ورلڈ میڈیا، ملتِ اسلامیہ کے خلاف عالمی استعمار کا سب سے بڑا مورچہ

مولانا محمد عیسٰی منصوری

ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ’’ورلڈ میڈیا اور عالم اسلام‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار ۱۴ اکتوبر ۹۵ء کو برنر کلب کمرشل روڈ ایسٹ لندن میں منعقد ہوا، جس کی صدارت معروف قانون دان بیرسٹر محمد یوسف اختر نے کی، جبکہ میڈیا کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور اہل دانش کی ایک بڑی تعداد سیمینار میں شریک ہوئی۔ ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے سیمینار سے مندرجہ ذیل خطاب کیا، سیمینار کی مفصل رپورٹ ’’الشریعہ‘‘ کے اگلے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں۔ (ادارہ)


صدر محترم! 

مہمان خصوصی اور معزز سامعین! میں سب سے پہلے فورم کے میڈیا سیمینار میں آپ حضرات کی تشریف آوری پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود اپنا قیمتی وقت عنایت فرمایا۔

روس کی شکست و ریخت کے بعد مغرب سمجھ رہا ہے کہ اب دنیا میں مغرب کی بالادستی کی راہ میں واحد رکاوٹ اسلام ہے۔ اسے اس بات کا بھی خوف ہے کہ اگر دنیا کے کسی خطے میں اسلام اپنی صحیح ہیئت کے ساتھ نافذ ہو گیا تو کمیونزم کی طرح مغربی نظامِ حیات (ویسٹرن سولائزیشن) بھی ریت کی دیوار کی طرح ڈھے جائے گا۔ اس خوف سے مغرب دنیا کی اسلام دشمن طاقتوں کو ساتھ ملا کر اسلام کے مقابلہ پر صف آرا ہو گیا ہے۔ اس کے نزدیک اسلام پر کاری ضرب لگنے یا اسے ختم کرنے کا تاریخ میں ایسا سنہری موقع اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔ آج کے دور میں اسلام پر مغرب کا یہ حملہ ایک نئے رخ سے ہے جسے ہم میڈیا دار کہہ سکتے ہیں۔ 

درحقیقت آج کا دور میڈیا کا دور ہے۔ اس کی طاقت ایٹم بم سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ میڈیا لاکھوں کروڑوں انسانوں کے ذہن و دماغ جس طرف چاہے موڑ دیتا ہے۔ غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ مغرب محض مؤثر اور طاقتور میڈیا کے ذریعے ہمارے ذہنوں پر حکومت کر رہا ہے۔ وہ میڈیا کے ذریعہ ہماری سوچ کو متاثر کرتا ہے اور منصوبے کے تحت اسے خاص رخ پر ڈالتا ہے۔ یہ دور جسمانی غلامی کا نہیں، ذہنی غلامی کا ہے۔ ماضی میں جب ضعیف قوموں کو غلام بنایا جاتا تھا، تجارتی مقاصد کے لیے کمزور ملکوں کی نوآبادی اور کالونی بنایا جاتا تھا، اس وقت مغرب نے ایشیا و افریقی عوام کو غلام بنایا تھا۔ اس دور میں آپ کو کہیں انسانی حقوق کا ذکر نہیں ملے گا کیونکہ انسانی حقوق کا فلسفہ مغربی استعمار کے مفادات کی نفی کرتا تھا۔ جب مغرب کی استعماری قوتوں کو آزادی کی تحریکوں کے آگے ہتھیار ڈال کر غلام ممالک سے رخصت ہونا پڑا تو اس کے ساتھ ہی انہیں ڈیماکریسی و جمہوریت اور انسانی حقوق کا خیال آگیا، تاکہ اس راہ سے بھی کمزور اقوام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا موقعہ مل سکے۔ 

اب مغرب نئی تیاریوں اور نئے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر سامنے آیا ہے۔ وہ جسم کے بجائے انسانی ذہنوں کو غلام بنانا چاہتا ہے۔ ذہنی غلامی، جسمانی غلامی سے کہیں زیادہ بدتر اور خوفناک ہوتی ہے۔ اور اس دور میں ذہن و فکر کو غلام بنانے کا سب سے مؤثر ذریعہ میڈیا ہے۔ اس وقت کا سب سے اہم مسئلہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا کی یلغار کا ہے۔ ادھر چند سالوں سے ہماری کمزوری اور بے حسی اور غفلت کے سبب میڈیا کے راستے بھارت کی دیومالائی تہذیب بھی حملہ آور ہو گئی ہے۔ شرک و بت پرستی جس کے تصور سے بھی ایک مسلمان کو کانپ جانا چاہئے تھا۔ اللہ کے آخری پیغمبر کا ارشاد ہے:

’’اے ابوذر! شرک تیرے نزدیک زندہ جلائے جانے اور جسم کے ٹکڑے کر دیے جانے سے زیادہ اشد اور خوفناک چیز ہو۔‘‘

اب ریڈیو، فلموں، ٹی وی پروگراموں اور سیٹلائٹ کے ذریعہ ہماری نئی نسلوں کے ذہن سے شرک و بت پرستی کی شناخت اور نفرت کھرچ کھرچ کر ختم کی جا رہی ہے۔ یہی نہیں مرزائی، قادیانی اسلام کے لبادے میں نئی نبوت کی دعوت اور ارتداد کی مہم پر سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ ہمیں نہ صرف میڈیا کے اس بے رحم حملے کو روکنا ہے بلکہ میڈیا کا متبادل فراہم کرنا، یہ وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جس پر بحیثیت مسلمان کے ہمارے وجود و بقا کا دارومدار ہے۔ اگر اب بھی ہم نے غفلت برتی تو تاریخ اور آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

معزز حضرات! 

اسلام کو ہر دور میں بڑے بڑے چیلنج کا سامنا رہا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اسلام پر چودہ سو سالہ دور میں اتنا نازک دور کبھی نہیں آیا۔ بلا شبہ تاتاریوں کا حملہ ایک بہت بڑا حملہ تھا، مگر اس کی نوعیت محض عسکری تھی اور چند ہی سالوں میں اسلامی تہذیب و علوم نے تاتاریوں کو دوبارہ فتح کر لیا تھا۔ اسی طرح اس صدی کے شروع میں کمیونزم کا حملہ ایک طاقتور فکری حملہ تھا، مگر اس کی نوعیت اصلاً‌ اقتصادی تھی۔ یہ مغرب کے بے لگام سرمایہ دارانہ نظام کا ردعمل تھا۔ مگر آج مغرب کا فکری حملہ تاریخ کا سب سے بڑا حملہ ہے، جو ہمہ جہتی ہے۔ یہ حملہ فکری بھی ہے اور علمی بھی، اقتصادی اور معاشی بھی ہے، تمدنی و تہذیبی بھی، سیاسی بھی ہے اور عسکری بھی، اور دنیا کے چپہ چپہ کو محیط ہے۔ روئے زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو اس کی یلغار اور دستری سے محفوظ ہو۔ 

اسلامی تاریخ میں مغرب کے اس فکری حملے کی مماثلت کسی حد تک دوسری صدی ہجری میں یونانی علوم و فلسفے کی یلغار سے دی جا سکتی ہے، جب اسلام دنیا میں تیزی سے پھیل رہا تھا۔ یونانی علوم و افکار و فکر و فلسفہ کو اسلام کی تیز رفتار ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ان علوم کو ذہن و فکر کو الجھانے اور دلوں میں ایمان و ایقان کی جگہ تذبذب و شکوک کے کانٹ ہونے کے لیے استعمال کیا گیا، تاکہ اسلام پر سے اعتماد کو متزلزل کر دیا جائے۔ لیکن اس دور کا مسلمان علم میں آگے ہی آگے بڑھ رہا تھا اور مسلم علماء و مفکرین کا ہاتھ زمانے کی نبض پر تھا۔ انہوں نے وقت کے چیلنج کو قبول کیا اور یونانی علوم میں مہارت حاصل کی۔ ان افکار و نظریات و فلسفوں کا تنقیدی جائزہ لیا۔ ان سے غیر اسلامی اجزاء کو خارج کر کے ان علوم و فنون کو اسلام کا معاون و مددگار بنا دیا۔ حتیٰ کہ آج یہ اسلامی علوم و فنون سمجھے جا رہے ہیں۔ گویا دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے یونانی فلسفہ و فکر کو مسلمان بنایا۔ اگر گزشتہ چند صدیوں سے مسلمان پسماندہ نہ رہ گئے ہوتے اور علماء کا علم و سائنس اور دور سے رشتہ نہ کٹ گیا ہوتا تو وہ مغربی افکار و نظریات کا دقتِ نظر سے تنقیدی جائزہ لیتے، ان سے فاسد اور مضر اجزاء کو علیحدہ کر کے انہیں اسلام کا معاون بنا لیتے۔

حضرات! 

اس کائنات میں انسانوں کی حقیقی تقسیم صرف ایک ہے اور وہ ایمان و کفر کی تقسیم ہے۔ ہر انسان مومن ہے یا کافر ہے۔ خالق کائنات کے نزدیک بھی، قرآن کے نزدیک بھی، تمام سماوی کتابوں کی رو سے بھی۔ آج بھی اور قیامت تک یہی سب سے بڑی اور قابلِ لحاظ تقسیم رہے گی۔ اس کے علاوہ دنیا میں انسانوں کی اور جتنی تقسیم ہے، خواہ ملکی علاقائی بنیاد پر ہوں، اور فوجی و نسلی بنیاد پر ہوں، یا لسانی بنیاد پر، یہ سب غیر حقیقی اور انسان کی خود ساختہ ہیں یا اس درجہ کی اہمیت نہیں رکھتی۔ 

جس طرح اسلام کا مقصد دنیا سے شرک و کفر کو مٹانا ہے، اسی طرح دنیائے کفر کا اولین مقصد اسلام اور مسلمان کو ختم کرنا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں، یہود کی ذہانت و ذکاوت اور مغرب کے وسائل اور طاقت اور برہمن کی مکاری و عیاری اسلام دشمنی میں متحد ہو چکی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے آج ہم میں سے بہت سے حضرات آنکھیں چراتے ہیں اور خود فریبی میں رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن حالات و واقعات اور قدرت کے تازیانے بار بار اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ 

میں آج کی نشست میں ایک بات کی طرف خاص طور سے توجہ دلانا چاہتا ہوں، جس کا مجھے گزشتہ چند دنوں میں کئی بار تجربہ ہوا۔ ہمارے بہت سے قابل احترام صحافی دوست ہر حالت میں غیر جانبداری کو اپنا طرہ امتیاز سمجھتے ہیں۔ یقیناً غیر جانبداری بہت بڑی خوبی ہے۔ قرآن مجید کی تعلیم ہے ’’لا يجر منكم شنان قوم علیٰ ان لا تعدلوا‘‘ کسی فرد یا قوم کی دشمنی و عصبیت تمہیں بے انصافی پر آمادہ نہ کرے۔ لیکن جہاں مسئلہ صحیح اور غلط کا ہو، حق و باطل کا ہو، ظالم و مظلوم کا ہو، وہاں غیر جانبداری سراسر ظلم ہے۔ وہاں اسلام کی تعلیم ہے کہ انسان غیر جانبدار نہیں بلکہ حق و صداقت کا طرفدار بنے۔ میں سمجھتا ہوں اس طرح کی اندھی غیر جانبداری مغربی فکر و تعلیم کی دین ہے۔ اور شاید اس کی ایک چال بھی کہ حق و باطل کے درمیان فرق و امتیاز کو ختم کر کے مسلمان کو غافل کر دیا جائے۔ لیکن آپ دیکھیں کہ مغرب غیر جانبداری کا ڈھونگ رچا کر ہر جگہ اسلام کے خلاف ڈنڈی مار دیتا ہے۔ جب اور جہاں اسلام کا مسئلہ آیا، مغرب کی جانبداری عیاں ہو جاتی ہے۔ 

اس کی ایک چھوٹی سی مثال پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی وہ رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بڑھنے کی وجہ اسلامی بنیاد پرستی کا رجحان ہے۔ اسے مغربی میڈیا نے خوب اچھالا ہے۔ آپ ذرا اس جملے کا تجزیہ کیجئے کہ اسلامی بنیاد پرستی کے رجحان کا کیا مطلب ہے؟ انسان کا مذہبی ہونا، شریعت کا پابند ہونا، جس شخص کو آخرت اور یوم الحساب کا خوف ہو، وہ ایسے فعل کا تصور بھی کر سکتا ہے؟ کجا یہ کہ دین داری کی وجہ اور سبب قرار دیا جانے، اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے بڑھنے والے واقعات کا۔ میڈیا کا یہ ایک جملہ کتنا خوف ناک ہے۔ اس میں اسلام کا کیا تصور ذہنوں میں بٹھانے کی کوشش کی۔ میڈیا نے ایک چھوٹے سے جملے سے اسلام کے خلاف کس قدر زہر ذہن میں بھرنے کی کوشش کی ہے۔

حضرات ! 

آج کی نشست میں مغربی فکر کے متعلق ذرا وضاحت سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں صحافت اور میڈیا کے مختلف شعبوں کے ذمہ دار حضرات تشریف فرما ہیں۔ آپ حضرات کا شمار ملّت کے انتہائی با خبر لوگوں میں ہے۔ آپ سے زیادہ کون اس حقیقت کو جانتا ہے کہ اس وقت دنیا میں دو فکروں کا تصادم برپا ہے۔ ایک اسلامی فکر، دوسری مغربی فکر۔ 

