حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم کا دورہ جنوبی افریقہ

مفتی محمد جمیل خان

دار العلوم زکریا جنوبی افریقہ کا سب سے بڑا مدرسہ ہے جو تعلیم، تربیت اور تعمیر ہر لحاظ سے مثالی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نور اللہ مرقدہ کے اسم گرامی سے منسوب یہ مدرسہ حضرت شیخ الحدیث کے حکم اور ایما پر قائم کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ جب حضرت شیخ الحدیث ۱۹۷۵ء میں جنوبی افریقہ اعتکاف کے لیے تشریف لائے تو آپ نے اپنے خلفاء اور متعلقین علمائے کرام پر برہمی کا اظہار فرمایا کہ اتنے علمائے کرام کسی ملک اور خطہ میں موجود ہوں اور دینی مدرسہ قائم نہ ہو۔ علمائے کرام نے وعدہ کیا اور دعا کی درخواست کی۔ 

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی دعا اور ترغیب نے جلد ہی اثر دکھایا اور اللہ تعالیٰ نے محدث العصر عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم مفسر کبیر عالم جلیل اخلاص کے پیکر علم و عمل کے منبع حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ اور ان کے شاگرد خاص جانشین مولانا بنوریؒ، امام اہل السنت فقیہ ملت تواضع و انکساری کے پیکر زہد و تقویٰ کے امام حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ کے منظور نظر مولانا شبیر احمد سالوجی کے حصہ میں آئی اور دسمبر ۸۳ء میں دارالعلوم زکریا کے نام سے زکریا پارک لینیشا میں مدرسہ قائم کر دیا۔ 

مولانا بنوریؒ کا اخلاص، حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ کی دعائیں، مفتی احمد الرحمٰنؒ کے مشورے اور رفاقت، اور تمام اکابر کی توجہات نے اس مدرسہ کو بہت ہی قبولیت سے سرفراز فرمایا اور بہت ہی جلد اس نے ترقی کے منازل طے کیے اور اس وقت دنیا بھر کے بڑے مدارس میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت مفتی احمد الرحمٰنؒ کے مشورے سے جب سے اس مدرسہ میں بنوری ٹاؤن کے استاد حضرت مولانا رضاء الحق تشریف لائے ہیں، مدرسہ نے علمی اعتبار سے بہت زیادہ بلندی حاصل کی ہے۔ حضرت مولانا رضاء الحق صاحب کو اللہ تعالیٰ نے علمی ثقاہت اور سادگی سے نوازا ہے۔ تخصص سے فارغ ہوتے ہی حضرت مولانا بنوریؒ نے بنوری ٹاؤن میں استاذ کی حیثیت سے تقرر فرما دیا۔ حضرت مفتی احمد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ نے جو ہر کی قدر شناسی کی اور بڑی کتب کے ساتھ دار الافتاء میں بڑے اہم منصب پر فائز کر دیا۔ مولانا شبیر صاحب نے جب بخاری شریف کے لیے استاد طلب کیا تو مفتی صاحب نے ایثار کرتے ہوئے مولانا رضاء الحق کو دار العلوم زکریا بھیج دیا۔ 

اس مدرسہ کی ترقی میں جہاں ان حضرات کے اخلاص اور محنت و لگن کو دخل ہے، وہیں ان حضرات کی اکابر علمائے کرام سے محبت نے اس مدرسہ کو تمام اکابر کی توجہات کا مرکز بنایا ہوا ہے۔ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے طریقہ کے مطابق ان کی بھی خواہش رہتی ہے کہ بڑے بڑے اکابر علمائے کرام مدرسہ میں تشریف لاتے رہیں۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ تو چونکہ دار العلوم کے قیام سے قبل ہی انتقال فرما گئے تھے، اس لیے ان دونوں بزرگوں کی قدم بوسی سے تو یہ حضرات محروم رہے البتہ ان دونوں بزرگوں کی دعائیں شامل ہیں۔ 

ان کے بعد کے تمام اکابر جن میں حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہیؒ، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ، مولانا قاری محمد طیبؒ، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، حضرت مولانا مرغوب الرحمٰن، حضرت مولانا اسعد مدنی، حضرت مولانا ارشد مدنی، مولانا محمد ادریس میرٹھی، حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰنؒ، حضرت مولانا صدیق احمد، حضرت مولانا جسٹس محمد تقی عثمانی، حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، حضرت مولانا سعید احمد پالنپوری، حضرت مولانا عبد الستار تونسوی، مولانا محمد مالک کاندھلوی، مولانا مفتی زین العابدین، مولانا احمد خان پوری، شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب مظاہر العلوم سہارنپور، مولانا عبد اللہ کاپودروی، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ صاحب، مولانا محمد حبیب اللہ مختار، الحاج بھائی عبد الوہاب، مولانا محمد پالنپوری، مولانا بدیع الزماں، حضرت الشيخ عبد الفتاح ابو غدہ، الشیخ ڈاکٹر عمر نصیف، الشيخ محمد علی صابونی، ائمہ حرمین الشيخ عبد اللہ السبیل، الشیخ صالح حمید، الشيخ علی عبد الرحمٰن الحذیفی، الشیخ ڈاکٹر محمد صیام امام مسجد اقصیٰ، مولانا محمد طاسین، مولانا فضل الرحمٰن، الشيخ مطیع الرسول، مولانا محمد مکی، مولانا عبد الحفیظ مکی، مولانا محمد طلحہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ 

ان اکابر علمائے کرام کی تشریف آوری میں دارالعلوم کے مہتمم مولانا شبیر احمد اور شیخ الحدیث مولانا رضاء الحق کی محنت کو خاص دخل ہے۔ اس حوالے سے مولانا شبیر احمد سالوجی اور مولانا محمد ابراہیم بھامجی ۱۹۸۷ء میں شیخ الحدیث استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر زید مجدہم کی خدمت عالیہ میں تشریف لے گئے اور ان کو جنوبی افریقہ اور دارالعلوم زکریا میں تشریف آوری کی دعوت دی۔ حضرت مولانا زید مجدہم نے حسبِ دستور عذر پیش کیا اور اپنی تعلیمی مصروفیات کو وجہ عذر بنایا۔ یہ حضرات مایوس تو ہوئے لیکن ہمت نہیں ہاری۔ بارہا حضرت کی خدمت میں درخواست پیش کرتے رہے، گزشتہ دنوں مولانا شبیر احمد سالوجی پاکستان آئے تو وہاں سے انہوں نے اس عزم کے ساتھ گوجرانوالہ کا سفر کیا کہ حضرت کو اس مرتبہ سفر پر راضی کرنا ہے۔ آخر کار حضرت مولانا نے مولانا شبیر احمد کے اخلاص اور محبت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور سہ ماہی امتحان کے موقع پر ایک ہفتہ کا وقت دیا۔ 

کراچی پہنچنے پر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی سے ٹیلی فون پر گفتگو فرماتے ہوئے حضرت مولانا نے سفر کے متعلق فرمایا: 

’’سفر کا متحمل تو نہیں تھا، افریقہ کے مولانا شبیر احمد کے سالہا سال سے اخلاص کے ساتھ دعوت دینے پر مجبور ہو گیا۔ اس دفعہ انہوں نے ساتھ یہ لالچ بھی دی کہ واپسی میں عمرہ کی سعادت بھی حاصل ہو جائے گی۔ آخری عمر میں اس عمرہ کی سعادت کے حصول کے لیے یہ طویل سفر اختیار کر لیا ورنہ درس کی مصروفیت اور ضعف اس سفر کی اجازت نہیں دیتے۔‘‘

جمعرات ۶ جولائی کو حضرت زید مجدہم گوجرانوالہ سے پہلے لاہور تشریف لائے۔ ہوائی اڈے پر ’’اقراء روضۃ الاطفال‘‘ شاخ سیدنا معاذ بن جبلؓ نیو گارڈن ٹاؤن متصل مسجد باب المستجاب کلمہ چوک لاہور کے ناظمِ تعلیمات مولانا قاری شبیر احمد، ناظم الامور مولانا عبد الغفار، نگران جناب محمد قاسم ظہور نے کراچی کے لیے شام سوا چھ بجے بذریعہ ہوائی جہاز روانہ فرمایا۔ لاہور تک حضرت کے صاحبزادے مولانا عبد القدوس قارن بھی ہمراہ تھے۔ 

کراچی ایئرپورٹ پر حضرت کے دیرینہ خادم بھائی شمیم احمد شمسی استقبال کے لیے موجود تھے۔ حضرت ان کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت نے رات کو وہیں قیام فرمایا۔ برادرم عبد الرزاق خان حضرت کی خدمت میں تشریف لائے اور ٹکٹ اور پاسپورٹ وغیرہ دیتے ہوئے سفر کا نظم بتایا۔ الحمد للہ راقم الحروف کو معیت کی سعادت حاصل ہوئی۔ 

صبح چھ بجے حضرت کراچی ایئرپورٹ پر پہنچے اور گلف ایئر لائن کی پرواز سے ساڑھے ساتھ بجے پہلے ابو ظہبی اور پھر ابو ظہبی سے گیارہ پچپن پر جنوبی افریقہ کے دارالحکومت جوہانسبرگ کے لیے گلف کی ہی فلائٹ سے روانگی ہوئی۔ پاکستان اور جوہانسبرگ کے وقت میں تین گھنٹے کا فرق ہے۔ جوہانسبرگ کا وقت تین گھنٹے پیچھے ہے۔ سوا آٹھ گھنٹہ کی تقریبا" فلائٹ تھی، پاکستان کے وقت کے مطابق دس بجے ابوظہبی کے وقت کے مطابق نو بجے اور جوہانسبرگ کے وقت کے مطابق سات بجے جوہانسبرگ ایئر پورٹ پر پہنچے۔ 

ایئرپورٹ پر دارالعلوم زکریا کے مہتمم اور حضرت کے میزبان مولانا شبیر احمد سالوجی، دار العلوم زکریا کے شیخ الحدیث مولانا مفتی رضاء الحق صاحب، اساتذہ، مولانا سلیمان گھانجی، حافظ بشیر احمد صاحب وغیرہ نے استقبال کیا۔ وہاں سے رات نو بجے دارالعلوم زکریا پہنچے۔ دارالعلوم میں اساتذہ کرام جمع تھے ان سے ملاقات ہوئی۔ عشائیہ کا اہتمام تھا۔ نماز فجر دارالعلوم زکریا کی وسیع و عریض مسجد میں حضرت زید مجدہم کی امامت میں ادا کی گئی۔ نماز کے بعد حضرت نے تمام طلبائے کرام کو مختصر درس دیا۔ 

ہفتہ، اتوار افریقہ میں عام طور پر کاروبارِ زندگی اور تعلیم کی چھٹی ہوتی ہے۔ صرف بڑے مدارس اس سے مستثنیٰ ہیں۔ مولانا شبیر احمد سالوجی اور مفتی رضاء الحق صاحب کی رائے ہوئی کہ افریقہ کا مشہور جنگل کردکر پارک کی سیر کر لی جائے جہاں جانور آزادی کے ساتھ گھومتے ہیں اور انسانوں کے لیے حکم ہے کہ وہ گاڑیوں کے شیشے بند کر کے اس کی سیر کریں تاکہ جانوروں کی آزادی میں خلل نہ آئے اور انسانوں کو نقصان بھی نہ پہنچے۔ وہ پارک تقریباً ساڑھے تین کلو میٹر مدرسہ سے دور ہے۔ گیارہ بجے روانگی ہوئی۔ وائٹ ربور میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور خادم خاص مولانا محمد گاوری تشریف رکھتے ہیں۔ یہ خاندان علمائے کرام کا خادم ہے۔ مہمان نوازی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کو مولانا شبیر احمد صاحب نے اطلاع کرائی کہ وہ دوپہر کا سفری کھانا تیار کر کے افریقہ کی مشہور آبشار ’’صابی‘‘ کے علاقہ میں آجائیں۔ ۳ بجے آبشار پر پہنچے۔ خوبصورت مناظر کے درمیان یہ آبشار قدرت کی صناعی کا بہترین مظہر ہے۔ ایک گھنٹہ تقریباً‌ یہاں گزارا۔ ۴ بجے مولانا سعید گاوری صاحب کی مسجد جامع مسجد وائٹ ربور میں واپسی ہوئی۔ عصر کی نماز ادا کی۔ مغرب کے بعد حضرت نے نمازیوں سے خطاب فرمایا۔ 

رات کا قیام وائٹ ربور کے اس مہمان خانہ میں ہوا جو گاوری خاندان نے علمائے کرام کے لیے مخصوص کیا ہوا ہے۔ تمام وسائل سے مزین مہمان خانہ خاندان کے بہترین ذوق کا مظہر ہے۔ نماز فجر ادا کر کے افریقہ کے مشہور جنگل کردکر پارک روانہ ہوئے، تقریباً‌ ساڑھے چھ بجے پہنچ گئے۔ ۸۰ میل چوڑا، ساڑھے تین سو میل لمبا یہ جنگل اپنی اصلی حیثیت میں موجود ہے۔ بس سڑکیں بنا دی گئیں۔ گھنے جنگل میں ہرن، زیبرے، زرافے، بندر، جنگلی بھینسے، نیل گائے، شیر، ہاتھی اپنی اصلی حالت کے مطابق گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اکثر لوگ شیر اور چیتے کو شکار کرتے ہوئے دیکھنے کے لیے کئی کئی دن گھومتے ہیں۔ دیگر جانور تو خوب نظر آئے البتہ شیر اور ہاتھی وغیرہ ہم لوگ نہ دیکھ سکے (پہلے سفر میں ان جانوروں کو گھومتے دیکھا تھا) دو بجے واپسی ہوئی اور رات نو بجے دار العلوم زکریا پہنچ گئے۔

بروز پیر نماز فجر کے بعد طلباء دارالعلوم زکریا سے مختصر خطاب فرمایا۔ بعد ازاں مولانا شبیر احمد کے گھر پر ناشتہ کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر دارالعلوم کے شیخ الحديث مولانا رضاء الحق اور مہتمم مولانا شبیر احمد سالوجی نے درخواست کی کہ ہم نے تفسیر قرآن تو مختلف علمائے کرام سے حاصل کی لیکن ہماری خواہش ہے کہ چونکہ تفسیر میں آپ کو حضرت مولانا حسین علی صاحبؒ سے خصوصی تلمذ کا شرف حاصل ہے، آپ اجازت مرحمت فرما دیں تو ہمیں بھی یہ اعلیٰ نسبت حاصل ہو جائے گی۔ حضرت اقدس نے ان حضرات کی درخواست قبول فرماتے ہوئے خطاب کیا اور اجازت مرحمت فرمائی۔ 

بعد ازاں مولانا شبیر احمد سالوجی کی درخواست پر ان کی اہلیہ جو کہ ما شاء اللہ عالمہ ہیں، ان کو بھی تفسیر قرآن اور حدیث شریف کی اجازت مرحمت فرمائی اور ان کو تلقین کی کہ وہ عورتوں میں تفسیر قرآن کا سلسلہ شرع کریں اور عورتوں کو مسائل فقہیہ خصوصاً روز مرہ کے مسائل ضروریہ سے آگاہ کریں۔ صبح دس بجے بروز پیر حافظ محمد یوسف صاحب (جنہوں نے حضرت اقدس کے سفر کے اخراجات کی ذمہ داری اٹھائی) کی دکان دسترنگ تشریف لے گئے۔ ظہر کی نماز ان کی دکان پر ادا فرمائی اور اس کے بعد مختصر نصیحت فرمائی۔

بروز پیر بعد نماز مغرب دارالعلوم زکریا میں اساتذہ کرام اور طلباء دورہ حدیث و مشکوٰۃ کی درخواست پر حضرت نے بخاری شریف کی حدیث کا درس دیتے ہوئے حدیث کی اجازت مرحمت فرماتے ہوئے مختصر خطاب کیا۔ 

قبل ازیں دارالعلوم کے مہتمم مولانا شبیر احمد سالوجی نے شیخ الحدیث مفتی رضاء الحق اور دیگر اساتذہ کرام کی طرف سے حضرت اقدس کی دارالعلوم زکریا کے مہمان کی حیثیت سے تشریف آوری پر اظہار تشکر کرتے ہوئے اسے جامعہ کی روحانی اور مادی ترقی کے لیے ایک ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ۱۹۸۷ء سے ہماری خواہش تھی کہ ہمارے ادارے کو حضرت اقدس اپنی برکات سے منور فرمائیں تاکہ اساتذہ کرام اور طلباء آپ کی زیارت سے مشرف اور آپ کے علوم کی برکات سے مستفید ہو سکیں۔ لیکن حضرت اقدس اپنی تدریسی ضروریات اور تصنیفی مشغولیات کی وجہ سے ہماری دعوت قبول کرنے سے گریز فرماتے رہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت اقدس کی مصروفیات ایسی ہیں کہ آپ کی کہیں تشریف آوری معجزہ سے کم نہیں۔ 

زندگی کا ایک ایک لمحہ آپ نے علوم دین کی خدمت کے لیے وقف کیا ہوا ہے۔ تہجد کے وقت سے لے کر رات گیارہ بجے تک ایک مشین کی طرح مصروف عمل رہتے ہیں۔ بخاری شریف، ترمذی اور تفسیر قرآن کے اسباق آپ گزشتہ ۴۰ سال سے جامعہ نصرۃ العلوم میں پڑھا رہے ہیں اور بقول حضرت اس سالہا سال ایسے گزر گئے جس میں آپ نے ایک دن بھی تعلیم کا ناغہ نہیں فرمایا۔ 

۱۹۴۳ء سے آپ نے جو عمومی درس شروع فرمایا تھا اس میں اب تک آپ نو مرتبہ قرآن مجید تفسیر کے ساتھ مکمل فرما چکے ہیں اور دسویں مرتبہ درس قرآن جاری ہے۔ گزشتہ میں سال سے آپ ماہ شعبان المبارک اور ماہ رمضان المبارک میں علماء کرام کے لیے دورہ تفسیر قرآن کریم کا اہتمام فرماتے ہیں جس میں روزانہ آپ ایک نشست میں پانچ گھنٹے مسلسل درس دیتے ہیں تاکہ قرآن مجید کی تفسیر دو ماہ میں مکمل ہو جائے۔ ایک ہزار کے قریب علمائے کرام اس درس میں شرکت فرماتے ہیں۔ 

ہمارے مرشد اور استاد محترم محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ جب بھی حضرت اقدس کا تذکرہ فرماتے تو ’’ترجمانِ دیوبند‘‘ سے آپ کو خطاب فرماتے اور اکثر فرماتے ہیں: ’’عقائد اور تمام مسائل میں حضرت مولانا سرفراز خان صاحب ہماری طرف سے فرضِ کفایہ ادا کر کے ہماری ترجمانی فرماتے ہیں‘‘۔ 

مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب اہلِ حق کے درمیان اختلاف کی خلیج بڑھنے لگی تو حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا شمس الرحمٰن افغانیؒ، حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور دیگر علمائے کرام نے یہ فیصلہ کیا کہ علمائے حق دیوبند کی طرف سے حضرت اقدس اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔ حضرت اقدس نے علمائے حق کی ترجمانی کرتے ہوئے ’’تسکین الصدور‘‘ کے عنوان سے مسئلہ کی مکمل تنقیح فرمائی اور اس طرح علمائے حق کا واضح موقف آنے کے بعد اختلافات دور ہو گئے۔ 

حضرت اقدس نے ’’مقامِ ابی حنیفہؒ‘‘ تحریر فرمائی تو مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’میرا ارادہ اس موضوع پر لکھنے کا تھا لیکن آپ کی اس کتاب کے بعد اب اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی‘‘۔

طلاقِ ثلاثہ پر آپ کے موقف کو مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر معارف القرآن میں آپ کے نام اور حوالے کے ساتھ ’’الطلاق مرتان‘‘ کے ضمن میں ذکر فرما کر یہ واضح کر دیا کہ حضرت کا موقف علمائے حق دیوبند کا موقف ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کی زندگی میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں آپ کی برکات و فیوضات سے استفادہ کی توقع عطا فرمائے۔ 

بعد ازاں جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل مولانا محمد ابراہیم بھامجی کے مدرسہ کا سنگِ بنیاد رکھا۔ مولانا محمد ابراہیم بھامجی لینسیا میں ایک مدرسہ قائم کر رہے ہیں جس میں تین تا دس سال کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہو گا۔ مدرسہ کے اخراجات کے لیے پٹرول پمپ اور سروس اسٹیشن قائم کر رہے ہیں۔ حضرت مولانا اور دیگر احباب نے گارا ڈال کر اس مبارک کام کا آغاز کیا۔ حضرت اقدس نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس جگہ کو دینی ادارے کے لیے قبول فرمائے۔ 

مولانا حبیب احمد نے اس موقع پر درخواست کی کہ حضرت، ہم مركز التوحید الاسلامی کے تحت گراہمبر کے علاقے میں کالوں کی آبادی میں کام کر رہے ہیں اور الحمد للہ کافی بچوں اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دے کر مسلمان بنایا ہے۔ اگر آپ تشریف لے گئے تو ہمارے کام میں برکت ہو گی۔ حضرت نے درخواست قبول فرمائی اور وہاں تشریف لے گئے، چالیس کے قریب بچے دارالاقامہ میں قیام پذیر تھے۔ جبکہ مقامی بچوں کی تعداد کافی ہے جو کہ چھٹی کی وجہ سے اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔ دارالاقامہ اور درسگاہیں دیکھیں۔ مولانا حبیب احمد نے بتایا کہ ابتداء میں جب کام شروع کیا تو دو چار بچے تھے۔ ان کو بھی روزانہ گھروں سے لاتے تھے۔ آہستہ آہستہ لوگ متوجہ ہوئے۔ ایک سو سے زائد عورتیں مسلمان ہوئیں جن کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا گیا ہے۔ ایک سو سے زائد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ چالیس بچے دارالاقامہ میں رہتے ہیں۔ مخیر حضرات کے تعاون سے کام چل رہا ہے۔ عورتوں اور بچوں کو راشن وغیرہ دے کر تعلیم کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ بچوں نے قرآن سنایا، ایک دو بچوں نے عربی میں مکالمہ کیا۔ ایک بچے نے عربی میں خطبہ دیا۔ حضرت اقدس کی تشریف آوری پر مصری استاد نے خوش آمدید کہتے ہوئے بچوں کو کہا کہ یہ تم بہت خوش قسمت ہو کہ پاکستان کی ایک عظیم شخصیت جن کی زندگی علم دین کی اشاعت سے تعبیر ہے، تمہارے پاس اتنے دور دراز سے تشریف لائی، آپ کی آمد ہمارے لیے خوشی اور مسرت کا باعث ہوئی۔ حضرت اقدس نے دعا فرماتے ہوئے فرمایا کہ الحمد للہ ان لوگوں میں کام کرنے کا بہت اجر ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان لوگوں کو جہنم سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کریں۔ اللہ تعالٰی شرف قبولیت سے نوازے اور آپ کی خدمات کو قبول فرمائے۔ 

جوہانسبرگ جنوبی افریقہ کا مرکزی شہر ہے۔ بڑے بڑے تجارتی مراکز اسی شہر میں ہیں۔ محمود میاں اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت کی اور مجلس علمی قائم کی۔ ان سے ملاقات ہوئی، انہوں نے حضرت سے نصیحت کی درخواست کی، جس پر حضرت نے مختصر خطاب فرمایا۔

جناب احمد صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، انہوں نے درخواست کی کہ جمعہ سے قبل میفیر کی جامع مسجد میں خطاب فرمائیں، جوہانسبرگ کے تمام تجار اس مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں، ان شاء اللہ بہت مفید ہو گا۔ حضرت نے درخواست قبول فرمائی۔ نماز ظہر کے بعد جناب حاجی ابراہیم ڈابھیلیا کے مکان پر مستورات کا بیان تھا، حضرت اقدس نے تقریباً پون گھنٹہ بیان فرمایا۔ مستورات کے بیان سے فارغ ہو کر جمعیت علماء اسلام ٹرانسوال کے سیکرٹری، جنرل مفتی احمد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذ خاص مولانا ظہیر احمد راگی نے عصرانہ کا اہتمام کیا تھا، جس میں ایل ایم اے کے مہتمم مولانا محمد نانا بھائی، ممتاز تاجر غلام کاکا، مسلم اسکول کے استاد مولانا موسیٰ پانڈور، جمعیت علماء اسلام کے نائب امیر مولانا عبد الحئی کاکا، مولانا محمد ابراہیم بھامجی، دارالعلوم آزاد ول کے استاد مولانا عبد اللہ پایا نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ مولانا ظہیر احمد راہی نے حضرت اقدس کی افریقہ تشریف پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے کم وقت پر افسوس کا اظہار کیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر فارغ وقت میں زیادہ دن کے لیے تشریف لائیں تو جمعیت علماء افریقہ دارالعلوم زکریا کے تعاون سے دورۂ تفسیر قرآن کا اہتمام کرتے۔ 

مولانا ظہیر احمد راگی نے بتایا کہ الحمد للہ جمعیت علماء افریقہ کی مسلمانوں کے سلسلہ میں بہت خدمات ہیں۔ مساجد کا قیام، ایئر پورٹ میں بھی مسجد قائم کر دی گئی ہے، مسلم اسکول کا قیام، دینی مدارس سے تعاون، بینکوں میں بلاسود بینکاری کی سہولت، حلال گوشت مہیا کرنا، تمام اشیاء کے حلال ہونے کی سند جاری کرنا، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی امداد کرنا۔ اس سلسلے میں بوسنیا، افغانستان، کشمیر، برما، صومالیہ میں بہت زیادہ تعاون کیا۔ ملاوی، موزمبیق میں مدارس قائم کیے۔ کالوں کی آبادی میں مدارس کے قیام کے لیے جدوجہد، تاشقند، ماسکو میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے تعاون سے قرآن کی طباعت و تقسیم اور مساجد کا قیام سرفہرست ہے۔ دعا فرمائیں کہ جمعیت علماء افریقہ مسلمانوں کی خدمات میں اسی طرح مصروف رہے۔ 

حضرت اقدس نے جمعیت علماء افریقہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا کہ نوجوان علماء کرام بہت زیادہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور افریقہ کا اسلامی ماحول مثالی ماحول ہے، تمام مسلمانوں کو اس کی اتباع کرنی چاہئے اور مسلمانوں کے وسائل کو دین کی تبلیغ و علومِ نبویہ کی اشاعت میں صَرف کرنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پوری طرح متوجہ ہو۔ عشائیہ کا اہتمام مولانا محمد موسیٰ پانڈور کے یہاں تھا جس میں مقامی علمائے کرام اور دارالعلوم زکریا کے مہتمم مولانا شبیر احمد سالوجی نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ بعد نماز عشاء لینسیا کی مسجد میں بیان تھا۔ 

بروز جمعرات ناشتہ کا اہتمام مولانا محمد سلیمان کی طرف سے تھا۔ ظہرانہ حافظ بشیر احمد کی طرف سے تھا، جبکہ عشائیہ مولانا مفتی محمد علی کی جانب سے تھا۔ جمعرات کو بعد نماز عشاء جمعیت علمائے ٹرانسوال کی جانب سے علمائے کرام کا اجتماع تھا، اس اجتماع میں حضرت اقدس نے تفصیلی بیان فرمایا۔ تقریباً‌  ایک سو علمائے کرام نے حدیث شریف اور تفسیر قرآن کی اجازت طلب کی۔ حضرت اقدس نے علمائے کرام کو حدیث اور قرآن مجید کے درس دینے کی شرط پر اجازت مرحمت فرمائی۔ بروز جمعہ بعد نماز فجر درس قرآن کا سلسلہ شروع کریں گے۔ حدیث شریف کا درس بھی دیا کریں گے۔ علمائے کرام کے اعزاز میں دار العلوم زکریا کے مہتمم مولانا شبیر احمد سالوجی کی جانب سے ناشتہ کا اہتمام کیا گیا۔ جمعہ کے دن دار العلوم زکریا کے طلباء کا آخری پرچہ تھا اور اس کے بعد پندرہ دن کی چھٹیاں ہونی تھیں اس لیے حضرت اقدس نے نماز کی اہمیت اور عورتوں کی نماز کے متعلق مسائل بیان فرمائے۔

جمعہ کا دن حضرت کا مصروف ترین دن تھا۔ درس کے بعد مولانا محمد یونس دراجہ جو جمعیت علماء ٹرانسوال کے رکن ہیں، ان کے یہاں ناشتہ کا اہتمام تھا۔ ناشتہ کے بعد جمعیت علماء ٹرانسوال کے نائب امیر مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی ولی حسن رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذ خاص مولانا محمد عبد الحئی کاکا کے یہاں مختصر تقریب میں شرکت فرمائی۔ بعد ازاں مولانا شبیر احمد سالوجی کے ہمراہ جوہانسبرگ تشریف لے گئے، جہاں جامع مسجد ہیفیر میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرنا تھا۔ راستہ میں جمعیت علماء ٹرانسوال اور دارالعلوم زکریا کے خصوصی معاونین جناب احمد وید، جناب نذیر بڈھانی، جناب غلام کاکا کے کاروباری مراکز پر دعا کرائی۔ جامع مسجد ہیفیر جوہانسبرگ کی مرکزی خوبصورت مسجد ہے اور مسلمانوں کا بہت بڑا اجتماع اس مسجد میں جمعہ کو ہوتا ہے۔ نماز سے کافی پہلے ہی مسجد نمازیوں سے بھر گئی تھی۔ حضرت اقدس نے جمعہ کے اجتماع سے خطاب فرمایا۔ 

نماز کے بعد جمعیت علماء ٹرانسوال کے سیکرٹری مولانا ابراہیم بھام، مولانا محمد یوسف وغیرہ نے حضرت سے ملاقاتیں کیں اور اپنے کام کے لیے خصوصی دعائیں کروائیں۔ نماز کے بعد ممتاز تاجر محمود میاں نے ظہرانہ کا اہتمام کیا تھا جس میں علمائے کرام اور تجار حضرات نے شرکت کی اور حضرت والا سے خصوصی دعائیں فرمائیں۔ چونکہ رات کو حرمین شریفین روانگی تھی اس لیے جنوبی افریقہ کا آخری پروگرام تھا۔ جناب محمد اقبال دراجہ کے کاروباری مرکز پر دعا فرماتے ہوئے دار العلوم زکریا پہنچے اور سفر حرمین شریفین کی تیاری شروع کی۔ 

شیخ مطیع الرسول صاحب کی اطلاع کے مطابق انہوں نے حرمین شریفین کی زیارت کا ویزا لگوا کر پاسپورٹ اولمپک ایئرویز کے ایک انجینئر کے ذریعہ جنوبی افریقہ بھجوائے تھے، پاسپورٹ چھ بجے کے قریب ایئرپورٹ پہنچنے تھے اور حرمین شریفین کے لیے گلف ایئرلائن کی فلائٹ دس بجے تھی۔ اس لیے اطمینان تھا کہ روانگی ہو جائے گی۔ اس دوران حضرت اقدس سے ابوبکر چوغلے جو کہ حضرت مفتی احمد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ کے خادم خاص تھے، اور اب افریقہ میں کالوں کی آبادی میں مولانا شبیر احمد سالوجی اور شیخ مطیع الرسول کی نگرانی میں کافی اچھا کام کر رہے ہیں، ملاقات کے لیے آئے اور اپنے کام کے لیے حضرت سے خصوصی دعا کرائی۔ 

شام سات بجے ایئر پورٹ گئے تاکہ پاسپورٹ وغیرہ وصول کریں، روانگی کے لیے سامان پیک کرا دیں، بعد ازاں حضرت ایئر پورٹ تشریف لے آئیں، لیکن ابھی افریقہ میں حضرت اقدس کی کچھ علمائے کرام سے ملاقاتیں اور کچھ جگہ بیان مقرر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دو دن مزید افریقہ میں ان کے لیے عجیب انداز میں انتظام فرمایا۔ پاسپورٹ لینے جب اولمپک ایئرویز پہنچے تو پاسپورٹ ندارد۔ معلوم ہوا کہ جس انجینئر کو پاسپورٹ دیے تھے وہ غلطی سے پاسپورٹ دینے کے بجائے واپس لے گیا۔ اب صبر کے سوا کوئی صورت نہیں، جہاز کا معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اب اتوار کو فلائیٹ ہے۔ فوری طور پر اس پر بلنگ کرائی اور شیخ مطیع الرسول صاحب سے نیروبی رابطہ کر کے پوری تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اللہ تعالٰی ان کو جزائے خیر عطا فرمائے، انہوں نے فوری طور پر دوسرے دن کی فلائیٹ سے پاسپورٹ ارسال کرنے کا بندوبست کر کے مطلع کیا۔ 

دار العلوم زکریا میں ہی تشریف فرما تھے۔ مولانا محمد ابراہیم بھامجی، مولانا محمد عبد الحئی کاکا، مولانا محمد موسیٰ پانڈور، مولانا یونس دراجہ، مولانا ابوبکر چوغلے، مولانا حبیب احمد مردانی وغیرہ کے ساتھ دار العلوم واپسی ہوئی۔ حضرت والا کو تفصیلات سے آگاہ فرمایا۔ صبر و تحمل کے پیکر حضرت نے فرمایا: مقدر کی بات کو کوئی نہیں ٹال سکتا، اللہ تعالیٰ خیر کا معاملہ فرمائیں۔ 

دارالعلوم زکریا میں امتحان ختم ہو گئے تھے اور مدرسہ میں دن کی تعطیل تھی، تمام طلباء اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے، فجر کی نماز جس میں روزانہ کئی صفیں ہوتی تھیں، آج صرف دس پندرہ افراد شریک نماز تھے، حضرت اقدس نے نماز کی امامت فرمائی اور اس کے بعد درس دیا۔ 

دوپہر کو حافظ بشیر احمد صاحب کے یہاں ظہرانہ کا اہتمام تھا۔ رات کو جامع مسجد موڈیم میں بیان تھا، برادرم احمد دید کی گاڑی میں مولانا شبیر احمد کے ساتھ بعد نماز عصر موڈیم کی طرف روانگی ہوئی۔ موڈیم میں جمعیت علمائے ٹرانسوال کے تعاون سے مسلم اسکول بھی ہے۔ جمعیت علماء کے صدر مولانا محمد عباس جناح اس کے نگران ہیں۔ یہ اسکول مسلمان بچوں کی تعلیم میں گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ مغرب کی نماز کی امامت بھی حضرت اقدس نے فرمائی اور اس کے بعد نمازیوں سے خطاب فرمایا۔

پہلے پروگرام کے مطابق بروز جمعہ ساڑھے دس بجے جوہانسبرگ سے براستہ ابو ظہبی مسقط جدہ روانہ ہونا تھا، لیکن نیروبی سے مولانا مطیع الرسول نے بڑی محنت اور کوشش فرما کر سعودی عرب کا  ’’زیارت ویزہ‘‘ لگوا کر اولمپک ایئر لائن کے ایک انجینئر کے ہاتھ سے پاسپورٹ روانہ کیا۔ وہ انجینئر جلدی میں پاسپورٹ دینا بھول گیا اور پاسپورٹ واپس لے گیا۔ اس طرح پروگرام کے مطابق اس فلائٹ سے جدہ روانگی نہ ہو سکی۔ دوسری فلائٹ براستہ ابو ظہبی بحرین جدہ اتوار کی صبح سوا نو بجے تھی۔ اس میں نشستیں مخصوص کرا دیں۔ نیروبی فون کر کے شیخ مطیع الرسول صاحب کو صورت حال سے مطلع کیا۔ انہوں نے انتہائی کوشش کر کے ہفتہ کے دن کینیا ایئر لائن کی فلائٹ سے پاسپورٹ دوبارہ روانہ کیے۔ 

مولانا مطیع الرسول صاحب حضرت اقدس مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمتہ اللہ علیہ کے تلمیذ خاص ہیں، بنوری ٹاؤن کے فضلاء میں سے ہیں، بعد ازاں ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر اور مولانا عبد اللہ کاکا خیل کے ہمراہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے تعلیم حاصل کی۔ حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ کے خاص رفیق ہیں۔ نیروبی میں دار الافتاء کی طرف سے مبعوث ہیں اور کینیا میں ان کی دینی خدمات قابل تحسین ہیں۔ گریسہ میں ایک بہترین اسکول و مدرسہ کالے مسلمانوں کے بچوں کے لیے شروع کیا ہے۔ اکابر علمائے کرام سے خصوصی تعلق ہے۔ 

حضرت اقدس کو چونکہ عمرہ پر جانا تھا اور اس وقت عمرہ کے ویزے بند تھے، اس لیے محنت کر کے زیارت کا ویزہ لگوایا۔ اللہ تعالی جزائے خیر عطا فرمائے۔ ۱۶ جولائی بروز اتوار صبح سات بجے دارالعلوم زکریا سے جوہانسبرگ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی طرف روانگی ہوئی۔ روانگی سے قبل حضرت اقدس نے مولانا شبیر احمد سالوجی کے گھر ناشتہ کے بعد جمعیت علماء نٹال کے مولانا محمد یونس پٹیل صاحب کو ان کی درخواست پر اجازتِ حدیث شریف اور اجازتِ تفسیر قرآن مرحمت فرمائی۔ مولانا یونس پٹیل صاحب حضرت سے ملاقات کے لیے ڈربن سے تشریف لائے تھے۔ 

ایئر پورٹ پر حضرت کو رخصت کرنے کے لیے جمعیت علماء ٹرانسوال کے صدر مولانا محمد عباس جناح، نائب صدر مولانا محمد عبد الحئی کاکا، دار العلوم زکریا کے مہتمم مولانا شبیر احمد سالوجی، مولانا مفتی محمد علی، حافظ بشیر احمد، مسلم سکول آزاد ول کے استاد مولانا محمد موسیٰ پانڈور، لینسیا مسلم ایسوسی ایشن کے اساتذہ اور تمام علمائے کرام کے خادم خاص مولانا محمد ابراہیم بھامجی، مولانا حبیب احمد، مولانا محمد یونس، ڈاکٹر مسعود الحسن ٹونکی (حضرت مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رحمۃ اللہ کے صاحبزادے)، مولانا ابوبکر چوغلے اور کئی علماء اور حضرات تشریف لائے۔ حضرت اقدس نے اس موقع پر دعا فرمائی اور تلقین کی کہ درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ 

حضرت نے تمام احباب خصوصاً‌ مولانا شبیر احمد سالوجی، مولانا ابراہیم بھامجی اور مولانا محمد عبد الحئی کاکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ حضرات نے بہت زیادہ تکلف اور تکلیف سے کام کیا، بہت اعزاز و اکرام فرمایا، اللہ تعالیٰ آپ حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے، آپ حضرات کا بہت بہت شکریہ۔ 

مولانا شبیر احمد سالوجی نے جواب میں عرض کیا: حضرت والا آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہماری درخواست قبول فرمائی اور تعلیمی مصروفیت، درس تدریس، تصنیفی کام اور پیرانہ سالی کے باوجود تشریف لائے۔ ان شاء اللہ آپ کی تشریف آوری سے افریقہ میں قرآن مجید کے دروس کا خصوصی سلسلہ شروع ہو گا۔ ہماری درخواست ہے کہ آپ ایک مرتبہ ایک ماہ کے لیے تشریف لائیں،  ہم علمائے کرام کو جمع کریں گے، وہ ایک دفعہ آپ سے تفسیر قرآن شریف پڑھیں تو ان شاء اللہ اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس آخری گفتگو کے ساتھ ہی جنوبی افریقہ کے ایک ہفتہ کا دورہ اختتام پذیر ہوا۔




نوٹ: مولانا مفتی محمد جمیل خان نے حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کے متعدد خطابات اس سفرنامہ کے ساتھ قلمبند کیے ہیں اور سعودی عرب کے سفر کی رپورٹ بھی مرتب فرمائی ہے، ہم اس کرم فرمائی پر ان کے شکر گزار ہیں۔ خطابات اور دورہ سعودی عرب کی رپورٹ ’’الشریعہ‘‘ کے آئندہ شماروں میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالٰی (اداره)


شخصیات

(نومبر ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter