(۱) حضرت ابو سعید الخدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یا اھل المدینۃ‘‘ اے مدینہ میں بسنے والو! قربانی کا گوشت تم تین دن کے بعد نہیں کھا سکتے۔ (مسلم ۔ جلد ۲ ص ۱۵۸ و مستدرک ۴ ص ۲۳۲)
یہ تین دن کی تخصیص صرف ایک سال ایک خاص اور معقول وجہ کی بنا پر تھی اور بعد کو اس سے زیادہ کی اجازت بھی مل گئی تھی۔ جیسا کہ انہی روایات میں اس کی تصریح موجود ہے۔
(۲) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہم قربانی کے گوشت کو نمک لگا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ طیبہ میں پیش کیا تھے۔ (بخاری ص ۸۳۵)
(۳) حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں ہمیں عید کی نماز پڑھائی۔ آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ بعض لوگوں نے نمازِ عید سے قبل ہی قربانی کر لی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمہیں دوبارہ قربانی کرنا ہو گی۔ (مسلم جلد ۲ ص ۱۵۵)
(۴) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں کبھی اونٹ کی قربانی کی اور کبھی بھیڑ اور بکری کی۔ (سنن الکبرٰی ۹ ص ۲۷۲)
(۵) حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے مدینہ طیبہ میں دو مینڈھے قربانی دیے۔ (بخاری ۱ ص ۲۳۱)
(۶) حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ مدینہ طیبہ میں قربانی کے دنوں میں ایک کثیر تعداد قافلہ آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ تین دن سے زائد گوشت اپنے گھروں میں نہیں رکھا جا سکتا، باقی سب ان قافلہ والوں میں تقسیم کر دو۔ (موطا امام مالک ص ۱۸۸)
(۷) حضرت ابو زید انصاریؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انصار (مدینہ) کے گھروں میں سے ایک گھر کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ آپ کو گوشت کی خوشبو محسوس ہوئی۔ آپ نے حضرت ابو بردہ بن نیارؓ کو تحقیقِ حال کے لیے بھیجا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک انصاریؓ نے نمازِ عید سے قبل ہی قربانی کر لی ہے۔ چنانچہ حضورؐ نے اس کو دوبارہ قربانی کا حکم دیا۔ (ابن ماجہ ص ۲۳۵)
(۸) حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں اپنے ہاتھ سے اونٹوں کی قربانی دی اور اپنے ہاتھ سے وہ ذبح کیے۔ (نسائی ج ۲ ص ۱۷۹)
(۹) حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پورے دس سال مدینہ طیبہ میں اقامت پذیر رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے (ترمذی ج ۱ ص ۱۸۲ و مشکوٰۃ ص ۱۲۹)۔ بلکہ فیلسوفِ اسلام علامہ ابن رشدؒ (المتوفی ۵۹۵ھ) لکھتے ہیں کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے، جیسا کہ آپؐ سے روایت کیا گیا ہے، کبھی قربانی ترک نہیں کی۔ حتٰی کہ سفر میں بھی آپ نے ترک نہیں کی، جیسا کہ حضرت ثوبانؓ کی روایت میں آتا ہے کہ آپؐ نے اپنے ہاتھ مبارک سے قربانی کی، پھر فرمایا کہ اے ثوبانؓ اس قربانی کا گوشت ٹھیک کر کے پکاؤ، چنانچہ میں مدینہ طیبہ تک آپؐ کو کھلاتا آیا۔ (محصلہ)
(۱۰) حضرت علیؓ ہر سال دو جانور قربانی دیا کرتے تھے، ایک اپنی طرف سے اور ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے، اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب تک زندہ رہوں آپؐ کی طرف سے قربانی کیا کروں۔ (مستدرک ۴ ص ۲۳۰)
(۱۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے قربانی دیے اور فرمایا کہ ایک میری طرف سے اور ایک میری امت کے ان افراد کی طرف سے جنہوں نے توحید و رسالت کا اقرار کیا ہو گا لیکن قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے ہوں گے۔ (مستدرک ۴ ص ۲۳۸)
(۱۲) حضرت عاصم بن کلیبؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم فارس کے علاقہ میں دشمن سے جنگ کر رہے تھے اور ہمارے جرنیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابیؓ تھے۔ چنانچہ ہمیں یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ قربانی کے دن تو آ گئے ہیں اور ہمیں سال بھر عمر کی بکریاں دستیاب نہیں ہو سکتیں، تو حضرت مجاشع بن مسعودؓ نے فرمایا کہ اگر بکریاں نہیں مل سکتیں تو کیا حرج ہے، میں نے جناب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ چھ ماہ سے زائد عمر کے دنبہ کی قربانی بھی جائز ہے، سو اس کی قربانی کر لو (مستدرک ۴ ص ۲۳۶، نسائی ج ۲ ص ۱۸۰، سنن الکبرٰی ۹ ص ۲۷۰)
(۱۳) حضرت ابو امام بن سہلؓ فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ طیبہ میں قربانی کے جانوروں کو اچھی طرح پالا کرتے تھے۔ (بخاری ۲ ص ۸۳۳)