ’’تاریخ اور سرِ آغازِ تاریخ ‘‘ کو دیا جانا چاہیے۔
اب اگر ہم دنیا کی مختلف تہذیبوں کی گروہی زندگی پر سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ان کے ’’حال‘‘ کی تعمیر و بنیاد کے پیچھے ان کا اجتماعی حافظہ (تاریخ) کارفرما ہے ۔ مغرب کی موجودہ مادی ترقی اور سیکولر اخلاقیات، صنعتی انقلاب کی مرہونِ منت ہے اور صنعتی انقلاب کے پیچھے روشن خیالی کی تحریکات جیسے ٹھوس عوامل موجود ہیں۔ اب اکیسویں صدی کا مغرب، اگر دنیا کی راہنمائی کرنے کی استعداد رکھتا ہے تو اس کا کریڈٹ بجا طور پر اس کی تاریخ اور اس کے سرِ آغازِ تاریخ کو ملنا چاہیے۔ یہ نکتہ اگرچہ قابلِ بحث ہو گا کہ مغرب کا سرِ آغازِ تاریخ کیا ہے؟ اپنے موضوع کے بنیادی نکتے پر توجہ مرکوز رکھنے کی خاطر ہم یہاں اس بحث سے صرف نظر کریں گے۔ لیکن اگر مغرب دنیا کی راہنمائی کرنے کا ’’ دعویٰ ‘‘ کرتا ہے اور دنیا کی دیگر تہذیبیں اس کے دعوے کی بابت تحفظات رکھتی ہیں تو ان تحفظات کی ضرب، مغربی تہذیب کے حال کے بجائے اس کی تاریخ پر پڑنی چاہیے کیونکہ اس کے حالیہ دعوے کی بنیاد اس کی اپنی تاریخ پر ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ کیا مغرب کا دعویٰ مکمل طور پر غلط ہے یا اس میں کہیں کہیں سچائی کی لہریں بھی بل کھاتی دکھائی دیتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ مغرب کا تہذیبی برتری کا دعویٰ مکمل طور پر غلط نہیں ہے کیونکہ اس کی بعض تہذیبی اقدار ایسی مثبت جہات کی حامل ہیں جن کے متعلق دیگر تہذیبوں نے انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کی۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ مغربی تہذیب کی بنیاد ( یعنی اس کی تاریخ اور سرِ آغازِ تاریخ ) مکمل طور پر اگرچہ لایعنی اور منفی نہیں ہے، لیکن مکمل طور پر بامعنی اور مثبت بھی نہیں ہے ۔
اب ہم ایک دوسری تہذیب کی گروہی زندگی پر سرسری نظر ڈالیں گے جسے ’اسلامی تہذیب‘ کہا جاتا ہے ۔ اس تہذیب کی صورتِ حال انتہائی عجیب و غریب ہے۔ یہ تہذیب ایک طرف داخلی و خارجی اعتبار سے ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کا شکار ہے تو دوسری طرف دنیا کی راہنمائی کرنے کی بھی دعوے دار ہے۔ مذکورہ بالا اصول کے مطابق، اس کی اس متضاد حالت کی بنیاد اس کی اپنی تاریخ میں مضمر ہے۔ اس تہذیب کی تاریخ دو عملی پر مشتمل ہے جو متوازی اور یکساں طور پر اس کے حال پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ’’ دو عملی ‘‘کیا ہے ؟ ہماری رائے میں اس تہذیب کے حال کی بنیاد میں ایک طرف ’’ تاریخی اسلام ‘‘ کارفرما ہے اور دوسری طرف ’’ دینِ اسلام ‘‘ اس کے حال کی تعمیر کر رہا ہے۔ اس لیے مذکورہ دو عملی یا اس کے حال میں موجود تضاد، حقیقت میں تاریخی اسلام اور دینِ اسلام کی باہمی آویزش کا نتیجہ ہے۔ یہاں یہ نکتہ البتہ قابلِ بحث ہے کہ کون سا اسلام اس تہذیب کی ٹوٹ پھوٹ کا ذمہ دار ہے اور کون سا اسلام اس کے راہنمائی کے دعوے کے پیچھے کارفرما ہے ۔ سرِ دست ہم اس نکتے پر بحث نہیں کریں گے ۔
جہاں تک اسلامی تہذیب کے ’’ حال‘‘ کی تعمیر کرنے والی تاریخ کے تعین کا تعلق ہے، وہ حال کی متضاد صورتِ حال سے متعین ہو کر، دو عملی کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ یہاں منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو عملی کی صورتِ حال کیونکر پیدا ہوئی؟ اس سوال کا ایک سطری جواب یہ ہے کہ تاریخی اسلام (Historical Islam) کو دینِ اسلام کے متوازی اور یکساں مقام سے نواز اگیا، شاید (بلکہ یقینا) دینِ اسلام سے بھی بڑھ کر مقام دیا گیا۔ اب اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخی اسلام (Historical Islam) سے کیا مراد ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مختلف زمانوں، مختلف خطوں، مختلف ثقافتوں، مختلف اداروں اور مختلف افراد کی تعبیرات و تشریحات اور تاریخی عمل (Historical Process) وغیرہ سے درجہ بدرجہ اسلام کی جو صورت سامنے آتی رہی، وہ صورت زمانی ترتیب سے ارتقا پذیر ہوتے ہوئے تاریخی اسلام (Historical Islam) کی تشکیل کا باعث بنی۔ یہ تعبیرات و تشریحات اور تاریخی عمل وغیرہ ، اگرچہ کہیں کم کہیں زیادہ ، دینِ اسلام سے مَس کرتے ہیں، لیکن ان کی بنت و بافت میں کلیدی حصہ ، زمانی و مکانی عْرف اور افراد کے فہم کا ہے ۔ یہ بات بحث طلب نہیں ہے کہ زمانی و مکانی عْرف نہ صرف تغیر پذیر رہتا ہے بلکہ افراد کے فہم کی تشکیل میں بھی اس کا بنیادی کردار ہوتا ہے ، لہٰذا افراد کا فہم بھی غیر متغیر اور ابدی نہیں رہتا۔ اب ذرا غور کیجیے کہ اگر اسلامی تہذیب کسی بھی زمانے میں اور کسی بھی خطے میں اپنا ’’حال‘‘ تاریخی اسلام (Historical Islam) کی بنیادپر تعمیر کرے گی تو اس کا کیا نتیجہ برآمد ہو گا؟ ظاہر ہے، اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ کسی مخصوص زمانی و مکانی عْرف کو زبردستی اس تہذیب کے حال پر مسلط کیا جائے گا اور حال کے زمانی ومکانی عْرف سے صرفِ نظر کیا جائے گا، اقدار کے آفاقی، کلی اور ابدی نظام کے بجائے کسی ( زمانے یا شخص) کے فہمِ اسلام کو (جو ابدی نہیں ہو سکتا، بلکہ اضافی اور تغیر پذیر ہوتا ہے) ابدی گردانتے ہوئے اسلامی تہذیب کے حال پر منطبق کیا جائے گا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاصر اسلامی تہذیب کی تعمیر میں تاریخی اسلام (Historical Islam) کے بنیادی کردار اور تاریخی اسلام کی منفیت نے اس تہذیب کے ’’حال‘‘ کو المیے سے دوچار کر دیا ہے۔ اسلامی تہذیب کے ’’حال‘‘ کی بنیادوں میں اب کہیں تصوف کی روایات ہیں، کہیں ائمہ اربعہ و جمہور فقہا کی فنی موشگافیاں ہیں اور کہیں بادشاہوں و سلاطین کی وہ پالیسیاں ہیں جن پر اسلامیت کا ٹھپہ لگایا گیا۔ ان تمام سلسلوں کا تعلق، حقیقت میں تاریخی اسلام (Historical Islam) کے ساتھ ہے، جبکہ دینِ اسلام کا وجود ان سے الگ تھلگ قائم ہے ۔
اب اس سوال کو لیجیے کہ اسلامی تہذیب، مغربی تہذیب (اور دیگر تہذیبوں) سے کن معنوں میں مختلف ہے ؟ کیونکہ اسلامی تہذیب کے حال کی تعمیر، دیگر تہذیبوں کے مانند، اپنی تاریخ پر ہوئی ہے، اس لیے لامحالہ ہمیں اسلامی تہذیب کے حال کی تعمیر کرنے والی اس تاریخ کا سراغ لگانا ہو گا جو تاریخ ہوتے ہوئے بھی تاریخ کے روایتی تصور سے مختلف اور ممتاز ہو ۔ اب اگر تاریخی اسلام (Historical Islam) کو اسلامی تہذیب کے حال کی بنیاد تسلیم کر لیا جائے (اور وہ حقیقتاً ہے بھی) تو پھر دیگر تہذیبوں سے اسلامی تہذیب کو ممیز کرنا تقریباً نا ممکن ہو جائے گا۔ اگرچہ اس نکتے کی صراحت ضروری معلوم ہوتی ہے، لیکن طوالت سے بچنے کی خاطر ہم فقط یہی کہنے پر اکتفا کریں گے کہ تاریخی اسلام (Historical Islam) اور دیگر تہذیبوں کی تاریخ (History) کے مابین ساختیاتی اعتبار سے کوئی بنیادی فرق قائم کرنا مشکل کام ہے، کیونکہ ہر دو کے ہاں تاریخی ارتقا (Historical Evolution) کا اصول کارفرما ہے ۔ جب کوئی اصولی اور بنیادی فرق موجود ہی نہیں ہے تو پھر ہر دو تہذیبوں کے حال کا فرق اور ایک دوسرے پر برتری کا دعویٰ بھی غیر اہم اور بے معنی ہو جاتا ہے ۔ یہاں منطقی طور پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلامی اور غیر اسلامی تہذیبوں کے درمیان کوئی اساسی فرق موجود نہیں ہے تو پھر مغربی تہذیب خوشحالی اور ترقی کی شاہراہ پر کیوں گامزن ہے ؟ اور اسلامی تہذیب انحطاط و زوال کا کیونکر شکار ہے؟ اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ جس طرح آج کی مغربی تہذیب اپنے متصل ماضی سے منسلک ہے، اسی طرح اسلامی تہذیب بھی اپنے متصل ماضی سے جدا نہیں ہے۔ متصل ماضی سے تعلق کا یہ اصول دونوں تہذیبوں کو اساسی اعتبار سے یکساں قرار دیتا ہے ، لیکن ظواہر میں فرق اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ تاریخی ارتقا کے دوران میں تاریخی عوامل کے مقابل میں اپنایا گیا رویہ دونوں تہذیبوں کے ہاں منفرد اور جدا جدا رہتا ہے۔ یکساں تاریخی عوامل کے مقابل میں دونوں تہذیبوں نے کس قسم کے رویے کا اظہار کیا اور منفرد تاریخی عوامل کے مقابل میں کیا طرزِ عمل اختیار کیا؟ یہ ایک طویل بحث ہے اور سرِ دست ہمارے بنیادی موضوع سے خارج ہے ۔
بہرحال، موجودہ زمینی حقائق کے مطابق اسلامی تہذیب کا مذکورہ داخلی تضاد اسے مغربی تہذیب (اور دیگر تہذیبوں) سے ممیز کرتا ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا، یہ تضاد یا دو عملی، بنیادی طور پر تاریخی اسلام اور دینِ اسلام کی باہمی آویزش کا نتیجہ ہے ۔ ہم یہ کہنے کی جسارت تو نہیں کر سکتے کہ اپنے آغاز سے لے کر دورِ حاضر تک یہ تہذیب ’’دو عملی‘‘ کا شکار رہی ہے، لیکن یقیناًپچھلی کئی صدیوں سے یہ دو عملی ایک تہذیبی قدر کی صورت اختیار کر چکی ہے۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کے ’’حال‘‘ کی تعمیر میں ایک طرف ( تاریخی جبر سے ماورا) دینِ اسلام کی آفاقی اقدارسر گرمِ عمل ہیں، مثلاً صبر ، شکر ، ایثار ، عدل، احسان، رحم دلی، خیر خواہی، تقویٰ، دیانت، امانت، ایفائے عہد، اخلاص، تواضع، شرم و حیا، توبہ و استغفار اور توکل علی اللہ وغیرہ، اور دوسری طرف اس تہذیب کا ’’حال‘‘ تاریخی اسلام (Historical Islam) کی جولان گاہ بنا ہوا ہے ، مثلاً بے صبری، عجلت، ناشکری، خود غرضی، ظلم، بد خواہی، بے خوفی، بد دیانتی، خیانت، عہد شکنی، بغض و عناد، ریا، خود ستائی، غصہ، بے حیائی، لہوو لعب، غرور و تکبر، حسد، بہتان، جھوٹ، رشوت خوری اور بد اخلاقی وغیرہ جیسی اقدار اس تہذیب کے عملی احوال کی نمائندہ بن گئی ہیں۔ ہمیں اعتراف کر لینا چاہیے کہ اسلامی تہذیب کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جھوٹ، ملاوٹ، رشوت خوری اور بد دیانتی جیسی منفی اقدار سرایت کر گئی ہیں، کیونکہ یہ اعتراف اس حقیقت کی نفی نہیں کرتا کہ اس تہذیب کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے کہیں کونے کھدرے میں سچ، خلوص، دیانت اور صبروشکر جیسی آفاقی اور غیر متغیر اقدار بھی سر اٹھاتی رہتی ہیں۔ یہ صورتِ حال ایک ایسی تہذیبی قدر کو جنم دیتی ہے جسے ہم نے دو عملی یا تضاد کا نام دیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہی تضاد ، داخلی اعتبار سے اسلامی تہذیب کے لیے اور خارجی اعتبار سے عالمِ انسانیت کے لیے، مثبت جہات کا اشاریہ بن گیا ہے ۔ خیال رہے کہ یہ تضاد بنیادی طور پر دینِ اسلام کا پیدا کردہ ہے، اس کے بر عکس تاریخی اسلام (Historical Islam) اسلامی تہذیب کی انفرادی و گروہی زندگی کو ( دیگر تہذیبوں کی تاریخ کے مانند) تاریخی جبر کا مطیع کرنے پر تلا ہوا ہے ۔
بحث کے اس مقام پر اب واضح ہو رہا ہے کہ اصولی اعتبار سے، اسلامی تہذیب کے حال کی تعمیر کرنے والی تاریخ، مغربی تہذیب (اور دیگر تہذیبوں) کے حال کی تعمیر کرنے والی تواریخ سے کن معنوں میں مختلف ہے ۔ اس بنیادی نکتے کی تنقیح سے نہ صرف اسلامی تہذیب کی دو عملی یا تضاد کو ختم کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے قدری نظام کو بھی ساختیاتی اعتبار سے دیگر تہذیبوں سے ممتاز کیا جا سکتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی زمانے اور کسی بھی خطے میں اسلامی تہذیب کے حال کو تعمیر کرنے والی تاریخ، دینِ اسلام ہونا چاہیے۔ دینِ اسلام سے مراد تاریخی اسلام نہیں، بلکہ قرآن و سنت ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ اسلامی تہذیب اپنے حال کی تعمیر میں، مغربی تہذیب (اور دیگر تہذیبوں) کے بر خلاف زمانی ارتقا پر مبنی تاریخ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی، کیونکہ ایسی تاریخ میں اگرچہ کچھ نہ کچھ حکمت و دانش کے اسرار و رموز پوشیدہ ہو سکتے ہیں، لیکن یہ اسرار و رموز، تاریخی عمل میں انسانی کردار کے مختلف اسالیب کا اظہار ہونے کی وجہ سے، ابدی صداقتوں اور غیر متغیر جہات کے حامل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے ان کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا کوئی بھی ’’حال‘‘ اپنی ساخت کے لحاظ سے ناقص اور یک رخا ہی ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب اپنے ’’حال‘‘ کی تعمیرتاریخی اسلام کے بجائے ہمیشہ دینِ اسلام کی بنیاد پر قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ( موجودہ دو عملی یا تضاد اسی کوشش کا اظہار ہے) یہاں ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب کے حال کی تعمیر کرنے کے اعتبار سے دینِ اسلام، تاریخی اسلام اور دیگر تہذیبوں کی تاریخ سے کن معنوں میں مختلف ہے؟ اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کا غیر متغیر انداز میں، کئی صدیوں سے سندِ مسلسل کے ساتھ ہم تک پہنچنا، اسے دیگر تاریخی بنیادوں (تاریخی اسلام وغیرہ) سے نہ صرف بہت ممتاز کر دیتا ہے بلکہ انتہائی ٹھوس انداز میں آشکارا کر دیتا ہے کہ قرآن مجید، تاریخی عمل میں انسانی کردار کے مختلف اسالیب کا اظہار نہیں ہے، یعنی تاریخ کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ تاریخ کو درست سمت میں گامزن کرنے کا ایک مستقل ذریعہ ہے۔ اس کے بر عکس ، تاریخی اسلام و دیگر تہذیبوں کی تواریخ ، حقیقت میں تاریخ کی پیداوار ہیں، اس لیے متغیر اور غیر ابدی ہیں۔ اب ذرا غور کیجیے کہ جو نام نہاد بنیاد، خود تاریخ کی پیداوار ہو، وہ کسی ایسے حال کی تعمیر کیونکر کر سکتی ہے جو تاریخی جبر سے ماورا ہو؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اسلامی تہذیب کے حال کی تعمیر میں سے دینِ اسلام کے کردار کو منہا کر دیا جائے تو نہ صرف اسلامی تہذیب بلکہ عالمِ انسانیت بھی تاریخی قوتوں کی اس طرح مطیع ہو جائے گی جس طرح کسی مشین کے کل پرزے ہوتے ہیں ۔
یہاں پر یہ دلچسپ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا قرآن مجید، جو دینِ اسلام کی بنیاد ہے، خود تاریخ کی پیداوار نہیں ہے؟ یہ سوال بلاشبہ بہت منطقی اور بر محل معلوم ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے تاریخ کی پیداوار ہونے کے دو نمایا ں پہلو ہو سکتے ہیں : (۱) قرآن مجید، اپنے سے قبل کی تاریخ کا نتیجہ ہے۔ (۲) قرآن مجید، اپنے نزول کے زمانے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے، اس کا جواب خدا، رسول، ملائکہ اور آخرت وغیرہ جیسے مباحث کے بغیر ادھورا اور نامکمل رہے گا۔ چونکہ یہ مباحث سرِ دست ہمارے موضوع سے خارج ہیں، اس لیے اتنا عرض کرنا کفایت کرے گا کہ قرآن مجید کا اعجاز پہلے سوال کی نفی کردیتا ہے اور پھر قرآن مجید کے بعد کی تاریخ میں کسی ایسی ہی کتاب کی عدم موجودگی، جو اس تاریخی سلسلے کو جاری و ساری رکھتی، اس امر پر دال ہے کہ قرآن مجید، تاریخ کی پیداوار نہیں ہے۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے، وہ قدرے اہم معلوم ہوتا ہے کیونکہ خود مسلم مفسرین، مکی ومدنی آیات کی تقسیم اور شانِ نزول وغیرہ پر خاصا زور دیتے ہیں جس سے یقیناًقرآن مجید اپنے نزول کے زمانے اور حالات سے مخصوص ہو جاتا ہے۔اس کے باوجود ایک اہم نکتہ قرآن مجید کو اس کے نزول کے سیاق سے بالاتر کرکے اس کی ابدیت پر مہرِ تصدیق ثبت کردیتا ہے۔ مسلم مفسرین کی آرا اپنی جگہ اہم ہو سکتی ہیں، لیکن نبی پاک ﷺ کے زمانے میں ہی قرآن مجید کی ترتیب کا بدل دیا جانا اور اس بدلی ہوئی ترتیب کے ساتھ قرآن مجید کا ہم تک پہنچنا ، قرآن مجید کو اپنے نزول کے زمانے اور ضروریات سے ماورا کر دیتا ہے۔ ( مزید تفصیل کے لیے ماہنامہ الشریعہ اگست ۲۰۰۶ میں ہمارا مضمون ’’ معاصر تہذیبی تناظر میں مسلم علمی روایت کی تجدید‘‘ ملاحظہ کیجیے) ۔
ابتدائی سطروں میں ہم نے ’’حافظے اور معقول بنیاد ‘‘ کی بات کی تھی اور گزارش کی تھی کہ کسی قوم یا تہذیب کا حافظہ ، اس کی تاریخ ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ہی اس کے حال کی تعمیر ہوتی ہے۔ تاریخ سے کٹ کر کوئی قوم یا تہذیب ، اپنے حال کی تعمیر کر ہی نہیں سکتی۔ غور طلب مقام ہے کہ اسلامی تہذیب کی تا ریخ ، یعنی دینِ اسلام کی ثقاہت وابدیت کا کوئی دوسری تہذیب مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس تہذیب کے حال کی تعمیر کرنے والی یہ قوت یعنی دینِ اسلام اٹکل پچو نہیں ۔ یہ نہ صرف تاریخی عمل کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ اس میں زمانی و مکانی آلایشوں کی شمولیت کا ایک فی صد بھی امکان نہیں ہے ، حالانکہ مغربی تہذیب (اور دیگر تہذیبوں کی تاریخ) کا اس نقص سے بچ نکلنا نا ممکن امر ہے۔ایک طرف حفظِ قرآن کی روایت ہمیں بے تاریخ ہونے کے کسی بھی خدشے سے بے نیاز کر دیتی ہے اور دوسری طرف علمِ حدیث میں تعدیل و جرح کے اصول ، خود تاریخ کو کسی بھی قسم کے بگاڑ کا شکار ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ اگر مسلمان ہونے کی حیثیت سے بات کی جائے تو وہ تاریخ ، جس کی بنیاد پر (ہر زمانے اور ہر خطے میں) اسلامی تہذیب کے حال کی تعمیر ہونی ہے، اس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے اٹھایا ہو تو وہ کیونکربگاڑ کا شکار ہوکر اس تہذیب کے حال کی غلط تعمیر کر سکتی ہے؟ بلاشبہ اسلامی تہذیب کو اپنے حال کی تعمیر کے لیے، دنیا کی کسی بھی تہذیب سے بہت بڑھ کر ، بہت ہی مضبوط، ٹھوس اور پائیدار بنیاد حاصل ہے جو تاریخی جبر سے ماورا ہے ۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس تہذیب کی تاریخ کا سرِ آغاز بھی انتہائی بامعنی ہے : ’الست بربکم‘ (اعراف ۷: ۱۷۲)
بہر حال ، جب دینِ اسلام کو اسلامی تہذیب کے ’’حال ‘‘کی بنیاد تسلیم کر لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاریخی اسلام (Historical Islam) کا کیا مقام ہے؟ اگر دیگر تہذیبوں کی تواریخ صرف منفی اقدار کو جنم نہیں دیتیں توکیا تاریخی اسلام (Historical Islam) صرف منفی اقدار کا حامل ہے؟ یقیناًنہیں،کیونکہ تاریخی ارتقا (Historical Evolution) اور تاریخی عمل کے دوران میں دینِ اسلام کا کردار ہمیشہ موجود رہا ہے ، چاہے یہ بہت بنیادی نوعیت کا ہو جس طرح ہمارے اسلاف کے ہاں تھا، یا یہ دوعملی یا تضاد پیدا کرنے تک محدود ہو، جس طرح معاصر اسلامی تہذیب میں کارفرما ہے۔ تو کیا پھر غزالیؒ ، ابن تیمیہؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، ائمہ اربعہ، جمہور فقہا اور صوفیا کرام ؒ وغیرہ کا ہماری تہذیب کے ’’حال‘‘ کی تعمیر میں کوئی کردار ہو سکتا ہے؟ہماری نظر میں ان کا کردار ’’پیشوائیت‘‘ والا ہرگز نہیں ہے جیسا کہ عملی طور پرتسلیم کر لیا گیا ہے۔ ہماری تہذیب کے ’’حال‘‘ کے ساتھ ان کا تعلق ’’ہم سفری‘‘ کا ہے ۔ وہ ہمارے ہم سفر ہیں اور ہم ان کے ہم سفر ہیں، ہم ایک دوسرے کے پیشوا ہرگز نہیں ہیں۔ ہم سفری کے اثبات اور پیشوائیت کی نفی کی یہ منطق بظاہر عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ دو مختلف زمانوں میں ہوتے ہوئے ہم لوگ کیسے ہم سفر ہو سکتے ہیں؟ اور پھر وہ لوگ تو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں، اس لیے ان کی بابت ہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہمارے پیشوا ہیں یا نہیں ہیں، لیکن یہی بات معکوس انداز میں کیسے کہی جا سکتی ہے ؟ ہم گزارش کریں گے کہ اوپر کی سطروں میں واضح ہو چکا ہے کہ اسلامی تہذیب اپنے حال کی تعمیر میں’’ تاریخ کا تعین‘‘ کرتے وقت ارتقا پر مبنی زمانی ترتیب کی تاریخ کو ملحوظ نہیں رکھتی، بلکہ اس کی بنیاد اصولاً اور اصلاً دینِ اسلام پر ہوتی ہے ۔ اب اگر کسی بھی دور میں اسلامی تہذیب اپنے حال کی تعمیر، دینِ اسلام پر قائم کرتی ہے تو وہ کسی بھی دوسرے دور میں کسی ایسی ہی تہذیب کی ہم سفر قرار پاتی ہے، کیونکہ دونوں کے ’’حال ‘‘ کی تعمیر کی پشت پر یکساں اصول موجود ہوتے ہیں۔یہ یکساں اصول یعنی قرآن و سنت، ایک طرف زمان و مکان کا لحاظ کیے بغیر، ہم سفر تہذیبوں کو ملت یا امت کے عظیم اجتماعی دھارے سے منسلک کر دیتے ہیں اور دوسری طرف کسی کی پیشوائیت کی ہر گنجایش کا بھی خاتمہ کر دیتے ہیں۔
اختتامی کلمات کی طرف بڑھتے ہوئے ہم گزارش کریں گے کہ آج ہمارے سامنے دو بنیادی سوال سینہ تانے کھڑے ہیں کہ کیا معاصراسلامی تہذیب کے حال کی تعمیروبنیاد، دینِ اسلام پر ہے، جس طرح ہمارے اسلاف نے اپنے زمانے میں اسلامی تہذیب کے حال کی بنیاد، دینِ اسلام پر رکھی تھی؟ اور کیا ہم نے تاریخی اسلام (Historical Islam) کو اپنے اسلاف کے مانند ہم سفری کے درجے میں رکھا ہے یا پھر اسے پیشوائیت کی مسند پر براجمان کر دیا ہے؟ ہمارے جوابات ہمیں مغربی تہذیب و دیگر تہذیبوں سے ممتاز کر کے داعیانہ مقام بھی عطا کر سکتے ہیں اور انہی تہذیبوں کی ہم سفری کے’’ شرف ‘‘ سے بھی نواز سکتے ہیں۔