مدارس دینیہ کے مالیاتی نظام کے بارے میں دار العلوم کراچی کا ایک اہم فتویٰ

ادارہ

محترم ومکرم حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج گرامی؟

بندہ ایک دینی مدرسہ کامسؤل ہے۔ چند مسائل کے سلسلے میں رہنمائی چاہتا ہے تاکہ تام امور شریعت مطہرہ کے مطابق سرانجام دیے جا سکیں۔

۱۔ مہتمم زکوٰۃ کی رقم کا وکیل ہوتا ہے اور اس کے لیے مستحق افراد کو فوراً مالک بنانا ضروری ہے تاکہ زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہو جائے ۔ اس کے لیے حیلہ تملیک اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر مہتمم خود مالی طور پر کمزور ہے تو کیا وہ اس قسم کا اپنے آپ کو مالک بنا سکتا ہے تاکہ تملیک بھی ہو جائے اور فوراً رقم مدرسہ کی مالیات میں شامل ہو جائے؟

۲۔ زکوٰۃ کی رقم مدرسہ کے کن کن معاملات میں استعمال کی جا سکتی ہے؟

۳۔ مدرسہ کا چندہ خصوصاً زکوٰۃ کی رقم کا کسی بینک میں رکھنا کیسا ہے؟

۴۔ مدرسہ میں ایک مسجد بھی ہے جبکہ ایک ہی رسید بک پر مدرسہ کے نام پر چندہ لیا جاتا ہے تاکہ مسجد کا انتظام بھی مدرسہ کے تابع رہے تو مالی اعتبار سے ان دونوں کو چلانے کی شرعی راہ کیا ہے؟

۵۔ حیلہ تملیک کا طریق کار کیا ہے جو آسان بھی ہو اور شریعت کے تمام تقاضوں کے مطابق بھی؟ تملیک کے بعد یہ رقم اساتذہ کی تنخواہوں‘ مدرسہ ومسجد کی تعمبیر اور مدرسہ کے دیگر امور پر خرچ کی جا سکتی ہیں؟

والسلام

عبد الرؤف فاروقی‘ لاہور


الجواب حامداً ومصلیاً

۱و۲۔ موجودہ زمانہ کے مہتمم یا ان کے مقرر کردہ حضرات جو چندہ یا زکوٰۃ وغیرہ وصول کرتے ہیں‘ وہ بحیثیت وکیلِ فقرا کے وصول کرتے ہیں نہ کہ اصحاب اموال کے وکیل کے طور پر کیونکہ مہتمم صاحب اور ان کے مقرر کردہ حضرات کو مدرسہ کے جملہ طلبہ پر اس طرح کی ولایت عامہ حاصل ہے جس طرح سلطان کو اپنی رعایا پر ولایت عامہ حاصل ہوتی ہے۔ لہذا مہتمم صاحب یا ان کے مقرر کردہ حضرات کے قبضے میں پہنچتے ہی زکوٰۃ وعشر دینے والوں کی زکوٰۃ وعشر اور دیگر صدقاتِ واجبہ ادا ہو جاتے ہیں بشرطیکہ مدرسہ میں عاقل بالغ مستحقِ زکوٰۃ طلبہ زیر تعلیم ہوں۔ اور اگر مہتممین حضرات مدرسہ کے مصرفِ زکوٰۃ طلباء (بالغ‘ فقیر‘ غیر سید) سے اپنے لیے صراحتاً بھی وکالت نامہ لکھوا لیں اور ہر سال آنے والے طلباء سے اس کی تجدید کراتے رہیں تو اور بھی اچھا اور قرینِ احتیاط ہے۔ وکالت نامہ کے الفاظ یہ ہیں:

’’میں مہتمم مدرسہ اور ان کے نائب کو اختیار دیتا ہوں کہ وہ میری طرف سے بطورِ وکیل زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ وصول کریں اور وہ انہیں طلباء کے مصارف‘ طعام وقیام اور تعلیم وغیرہ پر خرچ کریں یا حسبِ صواب دید مدرسہ کو ان اموال کا مالک بنائیں یا مدرسہ پر وقف کر دیں۔‘‘

اس کے بعد جب مہتمم صاحب یا ان کا مقرر کردہ آدمی صدقات واجبہ بطور وکیل وصول کرے گا تو معطین کی زکوٰۃ بھی ادا ہو جائے گی اور حاصل شدہ رقم کو مصالح طلباء ومدرسہ پر خرچ کیا جا سکے گا۔ اسی میں احتیاط ہے۔ لہذا مہتمم صاحب کے خود حیلہ تملیک کرنے یا کسی سے حیلہ تملیک کرانے کے مقابلے میں توکیل کی مذکورہ صورت زیادہ بہتر ہے بشرطیکہ مدرسہ میں عاقل‘ بالغ مستحقِ زکوٰۃ طلباء موجود ہوں اور رقم پوری احتیاط اور امانت ودیانت کے ساتھ محض طلباء اور مدرسہ کی مصلحت ہی میں خرچ کی جائے۔ (ماخذہ امداد المفتین ص ۱۰۸۵ وتبویب ۷/۱۲۳)

ضروری تنبیہ: اس تحقیق میں مہتممین مدارس کے لیے ایک تو آسانی ہوگئی کہ ان کو ہر شخص کا مال زکوٰۃ اور اس کا حساب الگ الگ لکھنے کی ضرورت نہیں رہی اور قبل از خرچ معطی چندہ کا انتقال ہو جائے تو اس کے وارثوں کو واپس کرنے کی ضرورت نہ رہی۔ معطین چندہ کو بھی یہ فائدہ پہنچا کہ ان کی زکوٰۃ فوری طور پر ادا ہو گئی لیکن مہتممین مدارس کی گردن پر آخرت کا ایک بڑا بوجھ آپڑا کہ وہ ہزاروں فقرا کے وکیل ہیں جن کے نام اور پتے محفوظ اور یاد رکھنا بھی آسان نہیں کہ خدا نخواستہ اگر اس مال کے خرچ کرنے میں کوئی غلطی ہو جائے تو معافی مانگی جا سکے۔ اس لیے اگر مہتممین مدارس نے فقرا طلباء کی ضروریات کے علاوہ کسی کام میں خرچ کیا تو وہ ایسا ناقابل معافی جرم ہوگا جس کی تلافی ان کے قبضے میں نہیں اس لیے ان سب حضرات پر لازم ہے کہ مدارس کے چندہ کی رقم کو بڑی احتیاط کے ساتھ صرف ان ضروریات پر خرچ کیا جائے جن کا تعلق طلباء سے ہے مثلاً ان کا طعام ولباس‘ دواء وعلاج‘ ان کی رہائشی ضرورتیں‘ ان کے لیے کتابوں کی خریداری وغیرہ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم (ماخوذ از امداد المفتین ص ۱۰۸۶)

۳۔ توکیل یا حیلہ تملیک کے بعد مذکورہ رقم بوقتِ ضرورت بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھوائی جا سکتی ہے۔

۴۔ بہتر تو یہ ہے کہ مسجد کا فنڈ الگ ہو اور مدرسہ کا الگ ہو۔ تاہم اگر مسجد مدرسہ کے تابع ہو اور دونوں کی انتظامیہ بھی ایک ہو اور ایسی صورت میں صراحتاً یا دلالتاً یہ بات معلوم ہو کہ چندہ اور عطیات دینے والے حضرات اپنے دیے ہوئے عطیات کو مسجد اور مدرسہ دونوں کی ضروریات میں خرچ کرنے پر راضی ہیں تو ایسی صورت میں مسجد اور مدرسہ کا مشترکہ فنڈ رکھنا درست ہے۔ (ماخذہ تبویب ۳۸/۳۴۷)

۵۔ تملیک شرعی کا بے غبار طریقہ یہ ہے کہ جس قدر رقم تملیک کرانی ہو‘ اتنی رقم کے لیے کسی فقیر مصرفِ زکوٰۃ (بالغ غیر سید) سے کہا جائے کہ آپ اتنی رقم اپنے کسی سے قرضہ لے کر مدرسہ یامسجد کے لیے اپنی طرف سے بطور چندہ دے دیں‘ آپ کو ثواب ملے گا اور ہم یہ قرضہ ادا کروا دیں گے۔ جب وہ قرضہ لے کر ادارے میں بطور چندہ دے دے تو ادارہ اس قدر رقم زکوٰۃ اس کو مالک وقابض بنا کر دے دے تاکہ وہ اپنا قرضہ ادا کر سکے۔ تملیک کے مذکورہ طریقہ کے بعد زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ کی رقم اساتذہ کی تنخواہوں‘ مدرسہ ومسجد کی تعمیر اور ان کے دیگر امور میں خرچ کی جا سکتی ہیں۔ (ماخذہ تبویب ۴۷/۳۱۶)

وفی الدر المختار: ویشترط ان یکون الصرف تملیکا لا اباحۃ کما مر۔ لا یصرف الی بنا نحو مسجد ولا الی کفن میت وقضاء دینہ ....وقدمنا ان الحیلۃ ان یتصدق علی الفقیر ثم یامر بفعل ہذہ الاشیاء (۲/۳۴۴)
وفی رد المحتار: وحیلۃ التکفین بہا التصدق علی فقیر ثم ہوا یکفن فیکون الثواب لہما وکذا فی تعمیر المسجد (۲/۲۷۱) واللہ اعلم بالصواب

محمد وسیم

دار الافتاء دار العلوم کراچی

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(فروری ۲۰۰۲ء)

تلاش

Flag Counter