’’مسلم نشاۃ ثانیہ o اساس اور لائحہ عمل‘‘
ڈاکٹر محمد امین صاحب ہمارے محترم اور فاضل دوست ہیں، پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے سینئر ایڈیٹر ہیں اور ان دانش وروں میں سے ہیں جو مسلم امہ کی موجودہ زبوں حالی کا نہ صرف پوری طرح ادراک رکھتے اور اس پر کڑھتے ہیں بلکہ اصلاح احوال کی تدابیر سوچتے ہیں، ان پر دیگر اصحاب دانش سے مشاورت کا اہتمام کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کی صورتیں پیدا کرنے کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں۔
تعلیم وتربیت ان کے خصوصی ذوق کا شعبہ ہے، تعلیم کے دینی اور عصری دونوں قسم کے اداروں کے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم وتربیت کی اصلاح کے لیے مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں۔ خاص طور پر دینی مدارس کے تعلیمی نظام ونصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ممتاز دینی مدارس کے نامور اساتذہ کی مشاورت اور راہ نمائی میں انھوں نے جو ’’ہوم ورک‘‘ کیا ہے، وہ انتہائی قابل قدر ہے اور اس کا خلاصہ ’’ہمارا دینی نظام تعلیم‘‘ کے نام سے ان کی تصنیف کی صورت میں شائع ہو چکا ہے جو دار الاخلاص ۴۹ ریلوے روڈ لاہور نے شائع کی ہے۔ تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں انھوں نے دینی مدارس کے تعلیمی نظام ونصاب کے بارے میں مختلف مکاتب فکر کے بڑے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات، مشترکہ اجلاسوں کی روداد اور متفقہ تجاویز وآرا کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس کی تمام تفصیلات وجزئیات کے ساتھ اتفاق ضروری نہیں، لیکن ان کی محنت بہرحال قابل داد ہے اور ہماری رائے میں دینی تعلیم کا کوئی بھی ادارہ چلانے والے حضرات کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔
اس وقت ہمارے سامنے ڈاکٹر صاحب موصوف کی ایک اور تصنیف ہے جس میں انھوں نے مسلم امہ کی موجودہ زبوں حالی اور بے بسی ولاچاری کا جائزہ لیا ہے، اس کے اسباب وعوامل پر بحث کی ہے، عالم اسلام کے حریف، مغرب کے عروج کے اسباب کا تجزیہ کیا ہے، اس کے متوقع زوال کی وجوہ بیان کی ہیں اور ان راستوں کی نشان دہی کی ہے جن پر چل کر ان کے خیال میں امت مسلمہ نہ صرف زبوں حالی کی موجودہ دلدل سے نکل سکتی ہے بلکہ انسانی سوسائٹی میں اپنا کھویا ہوا مقام بھی دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔ انھوں نے امت مسلمہ میں اس حوالہ سے کام کرنے والے اداروں، جماعتوں، مراکز اور حلقوں کی جدوجہد کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کی خوبیوں اور کمزوریوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور اصلاح احوال کے لیے تجاویز دی ہیں۔
دین کے کسی بھی شعبہ میں کام کرنے والوں کے لیے اس کتاب میں دی گئی معلومات اور استدلال وتجزیہ کا مطالعہ بہت مفید ہوگا، بالخصوص باب سوم میں ’’مغرب کے موجودہ عروج اور متوقع زوال‘‘ کے بارے میں جو بحث کی گئی ہے، ہمارے خیال میں اسے دینی مدارس کے منتہی طلبہ کو سبقاً سبقاً پڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے ہاں اس قسم کی بحث وتمحیص اور معلومات کی فراہمی کا سرے سے کوئی ماحول نہیں ہے اور ہمارے طلبہ اور اساتذہ کا اس سے واقف ہونا انتہائی ضروری ہے۔
چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز لاہور نے شائع کی ہے، اس کی قیمت دو سو روپے ہے اور اسے کتاب سرائے، فرسٹ فلور، الحمد مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ (ابو عمار زاہد الراشدی)
’’ندوہ کا ایک دن‘‘
ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر محمد اکرم ندوی نے، جو آکسفرڈ میں اسلامک سنٹر کے ریسرچ فیلو ہیں ،ندوۃ العلماء لکھنو میں طالب علمی کے دور میں اپنے قیام کے ایک دن کی تفصیلی روداد قلم بند کی ہے جو اپنے عنوان کے حوالے سے ایک طالب علم کی ڈائری ہے، لیکن اس سے ندوہ کا پورا تعلیمی ماحول اور دینی ذوق سامنے آ جاتا ہے اور وہاں کی روز مرہ کی سرگرمیوں سے قاری کو آگاہی ہوتی ہے۔ ایک سو بارہ صفحات کے اس کتابچہ کی قیمت پچاس بھارتی روپے ہے اور اسے ندوی بک ڈپو، ندوۃ العلماء لکھنو نے شائع کیا ہے۔ (راشدی)
’’وضو کا مسنون طریقہ‘‘
وضو کا سنت طریقہ کیا ہے؟ یہ مسئلہ اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین ہمیشہ سے اختلافی رہا ہے اور فریقین کے پاس اپنے اپنے موقف پر دلائل موجود ہیں۔ اختلافی اور فروعی مسائل کی دعوت کو اگر اپنے اپنے حلقہ اثر تک محدود رکھا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر انھیں مناظرانہ تقریروں اور تحریروں کی صورت میں عوام الناس کے سامنے پیش کیا جائے تو لازمی طور پر مذہبی رواداری کی فضا مکدر ہوتی ہے اور اتحاد امت کی کوششوں کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اس لیے بالخصوص موجودہ تناظر میں مناظرانہ اسلوب میں اختلافی مسائل کو زیر بحث لانے سے اجتناب کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
زیر تبصرہ کتابچہ، شیعہ پروفیسر جناب غلام صابر صاحب کی مناظرانہ انداز میں لکھی گئی کتاب ’’وضوء رسول‘‘ کے جواب میں تحریر کیا گیا ہے۔ مذکورہ کتاب میں پروفیسر صاحب نے مبینہ طور پر اہل سنت کے وضو کے طریقہ کو غلط اور اہل تشیع کے طریقہ وضو کو عین سنت رسول ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب نے اپنے کتابچہ میں پہلے تو وضو کا مسنون طریقہ مکمل حوالہ جات کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس کے بعد پروفیسر صاحب کے دلائل واعتراضات کا ایک ایک کر کے جواب دیا ہے۔ جو احباب اس موضوع پر دلائل کو یکجا دیکھنا چاہتے ہوں، ان کے لیے یہ کتابچہ بے حد معلوماتی اور مفید ہے۔
یہ کتابچہ عمر اکادمی نزد مدرسہ نصرۃ العلوم نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۳۰ روپے ہے۔ (محمد اکرم ورک)
’’ماں کی عظمت‘‘
اسلام کے معاشرتی نظام میں خاندان اہم ترین ادارہ ہے۔ خاندان کی شیرازہ بندی میں اسلام والدین کے کردار کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ خاندان کے دیگر افراد کی بہ نسبت اسلام نے ماں کو خصوصی مقام ومرتبہ اور عزت وافتخار سے نوازا ہے لیکن بد قسمتی سے مغرب کی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں مسلمان معاشروں میں بھی خاندانی اقدار اور روایات کمزور پڑ رہی ہیں اور نئی نسل بزرگوں، بالخصوص والدین کے عزت واحترام اور حقوق میں کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب معاشرتی بگاڑ کے اس دور میں مولانا جمیل احمد بالاکوٹی کی ایک عمدہ کاوش ہے جس میں انھوں نے بالخصوص نوجوان نسل کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے کہ دنیوی اور اخروی سعادتیں صرف والدین کے ادب واحترام کی بدولت ہی سمیٹی جا سکتی ہیں۔ کتاب کا مسلسل چھٹا ایڈیشن اس بات کی دلیل ہے کہ عوام الناس نے ان کے پیغام کو سمجھا اور اس کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مولف کی اس اصلاحی کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے اس کتاب کو ذریعہ ہدایت بنائے۔ آمین
کتابچہ کی قیمت ۱۰۰ روپے ہے اور اسے القاسم اکیڈمی، جامعہ ابو ہریرہ برانچ، پوسٹ آفس خالق آباد، نوشہرہ نے شائع کیا ہے۔ (محمد اکرم ورک)
’’فیض الصرف‘‘
زیر تبصرہ کتاب کے مولف حافظ محمد رمضان اویسی درس نظامی، بالخصوص علم صرف وعلم نحو کی تدریس کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ درس نظامی کے طلبہ کی خدمت کے لیے ’’فیض النحو‘‘ کے بعد ’’فیض الصرف‘‘ ان کی طرف سے مفید علمی کاوش ہے۔ یہ اس فن پر ایک مکمل کتاب ہے اور فاضل مولف نے فارسی اور عربی کتب سے استفادہ کرتے ہوئے مواد کو بڑی عمدگی سے ترتیب دیا ہے۔ کتاب کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ تمام افعال اور مشتقات کی تعریف، نیز ان کے بنانے کے طریقے اور اہم اوزان کی گردانیں بطور نمونہ درج کی گئی ہیں۔ امید ہے کہ یہ کتاب درس نظامی کے طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوگی۔ (محمد اکرم ورک)