امریکہ کے سابق صدر کلنٹن ان دنوں فکری ونظریاتی محاذ پر سرگرم عمل ہیں اور امریکی پالیسیوں کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے مسلسل کردار ادا کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا اور مختلف اجتماعات سے خطاب کرنے کے علاوہ عالم اسلام کی محترم مذہبی شخصیات جامعہ ازہر کے امام اکبر اور حرمین شریفین کے امام محترم سے بھی ملاقات کی اور اس دوران انہوں نے سعودی عرب اور دیگر مسلمان ملکوں کے تعلیمی نظام کو ہدف تنقید بناتے ہوئے تلقین کی کہ وہ تعلیمی نصاب میں تبدیلی کریں اور خا ص طور پر اس میں عقیدہ پر زور دینے کے عنصر پر نظر ثانی کریں۔ جناب کلنٹن نے گزشتہ دنوں نیو یارک میں ایک سیمینار کا اہتمام بھی کیا جس کے انتظامات خود ان کی قائم کردہ ’’کلنٹن پریسڈ نیشنل فاؤنڈیشن‘‘ نے کیے اور ان کے ساتھ اس سلسلے میں نیو یارک یونیورسٹی آف لا اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے مسلم کرسچین سنٹر نے بھی میزبانی کے فرائض میں شرکت کی۔ اس سیمینار میں دو سو کے لگ بھگ اہم مدعوین شریک تھے اور متعدد مسلم دانش وروں نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے امت مسلمہ اور عالم اسلام کے حوالے سے امریکی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی۔
سیمینار کے حوالے سے نہ تو ساری تفصیلات اس خبر کا حصہ ہیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہے اور نہ سب باتوں پر اس کالم میں تبصرہ ہی کیا جا سکتا ہے البتہ ایک پہلو جو زیادہ قابل توجہ ہے‘ اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ’’امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن کی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں مسلم دانش وروں نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیل کی یک طرفہ طور پر حمایت کر رہا ہے۔ ان دانش وروں نے امریکہ کو مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا۔ تاہم کلنٹن نے مشرق وسطیٰ کے تعلق سے اپنے نظم ونسق کی پالیسیوں کی مدافعت کی اور مسلم مفکرین کے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ گیارہ ستمبر سے قبل مسلم شدت پسندی کے لیے کلنٹن اور ان کے جانشین کی پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ساتھ ہی انہوں نے مباحثہ کے دوران ایڈریل کالج کے پروفیسر مقتدر خان کی اس بات سے اتفاق کیا کہ امریکہ نے مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں کوئی خاص کام نہیں کیا۔‘‘
ہمیں جس نکتہ پر اظہار خیال کرنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ’’مسلم دانش وروں نے امریکہ کو مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا‘‘ جس کے جواب میں کلنٹن صاحب نے کسی حد تک اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے یہ کہا کہ ’’امریکہ نے مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں کوئی خاص کام نہیں کیا‘‘ مگر ہمارا موقف ان دونوں سے مختلف ہے اور پورے شرح صدر کے ساتھ ہماری گزارش یہ ہے کہ امریکہ نے صرف یہ نہیں کہ مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا اور وہ مسلم ممالک میں جمہوریت کو فروغ دینے میں ناکامی کا ذمہ دار ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کے فروغ کی راہ میں امریکہ خود سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اس کی حتی الوسع یہ کوشش ہے کہ دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک میں جہاں کے عام مسلمان اسلام کے ساتھ کمٹ منٹ رکھتے ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی میں اسلامی احکام وقوانین کی عمل داری کے واضح رجحان سے بہرہ ور ہیں‘ وہاں جمہوریت کا راستہ روکا جائے‘ عوام کو حکومتوں اور ان کی پالیسیوں کی تشکیل سے دور رکھا جائے اور دینی رجحانات کی نمائندگی کرنے والے طبقات وعناصر کو رائے عامہ اور پالیسی سازی کے مراکز کے قریب نہ آنے دیا جائے۔
امریکہ کے نزدیک جمہوریت کوئی اصول اور فلسفہ نہیں ہے کہ وہ اسے دنیا کے ہر خطہ میں اور ہر حال میں کارفرما دیکھنا چاہتا ہے بلکہ یہ محض ایک ہتھیار ہے جسے امریکہ اور مغربی ممالک اپنے فلسفہ وثقافت کے فروغ اور مفادات کے حصول وتحفظ کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور جمہوریت کے اولین دعوے داروں کے اسی طرز عمل اور رویے نے خود جمہوریت کی افادیت کو مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں دیکھ لیجیے۔ خلیج عرب کے ممالک میں رائے عامہ‘ شہری آزادیاں‘ جمہوری حکومتیں اور حکومت وپالیسی سازی میں عوام کی نمائندگی شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے اور خاندانی آمریتیں ان ملکوں کے عوام پر مسلط ہیں مگر امریکہ اور اس کے حواری مغربی ممالک خلیج کے ممالک میں شہری حقوق اور جمہوری اقدار کی حمایت کرنے کے بجائے آمرانہ حکومتوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور نہ صرف ان آمریتوں کو سیاسی واخلاقی سپورٹ مہیا کر رہے ہیں بلکہ فوجی قوت کے بل پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی امریکی کیمپ نے سنبھال رکھی ہے صرف اس وجہ سے کہ امریکہ کو معلوم ہے کہ ان ممالک میں جس روز عوام کی نمائندہ حکومتیں قائم ہو گئیں‘ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے تحفظ سے ہاتھ اٹھا لیں گی اور ان کی پالیسیوں میں اسلامی تعلیمات واحکام کے اثرات موجودہ آمرانہ حکومتوں سے کہیں زیادہ ہوں گے اس لیے امریکہ کو وہ جمہوریت قبول نہیں ہے جو اسلامی اقدار کے فروغ کا ذریعہ ہو اور جس سے امریکہ کے معاشی مفادات خطرے میں پڑتے ہوں۔
آج سے دس برس قبل سعودی عرب میں شرعی اور جمہوری اصلاحات کے لیے یادداشت پیش کرنے والے علما اور دانش وروں کو جس ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ ان میں سے جو علما جلا وطن ہو کر لندن پہنچے‘ ان میں ڈاکٹر محمد مسعری اور ڈاکٹر سعد الفقیہ کو ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ یہ حضرات جب لندن پہنچے تو انہیں مغربی میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور چند دنوں میں انہیں عربوں کے ہیرو کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ میڈیا کاروں کا خیال تھا کہ یہ چونکہ یونیورسٹیوں کے پروفیسر ہیں اور سیاسی حقوق کی بات کر رہے ہیں اس لیے انہیں شاید سعودی عرب میں مغربی فلسفہ وثقافت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور انہیں آگے کر کے سعودی عرب میں عوامی سطح پر دینی وثقافتی اقدار کی مضبوط گرفت کو ڈھیلا کیا جا سکتا ہے اس لیے ان حضرات کی خوب آؤ بھگت ہوئی لیکن جونہی ان دانش وروں نے واضح طور پر کہا کہ وہ سیاسی آزادیوں اور شہری حقوق کا مطالبہ اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے کر رہے ہیں اور ان کا مقصد مشرق وسطیٰ میں مغربی مفادات کی پاسداری نہیں بلکہ وہاں کے عوام کی خواہشات اور رائے کے مطابق حکومت اور پالیسیوں کی تشکیل ہے تو ان کے آگے پیچھے پھرنے والے میڈیا کاروں نے انہیں ایسے نظر انداز کر دیا جیسے ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو اور جن لوگوں کے لیے وہ شہری حقوق اور سیاسی آزادیوں کی بات کر رہے ہیں‘ ان کا سرے سے کوئی استحقاق ہی نہ ہو۔
مشرق وسطیٰ ہمارے سامنے اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ امریکہ کو جمہوریت یا سیاسی حقوق سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ اس کی دل چسپی صرف دو باتوں سے ہے۔ ایک یہ کہ کہیں اسلامی رجحانات اجتماعی سطح پر نہ ابھرنے پائیں اور دوسری یہ کہ امریکہ نے اپنے لیے جو مفادات یک طرفہ طور پر خود طے کر رکھے ہیں‘ ان کی ہر حالت میں حفاظت ہوتی رہے۔ اس کے لیے اگر کسی جگہ جمہوری اقدار اور سیاسی آزادیوں کی حمایت کام دیتی ہے تو امریکہ اس کے لیے تیار ہے اور اگر سیاسی حقوق کو دبانے اور جمہوری اقدار کا سرے سے جھٹکا کر دینے سے امریکہ کا کام بنتا ہے تو اسے اس سے بھی کوئی حجاب نہیں ہے۔
خلیج عرب سے ہٹ کر الجزائر اور ترکی میں بھی ہم امریکہ کا کردار کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جہاں عوام کی منتخب جماعتوں کو فوجی قوت کے بل پر پیچھے دھکیل دیا گیا۔ رائے عامہ کے فیصلوں اور انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا گیا اور عوامی رجحانات کو فوج کشی کے ذریعے سے دبا دیا گیا صرف اس لیے کہ ان رجحانات اور عوامی فیصلوں میں اسلامی اقدار کے احیا اور دینی روایات کی عمل داری کے امکانات نظر آ رہے تھے اور ساری دنیا مشاہدہ کر رہی ہے کہ ترکی اور الجزائر میں رائے عامہ کی نمائندگی کرنے والی جمہوری جماعتوں اور انہیں فوجی قوت کے زور سے کچل دینے والی آمریتوں میں سے امریکہ کی پشت پناہی کسے حاصل ہے اور امریکہ کے حواری دیگر مغربی ممالک کس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
خود ہم پاکستان میں بار بار اس کا تجربہ کر چکے ہیں اور صرف ایک تجربہ سے ہی مجموعی صورت حال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن وسنت کو ملک کا سپریم لا قرار دینے کا بل عوام کی منتخب قومی اسمبلی اور سینٹ نے باری باری منظور کیا تھا لیکن قومی اسمبلی میں اس کی منظوری کے آخری مراحل میں امریکی سفارت خانہ نے مداخلت کر کے قرآن سنت کی بالادستی سے حکومتی نظام اور سیاسی ڈھانچے کو مستثنیٰ کرنے کی شق زبردستی شامل کرائی جس سے یہ بات طے ہو گئی کہ امریکہ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے کیا فیصلہ کر رہے ہیں بلکہ اس کا ٹارگٹ صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلم ممالک میں امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں نے جو نوآبادیاتی اور استحصالی نظام مسلط کر رکھا ہے‘ وہ ہر حال میں محفوظ رہے اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ اس لیے ہم امریکہ سے کوئی شکایت کرنے کے بجائے مسلم دانش وروں سے یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ سے جمہوریت کے حوالے سے کوئی توقع وابستہ کرنے کے فریب سے جتنی جلدی ہو سکے‘ باہر نکل آئیں کیونکہ جمہوریت امریکہ کے لیے اصول کی نہیں بلکہ صرف ایک ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہے۔