آج اساتذہ اور مربین کی کمی نہیں۔ مدرسین اور معلمین کی ہر طرف بہتات ہے، مگر ماہر فن استاذ، کامیاب مدرس، حاذق معلم، اور قابل تقلید واتباع مربی کا وجود عنقا ہے۔ جس مثالی معلم ومربی کا تذکرہ ان سطور میں مقصود ہے، اسے عنقا پر بھی یک گونہ ترجیح وفوقیت ہے۔ عنقا چار دانگ عالم میں مشہور ہے اور ہر طرف اس کا چرچا ہے۔ میں جس مایہ ناز استاذ اور مفخرۂ معلمین کی کہانی سنانے جا رہا ہوں، وہ نام اور شہرت سے بے پروا ہے، گم نامی اس کا سرمایہ حیات اور گوشہ خمول اس کی عافیت گاہ ہے۔
استاذ محترم مولانا سید محمد واضح رشید ندوی ۱ سے میں نے کئی سال باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے اور مدتوں استفادہ کیا ہے۔ دار العلوم ندوۃ العلماء سے جدائی کو تیرہ سال ہو گئے ہیں لیکن آج بھی میرا دل مولانا کی محبت وعقیدت سے اسی طرح لبریز ہے۔ مولانا کی مجالس کی یاد ہمہ وقت ستاتی رہتی ہے۔ مادر علمی میں گزارے ہوئے وہ لمحات یاد آتے ہیں جب کلاس روم میں ہم مولانا کے درس سے مستفید ہوتے یا ’’الرائد‘‘ کے دفتر میں مولانا کی گفتگو اور تبصروں سے لطف اندوز ہوتے بلکہ اس سے زیادہ وہ گھڑیاں ستاتی ہیں جب ہم مولانا کی خاموشی اور سکوت سے فیض یاب ہوتے۔ ۲ مولانا کی ہر ادا، نشست وبرخاست، سکوت ونطق تعلیم وتربیت کے دروس واسباق ہیں۔ ماضی کی یہ یاد کس قدر ناخن بدل ثابت ہو رہی ہے:
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
علم وحکمت، دانش وآگہی اور ادب وصحافت مولانا کی دلچسپی کا سامان ہیں۔ مولانا کی اٹھان ہی ایسی ہے کہ لکھنا پڑھنا زندگی کا ایک ضروری مشغلہ بن گیا ہے۔ بچپن سے علم وادب کی قدر اور زندگی کی تمام دوسری قدروں پر اس کی فوقیت کا احساس مولانا کے ریشہ ریشہ میں پیوست ہے۔ مولانا کے شجرہ میں دونوں طرف علم وحکمت اور روحانیت ومعرفت رہی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ آپ سلالہ عظام اور زبدۂ کرام ہیں اور آپ کے دونوں شجرے برگ وبار ہیں شاخ حسنی وعلوی، فرع محمدی اور اصل اسماعیلی وابراہیمی کے:
اصل وفرعے را کہ بینی حاصل یک مایہ اند
آفتاب وپرتوش از بم جدا نتواں گرفت
عربی زبان وادب مولانا کا خاص موضوع ہے۔ درس وتدریس اور صحافت شغل شاغل ہے۔ آپ کا علم وفضل رشک اقران وامثال ہے۔ تحریر رواں اور ادیبانہ ہے۔ زبان میں بے ساختگی اور برجستگی ہے۔ اسلوب میں بیک وقت ایک ٹھہری ہوئی سنجیدگی اور سنبھلی ہوئی شوخی باہم ملی جلی پائی جاتی ہے۔ یہ اسلوب ایسا ہے کہ نازک سے نازک فکری، اجتماعی اور سیاسی مسائل پر بھی شگفتگی اور دل آویزی مولانا کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ میں نے مولانا کی اکثر تحریریں پڑھی ہیں اور جب بھی کوئی نئی تحریر ملتی ہے، پڑھے بغیر نہیں رہتا۔ یہ صرف میرا ہی حال نہیں، بلکہ مولانا کی تحریروں سے دلچسپی لینے، لطف اندوز ہونے اور فائدہ اٹھانے میں بہت سے لوگ میرے شریک ہیں۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی تحریروں میں کیسی بے پناہ کشش ہوتی ہے۔ ادب مولانا کی زندگی کا کوئی تفریحی مشغلہ نہیں بلکہ اسے ایک فطری اور مقدس منصب سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ اپنی عربی دانی کو کمائی یا دنیاوی عز وجاہ کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ علم وہنر ہی مولانا کی زندگی ہے: ع نہ ستایش کی تمنا نہ صلہ کی پروا
میں جب ندوہ میں تھا، طلب علم کی ایک لگن تھی اور پڑھنے لکھنے اور مطالعہ کرنے کی فکر تھی۔ مادر علمی کا ہر استاد خوبیوں کا مجموعہ اور ہنروں کا گلدستہ تھا اور ہر طالب علم کو علم وہنر کا شوق تھا اور دن رات لکھنے پڑھنے کا ذوق۔
وہ لطف لب آب کہاں سے لاؤں؟
وہ دور مئے ناب کہاں سے لاؤں؟
ممکن ہے یہ اسباب بہم ہوں لیکن
وہ دوست، وہ احباب کہاں سے لاؤں؟
مولانا شہباز اصلاحی مرحوم اور مولانا واضح صاحب کی علمی وادبی مجلسوں اور صحبتوں سے سیری نہیں ہوتی تھی۔ مولانا شہباز مرحوم ندوہ کے احاطہ میں رہتے تھے اور میرے ہاسٹل (رواق اطہر، تیسری منزل) کے نگران بھی تھے جس کی وجہ سے مولانا کی طویل صحبت ہر وقت میسر آتی لیکن مولانا واضح صاحب سے استفادہ کا موقع صرف کلاس روم میں، یا اگر کوئی گھنٹی خالی ہوتی تو ’’الرائد‘‘ کے دفتر میں ملتا۔ مولانا سے استفادہ کی عجب دھن سوار رہتی۔ مولانا کی صحبت سے اس قدر فیض حاصل ہوتا کہ بیٹھ کر اٹھنے کو جی نہ چاہتا اور نہ ہی وقت گزر جانے کا احساس ہوتا۔ ان مجالس سے دل میں ایک ابھار، ایک حوصلہ اور ایک ابتہاج پیدا ہوتا:
بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی
وہ اپنی ذات میں اک انجمن ہیں
یہ مقالہ مولانا کے کارناموں اور مآثر کی تفصیل بیان کرنے کے لیے نہیں ہے، نہ ہی اس تحریر میں آپ کی تصنیفات ومقالات کا علمی وادبی تجزیہ مقصود ہے۔ یہ مضمون مولانا کی تعلیم وتربیت کے اسالیب اور نمونوں پر روشنی ڈالنے کی ایک معمولی کوشش ہے۔ تربیت وتعلیم کے تمام جوانب کا جائزہ آسان نہیں۔ یہاں صرف ان پہلوؤں کو پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جنھوں نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ نیت یہ ہے کہ معلمین واساتذہ ان مثالوں کی پیروی کریں۔
ہمہ گیری وفراخ دلی
مولانا کی اہم خصوصیت علم کی وسعت وگہرائی ہے۔ آپ نے اپنا مطالعہ کبھی کسی ایک فکر وخیال یا ایک تہذیب وتمدن تک محدود نہیں رکھا۔ آپ کی فطرت ہے کہ کہاں سے یا کس سے کیا چیز لیں اور کیا چھوڑ دیں۔ خذ ما صفا ودع ما کدرکی حکمت آپ کے طرز عمل سے عبارت ہے۔ تعصب وگروہ بندی یا تنگ نظری کا یہاں گزر نہیں۔ فکر اسلامی کی تشریح کرتے وقت مولانا مودودیؒ ، سید قطب شہیدؒ ، محمد مبارکؒ ، مالک بن نبیؒ اور عالم اسلام کے دوسرے مفکرین کے خیالات اسی دلچسپی اور تفصیل سے پیش کرتے جس طرح مخدوم معظم مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی فکری اساسوں کا جائزہ لیتے۔ عصر حاضر کے ادبا کا تعارف کراتے، ان کی آرا وخیالات پر تنقید کرتے، طٰہٰ حسین کے فکری انحراف، احمد امین وغیرہ کی فکری مرعوبیت کا تذکرہ کرتے لیکن انصاف کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ جاتا۔ طٰہٰ حسین کی ’’علیٰ ہامش السیرۃ‘‘، ’الایام‘‘ اور ’’حدیث الاربعاء‘‘ وغیرہ، مصطفی لطفی منفلوطی کی ’’نظرات‘‘ و ’’عبرات‘‘ اور احمد امین کی ’’فجر الاسلام‘‘، ’’ضحی الاسلام‘‘، ’’ظہر الاسلام‘‘ اور مجموعہ مقالات ’’فیض الخاطر‘‘ ہم لوگوں نے مولانا ہی کے مشورہ سے پڑھیں۔ مولانا کی تربیت ورہنمائی کا یہ اثر رہا کہ طٰہٰ حسین کے انحراف یا احمد امین وغیرہ کی مرعوبیت کا ہم طلبہ نے کبھی کوئی اثر نہیں لیا۔ مولانا کے مزاج وکردار کی اس ہمہ گیری، فراخ دلی اور حقیقت آشنائی کی مثال بہت کم ملے گی۔
علمی وادبی نفع رسانی
مولانا کے درس کی اہم خصوصیت افادہ ونفع رسانی ہے۔ مولانا کے ہر درس میں عقل ودماغ کو نئے مواد ملتے، ہر مجلس میں علم وادب کی نئی معلومات حاصل ہوتیں، اور ہر صحبت میں اخلاقی وروحانی تربیت کا نیا سامان بہم ہوتا۔ نہ کہیں تکرار ممل، نہ ہی علم وادب کی سطح سے فروتر کوئی گفتگو، اور نہ اخلاقی وشایستگی سے دور کوئی تبصرہ ہوتا۔ میں نے استاذ مرحوم مولانا ابو العرفان ندوی سے ایک بار استفسار کیا کہ کیا وجہ ہے کہ ندوہ کے قدیم طلبہ اور فارغین جب یہاں آتے ہیں، آپ کا اس قدر احترام کرتے ہیں اور اتنی عقیدت ومحبت سے آپ سے ملاقات کرتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا، اس کے دو اسباب ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب میں درس دیتا ہوں تو طلبہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کچھ اخذ کر رہے ہیں اور نئی چیزیں سیکھ رہے ہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ جب انتظامی امور میرے ذمہ تھے، میں نے نا انصافی اور انتقام سے احتیاط برتی۔ اگر کوئی طالب علم کسی ناجائز غرض سے میرے پاس آتا، اس پر ناراض ہوتا اور اسے کوئی سزا دیتا، اور کچھ دیر کے بعد اگر وہی طالب علم کسی جائز کام کے لیے آتا تو میں اس کا کام کر دیتا اور اپنی پچھلی ناراضی کو اس کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا ذریعہ نہ بناتا۔ یہی طرز عمل ہے استاذ محترم مولانا محمد واضح رشید ندوی کا۔ میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ مولانا کا درس نئے نئے علمی وادبی فوائد پر مشتمل ہوتا ہے۔
زبان واسلوب کی اصلاح
زبان واسلوب کی اصلاح پر مولانا کو غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ عا لمیت کے آخری سال میں ہمارا ’’تعبیر‘‘ یعنی عربی انشا پردازی وتحریر کا مضمون مولانا کے ذمے تھا۔ اس ایک سال میں عربی ترجمہ وتحریر کی جو مشق ہوئی، اسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ مولانا ہمارے ترجموں اور مضامین کی اصلاح فرماتے، زبان واسلوب درست کرتے، زبان کی نزاکتوں کو واشگاف کرتے، الفاظ وتراکیب کے نکات ودقائق سمجھاتے، فکر اسلامی کے مختلف مکاتب ومدارس سے روشناس کراتے، اور عالمی مسائل پر بصیرت افروز تبصرے فرماتے۔ مولانا کے طریقہ اصلاح کا مجھ پر بڑا اثر ہے۔ بعد میں جب ’’الرائد‘‘ کے لیے کوئی ترجمہ کرتا تو مولانا کی اصلاح سے مستفید ہوتا۔
’’الرائد‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین وترجمے جن طلبہ یا اہل علم کے ہوتے ہیں، انھیں کے نام سے شائع ہوتے ہیں مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ ان میں مولانا کا کتنا اہم حصہ ہوتا ہے۔ مولانا بہت محنت اور سلیقہ سے ترجموں اور مضامین پر نظر ثانی کرتے ہیں۔ نہایت دیدہ ریزی سے ان کو درست کرتے ہیں۔ اہل علم وادب پر مخفی نہیں کہ مفہوم کو برقرار رکھ کر دوسروں کی تحریروں کی اصلاح کرنا اور ان کی زبان کو درست کرنا ہر کسی کا کام نہیں۔ ’’الرائد‘‘ میں اشاعت کے لیے جو ترجمے یا مقالے آتے ہیں، ان میں سے اکثر غلطیوں کا انبار اور ژولیدہ بیانی کا طومار ہوتے ہیں۔ مولانا ہی ان کو اشاعت کے قابل بناتے ہیں۔ مولانا کی اہم خوبی یہ ہے کہ ہر ایک کا احترام کرتے ہیں اور غلطی کو غلطی سمجھتے ہیں۔ کسی شخص کی غلطی کو خواہ مخواہ اہمیت دے کر رائی کا پہاڑ نہیں بناتے بلکہ معمولی اور ناقابل التفات سمجھ کر اسے درست کر دیتے ہیں۔ سالوں مولانا کے قریب رہنے کا موقع ملا ہے لیکن کبھی مولانا کی زبان سے یہ نہیں سنا کہ فلاں کے مضمون میں اس قدر غلطیاں تھیں یا فلاں مضمون یا ترجمہ کی میں نے اصلاح کی ہے۔
اس حقیقت کے اظہار میں کوئی تردد نہیں کہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے فارغین کی نئی نسل میں جو لوگ بھی عربی زبان میں کچھ لکھنا جانتے ہیں، وہ بڑی حد تک ممنون ہیں مولانا کی تربیت کے۔ میں جب بھی عربی میں کوئی چیز لکھتا ہوں، اسے مولانا ہی کا فیض سمجھتا ہوں اور دل چاہتا ہے کہ اپنے ہر نقش کو ابن طباطبا کے اس شعر کے ساتھ مولانا کے نام معنون کروں:
لا تنکرن اہداء نا لک منطقا
منک استفدنا حسنہ ونظامہ
فاللہ عز وجل یشکر فعل من
یتلو علیہ وحیہ وکلامہ
ہمت افزائی اور قدر دانی
مولانا کی تربیت کا اہم پہلو طلبہ کی ہمت افزائی اور قدر دانی ہے۔ مولانا کو دیکھا ہے کہ پابندی کے ساتھ اردو، عربی اور انگریزی جرائد ومجلات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ایک صحافی کی حیثیت سے مولانا کی یہ پیشہ ورانہ ذمہ داری بھی ہے۔ اس مطالعہ سے ایک طرف مولانا کی زبان واسلوب ہمیشہ جدید اور معاصر رہتی ہے۔ دوسری طرف انگریزی اور اردو اخبارات میں جو چیزیں اس لائق ہوتیں کہ انھیں ’’الرائد‘‘ میں شائع کریں، ان پر نشان لگا کر رکھ لیتے اور ہم طلبہ کے حوالے کرتے کہ ان کا ترجمہ کریں۔ ہم ان کا ترجمہ کرتے، پھر مولانا کی اصلاح کے بعد وہ ترجمے ہمارے ناموں سے شائع ہوتے۔ ’’الرائد‘‘ میں اشاعت ہی ہم لوگوں کی بڑی ہمت افزائی ہوتی۔ اس پر مستزاد یہ کہ مولانا ہماری تعریف بھی فرماتے۔ مولانا کے توصیفی الفاظ بھی بہت جچے تلے ہوتے۔ مولانا کے تعریفی کلمات مشابہ نظر آتے ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے کلمات تعدیل وتوثیق کے۔ الفاظ کم، معانی زیادہ۔
بدگمانی سے پرہیز
مولانا کے یہاں بدگمانی کا نام ونشان نہیں۔ مولانا نے ایک بار مجھے یہ واقعہ سنایا کہ ندوہ کے ابتدائی زمانہ تدریس میں تخصص ادب عربی (ایم اے) کی ایک گھنٹی آپ کے ذمہ تھی۔ اس کلاس میں ایک طالب جو ممتاز تھے، آپ سے جلد ہی مانوس ہو گئے۔ ایک بار آپ کلاس روم میں پڑھانے کے لیے تشریف لے گئے تو تمام طلبہ ہنس رہے تھے۔ اس ہنسی میں یہ طالب علم بھی شریک تھے۔ آپ کو شبہ ہوا کہ یہ لوگ آپ کی کسی بات پر ہنس رہے ہیں اور اس سے آپ کو کچھ تکلیف بھی ہوئی۔ آپ نے درس شروع کیا۔ اثنائے درس میں بھی ان لوگوں نے ہنسنا شروع کر دیا۔ آپ کو ان طلبہ کے طرز عمل سے بڑی پریشانی ہوئی۔ درس ختم ہونے کے بعد آپ نے ان طالب علم سے جو آپ سے مانوس تھے، اس ہنسنے کی وجہ دریافت کی۔ انھوں نے عرض کیا کہ مولانا، ہم آپ پر ہنسنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بات یہ تھی کہ آپ کی گھنٹی سے پہلے ہم اپنے ایک ساتھی سے مذاق کر رہے تھے اور اس کی کسی بات پر ہنس رہے تھے کہ اسی دوران آپ تشریف لے آئے اور آپ نے ہمیں ہنستے ہوئے دیکھا۔ آپ کے درس کے دوران اسی طرح کی بات آ گئی جس کی وجہ سے ہم اپنے ساتھی پر ہنس رہے تھے۔ بے ساختہ ہمیں پھر ہنسی آ گئی۔ مولانا نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد مجھ سے فرمایا کہ اس کے بعد میں نے طے کر لیا کہ کسی سے بدگمانی نہیں کروں گا۔ اور حق یہ ہے کہ مولانا نے اپنے اس عہد کو جس طرح نبھایا ہے، اس کی نظیر بمشکل کہیں ملے گی۔ میں نے ندوہ کے طویل دوران قیام میں مولانا کو کبھی بدگمان ہوتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی سے مولانا کے متعلق اس طرح کی کوئی بات سنی۔
فضول سے اجتناب
مولانا کے اوقات مشغول ہیں۔ آپ فضول گوئی اور مجلس آرائی سے پاک ہیں۔ یا پڑھنے پڑھانے اور استفادہ وافادہ کی مشغولیت، یا پھر تحریر ومقالہ نویسی اور دوسروں کے مضامین وترجموں کی اصلاح ودرستی سے مطلب۔ دوسروں کی عیب جوئی تو بہت دور کی بات ہے، آپ کے یہاں ان مباح امور کی بھی گنجایش نہیں جو نہ دنیا میں سود مند اور نہ ہی آخرت میں کارآمد۔ علم وعبادت میں آپ کے اوقات اس طرح مصروف ہیں کہ خاطر مجموع اور حضور قلب میں کنج نشینوں اور گوشہ گزینوں سے بھی سبقت لے گئے ہیں۔
مثالی زندگی
ماہرین تعلیم وتربیت متفق ہیں کہ تعلیم وتربیت کے باب میں سب سے موثر چیز اسوہ حسنہ اور عملی مثال ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ اس کی سب سے جامع اور مکمل مثال ہے۔ قرآن نے ایک طرف آپ کے حسن اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ اور دوسری طرف آپ کے اسوہ کے اتباع کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے: ’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ‘‘۔
مولانا اس اسوہ نبوی کا بہترین نمونہ ہیں۔ آپ کی زندگی مثالی ہے۔ نماز واذکار کے پابند ہیں۔ زہد وتقویٰ شعار ہے۔ تواضع وانکسار مزاج پر غالب ہے۔ کم آمیزی وکم گوئی طبیعت ثانیہ ہے۔ عیب جوئی کا گزر نہیں۔ ریا کاری اور نام ونمود سے کوسوں دور، بلکہ اگر تصنع وبناوٹ کرنا بھی چاہیں تو بن نہ آئے۔ جبلت میں اخلاق حسنہ رچے بسے ہیں۔ حلم ومروت کا کچھ بیان نہیں۔ بغض وحسد کا نام ونشان نہیں۔ ’’سینہ چوں آئینہ‘‘ کی تصویر ہیں اور ’’ما ہذا بشرا ان ہذا الا ملک کریم‘‘ کی تفسیر۔
پیکر آرائے ازل صورت زیبائے ترا
نقش می بست وبم از ذوق تماشا می کرد
اس تواضع وانکسار اور مجموعہ اخلاق حسنہ کے باوجود طلبہ پر آپ کا رعب ہے اور لوگ آپ کی تعظیم واحترام پر مجبور۔ ع ہیبت حق است ایں از خلق نیست
آپ کا طور ہی جدا ہے اور رنگ ڈھنگ ہی نرالا ہے۔ آپ کے یہ انفرادی اوصاف ماحول سے اس قدر مختلف ہیں کہ آپ ہر طبقہ اور ہر گروہ میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔ صحیح معنوں میں غریب در وطن کی مثال ہیں:
نہیں گفتار ہی عالم سے نرالی اس کی
طرز رفتار الگ، بندش دستار جدا
یہی نہیں بلکہ مجاہدے کے ساتھ آپ نے تمام ناموافق ماحول اور مخالف قوتوں اور کششوں کے مقابلہ میں اپنی اصلی فطرت اور سا لمیت قائم رکھی۔ آپ کی مثالی زندگی مصداق ہے شوقی مرحوم کے اس مصرع کی۔ ع کاد المعلم ان یکون رسولا۔ خوف طوالت سے اسی قدر پر اکتفا کرتا ہوں۔
اس قد کشیدہ کی جو شرح کروں، کم ہے
اک مصرع موزوں میں سو بیت کا مطلب تھا
ما شئت قل فیہ فانت مصدق
والفضل یقضی والمحاسن تشہد
حواشی
(۱) مجھے اندازہ ہے کہ استاذ محترم کو میرا یہ مضمون پسند نہیں آئے گا، اسی وجہ سے اس تحریر میں مجھے بہت ہی پس و پیش رہا ہے۔ تردد اور لیت و لعل کے بعد اس جذبہ سے یہ تحریر پیش کرنے کی جرأت کر رہا ہوں کہ اس سے مجھ جیسے نئے اساتذہ و معلمین کو مہمیز ملے گی اور اس اسوہ کی روشنی میں تدریس و تعلیم کی دشوار گزار وادی طے کرنے میں آسانی ہوگی۔ استاد محترم کی خدمت میں معذرت کے ساتھ عرض ہے:
برا مانیے مت مرے دیکھنے سے
تمہیں حق نے ایسا بنایا تو دیکھا
آں روز کہ مہ شدی نمی دانستی
کانگشت نمائے عالم خوابی شد
(۲) اس پر استاذ مرحوم مولانا شہباز اصلاحی کی زبانی سنا یہ واقعہ یاد آگیا کہ ایک بار حضرت مولانا علیہ الرحمۃ کی مجلس میں کسی نے سوال کیا کہ حضرت! اگر کوئی عارف کامل مل جائے تو اس سے کیا پوچھیں؟ حضرت مولانا نے فرمایا کہ اس کے سامنے خاموشی سے بیٹھیں۔ اس میں شک نہیں کہ اہل علم و فضل اور ارباب معرفت و کمال کی خاموشی و سکوت ان کے نطق و گویائی سے کم اہمیت کی حامل نہیں۔