اسلامائزیشن کی راہ میں بڑی رکاوٹیں، انگریز پولیس افسر کی نظر میں

ادارہ

قیام پاکستان کے بعد مغربی پنجاب کی حکومت نے عوام کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے ایک محکمہ ’’محکمہ احیائے ملتِ اسلامیہ‘‘ کے نام سے قائم کیا جس کے تحت ایک علمی و فکری مجلہ ’’عرفات‘‘ کا آغاز ہوا۔ عرفات کے پہلے شمارہ میں مغربی پنجاب کی بارڈر پولیس کے کمانڈنٹ جناب ای این ایڈورڈز کا مندرجہ ذیل مراسلہ شائع ہوا جو عرفات کے مدیر جناب محمد اسد کے نام ہے اور ۱۰ فروری ۱۹۴۸ء کا تحریر کردہ ہے۔ مراسلہ نگار نے پاکستان میں اسلامائزیشن کے حوالے سے علمی و فکری رکاوٹوں کا جس خوبصورتی سے تجزیہ کیا ہے وہ ہمارے دینی راہنماؤں اور کارکنوں کے لیے بطور خاص قابل توجہ ہے۔ (ادارہ)



مکرمی اسد صاحب! -------- لاہور چھاؤنی ۔ ۱۰ فروری ۱۹۴۸ء

محکمہ احیائے ملتِ اسلامیہ کے متعلق آپ کا پمفلٹ دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی اور میں نے بڑے غور و خوض سے مطالعہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں آپ کا مقصد یہ بھی ہے کہ منجملہ دوسری باتوں کے رفتہ رفتہ مساجد اور مدارس کے ذریعے عامۃ الناس کی تربیت کریں، لہٰذا اس خیال کے پیش نظر چند باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں:

آپ کو شاید خود بھی احساس ہو گا کہ جو لوگ دینی تعلیم و تربیت کے ایک باقاعدہ نظام کے ماتحت دنیا کو پھر اللہ کے راستے پر واپس لانے کے آرزومند ہیں، ان کے لیے دو خطرے ہیں:

  1. پہلا خطرہ وہ ردعمل ہے جو، ایسی حالت میں جب کسی ملت کو دینی اَحیا کے ایک زبردست دور سے گزرنا پڑے، ہمیشہ سامنے آ جاتا ہے۔ ذہنِ انسانی کی ترکیب ہی کچھ ایسی ہے کہ اس ردعمل سے بچنا محال ہے۔ دنیا کی ہر تہذیب کو اس سے سابقہ پڑا اور تاریخ کے ہر عہد اس میں ظہور ہوا۔ انگلستان ہی کو دیکھ لیجئے، عہد مابعد وکٹوریا کے اخلاقی انتشار میں یہ ردعمل صاف صاف نمایاں ہے، پھر چند صدیاں اور پیچھے چلے جائیے تو پیورے ٹن (Puritan) عہد کے خاتمے پر جو فسق و فجور پھیلا، اسی ردعمل کی بدولت۔ اس افراط و تفریط سے مفر کی بہرحال کوئی صورت نہیں، لہٰذا ناممکن ہے کہ پاکستان اس سے مستثنیٰ رہے۔
  2. دوسرا خطرہ ہے ان لوگوں کے غرور کا جو بعض کچی پکی علمی معلومات کی بنا پر اپنا شمار ’’اہلِ فکر‘‘ میں کرنے لگتے ہیں۔ بلکہ ہمیں کہنا چاہیے کہ اس استہزا طائفے کا طعن و تشنیع تو ابھی سے سننے میں آ رہا ہے۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ موجودہ ریاست کی ازسرنو تعمیر میں، جب ہمیں اور زیادہ سختی اور درشتی سے کام لینا پڑے گا، تو اس قسم کے خام اور کچے پکے اہلِ فکر کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

میرے نزدیک اس دوسرے خطرے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ دنیا میں کوئی چیز اتنی خطرناک نہیں جتنی نیم علمی یا جہل مرکب۔ کتنے لوگ ہیں جن کو یہ معلوم ہے کہ اس زمانے کے اکابر سائنسدان مذہب کے حق میں ہیں؟ اور کتنے ہیں جو اس بات کو سمجھ کر اس کے نتائج کا اندازہ کر سکتے ہیں؟ اصل میں مشکل یہ ہے کہ عام تعلیم کا قدم سائنس کے اکتشافات اور تحقیق و تفتیش سے ہمیشہ پچاس برس پیچھے رہا۔

لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ دس بیس برس میں بھی تعلیم یا اخبارات و رسائل کے ذریعے اس ملک میں عام طور سے جو معلومات پھیلیں گی، ان سے تشکیک اور بے یقینی کا وہی دور دورہ شروع ہو گا جس میں سردست یورپ مبتلا ہے۔ اور جو اَب کہیں جا کر انیسویں صدی کی ان مادی تعلیمات کو سمجھ رہا ہے جو اس زمانے کے علمائے طبعیات نے پھیلائی تھیں۔ حالانکہ جدید افکار و خیالات نے پھر سے خدا کی ہستی کو تسلیم کر لیا ہے، اور لطف یہ کہ خود زمانہ بھی اس امر کا متقضی ہے کہ ہم پھر بچوں کے سے بھولے پن کے ساتھ خدا پر اعتماد کرنا سیکھیں، جیسا کہ پہلے کبھی کیا کرتے تھے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان اس درمیانی زمانہ کی المناک صورتحال سے محفوظ رہ سکتا ہے؟ کیوں نہیں! بشرطیکہ وہ دونوں خطرات جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ہمارے سامنے رہیں۔

پھر اسلام میں دو خوبیاں ایسی ہیں جن سے آپ کو اس کام میں بالخصوص مدد ملے گی:

  1. اول یہ کہ اس نے بچوں کے سے بھولے پن کے ساتھ رضائے الٰہی پر چلنا، جو واحد سرچشمہ حکمت و دانائی کا، مسلّمات میں سے ٹھہرایا۔ اور ایک مخصوص ضابطے کی مدد سے ذہن کو اس کی قبولیت پر آمادہ کیا۔
  2. ثانیاً اس کی تعلیمات صرف نج کی زندگی تک محدود نہیں، بلکہ حیاتِ اجتماعیہ کا ایک نظام بھی پیش کرتی ہیں۔

ممکن ہے آپ یہ کہیں کہ جب میں عیسائی ہوں تو ان باتوں کا اقرار کیوں کر رہا ہوں۔ یہ اس لیے کہ میرے نزدیک عیسائیت صرف ایک مسلکِ حیات ہے، یہ نہیں کہ ایک ہر لحظہ بڑھتی ہوئی روحانی زندگی کی تحریک کرے۔ لہٰذا وہ صرف اہلِ فکر یا ان لوگوں کا مذہب ہے جن کے شکم پُر ہیں، اور جن کے پاس اتنا وقت ہے کہ داخلی اور مجرد افکار کا لطف اٹھا سکیں۔ عیسائیت نے نفسِ انسانی کا بالکل خیال نہیں رکھا، یہی وجہ ہے کہ اس نے شر کی حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے بھی انسان کے بے بس دل و دماغ پر کوئی ایسا عملی ضابطہ عائد نہیں کیا، جس کی بدولت وہ خود اپنے ضمیر اور اپنی طبعیت میں نظم و ضبط و تہذیب و شائستگی کا جوہر پیدا کر سکتا۔

لہٰذا اپنے اس عقیدہ کے ماتحت کہ نوعِ انسانی کی مشعلِ نجات صرف اسلام کے ہاتھ میں ہے، کیونکہ وہ مذہب کے ایک عملی نظام، ایک روحانی ضابطے، اور اجتماعی غور و تفکر سب کو باہم جمع کر دیتا ہے۔ میری دلی آرزو ہے کہ اس کی قوتوں کے استحکام کی دل و جان سے کوشش کی جائے۔

لہٰذا گزارش ہے کہ ملت کی تعلیم و تربیت میں صرف مستقبل کا خیال رکھتے ہوئے کہیں موجودہ تخریبی دور سے اپنی آنکھیں بند نہ کر لیجئے گا۔ مسلمانوں کو اس غلطی سے بچتے رہنا چاہیے جو مسیحی اولیاء نے کی، یعنی اپنے وقت کی تحریکوں سے جان بوجھ کر اغماض، خواہ وہ علمی ہوں یا فلسفیانہ۔ اس سے بھی زیادہ اہم ایک گھٹیا سی مادیت کا وہ خطرہ ہے جو سائنس میں تھوڑی بہت شد بد رکھنے سے پیدا ہو جاتی ہے، اور جس سے غفلت نہیں برنی چاہیے۔

تاریخ بتلاتی ہے کہ جب کبھی نیم علمی کا تصادم مذہب سے ہوا، فتح ہمیشہ نیم علمی کی ہوئی۔ کیونکہ عام آدمی کا غورِ نفس مجبور کر دیتا ہے کہ ہم ان غیر مذہبی معلومات ہی کو ترقی کا مترادف قرار دیں جن سے وہ خود آگے نہیں بڑھ سکا۔ اہلِ مذہب نے اس حقیقت کو ہمیشہ نظر انداز کیا، اور اس سے زیادہ اور کسی بات سے اسے نقصان بھی نہیں پہنچا۔ یوں عام آدمی اپنے غرورِ نفس میں مبتلا رہے اور اربابِ مذہب اپنے۔ لہٰذا شیطان کو اس سے زیادہ مسرت کیا ہو سکتی تھی کہ دانائی جہالت سے آنکھیں پھیر لے۔

اندریں صورت آپ کے لیے صحیح طریق کار یہ ہو گا کہ جو کچھ کیجئے ان باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے کیجئے جو اس وقت عام علمی معلومات کے ذریعے پھیل چکی ہیں۔ پھر جب میں علمی معلومات کا نام لیتا ہوں تو اس کا اشارہ صرف علومِ طبعی (سائنس) کی طرف نہیں، بلکہ اخلاقی، معاشی اور فلسفیانہ علوم کی طرف بھی ہے۔ علم و حکمت کی تشریح بہرحال ضروری ہے، اس کے ظاہراً اور نادانی کے ’’اختلافات‘‘ کو، جن پر سطحی قسم کے انسان ہمیشہ کڑھتے رہتے ہیں، یونہی ٹال دینا اتنا اچھا نہیں، جتنا ان میں اور وحئ الٰہی کی تعلیمات میں مفاہمت پیدا کرنا۔ ہم علم و حکمت کے مراتبِ عالیہ سے بے پروا کیسے گزر سکتے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ اس کا دامن مذہبی تعلیمات سے جوڑ دیں، بلکہ اگر آپ پسند کریں تو یہ کہوں کہ خود علم و حکمت کو مذہب میں شامل کر لیں۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ پر مسلّم ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ان میں سے بعض آپ کے زیر غور آ چکی ہیں۔ اس سے پیشتر کہ میں ان کو ایک عام اور فرسودہ انداز میں آپ کے سامنے پیش کرتا، مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ میں جو کچھ عرض کر رہا ہوں صرف اس اس مخلصانہ خواہش کی بنا پر کہ آپ کی کوششوں کو آج ہی نہیں، آگے چل کر بھی کامیابی ہو۔ ہماری عظمت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم کس حد تک شر کا استیصال کر سکتے ہیں؟ اور کیا شیطان سے لڑنے میں ویسے ہی زیرک اور ہوشیار ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ خود وہ۔ لہٰذا خلقِ خدا کی تعلیم و تربیت میں ان لوگوں کی نفسیات ہی سے باخبر ہونا ضروری نہیں جن کی اصلاح کا ہم نے بیڑا اٹھایا ہے، ہمارا فرض ہے کہ اس سبق پر بھی زور دیتے رہیں جو تاریخ سے ہمیں ملتا ہے اور جس کے لیے ہمیں بڑی زبردست اور خوفناک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔

اندریں صورت میں پھر عرض کروں گا کہ آپ تربیتِ عوام کے لیے جو لائحہ عمل مرتب کریں بڑی احتیاط، باربار کی نظرثانی، تنقیح اور تفحص سے کریں۔ بلکہ اگر ممکن ہو تو مساجد اور مدارس کا نصابِ تعلیم بھی اس میں شامل کر لیجئے۔ انسان کی نجات کا فریضہ خدا کے نیک بندوں کی انفرادی کوششوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ فریضہ کسی شخص کے زیر ہدایت  اور ایک مرکزی نظام کے ماتحت ادا ہو۔ 

زیادہ آداب، تسلیمات اور اس امر کی معذرت کہ میں نے آپ کا اتنا وقت لیا، مجھے امید ہے کہ آپ کی کوششیں بارآور ہوں گی اور خدا ان کو برکت دے گا۔


مشاہدات و تاثرات

(مئی ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter