مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی دینی خدمات بے مثل ہیں
گوجرانوالہ میں تعزیتی اجتماع

اعجاز میر

ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سربراہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ عالمِ اسلام کی عظیم علمی و دینی شخصیت تھے جن کا گذشتہ سال بلکہ صدی کے آخری دن ۳۱ دسمبر کو رائے بریلی میں کم و بیش ۸۷ سال کی عمر میں انتقال ہو گیا اور ان کی وفات کے صدمہ کو دنیا بھر کے علمی و دینی حلقوں میں یکساں طور پر محسوس کیا گیا۔ مختلف ممالک میں ان کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے تعزیتی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا اور ہر مکتبہ فکر کے علماء کرام اور اہلِ دانش نے ان کی دینی و ملی خدمات کا اپنے اپنے انداز میں تذکرہ کیا۔

گوجرانوالہ میں بھی گزشتہ جمعہ کو اس سلسلہ میں ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی جس کا اہتمام الشریعہ اکادمی کے ناظم حافظ محمد عمار خان ناصر نے مرکزی جامع مسجد میں کیا اور شہر کے سرکردہ علماء کرام اور اہلِ دانش نے اس میں شرکت کی۔ اس تعزیتی ریفرنس کی صدارت اسلامیہ کالج گوجرانوالہ کے ریٹائرڈ پرنسپل پروفیسر محمد عبد اللہ جمال نے کی جبکہ ثانوی تعلیمی بورڈ گوجرانوالہ کے شعبہ امتحانات کے نگران پروفیسر غلام رسول عدیم مہمانِ خصوصی تھے۔ ان کے علاوہ پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی اور گورنمنٹ ظفر علی خان ڈگری کالج وزیر آباد کے پروفیسر حافظ منیر احمد نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ معروف صحافی اور استاد سید احمد حسین زید نے نظامت کے فرائض سرانجام دیے اور بزرگ عالمِ دین علامہ محمد احمد لدھیانوی کی دعا پر یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔

پروفیسر غلام رسول عدیم

پروفیسر غلام رسول عدیم نے ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ملی کردار اور مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی دینی و علمی خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور کہا کہ ۱۹۵۷ء کی جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کو سنبھالا دینے کے لیے دو مکاتبِ فکر وجود میں آئے:

  • ایک کی بنیاد سرسید احمد خان مرحوم نے رکھی جن کا موقف یہ تھا کہ مسلمان اگر جدید تعلیم اور انگریزی زبان میں پیچھے رہے تو وہ نئے نظام کا حصہ نہیں بن سکیں گے اور ہندو پورے نظام پر حاوی ہو جائیں گے، اس کے لیے مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ انگریزی زبان اور جدید علم و فنون پر عبور حاصل کرنا چاہیے۔
  • جبکہ دوسرے مکتب فکر کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتویؒ تھے جنہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے زوال اور شکست کا سب سے بڑا سبب ان کی دین سے دوری ہے، اس لیے دینی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔

چنانچہ ان دونوں کی کوششوں سے علی گڑھ اور دیوبند کے تعلیمی ادارے وجود میں آئے جن کا رخ ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سر سید احمد خان مرحوم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ دونوں ایک ہی استاذ مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے شاگرد تھے اور استاد بھائی تھے اور دونوں نے مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے تعلیم کا میدان منتخب کیا۔ البتہ دونوں کا راستہ الگ الگ اور سمت ایک دوسرے سے مختلف تھی۔

ان دونوں سوچوں کو جمع کر کے ایک نئی راہ نکالنے کے لیے ۱۸۹۸ء میں ایک تیسرا ادارہ وجود میں آیا جس کا نام ’’ندوۃ العلماء لکھنؤ‘‘ ہے جس نے یہ فکر پیش کی کہ مسلمانوں کے لیے دینی تعلیم و تربیت انتہائی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جدید علم اور زبانوں کی تعلیم بھی ضروری ہے کیونکہ وہ اسی صورت میں آنے والے دور میں دینِ اسلام کی بہتر طور پر نمائندگی کر سکیں گے۔ ندوۃ العلماء لکھنؤ کی بنیاد مولانا سید محمد علی مونگیریؒ نے رکھی اور ان کے ساتھ جن اکابر نے اس فکر کو پھیلنے کے لیے محنت کی ان میں علامہ شبلی نعمانیؒ، مولانا عبد الحق حقانیؒ اور مولانا حکیم عبد الحئی حسنیؒ بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ جن کی کوششوں سے ندوہ ایک علی و فکری تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔ مولانا حکیم عبد الحئی حسنیؒ ندوۃ کے ناظم تھے اور بہت بڑے عالم اور ادیب تھے، اردو ادب پر ان کی تصنیف ’’گلِ رعنا‘‘ سے ہر صاحبِ ذوق آگاہ ہے، اور عربی زبان میں علمی شخصیات پر ان کی آٹھ جلدوں میں ضخیم کتاب ’’نزہۃ الخواطر‘‘ موجود ہے جس سے اہلِ علم مسلسل استفادہ کر رہے ہیں۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ انہی مولانا حکیم عبد الحئی حسنیؒ کے فرزند ہیں۔

پروفیسر غلام رسول عدیم نے بتایا کہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ۱۹۱۴ء میں پیدا ہوئے جب ان کے والد ندوہ کے منتظم تھے، اس لیے انہوں نے ندوہ کے ماحول میں آنکھ کھولی، اسی ماحول میں تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے، پھر نصف صدی تک ندوہ کے سربراہ رہے۔ اور ان کے دور میں ندوہ نے عالمگیر شہرت حاصل کی کیونکہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ایک بین الاقوامی شخصیت اور عربی و اردو کے بلند پایہ ادیب تھے۔ انہیں پورے عظیم عالمِ اسلام میں ایک فکری و علمی رہنما کی حیثیت حاصل تھی اور وہ رابطہ عالم اسلامی کے بانی رکن ہونے کے علاوہ عرب دنیا کے بہت سے علمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی اہم کمیٹیوں کے ممبر تھے۔ ان کی تصنیفات سے دنیا بھر کے علماء کرام اور دانشوروں نے استفادہ کیا ہے اور امت اسلامیہ کے ایک بڑے حصے نے ان سے رہنمائی حاصل کی۔

انہوں نے کہا کہ ندوہ کا خصوصی ذوق ادب اور تاریخ کا ہے، اسلامی تاریخ کو ازسرنو مرتب کرنے اور تاریخِ اسلام کے ساتھ ساتھ مسلم شخصیات کے کارناموں کو نئی پود کے سامنے پیش کرنے میں علامہ شبلی نعمانیؒ مولانا سید سلمان ندویؒ، اور مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے جو عظیم خدمات سرانجام دی ہیں وہ ندوہ کا امتیاز و افتخار ہے اور اس بارے میں برصغیر کا کوئی اور ادارہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کی ہمسری نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے کارناموں میں ایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کو عرب دنیا میں متعارف کرایا اور علامہ اقبالؒ کے کلام کا عربی میں ترجمہ کر کے ان کی فکر کو عرب دانشوروں تک پہنچایا۔ اس سلسلہ میں مولانا ندویؒ نے خود بیان کیا ہے کہ وہ جب عرب ممالک میں گئے تو دیکھا کہ برصغیر کے ہندو مفکر اور شاعر رابندراناتھ ٹیگور کا تعارف تو وہاں کے علمی و ادبی حلقوں میں موجود ہے مگر مسلمان مفکر علامہ اقبالؒ سے وہاں کے ادبی حلقے متعارف نہیں ہیں، چنانچہ انہوں نے ۲۴ برس کی عمر میں علامہ اقبالؒ کی وفات سے چند ماہ قبل خود ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے ساتھ اس کا ذکر کیا اور خواہش ظاہر کی کہ وہ ان کے کلام کا عربی میں ترجمہ کرنا چاہتے ہیں جس پر اقبالؒ نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا اور اجازت دے دی۔ اور اس کے بعد مولانا ندویؒ نے جس ذوق اور کاوش کے ساتھ عرب دنیا کو علامہ اقبالؒ کے فکر اور کلام سے روشناس کرانے کا کام کیا یہ انہی کا حصہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ عرب علماء اور دانشوروں کو اقبال کے متعارف کرانے کا سہرا سب سے زیادہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے سر ہے۔

مولانا زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی نے تعزیتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی خدمات کا بطور خاص تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ بھارت کے مظلوم مسلمانوں کے لیے بہت بڑے سہارے اور ڈھارس کی حیثیت رکھتے تھے اور صرف قلم اور زبان کی دنیا کے آدمی نہیں تھے بلکہ انہوں نے عملی میدان میں بھارتی مسلمانوں کی جرأت مندانہ قیادت کی۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ مسلمانوں کے خاندانی قوانین کے تحفظ کے لیے قائم ہونے والے کل جماعتی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سربراہ تھے اور انہوں نے آخر دم تک اس ذمہ داری کو پوری جرأت و استقامت کے ساتھ نبھایا۔

بھارت میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور ان پر ایک عرصہ سے یہ دباؤ چلا آ رہا ہے کہ وہ نکاح، طلاق اور وراثت سے متعلقہ خاندانی قوانین میں مذہبی احکام سے دستبردار ہو کر ہندوؤں اور دیگر غیر مسلمانوں کے ساتھ مشترکہ خاندانی قوانین (کامن سول کوڈ) کو قبول کر لیں لیکن مسلمان اس کے لیے تیار نہیں ہیں، اور مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی سربراہی میں تمام مسلم جماعتوں اور مکاتبِ فکر کے نمائندوں پر مشتمل آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس سلسلہ میں مسلمانوں کی قیادت کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے شخصی اور خاندانی قوانین کو ابھی تک تحفظ حاصل ہے۔

اس سلسلہ میں اپنی وفات سے صرف دو ماہ قبل مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے ممبئی میں ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ملک گیر اجتماع میں جو خطبہ صدارت پیش کیا اس میں انہوں نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ نکاح، طلاق اور وراثت میں مذہبی احکام سے دستبردار ہونے کی دعوت کو ہم ارتداد کی دعوت سمجھتے ہیں اور اس کا اسی طرح مقابلہ کریں گے جس طرح ہمارے اسلاف نے ارتداد کی دعوت کا ہمیشہ کیا ہے۔

اسی طرح بھارت کے سب سے بڑے صوبہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت نے جب سرکاری تعلیمی اداروں میں روزانہ صبح ’’بندے ماترم‘‘ کا ترانہ گانے کو تمام طلبہ اور طالبات کے لیے لازمی قرار دیا تو مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اعلان کیا کہ اس ترانے کے بعض اشعار شرکیہ ہیں اور ہم مسلمان ہیں، کوئی شرکیہ ترانہ نہیں گا سکتے، اس لیے ہم موت قبول کر لیں گے مگر ہمارے بچے سکولوں میں یہ ترانہ نہیں پڑھیں گے۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے اس دوٹوک اور شدید احتجاج پر یو پی حکومت کو بالآخر اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔

مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے عالمِ اسلام کو سب سے زیادہ جس فتنے سے خبردار کیا اور اس کے لیے مسلسل محنت کی وہ ’’نیشنلزم‘‘ کا فتنہ ہے۔ مولانا ندویؒ کا کہنا ہے کہ وطنی قومیت کا یہ فتنہ عالمِ اسلام کا شیرازہ بکھیرنے اور خلافتِ اسلامیہ کو ختم کرنے کے لیے سازش کے تحت کھڑا کیا گیا ہے، اس لیے مسلمانوں کو اس فتنے سے نجات حاصل کرنی چاہیے اور مِلی سوچ اور جذبات کو فروغ دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ بہت سی علمی و روحانی نسبتوں کا مجموعہ تھے۔ ان کا خاندانی تعلق امیر المومنین سید احمد شہیدؒ کے خاندان سے تھا اور وہ رائے بریلی کی عظیم خانقاہ دائرہ شاہ علم اللہؒ کے مسند نشین تھے۔ علمی طور پر وہ ندوۃ العلماء کے نمائندہ تھے اور روحانی طور پر انہیں حضرت مولانا محمد زکریا سہارنپوری سے خلافت و اجازت حاصل تھی، اور بلاشبہ وہ ہمارے ان عظیم اسلاف و اکابر کی آخری نشانی تھے جو ہم سے جدا ہو گئے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ اس تعزیتی ریفرنس کا مقصد جہاں مولانا ندویؒ کی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کرنا اور ان کے ساتھ اپنی نسبت کا اظہار ہے وہاں نئی نسل کو ان کے کارناموں کا تعارف کرانا بھی ہے جو نئی پود کا حق ہے کیونکہ ان جیسے بزرگوں اور اکابر کی خدمات اور کارناموں سے سبق حاصل کر کے ہی ہماری نئی نسل آنے والے دور میں ملتِ اسلامیہ کی صحیح طور پر خدمت اور رہنمائی کر سکتی ہے۔

نشست کے اختتام پر مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعا کی گئی۔


اخبار و آثار

(مارچ ۲۰۰۰ء)

مارچ ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۳

تلاش

Flag Counter