سنی شیعہ کشیدگی ۔ چند اہم معروضات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سنی شیعہ تنازع کے حوالے سے ’الشریعہ‘ میں وقتاً فوقتاً ہم اظہار خیال کرتے رہتے ہیں اور اس بارے میں قارئین ہمارے عقیدہ، جذبات اور طرز عمل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ چند ماہ قبل ہم نے ہمدرد یونیورسٹی دہلی سے آمدہ ایک سوال پر اس سلسلے میں اپنے اسی موقف کو اختصار کے ساتھ دہرا دیا جس کا اظہار اس سے قبل مختلف مضامین میں کیا جا چکا ہے تو اس پر کالعدم سپاہ صحابہ کے ترجمان ماہنامہ ’’خلافت راشدہ‘‘ فیصل آباد نے ستمبر ۲۰۰۴ کے شمارے میں غصے اور ناراضی کا اظہار کیا ہے اور والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے ایک فتویٰ کے حوالے سے اپنے قارئین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہے، وہ حضرت موصوف کے فتویٰ سے انحراف ہے اور ’الشریعہ‘ نے ان کے موقف سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کر لی ہے۔ اگر حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کا حوالہ نہ ہوتا تو شاید ہم اس پر تبصرہ کی ضرورت محسوس نہ کرتے، لیکن چونکہ ’’خلافت راشدہ‘‘ کے فاضل مضمون نگار نے اپنے غیظ وغضب کے اظہار کے لیے اس فتویٰ کو آڑ بنایا ہے، اس لیے چند امور کی وضاحت ہم ضروری سمجھتے ہیں۔

کالعدم سپاہ صحابہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ :

’’مولانا زاہد الراشدی جید عالم دین، عظیم اسلامی سکالر، معروف کالم نگار اور ایک مذہبی رسالہ ماہ نامہ ’الشریعہ‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ ان کے والد محترم حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر بہت بڑی علمی شخصیت اور عظیم عالم دین ہیں۔ انھوں نے ۱۲ مارچ ۱۹۸۶ کو شیعہ کے بارے میں درج ذیل فتویٰ جاری کیا تھا:

’’الجواب ہو المصوب: شیعہ اپنے کفریہ عقائد کی وجہ سے اسلام سے خارج ہیں جن میں تین باتیں اصولی ہیں:

۱۔ قرآن کریم ان کے نزدیک اصلی شکل میں نہیں۔

۲۔ ان کے نزدیک جمہور حضرات صحابہ کرام (العیاذ باللہ) کافر ہیں۔

۳۔ ان کے نزدیک ائمہ معصوم ہیں، حالانکہ معصوم ہونا صرف حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا خاصہ ہے۔ گویا ان کے نزدیک ہر امام نبی ہے۔ نعوذ باللہ من الخرافات۔

لہٰذا شیعہ کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں، اور ان کے تقیہ سے قطعاً متاثر نہیں ہو نا چاہیے۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم۔

ابو الزاہد محمد سرفراز 

شیخ الحدیث مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ

یکم رجب ۱۴۰۶ ہجری ۔ ۱۲ مارچ ۱۹۸۶‘‘

محترم مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کے والد محترم کا تفصیلی فتویٰ آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہے۔ اب محترم مولانا زاہد الراشدی کا اپنا طرز عمل بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ہمدرد یونیورسٹی دہلی کے شعبہ اسلامیات کے رکن شیعہ مذہب کے پیروکار ڈاکٹر یوگندر سکند نے ایک تحریری انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو محترم مولانا زاہد الراشدی نے اپنے زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ الشریعہ جولائی ۲۰۰۴ میں شائع کیا ہے۔ اس انٹرویو میں شیعہ انٹرویو نگار مذکور نے سوال نمبر ۱۱ کیا ہے کہ ’’بعض پاکستانی حلقے مثلاً سپاہ صحابہ شیعہ کو کافر اور دشمن اسلام قرار دیتے ہیں۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں؟ ہاں یا نہیں کی صورت میں آپ کی رائے کے وجوہ کیا ہیں؟ اگر آپ اس سے متفق نہیں تو اس نقطہ نظر کی تردید کے لیے آپ نے کیا کردار ادا کیا ہے؟‘‘

اب محترم مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کی طرف سے جواب ملاحظہ فرمائیں:

’’ہم نے سپاہ صحابہؓ کے شدت پسندانہ طریق کار سے ہمیشہ اختلاف کیا ہے اور مختلف مضامین میں اس کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس کے راہ نماؤں مثلاً مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی اور مولانا محمد اعظم طارق کے ساتھ براہ راست گفتگو میں بھی انھیں اپنے موقف سے آگاہ کیا ہے۔ ہم جمہور علماء اہل سنت کے اس موقف سے متفق ہیں کہ جو شیعہ تحریف قرآن کریم کا قائل ہے، اکابر صحابہ کرام کی تکفیر کرتا ہے اور حضرت عائشہؓ پر قذف کرتا ہے، وہ مسلمان نہیں ہے ۔نیز ہم امت کی چودہ سو سالہ تاریخ کے مختلف ادوار میں شیعہ کے سیاسی کردار کے حوالے سے بھی ذہنی تحفظات رکھتے ہیں، لیکن اس کی بنیاد پر ان کے خلاف کافر کافر کی مہم، تشدد کے ساتھ ان کو دبانے اور کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہمارا اس حوالہ سے موقف یہ ہے کہ عقائد اور تاریخی کردار کے حوالہ سے باہمی فرق اور فاصلہ کو قائم رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور استدلال ومنطق کے ساتھ اپنا موقف پیش کرنے کا راستہ ہی صحیح اور قرین عقل ہے اور اس حوالہ سے ہمیں امت مسلمہ کے اجتماعی رویہ سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

آپ نے دیکھا کہ مسؤل کا سوال کتنا واضح اور صاف تھا، لیکن حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ نے جواب کو انتہائی پیچیدہ بنا کر پیش کیا جس سے یہ تاثر صاف نکلتا ہے کہ سپاہ صحابہ والے شیعہ کو غلط کافر کہتے ہیں۔ نعوذ باللہ۔ سوال کرنے والے نے پوچھا کہ سپاہ صحابہ والے شیعہ کو کافر اور دشمن اسلام قرار دیتے ہیں۔ ہاں یا نہیں کی صورت میں جواب دیں اور اس کی وجہ بیان فرما دیں۔ کاش مولانا زاہد الراشدی مدظلہ اس سوال کے جواب میں اپنے والد محترم کا فتویٰ ہی نقل کر دیتے جس میں انہوں نے واضح انداز میں نہ صرف شیعہ کو خارج از اسلام قرار دیا بلکہ ان کے کفر کی تین وجوہات بھی درج کر دی ہیں اور آخر میں پھر لکھا ہے کہ شیعہ کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور ان کے تقیہ سے قطعاً متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

ماہنامہ الشریعہ کے اگلے ماہ اگست کے شمارے میں اسی پروفیسر ڈاکٹر یوگندر سکند نے شیعہ سنی تعلقات کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے شیعہ کے خلاف فتویٰ دینے والے علماء حق کو شرک کا مرتکب ہونے، ان کے فتویٰ کو کفر اختیار کرنے سے بھی بڑا جرم قرار دیا ہے۔ محترم جناب مولانا زاہد الراشدی سے دردمندانہ درخواست ہے کہ خدارا خود کو غیر جانب دار اور مذہبی سکالر ثابت کرنے کے لیے شیعہ کی سازشوں کا شکار ہو کر سپاہ صحابہ کے قائدین اور ہزاروں کارکنان کی قربانیوں اور اپنے اسلاف کے فتاویٰ جات کو خاک میں ملانے کی کوشش نہ کریں۔‘‘

قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ’’خلافت راشدہ‘‘ کی اس تحریر کو ایک بار پھر پڑھ لیں اور پھر ہماری درج ذیل معروضات پر توجہ فرمائیں:

  • مضمون نگار کو شکایت ہے کہ سوال میں شیعہ کے کافر ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں دریافت کیا گیا ہے، مگر ہم نے جواب میں بات کو لمبا کر دیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات نہیں ہے، اس لیے کہ سوال میں صرف شیعہ کے کافر ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں نہیں پوچھا گیا بلکہ یہ سوال سپاہ صحابہ کا نام لے کر اس کے حوالے سے کیا گیا ہے، اس لیے یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری تھی کہ جہاں اصل مسئلہ پر اپنا موقف عرض کریں، وہاں اس مسئلہ کے پس منظر میں سپاہ صحابہ کے طرز عمل کے بارے میں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کر دیں اور ہم نے وہی کیا ہے۔
  • مضمون نگار نے یہ تاثر دینا چاہا ہے کہ ہم شیعہ کے بارے میں اکابر علماء اہل سنت کے فتویٰ سے اختلاف کر رہے ہیں جو کہ غلط ہے، کیونکہ جس تحریر میں سپاہ صحابہ کے طرز عمل سے اختلاف کیا گیا ہے، اسی میں فتویٰ کی تائید بھی موجود ہے۔ البتہ ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ تکفیر کرتے ہوئے اس کی وجوہ کا حوالہ بھی دیا جائے اور یہ کہہ کر تکفیر کی جائے کہ جو شیعہ قرآن کریم کی تحریف کا قائل ہے، اکابر صحابہ کرام کی تکفیر کرتا ہے، حضرت عائشہ پر نعوذ باللہ قذف کرتا ہے، ائمہ کو انبیاء کرام کی طرح معصوم مانتا ہے یا دین کی اور کسی ضروری بات کا انکار کرتا ہے، وہ مسلمان نہیں ہے اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ یہ صراحت اس لیے ضروری ہے کہ شیعہ کہلانے والے بعض فرقے اور افراد ایسے موجود ہیں جن کا یہ عقیدہ نہیں ہے اور اگر کوئی شخص ان عقائد سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہے اور اس کا عمل بھی اس لا تعلقی کی تائید کرتا ہے تو محض شیعہ کہلانے کی وجہ سے اس کی تکفیر کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مثلاً زیدی فرقہ شیعہ کہلاتا ہے مگر اس کے یہ عقائد نہیں ہیں۔ یمن میں ایسے زیدیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو زیدی شیعہ کہلاتے ہیں مگر ان کے عقائد اہل سنت والے ہیں حتیٰ کہ یمن کے نامور سنی عالم قاضی شوکانی کا شمار بھی زیدیوں میں کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ایران کے دستور میں زیدیوں کو صراحتاً اہل سنت کے فقہی مذاہب حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی کے ساتھ شمار کیا گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں نور بخشی شیعوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے عقائد اثنا عشریوں سے مختلف ہیں۔ ان کے عقائد کا الگ طور پر جائزہ لیے بغیر انھیں اثنا عشریوں کے ساتھ ایک ہی فتویٰ میں شمار کر لینا ان کے ساتھ زیادتی کی بات ہوگی اور افتا کے مسلمہ اصولوں کے بھی منافی ہوگا۔ اس لیے ہمارے نزدیک بات وہی صحیح ہے جو ہمارے اکابر کہتے آ رہے ہیں کہ مذکورہ بالا عقائد یا ان میں سے کوئی ایک عقیدہ بھی رکھنے والے شیعہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور ان کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے۔
  • ہم نے اختلاف اکابر علماء کرام کے فتویٰ سے نہیں، بلکہ کالعدم سپاہ صحابہ کے طرز عمل اور طریق کار سے کیا ہے اور اب نہیں، شروع سے ہم یہ اختلاف کرتے آ رہے ہیں جس پر ہمارے بہت سے سابقہ مضامین گواہ ہیں، بلکہ سپاہ صحابہ کے قائدین کے ساتھ گفتگو میں بھی ہم نے اس کا برملا اظہار کیا ہے اور سپاہ صحابہ کے شدت پسندانہ طرز عمل کو ہم نے ہمیشہ غلط اور نقصان دہ قرار دیا ہے۔ یہ بالکل ایک الگ مسئلہ ہے اور اسے فتویٰ سے ہٹ کر ایک مستقل مسئلہ کے طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ کافر ہونا یا نہ ہونا الگ سوال ہے اور کافروں کے ساتھ تعلقات اور معاملات کا تعین اس سے بالکل مختلف امر ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کافروں کے ساتھ یکساں معاملہ نہیں کیا تھا۔ مشرکین عرب کے ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور تھا، اہل کتاب کے ساتھ معاملات کی نوعیت اس سے مختلف تھی اور مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے درمیان رہنے والے منافقین کے ساتھ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل ان دونوں سے بالکل الگ تھا۔ ان منافقین کے کفرکی گواہی قرآن کریم نے دی ہے اور ان کے کفر میں کسی شک وشبہہ کی گنجایش نہیں ہے حتیٰ کہ ان کا جنازہ پڑھانے اور ان کے لیے دعاے مغفرت کرنے سے بھی قرآن کریم نے روک دیا تھا، لیکن ان کے ساتھ شدت اختیار کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ مختلف معاملات میں مسلمانوں کے ساتھ شریک رہتے تھے، مسلمانوں کو نہ ان کے معاشرتی بائیکاٹ کا حکم دیا گیا اور نہ ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مسلم سوسائٹی سے الگ کیا، حتیٰ کہ بعض غیور مسلمانوں نے بعض منافقین کو قتل کرنے کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع کر دیا اور فرمایا، اس سے دنیا میں غلط تاثر پھیلے گا اور لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔
  • شدت پسندی کے طرز عمل سے اختلاف کر کے ہم کوئی نیا موقف اختیار نہیں کر رہے، بلکہ ہمارے بزرگوں کا موقف بھی یہی ہے جس کی ایک جھلک شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے اس مکتوب گرامی میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے جو انھوں نے آج سے بارہ سال قبل سپاہ صحابہ کے ارکان کے نام لکھا تھا اور جسے گوجرانوالہ کے معروف عالم دین مولانا محمد ایوب صفدر (مہتمم مدرسہ فیضان سرفراز ، پلی نوشہرہ سانسی، جناح روڈ، گوجرانوالہ) نے ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر تقسیم کیا تھا۔ وہ مکتوب گرامی درج ذیل ہے:


’’باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

۱۷؍رجب ۱۴۱۲ھ/۲۳؍جنوری ۱۹۹۲ء

من ابی الزاہد 

الی محترم المقام حضرت مولانا صاحب دام مجدہم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! مزاج سامی!

گزارش ہے کہ سپاہ صحابہ کے حضرات نے ایران کی طاغوتی طاقت کے بل بوتے اور شہ پر ناچنے والی رافضیت کا پاکستان میں جو دروازہ بند کیا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ وقت کی اہم ضرورت ہے بلکہ دینی لحاظ سے بھی فرض کفایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کی اس مبارک کوشش کو کامیاب کرے اور دن دگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

اگر بار خاطر نہ ہو تو چند ضروری باتیں عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:

۱۔ جو ذہن آپ حضرات نے نوجوانوں کا بنایا ہے یا بنائیں گے، وہی وہ اپنائیں گے، کیونکہ اکثریت ان کی علم دین نہیں رکھتی اور اکابر کو بھی نہیں دیکھا۔ جو آپ ان کو بتائیں گے، اسی کو وہ حرف آخر سمجھیں گے اور تن، من، دھن کی بازی لگائیں گے۔ واللہ الموفق

۲۔ نوجوان جذباتی ہوتے ہیں اور جذبات میں بہت کچھ کر اور کہہ جاتے ہیں۔ شدت اور سختی سے کبھی مسائل حل نہیں ہوئے اور نہ قوت اور طاقت سے کسی فرد یا نظریہ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ صدر صدام حسین کی ضد اور نادانی کی وجہ سے تیس سے زائد طاقت ور حکومتیں بھی اسے ختم نہ کر سکیں اور وہ ابھی تک جیتا جاگتا ہے۔ اس لیے گزارش ہے کہ نوجوانوں کو قولاً اور فعلاً شدت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ روکیں۔ رافضیوں کے کفر میں تو شک ہی نہیں، مگر در ودیوار پر کافر کافر لکھنے اور نعرہ بازی سے بجائے فائدہ کے نقصان ہوگا۔ عیاں را چہ بیاں۔

۳۔ ممکن ہے بعض جذباتی اور سطحی اذہان میری اس تحریر سے یہ اخذ کریں کہ میں بک گیا ہوں یا دب گیا ہوں تو یہ نظریہ درست نہ ہوگا۔ بفضلہ تعالیٰ یہ گناہ گار انتہائی غربت اور جوانی کے زمانے میں بھی نہ بکا ہے نہ دبا۔ اب اسی (۸۰) سال کی عمر میں قبر کے پاس پہنچ کر کیسے بک یا دب سکتا ہے؟

۴۔ کافی عرصہ ہوا ہے، حضرت مولانا عطاء المنعم شاہ صاحب دام مجدہم نے حضرت امیر معاویہؓ کے سرکاری طورپر یوم منانے کی تحریک شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ میں نے ان کو مفصل خط لکھا تھا کہ آپ کے والد مرحوم امیر شریعت تو بدعات کو مٹانے کے لیے لٹھ لیے پھرتے تھے، آپ اس بدعت کو کیسے جاری کرتے ہیں؟ میرے خیال میں میرا عریضہ ضرور موثر ثابت ہوا اور اس کے بعد ان کا کوئی بیان اس بدعت کی ایجاد کرنے کا میرے علم میں نہیں ہے۔

۵۔ آپ حضرات کی طرف سے زور وشور کے ساتھ حضرات خلفاء راشدین کے ایام سرکاری طور پر منوانے کا مطالبہ آتا ہے۔ آپ جن اکابر کے دامن سے وابستہ ہیں، ان کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ کبھی ایسی بدعات کے ایجاد کا تصور بھی انھیں نہیں آیا۔ عوام تو نہیں جانتے، مگر آپ تو علما ہیں، وسیع مطالعہ کے مالک ہیں۔ اس کارروائی کے بدعت ہونے کے بارے میں آپ حضرات کے سامنے کتابوں کے حوالے پیش کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ولا ریب فیہ

۶۔ آپ حضرات کا مطالبہ صرف اور صرف خلافت راشدہ کا نظام قائم کرنے کا ہونا چاہیے جو حکمران طبقہ اور سرمایہ داروں کے لیے پیام موت ہے۔ ایام منوانے کی بدعت کے پیچھے ہرگز نہ پڑیں۔ خلافت راشدہ کے نظام کے نافذ کرنے کے مطالبہ میں عند اللہ تعالیٰ بھی آپ سرخرو ہوں گے اور عوام کا تعاون بھی حاصل رہے گا۔

۷۔ اگر بادل نخواستہ آپ کے ایام منانے کی کوئی کوشش منظور کر لی گئی تو حکمران طبقہ بھی اور عوام بھی یہ باور کریں گے کہ ان کو اب خاموش رہنا چاہیے، ان کا مطالبہ پورا ہو گیا ہے۔ اس سے آپ کے اصل مقصد پر زد پڑے گی۔ بھٹو صاحب نے جمعہ کے دن چھٹی کرنے پر کہہ دیا تھا کہ لو، اب اسلام نافذ ہو گیا ہے۔

۸۔ بعض غالی قسم کے اہل بدعت اس کارروائی کے خلاف سخت پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ دیوبندی دن منائیں تو بدعت نہ ہو اور بریلوی منائیں تو بدعت ہو جائے۔ ان کا یہ اعتراض بالکل درست ہے۔ ماہ جنوری ۱۹۹۲ء کا رضائے مصطفی ضرور بہ ضرور دیکھیں۔ وما علینا الا البلاغ

والسلام

ابو الزاہد محمد سرفراز

از گکھڑ‘‘

اس اختلاف کی ایک اور جھلک سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ کے رفیق خاص مولانا مشتاق احمد کے مضمون کے اس اقتباس میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے جو انھوں نے مولانا چنیوٹی کے حالات زندگی پر تحریر کیا ہے اور جو ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے ستمبر ۲۰۰۴ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ مولانا مشتاق احمد اس مضمون میں لکھتے ہیں :

’’مولانا چنیوٹی سپاہ صحابہؓ سے ہمدردی تورکھتے تھے لیکن ان کے مخصوص نعروں کے عام جلسوں میں لگائے جانے سے متفق نہ تھے۔ جامعہ عربیہ چنیوٹ کی مسجد میں سالانہ ردمرزائیت کورس کی اختتامی تقریب منعقد ہو ئی۔ شہید ناموس صحابہ مولانااعظم طارق مرحوم مہمان خصوصی تھے۔ مولانااعظم طارق کی تقریر سے پہلے کسی نے ’’کافر کافر شیعہ کافر‘‘ کے نعرے لگائے تو مولانا چنیوٹی نے برملا ڈانٹا کہ تم اچھل اچھل کر نعرے لگانے والے توجلسہ کے بعد اپنے گھر وں کو چلے جا ؤ گے ۔ یہ غریب( مولانااعظم طارق) جیل چلاجا ئے گا۔ ان کوجیل سے باہربھی رہنے دو ۔ کیا انہیں جیل بھیجنا چاہتے ہو ؟مولانا اعظم طارق مرحوم عجیب تاثرات کے ساتھ مولانا چنیوٹی کو دیکھتے رہے لیکن اپنی تقریر میں بھی کو ئی تبصرہ نہ کیا۔‘‘

’خلافت راشدہ‘ کے فاضل مضمون نگار اور ان کے ہم نواؤں سے گزارش ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ کے طرز عمل کے ساتھ ہمارا اختلاف بھی وہی ہے جو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم، سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ اور دیگر بہت سے سرکردہ اور سنجیدہ علماء کرام کا ہے۔ اس پر سیخ پا ہونے کے بجائے کالعدم سپاہ صحابہ کی قیادت کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے اور اپنے طرز عمل اور طریق کار پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ شیعہ جارحیت کے خلاف اہل سنت کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کا آغاز سپاہ صحابہ نے نہیں کیا، بلکہ اس سے قبل پاکستان میں حضرت مولانا عبد الستار تونسوی مدظلہ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ ، حضرت مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ ، حضرت مولانا دوست محمد قریشیؒ ، حضرت مولانا احمد شاہ چوکیرویؒ ، حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ اور دیگر سرکردہ علماء کرام نے نصف صدی تک اس جدوجہد کی قیادت اور راہ نمائی ہے، البتہ کالعدم سپاہ صحابہ نے اس میں شدت پسندی کا اضافہ کیا ہے اور تشدد کا ماحول پیدا کیا ہے، مگر اب وقت آ گیا ہے کہ اس شدت پسندی کے نفع ونقصان کا جائزہ لے لیا جائے اور پیچھے مڑ کر دیکھ لیا جائے کہ اس طرز عمل سے ہم نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے؟

ہم اس میں کالعدم سپاہ صحابہ کو تنہا قصور وار نہیں سمجھتے، بلکہ ہمارے نزدیک اس شدت پسندی کا بیج انقلاب ایران کے بعد اس کی سرپرستی میں کالعدم تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے پاکستان میں فقہ جعفریہ کے جداگانہ نفاذ کا مطالبہ اور اسلام آباد کے وفاقی سیکرٹریٹ کا محاصرہ کر کے بویا تھا۔ سپاہ صحابہ اس کے رد عمل میں وجود میں آئی، لیکن اس رد عمل میں اس قدر آگے نکل گئی کہ نفع ونقصان کا توازن قائم رکھنا یاد نہ رہا اور پیچھے ہٹنے کے راستے بھی بند نظر آنے لگے۔ ہمارا مشورہ اب بھی صرف یہ ہے کہ پیچھے مڑ کر دیکھ لیا جائے، سود وزیاں کا حساب کر لیا جائے اور ان اکابر واسلاف کے طریقے پر واپس آنے کی راہیں تلاش کر لی جائیں جو ہم سے زیادہ متصلب سنی تھے، اہل سنت کے عقائد کے ساتھ ہم سے زیادہ وابستگی اور وفاداری رکھتے تھے، لیکن اس کے ساتھ ملی اور قومی مقاصد کا شعور بھی رکھتے تھے اور توازن کا دامن ہمیشہ تھامے رکھتے تھے۔ اسی میں سلامتی ہے، یہی صحیح راہ عمل ہے اور اسی میں اہل سنت کے عقائد، حقوق اور مفادات کا تحفظ بھی ہے۔

حالات و واقعات

(دسمبر ۲۰۰۴ء)

دسمبر ۲۰۰۴ء

جلد ۱۵ ۔ شمارہ ۱۲

سنی شیعہ کشیدگی ۔ چند اہم معروضات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شیعہ سنی مسئلہ مولانا دریابادیؒ کی نظر میں
محمد موسی بھٹو

اسلام، عالم اسلام اور مغرب
ڈاکٹر عبد اللہ احمد البداوی

جناب احمد البداوی کے خطاب کا ایک جائزہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن

مکاتیب
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تلاش

Flag Counter