حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کا سفر ِبنگلہ دیش

ادارہ

بنگلہ دیش کے علماء کی ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی بنگلہ دیش میں تشریف آوری ہو اور علماء و طلبہ کو ان سے استفادہ کا موقع ملے۔ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ اس سے قبل متحدہ پاکستان کے زمانے میں ایک بار جمعیت علماء اسلام پاکستان کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ تشریف لے جا چکے ہیں۔ دسمبر ۱۹۹۳ء میں بھی ڈھاکہ کی عظیم الشان ختمِ نبوت کانفرنس میں شرکت کا پروگرام طے پا چکا تھا۔ ویزا اور سیٹ کی کنفرمیشن کے مراحل طے ہو چکے تھے، اور حضرت شیخ الحدیث مدظلہ اپنے فرزند اکبر مولانا زاہد الراشدی کے ہمراہ ڈھاکہ جانے کے لیے کراچی پہنچ چکے تھے کہ اچانک بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے ختمِ نبوت کانفرنس کے انعقاد پر پابندی کی خبر کے باعث سفر کا پروگرام معطل کرنا پڑا۔ بعد میں بنگلہ دیش کے غیور مسلمانوں کے پرجوش احتجاج کے باعث حکومتی پابندی غیر مؤثر ہو گئی اور کانفرنس پورے جوش و خروش کے ساتھ منعقد ہوئی مگر حضرت شیخ الحدیث مدظلہ اور مولانا زاہد الراشدی اس میں شرکت نہ کر سکے۔

گزشتہ ماہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب مہتمم مولانا فضل الرحیم نے حضرت شیخ الحدیث مدظلہ سے رابطہ قائم کیا کہ بنگلہ دیش کے سب سے قدیمی دینی ادارہ مدرسہ معین الاسلام ہاٹ ہزاری چاٹگام کی صد سالہ تقریبات منعقد ہو رہی ہیں جس میں قدیم و جدید فضلاء کی دستاربندی ہو گی، اور وہاں کے علماء کی شدید خواہش ہے کہ اس موقع پر وہ تشریف آوری کی زحمت فرمائیں۔ اگرچہ ان کی عمر اور صحت کے لحاظ سے یہ سفر بظاہر مشکل تھا، اس لیے کہ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی عمر اس وقت ہجری لحاظ سے چوراسی برس کے لگ بھگ ہے اور وہ گھٹنوں کے درد سمیت مختلف عوارض کا شکار ہیں۔ لیکن علماء کے اصرار کے باعث انہوں نے یہ دعوت قبول کر لی اور سرکردہ علماء کرام کے ایک وفد کے ہمراہ بنگلہ دیش تشریف لے گئے۔

مدرسہ معین الاسلام ہاٹ ہزاری کی صد سالہ تقریبات میں پاکستان سے شریک ہونے والے علماء کرام میں حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کے علاوہ وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ مولانا سلیم اللہ خان، جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے سربراہ مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے نائب مہتمم مولانا انوار الحق، بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا عبد القادر آزاد، جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب مہتمم مولانا فضل رحیم، سیالکوٹ کے بزرگ عالم دین مولانا حکیم عبد الواحد، اور مولانا قاری سیف اللہ اختر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ جبکہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شعبہ حفظ کے استاذ قاری محمد عبد اللہ صاحب حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی رفاقت اور خدمت کے جذبہ کے ساتھ وفد میں شامل ہو گئے اور اپنے ذاتی خرچہ سے انہوں نے سفر میں رفاقت اختیار کی۔

پاکستانی علماء کا وفد ۸ اپریل کی شام کو ڈھاکہ پہنچا اور چونکہ اپوزیشن کی طرف سے پورے بنگلہ دیش میں ۹ اپریل سے چار روزہ ہڑتال کا اعلان تھا اس لیے تھوڑی دیر ٹھہر کر بذریعہ ٹرین چاٹگام روانہ ہو گیا۔ ڈھاکہ ایئرپورٹ پر مرکز اسلامی ڈھاکہ کے سربراہ مولانا شہید الاسلام نے اپنے رفقاء کے ہمراہ علمائے کرام کا خیرمقدم کیا اور ڈھاکہ میں قیام کے دوران مرکز اسلام ہی معزز مہمانوں کی قیام گاہ رہا۔

مدرسہ معین الاسلام ہاٹ ہزاری چاٹگام بنگلہ دیش کا سب سے قدیمی دینی مدرسہ ہے۔ ہاٹ ہزاری، چاٹگام سے دس بارہ میل کے فاصلہ پر ہے۔ اور مدرسہ معین الاسلام، جو بنگلہ دیش کے مدارس میں ام المدارس کہلاتا ہے، اپنے قیام کو لگ بھگ ایک صدی مکمل کر چکا ہے، ۱۰ اپریل سے اس کی صد سالہ تقریبات کا آغاز تھا جس میں قدیم و جدید فضلاء کی دستاربندی کا پروگرام بھی شامل تھا۔ لیکن اپوزیشن کی طرف سے چار روزہ ملک گیر ہڑتال کے باعث عوامی سطح پر اس طرز کا اجتماع نہ ہو سکا جو بنگلہ دیش کی روایات کا حصہ ہے۔ البتہ جن فضلاء کی دستاربندی ہونا تھی وہ ہڑتال کے خدشہ کے پیش نظر پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے اور تقریباً تیس ہزار افراد کی دستاربندی اس اجتماع میں عمل میں لائی گئی۔ مدرسہ معین الاسلام کے مہتمم اس وقت مولانا احمد شفیع ہیں، جبکہ اس سال پانچ ہزار طلبہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں ایک ہزار کے قریب طلبہ دورۂ حدیث میں شریک ہیں۔

مدرسہ کی دو روزہ تقریبات میں شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ العالی کے علاوہ مولانا سلیم اللہ خان، مولانا عبد القادر آزاد، مولانا فضل رحیم، مولانا حکیم عبد الواحد، مولانا حبیب اللہ مختار، مولانا انوار الحق، مولانا قاری سیف اللہ اختر اور دیگر پاکستان علمائے کرام نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ بھارت سے تقریبات میں شرکت کے لیے دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہی دامت برکاتہم تشریف لائے ہوئے تھے اور یہ تقریبات انہی کی سرپرستی میں منعقد ہوئیں۔

مدرسہ معین الاسلام ہاٹ ہزاری میں خطاب اور دستاربندی کے علاوہ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ جامعۃ العربیۃ الاسلامیۃ جیری چاٹگام، اور مدرسہ مظاہر العلوم چاٹگام میں بھی تشریف لے گئے، اور ڈھاکہ میں واپسی پر مرکز اسلامی کے علاوہ مدرسہ عربیہ بنات الاسلام میر پور ۱۲ کا بھی معائنہ کیا جہاں چھ سو سے زائد طالبات دینی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور دورہ حدیث بھی ہوتا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ نے بعض طالبات سے عبارت سن کر ان کی علمی استعداد پر مسرت کا اظہار کیا۔

۱۳ اپریل جمعرات کا دن حضرت شیخ الحدیث مدظلہ نے ڈھاکہ میں گزارا اور مرکزِ اسلامی کے مختلف شعبوں کا معائنہ کیا۔ اس موقع پر مرکز اسلامی کے سربراہ مولانا شہید الاسلام نے، جو جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ہیں، بتایا کہ مرکزِ اسلامی ایک تعلیمی اور رفاہی ادارہ ہے جس کے تحت نہ صرف بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں دینی مدارس و مکاتب کام کر رہے ہیں بلکہ خدمتِ خلق کا شعبہ بھی منظم طور پر سرگرمِ عمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں مسیحی مشنریاں منظم طریقہ سے کام کر رہی ہیں اور ان کا کام عورتوں میں سب سے زیادہ ہے۔ عیسائی مشنریوں کا ہدف یہ ہے کہ دس سال میں بنگلہ دیش کو عیسائی اکثریت کا ملک بنا لیا جائے، اور وہ رفاہی اداروں اور امدادی کاموں کے ذریعے اپنے اثرات کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ اس لیے علمائے کرام نے بھی اس نہج پر کام شروع کیا ہے اور اس وقت المرکز الاسلامی بنگلہ دیش کے ایک بڑے رفاہی ادارہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کے پاس ۱۱ ایمبولینس ہیں اور ۷۵ بیڈ کا ہسپتال زیرتعمیر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ۱۹۹۱ء کے سیلاب میں امدادی کاموں کے لیے سب سے پہلے مرکز اسلامی کے کارکن سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچے اور کم و بیش ایک کروڑ روپے کا سامان تقسیم کیا، اور متاثرین کے کیمپوں میں امدادی سرگرمیوں کے علاوہ چھ سو خاندانوں کو مکان تعمیر کر کے دیے، اور چار سو بیواؤں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کی۔ انہوں نے بتایا کہ اس کام کے لیے ہم حکومت سے کوئی امداد نہیں لیتے بلکہ عوام کے تعاون سے اخراجات پورے کرتے ہیں اور سب سے زیادہ تعاون پاکستان کے مخیر حضرات سے حاصل ہوتا ہے۔

حضرت شیخ الحدیث مدظلہ نے مرکز اسلامی کی سرگرمیوں پر مسرت کا اظہار کیا اور ان مساعی کی کامیابی کے لیے دعا فرمائی، اور اس طرح بنگلہ دیش میں چھ روزہ قیام کے بعد ۱۴ اپریل کو صبح گوجرانوالہ واپس پہنچ گئے۔



اخبار و آثار

(مئی ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter