(۸ جولائی ۹۵ء کو دار العلوم زکریا جنوبی افریقہ میں نماز فجر کے بعد طلبہ سے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کا خطاب۔)
حمد و ثنا کے بعد۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کو معجزہ عطا فرمایا اور آپ کے بطن مبارک سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت فرمائی۔ حضرت مریم علیہا السلام کے والد عمران، آپ کی والدہ محترمہ، آپ کی خالہ حضرت زکریا علیہ السلام کی اہلیہ، آپ کے بھائی ہارونؒ کو نیکی اور تقویٰ میں بلندی عطا فرمائی تھی۔
حضرت مریم علیها السلام ایک مرتبہ ایک جگہ تشریف فرما تھیں کہ ایک شخص اچانک آپ کے سامنے نمودار ہوا۔ حضرت مریم علیہا السلام نے فورا" اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دے دیا۔ اس شخص نے عرض کیا، میں اللہ تعالیٰ کا فرستادہ فرشتہ ہوں۔ انسان کی شکل میں حاضر ہوا ہوں۔ آپ کو خدا کی طرف سے بیٹے کی ولادت دینے آیا ہوں۔ حضرت مریم علیها السلام بہت پریشان ہوئیں کہ میری شادی نہیں ہوئی اور نہ ہی میں نے کوئی برائی کی ہے، پھر کیسے اولاد ہو گی؟ فرشتہ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ دنیا میں ایک نشانی لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں۔ حضرت مریم علیہا السلام نے کہا، میں لوگوں کو کیا جواب دوں گی؟ فرشتہ نے جواب دیا کہ آپ ولادت سے قبل فلاں جگہ چلی جائیے گا، اللہ تعالیٰ وہاں تمام انتظام فرما دیں گے اور آپ سے جب لوگ بچے کے بارے میں سوال کریں تو آپ کہہ دیجئے گا، میں نے چپ کا روزہ رکھا ہے۔ جب ولادت کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتہ کے ذریعہ راہنمائی کی، وہ چشمہ کا پانی پیتیں اور اس درخت کے تنے کو ذرا سا ہلاتیں، اللہ تعالیٰ کھجور گرا دیتے جو ان کی خوراک کے کام آتی۔ یہاں پر مفسرین نے لکھا ہے کہ کھجور کا خشک تنا تھا۔ اللہ تعالٰی نے اس کو اسی وقت تر و تازہ فرمایا، اس میں پھل لگائے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ قوم نے اعتراض کیا۔ حضرت مریم علیہا السلام نے سکوت فرمایا اور عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گویائی عطا فرمائی، انہوں نے فرمایا:
’’میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ نے کتاب عطا کی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔"
بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اس معجزہ کو تسلیم کیا۔ بعض لوگوں نے سرے سے انکار کر دیا۔ اور بعض لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو العیاذ باللہ خدا کا بیٹا اور حضرت مریم علیها السلام کو خدا کی بیوی کا درجہ دے دیا، جو کفر کے دائرے میں آتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جب نجران کے وفد سے مکالمہ ہوا اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، پھر تم حضرت آدم علیہ السلام کی نسبت کیا کہو گے؟ ان کی تو نہ والدہ تھیں اور نہ والد ۔ بہرحال اس قصے کو سنانے سے مقصد سبق حاصل کرنا ہے۔ اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کو حکم دیا، تم کھجور کے درخت کے تنے کو حرکت دو، تم پر کھجوریں گرا دی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ جو خشک تنے کو تروتازہ فرما سکتے تھے، منٹوں میں کھجوریں پیدا فرما سکتے تھے، تو حضرت مریم علیہا السلام کے پاس کھجوریں بھی پہنچا سکتے تھے، لیکن فرمایا کہ تنے کو حرکت دو۔ محنت کرو، پھل ملے گا۔ آپ طلبائے کرام پڑھائی کے لیے آئیں، خوب محنت کریں، اساتذہ کا احترام کریں، کتابوں کا احترام کریں۔ جو محنت کرتا ہے، پاتا ہے۔ کوشش اور محنت کرنے والا مقصد کو پا لیتا ہے۔ مشہور مقولہ ہے: ’’جب تک اپنے آپ کو پورے کے پورے علم کے لیے وقف نہیں کرو گے، علم کا کچھ حصہ حاصل نہ ہو سکے گا‘‘۔ اس لیے اسی قصے سے سبق حاصل کر کے خوب محنت کرو۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کو علمِ نافع عطا فرمائے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے دورۂ افریقہ و سعودی عرب کی مفصل رپورٹ آئندہ شمارے میں شاملِ اشاعت کی جائے گی، ان شاء اللہ العزیز (ادارہ)