مغربی فکر کا خلاصہ دو لفظوں میں دین و سیاست کی علیحدگی سے کیا جا سکتا ہے۔ مغرب کے نزدیک مذہب خالصتاً‌ ً ایک نجی اور پرائیویٹ مسئلہ ہے۔ اس کے نزدیک مذہب کے حدود عقائد و عبادات پر ختم ہو جاتی ہے۔ اسے کسی اجتماعی مسئلہ میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہے۔ 

جب کہ اسلام اس تفریق کا قائل نہیں ہے۔ وہ انسان کے ہر انفرادی و اجتماعی مسئلے میں رہنمائی کرتا ہے۔ فرد، معاشرہ، سیاست، معیشت، نظامِ حکومت، بین الاقوامی تعلقات تک کے احکام و فرائض دیتا ہے اور ضابطے مقرر کرتا ہے۔ وہ انفرادی و اجتماعی کسی مسئلے میں انسان کو بے لگام نہیں چھوڑتا۔ 

مغرب گاڈ (God) کو، مسیح کو، اور بائبل کو مانتا ہے مگر صرف اس حد تک کہ مسیح کو خدا کا بیٹا مان لینا ہی نجات کے لیے کافی ہے۔ باقی وہ مسیح کو، ان کی لائی ہوئی شریعت و کتاب کو، حتیٰ کہ مسیح کے باپ کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ اجتماعی مسائل سیاست، معیشت و اقتصادیات، معاشرت، نظم و نسق، قانون میں دخل اندازی کرے۔ 

مغرب کے اس فکر و فلسفے کی جڑیں یورپ کی گزشتہ چار سو سالہ تاریخ میں پیوستہ ہیں۔ یورپ کے عوام ہزار ہا سال سے بادشاہت و مذہبی پادریوں کے ظلم کی چکی میں پس رہے تھے۔ سولہویں صدی عیسوی میں جب یہاں علم و سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور شروع ہوا اور یورپ کا انسان بیدار ہونے لگا، اس نے قدرت کے مخفی خزانوں کا انکشاف اور اس کی تسخیر شروع کی۔ اس وقت یہاں کے مذہبی رہنماؤں نے اپنی عاقبت نااندیشی سے علم و سائنس سے انکار کی راہ اختیار کی۔ یورپ کے اس دور کی مذہب و سائنس کی کشمکش کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے مذہبی راہنماؤں نے احتساب کی عدالتیں قائم کر کے ہزارہا انسانوں کو ان کے علمی نظریات کی بنیاد پر، جیسے زمین کا گول ہونا، حرکت کرنا، یا اس میں کشش کا ہونا، اذیت ناک سزائیں دیں اور انہیں زندہ جلایا، سولی پر چڑھایا۔ پادریوں کے اس علم دشمن رول کی وجہ سے یہاں کے عوام کے دلوں میں مذہب کے خلاف ایک طرح کا عناد جڑ پکڑ گیا کہ مذہب علم و سائنس کا دنیاوی ترقی و بہبود کا دشمن ہے۔ میں مذہب کے خلاف اس بدگمانی میں یورپ کے اقوام کو بڑی حد تک معذور سمجھتا ہوں۔ 

توقع تھی کہ آہستہ آہستہ یہ زخم بھر جائے گا اور نفسِ مذہب کے خلاف جو نفرت و عناد پیدا ہو گیا ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ لیکن اس دوران یہاں ایک اور شاطر و عیار طبقہ سامنے آگیا جس نے اس وقت صورتحال سے فائدہ اٹھا کر مذہب دشمنی کی چنگاری کو ہوا دینی شروع کی، تا کہ مذہب دشمنی کی آگ پر اپنے مفادات کی روٹیاں سینک سکے، اور خدا و مذہب کی جگہ اپنا اقتدار قائم کر سکے۔ یہ طبقہ تھا نسل پرست صہیونیت اور یہاں کے اشرافیہ کا۔ 

یہ انسانیت کی بدقسمتی تھی کہ گزشتہ صدیوں میں دنیا کے بیشتر حصہ پر اور عالمِ اسلام پر یورپ کی حکمرانی رہی۔ اس نے تعلیم، ابلاغ اور تمام وسائل بروئے کار لا کر اس مغربی فکر کو ذہنوں میں اس طرح راسخ کر دیا کہ مسلم دنیا کا کوئی طبقہ اس کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکا۔ حتیٰ کہ علماء کا طبقہ جن کا استعمار دشمنی اور اخلاص وطن کی راہ میں جہاد قربانی کا نہایت شاندار اور عظیم ریکارڈ ہے، وہ بھی غیر شعوری طور پر اس فکر کا شکار ہو گیا۔ 

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دینی مدارس و جامعات میں فقہ و حدیث کے درس میں استاد کا پورا زورِ بیان اور تحقیق عقائد و عبادات پر رہتی ہے۔ کتاب الطہارت سے کتاب الحج تک۔ زیادہ زور مارا تو کتاب النکاح و کتاب الطلاق۔ حالانکہ احادیث و فقہ کی انہیں کتابوں میں کتاب البیوع بھی ہے، کتاب الاجارہ، کتاب الامارہ بھی۔ کتاب المزارعہ بھی اور قضا، سیاست اور مملکت کے متعلق دیگر ابواب بھی۔ مگر ہم ان سے اس طرح گزر جاتے ہیں گویا یہ سب منسوخ ہو چکے ہیں۔ 

۱۸۵۷ء میں علماء نے جس دشمن کے خلاف جہاد شروع کیا تھا، ان کے بعد والوں نے اس کی فکر کو گلے لگا لیا۔ ایک عزیز نو مسلم دوست کا تجزیہ جو یہاں تشریف فرما ہیں، مجھے بہت پسند آیا۔ گزشتہ دنوں ایک ملاقات میں انہوں نے کہا کہ برصغیر میں ۱۸۵۷ء میں مسلم حکمرانوں اور علماء نے انگریز سے جو شکست کھائی تھی، اس وقت علماء نے محسوس کر لیا تھا کہ عسکری میدان میں انگریزی قوت کا مقابلہ نہیں ہو سکتا، اگر مزید میدان میں ٹھہرے تو انگریز کچل کر ختم کر دے گا۔ انہوں نے وقت کی حکمتِ عملی کے تحت دیوبند، گنگوہ جیسے چھوٹے چھوٹے قصبات میں دینی مراکز قائم کیے تاکہ جتنا دین بچایا جا سکے بچا لیا جائے۔ چنانچہ وہ دینی علوم و فنون، اسلامی معاشرت و تمدن، اور ایک مسلمان کا خدا و مذہب سے تعلق باقی رکھنے کی جدوجہد میں لگ گئے۔ اگرچہ ان کے پیش نظر افراد سازی اور بھرپور تیاری کر کے دوبارہ میدان میں آنا بھی تھا۔ مگر بعد کے حالات نے انہیں فرصت نہیں دی۔ 

ان علماء کے میدان چھوڑنے سے جہاں یہ فائدہ ہوا کہ ہندوستان دوسرا اسپین بننے سے بچ گیا، وہیں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ علماء کا طبقہ زمانے سے کٹ گیا۔ علم و فکر کا قافلہ ۱۸۵۷ء میں جہاں تھا، یہ اب تک اسی بارڈر (سرحد) پر ہے۔ اس ڈیڑھ صدی میں علم و سائنس اور صنعت و ٹیکنالوجی نے جو بے مثال ترقی کی ہے، یہ اس سے بے بہرہ رہ گئے، جس کی وجہ سے زمانے کو سمجھنے کی بصیرت اور شعور گھٹتا چلا گیا۔ لیکن ہمیں اعتراف کرنا چاہیے، آج جتنا دین، علم باقی ہے حتیٰ کہ یہاں مغرب میں بھی مساجد و مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے، یہ سب انہیں حضرات کی سعی و کاوشوں کا ثمر ہے۔

آج دنیا میں تصادم دو فکروں کا ہے، اور بظاہر مغربی فکر ہر طرح حاوی اور غالب توانا و طاقتور ہے۔ لیکن اہلِ بصیرت سے مخفی نہیں کہ مغربی فکر و تہذیب اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہے۔ عرصہ سے اس کا کھوکھلا پن نمایاں ہو چکا ہے۔ اس کے اندر انسانیت کو مزید کچھ دینے کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال کے یہ تہذیب اپنے ہی خنجر سے خود کشی کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے مفکرین اور دانش ور ہی نہیں، آپ کا پرائم منسٹر بھی بنیادوں کی طرف واپسی کی مہم چلانے پر مجبور ہے۔ کہاں تو اسلام کے خلاف بنیاد پرستی کی گالی وضع کی تھی، اور کہاں بنیادوں کی طرف واپسی کی مہم چل پڑی۔ 

علامہ اقبال نے یورپ کے آخری سفر سے واپس جاتے ہوئے فلسطین کے خطاب میں ایک فکر انگیز بات فرمائی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ  پوری انسانیت کی آخری پناہ گاہ بالآخر اسلام ہی ثابت ہو گا، یہ بات مغرب جتنی جلد سمجھ لے اس کے لیے بھی بہتر ہے اور مشرق کے لیے بھی۔

ایک جگہ علامہ نے لکھا ہے کہ میں نے تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے، میں نے یہ عجیب بات دیکھی کہ جب کوئی نازک وقت آیا تو اسلام نے آگے بڑھ کر مسلمان کی حفاظت کی، مسلمان نے کبھی اسلام کی حفاظت نہیں کی۔ 

علامہ اقبال کہا کرتے تھے، اس دور کا مجدد کہلانے کا وہی شخص مستحق ہو گا جو اسلامی شریعت کی برتری ثابت کرے اور زندگی سے اس کا پیوند لگائے اور ثابت کرے کہ اسلامی قانون وضعی قانون اور انسانوں کے تمام تر خودساختہ قوانین سے آگے ہے۔ زمانے کی آگے کی چیز ہے، زمانہ اس سے آگے نہ بڑھ سکا۔ 

دنیا نے خواہ کتنی ہی ترقی کی ہو لیکن اسلامی قوانین اس کی راہنمائی کی اب بھی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کے تمام سوالات کے جوابات دیتے ہیں، انسانی زندگی میں پیدا ہونے والے تمام مسائل کا حل ان کے اندر موجود ہے، ان میں ایک بالغ اور ترقی یافتہ زمانے اور معاشرے کی تنظیم کی بہترین صلاحیت ہے۔ 

حضرات ! 

اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ اور سب سے عظیم بحران یہ ہے کہ مغربی فکر و تعلیم نے اسلام پر جدید طبقے کے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔ آج کا تعلیم یافتہ انسان کہتا ہے کہ اسلام نے ایک زمانے میں بے شک اچھا کام کیا تھا، اچھا پارٹ ادا کیا تھا، اب زمانہ بدل گیا ہے، اس وقت زمانہ بہت ہی غیر ترقی یافتہ تھا، اب ماڈرن ہو چکا ہے، زمانہ بہت ترقی کر گیا ہے، اب اسلام اس زمانے کا ساتھ نہیں دے سکتا۔

یہ ہے وقت کا اہم مسئلہ۔ آپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ اسلام اس تنزل کے بعد بھی زمانے کو ہلاکت سے بچا سکتا ہے۔ اسلام اس دور کو راہ پر لگا سکتا ہے۔ اسلام اس زمانے کو مبارک بنا سکتا ہے۔ اسلام اس زمانے کو رہنے کا سلیقہ سکھا سکتا ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ کا اسلام پر اعتماد واپس لانا ہے۔ اسلام کی ابدیت پر، اس کی افادیت پر، اس کی صلاحیت پر یقین بحال کرنا ہے۔ 

میرا ۲۰ سالہ تجربہ ہے، ہم لوگ مکتب و مدرسہ میں ۶، ۷ سے سالہ بچے کو اسلام پڑھاتے ہیں۔ جب بچہ ۱۳، ۱۴ سال کی عمر میں مکتب سے فارغ ہو کر نکلتا ہے تو یہاں میڈیا اس کے ذہن کو اس طرح شکار کرتا ہے اور اس پر قبضہ کرتا ہے کہ چند سال میں جو کچھ اس نے مسجد و مدرسہ میں پڑھا تھا اس کا بڑا حصہ بھول چکا ہوتا ہے اور اس پر یہاں کا رنگ چڑھ جاتا ہے۔ ہماری مثال قرآن کی اس بڑھیا کی سی ہے، جو صبح سے شام تک چرخا کاتتی ہے اور شام کو اسے الٹا گھما کر خود برباد کر دیتی ہے۔ اسی طرح ہماری ساری دینی تعلیم و کوششوں پر یہاں کا میڈیا پانی پھیر دیتا ہے۔ ہم بچے کے ذہن، دماغ میں اسلام کی بنیادیں تعمیر کرتے ہیں اور میڈیا اسے مسمار کر دیتا ہے۔ 

مغرب کے میڈیا کا اسلام کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار انسانی حقوق کا مسئلہ ہے جسے مغربی میڈیا نہایت عیاری سے اسلام کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ نصف صدی پہلے تک جن لوگوں کے نزدیک کروڑوں انسانوں کی حیثیت حیوانوں سے زیادہ نہیں تھی، وہ اچانک انسانی حقوق کے ٹھیکیدار بن گئے۔ گویا پرانے شکاری اب نیا جال لے کر آئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تعریف کیا ہے، اس کی حدود کیا ہیں اور وہ کہاں پامال ہو رہے ہیں؟ اس کا فیصلہ بھی امریکہ اور مغرب کرے گا تاکہ اس حوالے سے بھی مغرب کو کمزور ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا موقع مل سکے۔ آپ فلسطین سے فلپائن تک، بوسنیا سے کشمیر تک، مغرب کے انسانی حقوق کی حقیقت کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ آج کل مصر اور الجزائر میں ہزاروں بے قصور انسانوں کو جس طرح بے رحمی سے قتل کیا جا رہا ہے، اس پر مغربی میڈیا کی مجرمانہ خاموشی بہت کچھ بتا رہی ہے۔ 

مغرب کے انسانی حقوق کی حقیقت سمجھنے کے لیے ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔ پاکستان کے ممتاز دانش ور جناب ڈاکٹر صفدر محمود نے روزنامہ جنگ میں اپنا ایک دلچسپ واقعہ لکھا تھا۔ انہیں جون ۱۹۹۱ء میں ایک بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کے لیے سان فرانسکو جانا پڑا ۔ سیمینار میں ایشیائی ممالک اسکالرز کے علاوہ مختلف امریکی یونیورسٹیوں سے بھی ممتاز پروفیسر صاحبان بلائے گئے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے سیمینار کے آغاز سے ایک روز پہلے ٹی وی آن کیا تو ایک دلچسپ خبر سننے کو ملی۔ کیلی فورنیا کی ریاست میں جنگلات کے وسیع ذخیرے پائے جاتے ہیں۔ سال بھر تعمیرات کے لیے لکڑی کی کٹائی کا عمل جاری رہتا ہے۔ خبر یہ تھی کہ کٹائی کے دوران ماہرین جنگلات کو اچانک پتہ چلا کہ اس جنگل میں ایک الو صاحب نے اپنا ایک مستقل گھر بنا رکھا ہے۔ اور جب سے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ شروع ہوا ہے، الو صاحب اداس رہنے لگے ہیں، الو کی اداسی کی خبر سے اس علاقے میں احتجاج ہوا اور کیلی فورنیا کی حکومت نے کٹائی روک دی۔ جس سے لکڑی کی قیمت میں اضافہ ہو گیا اور مکانوں کی تعمیر قدرے مہنگی ہو گئی۔ 

اگلے دن سیمینار کے دوران چائے کا وقفہ ہوا تو میں نے ممتاز امریکی پروفیسر صاحبان سے اس خبر کا تذکرہ کیا، وہ پہلے ہی اس سے آگاہ تھے، ان کے چہرے خوشی سے گلاب کی طرح کھل گئے، اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے یہ سوال داغ دیا کہ آپ نے ایک پرندے کی اداسی کی خاطر جنگل کی کٹائی روک کر لکڑی کی قیمت میں اضافہ برداشت کر لیا، لیکن چار ماہ قبل عراق کے بے قصور اور معصوم شہریوں پر بموں کی بارش کی جا رہی تھی اس پر یہاں کوئی احتجاج نہیں ہوا، کیا آپ کو ایک جانور ہزاروں مسلمانوں کی زندگی سے زیادہ عزیز ہے؟ وہ لکھتے ہیں، میرے سوال سے ان کے چہروں کے رنگ اڑ گئے۔ اس ایک واقعہ سے مغرب کے انسانی حقوق کی حقیقت کا اندازہ لگا کر سکتے ہیں۔

معاف کیجئے! بات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی۔ غرض اس دور کا سب سے بڑا چیلنج میڈیا ہے۔ اور یہ انسانیت کی بد قسمتی ہے کہ میڈیا کا مؤثر ترین اور طاقتور ہتھیار ان لوگوں کے پاس ہے جن کے پاس نہ انسانیت کے غم میں پڑنے والا دل ہے اور نہ اس کی بدنصیبی پر آنسو بہانے والی آنکھیں، نہ انسانیت کی بہبودی و تعمیر کا کوئی پروگرام۔ میڈیا کی عظیم طاقت تعمیر کی بجائے تخریب کے لیے، کردار و اخلاق سنوارنے کی بجائے بے حیائی اور اخلاقی قدروں کی پامالی کے لیے، انسانوں کی رہنمائی کے بجائے اسے راہ سے بھٹکانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ 

اس وقت کا چیلنج اور تقاضا ہے کہ وہ لوگ جو خیر امت ہونے کے دعوے دار ہیں، جو انسانیت کے سب سے بڑے محسن اور بہی خواہ کی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کے سارے انسان اللہ کی فیملی ہے، اور خدا کے نزدیک بہتر وہ ہے جو انہیں نفع اور فائدہ پہنچانے والا ہے، اور جو انسانیت کی تباہی اور بربادی کا غم رکھتے ہیں، آگے بڑھیں اور جس طرح ابھی میں نے عرض کیا تھا کہ آپ کے اسلاف نے دوسری صدی ہجری میں یونانی فکر و فلسفہ کا چیلنج قبول کر کے اسے اسلام کا معاون بنا لیا تھا، ان کے نقشِ قدم پر آپ آج کا چیلنج قبول کریں۔ اس میڈیا کو مسلمان بنائیں۔ اس صحافت کو ریڈیو، ٹی وی اور سیٹلائیٹ کو مشرف باسلام کریں۔ انہیں انسانیت کی تعمیر و بھلائی کے لیے استعمال کریں۔ علوم کی اشاعت، اخلاق کی تعمیر، کردار سازی اور بھٹکی ہوئی انسانیت کی راہنمائی کے لیے استعمال کریں۔ 

الحمد للہ یہاں میڈیا کے مختلف شعبوں کے ماہرین اور ذمہ دار تشریف فرما ہیں، میں ان سے درخواست کروں گا کہ اس چیلنج کو قبول کریں اور (ورلڈ اسلامک) فورم کی کوششوں میں تعاون و رہنمائی کریں۔ یہ کام صرف علماء یا کسی خاص طبقہ کا نہیں بلکہ ہر مسلمان کا ہے۔ یہ اس ملتِ بیضاء کی خصوصیت رہی ہے کہ جب اسلام نے پکارا تو مسلمانوں کے تمام طبقات نے دل و جاں کی بازی لگا دی۔ آپ کو مغربی فکر و میڈیا کا جواب اسی یورپ کی سرزمین پر دینا ہے۔ 

مغربی میڈیا کا متبادل فراہم کرنا مسلم دنیا کی ۵۰ سے زائد حکومتوں کی دینی قومی اور اخلاقی ذمہ داری تھی۔ مگر یہ حکومتیں اب تک کوئی خبر ساں ایجنسی تک قائم نہ کر سکیں۔ مغرب نے ہر جگہ اپنے آلہ کار مسلط کر رکھے ہیں۔ مراکش سے انڈونیشیا تک ہر جگہ ایک ’’حسنی مبارک‘‘ مسلط ہے جس کا کام مغرب کے مفادات کی نگہبانی، اپنی قوم کو ویسٹرن سولائزیشن کی بالادستی کے لیے تیار کرنا، اور مسلمانوں کی دینی حمیت و غیرت کو ختم کرنا ہے۔ 

ویسے تو ۲۰ سال سے مسلم ممالک کی تنظیم (OIC) کے ایجنڈے پر میڈیا سرفہرست ہے اور جدہ میں برس ہا برس سے اس کے لیے ایک عالیشان عمارت میں دفتر بھی قائم ہے۔ مگر اہلِ نظر جانتے ہیں کہ اس کا مقصد عالمِ اسلام کے لیے خبر رساں ایجنسی و سیٹلائیٹ کا قیام نہیں بلکہ مسلم دنیا میں اگر کوئی کام ہو رہا ہے تو اسے روکنا ہے۔ مسلم دنیا کے حکمران ہی نہیں، ان کے زیر اثر دینی تنظیموں تک کے لیے اسلام سے زیادہ مغرب کا وفادار و بہی خواہ ہونا ضروری ہے۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی قابل ہو جب تک ’’پرو امریکی‘‘ نہ ہو وہ رابطہ عالمِ اسلامی کا ممبر بن نہیں سکتا۔ اگر وہ دل میں اسلام اور مسلمانوں کا درد رکھتا ہے تو ڈاکٹر عبد اللہ عمر نصیف کی طرح علیحدہ کر لیا جائے گا۔ اس صورتحال کے پیش نظر (ورلڈ اسلامک) فورم کی کوشش ہے کہ میڈیا کی کوششیں مسلم حکومتوں کے اثر سے آزاد رہ کر کی جائیں۔ ہمارا مقصد کسی صدام، کسی قذافی، کسی شیخ، کسی خادم الحرمین کے لیے کام کرنا نہ ہو بلکہ صرف اللہ و رسول کی خوشنودی اور اسلام اور مسلمانوں کے لیے ہونا چاہیے۔

میں ایک بات واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ مغرب کے ۹۵ فیصد عوام کی اسلام سے کوئی لڑائی نہیں، یہ غریب خود منزل کی تلاش میں سرگرداں اور ایک مخصوص طبقے کے ستم کا شکار ہیں۔ یہ محبت و شفقت اور رحم کے مستحق ہیں بلکہ درحقیقت ہمارے لیے RAW میٹریل ہیں۔ انہیں میں سے آج کے عکرمہ بن ابی جہل، خالد بن ولید پیدا ہو سکتے ہیں۔ ان میں ہزار ہا یوسف اسلام اور یحیٰی، اسلام کے علمبردار بن سکتے ہیں۔ 

آخر میں پھر آپ حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے فورم کے اس سیمینار میں تشریف لا کر ہماری حوصلہ افزائی کی۔ اقبال کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ؎

معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز 
از خواب گراں خواب گراں خواب گراں خیز


عالم اسلام اور مغرب

(نومبر ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter