توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون اور حکمرانوں کی حیلہ سازیاں

ابو الانجم برلاس

توہینِ رسالتؐ کے مرتکب کو سزا سے بچانے کے لیے جو حیلے اختیار کیے جا رہے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جرم ثابت نہ ہونے پر مدعی کو دس سال تک قید کی سزا دی جائے گی۔ ہمارے ہاں عدلیہ کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں مخلص مسلمان بھی مدعی بننے سے ہچکچائیں گے۔ چنانچہ نئے نئے رشدی سامنے آتے رہیں گے۔ یہ شیطانی مکر و فریب کی پہلی مثال نہیں ہے۔

عباسی خلیفہ منصور جس نے امام ابوحنیفہؒ کو بھی درے لگوائے تھے، ایک دفعہ اپنی مذموم اقربا پروری کی خاطر اسی قسم کا حیلہ اختراع کیا تھا۔ عسکری کے ’’اوائل‘‘ میں ہے کہ ابن ہبرمہ بہت بڑا شرابی تھا۔ ایک دفعہ منصور کے پاس آ کر اس کی مدح سرائی میں کچھ اشعار پڑھے، منصور خوشی سے پھول گیا۔ پوچھا، کیا چاہتا ہے؟ شرابی نے کہا، آپ حاکمِ مدینہ کو لکھ دیجئے کہ جب وہ مجھے نشہ میں دیکھے تو مجھ پر حد جاری نہ کرے۔ منصور نے کہا، میں خداوند تعالیٰ کی حدود میں دخل اندازی نہیں کر سکتا۔ اس نے کہا، تو پھر میرے لیے کوئی حیلہ بنا دیجئے۔ چنانچہ منصور نے حاکمِ مدینہ کو لکھا کہ جب کوئی شخص ابن ہبرمہ کو نشہ کی حالت میں پکڑ کر لائے تو اسے لانے والے کو سو درے مارے جائیں، جبکہ ابن ہبرمہ کو قانونِ شرعی کے مطابق اَسی درے ہی مارے جائیں۔ اس حکم کے بعد اگر حاکم (عون) خود بھی اس کو نشہ کی حالت میں دیکھتا تو یہ کہہ کر صَرفِ نظر کر لیتا کہ کون اسے اَسی درے لگوانے پر خود سو درے کھائے!

تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان خلفاء کے ایسے کردار کے ردعمل میں اُس دور میں عدلیہ کے کردار کی ایسی روشن مثالیں قائم ہوئیں جو رہتی دنیا تک امت کے لیے مشعلِ راہ کا کام دیتی رہیں گی۔ آج بھی حکمرانوں کا وطیرہ وہی رخ اختیار کر رہا ہے، چنانچہ آج بھی امت کے دینی جذبات کے تحفظ کی ذمہ داری ہماری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔ جب تک عدلیہ کا کردار مثالی نہیں ہوتا اسی طرح کے منفی حیلے ہتھکنڈے جنم دینے کے لیے حکمرانوں کو شہ ملتی رہے گی۔

اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے، جس نے بھی اسلامی شعائر کی توہین کی اور جن حلقوں نے ان کی سرپرستی کرنے کی کوشش کی، ان کے نام تاریخ کے سیاہ باب کی نذر ہو چکے ہیں۔ توہینِ رسالتؐ کا ارتکاب کرنے والا شخص دنیا اور اس کی عدالتوں سے تو محفوظ رہ سکتا ہے لیکن قہرِ خداوندی سے نہیں۔ رسول اسے کہتے ہیں جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہو، اور خدا ہی اس کی حرمت کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کے لیے کبھی غازی خدا بخش اور کبھی غازی علم الدین شہید وسیلہ بنتے ہیں۔

(بشکریہ روزنامہ خبریں لاہور ۲۱ اپریل ۱۹۹۵ء)


سیرت و تاریخ

(مئی ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter