چیچنیا کی موجودہ تحریکِ آزادی کا آغاز علمی و ادبی حلقے سے ہوا۔ مجھے ایک ادیب اور شاعر ہونے کے ناطے علمی و ادبی حلقوں میں اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا اور آپس کی گفتگو میں روسی مظالم اور چیچن قوم کی تہذیب و تمدن، ثقافت اور اسلامی تشخص، جسے روس مٹانے پر تلا ہوا تھا، موضوع بحث بنتے رہے۔ یہی وہ فکر، سوچ اور جذبہ تھا جس نے ہمیں آگے بڑھ کر اپنی ثقافت کے تحفظ اور اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنے پر ابھارا۔
میں یونین آف رائٹرز فورم کا ممبر تھا اور ہمیں شاعری، نثر اور دیگر ادبی کتب کی تیاری اور اشاعت کا کام کرنا ہوتا تھا۔ اس فورم کے تحت اشتراکی نظریات کے پرچار کے لیے لٹریچر تیار کیا جاتا تھا۔ ہم نے شاعری، نثر اور دیگر ادبی اصناف میں اشتراکی نظریات کی آڑ میں چیچن انگش قوم کی تاریخِ حریت، ثقافت، تہذیب و تمدن اور ملی شعور کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ وطن سے محبت، حریتِ فکر، سچائی، دیانت داری اور عزت سے جینے اور آزادی کی سوچ دینے کی کوشش کی۔ اس میں اشتراکی نظریات کا پرچار بھی ہوتا تھا مگر یہ سب راہ ہموار کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ اس لٹریچر کے نتیجے میں چیچن قوم میں آزادی اور قومی تشخص کے لیے ایک تڑپ پیدا ہونے لگی۔
یہ ۱۹۷۵ء کی بات ہے۔ آہستہ آہستہ یونین آف رائٹرز فورم سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنتا چلا گیا۔ ہم چونکہ یہ کام بہت محتاط طریقے سے کر رہے تھے اس لیے ایک مدت تک کمیونسٹ پارٹی اور حکومت کو ہماری سرگرمیوں کا پتا نہ چل سکا۔ پھر حکومت کو کچھ شبہ ہوا تو اس نے اقدامات اٹھانا شروع کیے اور کے جی بی کے ذریعے کاروائیاں بھی کی گئیں۔
ہماری اس جدوجہد کے نتیجے میں عوام میں یہ سوچ جڑ پکڑنے لگی کہ کمیونسٹ پارٹی چیچن قوم کی دشمن ہے۔ یہ چیچن تہذیب و ثقافت اور ملی تشخص کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ یہی سوچ قومی سوچ کا رخ اختیار کرتی چلی گئی، اسی طرح سے یہ کوشش قومی تشخص اجاگر کرنے کا ذریعہ بن گئی۔ اس وقت ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ کام سیاسی بیداری کا ذریعہ بن جائے گا، ہمیں اس کی زیادہ توقع نہیں تھی۔ ہماری توقع سے بڑھ کر کام ہو گیا، پھر وہ وقت بھی آیا کہ ۱۹۷۹ء میں براہ راست حکومت اور چیچن انگش تصادم شروع ہو گئے۔
۱۹۸۹ء میں گوربا چوف کی گلاس ناسٹ اور پرسٹرائیکا اصطلاحات کے نتیجے میں کچھ سیاسی آزادی میسر آئی۔ سیاسی جماعتیں بنانے کی آزادی بھی مل گئی۔ چنانچہ ۱۹۸۹ء میں ماسکو سے واپسی پر میں نے وائی ناخ ڈیمو کریٹک پارٹی کی بنیاد ڈالی جسے ہم لوگ وائی ناخ جماعت کہتے تھے۔ پارٹی کے بنیادی مقاصد چیچن انگش قوم کو روس سے علیحدہ کرنا، آزادی حاصل کرنا اور اسلامی جمہوری نظام کا نفاذ تھا۔
۱۹۹۰ء تک یہ صورتحال تھی کہ چیچنیا کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ۷۰ فیصد تک روسی قابض تھے اور باقی ۳۰ فیصد پر چیچن انگش تھے۔ اس سے چیچن قوم میں روس سے نفرت پیدا ہو گئی اور ظلم و ستم کا احساس شدت پکڑنے لگا۔
۱۹۵۸ء میں جلاوطنی کے بعد جب ہم لوگ واپس اپنے وطن آئے تو گروزنی شہر میں ہمارے خلاف مظاہرے ہوئے کہ ہمیں نکالا جائے اور واپس بھیجا جائے، مظاہرین در پردہ روسی تھے۔ ۱۹۷۳ء میں انگش قوم کے جو علاقے واپس نہیں کیے جا رہے تھے ان کے لیے مظاہرے شروع ہوئے۔ مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا گیا، گرم پانی پھینکا گیا اور دیگر حربے استعمال کیے گئے۔ اس طرح سے یہ ظلم ستم کا سلسلہ چلتا رہا۔ عالم یہ تھا کہ جو بھی ادیب یا شاعر روس کے خلاف بات کرتا، اسے ستایا جاتا اور نوکری سے بھی نکال دیا جاتا۔
۱۹۹۰ء تک کوئی بھی چیچن انگش باشندہ اس ریاست کا سربراہ یا کسی نمایاں عہدے پر تعینات نہیں تھا۔ اگر کوئی چیچن نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی ریاست میں نوکری چاہتا تو اسے یہاں ملازمت نہ دی جاتی بلکہ روس بھیج دیا جاتا تاکہ روسی ثقافت میں ضم ہو جائے اور قومی تشخص نہ ابھر سکے۔ حتٰی کہ جو نوجوان دس پندرہ سال کی ملازمت کے بعد بھی چیچنیا اپنی ریاست میں واپسی یا تبادلے کے لیے کہتے تو ان کا تبادلہ نہ کیا جاتا اور ان کے بجائے روسی افسر نامزد کیے جاتے۔ اگر نوجوان اپنی ثقافت، روایات، اسلامی تشخص کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے تو انہیں نوکری سے نکال دیا جاتا اور جیل بھیج دیا جاتا۔ یہ سب ظالمانہ اقدام چیچن قوم کے تشخص کو مٹانے اور ان کی آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے کیے جاتے رہے۔ یہ ان مظالم کی ایک معمولی جھلک ہے جو روسی، چیچن قوم پر ڈھاتے رہے۔ تمام تر مظالم کے باوجود روسی، چیچن عوام کے دل سے جذبۂ جہاد اور آزادی کی تڑپ نہ نکال سکے۔
چیچن لوگ کس قسم کے عزم و ہمت کے مالک ہیں اور روسی ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اس کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ روس میں جبری فوجی ملازمت کے دوران چیچن نوجوان روسی افسروں سے قطعاً نہ ڈرتے تھے بلکہ اپنے رعب و دبدبے سے ان سے اپنے کپڑے حتٰی کہ موزے تک دھلوا لیا کرتے تھے، چاہے اس کے نتیجے میں انہیں کتنی ہی سزا کیوں نہ بھگتنا پٍڑتی۔ یہ بات مشہور تھی کہ ایک فوجی دستے میں دو چیچن نہیں ہونے چاہئیں، ایک ہی بہت ہوتا ہے۔ اگر کسی دستے میں دو چیچن سپاہی ہو جاتے تو وہ سب پر حاوی ہو جاتے۔ شاید روس کے موجودہ وزیراعظم سے کسی چیچن نے ایسا ہی سلوک کیا ہو جو وہ آج بدلہ لے رہا ہے۔
چیچنیا کی تحریکِ آزادی اسی طرح آگے بڑھتی رہی۔ ہم نے کبھی روسی قانون کو تسلیم نہیں کیا، ہمارے علاقوں میں اپنا قانون تھا۔ ہم نے اسلامی شریعت نافذ کر رکھی تھی۔ جو بھی روسی قانون ہوتا ہمارے قبائل اسے شریعت کے مطابق پاتے تو قبول کر لیتے وگرنہ رد کر دیتے تھے۔ گویا ہماری قوم نے روسیوں اور روسی نظام کو ذہنی طور پر کبھی بھی قبول نہ کیا اور نہ ہی تسلیم کیا۔
اس تحریک کو وائی ناخ جمہوری پارٹی کنٹرول کرتی رہی۔ پھر وہ مرحلہ بھی آیا کہ جہاں کہیں کسی روسی نے کسی چیچن پر ظلم کیا، کسی عورت سے بدسلوکی کی گئی تو لوگ گھروں سے نکل آتے، مظاہرے کرتے اور حکومت کے خلاف نعرے لگاتے اور انتظامیہ کے ساتھ تصادم بھی ہوتا۔ اس طرح بتدریج یہ تحریک ایک قومی تحریک میں بدل گئی۔ پوری قوم کی ایک ہی آرزو تھی کہ روس سے نجات اور آزادی حاصل کی جائے۔
نومبر ۱۹۹۰ء میں وائی ناخ ڈیموکریٹک پارٹی نے پوری چیچن قوم کی نمائندگی کے لیے نیشنل کانگرس بلائی، اس میں حکمران پارٹی کے لوگ بھی شریک ہوئے۔ کانگرس میں چیچنیا کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی قرارداد منظور کی گئی۔ حکومت نے بھی قومی دباؤ کے پیشِ نظر اس قرارداد کی تائید کی اور چیچنیا کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ انہیں خدشہ تھا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو قوم اٹھ کھڑی ہو گی۔ ماسکو نے اس فیصلے پر تنقید تو کی لیکن کوئی ایکشن نہ لیا۔ ان کا خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات دب جائے گی۔
ایک سال کے اندر اندر چیچن عوام کے دباؤ میں اس قدر اضافہ ہوا کہ حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ حکومت نے آزادی کا اعلان تو کیا مگر وہ چالبازی کر رہے تھے اور ٹال مٹول سے کام لے رہے تھے۔ عملاً حکومت نیشنل کانگرس کے ہاتھ آ گئی تھی۔
۲۷ اکتوبر ۱۹۹۱ء کو چیچن انگش پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہوئے۔ اس کے بعد انگش باشندوں نے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا، وہ روسی حکومت کے تحت ہی رہنا چاہتے تھے، ہم نے بھی انہیں مجبور نہ کیا۔ اس طرح سے پہلی چیچن پارلیمنٹ وجود میں آ گئی اور جوہر داؤد صدر بن گئے۔ اس وقت میں پارلیمنٹ کا رکن تھا۔ پھر ۱۹۹۳ء میں مجھے نائب صدر کے لیے چن لیا گیا۔
ان انتخابات کے بعد روس سے کئی بار بات چیت، مذاکرات ہوئے اور آزادی کی بات ہوئی۔ یورپ کے کچھ ممالک مثلاً فن لینڈ، جارجیا، آرمینیا، لتھونیا، اسٹونیا وغیرہ بھی ہماری آزادی کے حق میں تھے۔ اسی بنا پر ہم نے اقوامِ متحدہ اور دیگر ممالک سے درخواست کی کہ وہ ہماری آزادی تسلیم کر لیں۔ اقوامِ متحدہ کو ۷۶ مختلف دستاویزات بھیجی گئیں کہ وہ ہماری آزادی اور قانونی حیثیت کو تسلیم کریں۔ جبکہ ۱۲ مارچ ۱۹۹۲ء کو چیچن پارلیمنٹ سے ملک کا دستور بھی منظور کیا جا چکا تھا۔ خاص طور پر یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ آزادی سیاسی طور پر حاصل کی گئی تھی، کسی جنگ و جدل یا غیر سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے حاصل نہیں کی گئی تھی۔
جون ۱۹۹۲ء میں چیچنیا سے تمام روسی افواج کو نکال باہر کیا گیا۔ یہ ایک تاریخ ساز واقعہ تھا کہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ سوویت یونین کی کسی ریاست سے یا دنیا کے کسی ملک سے روسی فوجوں کو اس طرح سے نکالا گیا ہو۔ اس کے بعد پھر دیگر بالٹک ریاستوں سے روسی فوجیں نکلی تھیں۔ اس دوران روس سے کئی بار مذاکرات ہوئے جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ آئینی اور دستوری لحاظ سے ہمیں ایک دوسرے کو تسلیم کر لینا چاہیے، مگر روس اس کے لیے تیار نہ تھا۔
چیچنیا کی آزادی کے بعد روس نے ہماری آزادی کو تسلیم کرنے کی بجائے سازشیں شروع کر دیں۔ کے جی بی کے ذریعے دہشت گردی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ہماری اہم تنصیبات کو دھماکوں سے اڑایا گیا۔ جوہر داؤد پر کئی مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے جن میں ہمارے کئی وزیر ہلاک ہو گئے۔ مجھ پر بھی حملہ کیا گیا۔ روس تخریب کاری اور دہشت گردی سے اس ریاست کو ختم کر دینا چاہتا تھا۔ اس کام کے لیے اس نے چیچن باشندے اور اپنے تخریب کار بھی استعمال کیے۔ روسی حکومت نے کئی مرتبہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششیں کیں لیکن ہر دفعہ ان کو ناکامی ہوئی۔ روس نے سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی کوشش بھی کی اور ایک مصنوعی اپوزیشن گروپ اسمبلی میں بنا کر اپنے مقاصد پورے کرنا چاہے۔
جب ان تمام کوششوں میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو ۲۶ نومبر ۱۹۹۴ء کو ریگولر آرمی کو چیچن باشندوں کے لباس اور بہروپ میں چیچنیا میں داخل کر دیا۔ گروزنی پر یہ حملہ صبح سویرے کیا گیا مگر دوپہر تک اس حملے کو پسپا کر دیا گیا۔ تقریباً دو سو فوجی گرفتار کیے گئے۔ ۶۰ حملہ آور ٹینکوں میں سے ۱۰ صحیح سلامت پکڑ لیے گئے اور باقی تباہ کر دیے گئے۔ اس ناکامی کے بعد روس نے اسے تختہ الٹ دینے کی اندرونی سازش قرار دیا۔ اس پر ہم نے گرفتار روسی فوجیوں کو ٹی وی پر دکھایا اور ان کی تصاویر جاری کر دیں۔ اس سازش کے بے نقاب ہو جانے پر اور عالمی سطح پر شرمندگی سے بچنے کے لیے روس نے مختلف روسی سیاسی لیڈروں اور جماعتوں کے ذریعے درخواست کی کہ گرفتار فوجیوں کو چھوڑ دیا جائے۔ مذاکرات کے نتیجے میں روسی حکومت نے وعدہ بھی کیا کہ آئندہ حملہ نہیں کیا جائے گا۔ مگر جیسے ہی قیدی واپس کیے گئے روس وعدے سے پھر گیا۔ چیچن فوج کو ہتھیار ڈالنے اور روس کے وفاق کا پابند رہنے کو کہا گیا اور حملے کا الٹی میٹم دے دیا۔
بالآخر ۱۱ دسمبر ۱۹۹۴ء کو دوبارہ حملہ کر دیا گیا۔ جوہر داؤد نے مذاکرات کی کئی بار کوشش کی، اقوامِ متحدہ اور دیگر اداروں کو روسی جارحیت پر متوجہ کیا مگر بے سود رہا۔ اس جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار چیچن باشندے کام آئے جبکہ مکانات، عمارات اور ہسپتال تک تباہ و برباد کر کے رکھ دیے گئے۔ جوہر داؤد کی شہادت کے بعد صدارت کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔
۲۷ مئی ۱۹۹۶ء کو ماسکو میں صدر یلسن اور میرے درمیان عالمی پروٹوکول کے مطابق مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں یہ بات طے پائی کہ لڑائی بند کی جائے۔ یہ مذاکرات یورپی یونین کی کوششوں سے ممکن ہوئے تھے۔ کچھ دن کے امن کے بعد روس نے اپنے تمام تر وعدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پھر لڑائی شروع کر دی۔ اس دوران ہم نے چیچنیا میں اسلامی نظامِ شریعت بھی نافذ کر دیا۔ روس نے گروزی پر ایک بار پھر قبضہ کر لیا۔ روس نے ایک ماہ سے زائد مدت میں یہ قبضہ کیا تھا مگر کچھ عرصے کے بعد ہم نے صرف ایک گھنٹے کے اندر اندر گروزنی آزاد کروا لیا۔
یورپی یونین کے تعاون سے ۳۱ دسمبر ۱۹۹۶ء کو ایک بار پھر روس اور چیچنیا کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں روس کو اپنی فوج نکالنا پڑی۔ معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ چیچنیا میں ازسرنو انتخابات کروائے جائیں تاکہ ایک منتخب حکومت بنے جسے روس تسلیم کرے گا۔ روسی حکومت گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی تھی۔
جنگ کی تباہی کے بعد انتہائی کٹھن حالات میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوتا تھا مگر ہم نے امن کی خاطر نئے انتخابات بھی کروائے۔ یہ انتخابات چیچنیا کے دستور کے تحت ہوئے تھے جنہیں دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا۔ ان آزاد انتخابات کا روس سمیت عالمی اداروں اور یورپی نمائندوں کی ایک بڑی ٹیم نے براہ راست مشاہدہ کیا اور منصفانہ قرار دیا۔ روسی حکومت نے ارسلان مسخادوف کو باقاعدہ صدر بننے پر مبارکباد دی۔ اس کے بعد یلسن اور ارسلان مسخادوف کے درمیان ماسکو میں مذاکرات ہوئے جس کے تحت ایک معاہدہ امن پر دستخط بھی ہوئے۔ یہ معاہدہ ۱۲ مئی ۱۹۹۷ء کو ماسکو میں ہوا۔ اس طرح سے قانونی طور پر یہ بات واضح ہو گئی کہ روس نے چیچنیا کو تسلیم کر لیا ہے۔
اس لحاظ سے اگر آئینی، دستوری اور دنیا کے مُسلّمہ اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو روسی فوجوں کے انخلا کے بعد چیچنیا کے دستور کے تحت منصفانہ انتخابات کا ہونا، جنہیں روس نے عالمی سطح پر تسلیم کیا ہو، اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ چیچنیا ایک خودمختار اور بااختیار ریاست ہے جسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ ہم نے اقوامِ متحدہ اور دیگر مسلم و غیر مسلم ممالک سے درخواست کی کہ چیچنیا کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ مگر روس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درپردہ اپنے سفارتکاروں کے ذریعے مختلف ممالک پر دباؤ ڈالا جنہوں نے روس کے خوف کی وجہ سے ہمیں تسلیم نہ کیا۔
اگر غور کیا جائے تو اس لحاظ سے گزشتہ دس برس سے چیچنیا ایک آزاد اور خودمختار ریاست ہے۔ ہم نے تمام تر جدوجہد آئینی اور قانونی اصولوں کے مطابق کی ہے۔ روس سے متعدد معاہدے بھی کیے ہیں جن سے وہ پھرتا رہا ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کے ممالک ہمیں تسلیم نہ کریں۔ مسلمان ممالک کا تو فرض ہے کہ اس جارحیت اور ظلم و ناانصافی کے پیش نظر ہمیں نہ صرف تسلیم کریں بلکہ ہماری اخلاقی و مادی مدد بھی کریں۔ پاکستان جس کا عالمِ اسلام میں ایک منفرد مقام ہے، اس سے ہماری خاص طور پر اپیل ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے اور حکومتِ پاکستان ہماری حکومت کو تسلیم کرے۔ مگر ہمیں افسوس ہے کہ مسلم ممالک بھی جرأت کا مظاہرہ نہیں کر رہے اور امریکہ یا دیگر ممالک سے خوفزدہ ہیں۔
آج امتِ مسلمہ کی بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ مختلف سمتوں میں بٹی ہوئی اور منتشر ہے۔ امت کے سامنے کوئی واضح حکمتِ عملی اور ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہے۔ مسلمان حکمران امریکہ، روس یا مختلف طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، جبکہ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ جاری ہے۔ چیچنیا، بوسنیا، کوسووو، کشمیر، فلسطین، سوڈان اور مشرقی تیمور اس بات کے کھلے ثبوت ہیں۔ یہودی، عیسائی، ہندو سب مل کر مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہیں، مگر یہ حکمران کوئی سبق سیکھنے کی بجائے الٹا مسلمانوں کے خلاف ان قوتوں کی ہی مادی امداد کر رہے ہیں، یہ بات انتہائی افسوسناک ہے۔
اگر یہی مایوس کن صورتحال رہی تو اس بات کا خدشہ ہے کہ جس طرح آج چیچنیا پر جارحیت کی گئی ہے، اگر ایک چیچنیا ختم ہو گا تو دس چیچنیا سامنے آئیں گے، ایک کشمیر ختم ہو گا تو کئی کشمیر سامنے آئیں گے، ایک فلسطین ختم ہو گا تو کئی فلسطین سامنے آئیں گے۔ اسلام دشمن قوتیں جو چاہتی ہیں کر گزرتی ہیں۔ انہیں انڈونیشیا کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا تو مشرقی تیمور کا مسئلہ پیدا کر دیا۔ مسلمان حکمران امریکہ کے آگے سر بہ سجود ہیں۔ اگر اس روش کو نہ بدلا گیا تو آپ بہت جلد دیکھیں گے کہ قازقستان کے ایک بڑے حصے پر روس قبضہ کر لے گا۔ پاکستان کو بھی بہت سے خطرات کا سامنا ہے، اسے بھی کئی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ آج ایک معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ مسلمان حکمران امریکہ، روسی اور یورپ کے آگے سجدہ ریز اور ان کے غلام ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں صرف دو ممالک ہی آزاد ہیں۔ ایک چیچنیا اور دوسرا افغانستان، جنہوں نے جرأت مندانہ موقف اپنایا ہے اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ دیگر مسلم ممالک میں پاکستان کسی حد تک آزاد ہے۔ عراق روس پر انحصار کرتا ہے، ایران بھی روس کے رحم و کرم پر ہے، جبکہ سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک بھی امریکہ کے زیراثر ہیں۔
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم اس ذلت کا کیوں شکار ہیں؟ یہ اس لیے کہ ہم نے اللہ کے راستے کو چھوڑ دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارے لیے ایک قرآن اور ایک امتِ مسلمہ کو چھوڑ کر گئے تھے مگر ہم نے قرآن کو بھی چھوڑ دیا اور امت کے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کر دیا۔ یہ ساری ذلت و پستی اسی روش کا نتیجہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان متحد ہو کر ازسرنو خلافت کے احیا کی کوشش کریں۔ اگر تمام مسلمان ممالک نہیں تو کم از کم چند ممالک بالخصوص پاکستان اور افغانستان باہمی اتحاد سے اس صورتحال کا مقابلہ کریں۔ پاکستان آج ایک ایٹمی طاقت ہے، وہ امتِ مسلمہ کی امامت کا فریضہ بہتر انداز میں ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کو ٹھوس لائحہ عمل اپنانا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان مل کر اسلامی فوج تشکیل دیں اور دنیا پر یہ واضح کر دیں کہ جہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سلوک روا رکھا گیا یا جارحیت یا دہشت گردی کی گئی تو ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ یہ جرأت مندانہ موقف اپنانے کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ پوری امتِ مسلمہ کی یہ دل کی آواز ہے۔ مسلمان اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ ضرورت صرف عزم و حوصلے کی ہے۔ یہ صرف اللہ پر پختہ ایمان و یقین اور جہاد کا راستہ اپنانے ہی سے ممکن ہو گا۔ جو قومیں سر اٹھا کر چلنے کا عزم رکھتی ہیں وہی دنیا میں جینے کا بھی حق رکھتی ہیں۔ چیچنیا نے اپنے لیے اسی راستے کو منتخب کیا ہے۔
(بہ شکریہ ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور)