قربانی، تقرب الی اللہ کا ذریعہ

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

فلاح کا دوسرا اصول فرمایا ’’وانحر‘‘ یعنی قربانی کریں۔ ’’نحر‘‘ اونٹ کی قربانی کو کہتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضورؐ نے عید الاضحیٰ کے خطبے میں فرمایا، آج کے دن ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ نماز پڑھیں ’’ثم نرجع فننحر‘‘ پھر پلٹ کر قربانی کریں گے۔ قربانی محض گوشت کھانے کا نام ہی نہیں بلکہ یہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے ’’لن ینال اللہ لحومہا ولا دماءہا‘‘ اللہ تعالیٰ کے پاس قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا ’’ولکن ینالہ التقویٰ منکم‘‘ بلکہ تمہارا تقویٰ بارگاہِ رب العزت میں پہنچتا ہے۔ قربانی انسان کے عقیدۂ توحید کی علامت ہے۔ مشرکین اپنے معبودانِ باطلہ کے نام پر قربانی کیا کرتے تھے جو کہ شرک اور بہت بڑا جرم ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک مومن اللہ کے نام پر قربانی دیتا ہے جس سے اس کے ایمان اور عقیدۂ توحید کا اظہار ہوتا ہے۔

’’وانحر‘‘ کا معنیٰ بعض نے نماز میں سینے کے نیچے ہاتھ باندھنا بھی کیا ہے، مگر یہ روایت ضعیف ہے۔ بعض نے اس کا معنیٰ سینہ قبلہ کی طرف پھیرنا کیا ہے، مگر یہ بھی ضعیف روایت ہے، اس مقام پر ’’وانحر‘‘ کا صحیح معنیٰ قربانی کرنا ہی ہے۔

قربانی کو اکثر ائمہ سنتِ موکدہ قرار دیتے ہیں۔ صرف ہمارے امام ابوحنیفہؒ اس کو واجب کہتے ہیں۔ قربانی نماز، حج، زکوٰۃ وغیرہ کی طرح فرائض میں تو داخل نہیں ہے، محض سنت موکدہ یا واجب ہے، مگر اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی کا اس کے وقت پر ادا کرنا تعلق باللہ درست کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ انسان کے عقیدۂ توحید کا اظہار اسی عمل سے ہوتا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قربانی ’’بہیمۃ الانعام‘‘ یعنی پالتو جانور کی ہی ہو سکتی ہے۔ یہ چار قسم کے جانور ہیں جن میں اونٹ، بھیڑ، بکری، گائے، بھینس شامل ہیں۔ یہ جان کا بدل ہے اور قربانی کے لیے جانور بھی وہی ٹھہرائے گئے ہیں جن سے انسان عام طور پر مناسبت رکھتے ہیں اور ان سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ ان کا گوشت، دودھ، چمڑا، چربی وغیرہ استعمال کرتے ہیں اور ان پر سواری بھی کرتے ہیں۔ زمین کی خدمت بھی انہیں جانوروں سے لی جاتی ہے جو انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کی خدمت کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ لہٰذا قربانی بھی انہی جانوروں کی مقرر کی گئی ہے۔ یہ انسانی جان کا بدل ہے، کوئی شخص قربانی کے طور پر اپنی اولاد یا اپنے غلام کی قربانی نہیں کر سکتا، یہ حرام ہے۔ جان اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر کسی کو اختیار نہیں دیا۔

اگر کوئی شخص انسانی جان کی نذر مان لے، جیسے یوں کہے کہ میں بیٹے کی قربانی دوں گا، تو اس کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ جانور کی قربانی کرے۔ انسانی جان کی قربانی نہیں ہو سکتی۔ ابھی آپ نے اخبارات میں پڑھا کہ راولپنڈی کے کسی شخص نے اپنے بیٹے کی قربانی کی نذر مانی اور پھر اسے ذبح کر دیا، اس کی ٹانگیں تو دفنا دیں مگر دوسرا گوشت دیگ میں پکا کر حضرت امام حسینؒ کی نیاز کے طور پر لوگوں کو کھلایا۔ دیکھو! یہ کتنا بڑا جرم اور حماقت ہے۔ نیاز دینے والے لوگ کہاں سے کہاں تک جا پہنچے۔ اول تو نیاز بغیر اللہ تعالیٰ کے ویسے ہی حرام ہے، اور پھر بیٹے کو ذبح کر دیا۔ بدبخت نے دوسرے لوگوں کو بھی اس جرم میں شریک کیا۔ ایسے لوگوں کو عبرتناک سزا ملنی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کی جان کا بدلہ بھی جانور ہی بھیجا تھا، اور اسے ذبح عظیم کے لقب سے یاد کیا۔ گویا قربانی کے لیے یہ عظیم دستور مقرر فرما دیا کہ انسانی کی قربانی قطعاً روا نہیں۔ ہندوؤں کے ہاں انسانی قربانی کا تصور پایا جاتا ہے، وہ اسے بلیدان کا نام دیتے ہیں۔ کبھی وہ انسان کو کالی دیوی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں، کبھی کسی دیوتا کے نام پر بچوں کو ذبح کر دیتے ہیں، یہ سب ناجائز اور حرام ہے۔ قربانی صرف اللہ کے نام پر ہی ہو سکتی ہے اور وہ بھی پالتو جانور کی، کسی جنگی وحشی جانور کی قربانی نہیں ہو سکتی۔


دین و حکمت

(مئی ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter