ماڈل دینی مدارس کے قیام کا سرکاری منصوبہ

ادارہ

حکومتِ پاکستان نے سرکاری سطح پر ’’ماڈل دینی مدارس‘‘ کے قیام کا فیصلہ کیا ہے اور ’’مدرسہ تعلیمی بورڈ‘‘ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، جسے دینی مدارس کے تمام وفاقوں نے مسترد کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں سرکاری اعلان کی تفصیلات، ملک کے معروف قومی اخبار روزنامہ نوائے وقت کا ادارتی تبصرہ، اور دینی مدارس کے وفاقوں کا مشترکہ اعلان قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)


سرکاری اعلان کی تفصیلات

اسلام آباد (این این آئی) حکومت نے دینی مدارس کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے، انہیں مربوط و منظم کرنے، اور ملک میں دینی و عصری علوم کے لیے ماڈل مدارس یا دارالعلوم قائم کرنے کے لیے ایک بورڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو اُن دینی مدارس کا سلیبس تیار کرے گا جس کے مطابق ملحقہ مدارس نہ صرف اسلامی تعلیم بلکہ بورڈ کے تجویز کردہ عصری علوم کی تعلیم بھی دیں گے۔ بورڈ ان دینی مدارس کے لیے نصاب اور امتحانی نظام تیار کرنے اور پروگراموں میں مدد دینے کے لیے فنڈ قائم کرے گا۔

ہفتہ کو صدرِ مملکت جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا ہے جسے ’’پاکستان مدرسہ تعلیم (ماڈل دینی مدارس کا قیام اور الحاق) بورڈ آرڈیننس ۲۰۰۱ء) کا نام دیا گیا ہے جس کا اطلاق ملک بھر میں ہو گا اور یہ وفاقی حکومت کی تجویز کردہ تاریخ کو نافذ العمل ہو گا، اور یہ تاریخی مختلف علاقوں میں مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔

اس آرڈیننس کے اجرا کے فورً‌ا بعد وفاقی حکومت سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے ’’پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ‘‘ بنائے گی جسے اس آرڈیننس کے تقاضوں پر عملدرآمد کے لیے منقولہ و غیر منقولہ جائیداد حاصل کرنے سمیت دیگر اختیارات حاصل ہوں گے۔ بورڈ کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں ہو گا اور بورڈ ضرورت پڑنے پر علاقائی دفاتر بھی قائم کر سکتا ہے۔

بورڈ کا چیئرمین ایک معروف ماہرِ تعلیم ہو گا جبکہ وائس چیئرمین وفاقی حکومت چیئرمین کے مشورے سے متعین کرے گی جو وفاق یا تنظیم یا رابطہ کا صدر یا ناظم ہو سکتا ہے۔ بورڈ کا سیکرٹری ایک ماہرِ تعلیم ہو گا جسے انتظامی امور کا بھی تجربہ ہو گا۔ اس کے ارکان میں سیکرٹری تعلیم، مذہبی امور اور سائنس و ٹیکنالوجی کے سیکرٹری یا ان کے نامزد نمائندے شامل ہوں گے۔ دیگر ارکان میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا چیئرمین یا ان کا نامزد نمائندہ، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے نامزد دو علماء جو کونسل کے ارکان ہوں یا رہے ہوں، کسی یونیورسٹی میں اسلامی تعلیمات کے محکمے کا سربراہ پروفیسر، چاروں صوبائی سیکرٹری تعلیم، وفاق کا ایک صدر یا ناظم، تنظیم کا ایک صدر یا ناظم، رابطہ کا ایک صدر یا ناظم، چیئرمین انٹر بورڈ کمیٹی، اور وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے دو نمائندے ارکان شامل ہوں گے۔ سرکاری رکن کے علاوہ بھی وفاقی حکومت کا ایک نمائندہ بورڈ میں شامل ہو گا۔ 

کوئی ایسا شخص بورڈ کا رکن نہیں بن سکے گا جو اخلاقی جرائم میں سزا پا چکا ہو، یا سرکاری ملازمت سے برطرف ہوا ہو، یا اسے سرکاری عہدے کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہو۔ کوئی ایسا شخص جو براہ راست یا بالواسطہ بے ضابطگی کا مرتکب ہوا ہو، یا اس نے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہو، بورڈ کا رکن نہیں بن سکے گا۔ کسی رکن کے خلاف شکایت پر بورڈ اسے صفائی کا موقع دے گا اور بعد ازاں فیصلے کے لیے سفارشات وفاقی حکومت کو بھجوائی جائیں گی اور وفاقی حکومت کا فیصلہ حتمی ہو گا۔

مذکورہ بورڈ اس آرڈیننس کے مقاصد پر عملدرآمد کے لیے مکمل اختیار کا حامل ہو گا۔ وفاق، تنظیم، اور رابطہ کی خودمختاری میں مداخلت کیے بغیر بورڈ کو اختیارات حاصل ہوں گے کہ وہ ماڈل مدرسہ یا ماڈل دارالعلوم قائم کرے، جہاں اسلامی تعلیم سب سے اہم عنصر ہو گی، تاہم عمومی تعلیمی نظام کے نصاب کی بھی تعلیم دی جائے گی۔ بورڈ نظریاتی کونسل کی سفارش پر مدارس کے الحاق کی منظوری دے گا۔ ماڈل دینی مدارس میں تعلیم کے لیے نصاب کی منظوری دے گا۔ ماڈل دینی مدارس اور دارالعلوم میں تعلیم دینے کے لیے اساتذہ کے لیے تربیتی پروگرام منعقد کرے گا۔ مدارس کے الحاق کے لیے قواعد کی منظوری دے گا۔ عمومی نظامِ تعلیم اور مدارس کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پُر کرنے کے طریقے تجویز کرے گا۔ اور دینی مدارس اور عمومی تعلیمی پروگراموں کو بہتر بنانے کے لیے ان پر نظرثانی کرے گا۔ نظریاتی کونسل کی سفارشات پر دینی مدارس میں امتحانات کے لیے قواعد و ضوابط کی منظوری دے گا۔ افسران اور سٹاف متعین کرے گا۔ دینی مدارس اور ان کی تنظیموں کے درمیان بہتر رابطے اور تعاون کو فروغ دے گا۔ ڈگریوں، ڈپلوموں، سندوں اور سرٹیفکیٹس کے بارے میں امور کی منظوری دے گا۔ ماڈل دینی مدارس اور ماڈل دارالعلوموں میں نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ کا ذمہ دار ہو گا۔

بورڈ ان مدارس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ان کا معائنہ کرے گا۔ سکالرشپس، میڈلز اور انعامات کے قواعد مرتب کرے گا۔ دینی مدارس کی لائبریریوں کو ترقی دے گا۔ سالانہ بجٹ منظور کے گا۔ دینی مدارس کے امور کے بارے میں حکومت کو سفارشات پیش کر سکے گا۔ امتحانات کے امیدواروں کے داخلہ کے لیے کم از کم شرائط مرتب کرے گا۔ بورڈ کے ماتحت عہدوں کی تخلیق یا تحلیل کا فیصلہ کرے گا۔ اس کے لیے منقولہ و غیر منقولہ جائیداد اور اثاثوں کو منظم اور ان کی خرید و فروخت کرے گا۔

بورڈ کسی بھی رکن یا افسر یا کمیٹی یا سب کمیٹی کو بھی اختیارات تفویض کر سکتا ہے۔ بورڈ اپنی طرف سے قائم کیے گئے یا الحاق شدہ دینی مدارس کی بہتری کے لیے ان کے خلاف شکایات سنے گا اور ان کا ازالہ کرے گا۔ بورڈ ماڈل دینی مدرسہ اور ماڈل دارالعلوموں کے معائنے کے لیے بھی افسر مقرر کر سکتا ہے۔

بورڈ کے اجلاس چیئرمین طلب کرے گا اور ان اجلاسوں میں چھ ماہ سے زائد وقفہ نہیں ہو گا۔ بورڈ کے فیصلے اکثریتی بنیاد پر ہوں گے اور ٹائی کی صورت میں چیئرمین ووٹ استعمال کرے گا۔ چیئرمین بورڈ کا پرنسپل ایگزیکٹو آفیسر ہو گا اور سے تمام اختیارات حاصل ہوں گے۔

بورڈ کا سیکرٹری کل وقتی وفاقی حکومت کا ملازم ہو گا۔ تعلیمی کونسل کے سیکرٹری کے طور پر بھی کام کرے گا۔ اجلاسوں کے فیصلے تیار کرے گا اور بورڈ کے رجسٹرار کے طور پر بھی کام کرے گا۔

بورڈ کی ایک اکیڈیمک کونسل ہو گی جس کا چیئرمین بورڈ کا چیئرمین ہو گا۔ اور ارکان میں تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارتوں کے نمائندے، وزارتِ مذہبی امور کے ڈائریکٹر جنرل ریسرچ، چیئرمین انٹر بورڈ کوارڈینیشن کمیٹی، دو علماء، ایک سائنس دان اور ایک ماہرِ تعلیم اس کونسل کے رکن ہوں گے۔ یہ کونسل بورڈ کی مشاورتی کمیٹی ہو گی اور سلیبس، تعلیمی و امتحانی نظام بورڈ کی منظوری کے لیے پیش کرے گی۔

کوئی بھی دینی مدرسہ یا دارالعلوم بورڈ سے الحاق کر سکتا ہے جبکہ بورڈ اپنے ماڈل دینی مدارس اور دارالعلوم بھی قائم کرے گا۔ بورڈ کے مجوزہ طریقہ کار کے مطابق کوئی بھی مدرسہ یا دارالعلوم الحاق کی درخواست دے سکتا ہے اور اس سلسلے میں بورڈ کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ بورڈ سے ملحقہ ہر دینی مدرسہ اور دارالعلوم اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم دینے کا پابند ہو گا۔ اور اگر کوئی دینی مدرسہ یا دارالعلوم مجوزہ قواعد کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کا الحاق ختم کیا جا سکتا ہے۔

بورڈ ’’پاکستان مدرسہ ایجوکیشن فنڈ‘‘ کے نام سے ایک فنڈ قائم کرے گا جس میں عطیات سے ہونے والی آمدنی کے علاوہ وفاقی و صوبائی حکومتوں اور دیگر اداروں سے ملنے والی گرانٹس ہوں گی۔ وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر یہ فنڈ کسی بین الاقوامی ادارے سے گرانٹ نہیں لے سکے گا۔ بورڈ کے فنڈز ماڈل دارالعلوم اور دینی مدارس یا الحاق شدہ اداروں کے پروگراموں پر خرچ ہوں گے۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۱۹ اگست ۲۰۰۱ء)

روزنامہ نوائے وقت کا اداریہ

وفاقی حکومت نے دینی مدارس کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے، انہیں مربوط و منظم کرنے، اور ملک میں دینی و عصری علوم کے لیے ماڈل مدارس یا دارالعلوم قائم کرنے کے لیے ایک بورڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو اُن دینی مدارس کا سلیبس تیار کرے گا جس کے مطابق ملحقہ مدارس اسلامی تعلیم کے علاوہ بورڈ کے تجویز کردہ عصری علوم کی تعلیم بھی دیں گے۔

موجودہ حکومت نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد نظام کی تبدیلی کے نام پر کم و بیش ہر شعبے میں مداخلت کی ہے اور ابھی تک یہ اپنے کسی منصوبے کے بارے میں کامیابی کا دعوٰی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اختیارات کی ضلعی سطح پر تقسیم سے پہلے اس نے معیشت کو دستاویزی شکل دینے اور ہر شہری کو ٹیکسوں کے جال میں لانے کا منصوبہ بنایا۔ کمپیوٹرائزڈ انتخابی فہرستیں بنانے کا آغاز کیا۔ معاشرے کو اسمگلنگ اور اسلحہ سے پاک کرنے کے لیے اقدامات کیے۔ عوام نے حکومت سے تعاون کیا مگر بعض نقائص اور مناسب ہوم ورک نہ ہونے کی وجہ سے یہ اقدامات مثبت برگ و بار نہیں لا سکے جس سے مایوسی میں اضافہ ہوا اور بطور خاص قومی معیشت بحران کا شکار ہوئی۔ اب حکومت نے لشکرِ جھنگوی اور سپاہِ محمد پر پابندی اور دو فرقہ وارانہ جماعتوں کو وارننگ دینے کے ساتھ دینی مدارس کے تعلیمی نظام کو بہتر، مربوط اور منظم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور اس مقصد کے لیے تعلیمی بورڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

دینی مدارس کی بہتری، دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو عصری علوم سے بہرہ ور کرنے، اور ان مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کو معاشرے میں کھپانے کے لیے کوششیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں:

  • ایوب خان نے اس مقصد کے لیے بعض اقدامات کیے لیکن کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی۔ اوقاف کی تشکیل کی وجہ سے یہ تاثر پختہ ہوا کہ حکومت دینی مدارس کو مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
  • یحیٰی خان کے دور میں نور خان نے ایک تعلیمی سلسلہ کا اعلان کیا جس میں دینی اداروں کو بھی قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے بعض تجاویز پیش کی گئیں مگر یحیٰی حکومت کے خاتمے کے ساتھ اس پالیسی کی بساط لپیٹ دی گئی۔
  • بھٹو سے دینی طبقہ ویسے ہی بدکتا تھا اس لیے بھٹو حکومت نے جب دینی مدارس میں اصلاحات کا اعلان کیا تو اسے ایوب خان کی پالیسی کا تسلسل قرار دیا گیا۔
  • جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک بھی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی نے جناب عبد الواحد ہالے پوتہ اور ڈاکٹر ایس ایم زمان کی سربراہی میں سفارشات پیش کیں، ان میں سے بعض پر عملدرآمد بھی ہوا۔ دینی مدارس کو گرانٹس بھی دی گئیں اور زکوٰۃ فنڈز سے بھی بعض دینی مدارس مستفید ہوئے۔ لیکن ہر حکومت کی طرح ضیاء حکومت نے بھی مخصوص مدارس کو نوازنے اور ان سے وابستہ علماء اور دینی شخصیات کا سیاسی تعاون حاصل کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ جس کی وجہ سے زکوٰۃ فنڈ ضائع ہوا، علماء اور دینی مدارس میں سیاست نے زور پکڑا، اور جنرل صاحب کا حلقہ نیابت وجود میں آیا۔ مگر دینی اور دنیوی مدارس میں نہ تو دوئی ختم ہو سکی، نہ دینی مدارس میں عصری علوم کی تدریس کا خاطر خواہ انتظام ہو سکا۔

اب موجودہ حکومت نے ایک بار پھر یہ بیڑا اٹھایا ہے اور دینی مدارس کے تعلیمی بورڈ قائم کرنے کا آرڈیننس اس وقت آیا ہے جب ایک سینئر امریکی افسر تھامس نے واضح کیا ہے کہ بش انتظامیہ پاکستان کو دہشت گرد یا ناکام ریاست قرار دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، اور وہ یہ تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں کہ اسلام آباد مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔ چونکہ سیکرٹری خارجہ ان دنوں امریکہ میں ہیں، اس لیے امریکی افسر کے اس بیان کی اہمیت واضح ہے۔ تاہم چونکہ امریکہ بقول قائد اعظمؒ دورِ حاضر میں اسلام کی تجربہ گاہ پاکستان کے دینی مزاج اور عوام کے دل و جان میں بسی روحِ محمد ﷺ سے خائف ہے۔ اور وہ راسخ العقیدہ مسلمانوں کو بنیاد پرست اور ان کے جذبۂ جہاد کو دہشت گردی قرار دے کر ان کے بدن سے روحِ محمد ﷺ نکالنے کے درپے ہے۔

کوئی بھی ذی شعور انسان اور صحیح العقیدہ مسلمان نہ تو دہشت گردی کی حمایت کر سکتا ہے اور نہ مذہبی دہشت گردی کو جہاد کا نام دینے کی حماقت کر سکتا ہے۔ لیکن اسے بنیاد بنا کر دینی مدارس، مذہبی اداروں اور جماعتوں، اور دین کے نام لیوا نوجوانوں کے خلاف کارروائی یا انہیں حکومتی کنٹرول میں لانے کا حق بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

یہ احساس تو ہمیشہ رہا ہے کہ دینی اور دنیوی تعلیم کا دوہرا نظام ختم ہونا چاہیے اور دینی مدارس میں بھی عصری علوم اسی طرح پڑھائے جانے چاہئیں جس طرح عصری علوم کے اداروں میں دینیات اور اسلامی تعلیم لازمی ہے۔ اس مقصد کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ہمیشہ سراہا گیا ہے اور بعض روشن خیال علماء کرام نے اپنے طور پر ایسے دینی ادارے قائم بھی کیے ہیں جہاں درسِ نظامی کے ساتھ عصری علوم کی تدریس بھی ہو رہی ہے۔ ایوب دور میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور ضیاء دور میں اسلام آباد کی اسلامی یونیورسٹی اسی مقصد کے لیے قائم ہوئی، اور موجودہ حکومت اگر اس سلسلے کو آگے بڑھانا چاہتی ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جائے گا۔

تاہم اگر امریکی دباؤ اور سیاست دانوں سے فارغ ہونے کے بعد ہر جمہوری تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے دینی مدارس کو بھی محکمہ اوقاف سے وابستہ درباروں، مساجد اور علماء کرام کی طرح حکومتی اثر میں لانا مقصود ہے تو کوئی بھی پاکستانی اس کی حمایت نہیں کرے گا۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں کے لیے یکساں نصاب مرتب کر کے نافذ کیا جائے جو ہمارے دینی اور قومی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ قومی نظامِ تعلیم میں جدید اور قدیم، اور دینی اور دنیوی کی تفریق ختم کر کے تمام مدارس کی حیثیت تخصیص کے اداروں کی ہونی چاہیے۔ جہاں قرآن و حدیث، تفسیر و فقہ، علومِ شریعہ وغیرہ میں بین الاقوامی معیار کے کورس کرائے جائیں۔ جبکہ ان مدارس کے طالب علموں میں عہدِ حاضر کے علوم و فنون سے واقفیت کا اہتمام بھی کیا جائے تاکہ یہ ذہین اور دین سے گہری وابستگی رکھنے والے طالب علم کنویں کے مینڈک بن کر تنگ نظری کا شکار نہ ہوں اور عصری علوم کے ذریعے جدید رجحانات اور دنیا جہان میں ہونے والی پیشرفت سے بخوبی آگاہ ہوں۔

یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ دینی مدارس کو تمام سہولتیں فراہم کر کے انہیں آزادی اور خودمختاری کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے اور حکومتِ وقت کو عمل دخل کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔ کیونکہ مختلف حکومتوں کی سیاسی مداخلت نے ہمارے جدید تعلیمی نظام اور اداروں کا بیڑہ غرق کیا ہے، وہ دینی مدارس میں بھی کوئی بہتری نہیں لا سکتی۔ اگر حکومت واقعی دینی مدارس کو جدید تعلیمی اداروں کی سطح پر لا کر نہ صرف معاشرے میں دینی تعلیمات کا فروغ چاہتی ہے بلکہ تعصب و تنگ نظری کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے تو پھر یہ کام دینی جماعتوں، دینی مدارس اور علماء کرام کے مشورے اور خوشدلانہ تعاون سے ہونا چاہیے۔ اور بورڈ کی تدوین و تشکیل میں بھی صاحب بہادر ٹائپ وفاقی و صوبائی سیکرٹریوں کے بجائے ان لوگوں کو شامل کیا جائے جن کی دین اور دینی تعلیمات سے وابستگی اظہر من الشمس ہے، جو دینی مدارس کی ضرورتوں اور نظام سے واقفیت رکھتے ہیں اور کم از کم عملی مسلمان ضرور ہیں۔ پھر حکمرانوں کو بھی اپنے فکر و عمل سے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ واقعی عملی مسلمان ہیں اور واقعتاً‌ ان کے پیشِ نظر دینی مدارس کی اصلاح ہے۔

جہاں تک ان مدارس کے خلاف امریکہ و یورپ کے اس پروپیگنڈے کا تعلق ہے کہ وہ دہشت گردی کی نرسریاں ہیں، یہ محض اسلام کے خلاف خبثِ باطن ہے۔ ان دینی مدارس میں قتل و غارت گری کی تعلیم نہیں دی جاتی اور اسلامی تعلیمات میں اس کی اجازت بھی نہیں ہے۔ یہ امریکہ اور یورپ کا مسلمانوں اور اسلام کے خلاف متعصبانہ رویہ ہے جو مسلمانوں کی نوجوان نسل میں دین سے وابستگی کو راسخ کر رہا ہے، اور امریکہ و یورپ میں اسلام کی روشنی پھیل رہی ہے، اسلامی سنٹر قائم ہو رہے ہیں اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں اسلامی شعائر کی پابندی بڑھ رہی ہے۔

جہاں تک اسلامی عقیدے اور جذبۂ جہاد کا تعلق ہے، اس سے کوئی مسلمان بھی لاتعلقی اختیار نہیں کر سکتا، خواہ جنرل پرویز مشرف جیسا لبرل مسلمان ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اس کے بغیر وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔ دین کی نرسریوں، دینی مدارس کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے انگریزی اقتدار میں بھی اسلام کو شدھی اور سنگھٹن جیسی تحریکوں کی نذر نہیں ہونے دیا، اور اب بھی وہ اسلامی تعلیمات کے گہوارے ہیں۔ ان کی تعمیر و ترقی اور مثبت معنی میں روشن خیالی کے لیے ہر ممکن اقدام ہونا چاہیے لیکن یہ اس انداز میں نہ ہو کہ ان دینی مدارس کو بھی محکمہ تعلیم کے سکولوں اور کالجوں کی طرح سیاست کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا جائے اور وہاں جو تھوڑی بہت دینی تعلیم دی جا رہی ہے ہم اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔

اس آرڈیننس کے نفاذ کے بعد جو ماڈل مدارس اور دارالعلوم وجود میں آئیں گے ان سے اندازہ ہو سکے گا کہ حکومت کے پیشِ نظر کیا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی بھی اپنے اصل مقاصد اور حکمتِ عملی کے مطابق تنظیمِ نو ہونی چاہیے، اور ان سے متعلقہ علماء کرام سے مشاورت کے بعد نئے مدارس کا الحاق انہی جامعات سے ہو، جو اسی  مقصد کے لیے قائم کی گئی تھیں۔ عجلت میں کوئی قدم نہ اٹھایا جائے ورنہ ناکامی قدم چومے گی۔

(نوائے وقت، ۲۰ اگست ۲۰۰۱ء)

دینی مدارس کے وفاقوں کا مشترکہ اعلان

لاہور (نامہ نگار + اے این این) پاکستان بھر کے دینی مدارس کے پانچوں بورڈوں نے ’’ماڈل دینی مدارس‘‘ کے قیام اور دینی مدارس بورڈ آرڈیننس کو مسترد کر دیا ہے، اور اسے مدارس کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ مختلف مکاتبِ فکر کے پانچوں وفاقوں میں سے کوئی وفاق، مدارس بورڈ یا ماڈل دینی مدارس کی اسکیم میں شریک نہیں ہو گا۔ اور متحدہ وفاق پاکستان سے ملحق ۱۰ ہزار ۸۰۰ سے زائد ملک کے دینی مدرسوں یا بورڈ کو اس اسکیم میں شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

صوبائی دارالحکومت میں پانچوں مکاتبِ فکر کے مدارس کے نمائندوں کے اجلاس کے بعد مقامی ہوٹل میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ’’اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ پاکستان‘‘ کے رابطہ سیکرٹری مولانا محمد حنیف جالندھری نے فیصلوں کا اعلان کیا۔

پانچوں وفاق المدارس کے دینی بورڈ کے فیصلوں کے مطابق حکومتِ پاکستان کی جانب سے ماڈل دینی مدارس کے قیام، دینی بورڈ، یا کسی اور عنوان سے کیے گئے اقدام کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اور نہ کسی اسکیم میں شرکت کی جائے گی، اور نہ مجوزہ نظام میں کسی قسم کا تعاون کیا جائے گا۔

پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ ہم دینی مدارس اور جامعات کی آزادی و خودمختاری کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے۔ اگر حکومت نے کسی بھی اقدام، قانونی، انتظامی حکم نامے کے اجرا، یا دستوری ترمیم کے ذریعے ان اداروں کو بلاواسطہ یا بالواسطہ نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو پوری طاقت سے اداروں کا تحفظ کیا جائے گا۔ دینی مدارس کا اصل سرمایہ توکل علی اللہ ہے۔ ہم حکومت کی کسی بھی مالی پیشکش کی وجہ سے اصل سرمایہ ضائع نہیں ہونے دیں گے۔

شرکاء نے کہا کہ دینی مدارس سے وابستہ علماء یا فارغ التحصیل طلباء کا مقصد حصولِ روزگار نہیں اس لیے حکومت دینی مدارس و جامعات پر دینی مدارس بورڈ سے وابستہ ہونے کے لیے حصولِ روزگار کا لالچ نہ دے۔ حکومت پہلے میڈیکل کالجز، انجینئرنگ یونیورسٹیز، کمپیوٹر سائنز اور کامرس کے اعلیٰ اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو روزگار دے، جس میں وہ ناکام ہے۔ حکومت دینی مدارس کے فاضلین کو کہاں سے روزگار مہیا کرے گی؟ اس لیے ملک کے تمام دینی مدارس کے پانچوں بورڈوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ماڈل دینی مدارس اور دینی مدارس آرڈیننس جامعات کے خلاف سازش ہے جس کو ہم مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں کوئی بھی دینی مدرسہ دہشت گردی میں ملوث نہیں ہے، اور حکومت محض الزام تراشی بند کرے کیونکہ حکومت ایک بھی دینی مدرسے میں دہشت گردی کے ثبوت فراہم نہیں کر سکی۔ مولانا محمد حنیف جالندھری نے کہا کہ دینی مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ ملک میں دہشت گردی گزشتہ ۸ سال سے ہو رہی ہے جبکہ دینی مدارس ۱۹۴۷ء سے قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اگر جدید دینی تعلیم دینا چاہتی ہے تو نیا سسٹم لانے کے بجائے پہلے سے قائم پرائمری، مڈل، ہائی سکولوں اور کالجوں کے نصابِ تعلیم میں تبدیلی لائے۔ دینی مدرسوں نے تو پہلے سے جدید عصری تعلیم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور دینی مدارس میں سائنس، انگلش، ریاضی سمیت کمپیوٹر کلاسز جاری ہیں۔

حکومت کے ماڈل دینی مدارس کے قیام اور دینی مدارس بورڈ کو مسترد کرنے والے پاکستان بھر کے دینی مدارس کے پانچ بورڈوں کے اجلاس میں مفتی عبد القیوم ہزاروی، مولانا سلیم اللہ خان، مولانا محمد حنیف جالندھری، مولانا محمد یونس بٹ، سید ریاض حسین نجفی، مولانا فتح محمد، مولانا حافظ فضل الرحیم، مولانا محمد اعظم، مولانا محمد صدیق ہزاروی، محمد افضل حیدری، محمد یاسین ظفر، نصرت علی شاہانی نے شرکت کی۔

حالات و واقعات

(ستمبر ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter