بیت اللہ کی تعمیر کے مختلف مراحل

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی اور اس کی تجدید حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے ہوئی۔ اس کے بعد قبیلہ جرہم نے تعمیر کی۔ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سسرال کا خاندان ہے۔ پھر قوم عمالقہ کا ذکر ملتا ہے اور اس کے بعد قریش نے حضور علیہ السلام کے اعلانِ نبوت سے پانچ سال قبل بیت اللہ شریف کی تعمیر کی جب کہ اس کی چھت کمزور ہو چکی تھی۔ یہ وہی تعمیر ہے جس کے دوران حطیم کا حصہ خانہ کعبہ سے باہر نکالا گیا تھا جو آج بھی اسی حالت میں ہے۔ اس کے بعد عبد اللہ بن زبیرؓ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ پھر عبد الملک بن مروان کے زمانے میں حجاج بن یوسف نے بیت اللہ کو گرا کر نئے سرے سے تعمیر کیا۔ اور پھر یہ آخری تعمیر ترکی عہدِ حکومت میں سلطان مراد کے زمانے میں ہوئی جو اب تک قائم ہے۔

البتہ موجودہ سعودی حکومت نے حرم شریف کی تعمیر میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ خانہ کعبہ کے گرداگرد ترکی عہد کے برامدوں کے پیچھے بڑے وسیع برامدے اور چاروں طرف سات بلند اور خوبصورت مینار تعمیر کیے ہیں۔ اب صفا و مروہ کا پورا حصہ ساتھ شامل ہو چکا ہے۔ اس دو منزلہ عمارت کا فرش سنگِ مرمر کا ہے جس پر دبیز قالین بچھائے گئے ہیں۔ آب زم زم کی فراہمی کے لیے جدید نظام قائم کیا ہے۔ حرمِ پاک میں روشنی کے لیے ٹیوب لائٹس اور فانوس روشن ہیں۔ برقی پنکھے ہمہ وقت چلتے رہتے ہیں اور لاؤڈ اسپیکر کا مربوط نظام قائم ہے۔

اہلِ کتاب نے اس مقدس مقام کی فضیلت کو کم کرنے کی غرض سے اپنی ہی کتابوں میں تحریف کی ہے۔ زبور میں موجود ہے کہ خدا کے مقدس بندے وادی بکہ میں گزریں گے۔ وہاں پر پانی کے چشمے کا بھی ذکر ہے۔ اس سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام ہیں۔ اور چشمہ سے مراد آب زم زم ہے۔ مگر انہوں نے ’’بکہ‘‘ کو ’’بکا‘‘ بنا دیا اور کہا کہ یہ وادی مکہ کا نہیں بلکہ وادی بکا کا ذکر ہے اور عربی زبان میں بکا سے مراد رونا ہے۔ اسی طرح ان کی کتابوں میں مروہ کا ذکر بھی ملتا ہے کہ اس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی دی۔ مروہ سے مراد تو وہی صفا اور مروہ پہاڑیاں ہیں مگر انہوں نے اس لفظ کو بگاڑ کر موریا بنا دیا۔ یہ بھی ان کی تحریف کا ایک شاہکار ہے۔

مقامِ ابراہیم

فرمایا بیت اللہ شریف وہ مقدس مقام ہے ’’فیہ اٰیات بیّنات‘‘ جس میں واضح نشانیاں ہیں۔ منجملہ ان کے ’’مقامِ ابراھیم‘‘ مقامِ ابراہیم ہے۔ مقامِ ابراہیم کا ایک معنی تو یہ ہے کہ اس جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد اسماعیل علیہ السلام کے لیے اقامت گاہ بنایا جیسا کہ سورۃ ابراہیم میں موجود ہے: ’’ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ۔۔۔ الخ‘‘۔ اے ہمارے پروردگار! میں اپنی اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے پاس بے آب و گیاہ زمین میں آباد کرتا ہوں تاکہ وہ نماز قائم کریں، تیری عبادت کریں اور دنیا کے دل وہاں کھنچے ہوئے آئیں، اور انہیں پھلوں سے روزی عطا فرما تاکہ وہ تیرا شکر ادا کریں۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا تھی جو حرف بحرف پوری ہوئی ’’اطعمھم من جوع و اٰمنھم من خوف‘‘ اللہ نے انہیں بھوک سے نجات دی اور خوف سے امان بخشی۔ تو اس لحاظ سے اس میں بڑی واضح نشانیاں ہیں۔

عام مشہور یہ ہے کہ مقامِ ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف تعمیر کیا تھا۔ خانہ کعبہ کی دیواریں جوں جوں اونچی ہوتی جاتی تھیں پتھر بھی خود بخود اوپر کو اٹھتا تھا، اور آپ اس پر کھڑے کھڑے تعمیر کا کام کرتے تھے۔ اس سخت پتھر پر اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں کا نشان بھی نقش کر دیا، جس کا مشاہدہ دنیا بھر کے لوگ آج تک کر رہے ہیں۔ پہلے یہ پتھر ایک دوسری عمارت میں بند کر کے رکھا گیا تھا، موجودہ حکومت نے اس کو شیشہ میں بند کر کے بابِ رحمت کے سامنے مطاف میں رکھ دیا ہے، یہ دیکھنے والوں کو بخوبی نظر آتا ہے۔ سعودی حکومت نے شیشہ کا یہ خول ۳۵ لاکھ ریال میں امریکہ سے خصوصی طور پر تیار کروایا تھا، بیک وقت دو خول بنائے گئے تھے تاکہ ایک ٹوٹ جائے تو دوسرا وہاں رکھ دیا جائے۔ یہ خاص قسم کا شیشہ ہے جو موسی اثرات سے محفوظ رہتا ہے، بہرحال مقامِ ابراہیم اللہ کی واضح نشانیوں میں سے ہے۔

سیرت و تاریخ

(مارچ ۲۰۰۰ء)

مارچ ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۳

تلاش

Flag Counter