ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیاں

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کا تیسرا سالانہ سیمینار

ورلڈ اسلامک فورم کا تیسرا سالانہ تعلیمی سیمینار ۹ ستمبر ۹۵ء کو برنر کلب کمرشل روڈ ایسٹ لندن میں فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی بطور مهمان خصوصی شریک ہوئے جبکہ مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ 

فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے کارگزاری کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے شرکاء کو بتایا کہ فورم نے تعلیمی شعبہ میں یہ پیش رفت کی ہے کہ اردو اور انگلش میں مطالعہ اسلام کا خط و کتابت کورس ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ ایک سال سے کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور اب اسے دو سال کا کورس کر دیا گیا ہے جس کے لیے ممبر شپ جاری ہے اور اکتوبر کے پہلے ہفتہ سے اس کا باقاعدہ اجراء کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کورس دعوۃ اکیڈیمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تعاون سے چلایا جا رہا ہے اور سولہ سال سے زائد عمر کے طلبہ اور طلبات کو فری طور پر فراہم کیا جاتا ہے جس کے لیے دس پونڈ رجسٹریشن کے علاوہ طلبہ سے کچھ چارج نہیں کیا جاتا۔ 

انہوں نے کہا کہ برطانیہ اور پاکستان میں فورم کے زیراہتمام مختلف موضوعات پر علمی و فکری نشستوں کا اہتمام کیا گیا جن میں مولانا مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا محمد سرفراز خان صفدر، محمد صلاح الدین شہیدؒ، ڈاکٹر سید سلمان ندوی، ڈاکٹر محمود احمد غازی، مولانا سید ارشد مدنی اور دیگر زعما نے خطاب کیا۔ 

اس کے علاوہ فورم کی طرف سے متعدد کتابچے چھپوا کر تقسیم کیے گئے اور فورم کا آرگن ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ سے تسلسل کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ میڈیا کے محاذ پر سیٹلائیٹ پینل کے حصول کے لیے متعلقہ ماہرین کے ساتھ گفت و شنید اور مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور جلد ہی اس کے عملی نتائج سامنے آجائیں گے۔ 

مہمانِ خصوصی ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی نے اپنے مفصل خطاب میں ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیوں پر اطمینان اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ جدوجہد وقت کی اہم ضرورت ہے اور سب سے زیادہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ فورم یہ محنت گروہی اور فرقہ وارانہ سیاست سے بالاتر ہو کر جاری رکھے ہوئے ہے، اور آج کے دور کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ گروہی سیاست اور فرقہ وارانہ کشمکش سے بالاتر ہو کر ملتِ اسلامیہ کی فکری و علمی راہنمائی کی جائے۔ 

انہوں نے کہا کہ تعلیم کا میدان بہت وسیع اور ناگزیر ہے اور اس میدان میں آج کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے جدوجہد کو آگے بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ علمائے کرام کو اس معاشرہ میں نہ صرف انگلش زبان سے بلکہ یہاں کی نئی نسل کی نفسیات اور ذہنی رجحانات سے بھی واقف ہونا چاہئے کیونکہ وہ اسی صورت میں نئی نسل تک اسلام کا پیغام صحیح طور پر پہنچا سکتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے کا زیادہ کام انگلش میں ہو رہا ہے اور پاکستان میں بھی اسلامی احکام و قوانین کے خلاف لکھنے والے زیادہ تر انگلش پریس کے ذریعہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انگلش پریس بیشتر علماء کی دسترس سے باہر ہے، اس لیے وہ اطمینان کے ساتھ اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے کی مہم جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے بھی علمائے کرام کے لیے ضروری ہے کہ وہ انگلش زبان پر مہارت حاصل کریں تا کہ وہ اسلام کے خلاف ہونے والے کام سے آگاہی حاصل کر کے اس کے جواب کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کر سکیں۔ 

انہوں نے کہا کہ اختلافِ رائے فطری امر ہے اور اگر اختلافات کو ان کے صحیح دائرے میں رکھا جائے تو وہ قومی زندگی کی علامت اور باعثِ رحمت ہوتے ہیں، لیکن وہی اختلاف جائز حدود سے تجاوز کر کے افتراق و انتشار کا ذریعہ بن جاتے ہیں، اس لیے علماء کو چاہیئے کہ وہ اختلافِ رائے کو برداشت کرتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کریں اور باہمی اختلافات کو اس حد تک نہ لے جائیں کہ وہ اسلام اور دینی قوتوں کے لیے نقصان کا باعث بن جائیں۔ 

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی نے ورلڈ اسلامک فورم کے تعلیمی پروگرام ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس معاشرہ میں خط و کتابت کے ذریعہ اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی بھی بھرپور تعاون کے لیے تیار ہے۔ 

فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے آئندہ پروگرام کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس سال سے ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے دو سالہ پروگرام کے اجراء کے علاوہ ورلڈ اسلامک فورم کے تحت رفاہی خدمات کا مستقل شعبہ قائم کیا جا رہا ہے جس کے ذریعہ مسلم ممالک کے ذہین طلبہ کو تعلیمی وظائف دینے کے علاوہ علمائے کرام اور دینی طلبہ میں مطالعہ، تحقیق اور تحریر و تقریر کا ذوق بیدار کرنے کے لیے وظائف اور انعامی مقابلوں کا اہتمام کیا جائے گا، اور بوسنیا، کشمیر، فلسطین اور دیگر خطوں کے مظلوم مسلمانوں کی امداد کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل کا اجلاس ۱۶ ستمبر کو ہو رہا ہے جس میں اس پروگرام کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔

سیمینار سے لندن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد حنیف، ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ کے سکالر مولانا عبید اللہ خان، آل جموں و کشمیر جمعیت علمائے اسلام کے سینئر نائب امیر مولانا قاری سعید الرحمٰن تنویر، مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی، جناب نذر السلام بوس، حفیظ الرحمٰن خان، جناب ابراہیم عدمانی، حزب التحریر کے راہ نما جناب عبد الحئی، حاجی افتخار، مولانا ابراہیم تاراپوری، مولانا قاری محمد عمران خان جهانگیری، مولانا قاری عبد الرشید رحمانی، مولانا قاری محمد شریف، جناب عبد الرحمٰن باوا اور دیگر راہ نماؤں نے بھی خطاب کیا۔ 

مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ دینی راہنماؤں اور نئی نسل کے درمیان جو ذہنی بُعد دن بدن بڑھ رہا ہے، اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے اور حکمت و دانش کے ساتھ اسے دور کرنے کی منظم جدوجہد کی ضرورت ہے، اور امت کے تمام طبقات کو اس سلسلہ میں ورلڈ اسلامک فورم کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔

ورلڈ اسلامک فورم کا سالانہ اجلاس

ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل کا سالانہ اجلاس ۱۹ ستمبر ۹۵ء کو ساؤتھال میں آل انڈیا ملّی کونسل کے سربراہ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں فورم کے آئندہ سال کے پروگرام کی منظوری دی گئی۔

اجلاس میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ عربی و اسلامیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی جبکہ فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی، ڈپٹی چیئرمین مولانا مفتی برکت اللہ اور سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے پروگرام کی تفصیلات سے شرکائے اجلاس کو آگاہ کیا۔ 

اجلاس میں اسلامی تعلیمات کے خط و کتابت کورس ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے سلسلہ میں پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا گیا اور فورم کے ساتھ تعاون پر مدنی ٹرسٹ نوٹنگھم کا شکریہ ادا کیا گیا۔ 

اجلاس میں بتایا گیا کہ ورلڈ اسلامک فورم کی کوششوں اور تعاون سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے ساتھ مدنی ٹرسٹ نوٹنگھم کا معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت عربی، اردو اور اسلامیات کے حوالہ سے اوپن یونیورسٹی کے کورسز کو یورپی ممالک کے لیے منظم کیا جائے گا۔ 

اجلاس میں طے پایا کہ نوجوان اور ذہین مسلم طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی اور علمائے کرام میں تحریر و تحقیق کا ذوق بیدار کرنے کے لیے ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے انعامی مقابلوں اور وظائف کا اہتمام کیا جائے گا، اور اس سلسلہ میں مولانا مفتی برکت اللہ کی سربراہی میں ایک رفاہی ادارہ قائم کیا جائے گا جو تعلیمی وظائف اور بے سہارا مسلمانوں کی امداد کے لیے پروگرام منظم کرے گا۔ یہ ادارہ فورم کے تحت کام کرے گا اور اس میں مولانا محمد عمران خان جهانگیری، مولانا قاری تصور الحق، الحاج محمد اشرف خان، الحاج فیض اللہ خان اور مولانا قاری عبد الرشید رحمانی بھی شامل ہوں گے۔ 

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مجاہد الاسلام قاسمی نے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم جن مقاصد کے لیے کام کر رہا ہے، وہ آج کے دور کی بہت بڑی ضرورت ہیں اور ان کے لیے وسائل کی ضرورت ہے، اس لیے اہلِ خیر کو چاہئے کہ وہ وسائل کی فراہمی میں فورم کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔ 

انہوں نے کہا کہ علمائے کرام کو اپنے دور کے حالات اور لوگوں کے ذہنی رجحانات سے واقف ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اسلام کا پیغام اور اسلامی تعلیمات لوگوں تک صحیح طور پر نہیں پہنچا سکتے۔ 

انہوں نے کہا کہ میڈیا آج کے دور کی سب سے بڑی طاقت ہے جس کے ذریعہ مغرب پوری دنیا کے انسانوں کے ذہنوں پر حکومت کر رہا ہے اور میڈیا ہی کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کی تصویر کو خراب کر کے پیش کیا جا رہا ہے، اس لیے علماء اور دینی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جدید میڈیا تک رسائی حاصل کریں اور اس کی تکنیک اور طریق واردات کو سمجھ کر اسے اسلام کے حق میں استعمال کرنے کا راستہ نکالیں۔ 

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم نے گروہی سیاست سے الگ رہتے ہوئے تمام اداروں کے ساتھ تعاون کی جو پالیسی اختیار کی ہے، وہ تمام دینی اور علمی اداروں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ انہوں نے تعلیمی محاذ پر فورم کی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ تعلیمی محاذ پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد فورم کے ساتھ بھر پور تعاون کرے گی۔ 

اجلاس میں مولانا مجاہد الاسلام قاسمی، ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی، مولانا زاہد الراشدی، مولانا مفتی برکت اللہ، مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی، مولانا محمد عمران خان جهانگیری، الحاج عبد الرحمٰن بادا الحاج فیض اللہ خان، مولانا قاری تصور الحق، مولانا محمد سلیم دھورات، مولانا کلام احمد، مولانا حافظ ممتاز الحق اور دیگر زعماء نے شرکت کی۔

مدنی مسجد نوٹنگھم میں سیرت النبیؐ پر نو روزہ پروگرام 

مدنی مسجد نوٹنگھم برطانیہ میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نو روزه پروگرام گذشته روز مکمل ہو گیا۔ اس پروگرام کے تحت ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے ۲۴ اگست سے یکم ستمبر تک روازنہ نماز عصر کے بعد سیرتِ نبویؐ کے مختلف پہلوؤں پر ایک گھنٹہ لیکچر دیا اور حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے۔ 

مولانا زاہد الراشدی نے اپنے لیکچرز کے دوران اس بات پر زور دیا کہ علماء اور دانش وروں کو چاہئے کہ وہ آج کے حالات و مسائل کے تناظر میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں اور نسلِ انسانی کو جو مشکلات درپیش ہیں، ان کا حل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں پیش کریں۔ 

انہوں نے کہا کہ پوری نسلِ انسانی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی شخصیت ایسی نہیں ہے جس کے حالاتِ زندگی اور تعلیمات کو تاریخ نے اس قدر تفصیلات و جزئیات کے ساتھ اتنے اہتمام سے محفوظ رکھا ہو، اور نہ ہی کوئی دوسری شخصیت ایسی موجود ہے جس کی جدوجہد اور تعلیمات کا دائرہ انسانی زندگی کے ہر شعبہ کو محیط ہو۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کا حصہ ہے کہ چونکہ نبی اکرمؐ نے قیامت تک نسل انسانی کی راہ نمائی کرنی ہے اور اولادِ آدمؑ کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے مکمل اور سب سے آخری آئیڈیل شخصیت ہیں، اس لیے صرف انہی کے حالاتِ زندگی اور تعلیمات کو تمام تر جزئیات و تفصیلات سمیت محفوظ رکھنے کا اہتمام ہوا، اور یہ بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفائے راشدین نے قانون اور ضابطے کی پابند زندگی بسر کر کے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اسلام میں ’’تھیاکریسی‘‘ اور خدا کی نمائندگی کے پردے میں مطلق العنان حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حتیٰ کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جب کسی نے خلیفۃ اللہ  کہا تو انہوں نے یہ کہہ کر تھیاکریسی کی جڑ کاٹ دی کہ انہیں خلیفۃ اللہ نہیں بلکہ خلیفۃ رسول اللہ کہا جائے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ خدا کی براہ راست نمائندگی کا دعویٰ کر کے اپنے لیے غیر محدود اختیارات کی خواہش نہیں رکھتے تھے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کے تصور کے ساتھ ان کی پیش کردہ تعلیمات کی پابندی کا نمونہ پیش کر رہے تھے، اور واضح آسمانی ہدایات و تعلیمات کی پابندی ہی اسلامی نظامِ خلافت کا طرۂ امتیاز ہے۔ 

مولانا راشدی نے کہا کہ آج کے دور میں ’’تھیاکریسی‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمیں مغربی دانشوروں کی مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ مغرب نے صدیوں تک ایک ایسے نظامِ حکومت کے مظالم برداشت کیے ہیں جس میں بادشاہ اور کلیسا خود کو خدا کے براہ راست نمائندے قرار دے کر خدا کے نام پر من مانیاں کرتے رہے ہیں، اس لیے جب بھی مذہبی حکومت کا ذکر ہوتا ہے، مغرب والوں کے ذہن میں تاریخ کا وہ منظر گھوم جاتا ہے اور وہ تھیا کریسی اور بنیاد پرستی کے نام پر اسلامی حکومت کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اسلامی حکومت کا تعارف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی براہ راست تعلیمات اور خلفائے راشدین کے طرز حکمرانی کے حوالہ سے کرایا جائے۔ اور اس نکتہ کو واضح کیا جائے کہ اسلامی حکومت ہدایت و تعلیمات کے ایک متعین دائرہ کی پابند ہوتی ہے اور خلافت و حکومت کے قیام کی بنیاد عوام کی براہ راست رائے اور مرضی پر ہوتی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرہ کے ہر طبقہ کو مشاورت کے نظام میں شریک کیا اور اس کی رائے کو اہمیت دی جس سے عورتوں سمیت تمام طبقوں کو معاشرتی اعتماد حاصل ہوا۔ 

انہوں نے کہا کہ عورت کی رائے اور حق کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ حضرت عائشہؓ کی آزاد کردہ لونڈی حضرت بریرہؓ نے اپنے نکاح کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کو قبول کرنے سے معذرت کر دی تھی اور اپنے حق کا آزادانہ استعمال کیا تھا۔ 

انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور عورت کے درمیان حقوق و فرائض کی فطری تقسیم کے ساتھ جو خاندانی نظام قائم کیا، وہ آج بھی پوری دنیا کے لیے مثالی نظام ہے۔ اور مغرب نے مرد و عورت میں مکمل مساوات اور یکساں حقوق کے نام پر مطلق آزادی کا تصور پیش کر کے خاندانی نظام کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں، اور مطلق آزادی کے تلخ نتائج بھگتنے کے بعد مغربی دانش ور آج پھر ’’متوازن خاندانی نظام‘‘ کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ 

مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم قرآن اور سیرتِ نبویؐ کے مطالعے اور انہیں دنیا کے سامنے پیش کرنے کے بارے میں صدیوں پرانے روایتی انداز سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ انداز اور طریق کار کا ہر دور کے تقاضوں کے مطابق بدلتے رہنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ اگر آج بھی قرآن کریم اور سنتِ نبویؐ کو آج کے مسائل و مشکلات اور حالات کے تناظر میں عالمی رائے عامہ کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے جدید اسلوب میں پیش کیا جائے تو قرآن و سنت کی وہ کشش اور قوت اب بھی زندہ ہے جو پورے انسانی معاشرہ کو راہِ راست پر لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ہم آج کی دنیا کو اسلام کا پیغام تو دینا چاہتے ہیں لیکن موجودہ انسانی معاشرہ کے ذہنوں کے ساتھ ’’فریکونسی‘‘ سیٹ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے جس کے بغیر پیغام کا پہنچانا ممکن نہیں ہے۔ مسلم علماء اور دانش وروں کو چاہئے کہ وہ پہلے فریکونسی سیٹ کریں، اس کے بعد وہ جو پیغام دینا چاہیں گے، نسلِ انسانی اسے سننے کے لیے تیار ہو گی۔

مدنی مسجد نوٹنگھم کے منتظم مولانا رضاء الحق نے نو روزہ سیرت پروگرام کی کامیابی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے پروگرام کے اختتام پر مولانا زاہد الراشدی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس قسم کے پروگراموں کو عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دین کی صحیح روح کو سمجھ سکیں۔

اسلامک ہوم اسٹڈی کورس

مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے لیے اپنی نئی نسل کو دینی تعلیمات اور اسلامی کلچر کے ساتھ وابستہ رکھنے کا مسئلہ خاصا پریشان کن ہوتا جا رہا ہے، دینی تعلیم کے لیے مختلف شہروں میں شام ۵ سے ۷ بجے تک یا ویک اینڈ پر ہفتہ اتوار کے روز دینی مکاتب کام کر رہے ہیں لیکن ان میں تعلیم پانے والے بچوں اور بچیوں کا مسلمانوں کی مجموعی آبادی کے لحاظ سے تناسب بہت کم ہے۔ اور ان مکاتب میں رائج نصابِ تعلیم کے مطابق ناظرہ قرآن کریم اور نماز روزہ سے متعلق چند ضروری احکام کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلبہ عموماً‌ بارہ تیرہ سال کی عمر میں فارغ ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد ان کا دینی تعلیم کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رہ جاتا۔ جبکہ تربیت اور اخلاق و عادات کے سنورنے یا بگڑنے کی اصل عمر یہی ہوتی ہے مگر اس عمر میں یہ بچے مکمل طور پر سوسائٹی اور میڈیا کے حوالے کر دیے جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن بچوں اور بچیوں نے بچپن میں دینی مکاتب میں کچھ پڑھا بھی ہوتا ہے، وہ الا ما شاء اللہ بھول جاتے ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ تیرہ چودہ سال کی عمر کے بعد بھی بچوں اور بچیوں کا دینی تعلیم کے ساتھ تعلق قائم رہے اور انہیں اپنے مذہب اور کلچر کے بارے میں مسلسل معلومات حاصل ہوتی رہیں۔

اس مقصد کے لیے ورلڈ اسلامک فورم نے دعوۃ اکیڈیمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تعاون سے گزشتہ سال ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے نام سے اسلامی تعلیم کے خط و کتابت کورس کا سلسلہ شروع کیا تھا جو ایک سال کے تجرباتی دور سے کامیابی کے ساتھ گزر چکا ہے۔ اس کورس کے انتظامات مدنی ٹرسٹ نوٹنگھم نے کیے ہیں اور ایک سالہ تجربہ کی روشنی میں مدنی ٹرسٹ نوٹنگھم نے ورلڈ اسلامک فورم کی نگرانی میں اسے دو سالہ کورس کی شکل دے کر اس کے آئندہ مرحلہ کا اعلان کر دیا ہے۔ جبکہ ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کو برطانیہ کے اوپن کالجز نیٹ ورک سے منظور کرانے کے لیے بھی بات چیت جاری ہے جو آخری مراحل میں ہے اور اسے منظور کرنے پر اصولی اتفاق ہو چکا ہے۔ دینی تعلیم کا یہ دو سالہ خط و کتابت کورس اردو اور انگلش دو زبانوں میں ہے اور اس میں سولہ سال کی عمر کے طلبہ و طالبات یا لکھنے پڑھنے کی اچھی صلاحیت رکھنے والے کم عمر کے طلبہ بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ اس میں اوپن کالجز کی طرز پر تعلیم اور امتحانات کے تمام مراحل بذریعہ خط و کتابت ہوں گے، طلبہ کو دعوۃ اکیڈیمی اسلام آباد کے تیار کردہ کتابچے مہیا کیے جائیں گے اور راہ نمائی کے لیے ٹیوٹرز سے رابطہ کی سہولت بھی فراہم ہو گی۔ جبکہ دو سال مکمل ہونے پر باقاعدہ امتحان ہو گا اور اس کے بعد باضابطہ سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔ 

’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ خالصتاً‌ دینی تعلیم کے فروغ اور مسلمان بچوں اور بچیوں کو اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور کرنے کے جذبہ سے چلایا جا رہا ہے اور دس پاؤنڈ رجسٹریشن فیس کے علاوہ کسی قسم کے اخراجات طلبہ سے وصول نہیں کیے جائیں گے۔ اس کے اخراجات کی تمام تر ذمہ داری مدنی ٹرسٹ نوٹنگھم نے قبول کر رکھی ہے۔ ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور مدنی ٹرسٹ نوٹنگھم کے سیکرٹری مولانا رضاء الحق نے مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیمات سے آراستہ کرنے کے لیے ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے ساتھ وابستہ ہوں اور اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے تعاون کریں۔ اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لیے مندرجہ ذیل پتہ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے:

DIRECTOR ISLAMIC HOME STUDY COURSE FOREST FIELDS,  NOTTINGHAM NG7 6HX (U-K) 289 GLADE STONE STREET. TEL: 0115 969 2566 FAX: 0115 985 8997

مدنی مسجد نوٹنگھم برطانیہ کی دس سالہ تقریب

مدنی مسجد نوٹنگھم برطانیہ کے قیام کو دس سال مکمل ہونے پر ۱۰ ستمبر ۹۵ء کو مسجد میں اسلامی تعلیمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت جامعہ اسلامیہ نوٹنگھم کے شیخ الحدیث مولانا فضل رحیم نے کی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ جبکہ دیگر مہمان مقررین میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی، حزب التحریر برطانیہ کے امیر الشیخ عمر بکری محمد، ڈاکٹر عبد الباسط اور ڈاکٹر اختر الزمان غوری بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ 

مولانا رضاء الحق نے مدنی مسجد کی دس سالہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کی، مولانا اور نگزیب خان نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیے، اور قاری سید ابرار حسین شاہ اور جناب محمد عارف نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ہدیۂ نعت پیش کیا۔ کانفرنس ظہر سے عشاء تک جاری رہی اور اس میں نوٹنگھم اور دیگر شہروں کے باذوق مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح خدمتِ خلق کے ساتھ عام آبادی کو اپنے قریب کیا تھا اور خیرخواہی کے ساتھ دعوتِ اسلام کے عمل کو آگے بڑھایا تھا، آج اس سنت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور مخلوقِ خدا کی خدمت اور خیرخواہی کا جذبہ ہی اسلام کی دعوت و تبلیغ کا سب سے موثر ذریعہ بن سکتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ یتیموں اور بیواؤں کی خدمت کرنا، بے سہارا لوگوں کو سہارا دینا، معذوروں اور محتاجوں کے کام آنا، اور ضرورتمندوں کی ضروریات کو پورا کرنا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ہمارے دینی مدارس نے دینی علوم و فنون کی حفاظت اور عام لوگوں کا دین کے ساتھ رشتہ قائم رکھنے کے لیے جو مسلسل جدوجہد کی ہے وہ قابلِ قدر ہے اور آج ہر طرف نظر آنے والے دینی حمیت کے مظاہر انہی کی بدولت ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہو گیا ہے کہ دینی مدارس نئے دور کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نصاب اور طرز تعلیم پر نظر ثانی کریں۔ 

انہوں نے کہا کہ اسلام کسی خاص علاقے کا مذہب نہیں بلکہ عالمگیر دین ہے، اس لیے دنیا کے ہر خطہ میں قرآن کریم اور دینی تعلیمات کو اس خطہ کی زبان میں پیش کرنا ضروری ہے اور علمائے کرام کو چاہئے کہ وہ متعلقہ زبانوں میں مہارت حاصل کر کے دنیا بھر کے لوگوں تک ان کی زبانوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کا اہتمام کریں۔ 

انہوں نے کہا کہ برصغیر پاک و ہند میں مغلوں کے دور میں جب فارسی سرکاری اور دفتری زبان تھی تو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے قرآن کریم اور دینی علوم کو فارسی زبان میں پیش کیا۔ اور جب اردو کا رواج عوام ہونے لگا تو انہی کے دو بیٹوں شاہ عبد القادرؒ اور شاہ رفیع الدینؒ نے قرآن کا اردو میں ترجمہ کر دیا۔ مقصد یہ تھا کہ لوگوں تک اسلام کی تعلیمات کو ان کی زبان میں پہنچایا جائے، اسی طرح آج کے دور کا تقاضا ہے کہ علمائے کرام انگلش میں مہارت حاصل کریں اور دینی لٹریچر کو انگلش میں منتقل کرنے کا اہتمام کریں کیونکہ انگلش آج کے دور میں تعلیم اور ابلاغ کی سب سے موثر زبان ہے۔ 

مولانا زاہد الراشدی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ’’مسلم معاشرہ میں مسجد کا کردار‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیا اور کہا کہ مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کا آغاز ہی مسجد سے ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں نسلِ انسانی کی آبادی کا آغاز ’’بیت اللہ‘‘ کی تعمیر سے کیا اور جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مسجد قبا اور مسجد نبوی کی تعمیر سے ملتِ اسلامیہ کی معاشرتی زندگی کا آغاز فرمایا۔ 

انہوں نے کہا کہ مسلم سوسائٹی میں مسجد صرف عبادت گاہ نہیں بلکہ تعلیم گاہ اور ملتِ اسلامیہ کی اجتماعی و معاشرتی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں جہاں مسجد میں عبادت اور دینی تعلیم ہوتی تھی، وہاں شوریٰ کے اجلاس بھی مسجد میں ہوتے تھے، عام لوگوں کے ساتھ اجتماعی مشاورت کا اہتمام بھی مسجد میں ہوتا تھا، مقدمات کے فیصلے مسجد میں ہوتے تھے، نکاح مسجد میں ہوتے تھے، اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین لوگوں کی مشکلات و مسائل اور ضروریات سے آگاہی کے لیے مسجد میں بیٹھا کرتے تھے۔ اس لیے مسجد عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ مدرسہ، مشورہ کا مرکز، عدالت، میرج ہال اور کمیونٹی سنٹر بھی ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ جب تک ہمارے اجتماعی معاملات مسجد میں طے پاتے رہے، خیر و برکت کا تسلسل قائم رہا، اور جب ہم نے عبادت اور دینی تعلیم کے علاوہ اجتماعی زندگی کے باقی شعبوں کو مسجد سے الگ کر لیا، اس وقت سے ہم مسلسل زوال کا شکار ہو رہے ہیں۔

الاستاذ عمر بکری محمد نے اپنے خطاب میں دینی حلقوں کے درمیان مفاہمت اور یکجہتی پر زور دیا اور کہا کہ علمی اور فقہی اختلافات کو اپنے دائرہ میں رکھتے ہوئے اسلام کی دعوت اور غلبہ کے لیے ہم سب کو متحد ہو کر کام کرنا چاہئے۔ 

انہوں نے کہا کہ اسلام دشمن میڈیا اور لابیاں ملتِ اسلامیہ کے دینی حلقوں کے درمیان غلط فہمیاں پھیلانے اور انہیں ایک دوسرے سے دور کرنے کے لیے منظم محنت کرتی ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ ملتِ اسلامیہ کی مذہبی قوتیں متحد نہ ہونے پائیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں مغربی میڈیا اور لابیوں کے پراپیگنڈے سے متاثر ہونے کی بجائے باہمی ربط و ضبط میں اضافہ کریں اور غلط فہمیوں کو مل جل کر دور کریں تاکہ ہم اپنی صلاحیتوں کو دین کی سربلندی اور اسلام کے غلبہ کے لیے متحد ہو کر کام میں لا سکیں۔ 

انہوں نے کہا کہ اہل سنت سے رکھنے والے تمام مکاتب فکر کو اسلام کی دعوت اور غلبہ کے لیے متحد ہو جانا چاہئے اور اسلام کے خلاف مغرب کے چیلنج کا جرأت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے۔ 

مولانا رضاء الحق نے مدنی مسجد کی دس سالہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس بات کی بھرپور کوشش کی ہے کہ مسجد کو مسلمانوں کی اجتماعی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے۔ چنانچہ مدنی مسجد میں عبادات کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں سے متعلق تعلیمی کلاسوں کا سلسلہ جاری ہے جس کا سلسلہ اب مزید وسیع کیا جا رہا ہے، اور قرآن کریم اور دینیات کے علاوہ ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کو بھی منظم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کی دینی تعلیم اور طلبہ کے لیے کمپیوٹر کلاسوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ مدنی مسجد میں مسلمانوں کی سوشل معاملات میں مشاورت و معاونت کا انتظام موجود ہے، اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دینے والی مختلف تنظیموں کی سرگرمیاں بھی مسجد میں جاری رہتی ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ جامعہ اسلامیہ نوٹنگھم جیسے عظیم تعلیمی ادارہ کا آغاز مدنی مسجد سے ہوا اور شہر کے مختلف حصوں میں علاقائی دینی مراکز نے بھی مدنی مسجد کی نگرانی میں دینی، تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔

اسلامی تعلیمی کانفرنس کے اختتام پر شیخ الحدیث مولانا فضل رحیم نے دعا کرائی اور ان کی دعا کے ساتھ کانفرنس بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی۔

مرکزی جامع مسجد گلاسگو میں جلسہ

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی نے کہا ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچانا ہماری دینی ذمہ داری ہے اور اگر ہم لوگوں کو اسلامی تعلیمات و احکام سے صحیح طور پر آگاہ کرنے کا اہتمام کر سکیں تو غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے گی۔ 

۱۳ ستمبر ۹۵ء کو مرکزی جامع مسجد گلاسگو میں ایک دینی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے علماء پر زور دیا کہ وہ قرآن کریم کی ہدایت اور اسلوب کے مطابق عیسائیوں کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ شروع کریں اور انہیں اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ اسلام کوئی نیا مذہب نہیں ہے بلکہ سابقہ آسمانی مذاہب کا تسلسل ہے اور تورات و انجیل ہی کی تعلیمات کی تصدیق اور تکمیل کرتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اہلِ کتاب کے ساتھ گفتگو کا قرآنی اسلوب یہ ہے کہ انہیں آسمانی مذاہب کی مشترکہ باتوں پر گفت و شنید کی دعوت دی جائے اور اس ذریعے سے انہیں اسلام کی حقانیت و صداقت کی طرف لایا جائے۔ 

انہوں نے کہا کہ قرآن کریم ہر دور کے ذہنی اور عقلی معیار کے مطابق انسانوں کی راہ نمائی کرتا ہے اور آج کی مشکلات و مسائل کا حل بھی صرف قرآن کریم کے پاس ہے۔ 

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل اگر ہماری غفلت اور بے توجہی کے باعث اپنے دین سے بے گانہ ہو گئی تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہو گی، اس لیے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے دین اور کلچر کے ساتھ نئی نسل کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی کریں۔ 

انہوں نے کہا کہ دینی تعلیم اور قرآن و سنت کے ساتھ نئی پود کا کسی نہ کسی انداز سے تعلق قائم رکھنا ضروری ہے ورنہ مغربی کلچر میں ضم ہو جانے والی نسل کو مسلمان رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ 

جامعہ خیر المدارس ملتان کے سربراہ مولانا محمد حنیف جالندھری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام جس طرح اپنے ابتدائی دور میں جاہلی معاشرہ کے لیے اجنبی تھا، آج پھر اجنبی ہو گیا ہے، اور اسلامی تعلیمات و احکام کو قبول کرنا آج کی مادہ پرست ذہنیت کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ قرآن و سنت کی تعلیمات و احکام کو عام کرنا اور صحابہ کرامؓ جیسے یقین و ایمان کو زندہ کرنا آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ تحریک نفاذ اسلام پاکستان کے امیر مولانا مفتی مقبول احمد نے اجتماع کی صدارت کی جبکہ جناب صابر علی نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیے۔

جمعیت علماء برطانیہ کی توحید و سنت کانفرنس

جمعیت علمائے برطانیہ کی سالانہ توحید و سنت کانفرنس ۱۷ ستمبر ۹۵ء کو مرکزی جامع مسجد برمنگھم میں امیر جمعیت ڈاکٹر اختر الزمان غوری کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ عربی و اسلامیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی مہمان خصوصی تھے۔ جبکہ مہمان خصوصی کے علاوہ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد عمران خان جهانگیری، مولانا محمد قاسم، مولانا قاری تصور الحق، مولانا سید سلیم شاہ، مولانا طارق عزیز اور دیگر زعماء نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ کانفرنس کی قراردادوں میں عالم اسلام کے اتحاد اور مغرب کے چیلنج کا جرأت کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

مولانا زاہد الراشدی کی گوجرانوالہ واپسی

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی برطانیہ میں ساڑھے تین ماہ کے قیام کے بعد ۲۱ ستمبر کو گوجرانوالہ واپس پہنچ گئے ہیں۔


اخبار و آثار

(اکتوبر ۱۹۹۵ء)

اکتوبر ۱۹۹۵ء

جلد ۶ ۔ شمارہ ۱۰

حقوق نسواں اور خواتین کی عالمی کانفرنسیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علم محنت سے حاصل ہوتا ہے
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہماری دینی صحافت
تعمیر حیات لکھنؤ

ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیاں
ادارہ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قافلۂ معاد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تبخیر معده
حکیم عبد الرشید شاہد

حضرت عمر فاروقؓ کا خط حضرت عمرو بن عاصؓ کے نام
ادارہ

تلاش

Flag Counter