مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ
اکابرِ امت کی نظر میں

مولانا محمد عیسٰی منصوری

حضراتِ گرامی! آج ہم مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی زندگی، شخصیت، سیرت، علوم و افکار اور خدمات کے تذکرے، اور آپ کی زندگی اور کارناموں سے رہنمائی حاصل کرنے، انہیں مشعلِ راہ بنانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ ہمارا یہ اجلاس مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے علوم اور عصرِ حاضر میں آپ کے فکری کام کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت ہے۔

حضرت مولانا کی حیاتِ مستعار کے ۷۰ سالہ شب و روز اور آپ کی علمی و فکری جدوجہد کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

  1. ایک یہ کہ آپ نے مغربی فکر و فلسفہ کا گہرا تجزیہ کر کے مغربی افکار و نظریات اور تمدن و سیاست کی زہرناکی، اور پوری انسانیت کے لیے اس کی تباہ کاریوں پر مفصل و مدلل بحث فرمائی۔ اس کا سلسلہ ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ سے شروع ہو کر ’’اسلام اور مغربیت کی کشمکش‘‘، ’’نقوشِ اقبال‘‘ سمیت متعدد تصانیف اور سینکڑوں مضامین و تقاریر پر محیط ہے۔ اور شکر ہے کہ یہ سارا علمی ذخیرہ محفوظ ہے۔
  2. دوسرے آپ نے قرآن و سنت، اکابرینِ ملت اور ملتِ اسلامیہ کی تاریخ کی روشنی و رہنمائی پر نہایت سنجیدہ اور مثبت علمی انداز میں کام کیا۔ اس کا سلسلہ ’’سیرتِ احمد شہید‘‘، ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ اور ’’اسمعیات‘‘ کے سلسلے سے شروع ہو کر ’’منصبِ نبوت‘‘، ’’نبیٔ رحمت‘‘، ’’ارکانِ اربعہ‘‘ اور سینکڑوں مقالات و مضامین کی صورت میں ہزارہا صفحات میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ عظیم ذخیرہ بھی ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ عالمِ اسلام میں عصرِ حاضر کے مسائل، چیلنجز، مغرب کی تمدنی و فکری یلغار، علمی و فکری فتن کو جس شخصیت  نے سب سے زیادہ سمجھا، محسوس کیا، اور اس کا علمی طور پر جواب تیار کیا، ملتِ اسلامیہ کے شعور کو بیدار کیا، نئی نسل کی رہنمائی کی، وہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ ہیں۔ اسی مناسبت سے بندہ نے اپنے مقالہ کا عنوان ’’صدی کی شخصیت‘‘ تجویز کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موجودہ صدی میں ملتِ اسلامیہ کی علمی و فکری رہنمائی کا بنیادی کام آپ سے لیا۔ لیکن بعض کرم فرماؤں کے اصرار پر اب بندہ کے مقالہ کا عنوان ہے ’’مفکرِ اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ، اکابرِ امت کی نظر میں۔‘‘

حضراتِ گرامی قدر! حضرت مولانا جیسے مشاہیر کی زندگیاں تقویم کے ایام و شہور یا کسی کیلنڈر کے کسی چھوٹے بڑے دن میں پیدائش و وفات کے تعلق و تذکرے کی رہینِ منت نہیں۔ ان کی یاد کے لیے کسی خاص موسم یا فصلِ گل کی بھی ضرورت نہیں۔ ان کا وجود تاریخ کی ایک سچائی اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، اس لیے کوئی موسم ہو، بہار و خزاں کا کوئی دور ہو، ان کی یاد ہماری تعلیم و تہذیب کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ ہم ان کے تذکرے سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔

یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الٰہ الا اللہ

حضراتِ گرامی قدر! ہم کسی شخصیت کی رسمی طور پر یاد منانے کے قائل نہیں۔ ہم تو اپنے اسلاف کی سیرت اور ان کے افکار کے محاسن کے جویا ہیں۔ ہم ان کے روشن کارناموں اور عظیم الشان خدمات کو مشعلِ راہ بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اس عہدِ سعادت اور دورِ علم و تہذیب کی بازیافت کے لیے کوشاں ہیں جس کے سانچوں میں علم و عمل کے جامع اور ایثار و قربانی کے مجسمے اور اخلاق و سیرت کے یہ حسین پیکر ڈھلا کرتے تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے علوم و افکار سے ہمارے سینے معمور اور دماغ روشن ہوں۔ ان کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہو۔ ان کے کارنامے اور ایثار ہمارے لیے مشعلِ راہ ہوں، یہاں تک کہ ہمارے نوجوانوں کی زندگیاں اپنے اسلاف کرام کی یادگار اور نمونہ بن جائیں۔ حضرت مولانا اسلام کے خدمتگاروں اور حق پرستوں کے جس قبیلے، ایثار پیشگانِ ملت کے جس قافلے، اور تجدیدِ احیاء اسلام کی تحریک کے جس سلسلۃ الذہب سے تعلق رکھتے تھے، اس کی مختلف کڑیاں صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ کو محیط ہیں۔ اس وقت ہمارا موضوع اور اس سیمینار کے انعقاد کا مقصد مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے علوم و افکار سے روشنی حاصل کرنا ہے کیونکہ عصرِ حاضر میں نئی نسل کے لیے علمی و فکری رہنمائی کا سب سے زیادہ ساز و سامان حضرت مولانا کی عملی زندگی اور آپ کی تصانیف میں موجود ہے۔

حضرت مولانا کی شخصیت میں فیضانِ الٰہی سے علم و عمل، فکر و سیرت، اخلاق و تہذیب کی بے شمار خوبیاں جمع ہو گئی تھیں۔ آپ کے علم و فکر، تالیف و تدوین اور شرح و تفسیر، علوم و فنون اور خدماتِ ملتِ اسلامیہ کی جو خوبیاں دنیا پر ظاہر ہوئیں اور اصحابِ علم و نظر نے جن کا اعتراف کیا، وہ یہ نہیں کہ آپ ایک بلند پایہ عالمِ دین تھے، قرآن و حدیث اور تاریخِ عالمِ اسلام پر آپ کی گہری نظر تھی، خاص طور پر علومِ قرآن کے بے مثال عالم تھے، حکیم الہند امام ولی اللہ دہلویؒ کے علوم و معارف کے محقق و شارح تھے۔ آپ اپنی خدمات کی وجہ سے عالمِ اسلام کے دلوں کی دھڑکن بن گئے تھے۔ آپ کو من جانب اللہ جو عزت و توقیر اور قدر و منزلت عطا ہوئی وہ ایک تاریخی ریکارڈ ہے اور واضح طور پر ’’سیجعل لہ الرحمٰن وُدّا‘‘ کی عملی تفسیر ہے۔ اس دور کے مختلف الخیال اصحابِ فضل و کمال میں ایسی ہمہ گیر مقبولیت کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ آپ کے یہاں علم کے موتیوں اور معرفت کے جواہر پاروں کی ایسی ریل پیل رہتی کہ جن کے لمحوں کو محفوظ کر لیں تو صدیاں فائدہ اٹھاتی رہیں۔ آپ موجودہ دور میں امام غزالیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہؒ دہلوی کے علوم و افکار کا زندہ و تابندہ نمونہ تھے، جس کا نہ صرف ہم عصر بلکہ آپ کے اکابر و بزرگوں نے بھی دل کھول کر اعتراف فرمایا۔ یہی اعترافات اختصار کے ساتھ پیشِ خدمت ہیں۔

اس صدی کے سب سے بڑے مصلحِ امت اور شریعت و طریقت کے جامع حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ایک گرامی نامہ میں اس طرح مخاطب فرماتے ہیں:

’’بخدمت مجمع الکمالات زید لطفکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

فرحت نامہ پہنچا۔ ہر ہر لفظ حیات بخش تھا۔ جزاکم اللہ علٰی ہذا المحبۃ۔ آپ کے صدق و خلوص و سلامتِ فہم کے اثر سے میری طبعیت بھی دفعتاً‌ آپ سے بے تکلف ہو گئی۔‘‘

حضرت حکیم الامتؒ کی محتاط و معتدل شخصیت سے ادنٰی واقفیت رکھنے والا آدمی بھی جانتا ہے کہ حضرت کے ہاں محض رسمی طور پر یا تکلفاً‌ القاب اور اعزاز و اعتراف کا رواج نہ تھا۔ ایک ۱۹ سالہ نوجوان عالمِ دین کو مجمع الکمالات لکھنا جہاں بہت بڑا اعزاز اور بڑی باوقار سند ہے وہیں مولانا کے متعلق حکیم الامت کے کمالِ فراست کی دلیل بھی ہے۔

اس صدی کے سب سے بڑے داعی الی اللہ امام التبلیغ حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی نظر میں مولانا کا جو مقام و احترام تھا، اس کا کسی قدر اندازہ آپ کے ان مکتوبات سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے مولانا کو تحریر فرمائے۔ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’مخدومی و مکرمی حضرت سید صاحب دامت برکاتہم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آں محترم کی توجہاتِ عالیہ سے تبلیغ کو جس قدر نفع پہنچا ہے اب تک لگنے والوں میں سے کسی سے نہیں پہنچا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مقدس توجہات کو اس طرف اور زائد سے زائد مبذول فرمائے۔ آپ کی تشریف آوری کا انتظار ہے۔ توجہاتِ عالیہ اور دعواتِ صالحہ کا امیدوار ہوں۔

بندہ محمد الیاس غفرلہ

۲۷ اکتوبر ۱۹۴۳ء‘‘

ایک اورمکتوبِ گرامی کی ابتدا اس طرح فرماتے ہیں:

’’بخدمت عالی عمدۃ الآمال والامانی مکرم محترم جناب سید صاحب دام مجدکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اس سے پہلے گرامی نامہ عالی شرف صدور لا کر بہت دنوں تک اپنے لیے وسیلۂ آخرت سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت کرتا رہا اور مکرر سہ کرر اپنی آنکھوں اور دل کو تسلی دیتا رہا ۔۔۔۔ میری امیدوں اور تمناؤں کے ودیعت گاہ محترم، سلالہ خاندانِ نبوت، جناب عالی کا مہمانانِ نبوت کو ساتھ لے کر اس کام کے لیے قدم مبارک اٹھانا جس قدر عظیم ہے اسی قدر اس کی وقعت ۔۔۔۔ میرا ضمیرشہادت دے رہا ہے کہ یہ کام دراصل آپ جیسے اہل اور خاندانِ نبوت ہی کے کرنے کا ہے۔ آپ کے قلوب سے جس قدر اس کےلیے شرحِ صدر کے ساتھ استقامت ظہور میں آتی چلی جائے گی اسی قدر گویا اس کے درست ہونے کی امیدیں صحیح ہوتی چلی جائیں گی۔‘‘

ایک بار حضرت مولانا نے اپنے دہلی حاضر ہونے کی اطلاع دی تو رئیس التبلیغ مولانا الیاسؒ نے اس خوش خبری پر تحریر فرمایا:

’’جناب کی تشریف آوری مژدہ روئیں روئیں کو تر و تازہ کر رہا ہے۔ حق تعالیٰ ہمیں آپ کی ذاتِ گرامی سے مشفع فرمائیں۔‘‘

حضرت مولانا محمد الیاسؒ آپ کی خاندانی نسبت خصوصاً‌ حضرت سید احمد شہیدؒ کے کس قدر معترف و معتقد تھے، اس کا اندازہ ایک مکتوب سے لگایا جا سکتا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’از سگِ آستانہ عزیزی و احمدی بندہ محمد الیاس عفی عنہ بسلالہ خاندانِ نبوت، جوہرِ تابانِ معدنِ سیادت، جناب سید صاحب دام مجدکم۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک اپنے خاندان کے ذرۂ بے مقدار خادم سے اپنے ذاتی جوہر اور حسنِ ظن کے سرمایہ کی بدولت کیسی خدمت وابستہ فرما دی۔ یہ بندۂ ناچیز نہ اس کا اہل ہے نہ بندہ کو مضامین پر دست رس ہے۔ لیکن عادۃ اللہ یہ جاری ہے ’’انا عند ظن عبدی بی‘‘۔ آپ جیسے حضرات کے حسنِ ظن کا بھی اثر ہو گا اور نتیجہ ہو گا کہ جو فیاضِ ازلی سے کچھ نصیب ہو جاوے گا۔‘‘

حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے وفات سے دو روز پہلے فرمایا:

’’مولانا میں آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں؟ آپ کی کیا تعریف کروں؟ تعریف کرنا محبت کا اوچھا پن ہے۔‘‘

پھر اچانک سر اٹھا کر مولانا علی میاںؒ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا:

’’اچھا جائیے، دولتِ قرآن مبارک ہو۔‘‘

دنیا جانتی ہے الشیخ الندویؒ کو قرآنی علوم و معارف، مطالب و مقاصد کے افہام و تفہیم کا ایک خاص نرالا و البیلا ذوق و ملکہ عطا ہوا تھا۔ کیا خبر یہ حضرت مولانا الیاسؒ کی دعاؤں اور توجہ کا اثر ہو۔

ایک بار مولانا شہر کے کسی تبلیغی گشت میں تشریف لے گئے تھے، حضرت مولانا الیاسؒ نے فرمایا:

’’ایک آدمی میری بات سمجھنے والا تھا، تم نے اس کو بھی بھیج دیا، اب میں کس سے بات کروں؟‘‘

حضرت مولانا محمد الیاسؒ کے جانشین داعی الی اللہ امیرِ تبلیغ حضرت مولانا محمد یوسفؒ ایک طویل خط میں لکھتے ہیں:

’’مخدوم و مکرم معظم جناب حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حضرت عالی، مجھے دل سے اعتراف ہے کہ آپ نے حضرت مولانا مرحوم کی اس وقت قدر کی جس وقت یہ ناچیز ناقدری کر رہا تھا، اور آپ نے اس وقت عمل کی طرف قدم بڑھایا جس وقت یہ حقیر اس سے پہلوتہی کر رہا تھا۔ آپ سنتے تھے، تعمیل کرتے تھے، سمجھتے تھے اور محفوظ رکھتے تھے، اور اس کام کے انہماک اور دعوت کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے تھے ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعوت میں تاثیر دی، اضلاعِ متصلہ سے باہر یہ کام آپ ہی کی وساطت سے پھیلا اور علمی حلقوں میں آپ ہی کی وساطت سے یہ چیز پہنچی ۔۔۔۔ اگر حضرتِ عالی اپنے ان کمالات و فیوض سے، جو حضرت مرحوم کے ساتھ محبت و تعلق اور اس کام کی طرف سبقت و دعوت سے آپ کو حاصل ہیں، اور ساداتی جواہرات نے اس کو چار چاند لگائے ہیں۔ ہم خدام کو مستفید فرمائیں تو عین مراحم خسروانہ ہوں ۔۔۔۔ اگر زیادہ نہیں تو کم از کم ایک ہفتہ عشرہ کے لیے تشریف لائیں تاکہ بقیہ تبلیغی حالات تفصیل سے سامنے رکھے جا سکیں۔ اس وقت ہم خدام کو آپ کی سخت ضرورت ہے۔‘‘

حضرت مولانا ولیٔ کامل، عارف باللہ، مفسرِ قرآن حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے محبوب ترین اور معتمد ترین خلفا میں سے تھے۔ مولانا لاہوریؒ آپ سے اپنے حقیقی بیٹے کی طرح محبت فرماتے۔ ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’چونکہ آپ میرے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کا جو فضل بھی آپ پر ہو، وہ میرے لیے باعث صد فخر ہے۔ مجھے جس طرح مولوی حبیب اللہ سلمہ کی ترقی سے فرحت ہو سکتی ہے اسی طرح، بلکہ بعض وجوہ کی بنا پر اس سے زیادہ خوشی اور سرور آپ کے درجات کی ترقی سے ہوتا ہے۔ اب یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو استقامت عطا فرمائے اور موجودہ دورِ فتن میں تمام مصائب و آلام سے محفوظ رکھے، آمین یا الٰہ العالمین۔‘‘

حضرت لاہوریؒ ایک مکتوب میں رقم طراز ہیں:

’’میرے دل میں آپ کی جو عزت ہے، اسے ضبطِ تحریر میں لانے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ اسی محبت و عزت کا نتیجہ ہے کہ میں نے حج کی رات مسجدِ خیف میں آپ کے درجات کی ترقی کے لیے بارگاہِ الٰہی سے استدعا کی اور الحمد للہ اس نے بارگاہِ الٰہی میں قبولیت پا لی۔‘‘

ایک اور مکتوب میں حضرت لاہوریؒ لکھتے ہیں:

’’(آپ کا خط پڑھا) تو اس میں آپ نے اپنی شرافتِ خداداد اور سعادتِ ازلی کے وہ موتی الفاظ کی لڑیوں میں پروئے ہیں جنہیں پڑھ کر بے ساختہ آپ کی صلاحیت و شرافت اور سعادت کی دل نے داد دی اور دل سے دعا نکلی کہ اے اللہ! مولوی ابوالحسن صاحب کو اپنی رضا میں فنا کر کے دین کی خدمت کا بہت بڑا کام لے اور انہیں تادیر سلامت رکھ کر دین کی تبلیغ اور خلق اللہ کے باطن کی تربیت کی توفیق عطا فرما اور انہیں اخلاص و استقامت کے عطیات سے سرفراز فرما، آمین یا رب العالمین۔‘‘

حضرت لاہوریؒ کی طرح قطبِ وقت حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ سے بھی آپ کو اجازت و خلافت حاصل تھی۔ حضرت رائے پوریؒ کو جو آپ سےمحبت و انسیت اور تعلقِ خاطر تھا، اس کی شہادت حضرت رائے پوریؒ کے دوسرے محبوب خلیفہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ سے سنیے۔ حضرت مولانا نعمانیؒ ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’اگرچہ یہ ناچیز ہی مولانا علی میاں کے جانے اور حضرت سے تعلق قائم ہونے کا اول ذریعہ بنا، حضرت سے بیعت کا شرف بھی پہلے ناچیز ہی کو حاصل ہوا، لیکن موصوف کی ان خداداد صفات اور خصوصیات کی وجہ سے، جن کی اللہ کے یہاں اور اس کے مقبول بندوں کے ہاں بھی زیادہ قدر و قیمت ہے، حضرت کے ہاں محبوبیت کا جو مقام ان کو حاصل ہوا وہ اس ناچیز کے لیے موجبِ حسرت ہونے کے باوجود ہمیشہ رشک و غبطہ کا باعث بنا رہا (ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء)‘‘

حضرت رائے پوریؒ نے ۲۸ نومبر ۱۹۵۶ء کے ایک مکتوب میں مولانا علی میاںؒ کو مخاطب فرماتے ہوئے مولانا رومؒ کے وہ اشعار تحریر فرمائے جو انہوں نے حضرت شمس تبریزؒ کے اشتیاق میں تحریر فرمائے تھے، اور تحریر فرمایا کہ

’’آپ کے آنے سے میری کٹھیا (خانقاہ) ایسے روشن ہو گئی جیسے شمس تبریز کے آنے سے مولانا رومؒ کے آستانے میں بہار آ گئی تھی۔‘‘

حضرت رائے پوریؒ کو مولانا کی ذات سے جو محبت و انسیت کے ساتھ ناز و افتخار کا تعلق تھا اس کا اظہار و ظہور زبانی، تحریری اور عملی طور پر ہوتا رہتا تھا۔ چنانچہ جب لاہور کے ایک عالمی اجلاس میں قادیانیت کے تعلق سے ایک عربی کتاب کی ضرورت محسوس کی گئی تو حضرت رائے پوریؒ نے بڑے اعتماد و افتخار کے ساتھ حضرت مولانا کا نام لے کر فرمایا کہ ’’وہ آئیں تو ہم ان سے چمٹ جائیں گے کہ یہ کام کر کے جاؤ‘‘

آپ کے شیخ حضرت رائے پوریؒ اپنے آخری حج ۱۹۵۰ء میں آپ کو خاص اہتمام و اصرار سے اپنے ساتھ لے گئے اور فرمایا کہ ’’یہ سفر میں نے تمہارے لیے کیا ہے۔‘‘

مکہ مکرمہ میں آپ کے شیخ حضرت رائے پوری کی شفقت و محبت کا یہ عالم تھا کہ جب حضرت مولانا دعوتی و تبلیغی مصروفیات سے فارغ ہو کر مستقر پر پہنچتے تو شیخ کو اپنا منتظر پاتے۔ انتظار و اشتیاق کا وہ انداز جیسے ماں اپنے بچے کے لیے سراپا انتظار ہوتی ہے۔ آتے ہی کھانے کے لیے فرماتے، کبھی کبھی خود اپنے ہاتھ سے لقمے بنا کر منہ میں رکھتے۔ حضرت مولانا لکھتے ہیں:

’’جب میں خیمہ میں قدم رکھتا تو دیکھتا کہ حضرت بیٹھے ہوئے ہیں، سامنے رومال میں روٹیاں لپٹی ہوئی رکھی ہیں، مجھ کو دیکھ کر فرماتے، علی میاں! تم کو کھانے کا بھی ہوش نہیں، یہ دیکھو تمہارے لیے چپاتیاں لیے بیٹھا ہوں کہ خمیری روٹی تم کو نقصان کرتی ہے۔‘‘

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، جو آپ کے حدیث شریف کے استاذ بھی تھے، آپ کے بر اور مکرم ڈاکٹر عبد العلی صاحب کو ایک بشارت آمیز مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ سے دعا کہ وہ کریم ساز موصوف (علی میاں) کو مفتاحِ خیر اور مغلاقِ شر بنائے۔ حضرت سید احمد شہیدؒ قدس اللہ سرہ العزیز کی تجدیدِ ملتِ اسلامیہ کی خدمتِ عالیہ کا علمبردار بنا کر نعمائے لدنیہ سے مالامال کرے، آمین۔ ننگِ اسلاف حسین احمد غفرلہ۔ ۱۵ ربیع الاول ۱۳۷۰ھ‘‘

حضرت شیخ الاسلام کی دعا کا اثر دنیا نے دیکھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت مولاناؒ سے اس صدی میں تجدیدِ ملتِ اسلامیہ کا کام لیا۔

اسی طرح ولیٔ کامل حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنیؒ کی حضرت مولانا سے محبت و انسیت کا اندازہ ان بے شمار خطوط سے لگایا جا سکتا ہے جو حضرت شیخ نے تحریر فرمائے۔ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’بلا تصنع اور بلا مبالغہ عرض کرتا ہوں کہ آپ کے لیے دعا کرنا اپنا فریضہ اور آپ کا حق سمجھتا ہوں۔‘‘

۲۲ جمادی الاولیٰ ۱۳۹۳ھ کو مدینہ منورہ سے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’دعاؤں سے نہ مکہ میں دریغ ہوا نہ مدینہ پاک میں۔ اور یہ بھی یاد نہیں کہ کسی دن آپ کے لیے صلوٰۃ و سلام پہنچانے میں تخلف ہوا ہو۔ اس سے تو آپ کو بھی انکار نہیں ہو گا کہ دل بستگی جتنی آپ سے ہے اتنی کسی سے بھی نہیں رہی۔‘‘

مولانا پر حضرت شیخ کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ مدینہ منورہ قیام کے زمانے میں مجلسِ ذکر میں جب صبح کو حاضری ہوتی تو روزانہ کا معمول تھا کہ عین ذکر کی حالت میں ایک چمچہ تلے ہوئے انڈے کا اور ایک خمیرہ کا مولانا کے منہ سے لگا دیا جاتا۔ اسی طرح حضرت شیخ اپنی عربی تصانیف پر باصرار حضرت مولانا سے مقدمہ لکھوایا کرتے تھے۔ مولانا کی اکثر تصانیف اپنی مجلس میں سنتے اور قدر افزائی فرماتے۔

جب امریکہ میں تقریروں کا مجموعہ ’’نئی دنیا امریکہ میں صاف صاف باتیں‘‘ شائع ہوا تو حسبِ معمول حضرت شیخ نے اپنی مجلس میں پوری کتاب سنی اور خط تحریر فرمایا کہ اردو کے ساتھ انگریزی و عربی میں ترجمہ ہونا چاہیے۔ تینوں زبانوں میں ایک لاکھ کے قریب نسخے چھپوا کر خوب تقسیم کرائے جائیں۔ اس کتاب کے دو ہزار نسخے حضرت شیخ نے خود خرید کر تقسیم فرمائے۔

حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے خلیفہ اجل حضرت مولانا شاہ وصی اللہ الٰہ آبادی کو حضرت مولانا سے غایتِ محبت و شفقت رہی۔ جس طرح مائیں اپنے پیارے بچوں کو پاس بٹھلا کر کھلاتی ہیں، حضرت کبھی کبھی لقمہ بنا کر مولانا کے منہ میں رکھ دیتے۔ جب کبھی مولانا کے الٰہ آباد پہنچنے کی اطلاع ہو جاتی تو ناشتہ لے کر اسٹیشن پر منتظر رہتے۔ حضرت شاہ صاحبؒ بڑے صاحبِ کشف بزرگ تھے، ایک بار خاص کیفیت میں فرمایا:

’’سب کے دل دیکھ لیے، سب کے دل دیکھ لیے، لیکن جتنا صاف دل علی میاں کا دیکھا، ایسا کسی کا نہیں دیکھا۔‘‘

حضرت تھانویؒ کے خلیفۂ اجل اور مولانا کے محبوب استاذ حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ ایک جگہ مولانا کے متعلق یوں رقم طراز ہیں:

’’آج وہ سید ابوالحسن علی ندوی کے نام سے مشہورِ روزگار اور تبلیغِ دین کے کام میں پورے انہماک کے ساتھ مصروف ہیں۔ حجاز و مصر کی فضائیں ان کی دعوت کے نغموں سے مسحور ہیں ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے عربی تقریر و تحریر کی دولت ان کو عطا فرمائی ہے جس کو وہ بحمد اللہ دین کی راہ میں لٹا رہے ہیں۔‘‘

مفتی اعظم پاکستان اور حضرت تھانویؒ کے محبوب خلیفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ حضرت مولانا کو موفق من اللہ فرمایا کرتے تھے۔ اور حضرت مفتی اعظم کے باتوفیق صاحبزادے حضرت مولانا جسٹس تقی عثمانی دامت برکاتہم ایک جگہ حضرت مولانا کے متعلق ان الفاظ میں اپنے احساسات لکھتے ہیں:

’’مفکرِ اسلام کی شخصیت ہمارے دور کی ان معدودے چند شخصیات میں سے ہے جن کے تصور سے نہ صرف اپنے زمانہ کے احساس میں کمی آتی ہے بلکہ ان کے صرف وجود ہی سے اس پُرفِتن دور میں تسلی اور ڈھارس کا احساس ہوتا ہے۔‘‘

جب حضرت مولانا کو ۱۹۵۵ء میں دمشق یونیورسٹی میں بطور استاذ تقرر کی نوید ملی تو اس اعزاز کی خبر پر عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن کے شعبہ دینیات کے سربراہ اور اردو کے بے مثال ادیب حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے اپنے تاثر کا اظہار ان الفاظ میں کیا:

’’اخبار جمعیۃ کے بعد اخبار مدینہ میں بھی اس تاریخی امتیاز کی خبر پڑھی جو صدیوں بعد ہندوستان کو حاصل ہوا۔ علامہ صفی الدین بدایونی کے بعد شاید آپ دوسرے ہندی عالم ہیں جن کو شام میں پڑھانے اور اپنے علوم سے شامیوں کو فائدہ پہنچانے کا موقع ملا، بلکہ صفی ہندی تو خود گئے تھے اور آپ کو وہاں کی حکومت اور جامعہ نے طلب کیا ہے ’’وشتان بینھما‘‘۔ یہ امتیاز آپ کی شخصیت تک ہی محدود نہیں بلکہ سارے ہندی علما کے لیے سرمایۂ افتخار ہے۰‘‘

بھوپال کے حضرت شاہ یعقوب مجددیؒ آخری دور میں مجددیہ سلسلہ کے بڑے صاحبِ دل بزرگ ہوئے ہیں، آپ حضرت مولانا کا غایت احترام فرماتے۔ بایں ہمہ کمالات حضرت شاہ صاحب کا معمول تھا کہ مولانا کے لیے اسٹیشن پر تشریف لاتے، یہ صرف حضرت مولانا کا امتیاز تھا۔ بندہ نے آنکھوں سے دیکھا کہ امیر تبلیغ حضرت مولانا محمد یوسفؒ بھوپال کے سالانہ عالمی اجتماع میں شرکت کے موقع پر پابندی سے حضرت کی مجلس میں شرکت فرماتے۔ ایک بار گاڑی لیٹ ہونے کی وجہ سے رات کا بڑا حصہ حضرت کا اسٹیشن پر کٹا۔ حضرت مولانا نے خط میں اس پر ندامت کا اظہار کیا۔ شاہ صاحب نے جواباً‌ مکتوب میں تحریر فرمایا:

’’اس عاجز کو جو روحانی آرام اس شب حاصل ہوا جس رات کو حضرت کے استقبال میں اسٹیشن پر رہا تھا، ایسی خوشی و فرحت کی کوئی رات مجھ کو اپنی زندگی  میں یاد نہیں، جسمانی کوفت بہت قلیل اور روحانی فرحت بہت کثیر۔‘‘

عارف باللہ حضرت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھیؒ فرمایا کرتے تھے:

’’چونکہ علی میاں اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو علم کے پردے میں چھپا رکھا ہے۔ اگر وہ اپنے آپ کو ظاہر کر دیں تو دوسرے پیروں کو مرید نہ ملیں۔‘‘

محدثِ شہیر جانشین حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ حضرت مولانا کو آیت من آیات اللہ فرمایا کرتے تھے۔

عارف باللہ صدیقِ زمانہ حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندویؒ اپنے آخری مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’مخدومی حضرت اقدس دامت برکاتہم۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

احقر کو اپنے اکابر سے الحمد للہ ہمیشہ سے عقیدت رہی ہے اور ہے۔ اس وقت حضرت والا کی عقیدت اور عظمت جو اس ناکارہ کے دل میں ہے، اس کو سب پر فوقیت اور اولیت حاصل ہے اور یہی زندگی کا سرمایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اخیر وقت تک اس کو باقی رکھے۔‘‘

حضرت مولانا اشرف سلیمانی، خلیفہ حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں:

’’علی میاں کا خمیر محبت و نرمی سے عبارت ہے۔ علم و تقوٰی نے ان سے فروغ پایا ہے اور جامعیتِ علوم کی مسند ان سے مزین ہے۔ مشرق و مغرب کے دینی تقاضوں اور جدید طبقہ کے نبض آشنا ہیں۔ ان کی تحریر دلوں کے اندر اتر جاتی ہے اور بیک وقت دل و دماغ دونوں کو تسلی کا سامان مہیا کر دیتی ہے۔‘‘

حضرت مولانا کے دیرینہ رفیقِ محترم حضرت مولانا منظور احمد نعمانی صاحبؒ، جن کی حضرت مولانا سے نصف صدی سے زیادہ رفاقت رہی، عرصہ تک دن رات کا ساتھ رہا۔ معاصرت اور ایسی طویل رفاقت کے ساتھ حضرت نعمانی کی رائے و تاثر جتنا وقیع اور باوزن ہو سکتا ہے، ظاہر ہے۔ تقریباً‌ ۴۰ سال پہلے ۱۹۵۴ء میں دیوبند کے طلبا نے حضرت مولانا کو خطاب کی دعوت دی اور اس کے لیے حضرت مدنی سے سفارشی خط لکھوایا۔ آپ کے اس خطاب کو حضرت مولانا محمد منظور نعمانی نے شعبان ۱۳۷۳ھ کے الفرقان میں شائع فرمایا اور اس خطاب پر اور حضرت مولانا کی شخصیت پر اپنا تاثر ان الفاظ میں قلم بند فرمایا:

’’یہ مقالہ اگرچہ مقالہ ہی ہے، کوئی کتاب نہیں ہے، لیکن اپنا یہ احساس و تاثر بے تکلف ظاہر کر دینے کو جی چاہتا ہے کہ اس عاجز کی نظر میں اس کی قیمت و اہمیت سینکڑوں صفحات والی بہت سی کتابوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس عاجز کا سن تو اگرچہ ابھی پچاس سے بھی کم ہے لیکن زندگی مختلف میدانوں میں ایسی رواں دواں گزری ہے کہ اتنی ہی عمر میں بہت کچھ دیکھ لیا۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرا یہ تجربہ اور میری واقفیت اتنی ہے کہ اپنی اس رائے کے اظہار کا مجھے بجا حق ہے کہ ہماری اس دنیا میں ایسے لوگ بہت ہی کم پیدا ہوئے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذہنِ ثاقب بھی ملا ہو اور دلِ روشن بھی، جو اس دوڑتی ہوئی اور کروٹیں بدلتی ہوئی دنیا کے حالات و مزاج اور اس کے نت نئے تقاضوں سے پوری طرح باخبر بھی ہوں، اور دینی و ایمانی حقائق کے بارے میں وارثینِ انبیاء کرام کی طرح صاحبِ یقین بھی۔ الغرض ہماری اس دنیا میں یہ جنس بہت ہی کم یاب ہے۔ اور اللہ کے ایسے بندے جو ان دونوں صفتوں کے جامع ہوں، اس عاجز نے غالباً‌ اتنے بھی نہیں دیکھے جتنی کہ اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں ہیں۔ لیکن جو دو چار دیکھے ہیں ان میں ایک ذات رفیقِ محترم مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی بھی ہے۔ اللہ کی خاص عنایت و توفیق سے وہ صاحبِ نظر و فکر بھی ہیں اور صاحبِ قلب بھی۔ اور اپنے علم و معلومات کے لحاظ سے جدید بھی ہیں اور ایمان و یقین اور رسوخ فی الدین اور طرزِ زندگی کے لحاظ سے قدیم بھی۔ ان کی ذات مدرسہ بھی ہے اور خانقاہ بھی۔‘‘

برصغیر ہی نہیں عالمِ اسلام بالخصوص عرب دنیا کے اساطینِ علم و فضل اور دینی و روحانی شخصیات نے جس فراخ دلی سے مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، عصرِ حاضر ہی نہیں بلکہ شاید برصغیر کی پوری تاریخ میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ مفتیٔ اعظم فلسطین مفتی محمد امین الحسینی جیسی عظیم دینی اور مجاہد ہستی اپنے ایک مکتوب میں رقم طراز ہیں:

’’حضرت صاحب الفضیلۃ الاستاد الجلیل ابی الحسن علی الندوی وکیل ندوۃ العلماء بالھند۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

آپ کو ایک مومنِ مخلص کی شان کے مطابق مرض کی تشخیص اور اس کے لیے دوا تجویز کرنے کی سعادت و توفیق حاصل ہوئی۔‘‘

مفتی اعظم فلسطین کا یہ مکتوب ۲۷ جولائی ۱۹۵۷ء کا ہے جس میں آپ نے حضرت مولانا کے ایک نباضِ ملت ہونے اور آپ کی فکری اصابتِ رائے کا اعتراف فرمایا ہے۔

۱۶ سال کی عمر میں آپ کا مضمون ’’ترجمۃ الامام السید احمد بن عرفان الشھید‘‘ عالمِ اسلام کے جلیل القدر عالم و محقق علامہ سید رشید رضا نے اپنے معروف رسالہ ’’المنار‘‘ میں شائع کیا۔ پھر اجازت لے کر الگ سے کتابچہ کی صورت میں شائع کیا۔ حضرت مولانا کی یہ پہلی تصنیف تھی جو مصر سے عربی میں شائع ہوئی۔

حضرت مولانا کی عظیم و جلیل خدمات پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ۱۹ اگست ۱۹۹۶ء کو ترکی میں جلسہ تکریم منعقد ہوا جس میں عالمِ اسلام کے جلیل القدر علماء و مفکرین نے آپ کی علمی و دینی خدمات پر مقالات پیش کیے۔ مصرکے مشہور عالم ڈاکٹر عبد المنعم احمد یونس نے اس سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا:

’’مولانا ابوالحسن علی ندوی پوری انسانیت کے مربی و محسن رہنما ہیں۔ عرب و عجم ان کی دعوت و فکر سے نہ صرف آشنا بلکہ ان کا قدردان ہے۔ آج ہمیں دلی مسرت ہے بلکہ ہم فخر و اعزاز محسوس کر رہے ہیں کہ استنبول جیسے تاریخی شہر میں ہم یہ جلسہ ایسی شخصیت کے اعزاز میں منعقد کر رہے ہیں جن کی ذات انجمن ساز ہے، جس نے اسلامی دنیا ہی نہیں مغربی دنیا کو بھی اپنی شخصیت و فن سے متاثر کیا ہے۔ بہت سے علمی و ادبی اور دعوتی مراکز کا سرچشمہ آپ کی ذات ہے۔‘‘

۱۳ نومبر ۱۹۹۷ء کو ندوۃ العلماء لکھنو میں قادیانیوں کے ارتدادی فتنہ کے خلاف عالمی پیمانہ پر اجلاس منعقد ہوا جس میں امام حرم الشیخ محمد عبد اللہ السبیل اور قبلہ اول مسجد اقصٰی کے امام و خطیب الشیخ محمد صیام نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ الشیخ سبیل حرمِ کعبہ کے سب سے بڑے امام اور حرمین شریفین کے تمام انتظامی و دینی امور کے صدرِ اعلٰی ہیں۔ حضرت مولانا کے ایما پر عالمی اجلاس کی صدارت کے لیے الشیخ محمد عبد اللہ السبیل کا نام تجویز ہوا تو شیخ نے فرمایا:’’سماحۃ الشیخ ابوالحسن علی کے ہوتے ہوئے میں صدر نہیں بن سکتا‘‘۔ چنانچہ امامِ حرم کے اصرار و خواہش پر حضرت مولانا ہی نے اجلاس کی صدارت فرمائی۔

عرب دنیا کے ممتاز عالم و خطیب اور مایہ ناز صاحبِ قلم الشیخ علی طنطاویؒ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’سیدی الاخ الحبیب فی اللہ الاستاذ الکبیر ابا الحسن علی الندوی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک دن میں ریڈیو والوں کو اپنی گفتگو براڈ کاسٹ کرا رہا تھا۔ براڈ کاسٹ کرنے والے نے مجھ سے سوال کیا، کون سی جگہ آپ کو زیادہ پسند ہے اور کس جگہ سے آپ کی خوشگوار ترین یادیں وابستہ ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ جواب میں، میں اپنے شہر دمشق کا نام لوں گا (جو انبیاء کرامؑ، صحابہ کرامؓ اور کثیر اولیاء عظامؒ، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، ابن کثیرؒ، ابن عربیؒ وغیرہ کا مسکن و مدفن ہے اور خود حضرت مولانا کا محبوب ترین شہر ہے) لیکن جب میں نے لکھنو میں ندوۃ العلماء کا نام لیا تو وہ حیران رہ گیا۔ تعجب سے پوچھا، لکھنو کیا ہے؟ میں نے جواب دیا الشیخ ابوالحسن علی کا شہر۔‘‘

اپنے دور کے عظیم محدث، فقہ حنفی و حدیث کے امام، کثیر کتب کے مولف الشخ عبد الفتاح ابو غدہؒ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’یحیٰی بن سعید حدیث بیان فرماتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ موتیوں کی بارش ہو رہی ہو۔ واللہ آپ کی باتیں بھی ہمارے لیے ایسی ہی ہیں۔ شکر اس خدا کا جس نے آپ کو یہ نعمت دی اور اس پر قادر بنایا اور اس کام کے لیے آپ کو منتخب کیا۔ اور آپ کی شخصیت میں ہماری تاریخ کے روشن و شاندار علمی صفحات دکھائے، عالی مرتبت علماء سلف کی یاد تازہ کی۔ آپ کی ذاتِ گرامی الحمد للہ ان اسلاف کو یاد دلانے کا بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (ریاض۲۰۔۴۔۱۴۰۲ھ)

عرب دنیا کے مشہور عالم و محقق، قطر یونیورسٹی کی کلیۃ الشریعہ کے سربراہ، فقہ الزکوٰۃ جیسی متعدد علمی کتب کے مصنف، دینی خدمات میں فیصل ایوارڈ یافتہ، عظیم داعی و خطیب الشیخ یوسف القرضاوی ۱۹۹۵ء میں حضرت مولانا کے دوحہ قطر تشریف آوری کے موقع پر اپنی تعارفی تقریر میں فرماتے ہیں:

’’الشیخ ابوالحسن علی ندوی ایک عظیم اسلامی شخصیت ہیں۔ وہ سر تا پا اسلام کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ اسلام ان کے رگ و ریشے میں سرایت کر گیا ہے۔ اسلام ہی ان کی ابتدا و انتہا ہے۔ آپ صحیح معنی میں محمدی ہیں بایں طور کہ آپ نے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، اور پوری زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق ہی کو اپنایا ہے۔ آپ اس دور میں سلف صالحین کا نمونہ اور ان کی سچی یادگار ہیں۔ آپ کو دیکھنے سے حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت ابوالدرداءؓ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ شیخ کے یقینِ کامل، اللہ پر حقیقی توکل اور امت کی فکر میں ان کی تڑپ اور اپنے آپ کو گھلانے نے مجھے ان کا گرویدہ بنا لیا ہے۔ میں ان کی محبت سے اللہ کے قرب کا امیدوار ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ حشر میں مجھے ان کا ساتھ نصیب ہو۔‘‘

عرب دنیا کے مایہ ناز عالم و محقق شیخ الازہر الشیخ ڈاکٹر عبد الحلیم محمود اس طرح اعتراف فرماتے ہیں:

’’الشیخ ابوالحسن علی ندوی، آپ نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے لیے وقف کر دی ہے اور اپنے شب و روز ایک مخلص و متقی مسلمان کی طرح گزار رہے ہیں۔ آپ نے پاکیزہ اسلوب و کردار اور عمدہ اسلامی لٹریچر کے ذریعے سے اسلام کی آواز کو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلایا ہے۔‘‘

نصف صدی پہلے ۱۹۵۰ء میں سعودی ریڈیو نے حضرت مولانا کی شخصیت پر ایک تفصیلی خاکہ پیش کیا جو تقریباً‌ دس صفحات کو محیط ہے۔ اس کا تھوڑا سا حصہ حسبِ ذیل ہے:

’’ہم سامعین کے سامنے عصرِ حاضر کی ایک ایسی جامع الصفات اور منفرد شخصیت کو پیش کرنے جا رہے ہیں جو پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک بہترین نمونہ و آئیڈیل ہے۔ یہ شخصیت گزشتہ زمانوں کے لحاظ سے بھی قابلِ تقلید ہے اور ہر زمانہ ہر جگہ کے لیے موزوں و مثالی شخصیت ہے۔ یہ وہ عظیم ہستی، جوہرِ نایاب، اور وہ عبقری انسان ہے جن کے دل میں انسانیت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ آپ ایسے پارسا اور دین دار ہیں جنہیں دیکھ کر سلف صالحین کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی ایک نابغہ عصر اور نادرۂ روزگار شخصیت ہیں جن کی عبقریت مسلم ہے۔ جس پہلو سے بھی ہم دیکھتے ہیں انہیں عظیم و مثالی پاتے ہیں۔ ان کی عظیم المرتبت شخصیت عصرِ حاضر کے لیے فخرِ قوم و ملت اور فخرِ اسلام ہے۔‘‘

جس وقت سعودی ریڈیو آپ کی زندگی کی جھلکیاں پیش کر رہا تھا اس وقت آپ کی عمر محض ۳۵ سال تھی۔ اس کے بعد نصف صدی تک اللہ تعالیٰ نے آپ سے دین کے مختلف شعبوں میں احیاء دین کا کام لیا حتٰی  کہ آپ کی شخصیت پورے عالم اسلام کے لیے متفقہ طور پر محبوب ترین ہستی بن گئی۔

ہم اس دعا پر اس مقالہ کو ختم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مولانا کے گراں قدر علمی سرمایہ اور تصانیف سے فائدہ اٹھانے اور آپ کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق ارزانی فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

شخصیات

(ستمبر ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter