بھوک نہ لگنا، گھبراہٹ ہوتا، سانس پھولنا، یعنی معدہ کی خرابی کو تبخیرِ معدہ کہتے ہیں۔ اس سے جسمانی کمزوری کے علاوہ نشوونما رک جاتی ہے۔ تبخیرِ معدہ کو اس دور کا عام مرض کہنا چاہئے کیونکہ یہ حقیقت میں کوئی خاص مرض نہیں ہے بلکہ پرخوری، بدپرہیزی، خوش خوراکی، بسیار خوری کی ایک علامت ہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ گھی و دیگر مرغن غذا سے جسم کو توانائی ملتی ہے اور جسم فربہ ہوتا ہے۔ پھر ہمارے لیے مرغن غذا کا حصول کوئی مشکل کام نہیں۔ ایسی ہی زیادتی، خوش خوراکی، بسیار خوری کی وجہ سے لوگ تبخیرِ معدہ میں مبتلا ہیں۔ اگر مزید احتیاط نہ کریں اور سارا دن بیٹھ کر (یعنی ورزش نہ کرنا) گزار دیں تو یہ واقعی ایک مرض کی شکل اختیار کر جائے گی۔ کیونکہ پھر ایسا رہنے سے جگر کا فعل سست ہو جائے گا جس سے بھوک کم، چہرے کی رنگت زرد، جگر کے مقام پر قدرے درد و سختی، کھٹے ڈکار علاوہ متعدد قسم کے امراض جنم لے لیتے ہیں۔
بسیار خوری کی وجہ سے بعض لوگوں کے معدہ کو اپنی طاقت سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے تو بہت سا حصہ غذا بغیر ہضم ہو کے نیچے چھوٹی آنتوں میں چلا جاتا ہے لیکن اکثر معدہ میں بھی رہ جاتا ہے، جس سے تعفن پیدا ہو گا تو معدہ کے اعصاب متاثر ہونے کی وجہ سے دماغ بھی متاثر ہو گا جس سے پرانے مریض یہ محسوس کرتے ہیں کہ گیس دماغ کو چڑھتی ہے۔ یہ سنے سنائے ریڈی میڈ جملے ہیں حالانکہ معدہ اور دماغ کے درمیان کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ پریشانی، زیادہ جذبات انگیزی کو بھی امراض معدہ میں بڑا دخل ہے۔
یہ تو تمام اطبا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ السر معدہ کا جہاں چکنائی دار غذا سے تعلق ہے تو وہاں زیادہ حساسیت و پریشانی سوچ و بچار کا بھی بہت زیادہ تعلق ہے۔ مثلاً جو لوگ پریشانی کی حالت میں زیادہ سے زیادہ جلدی کی صورت میں جلدی جلدی بغیر چبائے اور ضرورت سے زیادہ کھائے چلے جاتے ہیں، ان کو اس غذا سے بجائے فائدہ کے الٹا نقصان ہوتا ہے۔
تمام نشہ آور اشیاء شراب، چرس، بھنگ، افیم، تمباکو نوشی، زیادہ تیز چائے وغیرہ بھی بدہضمی اور تبخیر کے بواعث میں شامل ہیں۔ ان چیزوں کے استعمال سے اعصاب میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور پٹھوں کو ضرورت سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور وقتی طور پر دماغ کو سکون ضرور ملتا ہے مگر بعد ازاں اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد ورزش، دماغی کام کرنا بھی نقصان دہ ہے کیونکہ کھانا کھانے کے بعد تمام دوران خون غذا معدہ کی طرف راغب ہوتا ہے، اس صورت میں بھی دماغی کام کرنا مضر ہے۔
علاج
کھانا وقت پر کھائیں، زیادہ اور بلا وجہ محض خواہش پر نہ کھائیں۔ ویسے بھی قرآن مجید میں آتا ہے ’’کھاؤ پیو مگر اسراف نہ کرو‘‘۔ اس لیے جب تک سچی بھوک نہ لگے، کھانا نہ کھایا جائے۔ کھانا لذت یابی کی بنا پر زیادہ نہیں بلکہ کم کھائیں۔ خصوصا" رات کا کھانا بہت تھوڑا کھائیں، وہ بھی سونے سے دو تین گھنٹے پہلے۔ صبح کی سیر اور ہلکی ورزش کو معمول بنائیں کیونکہ ایک مقولہ ہے کہ ورزش کے لیے وقت نکالیں ورنہ بیماری کے لیے وقت نکالنا پڑے گا۔ تفکرات کو ذہن سے کم کر دیں۔ ہمیشہ صابر و شاکر اور خوش و خرم زندگی گزاریں۔ کوشش کریں اگر تبخیر معدہ درینہ ہو تو بطور دوا کے جوارش کمونی پانچ پانچ ماشہ صبح و شام کھانا کھانے کے فوری بعد اور ساتھ ساتھ ایک ایک گولی حب کبد نوشادری استعمال کریں۔ اس کے علاوہ سفوف ہاضم بھی نہایت مفید ہے۔
ہو الشافی
کالی مرچ، مگھاں، پھول گلاب، ہلیلہ سیاہ، اجوائن دیسی، نوشادر، سونف، سنڈھ، رائی، ہر ایک چھ چھ ماشہ، ست پودینہ ا ماشہ، باریک کر کے ٹھنڈی جگہ ڈھکنے والی شیشی میں رکھیں۔ ایک ماشہ کھانے کے فورًا بعد ہمراہ عرق سونف یا تازہ پانی استعمال کریں۔ سردیوں میں اگر چائے پینے کے عادی ہوں تو ایک کپ چائے، چینی کی جگہ حسبِ ضرورت شہد خالص ڈال کر پی لیا کریں۔ ان شاء اللہ دنوں میں نمایاں فرق ملاحظہ فرمائیں گے۔
پرہیز
گھی والی روٹی، حلوہ پوری، پکوڑے، سموسے، مٹھائیاں، ثقیل اشیاء، آلو، شکر قندی، چاول و دیگر زیادہ چکنائی، بڑا گوشت اور نشہ آور اشیاء سے پرہیز کریں۔
نوٹ : جوابی لفافہ سے مشورہ کریں۔ کسی بھی مرض کے مشورہ کے لیے پوسٹ بکس نمبر ۳۳۱ پر خط لکھیں۔