غیر مستوجب حد جرائم پر تعزیری سزاؤں کے نظائر
(۱) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے سامنے ایک شخص کو پیش کیا گیا جس کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا اور وہ ایک اجنبیہ کے ساتھ ایک ہی بستر میں لیٹا ہوا پکڑا گیا تھا، تاہم اس کے خلاف بدکاری کی شہادتِ شرعیہ نہ پیش کی جا سکی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس شخص کو چالیس کوڑوں کی سزا دی نیز اسے مجمع عام کے سامنے زجر و توبیخ بھی کی۔ اس پر قبیلہ قریش کے چند معززین کا ایک وفد حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے خلاف حضرت عمرؓ کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ہمارے قبیلے کے ایک معزز شخص کو سربازار رسوا کر دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے عبد اللہ بن مسعودؓ کو طلب فرما کر واقعہ سے متعلق استفسار کیا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا، ہاں، اس کے خلاف لوگوں نے دعوٰی کیا کہ وہ ایک اجنبیہ کے لحاف میں گھسا ہوا تھا، لحاف میں گھس کر لیٹنے کے سوا اور کوئی گواہ اس کی بدکاری پر نہیں پیش کیا گیا لہٰذا میں نے اسے تعزیرًا چالیس کوڑے مارے اور لوگوں میں اس کی تشہیر کی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا، آپ کے خیال میں اسے یہی سزا دینی چاہیے تھی؟ ابن مسعودؓ نے فرمایا، ہاں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا، آپ نے بہت اچھا کیا۔ (۳۴)
اس حدیث سے جو فقہی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ اجنبیہ کے ساتھ لیٹنا قابلِ تعزیر جرم ہے۔ اسی طرح اجنبیہ کو بہلا پھسلا کر اور سبز باغ دکھا کر بھگا لے جانا، نیز ہر وہ طریقہ جس میں اجنبیہ کے ساتھ خلوت اور فحاشی کا ارتکاب پایا جائے، اگرچہ زنا کا فعل وقوع پذیر نہ ہو، سب اعمالِ معصیت ہیں اور ہر معصیت قابلِ تعزیر جرم ہے جبکہ وہ ’’حد‘‘ تک نہ پہنچی ہو۔
۲۔ اگر قاضی یہ سمجھتا ہے کہ مجرم کے لیے بدنی سزا کافی نہیں تو اسے زجر و توبیخ بھی کر سکتا ہے اور یہ بھی سزائے تعزیر کا حصہ ہے۔
۳۔ اگر جج کے فیصلے سے کوئی فریق ناراض ہو تو مجاز اتھارٹی سے شکایت کرنا توہینِ عدالت نہیں۔
۴۔ تعزیری سزا میں یہ جج کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ کتنی سزا دیتا ہے۔ تاہم حکومت کو اس ضمن میں کم از کم اور زیادہ سے زیادہ سزا کی تعیین کا اختیار حاصل ہے۔
سو ایسے تمام جرائم میں جو اس طرح سرزد ہوں، ان میں اگرچہ حد نافذ نہیں ہو گی لیکن سزائے تعزیر واجب ہو گی تاکہ فحاشی کا قلع قمع کیا جا سکے۔ حدود کی سزا نہ صرف بہت کم جرائم میں مقرر ہے بلکہ اس کے اثبات کے لیے نہایت مشکل اور نادر الوجود وسائل درکار ہیں۔ اس لیے شریعت نے باب التعزیر کھلا رکھا ہے تاکہ مجرموں کو شبہات کی چھتری تلے جرائم کے بے دریغ ارتکاب سے روکا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سزائے تعزیر کے اثبات کے لیے اثباتِ حدود سے کم درجے کے وسائل رکھے گئے ہیں تاکہ مجرم بچ کر نہ جا سکے۔ اگر زنا، سرقہ، منشیات کے استعمال، ارتداد اور تہمت کی ایسی صورتوں میں جو غیر مستوجب حد ہوں، مجرم کو بغیر سزا کے چھوڑ دیا جائے تو غور فرمائیے کہ کسی عفیفہ کی عزت اوباشوں کے ہاتھوں کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟ کسی شخص کا مال چوروں سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے؟ منشیات سے کسی معاشرے کو کیونکر پاک رکھا جا سکتا ہے؟ کسی گمراہ کو عقائدِ فاسدہ کے پھیلانے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟
(۲) حضرت عمرؓ کھانا تناول فرما رہے تھے کہ ایک شخص خون آلود تلوار لیے دربار میں حاضر ہوا، لوگوں کا ہجوم اس کے پیچھے پیچھے تھا، لوگوں نے کہا کہ یہ شخص قاتل ہے، اس نے ہمارے آدمی کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے قاتل سے استفسار فرمایا کہ کیا قصہ ہے؟ اس نے کہا، میں نے اپنی بیوی کی برہنہ رانوں کے درمیان تلوار کا وار کیا ہے۔ اگر اس کی رانوں کے درمیان کوئی تھا تو میں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ فاروقِ اعظمؓ نے قاتل سے تلوار لے کر اسے ہوا میں لہراتے ہوئے فرمایا ان عاد فعد ’’اگر پھر ایسا کرتے ہوئے دیکھو تو ایسے ہی کرو جیسے اب کیا ہے‘‘ (۳۵)۔
اس روایت سے فقہاء اسلام نے یہ قانونی استنباط کیا ہے کہ:
۱۔ اگر کوئی شخص حالتِ تلویث بالجریمہ میں مندرجہ بالا صورتحال سے دوچار ہو تو وہ مجرم کو قتل کر سکتا ہے، ایسے قاتل سے قصاص نہیں لیا جائے گا، البتہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی وجہ سے اسے مناسب سزا دی جا سکتی ہے۔ بشرطیکہ مجرم کو دھمکی سے، یا ہوائی فائرنگ سے، یا شور مچا کر روکا جا سکتا ہو۔ اور اگر ایسا کرنے کے باوجود مجرم باز نہ آئے تو قاتل پر تعزیر بھی نہیں ہے، اور وہ جب بھی اس طرح کے مجرم کو اس حالت میں پائے تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔ یہ تمام امور مقدمہ کے تفصیلی حالات سے تعلق رکھتے ہیں جہاں جج کو نہایت دقتِ نظر سے فیصلہ کرنا ہو گا تاکہ لوگ اس طرح کی روایات کو آڑ بنا کر بیویوں کے قتل کا مشغلہ نہ اپنا لیں۔
۲۔ مجمع میں سے کسی آدمی نے مقتول کے، قاتل کی بیوی کی رانوں میں موجودگی کی تردید نہیں کی۔ ان کا یہ سکوت مقتول کے ملوث بالجریمہ ہونے کا قرینہ ہے۔ حضرت عمرؓ نے ہجوم کے سکوت کی وجہ سے مزید کوئی شہادت طلب نہیں کی۔ یہ قتل تعزیرًا ہے، حد نہیں۔
(۳) عبد الرزاق حسن روایت کرتے ہیں کہ:
ان رجلا وجد مع امراۃ رجلا قد اغلق علیھا الباب وارحی علیھا الاستار فجلدھا عمر مائۃ جلدۃ۔
’’ایک شخص نے دیکھا کہ ایک مرد اس کے گھر میں اس کی بیوی کے ساتھ موجود ہے، دروازہ بند ہے اور پردے گرے ہوئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے دونوں کو سو کوڑے لگائے۔‘‘(۳۶)
اس روایت سے حسبِ ذیل باتیں مستنبط ہوتی ہیں:
۱۔ یہ فحاشی غیر موجب حد تھی۔ اجنبیہ کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا، دروازے بند کرنا اور پردے گرانا قابلِ تعزیر جرم ہے۔ گو یہاں صریح زنا کے ارتکاب کا کوئی ثبوت نہیں لیکن سقوطِ حد کی وجہ سے اس شخص کو بری نہیں کیا گیا بلکہ خلوت اختیار کرنے کی بنا پر دونوں کو کوڑے مارے گئے۔
۲۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اندر داخل ہونے والا شخص رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور دربارِ عمرؓ میں پیش ہونے کے بعد اس نے گھر میں داخل ہونے اور پردے گرانے کے اقدام سے انکار نہیں کیا۔ یہاں بھی اس کے سکوت کو تعزیر کے نفاذ کے لیے اقرار کے قائم مقام قرار دیا گیا، جبکہ حد میں سکوتِ مجرم سے اقرار ثابت نہیں ہوتا جب تک کہ وہ چار مرتبہ اقرار نہ کرے۔
عادی مجرم اور تعزیری سزا
کان عثمان یری الجمع بین الحد والتعزیر اذا کان ما یوجب ھذا الجمع وقد فعل ذالک فی من ادمن علی شرب الخمر فضربہ الربعین سوطا حدا و اربعین تعزیرا الاصرارہ علی شرب الخمر بینھما ھو لم یضرب الذی ولہ فشرب غیر اربعین سوطا۔
’’حضرت عثمانؓ کے خیال میں حد اور تعزیر دونوں کو جمع کیا جا سکتا ہے جبکہ ایسا کرنا ضروری ہو۔ آپ نے ایک عادی شراب نوش کو چالیس کوڑے بطور حد سزا دی اور چالیس بطور تعزیر کیونکہ وہ عادی شراب نوش تھا۔ جبکہ اگر کوئی شخص محض ’’زلت‘‘ کی بنیاد پر ایک آدھ دفعہ شراب نوشی کا ارتکاب کر لیتا تو اسے حضرت عثمانؓ صرف چالیس کوڑوں کی سزا دیتے۔‘‘ (۳۷)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمانؓ کے نزدیک شراب نوشی کی سزا صرف چالیس کوڑے ہے اس لیے انہوں نے عادی مجرم کو چالیس کوڑے بطور حد لگائے اور چالیس کوڑے بطور تعزیر۔ یہ حضرت عثمانؓ کا فقہی اجتہاد ہے۔
شربِ خمر کی حد میں فقہاء کا اختلاف حسبِ ذیل ہے: احناف اور مالکیہ کا موقف یہ ہے کہ شربِ خمر کی حد ۸۰ کوڑے ہے، سفیان ثوریؒ بھی اسی کے قائل ہیں کیونکہ اس مقدار پر صحابہؓ کی اکثریت کا اتفاق ہے۔ امام شافعیؒ کا موقف یہ ہے کہ حد ۴۰ کوڑے ہے، اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ بھی اسی کے قائل ہیں۔(۳۸)
سزائے تعزیر کا ثبوت
حدود کا ثبوت تو قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے ملتا ہے۔ اور وہ سزا ایسی سزا ہے جس کی مقدار خداوندِ قدوس اور رسول کریم ﷺ نے متعین فرما دی ہے۔ تعزیری سزاؤں کی مقدار کی تعیین قرآن و حدیث میں موجود نہیں بلکہ یہ امر حکومتِ وقت کے سپرد کیا گیا ہے کہ جیسے مناسب سمجھے اور جن جرائم کو مناسب سمجھے انہیں تعزیری جرم قرار دے، بشرطیکہ شریعت کے حلال کردہ کاموں کو حرام اور حرام کو حلال قرار نہ دیا گیا ہو۔ باقی امور میں اسلامی ریاست کے مسلمان حکمرانوں کو تعزیرات میں وسیع اختیارات حاصل ہیں جبکہ ریاست کے دیگر معاملات میں بھی عدل و انصاف اور انسانی حقوق اور مساوات کا بندوبست حتی الامکان کر لیا گیا ہو۔ کیونکہ سزاؤں کا اختیار بھی، چاہے وہ حدود ہوں یا تعزیرات، صرف اس حکومت کو حاصل ہے جو رعیت کے لیے روزگار، تعلیم، علاج، چھت مہیا کرنے کی ذمہ داری نبھائے۔ صرف مارنا پیٹنا، جیلوں میں بند کرنا، پھانسی کے تختے پر لٹکانا اسلامی ریاست کے فرائض کا حصہ نہیں۔ بلکہ عوام کے لیے ہر طرح کی فلاح و بہبود کا بندوبست اور ہر طرح کے استحصال کا قلع قمع کرنا بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
جو حکومت لوگوں سے زکوٰۃ اور ٹیکس وصول کرنے کا حق مانگتی ہے اس کے منصبی فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ وہ جرائم کے اسباب پر غور کرے اور ان اسباب کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا حکومت کا فرض ہے۔ اطاعت اسی صورت میں ہو گی جبکہ اولی الامر مطیع کے حقوق کی ذمہ داری نبھائیں۔ صرف سزاؤں کے نفاذ سے کوئی حکومت اسلامی حکومت نہیں کہلا سکتی، ایسی حکومت مسلمانوں کی حکومت تو ہو سکتی ہے، اسلامی نہیں۔
ثبوتِ تعزیر
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
واللاتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن۔
’’اور جو عورتیں نافرمانی اختیار کریں، انہیں نصیحت کرو، ان کے بستر الگ کرو اور انہیں جسمانی سزا دو۔‘‘
یعنی اگر کوئی عورت خاوند کے ساتھ بدمزاجی سے پیش آئے اور نافرمانی کرے، اس کو راہِ راست پر لانے کے تین درجے ہیں: (۱) زبانی فہمائش (۲) ازدواجی تعلقات کا خاتمہ (۳) جسمانی سزا۔
زجر و توبیخ، ازدواجی تعلقات کا خاتمہ یہ سب تعزیری سزائیں ہیں۔ اور اگر ان دو سزاؤں سے باز نہ آئے تو پھر جسمانی سزا دی جائے گی جس سے نہ تو جسم پر کوئی نشان پڑے اور نہ کوئی ہڈی ٹوٹے۔ سزائیں تادیباً ہیں، حدًا نہیں۔ ہر جرم پر تادیبی سزا دی جا سکتی ہے کیونکہ قرآن کریم نے خاوند کو تادیباً بیوی کو سزا دینے کا اختیار دیا ہے تو حاکمِ مملکت کو بدرجہ اولٰی یہ حق حاصل ہے کہ وہ رعیت کے ان لوگوں کو تعزیری سزائیں دے جو قانون شکنی کے مرتکب ہوں۔(۴۰)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اس لیے سزا دی کہ اس نے دوسرے کو مخنث (ہیجڑا) کہہ دیا تھا۔ ایک شخص کو آپ نے قید بھی فرمایا۔(۴۱)
فقہاء اسلام کی آرا
التعزیر عقوبۃ تجب حقا للہ تعالیٰ او لآدمی فی کل معصیۃ لیس فیھا حد ولا کفارۃ۔
’’تعزیر ایسی سزا ہے جو کسی ایسے جرم میں دی جائے گی کہ حق اللہ یا حق العبد سے تعلق رکھتا ہو، مگر نہ تو اس میں حد مقرر ہو اور نہ کفارہ۔(۴۲)
علامہ ابن عابدینؒ فرماتے ہیں:
ھو تادیب دون الحد۔
’’حد سے کم سزا کو تعزیر کہتے ہیں۔‘‘ (۴۳)
ڈاکٹر صبحی محمصانیؒ فرماتے ہیں:
وھو العقوبۃ التی یفرضھا القاضی علی جنایۃ او معصیۃ لیس لھا حد شرعی ای لیس فیھا عقوبۃ مقدرۃ شرعا۔
’’تعزیر اس سزا کو کہتے ہیں جو قاضی ہر اس جرم یا گناہ میں جزا کے طور پر نافذ کرے جس میں شرعی طور پر کوئی متعین سزا نہ ہو۔‘‘(۴۴)
احناف کے مشہور محقق علامہ کاسانیؒ فرماتے ہیں:
اما سبب وجوبہ فارتکاب جنایۃ لیس فیھا حد مقرر فی الشرع سواء اکالت الجنایۃ علی حق اللہ کترک الصلوۃ والصوم۔
’’تعزیر کے وجوب کا سبب کسی ایسے جرم کا ارتکاب ہے جس کی سزا شریعت میں متعین نہ ہو۔ یہ جرم حقوق اللہ کی خلاف ورزی کی صورت میں ہو یا کسی اور جرم کا ارتکاب، جیسے نماز یا روزہ کا ترک کرنا۔‘‘
امام مجد الدین ابی البرکاتؒ ’’المحرر فی الفقہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
وھو واجب فی کل معصیۃ لاحد فیھا ولا کفارۃ کاستمتاع لاحد فیہ۔
’’تعزیر ہر اس معصیت میں واجب ہے جس میں نہ حد ہو اور نہ کفارہ۔ مثلاً عورت سے ایسا جنسی تلذذ حاصل کرنا جس پر حد نافذ نہ ہوتی ہو۔‘‘(۴۶)
حنابلہ کے متبحر محقق اور امام علامہ ابن قدامہؒ فرماتے ہیں:
وھو التادیب وھو واجب فی کل معصیۃ لاحد فیھا ولا کفارۃ کالاستمتاع الذی لا یوجب الحد واتیان المراۃ المراۃ سرقۃ ما لا یوجب القطع۔
’’تعزیر تادیب کو کہتے ہیں جو ہر ایسے جرم میں واجب ہے جس میں کفارہ یا حد نہ ہو جیسے ایسا جنسی تلذذ جس میں حد نہ ہو اور عورت کا عورت سے استلذاذ اور ایسی چوری جس میں قطع ید نہ ہو۔‘‘(۴۷)
موسوعۃ فقہ عبد اللہ بن مسعودؓ میں تحریر ہے:
التعزیر ھو العقوبۃ المفروضۃ علی جریمۃ لم یات الشارع بعقوبۃ محددۃ لھا۔
’’تعزیر وہ سزا ہے جو کسی ایسے جرم پر نافذ کی جائے جس پر شریعت میں کوئی متعین سزا بیان نہ کی گئی ہو۔‘‘(۴۸)
الشیخ الامام السید السابق مصریؒ رئیس قسم القضاء ام القرٰی یونیورسٹی مکہ مکرمہ اپنی شہرۂ آفاق تصنیف فقہ السنۃ میں فرماتے ہیں:
التادیب علی ذنب لاحد فیہ ولا کفارۃ ای انھا عقوبۃ تادیبۃ یفرضھا الحاکم علی جنایۃ او معصیۃ۔
’’تعزیر ایسی تادیب کو کہتے ہیں جو کسی ایسے جرم یا گناہ میں بطور سزا دی جائے جس میں حد یا کفارہ نہ ہو۔ یعنی یہ ایک تادیبی سزا ہے جو حاکم کسی جرم یا گناہ کے ارتکاب پر دیتا ہے۔‘‘(۴۹)
نتیجہ بحث
زنا اگر غیر مستوجب حد ہو، اور دیگر قرائن اور تعزیری نصابِ شہادت، جو کہ دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت سے پورا ہو جاتا ہے، اگر ارتکابِ جرم پایا جاتا ہو یا ایسا شبہہ جسے شبہہ ضعیفہ شمار کیا گیا ہے، اس کی وجہ سے حد ساقط ہو جائے گا، اور مقدمہ کی تفصیلات اور قرائنِ قویہ ثبوتِ جرم کے لیے موجود ہوں تو سقوطِ حد کے باوجود مجرم کو سزائے تعزیر دی جائے گی۔ البتہ یہ امر جج کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ مجرم کے ذاتی حالات اور معاشرتی پس منظر، حالات و واقعات کا بنظرِ غائر مطالعہ کرنے کے بعد سزا میں کم از کم یا زیادہ سے زیادہ کے ضابطہ پر عمل کرے۔
زیربحث استفسار میں کہا گیا ہے کہ کیا زنا یا زنا بالجبر غیرمستوجب حد میں ملزم کو تعزیری سزا دی جا سکتی ہے۔ میرے خیال میں ملزم کے بجائے مجرم کا لفظ ہونا چاہیے۔ نیز اگر صرف زنا سے متعلق استفسار ہو گا تو زانی اور مزنیہ دونوں پر احکامِ بالا لاگو ہوں گے۔ اور اگر زنا بالجبر کے متعلق ہے تو مزنیہ بری ہو گی اور زانی کو سخت ترین تعزیری سزا دی جائے گی کیونکہ اس نے بیک وقت دو جرموں کا ارتکاب کیا ہے: ایک ارتکابِ فاحشہ اور دوسرے جبر۔ ارتکابِ فاحشہ مستقل جرم ہے اور جبر مستقل جرم ہے۔ لہٰذا ایسے مجرم کی سزا بھی زنا بالرضا غیرمستوجب حد سے زیادہ ہو گی۔
حواشی
(۳۴) اخبار القضاء ج ۲ ص ۱۸۸ ۔ مصنف عبد الرزاق ج ۷ ص ۱۲۷ ۔ المحلیٰ لابن حزم ج ۱۱ ص ۳ و ۴
(۳۵) مصنف عبد الرزاق ج ۷ ص ۴۵۳ ۔ مسند الشافعی ج ۶ ص ۲۶۲
(۳۶) مصنف عبد الرزاق ج ۷ ص ۴۵۱
(۳۷) موسوعۃ فقہ عثمان، رداس قلعہ جی ص ۱۵۴
(۳۸) ج ۲ ص ۳۳۵
(۳۹) النساء ۳۴
(۴۰) تفسیرِ عثمانی، تفسیر ماجدی، تفسیر نعیمی
(۴۱) تبیین الحقائق ج ۳ ص ۲۵۸
(۴۲) الاحکام السلطانیہ ص ۲۳۶ ۔ اعلام الموقعین ج ۲ ص ۸۶ ۔ کشاف القناع ج ۶ ص ۹۸
(۴۳) فتاوٰی شامی ج ۳ ص ۱۹۴
(۴۴) المجتہدون فی القضاء ص ۸۷
(۴۵) بدائع الصنائع ج ۳ ص ۶۳
(۴۶) المحرر فی الفقہ ص ۱۶۳
(۴۷) المغنی مع الشرح الکبیر ج ۱۰ ص ۳۴۷
(۴۸) موسوعۃ فقہ عبد اللہ ابن مسعود، رداس قلعہ جی ۔ ص ۱۶۲
(۴۹) فقہ السنۃ ج ۲ ص ۴۹۷