مولانا مفتی محمودؒ کا فقہی ذوق و اسلوب
معاصرین کی نظر میں

مفتی محمد جمیل خان

مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز اپنے وقت کے ممتاز سیاسی قائد ہونے کے ساتھ ساتھ صفِ اول کے محدثین اور فقہاء میں شمار ہوتے تھے اور علمی مآخذ کے ساتھ ساتھ دورِ حاضر کی ضروریات اور مسائل پر گہری نظر رکھنے کی وجہ سے ان کے فتاوٰی کو اہلِ علم میں اعتماد کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں دارالافتاء کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے ہزاروں فتوے جاری کیے جن کی اشاعت کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی تھی۔ جمعیۃ پبلیکیشنز جامع مسجد پائلٹ سکول وحدت روڈ لاہور نے حافظ محمد ریاض درانی کی مساعی سے ان فتاوٰی کی اشاعت کا آغاز کیا ہے اور ’’فتاوٰی مفتی محمود‘‘ کے نام سے اس علمی ذخیرہ کی پہلی جلد منظرِ عام پر آ چکی ہے جو عقائد، طہارت، احکامِ مساجد، اذان اور مواقیت الصلوٰۃ کے اہم مسائل پر مشتمل ہے اور سوا چھ سو سے زائد صفحات کو محیط ہے۔ آغاز میں مولانا مفتی محمد جمیل خان کا ایک سو صفحات پر مشتمل طویل مقدمہ ہے جس میں فقہ کی ضرورت و تدوین، فقہ حنفی کی خصوصیات، اور حضرت مفتی صاحبؒ کے مقام و مرتبہ کے حوالے سے ان کے بعض معاصرین کے تاثرات شامل کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض تاثرات کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)


حضرت مولانا خان محمد صاحب

مفتی صاحبؒ میرے مخدوم و مکرم تھے، ان سے تعلق بھی پرانا تھا اور رشتۂ محبت بھی قدیم۔ پہلی ملاقات ۱۹۵۳ء میں ہوئی۔ حضرت والدِ محترمؒ اس وقت بقیدِ حیات تھے۔ مفتی صاحبؒ کو انہوں نے کندیاں شریف بلایا تھا۔ ان کی آمد یہاں ایک فتوے کے سلسلے میں ہوئی تھی۔ ہمارے ہاں دو خاندانوں کا مسئلہ طلاق پر باہمی جھگڑا تھا۔ ایک عورت کو طلاق ہوئی، ایک فریق کہتا تھا طلاق ہو گئی ہے اور دوسرا اس سے مختلف موقف رکھتا تھا۔ علاقے کے علماء کرام اور مفتیانِ عظام اس مسئلے پر اپنی رائے پیش کر چکے تھے لیکن جھگڑا ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ غالباً‌ یہ لوگ حضرتؒ کے پاس یہ پوچھنے کے لیے آئے کہ ان کی نظر میں جو مفتی سب سے زیادہ قابلِ اعتماد ہو اس کا نام پتا بتا دیں۔ حضرتؒ نے مفتی محمودؒ کا نام تجویز کیا اور خود ہی ان کو کندیاں شریف اپنا مہمان بنا کر بلایا۔

مفتی محمود صاحبؒ نے مقامی علماء سے بات چیت کی، فریقین کا موقف معلوم کیا، پھر فریقین کی براہِ راست بات سنی، ان کے موجودہ اور سابقہ موقف کا موازنہ کیا، پھر جب وہ ایک نتیجے پر پہنچ گئے تو اپنا آخری فیصلہ سنا دیا۔ ان کا فیصلہ وہی تھا جو دوسرے علماء پہلے دے چکے تھے لیکن طریقِ معلومات اور طرزِ استدلال انوکھا تھا۔ چونکہ وہ اس وقت نوجوان تھے، زیادہ پختہ عمر نہیں تھے، اس لیے مقامی علماء میں ان کی ذات موضوعِ گفتگو بن گئی۔

اس بحث میں ان کے معاصرین ان کی علمی لیاقت پر اظہارِ حیرت کر رہے تھے۔ بعض حضرات نے ہمارے حضرتؒ سے سوال کیا کہ آپ کی نظر انتخاب ان پر پڑنے کا کیا سبب ہے؟ حضرتؒ نے اس وقت علماء کو جو مختصر سا جواب دیا تھا وہ یہ تھا:

’’یہ گوہرِ قابل ہے، اس کی حفاظت کرو، اس پر نظر رکھو، اللہ تعالیٰ اس سے کوئی بڑا کام لے گا۔‘‘

حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰنؒ

حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نور اللہ مرقدہ کی زندگی آئینے کی طرح صاف اور شفاف تھی۔ ایک ایک گوشہ ایسا تھا جو کہ سب کو متاثر کر دیتا تھا۔ ہم نے اپنی زندگی میں ایسا شخص نہیں دیکھا۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے بارے میں سنا تھا کہ آپ جامع شخصیت کے مالک تھے، ایک طرف سیاسی میدان کے شہسوار، دوسری طرف تدریس کے لیے مایہ ناز، اور تیسری طرف طریقت کے بے مثل شیخ۔ یہی جامعیت ہم نے مولانا مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ میں دیکھی۔ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں تو سیاست اتنی گندگی اور جھوٹی نہ تھی جتنی کہ موجودہ دور میں ہو گئی ہے۔ اب عام طور پر یہ تاثر ہے کہ کوئی شخص سیاست میں رہ کر شریف، سچا اور دیانتدار نہیں رہ سکتا، مگر حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ نے ایک ایسا نمونہ چھوڑ دیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی امداد شاملِ حال ہو اور انسان اللہ تعالیٰ کو اپنا مددگار بنا لے تو اس راستے پر بھی وہ اپنا دامن بچا کر چل سکتا ہے۔

حضرت مفتی صاحبؒ نے اس گندے ماحول میں اپنے آپ کو دین پر نہ صرف قائم رکھا بلکہ کسی بھی لمحہ تقوٰی اور پرہیزگاری کو نہیں چھوڑا۔ اس کی وضاحت ایک واقعے سے ہو جائے گی۔ حضرت مفتی صاحبؒ صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ تھے، ان دنوں سرحد بینک میں بڑی ملازمت کی جگہ خالی ہوئی جس کے لیے غالباً‌ اخبار میں اشتہار چھپا۔ میں کراچی میں تھا۔ ایک دوسرے میرے پاس آیا اور مجھے کہا کہ اس بینک کی ملازمت کے لیے آپ مفتی محمود صاحب کے پاس سفارش کے لیے چلیے، میں نے اس سے کہا کہ جانے سے پہلے میں مفتی صاحب سے ٹیلیفون پر بات کروں گا، اگر انہوں نے کہا کہ آجاؤ تو چلا جاؤں گا ورنہ میرا ٹیلیفون ہی ہو گا۔ بہرحال میں نے حضرت مفتی صاحبؒ سے فون پر بات کی، انہوں نے فرمایاکہ بینکنگ کا شعبہ تو میرے پاس نہیں ہے، یہ فاروق صاحب کے پاس ہے، میں اس میں زیادہ سے زیادہ سفارش کر سکتا ہوں، مگر ایک بات پہلے تم سے پوچھتا ہوں، اگر تم نے بحیثیت مفتی اثبات میں جواب دیا تو پھر سفارش کروں گا ورنہ نہیں۔ پھر سوال کیا کہ شرعی حکم کے مطابق کیا بینک کی نوکری جائز ہے؟ میں نے جواب دیا کہ آپ خود مفتی ہیں، آپ بہتر فتوٰی دے سکتے ہیں۔ مفتی صاحبؒ نے کہا کہ نہیں، تم فتوٰی دو۔ اگر تم نے فتوٰی دے دیا تو میں اپنے فتوے کو چھوڑ کر تمہارے فتوے پر عمل کروں گا۔ مفتی صاحب نے جواب میں فرمایا کہ میں بینک کی نوکری کو ناجائز سمجھتا ہوں اور جو چیز ناجائز ہو اس کی سفارش کو بھی جائز نہیں سمجھتا۔

بہرحال میں نے اس شخص کو پوری بات بتا دی، اللہ تعالیٰ اس کو بھی جزائے خیر عطا فرمائے، اس نے اس نوکری کا ارادہ ترک کر دیا۔ دیکھئے اس مرحلے پر بھی آپ نے شریعت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، حالانکہ یہ ایسا مسئلہ تھا جس میں تاویل اور ہیرپھیر کی گنجائش نکل سکتی تھی مگر آپ نے اس موقع پر بھی تقوٰی پر عمل فرمایا۔

حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ

حضرت مولانا بنوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اس وقت پاکستان میں ان سے بڑا کوئی مفتی نہیں۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا تھا کہ میری نظر سے آج تک کوئی ایسا عالم نہیں گزرا جس نے فقہ کی کتاب شامی (جو کہ آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے اور ہر جلد میں سات سو صفحات ہیں) کا بالاستیعاب ایک دفعہ بھی مطالعہ کیا ہو، مگر مفتی صاحب نے اس کتاب کو بالاستیعاب تین دفعہ اول سے آخر تک پڑھا اور ان کو اس کتاب پر مکمل عبور حاصل ہے، کسی مسئلے پر آپ کے فتوے کے بعد کسی دوسرے فتوے کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ

ایک مجلس میں جب شاہ جیؒ نے اپنے مخصوص قلندرانہ انداز میں کہا:

’’ہائے! اس قوم کی بدقسمتی اور اس شخص کی بدقسمتی‘‘۔

تو حاضرین حیرانی سے شاہ جیؒ کا منہ دیکھنے لگے۔ ہر شخص کا سوالیہ نشان بن کر سوچنے لگا کہ خدا جانے شاہ جیؒ اس کے بعد کیا فرماتے ہیں۔ پھر شاہ جی کے چہرے پر تفکرات کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ وہ دیر تک خاموش، گم صم اور کھوئے سے رہے۔ پھر حاضرین پر ایک نظر ڈال کر فرمایا:

’’تم نہیں جانتے مولوی محمود کون ہے؟ یہ بڑا قیمتی آدمی ہے۔ یہ شخص ہمارے دور کا انسان تھا، اس دور میں پیدا ہو گیا، یہی اس کی بدقسمتی ہے۔ ہم خوش قسمت تھے کہ اس دور میں پیدا ہوئے جب اچھے لوگوں کی کمی نہیں تھی، ہمیں اچھے ساتھی میسر آ گئے۔ اب جو دور آ رہا ہے اس میں اچھے لوگ مفقود ہیں۔

جو بادہ خوار پرانے تھے، اٹھتے جاتے ہیں

خدا جانے اس شخص کو اچھے رفقا میسر آئیں نہ آئیں۔ قدرت نے اسے کسی بڑے کام کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ اسی سانچے میں ڈھلا ہوا انسان ہے جس میں بڑے لوگ ڈھلا کرتے تھے۔ مگر اب تو وہ سانچہ ہی ٹوٹ گیا، اب بڑے لوگ پیدا نہیں ہوتے۔ نہ جانے اس شخص کے چہرے پر مجھے مستقبل کا نوشتہ کیسے نظر آ رہا ہے؟‘‘

پھر شاہ جی ایک شخص کی طرف دیکھتے ہوئے مخاطب ہوئے:

’’میرے بھائی! یہ اس دور کا انسان نہیں۔ خدا اس کی حفاظت کرے۔ تم لوگ بھی اس شخص کا خیال رکھو۔ یہ محمود بھی یقیناً‌ کوئی سومنات ہی توڑے گا۔‘‘

جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی

حضرت مفتی محمود صاحب کا اسمِ گرامی میں نے سب سے پہلے اپنے ایک استاذ مکرم سے سنا تھا۔ اس وقت حضرت مفتی محمود مدرسہ قاسم العلوم میں استاذِ حدیث اور مفتی کے فرائض انجام دیتے تھے اور عملی سیاست میں داخل نہ ہوئے تھے۔ ہمارے استاذِ مکرم نے ان کی علمی بصیرت اور فقہی نظر کا تذکرہ اس انداز سے فرمایا تھا کہ مفتی صاحب سے ملاقات کا اشتیاق پیدا ہو گیا۔ اس کے بعد احقر کو پہلی مرتبہ آپ سے ملاقات کا شرف وفاق المدارس کے ایک سالانہ اجلاس میں حاصل ہوا جس میں احقر اپنے والد ماجد حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حاضر ہوا تھا اور پہلی ہی ملاقات میں حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کی علمی بصیرت، ان کی متانت و سنجیدگی، اور ان کے دل کش اندازِ گفتگو کا ایک گہرا نقش دل پر ثبت ہو گیا۔

اس کے بعد بارہا مفتی صاحب سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا اور ہر مرتبہ اس تاثر کی تائید و تقویت ہی ہوتی چلی گئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ ان کے علمی مقامِ بلند کا احترام دل میں ہمیشہ جاگزیں رہا۔ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جن نادر صلاحیتوں سے نوازا تھا، ان کی عظمت کا احساس دل سے کبھی محو نہیں ہوا۔ ہم نے انہیں علمی اعتبار سے ہمیشہ اپنے استاد کے برابر سمجھا اور انہوں نے بھی ہمیشہ بزرگانہ شفقت و محبت کا برتاؤ فرمایا۔

حضرت مولانا عبید اللہ صاحب (مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور)

مفتی صاحب نے پہلی ملاقات میں مجھ سے ایسی بہت سی باتیں کیں جن سے میرے دل کو تسلی ہوئی۔ مجھے اس بالمشافہہ گفتگو سے اندازہ ہو گیا کہ مفتی صاحب اپنے دل میں اتحاد بین المسلمین کے لیے بڑی تڑپ رکھتے ہیں اور فرقہ واریت سے انہیں طبعی نفرت ہے۔ چونکہ اس وقت وہ نوجوان تھے اس لیے ایک نوجوان عالم کی زبانی اتنی سنجیدہ اور فکر انگیز گفتگو میرے لیے خوشی کا باعث بنی۔ نوجوان عموماً‌ جذباتی ہوتے ہیں، ان کی سوچ بھی جذباتی ہوتی ہے، ان کے فیصلے بھی جذباتی ہوتے ہیں، مجھے اطمینان ہوا کہ ہمارے ہم عمر علماء میں وہ ایک پختہ فکر، صائب الرائے اور زیرک انسان ہیں۔ ان کی یہی صفت میرے دل کو زیادہ بھائی۔

اس کے بعد ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں، ان ملاقاتوں میں علمی، سیاسی اور ملی مسائل کے علاوہ بین الاقوامی مسائل بھی زیربحث آتے رہے اور ان کی فقہی رائے کو میں نے ہمیشہ قوی پایا۔ بعض مسائل میں وہ اپنی انفرادی رائے بھی رکھتے تھے، ایسی رائے کے حق میں ان کے پاس قوی دلائل ہوتے تھے۔

مثال کے طور پر فقہی مسائل پر عمل کے سلسلے میں ان کی رائے یہ تھی کہ مخصوص حالات میں ایک حنفی کے لیے جائز ہو گا کہ وہ کسی خاص مسئلے میں ائمہ اربعہ میں سے کسی کی پیروی کر لے۔ ایسا آدمی ان کے نزدیک حنفیت سے خارج نہیں ہوتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ امام محمدؒ اور امام یوسفؒ نے متعدد مسائل میں امام صاحبؒ سے اختلاف کیا ہے، ان کی اپنی ترجیحات ہیں لیکن ان پر حنفیت سے خروج کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ وہ اپنے اختلافات اور ترجیحات کے باوجود حنفی تھے۔ اسی طرح اگر کسی مسئلے میں امام صاحبؒ کا قول موجود نہ ہو، یا قول تو موجود ہو مگر سمجھ نہ آئے، یا سمجھ بھی آئے لیکن حالات کی خاص نوعیت کے تحت اس پر عمل نہ ہو، تو کسی دوسرے امام کی پیروی درست ہو گی۔

اس سلسلے میں ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر ایسی مشکل صورت پیش آ جائے تو صاحبین کے قول پر عمل کیا جائے۔ اگر صاحبین کے قول میں بھی یہی صورت پیش آ جائے تو امام محمدؒ کے قول کو ترجیح دی جائے۔ اس کے بعد درپیش مسئلے میں ائمہ اربعہ میں کسی ایک کے اقرب قول پر عمل کر لیا جائے۔ ان کے نزدیک کسی خاص مسئلے میں خاص حالات میں خروج عن الحنفیت تو جائز ہے لیکن مذاہب اربعہ سے خروج جائز نہیں۔

اس نقطۂ نظر میں مفتی صاحبؒ منفرد تھے تاہم وہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ ایسا کرنا ان علماء کا کام ہے جن کی مذاہبِ اربعہ پر وسیع نظر ہے، جو کسی مسئلے کے ترجیحی پہلوؤں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ عام آدمی کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ سنی سنائی باتوں پر عمل کرے، کیونکہ ایسی اجازت دینے سے اس کے عقیدے میں خلل آ سکتا ہے۔ لوگ اپنی مرضی کے مطابق ادھر ادھر بھٹکنے کے عادی بن سکتے ہیں۔ جبکہ ایسی صورت صرف اسی وقت پیش آ سکتی ہے جب ملکی قوانین کی تدوین کے سلسلے میں علماء کسی مشکل سے دوچار ہو جائیں تو اس رعایت سے فائدہ اٹھا سکیں۔ کیونکہ اصل چیز کسی امام کا قول نہیں، اصل چیز وہ نص ہے جس کی روشنی میں یہ قول متشکل ہوا، یعنی منصوص چیزیں جو ائمہ کرام کی علمی تحقیقات کے نتیجے میں معلوم ہوئیں۔ ائمہ اربعہ نے بے پناہ تحقیق و جستجو کے بعد قرآن و حدیث سے مسائل مستنبط کیے ہیں، اس لیے باور کیا جا سکتا ہے کہ کسی مسئلے پر اگر احناف کے ہاں کوئی دلیل یا سند نہیں مل سکتی تو دوسرے مذاہب سے اسے لینا درست ہو گا بشرطیکہ وہ وہاں بہتر صورت میں موجود ہو۔

حضرت مولانا صدر الشہیدؒ

 قاسم العلوم میں ان کے ابتدائی دور میں لوگ ہزاروں مسائل لے کر آئے اور انہوں نے ہزاروں فتوے جاری کیے۔ ان میں بیشتر مسائل مشکل اور الجھے ہوتے تھے لیکن مفتی صاحبؒ کے دستِ گِرہ کُشا کے سامنے یہ الجھاؤ کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ چونکہ اس مدرسے میں مفتی صاحبؒ اس شرط پر آئے تھے کہ انتظامیہ ان کی سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہیں لگائے گی، اس لیے جب مفتی صاحبؒ کی سیاسی مصروفیات بڑھ گئیں تو افتاء کا کام کم ہو گیا۔ اب کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتا تو مفتی صاحبؒ اس پر فتوٰی دیتے، عام مسائل پر نائب مفتی ہی جواب لکھ دیتے تھے۔

میری معلومات کے مطابق ایسا بہت کم ہوا ہے کہ مفتی صاحبؒ کو کسی مسئلے پر پریشانی ہوئی ہو۔ اور ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ ان کے قلم سے کوئی فتوٰی نکلا ہو اور بعد ازاں اس پر انہیں ندامت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ فتوٰی صادر کرنے سے پہلے متعلقہ مسائل کی تمام کلیات و جزئیات کو سمجھتے تھے، اس کے بعد اس موضوع پر جملہ کتب کو سامنے رکھتے تھے، تب جا کر یہ فیصلہ کرتے تھے کہ اس مسئلے پر کیا فتوٰی دینا درست ہو گا۔

حضرت مولانا محمد اجمل خان

مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ عہدِ حاضر کے ان علماء اور محققین کے سرخیل تھے جن کے علمی اور سیاسی وجود پر نہ صرف برصغیر بلکہ تمام عالمِ اسلام فخر کر سکتا ہے۔ وہ ایک ہمہ صفت انسان اور عجیب و غریب خوبیوں کے مالک تھے۔ قدرت نے انہیں اتنی اعلیٰ اور منفرد خصوصیات سے نوازا تھا کہ علم و دانش کے اس بحرِ بے کراں کا علمی استحضار بڑے بڑے علماء کے لیے قابلِ رشک تھا۔ ان کی فاضلانہ بصیرت مُسلّم تھی۔ وہ بیک وقت مفسرِ قرآن، محدثِ زمان، فقیہِ دوران اور عربی کے قادر الکلام مقرر تھے۔ انہوں نے مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں منصبِ افتاء پر فائز ہو کر تقریباً‌ بائیس ہزار فتوے صادر کیے اور کسی ایک فتوے پر بھی کوئی عالم یا مفتی انگشت نمائی نہ کر سکا۔ ترمذی شریف کی عربی شرح ان کا علمی شاہکار ہے۔ مفتی صاحبؒ عالمِ اسلام کے چند بڑے علماء میں سے ایک تھے۔

تفقہ، تدبر، انجام بینی اور دور اندیشی میں آپ کو ممتاز مقام حاصل تھا۔ عالمِ اسلام کے محدثِ اعظم، عارف باللہ حضرت مولانا محمد یوسف بنوری قدس سرہ حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ کو ’’فقیہ النفس‘‘ فرمایا کرتے تھے۔ تفقہ اور فہمِ دین آپ کا طبعی و فطری وصف تھا۔ معاملہ فہمی، حقیقت شناسی کا جوہر قَسامِ ازل نے آپ کی طبیعت میں ودیعت کر دیا تھا۔ آپ نے تقریباً‌ تیس سال مدرسہ قاسم العلوم ملتان کے دارالافتاء کو زینت بخشی، قدیم و جدید مسائل پر ہزاروں فتوے آپ کے قلم، آپ کے مشورے یا آپ کی سرپرستی میں لکھے گئے جن کی نقول مدرسہ قاسم العلوم کے دارالافتاء میں محفوظ ہیں۔

شخصیات

(ستمبر ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter