مکاتیب

ادارہ

(۱)

مکرمی جناب پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب!

آ پ پر سلا متی ہو !

ماہنامہ ’الشریعہ‘ جنوری ۲۰۰۶ ء میں آ پ کا فکر انگیز مضمون’’ قرآ نی علمیات اور معاصر مسلم رویہ‘‘ پڑھا۔ یقین جا نیے اس قسم کے مضا مین کو میں اپنے لیے فکر ی غذا تصور کر تا ہوں۔ داخلی انتشار کے اس پرآشوب دورمیں مسلم مذ ہبی فکر کے حوالے سے حق کی تلا ش جتنی ضروری ہے، اسی قدر مشکل بھی ہے۔ گروہی اور مسلکی تعصبا ت کے اند ھیر وں میں حق کے اجا لے کی سحر شب گز یدہ بن گئی ہے۔ اس کے با وجو د تلا ش حق فر ض عین ہے۔ اس عظیم سفر کی ہر تکلیف کلفت نہیں، نعمت ہے۔ اپنا یہ عقیدہ ہے کہ جادۂ مستقیم کا طالب ہر حال میں کامیاب ہے، خواہ اسے منزل نہ ملے۔ دوسرے لفظوں میں حق کی تلاش ہی اصل منزل ہے۔ زیر بحث مضمون کے بعض نکات سے اگرچہ مجھے اختلاف ہے، لیکن میں آپ کے’’سفر‘‘کو مبارک تصور کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اصابت اور لغزش، ہر دو صورتوں میں آپ کو اجر دے۔

قرآن کی علمیاتی اساس میں آپ نے غیب کی تشریح یوں کی ہے:

’’یہاں غیب سے مراد’’نامعلوم ‘‘ہے، لیکن اس کا مطلب لاادریت بھی ہر گز نہیں۔ نامعلوم ہوناایک اور چیز ہے اور نہ جان سکنا چیزے دیگر است۔ نہ جان سکنے کی روش اپنانا ایک منفی رویہ ہے اور یہ تشکیک کے قریب ترین ہے جس کی قرآن ابتدا ہی میں نفی کرتاہے۔ اس کے برعکس نامعلوم ہونا ایک مثبت رویہ ہے جس میں جان سکنے کی خواہش اور یقین دونوں پائے جاتے ہیں۔‘‘ 

اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ بالغیب سے ’’نامعلوم‘‘مراد لے کر ایما ن بالغیب کا مطلب’’نامعلوم پر ایمان‘‘ہوگا، جیسا کہ آپ نے لکھا بھی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ’بالغیب‘ پر داخل ’’با‘‘ کو ظرفیت کے مفہوم میں لینے کے بجائے آپ نے ’بالغیب‘ کو مفعول کیوں مان لیا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ایمان بالغیب سے ’’نامعلوم پر ایمان‘‘مرادلے کر آیت میں اس کا مفہوم کیا بنتا ہے؟ اور تیسری بات یہ کہ خود’’نامعلوم‘‘کی وضاحت کیا ہے؟ یہاں میں تیسرے اور دوسرے سوال کی نوعیت پر بحث کرتا ہوں۔ نامعلوم کو غیب کا مترادف قراردے کر آپ ایک سانس میں دوباتیں کہہ ڈالتے ہیں۔ وہ یوں کہ غیب نامعلوم بھی ہے اور اس کا مطلب لاادریت بھی نہیں۔ آپ کے نامعلوم کا چہرہ کچھ کچھ ’’ادریت‘‘کے غازے سے سرخ ہے۔ میرے خیال میں آپ اردو زبان کی تنگ دامنی کا گلہ کررہے ہیں۔

کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیان کے لیے

آپ کا یہ شکوہ اس وقت اور پرشکوہ لگتا ہے جب آپ لکھتے ہیں: ’’نہ جان سکنے کی روش اپنانا ایک منفی رویہ ہے اوریہ تشکیک کے قریب ترین ہے۔‘‘(ایضاً ص۲۰)

’’سکنے‘‘کے لفظ سے ایک قسم کی معذوری ٹپکتی ہے۔ اگر ایساہی ہے تو پھر یہ رویہ کس طرح ایک منفی رویہ قراردیا جا سکتا ہے؟ اگر میں کچھ نہیں سیکھ سکتا تو میرا یہ رویہ منفی کس طرح ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ شاید ’’نہ جاننے کی روش اپنانا‘‘ اس مفہوم کے لیے درست تعبیر ہو۔ یوں لگتا ہے کہ آپ کی اس پیچیدگی نے آپ کو ’یومنون بالغیب‘ کا ترجمہ’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں‘‘ کرنے پر مجبور کیا اور بعد میں آپ کو وضاحت کرنا پڑی کہ ’’امکانات کو چھونے کو خواہش اور سکت ایمان بالغیب ہے۔‘‘ اگر میں آپ کی بات سمجھ سکا ہوں تو غالباً آپ کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے واقعات کے متعلق Positivelyسوچنا اور شک میں نہ مبتلا ہو جانا، ہی اس کا بالغیب ہے۔آپ کے ایمان بالغیب کی یہ تعبیر صرف ’’ایمان بالغیب‘‘میں مقید ہونے کا نتیجہ ہے ،حالانکہ یہ ایک طرف اس سورۃ سے پہلی سورہ ’الفاتحہ کے الفاظ ’الحمد اللہ رب العلمین الر حمن الر حیم ملک یو م الدین‘ کے ساتھ منسلک ہے تودوسری جانب اس کا تعلق اسی سورہ میں مذکور ایمان کی تفصیلات وجزئیات سے ہے۔ میں یہاں صرف ایک مثال پیش کروں گا جو بنی اسرائیل کی ظاہر پرستی سے متعلق ہے: ’’وَإِذْ قُلْتُمْ یَا مُوسَی لَن نُّؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی اللَّہَ جَہْرَۃً‘‘ (البقرہ، آیت ۵۵)

اس لیے ایمان بالغیب کا تعلق اللہ پر ایمان سے لے کر یوم آخرت تک، تمام چیزوں سے ہے۔آپ کی بات بذات خود درست ہے، لیکن ایسا رویہ اپنانا متقین کی صفا ت میں سے ایک ہے، نہ کہ مجردایمان بالغیب کا تقاضا ۔

قرآنی علمیات کے رہنمایانہ منہاج کے حوالے سے آپ نے حضرت آدمؑ اور فرشتوں کے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے، اس کا تعلق ایمان بالغیب کے اس تصور سے نہیں جسے آپ نے پیش کیا ہے۔ اس میں بھی آپ سے لغزش ہوئی ہے جس کی نشان دہی میں ابھی کروں گا۔ آپ یقیناًمیرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ یہ سورہ، بنی اسرائیل کے لیے ایک چارج شیٹ ہے اور اس میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ حضرت آدمؑ اور فرشتوں کے اس واقعہ سے پہلے اور بعد میں بنی اسرائیل کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ ا ٹھیک اس واقعے سے پہلے کی آیت یہ ہے : ’’ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْم‘‘۔ کیا فرشتوں والا Positiveرویہ اپنانے کے لیے ضروری نہیں کہ سب سے پہلے ایمان بالغیب میں پوشیدہ اس عظیم المرتبت خداکی وحدانیت کا اقرارکیا جائے؟ مطلب یہ ہے کہ زندگی اور موت کے مسئلے پر غور کیا جائے اور کائنات کی تخلیق کے متعلق سوچا جائے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ انسان اعتراف کر لے کہ اے خدا! میں نے اگرچہ تجھ کو نہیں دیکھا، لیکن میری عقل تسلیم کرتی ہے کہ تو ہی بلا شرکتِ غیرے اس کائنات کا ر ب ہے اور علم کے سارے خزانے تیرے ہی پاس ہیں۔ 

اب ذرااس واقعے کے بعد کی آیات (۴۰،۴۶) پر غور کیجیے۔ آیت ۴۰ میں بنی اسرائیل کو’’َ أَوْفُواْ بِعَہْدِیْ‘‘ یاد دلایا گیا ہے۔ آیت ۴۱ میں اس چیز پر ایمان لانے کو کہا گیا ہے جسے خدائے عزوجل نے ’’أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ‘‘  کہا ہے ۔آیت نمبر۴۲ میں کتمان حق سے منع کیا گیا ہے۔ آیت نمبر۴۳میں نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے او رپھر آیت نمبر۴۶ میں ’’أَنَّہُمْ إِلَیْْہِ رَاجِعُونَ‘‘ کی یاددہانی کرائی گئی ہے ۔ میاں صاحب! بنی اسرائیل کویہاں آیت ۴۰ تا۴۶میں براہ راست جو کچھ کہا جا رہا ہے، کیا یہی باتیں ان متقین کی صفات نہیں ہیں جن کاتذکرہ سورۃ البقرۃ کے بالکل ابتدائی آیات میں ہوا ہے: ’’الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَo والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُون‘‘۔

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ان صفات کی حامل متقی شخصیت یہی ملکوتی رویہ اپنائے گی اور حق کے سامنے سرنگوں (Surrender)ہوگی۔

جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا، قرآنی علمیات کے رہنما یا نہ منہاج میں آپ سے لغزش ہوئی ہے۔رہنمایانہ منہاج کے لیے آپ نے حضرت آدم ؑ اور فرشتوں کے واقعے سے متعلق آیات کا انتخاب کیا ہے۔ پہلی آیت یہ ہے:

’’وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَءِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُون‘‘

یہاں ایمان بالغیب کی تعبیر امکانات کو چھو نے کی خواہش اور سکت کے نظریے سے Pre-Minded ہوتے ہوئے آپ نے لکھا ہے: ’’خلیفہ کے بارے میں فرشتوں کی یہ جانکاری کی وہ زمین میں فساد اور خونریزی برپا کرے گا ،خداہی کی عطا کردہ تھی۔‘‘ (ایضاً ص ۲۱)اوراس کے لیے آپ نے آیت نمبر۳۲کے الفاظ ’’لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا‘‘سے استدلال کیا ہے۔ اگر آیت نمبر ۳۰ میں ’’إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ‘‘ کے الفاظ نہ ہوتے تو آپ کا مذکورہ استدلال درست ہوتا ۔ا س آیت سے صریحاً واضح ہے کہ فرشتوں نے لفظ ’’خلیفہ‘‘کی بنا پرایک امکانی بات کی جو ادھورے سچ کے مترادف تھی، یعنی وہ انسانی تخلیق کی مکمل اسکیم سے واقف نہیں تھے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ میں جانتا ہوں وہ کچھ جو تم نہیں جانتے۔ اگر اللہ نے فرشتوں کو بتادیا تھا کہ انسان زمین میں فساد اور خون ریزی کرے گا جیسا کہ آپ نے لکھا ہے تو پھر ’’إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ‘‘ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ شاید آپ اس کا جواب یہ دیں کہ انہیں انسان کے اسی خاص پہلو کے متعلق بتایا گیا تھا۔ میری گزارش ہوگی کہ اس مفروضے کی بنیاد کیا ہے؟اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ ان کے ساتھ مذاق تو نہیں کررہا تھاکہ آدھی بات بتا دی اور آدھی رہنے دی۔صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو زمین پر انسان کے خلیفہ بنائے جانے سے آگاہ کیا۔ ’خلیفہ‘ (یعنی صاحب اختیار) کے لفظ سے فرشتوں نے ایک امکانی بات اخذ کی جو معاملے کے سارے پہلووں کو محیط نہ تھی، یعنی یہ کہ یہ صاحب اختیار مخلوق زمین میں فساد برپا کرے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اس کے بعد اللہ نے فرشتوں کے نہ جاننے کو جاننے میں تبدیل کرنے کے لیے پہلے حضرت آدمؑ کو ان کی ’’صالح ذریت‘‘کی فہرست دکھائی (یا ان نیک بندوں کی صورتیں دکھائیں )پھر ان نیک بندوں کی بابت فرشتوں سے دریافت کیا کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو توان لوگوں کے متعلق، جو سب کے سب نیک اور متقی ہوں گے، تمھاری کیا رائے ہے؟ فرشتوں نے اللہ کی مکمل سکیم کی نوعیت کو سمجھنے سے معذوری ظاہر کی اور شک کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ اے خدا! جس امکانی بات کا علم تو نے ہمیں بخشا ہے، اسے کل سمجھتے ہوئے ہم نے ٹھوکر کھائی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ امکانی بات کرنا بذات خود غلط نہیں، بلکہ اچھی چیز ہے لیکن مزید امکانات کا اندازہ کرنے کے بعد صرف اپنے’’امکانی علم‘‘پر ہٹ دھرمی اختیار کرنا اور اس پر اڑے رہنا غیر مستحسن رویہ ہے۔ اب اللہ نے حضرت آدمؑ سے کہا کہ ان لوگوں سے فرشتوں کا تعارف کرا دیں۔ اس کے بعد اللہ نے کہا کہ اب کہو، کیا میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا کہ غیب کا علم میرے پاس ہے، اور میں اس چیز کو بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو او رجو تم چھپاتے ہو۔ (۲،۳۳)

میاں صاحب ! ’’وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ‘‘ کے بارے میں آپ کی رائے بہت صائب ہے یعنی یہ کہ ’’اس وقت تک ابلیس نے اپنے انکاراور گھمنڈ کو چھپایاہوا تھا‘‘، لیکن اس آیت مبارکہ میں ’’الاسماء‘‘سے علوم و فنون مراد لینا ، جو قتل و خونریزی کو مغلوب کرنے والے ہوں گے، میرے خیال میں قرآن پاک کے Contextکے خلاف ہے۔آپ نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ’’االأَسْمَاء کُلَّہَا‘‘ سے علوم وفنون مراد لینے کی کیا دلیل ہے؟ا ن علوم وفنون کو ان امکانات تک پھیلانا جو مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ فساداور خونریزی کی نئی نئی صورتوں کے ظہور کے جواب میں مسیحائی کردارادا کریں گے، ایک پر تکلف بات لگتی ہے۔ اگر آپ ’’اسماء‘‘کے لیے استعمال کی جانے والی ضمائر پر غورکریں تو واضح ہوگا کہ اس سے مراد ذریت آدم ہی کے نام ہو سکتے ہیں۔

قرآنی علمیات سے روگردانی کے ضمن میں حضرت ابراہیم ؑ اور قربانی کے واقعے کی بحث کافی فکر انگیز ہے۔اس سے قطع نظر کہ ذبیخ اسماعیلؑ تھے یا اسحق، آپ نے ’’باپ کے فیضان نظر‘‘ کا بہت پر حکمت مقام دریافت کیا ہے جس کاتعلق علم سے زیادہ متقین کے رویہ سے ہے۔ اس سلسلے میں آپ کے دلائل کافی مضبوط اوردعوتی مزاج کے حامل ہیں۔ابن ابراہیم ؑ کے بجائے ابراہیمؑ ہی کی شخصیت کو نمایاں کرنا یہاں قرآن پاک کا مطمح نظر دکھائی دیتا ہے۔ البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ آپ ’’مدبرین‘‘ کی تحقیق و تفسیر پر تبصرہ کرتے ہوئے دعوتی مزاج کی بلندی کو برقرارنہ رکھ سکے۔ ’ذبیح کون‘ کی بحث کوامکانی فساد سے تعبیر کرنامیرے خیال میں ضرورت سے زیادہ سخت تبصرہ ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ نے فراہی مکتب فکر کونسلی تفاخر جیسی بیماری میں مبتلا بتایا ہے جبکہ یار لوگ انھیں ’’اغیار دوستی‘‘ کا طعنہ دیتے ہیں۔

زاہد تنگ نظرنے مجھے کافر جا نا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

اللہ ہمیں پندار کا صنم کدہ ویراں کرنے اور حق کے کوئے ملامت کا طواف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آپ کا خیر اندیش 

یوسف خان جذاب

GHS، نارشکر اللہ، بنوں 

(۲)

بخدمت گرامی قدر مخدومی حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مد ظلہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

الشریعہ جنوری ۲۰۰۶ء کاشمارہ پڑھنے کاموقع ملا۔ ’’آرا وافکار ‘‘ کے تحت محترم میاں انعام الرحمن صاحب کامضمون پڑھا،بہت کوفت ہوئی۔ ابتدائی پانچ چھ صفحات لکھنے کے بعد میا ں صاحب پٹڑی سے اتر گئے ہیں اور سارا زور قلم اس پر صرف کیا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کوذبیح قرار دینا قرآنی علمیات سے روگردانی ہے۔ انہوں نے سطحی قسم کی باتیں تحریر کرکے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ ماننے سے انکار کیا ہے۔مزید فرمایا ہے کہ حضرت اسماعیل کو ذبیح ماننے سے معترضین کو پھبتی کسنے کاموقع ملتا ہے کہ اسلام دعویٰ تو عالمگیریت کاکرتاہے، لیکن اصلاً اسماعیلی ہے ۔نیز یہ کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ قرار دینا یہودیانہ رویہ ہے۔

مخدومی! یہ سمجھ نہیں آئی کہ میاں صاحب کو حضرت اسماعیل کوذبیح اللہ قرار دینے پر اعتراض کیا ہے؟ اس سے دین اسلام کے وقار پر کیا حرف آتاہے؟ اگر اقبال نے یہ کہہ دیا ’’ سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی ‘‘ تو کس جرم کاارتکاب کیا ہے؟

محترم میاں صاحب کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ مولانا فراہی ؒ اور مفتی محمد شفیع ؒ سمیت اکثر مفسرین نے ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی کو قرار دیا ہے اور اس پر آثار وقرائن بھی ذکر کیے ہیں۔ وہ دور نہ جائیں، معارف القرآن ہی دیکھ لیں ۔ آثار وقرائن حضرت اسماعیل ہی کو متعین کرتے ہیں اور اس سے اسلام کی عالمگیریت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ معترضین سے مرعوب ہو کر اسماعیل علیہ السلام کے ذبیح ہونے سے انکار کر نے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

حضرت سلمان فارسیؓ پر کسی یہودی نے اعتراض کیا کہ سنا ہے تمھیں تمھارا پیغمبر ﷺ استنجا کرنے کا طریقہ بھی بتاتاہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے فخریہ طور پر کہا کہ ہاں، ہمیں انہوں نے استنجا کاطریقہ بھی بتایا ہے۔ (جامع ترمذی) میاں صاحب سے معذرت کے ساتھ، اگر ان جیسا کوئی مرعوبیت کاشکار شخص ہوتاتو یہی کہتا کہ نہیں نہیں، خدا کی قسم! حضورﷺ نے ہمیں کوئی ایسی بات ارشاد نہیں فرمائی ۔ محترم میاں صاحب سے گزارش ہے کہ مستشرقین ودیگر کفار کے اعتراضات کے جواب میں گھبرا کراپنااصل موقف چھوڑ دینا اوریہود ونصاریٰ سے موافقت کے راستے تلاش کرنا دین کی کوئی خدمت نہیں ہے۔

میاں صاحب نے’’حرف آخر‘‘ کے زیر عنوان ایک حدیث نقل کی ہے: ’’اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ تکذیب ‘‘۔ میرا ان سے سوال ہے کہ کیا حضور ﷺ کا یہ فرمان مطلق ہے یا اس میں کوئی قید بھی ہے؟ مفسرین اور محدثین کیا فرماتے ہیں ؟اگر وہ اس سوال کا جواب تلاش کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی پر مجبور ہو جائیں گے۔

میاں صاحب سے یہ بھی التماس ہے کہ آج کے دور میں فکری انتشار بہت زیادہ ہے، ایسے میں مزید انتشار پیدا کرنا، خواہ وہ کتنی ہی نیک نیتی سے کیوں نہ ہو، دین کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ اس سے احتراز فرمائیں۔اور بے شک کم لکھیں، لیکن علمی پختگی کے ساتھ لکھیں۔ اپنے فکری انتشار پر پختہ فکر علما سے گفتگو کریں ۔

مخدومی! آپ سے بھی گزارش ہے کہ آرا وافکار کے زیر عنوان فکری انتشار میں اضافہ کرنے والے مضامین شائع نہ کریں۔ حدود قیود متعین فرمائیں۔ آپ کایہ طرز فکر ’’جماعت کولازم پکڑو‘‘ (الحدیث) کے منشا کے خلاف ہے ۔واللہ اعلم بالصواب ۔

میاں صاحب کو کوئی بات ناگوار گزرے تومعذرت خواہ ہوں۔

(مولانا) مشتاق احمد 

استاذ جامعہ عربیہ، چنیوٹ

(۳)

گرامی قدر نقوی صاحب 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ میں تکفیر شیعہ پر جوبحث چل رہا ہے، اس میں میرے موقف پر آپ کاتبصرہ بصورت خط شائع ہوا ہے۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ:

۱۔لاہور میں علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر صاحب (ادارہ منہاج الحسین) سے میرا رابطہ تھا۔ ’’الشریعہ ‘‘میں مذکورہ مضمون لکھنے سے پیشتر میں کئی ماہ تک ان کو خط لکھتا اور فون کرتا رہا کہ جن تین امور کی وجہ سے مولانا سرفراز صفدر صاحب اور دیگر بعض سنی علما اہل تشیع کی تکفیر کرتے ہیں، اگر وہ وضاحت کردیں کہ یہ سارے شیعہ کے اجتماعی مسائل نہیں ہیں تو میرا موقف مضبوط ہو جاتا کہ سارے اہل تشیع کی تکفیر نہیں کی جاسکتی،لیکن علامہ صاحب ٹالتے رہے اور انہوں نے جواب نہیں دیا اور بالآخر میں نے اس کے بغیر ہی مضمون ’’الشریعہ‘‘ کو بھجوادیا۔ میر ی اب بھی یہ خواہش ہے کہ آپ اہل تشیع کاکوئی ذمہ دار عالم اس بات کی تصدیق کردے تاکہ میرا کیس مضبوط ہوجائے۔ (یاد رہے کہ میرا یہ مضمون تھااس مضمون پر جو اس سے پہلے شمارے میں مولانا زاہد الراشدی صاحب نے لکھا تھا اور جس میں مذکورہ تین نکات کاذکر تھا)۔

۲۔ اگر آپ یہ کنفرم کردیں کہ آپ کی جماعت کے پیش نظر پاکستان میں فقہ جعفریہ کانفاذ نہیں تھا اور نہیں ہے بلکہ آپ اہل تشیع کے دیگر جائز قانونی حقوق کے لیے کوشاں تھے اور ہیں تو مجھے کیا پڑی ہے کہ اس موقف کو آپ کے سر منڈھوں جو درحقیقت آپ کا موقف نہیں ہے اور بقول آپ کے ایجنسیوں کاموقف ہے؟

۳۔میں ایک سیدھا سادہ کھلے دل کامسلمان ہوں اور کسی خاص مسلک سے وابستہ نہیں ہوں، بس طبیعت صلح جو ہے، اتحاد امت کا درد دل میں ہے کہ شیعہ سنی منافرت کم ہوجائے اور امت ایک دوسرے کے قریب آجائے۔

والسلام۔ مخلص 

(ڈاکٹر) محمدامین 

سینئر ایڈیٹر، اردو دائرہ معارف اسلامیہ

جامعہ پنجاب۔ لاہور

(۴)

محترم جناب ڈاکٹر امین صاحب

السلام علیکم ، مزاج گرامی

ماہنامہ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ میں آپ کے مضمون کی وضاحت میں ہمارے خط کی اشاعت کے بعد آپ کاگرامی نامہ موصول ہوا۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ :

تکفیر کے ذیل میں آپ نے جو کچھ فرمایا، ہم نے اسے چھیڑنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ جن عقائد کو بنیاد بنا کر تکفیر کی بحث کی گئی ہے، وہ شیعہ عقائد کاحصہ نہیں ہیں۔ گزشتہ دو عشروں میں مرتب ہونے والے مختلف ضابطہ اخلاق، بالخصوص متحدہ مجلس عمل کے اعلامیہ وحدت، اسلام آباد میں ہماری شمولیت اس بات کی بین دلیل ہے کہ ہم ان مسائل میں واضح، روشن اور دوٹوک ہیں۔

اسی بنا پر ’’شیعہ سنی تنازع کا حل‘‘ کے ذیل میں تنازع کے وجوہ اور علل واسباب پر ہم نے عرض کیا تھاکہ ہمارے خلاف یہ موقف پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے جاری کیا گیا اوربعد میں سپاہ صحابہؓ کی زبان سے دہرایا جاتارہا اور تاحال دہرایا جارہاہے۔ اس ضمن میں آپ نے جن دو گروہوں کے بر سر پیکار ہونے کا ابتدا میں ذکر کیا ہے اور آخر میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’اب دونوں گروہ ایک دوسرے کے آدمی مارے جارہے ہیں‘‘، بہتر ہوگا کہ ان دونوں گروہوں کی شناخت پر پوری توجہ دی جائے تاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا دیا جائے اور پھر نادم ہونا پڑے۔

جہاں تک تحریک جعفریہ کے اہداف کاتعلق ہے تو شاید آپ تک ہمار ا موقف نہیں پہنچ سکا۔ بار ہا واضح کرچکے ہیں کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ (تحریک جعفریہ) کا مقصد پاکستان کے تمام عوام پر فقہ جعفریہ کو مسلط کرنا ہرگز نہیں بلکہ آئینی دائرہ کار میں رہ کر پاکستان کے شیعہ عوام کے لیے فقہ جعفریہ کا نفاذ اور ان کے قانونی حقوق کاتحفظ ہی ہدف ہے۔

وحدت امت کے قیام اور شیعہ سنی منافرت کے خاتمے کے حوالے سے آپ نے جن خیالات کااظہار فرمایا ہے، ہم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آپ کی جدوجہد لائق تحسین ہے ۔ہم سنجیدہ اور متین کوششوں پر تعاون پر آمادہ ہیں۔ 

نیک خواہشات کے ساتھ

والسلام

سید عبد الجلیل نقوی

مسؤل روابط

قائد تحریک نفاذ فقہ جعفریہ

(۵)

محترم ومکرم حضرت مولانا دامت الطافکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

........

میں تقریباً تین ماہ کے بعد گزشتہ ہفتہ لندن واپس پہنچا ہوں۔ ’’ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق‘‘ کے مطابق آنے کے ساتھ ہی ڈنمارک کی چھوڑی ہوئی پھلجڑی کا منحوس نظارہ ہے۔ اور پھر وہی رد عمل جس کے بارے میں اس بار تو ذرا شبہہ کی گنجایش نہ ہونی چاہیے تھی کہ عمل سے مقصود ہی اس رد عمل کا حصول ہے۔ سب سے زیادہ افسوس حماس کے پایہ تخت غزہ کے رد عمل کا ہے اور جس طرح وہاں کے رد عمل کی خبروں کو نمایاں تر کیا جا رہا ہے، اس سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے عمل کا اصل نشانہ فلسطین ہی تھا۔ اور وہ کامیاب رہا۔

.........

(مولانا) عتیق الرحمن (سنبھلی)

لندن

(۶)

گزشتہ دنوں ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ فروری ۲۰۰۶ء ؁ کاشمارہ موصول ہوا ۔جناب پروفیسر اکرم وِرک صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے دعاؤں میں یاد رکھا اور مجھے اعزازی شمارہ ارسال کیا۔ اسا ل اللہ لہ کل مایحبہّ ویرضاہ۔

یوسف خان جذاب کا مضمون پسند آیا۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ ’’ماہنامہ الشریعہ اور جناب جاوید احمد غامدی ‘‘ کے نام سے جو مضمون آصف محمود ایڈوکیٹ صاحب نے تحریر کیاہے ،اس میں انہوں نے بڑی عمدہ بات کہی ہے کہ’’شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور ‘‘ کے مصداق ہمیں بلا جواز تنقید نہیں کرنی چاہیے ۔جاوید احمد غامدی صاحب کے جو افکار ونظریات ہیں، وہ اسلاف میں بہت سے بزرگوں کے بھی رہے ہیں، اس لیے غلام احمد قادیانی کے ساتھ ان کی مطابقت اور مماثلت کے حوالے سے گفتگو کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ فاضل دوست کی یہ مثبت سوچ ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے حدود آرڈیننس کو ’’صحیفہ جہالت ‘‘قرار دیاہے۔ قانون کے ماہر کے لیے ایسی سخت زبان استعمال کرنا ناقابل فہم ہے۔ میں اپنے فاضل دوست سے بحیثیت مجموعی اتفاق کرتاہوں، تاہم ایک نقاد کا فرض بنتاہے کہ جب وہ کسی فکر اور زاویہ نگاہ کو تنقید کانشانہ بنائے تو پہلے دیانت دارانہ طریقے سے اس فکر کی وضاحت کرے اور پھر دلائل کی روشنی میں اس کی درستی یا نادرستی کو واضح کرے۔ فاضل دوست کے مذکورہ الفاظ ایک غیر علمی اور غیر سنجیدہ رویہ پر دلالت کرتے ہیں۔ حدود آرڈیننس میں جہاں کہیں سقم پایا جاتاہے، اگر فاضل دوست ان مقامات کی نشاندہی کرتے اور اس میں حذف واضافہ تجویز کرتے تویہ ان کی علمی خدمت ہوتی۔ ماہنامہ ’الشریعہ‘ کی وساطت سے فاضل دوست اگر اب بھی اس سلسلے کو شروع کریں اور حدود آرڈیننس کی تمام دفعات کاقرآن وسنت کی روشنی میں شرعی جائزہ لے کر واضح کر دیں تو راقم الحروف اور دیگر احباب ان کے ممنون ہوں گے۔

عبد الغفار

لیکچرر اسلامیات


مکاتیب

(مارچ ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter