’’صدق جدید‘‘ میں مولانا عبد الماجد صاحبؒ نے مسلم امت کے مسائل پر جس بصیرت اور خون جگر سے لکھا ہے، ضرورت ہے کہ ’’صدق جدید‘‘ کے سارے فائلوں کو کھنگال کر مولانا کے اس قیمتی مواد اور ان کے پیش کردہ نکات کو قوم کے سامنے لایا جائے۔ امت میں بڑھتا ہوا مسلکی اختلاف اور اس اختلاف کی وجہ سے افتراق وانتشار اور وقت اور صلاحیتوں کا ایک دوسرے کی قوت کو کمزور کرنے میں استعمال ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے اور اس وقت کا بنیادی مسئلہ بھی۔ دین کے وسیع دائرے میں رہتے ہوئے فقہی، کلامی اور اجتہادی مسائل میں اختلاف رحمت کا باعث ہونا چاہیے۔ اختلاف کا آغاز، اس کے ارتقا، پس منظر، اختلاف کے حدود، آداب، دائرہ کار، اختلاف کو تشدد کی صورت دینے کے اسباب، امت میں یک جہتی کو فروغ دینے کی تجاویز، افتراق نے ماضی میں امت کو جو صدمات پہنچائے، ان کی تفصیل، غرض کہ اس موضوع کے بیشتر پہلوؤں پر مولانا نے لکھا ہے اور اتنا عمدہ اور بصیرت افروز لکھا ہے کہ ہر ایک صاحب علم ان نکات کو پڑھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مولانا کی کچھ تحریریں پیش خدمت ہیں:
اختلاف کی نوعیت
’’شیعہ سنی کے نام نہاد جھگڑے کے سلسلے میں یہ کہنا چاہیے کہ امیر المومنین حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کا اختلاف ہے، لیکن ذرا خلوے ذہن سے سوچیے کہ یہ کوئی دین وعقیدہ کے اختلاف کا مسئلہ تھا؟ کسی رسالت ونبوت میں کچھ ایرادات اٹھ کھڑے ہوئے تھے؟ کیا حقانیت وجامعیت قرآن سے متعلق کوئی رائیں ٹکرا رہی تھیں؟ کیا استقبال قبلہ زیر بحث آ گیا تھا؟ عبادات میں سے کسی کی فرضیت ووجوب پر مناظرہ شروع ہو گیا تھا؟ کوئی بھی شے اس قبیل کی تھی؟ آگے چلیے۔ امیر معاویہؓ نے بھی یہ دعویٰ کب پیش کیا تھا کہ میں شخصاً علیؓ سے افضل، اعلیٰ اور اشرف ہوں؟ گفتگو کا سارا خلاصہ یہ تھا کہ ایک فریق کے خیال میں خلیفۃ الرسول سے کچھ انتظامی غلطیاں اور سیاسی کوتاہیاں واقع ہو گئی تھیں۔ مثلاً یہ کہ انھیں قاتلان حضرت عثمانؓ سے قصاص فوراً لینا چاہیے تھا۔ تو فرمائیے کہ اسباب مخالفت تو تمام تر سیاسی، تدبیری وملکی وانتظامی تھے۔ دین وعقیدہ کی گھٹیاں کیسے پڑ گئیں اور کفر وایمان کی پیوند کاریاں اس میں کیسے راہ پا گئیں؟
اس سے بھی اوپر چلیے۔ خلیفہ اول ابوبکرؓ اور خلیفہ راشد علیؓ کے درمیان اختلاف کیا کوئی دینی واعتقادی تھا؟ یہ کسی اور اسلام کے قائل تھے اور وہ کسی اور کے؟ یا ایک دوسرے کے کمالات کے، فضائل کے، مناقب کے منکر تھے؟ کیا نعوذ باللہ دونوں ایک دوسرے کے نزدیک بدراہ وبدکردار تھے؟گفتگو صرف یہ چھڑی تھی کہ بہ حیثیت حکمران کون بہتر ہوگا اور شرفاے عرب کی اکثریت کس شخصیت کی طرف زیادہ آسانی سے کھنچے گی۔ پھر وہی سوال تمام تر ذاتی مقبولیت ومرجعیت کا۔ حرب عقائد کی کڑیاں اور لڑیاں جو بعد کو زلف مسلسل بنتی چلی گئیں، خدا کے لیے سوچیے کہ ابتدا میں کہاں تھیں؟ دین کی خدمت اب کاہے میں ہے؟ ان الجھنوں کو سلجھانے میں، پیچیدگیوں کا حل نکالنے میں یا اس کے برعکس الجھنوں کو اور بڑھانے اور ان گتھیوں کو مزید پیچیدہ کرنے میں؟ کاش وہی سادگی آج پھر نمودار ہو جاتی اور یہ شدید نفاق وشقاق مٹ مٹا کر بات صرف اسی سادہ اختلاف رائے کی رہ جاتی۔‘‘ (صدق جدید ۳۱ نومبر ۱۹۶۹)
سید حسین نصر اس وقت عالم اسلامی کی ایک معروف علمی شخصیت ہیں اور مسلک امامیہ اثنا عشریہ رکھتے ہیں۔ تہران یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور کچھ دن بیروت کی امریکی یونیورسٹی میں بھی بہ حیثیت استاد کام کر چکے ہیں۔ مستشرقین کی طویل صحبت ورفاقت کے بعد خود بھی ایک مستشرق فاضل بن گئے ہیں اور مستشرقین کے علمی رسالوں میں مقالے لکھتے رہتے ہیں اور مقالوں کا موضوع اسلام کی نصرت وحمایت میں مستشرقین کے خلاف دفاع ہی رہتا ہے۔
انگریزی میں کئی کتابوں کے مصنف ہیں، مثلاً:
(۱) سائنس اور تہذیب اسلام میں (Science and Civilization in Islam)
(۲) اسلامیات (Islamic Studies)
(۳) تین حکماء اسلام (Three Muslim Sages)
(۴) فرنچ زبان میں ’’تاریخ فلسفہ اسلام‘‘ پر ایک کتاب کی تصنیف میں شرکت، فرنچ مستشرق کورین (Corin) کے ساتھ۔
اور جوابی محاذ پر وہ کام کر رہے ہیں جس کا کوئی اندازہ بھی ہمارے ہاں کے مولوی صاحبان کو نہیں۔ تازہ ترین کتاب ’’اسلام کے تصورات وحقائق‘‘ (Ideals and Realities of Islam) حال میں دیکھنے میں آئی۔ ضخامت ۱۸۴ صفحہ، پبلشر George Allen & Unwin، میوزیم اسٹریٹ، لندن۔ قیمت ۲۸ شلنگ۔ کتاب انگریزی میں بسم اللہ سے شروع ہوتی ہے اور ۴، ساڑھے چار صفحہ کے مقدمہ کے بعد چھ بابوں میں تقسیم ہے۔
پہلا باب: اسلام آخری دین بھی ہے اور سب سے ابتدائی دین بھی۔ اس کے عمومی وخصوصی خط وخال۔
دوسرا باب: قرآن، خدائی کلام اور علم وعمل کا مبدا ومبتدا۔
تیسرا باب: نبی اور احادیث نبوی کا آخری نبی اور آفاقی انسان۔
چوتھا باب: شریعت یا خدائی قانون، معاشری اور انسانی معیار عمل۔
پانچواں باب: طریقت، طریق روحانیت اور اس کے قرآنی ماخذ۔
چھٹا باب: سنیت اور شیعیت، اثنا عشریت اور اسمٰعیلیت۔
اصلاً یہ چند لکچر تھے جو بیروت کی امریکی یونیورسٹی میں سرآغا خان کے سرمایہ سے دیے گئے تھے۔ نظر ثانی کے بعد انھیں کو کتابی شکل دے دی گئی۔ مصنف کا دعویٰ کہیں بھی اسلام کا جدید ’’ایڈیشن‘‘ یا ’’ماڈرن‘‘ اسلام پیش کرنے کا نہیں۔ وہ کہتے ہیں، میں تو وہی پرانا (Orthodox) اسلام پیش کر رہا ہوں جو ۱۴ سو سال سے چلا آ رہا ہے۔ صرف میرا انداز بیان بیسویں صدی کا ہے۔ ہر باب کے مضمون ومفہوم کا ایک موٹا اور ہلکا سا اندازہ تو محض عنوان ہی سے ہو گیا ہوگا۔ مصنف نے بڑی حد تک اپنے اس دعوے کو نباہ دیا ہے کہ ’’تجدد‘‘ ان کی کتاب میں کم سے کم ہے۔ زیادہ تر اعادہ وتکرار انھیں پرانی باتوں کا ہے، البتہ انداز بیان نیا اور زبان اسی بیسیویں صدی کی۔ نہ کہیں تعدد ازواج کے نام سے شرم ومعذرت، نہ کہیں فرنگ کے دعواے مساوات مرد وزن کی تائید اور نہ کہیں صوفیہ کے طریق ذکر وفکر سے عار وفرار۔ شروع سے آخر تک زور بجائے عقل واجتہاد کے نقل واتباع احکام پر، توحید وایمان پر۔
کتاب کا دلچسپ ترین باب اس کا آخری باب ہے جہاں مصنف نے تعارف سنیت کے ساتھ شیعیت (اور اس کی دونوں شاخوں) کا کرایا ہے۔ باب بھر میں ذکر نہ باغ فدک کا، نہ زیاد وابن زیاد کے مظالم کے تذکرے، نہ شیعیت کا یہ تعارف کہ وہ سنیت کی حریف اور اس کے خلاف کوئی باغیانہ تحریک ہے، بلکہ یہ کہ ’’سرچشمہ‘‘ اسلام (یعنی قرآن وحدیث) کے دو بڑے دھارے شروع ہی سے چلے آ رہے۔ ایک وہ جو صحابہ کی اکثریت یا جمہور کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے اور یہی اہل سنت کا مسلک ہے، اور دوسرا وہ چھوٹا دھارا جس کو علیؓ اور یاران علیؓ (سلمان فارسیؓ، ابوذرؓ ومقدادؓ) سنبھالے رہے تھے اور اس اقلیتی دھارے کو شیعیت کہتے ہیں۔ اصلی وبنیادی اختلاف کسی عقیدہ کا نہیں، فرق جو کچھ پڑا ہے، وہ انھیں مشترک بنیادی عقائد کی تعبیر وتشریح میں پڑا ہے اور قرآن وسنت کی اسی اختلاف تعبیر نے امامت، عصمت ائمہ وغیرہ چند اہم اختلافات اور پیدا کر دیے جنھیں بعد کو اصل کی سی اہمیت دے دی گئی۔ اور حقیقت میں سب کا ماخذ ومخرج قرآن اور اس کے برابر سنت رسول تھے۔ اس نظریہ کے خطا وصواب سے یہاں بحث نہیں۔ محض اس کی ندرت کے لحاظ سے یہاں اسے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ نظریہ اگر کہیں شیعوں میں مقبول ہو گیا تو آگے چل کر کثرت سے شیعہ (سید امیر علی مرحوم کی طرح) شیعہ سے بڑھ کر معتزلی نظر آنے لگیں گے اور فریقین کی کتب مناظرہ کے ذخیرہ عظیم پر یکسر پانی پھر جائے گا۔ صفحہ اول پر جو عقائد کی تشریح ہوئی ہے، اس میں شیعی علم کلام کے ڈانڈے معتزلی علم کلام سے کثرت سے مل جل گئے ہیں۔ (۲۲ مارچ ۱۹۶۸)
باہمی منافرت کے سنگین نتائج
’’ابن علقمی معید الدین محمد، آخری خلیفہ مستعصم کے وزیر کا نام ہے۔ یہ ایک شیعہ خاندان سے تھے۔ ان کے ہم مذہب ابن طفلقہ نے ان کے علم وفضل، ان کی خطاطی اور ان کی کتاب دوستی کو سراہا ہے اور ان کے تدبر کی مدح کی ہے، لیکن ان تک کو یہ ماننے پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ انھوں نے کافر تاتاریوں کے حملہ بغداد سے قبل ان سے غدارانہ خط وکتابت کر رکھی تھی۔ ابن علقمی کی وفاداری غالباً شیعہ محلہ کرخ کی تاراجی سے ختم ہو گئی تھی۔ ان کی غداری کے حدود کا جائزہ لینا مشکل ہے، تاہم اتنا تو یقینی ہے کہ جب سرداران فوج ہلاکو سے مقابلہ کی رائے دے رہے تھے تو ابن علقمی کا مشورہ نرمی وسازگاری کا تھا۔‘‘
’’ابن علقمی کو گبن نے اپنی تاریخ زوال رومہ میں دغا باز وزیر سے یاد کیا ہے۔ کسی بھی دوسری شخصیت کی غداری پر زیادہ زور دینا اب عبث سی بات ہے۔ کام کی بات یہ ہے کہ یہ دیکھیے کہ اس غداری کی محرک کیا شے ہوئی؟ مال کی طمع؟ جی نہیں۔ غرض زر، زن اور زمین کے عام محرکات میں سے کوئی شے نہیں، بلکہ شیعہ سنی کی باہمی منافرت جس نے ایک طرف سنیوں کو مجبور کیا کہ شہر کی شیعہ آبادی کو تہس نہس کر ڈالیں اور دوسری طرف شیعوں کو کہ وہ جوش انتقام میں آ کر خونخوار دشمنوں سے مل جائیں۔ تو فتنہ کی جڑ تو یہ باہمی منافرت ہوئی۔ اصل ضرورت اسی پر زور لگانے کی ہے۔ بغداد کا شاداب اور لہلہاتا ہوا باغ اسی آندھی کی نذر ہو گیا اور اتنے عظیم حادثہ سے بھی ملت کی آنکھیں نہ کھلیں اور نظر اس زہریلی اور مہلک فضا کی طرف نہ گئی۔ بادشاہ (برائے نام خلیفہ) کی غفلت وعیش پسندی، امیروں کی رنگ رلیاں اور شراب کے دور وغیرہ سب اسی تاریخی ’’زوال بغداد‘‘ میں معین ومعاون ہو ئے، لیکن آگ کی چنگاری اسی فرقہ واریت نے ڈالی اور مخاصمت شیعہ سنی تک محدود نہ تھی، بلکہ خود اہل سنت کے بھی مختلف فرقوں کے درمیان اسی زور وشور سے جاری تھی۔‘‘ (صدق جدید ۲۵ جولائی ۱۹۶۹)
پاکستان کے ایک نیم علمی نیم دینی ماہنامہ میں سرور صاحب جامعی کے سنجیدہ قلم سے:
’’پاکستان میں ہماری اسلامیت میں ہماری قومیت کی بنیاد ہے۔ اب اگر ہمارے ہاں اسلامیت ایک وحدانی شعور نہیں ہے بلکہ وہ عبارت ہے مختلف فرقوں سے جو ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں اور ان میں آپس میں برابر محاربت ومبارزت رہتی ہے تو ذرا اندازہ کیجیے کہ ہم میں قومی وحدت کیسے پید اہوگی اور ہم کیسے یہ محسوس کریں گے کہ ہم ایک ہیں اور ہمارے دکھ سکھ مشترک ہیں۔ آئندہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ خود مسلمانوں کے مذہبی فرقوں کا آپس کا تصادم ہے جو برابر بڑھتا جا رہا ہے اور یہ پاکستان کی ہیئت سیاسی واجتماعی کی وحدت وہم آہنگی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے، بلکہ اگر زیادہ وضاحت سے کام لیا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ مسلمان فرقوں کا موجودہ باہمی تصادم خود پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اور اس ضمن میں ہم تو یہاں تک کہیں گے کہ اس وقت ہمارے پاس جو مذہبی فرقہ واریت کی فضا ہے، اس کے ہوتے ہوئے خواہ پاکستان میں کتنے ہی کارخانے لگ جائیں اور تعلیم کتنی ہی پھیل جائے، ملک صحیح معنوں میں مضبوط ہوگا نہ متحد۔‘‘
پاکستان میں اس مسئلہ کی اہمیت تو ظاہر ہی ہے، لیکن ہندوستان میں بایں مغلوبی وشکستہ حالی یہ اندرونی مذہبی فرقہ واریت کچھ کم اہم اور کم قابل توجہ نہیں۔ (۹ نومبر ۱۹۶۶)
ایک شیعہ فاضل کی زبان سے، آج سے نصف صدی قبل:
’’متعصب اور خود غرض لوگوں نے ہر دو فریق کے عوام کو لکھنو میں یقین دلایا ہے کہ سنی بہ لحاظ عقیدہ شیعہ کے، اور شیعہ بہ لحاظ عقیدہ سنی کے مسلمان نہیں ہے، یعنی اقرار توحید ورسالت ومعاد وقبلہ وقرآن ایسے عقائد ہیں جن کے باوجود دنیاوی اور اسلامی معاشرت بھی قائم نہ رہنا چاہیے۔ ہر دو فریق نے اس نئی ایجاد سے اپنی قدیم فقہ پر بھی پانی پھیر دیا۔ علم اخلاق کی جو خدمت کی، وہ جدا رہی۔
شیعوں کے مقتدا اور معصوم ائمہ نے نہایت درجہ صلح اور دوستی اور صبر کے ساتھ عام مسلمانوں سے برتاؤ کیا۔ یہ بھی ہر مولوی بلکہ سنیوں کو معلوم ہوگا (کیونکہ عقائد شیخ صدوق میں لکھا ہوا ہے ) کہ قیامت تک احتیاط لازم ہے اور ائمہ معصومین نے حکم دیا ہے کہ سنت جماعت سے بیماروں کی عیادت کرو، ان کے ساتھ نماز پڑھو، عمدہ سلوک اور برتاؤ رکھو اور ایسی کوئی بات نہ کرو کہ وہ ائمہ کے خلاف مشتعل ہوں اور ایسے لوگوں سے سخت نفرت کی جائے جو محبت کے نام سے عداوت بڑھاتے ہیں۔‘‘ (منقول از اودھ پنج، ۲۵ جون ۱۹۰۸)
۱۹۰۸ میں لکھنو میں شیعہ سنیوں کے درمیان سخت تصادم برپا تھا۔ اس وقت یہ تحریر مشہور قومی کارکن اور صاحب علم خواجہ غلام الثقلین بی اے، ایل ایل بی (علیگ) کے قلم سے شائع ہوئی تھی اور اتنا عرصہ گزر جانے پر بھی باسی نہیں ہوئی ہے۔ کلمہ گو، مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا نہ دے۔
خواجہ غلام الثقلین مرحوم (متوفیٰ ۱۹۱۴) کو لوگ اب تو بھول بھال گئے۔ اپنے دور کے اکابرین میں ہوئے ہیں۔ ۱۹۱۱ میں سفر عراق، ایران، شام وغیرہ کیا اور واپسی میں روزنامچہ سیاحت مرتب کر کے تجارتی پریس میرٹھ سے شائع کیا۔ بخارا میں عین عاشورا کے دن ایک خونریز بلوہ شیعہ سنیوں کے درمیان دو ایک سال قبل ہو چکا تھا۔ اس کا ذکر کر کے لکھتے ہیں:
’’بخارا کے افسوس ناک فساد کی بنیاد صرف یہ نکلی کہ عاشورا کے دن وہاں کے شیعہ (جو ایرانی الاصل ہیں) اور منجملہ دو لاکھ آبادی کے ۱۵ ہزار کی تعداد میں ہیں، بازاروں کے اندر ماتم کرتے جا رہے تھے۔ ایک ترکمان طالب علم ان کو دیکھ کر ہنسنے لگا۔ عزا داروں نے اس کے دو تین تھپڑ مارے۔ اس پر دیگر لوگ آئے اور طرفین سے دو دن تک بلوے رہے۔ ڈیڑھ سو آدمی قتل ہو گئے۔ وزیر بخارا جو شیعہ تھا، معزول ہوا اور روس کا تسلط بخارا میں اور بھی زیادہ ہو گیا۔ اکثر مسلمانوں کی جہالت ہے کہ ایک دوسرے کا خون بہانے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں جس کی یہ ایک ادنیٰ مثال ہے۔‘‘ (ص ۳۳۸) (۱۸ ستمبر ۱۹۵۹)
رواداری کا کلچر
علامہ مناظر احسن گیلانی کے مقالہ ’’اسلام میں فرقہ بندی کی حقیقت واصلیت‘‘ سے:
’’فرقہ واری رواداری کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ جن دنوں میں علامہ شبلی نعمانی مرحوم ’’الفاروق‘‘ لکھ رہے تھے، علی گڑھ کالج کی پروفیسری کی خدمت پر مامور تھے۔ سرسید احمد خان کو اندیشہ ہوا کہ کالج کے ہمدردوں میں جو شیعہ حضرات ہیں، وہ حضرت عمر فاروق کی اس سوانح نگاری سے برا مان جائیں گے۔ انھوں نے ازراہ مصلحت بینی کالج کے ایک بڑے شیعہ ہمدرد ومددگار نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی کو مولانا شبلی کے ارادہ سے مطلع کرتے ہوئے اپنا خطرہ بتا دیا کہ اس کتاب سے مجھے سنی شیعہ تفریق کا ڈر ہے اور لکھا کہ میں نے مولانا شبلی کا قلم روک رکھا ہے۔ نواب صاحب مرحوم نے اس کا یہ جواب دیا کہ اسلام نے ایک فاروق پیدا کیا ہے۔ حیف ہے کہ اس کی سوانح عمری نہ لکھی جائے۔ مولوی شبلی کو ’’الفاروق‘‘ سے مت روکیے۔‘‘
مصنف ’الفاروق‘ کے مخلصانہ تعلقات نہ صرف اسی بلگرامی شریف شیعہ خاندان سے آخر تک قائم رہے، بلکہ عزیز لکھنوی اور خواجہ غلام الثقلین اور لکھنو کے اور شیعہ عمائد سے بھی رہے اور مولانا کی عزیز ترین یادگار دار المصنفین (اعظم گڑھ) کی مجلس اعلیٰ کے صدر اپنی زندگی بھر یہی عماد الملک سید حسین بلگرامی رہے اور ان کے بعد ان کے فرزند مہدی یار جنگ بہادر۔ خود علی گڑھ کی تحریک میں سالار جنگ، خلیفہ محمد حسین، سید حسن بلگرامی، سید علی بلگرامی، مرزا عابد علی بیگ اور خواجہ غلام الثقلین کا جو حصہ رہا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اور سر آغا خان اور راجہ علی محمد خاں (والی محمود آباد) تو مسلم یونیورسٹی کی روح رواں ہی مدتوں رہے ہیں۔ (۲۵ دسمبر ۱۹۵۹)
ہوش بلگرامی، جو بعد کو نواب ہوش یار جنگ بہادر ہو گئے تھے، ان کی آپ بیتی کا ایک ٹکڑا ماہ نامہ نقوش کے آپ بیتی نمبر سے:
’’خدا ہر ذی روح کاخالق ہے، بلکہ کائنات کی ہر چیز اسی کی مخلوق ہے، مگر اس کی عالمگیر تہذیب (؟توحید) اس امت کے ہاتھوں بدنام ہو رہی ہے جو توحید پرستی کے دعویدار ہونے کے باوجود خود ہی مختلف پرستشوں میں مبتلا ہو گئی ہے اور یہاں تک جراتیں بڑھ گئی ہیں کہ اسلام کا ایک فرقہ ان کو بھی برا بھلا کہنے میں بدنام ہے جن کو اگر وہ خلیفہ نہیں مانتا ہے تو ان کے صحابی ہونے سے تو انکار نہیں ہو سکتا ہے۔ اور اس پر بو العجبی یہ کہ وہ تبرا بازی کو محبت سے تعبیر کرتا ہے اور مدح وقدح کے قضیے کھڑے کر کے مسلمانی طاقت کو کو کمزور کر ہی چکا ہے، علیؓ کی شان میں بھی گستاخی کا محرک ہوتا ہے۔ جس طرح بتوں کو برا کہنے سے خدا کو برا کہلوانے کا حوصلہ پیدا کیا جاتا ہے، اسی طرح خلفاے ثلاثہ کی شان میں بے ادبیاں کر کے علی مرتضیٰ کو بلاوجہ ہدف بنایا جاتا ہے۔ ایسوں کو کون سمجھائے اور اگر سمجھائے بھی تو مذہبی جنون کب سمجھنے دیتا ہے؟ افترا پردازوں کا اجتہاد کب صحیح راستہ اختیار کرنے دیتا ہے؟ علیؓ کی حکیمانہ روش پر اگر ان کے متبع چلتے اور کسی کی مدح نہیں کر سکتے تو قدح بھی نہ کرتے تو یہ وہ راستہ ہوا جس سے دوسروں کے معتقدات کو صدمہ نہ پہنچتا، ان کے جذبات عقیدت نہ بھڑکتے اور انتقامی جذبہ اس حد تک نہ پہنچ جاتا جس سے خدا محفوظ رہا نہ رسول۔‘‘
کسی شیعہ صاحب کی نظر سے اگر یہ نوٹ گزرے تو وہ یہ یاد کر لیں کہ اوپر کی عبارت کسی سنی کے قلم سے نہیں اور نہ ا س سے مقصود کوئی مناظرہ ہے، ایک شیعہ کے قلم سے ہے اور اس سے ان کا مقصود اپنے ہی بھائیوں کی اصلاح اور نصیحت، انھیں کی ہمدردی وہوا خواہی ہے اور یقین ہے کہ اسے اسی نظر سے پڑھا بھی جائے گا۔ اکیلے ہوش بلگرامی ہی نہیں، متعدد شیعہ راقم سطور نے علی گڑھ ، حیدر آباد، لکھنو اور دلی وغیرہ میں ایسے دیکھے ہیں جو عمر فاروق کا نام ’’حضرت عمر‘‘ کہہ کر لیتے اور ہر طرح اہل سنت کے جذبات کا احترام کرتے۔ ایسوں کا وجود جب تک ہے، اتحاد اسلامی کی طرف سے مایوسی کی وجہ موجود نہیں۔‘‘ (۲۴ جولائی ۱۹۶۴)
مولانا ابو الحسن علی ندوی کے تازہ سیاحت نامہ میسور سے:
’’قدیم ریاست میسور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہاں ہر قصبہ میں بالعموم اور شہروں میں بالخصوص بہت شاندار اور وسیع میونسپل ہال اور بہت خوبصورت، صحت افزا اور خوش وضع گیسٹ ہاؤس (سرکاری مہمان خانہ) اور ریسٹ ہاؤس (سرکاری فرو گاہیں) بنی ہوئی ہیں۔ میں نے شمالی ہند کے بڑے بڑے شہروں اور ضلع کے صدر مقام میں بھی اتنے اچھے انتظامات نہیں دیکھے۔ یہ غالباً سر مرزا اسمٰعیل کے حسن مذاق اور حسن انتظام کا نتیجہ ہے جن کے دور وزارت کی نشانیاں میسور کے چپہ چپہ پر موجود ہیں اور اہل میسور بلا تفریق مذہب وملت ان کا نام عزت سے لیتے ہیں۔‘‘
امین الملک سر مرزا اسماعیل مرحوم کا تعلق فرقہ امامیہ سے تھا۔ مولانا ندوی سلمہ سب کو معلوم ہے کہ موجودہ علماء اہل سنت کے اکابر میں ہیں۔ بات بہ ظاہر معمولی سی ہے، لیکن موجودہ ’’فرقہ وار‘‘ (اور یہی صحیح محل استعمال فرقہ واریت یا Sectarianism کا ہے، نہ کہ وہ مذہبی تعصب Communalism جس کے لیے بالکل غلط اور بے محل یہ لفظ اخباروں نے چلا دیا ہے) کشاکش کی فضا میں یہ صحیح داد مولانا کے قلم سے ادا ہونا ہر طرح مبارک اور بجائے خود قابل داد ہے۔ آج تو شیعیت کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ بجائے امیر المومنین حضرت علیؓ سے انتہائی محبت رکھنے کے ہر سنی پر ’’ناصبیت‘‘ کی تہمت رکھ دی جائے اور سنیت کی روایت یہ ہے کہ بجائے شیخین کے نقش قد م پر چلنے کے ہر شیعہ کو رافضیت سے نواز دیا جائے۔ حالانکہ تاریخ کا فتویٰ تو یہ ہے کہ جہاں تک خالص ’’اسلامی‘‘ ثقافت (کلچر) کا تعلق ہے، وہ تو چہارم خلیفہ راشد پر ختم ہو گئی اور اس کے بعد سے جو ملی جلی مخروج اور غیر خالص ’’مسلم‘‘ تہذیب چلی اور آج تک چلی آ رہی ہے، اس میں سواد اعظم کے ساتھ ساتھ شیعہ اقلیت کا حصہ بھی اچھا خاصا شامل ہے۔ امت کی شان میں جو یہ آیا ہے: اشداء علی الکفار رحماء بینہم تو اس کے معنی یہی ہیں کہ یہ لوگ منکرین کے مقابلہ میں تو پتھر کی سی صلابت رکھتے ہیں، لیکن آپس میں ایک دوسرے کی کمزوریوں کے لیے موم کے سے نرم ہیں۔ (۳۰ دسمبر ۱۹۶۶)
اپنا مسلک ہر فرقہ بلکہ ہر مذہب کو اسی نام ولقب سے یاد کرنا ہے جو وہ خود اپنے لیے پسند کرتا ہے، نہ کہ ایسے لفظ سے جو وہ اپنے حق میں ناملائم بلکہ بطور گالی کے سمجھتا ہو۔ اسی اصول کے تحت لفظ ’’رافضی‘‘ کے استعمال سے ہمیشہ اجتناب رہا۔ حال میں لغت عربی خصوصاً الفاظ قرآنی کی مستند لغت کلیات ابی البقاء (متوفیٰ ۱۰۹۵) میں لغت ’رفض‘ پر نظر پڑ گئی اور اس میں یہ درج ملا:
ترجمہ: ’’روافض سے مراد وہ اہل لشکر ہیں جنھوں نے اپنے سردار کا ساتھ چھوڑ دیا۔‘‘
اس کے بعد ذکر اصطلاحی فرقہ رافضہ کا ہے۔
ترجمہ: ’’رافضہ ایسے ہی فرقہ کو کہتے ہیں، اور رافضہ شیعان کوفہ کے ایک فرقہ کا نام ہے۔ ان لوگوں نے زید بن علی (زین العابدین) سے بیعت کی تھی اور زید کا عقیدہ تھا کہ فاضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت بھی درست ہے۔ پھر ان لوگوں نے زید سے فرمایش کی کہ خلفاے شیخین سے تبرا کیجیے۔ اس سے آپ نے انکار کیا اور فرمایا کہ وہ دونوں تو میرے جد امجد (رسول اللہ ﷺ) کے وزیر تھے۔ اس پر ان لوگوں نے زید کو چھوڑ دیا اور ان سے علیحدگی اختیار کر لی اور یہی نسبت رافضی کہلاتی ہے۔‘‘
اور یہی روایت اختصار کے ساتھ لغت کی دوسری مستند کتابوں الجمہرۃ (ابن درید) صحاح جوہری، قاموس (فیروز آبادی)، لسان العرب وتاج العروس میں بھی دہرائی گئی ہے، لیکن ابو البقاء کی دینی حیثیت بھی نمایاں ہے، اس لیے پورا حوالہ انھیں کا نقل ہوا۔ روایت اگر صحیح ہے تو ظاہر ہے کہ لفظ رافضی میں بجائے خود کوئی پہلو سب وشتم کا نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مسلسل غلط محل استعمال سے اس میں ثانوی مفہوم طنز وتشنیع کا بھی پیدا ہو گیا ہے۔ (۱۰ جون ۱۹۶۶)
شیعہ سنی اتحاد کا مطلب
سوال: اسی مقصد کا ایک مضمون کسی ایرانی عالم کی طرف سے بھی آپ کے اخبار میں شائع ہو چکا ہے۔ جناب نے اس مسئلہ پر اپنا خیال مبارک ظاہر نہیں فرمایا کہ یہ اتحاد ممکن بھی ہے یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ اس اتحا د کی نوعیت کیا ہوگی؟ کیا مشترکہ ادارت میں رسالہ شائع ہونے سے قرب حاصل ہو جائے گا؟ کیا شیعہ حضرات تبرا کرنے سے تائب ہو جائیں گے اور کیا سنی حضرات امامت حضرت علی کو جزو ایمان تسلیم کر لیں گے؟ اس کے علاوہ اس تفرقہ کے اجزا اور بھی بہت سے ہیں۔ اگر یہ ممکن ہے یعنی شیعہ حضرات کا تبرا سے تائب ہونا اور امامت حضرت علی کو تسلیم کرنا اور تمام جزوی اختلافات کو نظر انداز کرنا تو علماء حضرات آپ کے مقتدر اخبار میں اور دوسرے مذہبی رسالوں میں اعلان فرمائیں تاکہ عام مسلمانوں کی رہنمائی ہو۔ نیاز مند، عبد الستار خلجی (ناظم آباد نمبر ۳، کراچی)
صدق: جو اتحاد مطلوب ومقصود ہے، اس کے لیے صرف اصل اصول کا اشتراک بالکل کافی ہے۔ فروع بلکہ غیر اہم اصول کی طرف جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ انضمام اور چیز ہے (اور اس پر کوئی بھی فرقہ کیوں راضی ہونے لگا) اور اتحاد اور۔ اتحاد کی دعوت تو قرآن مجید نے غیر مسلموں (یہود ونصاریٰ) تک کو دی ہے، یہ کہہ کر کہ توحید کو بطور نقطہ اشتراک قبول کر لو، اور ان کے دوسرے عقیدوں سے کوئی بحث ہی نہیں رکھی اور مدینہ آ کر یہود سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ اتحاد قائم ہی کر لیا تھا۔ یہ طے کر لیجیے، اس پر سختی سے جم جائیے تو اتحاد ومصالحت کی صورت بالکل آسان ہو جاتی ہے۔ نقطہ اشتراک واتحاد اقرار شہادتین ہے، یعنی اقرار توحید ورسالت۔ مسئلہ امامت وتفضیل صحابہ وغیرہ گو اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن توحید ورسالت کی طرح اور وحدت کلمہ وقبلہ کی طرح بنیادی چیزیں نہیں۔ جزئیات کی طرف جائیے گا تو خود اہل سنت کے ہاں کتنے فرقے، کتنی تفریقیں نکل آئیں گی۔ (۲۹ دسمبر ۱۹۶۷)
الحاج محمد علی سالمین جن کا ایک ادارہ گرینڈ مسلم مشن کے نام سے بمبئی میں تھا جس کا کام زیادہ تر انگریزی میں ہوتا تھا اور جو خود امامیہ عقیدے کے ہیں، ان کا ایک مکتوب ان کے آبائی وطن بحرین (خلیج عرب) سے:
’’بحرین بہت قدیم ہے۔ یہاں کے رہنے والے اکثر عرب ہیں جن میں اثنا عشری ۹۰ فیصدی ہیں۔ باقی دوسرے عرب ممالک کے عرب اور ایرانی تاجر آکر آباد ہو گئے ہیں ...... میں نے ہر ہر جگہ عرب ممالک میں دیکھا کہ لفظ شیعہ سنی بہت مکروہ ہو گیا ہے اور پبلک اس کو گوارا نہیں کرتی۔ محض لفظ مسلم کافی سمجھتے ہیں۔ دونوں میں رشتہ داریاں ہوتی رہتی ہیں۔ مغربیت عربوں پر اثر انداز ہوتی جا رہی ہے اور نسل جدید اسلام سے ناواقف ہوتی جا رہی ہے اور مغربی تہذیب وتمدن کو اپناتی جا رہی ہے۔ کھانا پینا بھی یورپین طریقے سے کھاتے ہیں۔ صرف پرانے اور ادھیڑ عمر کے لوگ عربی کھانا اور عربی تہذیب پر چلتے ہیں ...... بحرین کی حکومت میں شیعہ سنی سب کو ملازمتیں ملتی ہیں، کوئی تفریق نہیں کی جاتی اور نہ تعصب سے کام لیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی جگہ ایک شیعہ عرب کو ملی ہے جو مالیات کے سیکرٹری ہیں۔ حاکم خود سنی مسلک کے ہیں، تعصب نام کی کوئی چیز نہیں۔ تمام رعایا ان سے خوش ہے۔‘‘
شیعہ سنی اتحاد سارے کلمہ گو فرقوں کے اتحاد کی طرح وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے ۔ اہم ہمیشہ ہی سے تھا، موجودہ مصلحت ملی نے اہم تر بنا دیا ہے۔ اس پہلو سے خبر بڑی خوشگوار ہے، لیکن اس اتحاد کی بنیاد ہمیشہ وحدت امت وحب اسلام ہی پر ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ اس کی بنیاد لامذہبی، اسلام سے کم تعلقی اور دین کی طرف سے بے پروائی پر ہو، جیساکہ اس خبرنامہ کے بعض فقروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی عقائد کی طرف سے بے پروا ہو کر سب کے سب ’’صاحب‘‘ کے دین وآئین پر آتے جا رہے ہیں۔ یہ راہ ارتداد کی ہے، اتحاد ملی کی نہیں۔ اتحاد سوچ سمجھ کر شعور کامل کے ساتھ ہو۔ (۷ فروری ۱۹۶۴)
’’اقلیت کی خانہ جنگی‘‘ کے عنوان سے جو شذرہ صدق نمبر ۴۰ میں تحریر فرمایا ہے، ا س نے ایک دیرینہ تمنا کو پھر جگا دیا ہے۔ عرصہ سے یہ تمنا ہے کہ شیعہ سنی اتحاد کے ضمن میں آپ سے ایک مضمون لکھنے کی درخواست کروں۔ وقتاً فوقتاً آپ صدق میں اس جانب اشارہ فرماتے رہتے ہیں، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں فرقوں میں تفرقہ جن بنیادوں پر ہے، اسے عوام کو بتا کر خصوصاً تعلیم یافتہ طبقہ کو روشناس کرا کر پھر اس کے دور کرنے کے سلسلہ میں کوئی آپ کی جیسی اتحاد پسند مقبول الطرفین اور منصف مزاج طبیعت کا مالک عالم دین اپنی تجاویز پیش کرے اور قرآن وحدیث اور واقعات وتواریخ کی روشنی میں ان بنیادوں کی تصحیح وتغلیط کی وضاحت کرے۔ بڑے بڑے پڑھے لکھے یعنی ایم اے، بی اے حضرات کو صحیح طور پر تفرقہ مذکور کی صحیح بنا معلوم نہیں اور بالکل من گھڑت باتوں پر ایک دوسرے سے نفرت رکھتے ہیں۔ میری ناقص رائے تو یہ ہے کہ اگر طرفین کو تفرقہ کا بنیادی فرق بتا کر اس کو دور کرنے کی ترغیب وتبلیغ کی جائے تو ان شاء اللہ معجزۂ اتحاد شیعہ وسنی بہت جلد ظہور پذیر ہو سکتا ہے۔ کاش آپ کو اس تحریک کی ابتدا کرنے کی فرصت وسعادت حاصل ہوجائے، یا آپ کے توسط سے کوئی اور عالم دین یا رہبر قوم اس کی ابتدا کرنے پر آمادہ وکمربستہ ہو جائیں! (عباس غفر اللہ لہ، از اسلام آباد)
صدق: یہ دنیا اگر اتنی حق پسند اور سلیم الفکر ہوتی تو اس درجہ خون ریزی وسفاکی اور شقاوت ہی کی نوبت تاریخ میں کیوں آئی ہوتی! شیعہ سنی اختلاف تو پھر کچھ نہ کچھ اہمیت رکھتا ہے۔ خود سنیوں نے اس سے کہیں ہلکے اور بالکل ہی جزئی وسطحی اختلافات پر دوسرے سنیوں کے گلے کاٹ ڈالنے اور سر توڑ دینے میں تکلف نہیں کیا ہے اور ہر فرقے کے اندر ٹولے ہی نہیں، چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بھی بے شمار قائم ہو چکی ہیں۔ اختلاف اور چیز ہے، اسے تو کوئی انسان دماغوں سے مٹا ہی نہیں سکتا اور تفرقہ، نزاع، تعصب وعیب جوئی دوسری چیز۔ اسلام کی بنیاد تو صرف توحید ورسالت کی تصدیق پر ہے۔ دل میں اگر اسی عقیدہ کا بنیادی اور مرکزی تصور جما ہوا ہے تو دوسرے اختلافات خود بخود ہلکے نظر آنے لگیں گے، لیکن یہی تو نہیں اور ہم آپ ۱۳ سو سال سے (بہ زبان رومی) گرفتار ابوبکر وعلی بن چکے ہیں۔ تعصبات، ایک دوسرے سے متعلق اعتراض، روایات، الزامات واتہامات کی کوئی حد ہی نہیں۔ صدیوں کی جمی ہوئی ضد کی جڑیں اکھاڑ پھینکنا کسی بشر کا کام تو ہے نہیں۔ اللہ میاں کسی کو فوق البشر بنا کربھیج دیں تو بات ہی اور ہے۔ (۱۱ اکتوبر ۱۹۶۸)
تبرا بازی کے جواب میں صحیح رویہ
میں کسی بھی کلمہ گو فرقہ کی تکفیر کا قائل نہیں اور فرقہ شیعہ امامیہ کے افراد کے ساتھ تو میرے تعلقات خصوصیت سے حد یگانگت تک پہنچے ہوئے ہیں۔ لکھنو، دہلی، علی گڑھ، پانی پت، بلگرام، حیدر آباد، پٹنے، بلکہ لاہور، کراچی، ڈھاکے وغیرہ کے پچاسوں بہترین شیعہ افراد سے ربط ضبط نہ صرف قائم رہا ہے بلکہ بعض ملی موضوع پر ان سے اشتراک عمل کی بھی نوبت آ چکی ہے۔ چنانچہ حال ہی میں ، میں نے ایک ممتاز شیعہ فاضل سے درخواست کی کہ شیعہ اہل نظر، اہل قلم نے مسلم ثقافت اور مسلم علوم وفنون (تفسیر، کلام، تاریخ، لغت، صرف، نحو، شعر وادب، فلسفہ، ریاضیات، طبعیات وغیرہ) میں جو خدمات اس ساڑھے بارہ سو سال کی مدت میں انجام دی ہیں، اسی طرح شیعہ اہل سیف واہل سیاست نے فتوحات ملکی وغیرہ کے سلسلے میں جو خدمات انجام دی ہیں، اس سب پر ایک ضخیم ومبسوط رسالہ بلکہ ہو سکے تو کتاب چند جلدوں میں تیار کیجیے اور دنیا پر دکھا دیجیے کہ آپ کے فرقہ کا قدم بھی عام ومشترک خدمات ملت میں کسی سے پیچھے نہیں۔ ان شیعہ کرم فرماؤں کی ایک بڑی تعداد دنیا سے اٹھ گئی، پھر بھی جو باقی رہ گئے ہیں، ماشاء اللہ ایسی کم نہیں، ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی۔ ان کے اخلاص پر مجھے اعتماد وفخر ہے اور کبھی کبھی انہوں نے مجاہدانہ حد تک میرے ساتھ اشتراک عمل کیا ہے۔
اس ذہنیت اور حسن ظن کے پس منظر کے ساتھ میں کانپ کر رہ گیا جب بے شان وگمان بلا کسی ادنیٰ توقع وخیال کے پاکستان کے کسی مذہبی یا مناظرانہ رسالہ میں نہیں، ایک خالص ادبی رسالہ کے دسمبر نمبر میں کسی مولوی صاحب کا نہیں، ایک ٹھیٹھ مسٹر صاحب کا افسانہ تینوں خلفاے راشدین کی ہجو وتبرا سے لبریز اپنی آنکھوں سے پڑھ لیا۔ آنکھوں کو اپنے پر یقین نہ آیا۔ دوبارہ پڑھنے کی کوشش کی اور دل پر جبر کر کے کسی حد تک تو پڑھ ہی لیا۔ مضمون نگار ایم اے پی ایچ ڈی ہیں۔ جوار لکھنو کے رہنے والے ہیں۔ لکھنو یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد تھے۔ کراچی یونیورسٹی میں بھی انگریزی ہی کے ہوں گے، یا شاید اردو کے ہوں۔ اب تک صرف اپنی تنقیدوں اور افسانوں ہی کے لیے مشہور رہے ہیں۔ میرے پرانے ملنے والے ہیں اور تقسیم سے قبل کے۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ان کا قلم اس درجہ سفاک، دل آزار وصبر آزما ثابت ہوگا۔ رسالہ کا نام ’’ساقی‘‘ (کراچی) ہے۔ معلوم ومعروف شاہد احمد مرحوم دہلوی اس کے ایڈیٹر تھے۔ اب پرچہ کے اوپر ضابطہ سے نام ان کی بیوی کا ہے، لیکن ناممکن ہے انھوں نے مضمون کو پڑھنے یا سمجھنے کے بعد درج کیا ہو۔
کسی سنی مسلمان کے لیے ممکن نہیں کہ مضمون پڑھ کر اس کا خون کھول نہ جائے اور شیعوں کی طرف غصہ ونفرت اس میں موجزن نہ ہوجائے۔ مجرم کے جرم کو ہلکا کرنے کے لیے یہ ہرگز کافی نہیں کہ افسانہ بڑے لخلخہ کے ساتھ قدیم افسانوی بندشوں اور تلازموں سے لکھا گیا ہے۔ میں مضمون کے ٹکڑے نقل کر کے خواہ مخواہ زہر کے پھیلانے کا مرتکب نہ ہوں گا اور نہ میں چاہتا ہوں کہ اب تک کسی سنی نے بھی اسے دیکھا ہو۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ صرف شیعہ ہی اسے پڑھیں اور پھر جو کچھ ان کے انصاف میں آئے، وہ سزا اس مجرم کو اپنی عدالت سے دیں اور اس طرح سنیوں کی اشک شوئی کریں۔ خدا نخواستہ یہ توقع نہ پوری ہو تو ظاہر ہے کہ اہل سنت کو چارہ جوئی کا پورا اختیار باقی رہے گا۔
۱۶، ۱۷ برس قبل اسی قسم کا بلکہ اس سے بھی کہیں تلخ وتکلیف دہ تجربہ ایک بے ادب، بے نصیب شاعر کی تحریر سے متعلق ہوا تھا۔ میں نے تحریر کو شائع کر کے فیصلہ صرف شیعہ حضرات ہی پر چھوڑ دیا تھا۔ بحمد اللہ شیعیان لکھنو (خصوصاً خان بہادر مولوی سید مہدی حسن صاحب) نے فوری طور پر کارروائی کی اور بغیر اہل سنت کو درمیان میں لائے خود ہی بدتمیز شیعہ شاعر کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔ (۱۶ فروری ۱۹۶۸)
سوال: میں ہر سال یوم حضرت امیر معاویہؓ مناتا ہوں جس میں مسلمانان عالم کے اماموں اور کاتب وحی کے صرف مناقب بیان کیے جاتے ہیں تاکہ مسلمان اس مدبر کے حالات سے باخبر ہوں۔ ایسا کرنے پر مجھے مطعون کیا جاتا ہے۔ میں اپنے بزرگوں سے سالانہ جلسے پر پیغامات ارسال کرنے کی استدعا کرتا ہوں تو مجھے ڈانٹ ڈپٹ کے خط بھیجے جاتے ہیں، لیکن کچھ بھی ہو، میں مرتے دم تک ایسا کرتا رہوں گا۔ آج آنجناب کے ملاحظہ میں ایک پوسٹر پیش کرتا ہوں جو یہاں کے شیعہ حضرات نے ہر در ودیوار پر لگوایا ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ ان حضرات کو سات خون معاف اور ہم اگر فضائل بھی بیان کریں تو گنہگار۔ یہ کیسی منطق اور کیسا انصاف؟ والا جناب سے میری استدعا ہے کہ میرا نام ظاہر فرماتے ہوئے ’’صدق‘‘ میں اس تعلق سے ایک نوٹ تحریر فرمائیں کہ ایسا پوسٹر کیا دوسروں کی دل آزاری کا باعث نہیں ہے۔ (کفش بردار، مرزا جمیل احمد بیگ، ایم اے، ایل ایل بی (علیگ) ایڈووکیٹ، موتی مارکیٹ، حیدر آباد)
صدق: ایسے شر انگیز پوسٹر کے صدق میں شائع ہونے کی توقع ہی آخر کیسے کی جا سکتی تھی؟ اہل سنت کے لیے اتنا اشتعال انگیز، اتنا ہیجان آور! اسے توفوراً ہی صبر ’’جمیل‘‘ سے کام لے کر ردی میں پھینک دینا تھا، جیسا کہ دنیا کی اور بہت سی بیہودہ اور صبر آزما اشتعا ل انگیزیوں کے موقع پر کرنا ہی پڑتا ہے، عقل وشریعت دونوں کے مقتضا سے۔ لیکن یہ بھی دوسری طرف زیادتی ہے کہ ایسی تکلیف دہ صبر آزما حرکتوں کو منسوب حیدر آباد کے کل شیعوں بلکہ ان کی اکثریت کی بابت بھی کیا جائے۔ اس سرزمین پر آخر سالار جنگ اور ان کی اولاد رہ چکی ہے۔ عماد الملک سید حسین بلگرامی، ڈاکٹر سید علی بلگرامی اور بلگرامیوں کا پورا خاندان گزر چکا ہے اور بہت سے حضرات۔ آپ ان کی طرف دیکھیے۔ یہ تو ان کی صرف ایک مختصر سی ٹولی ہے، اور ایسی ٹولیاں کس فرقہ، کس قوم، کس مذہب میں نہیں ہوتیں؟
تدبر اور دور اندیشی کا تقاضا ہے کہ رواداری اور باہمی سازگاری کی ایسی فضا پیدا کی جائے جس میں ایسی آوازیں بالکل دب کر رہ جائیں۔ اپنی ساری توانائی، ہمت اور اثر انھیں مصلحانہ ومصالحانہ کوششوں میں صرف فرمائیے۔ ’’جوابی‘‘ اور ’’انتقامی‘‘ کارروائیاں محض آگ پر تیل چھڑکنے کا کام دیں گی اوران کا منحوس چکر کبھی ختم ہونے پر نہ آئے گا۔ سارا زور صرف متفقہ مسائل پر دیجیے جو بنیادی اور کلیدی مسائل ہیں۔ ایک خدا، ایک رسول، ایک قرآن، ایک کلمہ، ایک قبلہ، اتنی اکٹھی نعمتیں اور کس کو ملی ہیں؟ ان کی ناقدری کفران نعمت کی ایک بدترین شکل ہے۔ بہت سے اعمال بجائے خود مستحب وافضل ہوتے ہیں، لیکن جب ان سے صورت کسی فتنہ کی پیدا ہو جائے اور ترک واجب ان سے لازم آنے لگے تو ان کا ترک بھی عقلاً وشرعاً واجب ہو جاتا ہے۔
اختلافی مسائل جو کچھ بھی ہیں، وہ تمام تر فرعی (مثلاً امامت ومسئلہ ولایت) ان پر باہمی گفتگو ہمیشہ علمی وسنجیدہ انداز میں ہو سکتی ہے اور ان کی بنیاد پر کوئی فساد، ہنگامہ، بلوہ آج تک نہیں ہوا ہے۔ .....بعض تاریخی شخصیتوں کے ٹکراؤ، نزاع واختلاف بڑھانے والے گھسے پٹے ہوئے واقعات کو دہرانے کے بجائے ان حقیقتوں کو اپنی فکر ونظر کے سامنے لاتے رہیے:
(۱) سنی حکمرانوں کے وزیر اعظم اور سپہ سالار کس کثرت سے شیعہ رہا کیے ہیں اور اسی طرح شیعہ رئیسوں کے دیوان اور مینیجر سنی۔ بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔
(۲) پختہ وراسخ سنی حکمرانوں کی مائیں اور بیگمات کس کثرت سے شیعہ گزری ہیں۔ سلطان اورنگ زیب کی والدہ کون تھیں؟ اور جہانگیر اور شاہ جہاں کی بیگمات کون؟
(۳) ’’مسلم کلچر‘‘ جس قدر قابل قدر مجموعہ کانام ہے، ا س کے اجزاء ترکیبی میں سے ایک ایک پر غور کیجیے۔ تاریخ، لغت، ادب، کلام، شاعری، طب، معماری، صناعی، منطق، فلسفہ، طبیعیات وغیرہ، ان میں سے ہر ایک کی تشکیل میں فرقہ اکثریت کے ساتھ ساتھ کتنا ہاتھ فرقہ اقلیت کا بھی ہے۔
(۴) ہندوستان میں مسلم کلچر کے اس عظیم ادارہ کی طرف نظر کیجیے جس کا نام مسلم یونیورسٹی ہے کہ شیعہ بھی اس میں کس گرم جوشی کے ساتھ شریک رہے ہیں۔ (۱۳ جون ۱۹۶۹)