فری میسن تحریک اور اس میں شمولیت کا حکم

ادارہ

رابطہ عالمِ اسلامی کی مجلسِ فقہی نے شعبان ۱۳۹۸ھ میں فری میسن تحریک میں شمولیت کے سوال کا جائزہ لیا اور اس پر مجلس کی جانب سے ایک جامع تبصرہ تحریر کیا گیا۔ اس کا ترجمہ میرپور آزاد کشمیر کے ضلع مفتی مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی کے قلم سے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)


حمد و ستائش خدائے بزرگ و برتر کے لیے ہے اور صلوٰۃ و سلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی آل و اصحاب پر اور جنہوں نے راہِ ہدایت اختیار کی ان پر۔ مجمع الفقہی الاسلامی نے فری میسن تحریک اور اس کی رکنیت اختیار کرنے کے بارے میں اپنے اجلاس میں غور و خوض کیا۔ اس ضمن میں اس تحریک کا تمام لٹریچر کھنگالا گیا جس کے نتیجہ میں مجلسِ فقہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ

  1. فری میسن تحریک ایک خفیہ تنظیم ہے جو حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ کبھی اپنی سرگرمیاں زیرزمین انجام دیتی ہے اور کبھی علی الاعلان۔ تاہم یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ دراصل یہ خفیہ تنظیم، اس کے ارکان بھی اس کی سرگرمیوں اور مقاصد سے بے خبر رہتے ہیں، حتٰی کہ اس تنظیم کے ایسے ارکان بھی اس کی خفیہ سرگرمیوں سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے جو سالہا سال سے اس کے رکن ہیں اور تنظیم میں ذمہ دار مناصب پر فائز ہیں۔
  2. اس کے تمام ارکان ظاہری طور پر پوری دنیا میں انسانی بھائی چارے کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے روابط برقرار رکھتے ہیں، اور بظاہر اس تنظیم میں تمام ادیان و مذاہب کے لوگ بلا لحاظ عقیدہ و دین شریک ہیں۔
  3. یہ تنظیم لوگوں کو مالی، سیاسی منفعت کا لالچ دے کر اپنے ممبران میں شامل کرتی ہے اور پوری دنیا میں ہر حالت میں اپنے ارکان کے سیاسی مفادات کے لیے کام کرتی ہے خواہ وہ باطل پر ہی کیوں نہ ہوں، لیکن ان کے نزدیک فری میسن کا ہر رکن بہرحال حق پر ہے چاہے وہ باطل پر ہی کیوں نہ ہو۔
  4. اس تنظیم کی ممبر شپ حاصل کرتے وقت ایسی مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں عجیب و غریب اشارات، علامات ہوتی ہیں۔ جن میں دہشت اور وحشت کے ایسے اسالیب اختیار کیے جاتے ہیں جن سے ممبر شپ حاصل کرنے والا شخص اولین مرحلے پر ہی ایسے خوف کا شکار ہو جاتا ہے کہ اگر اس نے کسی مرحلے پر بھی تحریک کے اسرار و رموز کو منکشف کیا تو اسے خوفناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
  5. اس تنظیم میں احمق اور بے وقوف قسم کے دیندار مجروں کو اپنے دین کے مطابق عبادت کی پوری آزادی دی جاتی ہے اور انہیں چھوٹے موٹے عہدے بھی دے دیے جاتے ہیں۔ تاہم ملحد اور بے دین اور دہریہ قسم کے ممبران مختلف ٹیسٹوں اور تجربات سے گزار کر اعلیٰ ترین مناصب پر فائز کر دیے جاتے ہیں تاکہ ان کی ذہانت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک کے زیر انتظام جاری تخریب کاریوں کو تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔
  6. یہ تحریک پوری دنیا میں سیاسی کھیل کھیلتی ہے اور اقوامِ عالم میں اکثر انقلابات اور ملکوں کے اندرونی فسادات اور شورشوں میں اس تحریک کا خفیہ ہاتھ کارفرما ہوتا ہے۔
  7. یہ تحریک دراصل صہیونی تحریک ہے جو یہودیوں نے ہی قائم کی ہے اور پوری دنیا میں یہ تحریک یہودیت کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے۔
  8. یہ تحریک خفیہ طور پر تمام ادیانِ عالم کو ملیامیٹ کرنے اور ان کی اصلی شکل بگاڑنے کے لیے قائم کی گئی ہے، جبکہ اس کا اصلی ہدف اسلام اور مسلمانانِ عالم کے خلاف سازشوں کے لیے جال تیار کرنا ہے۔
  9. اس تنظیم کا بنیادی منشور یہ ہے کہ ہر ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی، ادبی اور مالی اعتبار سے مستحکم شخصیات اور اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین کو قابو کیا جائے، تاکہ جس ملک میں جب چاہے اپنے مقاصد کے لیے انقلاب برپا کروا دے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم کی رکنیت کے لیے بادشاہوں، صدور اور عمائدینِ حکومت پر زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
  10. چونکہ یہ تنظیم خفیہ طور پر کام کرتی ہے اور لوگوں کی نظروں سے بچنے اور قانونی گرفت سے محفوظ رکھنے کے لیے اس تنظیم کے مختلف ادارے ظاہری ناموں سے کام کرتے ہیں، تاکہ فری میسن تحریک کو اگر کبھی کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے تو یہ ادارے آزادی سے کام کرتے رہیں جو دراصل فری میسن کا دوسرا نام ہیں۔ ان میں سے دو ادارے ایسے ہیں جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، لائنز کلب اور روٹری کلب۔ ان کی تمام سرگرمیاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہیں۔

مجمع الفقہی اس نتیجے پر پہنچا کہ فری میسن تحریک قطعی طور پر عالمی صہیونی تحریک ہے جو صرف اور صرف یہودی استعمار کی بین الاقوامی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اس کا مقصد فلسطینی سرزمین کو یہود کے پنجہ میں دینا، عرب حکمرانوں کو گمراہ کرنا، مسلمان ممالک میں اسلامی نظام کی راہ میں روڑے اٹکانا ہے، مقامی ایجنٹوں کی مدد سے شکوک و شبہات کی فضا پیدا کرنا، فرقہ واریت کا زہر پھیلا کر باہمہ گر مسلمانوں میں کشت و خون کا بازار گرم کرنا، مسلمانوں کی دفاعی قوت کو کمزور کرنے کے لیے مسلمانوں کی دفاعی افواج میں افراتفری اور فکری انتشار پیدا کرنا، اس کے اہم اہداف ہیں۔

لہٰذا جو شخص ان مقاصد کو جانتے ہوئے اس تحریک میں شامل ہو کر کام کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، البتہ اگر کسی شخص کو ان مقاصد کا علم نہ ہو اور وہ رکن بن جائے تو وہ گناہگار ہو گا۔


دستخط

محمد علی الحرکان وائس پریزیڈنٹ، سیکرٹری جنرل رابطہ عالمِ اسلامی

عبد اللہ بن حمید صدر مجلس، صدر سپریم جوڈیشل کونسل، سعودی عرب

اراکین

عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز (رئیس ادارت الجرث العلمیہ والافتاء والدعوۃ والارشاد، سعودی عرب)۔ محمد محمود الصواف ۔ صالح بن عسیمین۔ محمد بن عبد اللہ السبیل۔ محمد رشید قبانی۔ عبد القدوس ہاشمی۔ مصطفٰی الزرقا۔ محمد رشیدی۔ ابوبکر کوی۔


حالات و مشاہدات

(مارچ ۲۰۰۰ء)

مارچ ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۳

تلاش

Flag Counter