پاکستان کے تمام مذہبی مکاتبِ فکر کے قائدین پر مشتمل ملی یکجہتی کونسل نے ۲۳ اپریل ۱۹۹۵ء کو لاہور کے ایک ہوٹل میں مولانا شاہ احمد نورانی کی زیرصدارت مرکزی اجلاس میں مذہبی مکاتبِ فکر کے درمیان ضابطۂ اخلاق کی منظوری دے دی ہے۔ اجلاس میں مولانا محمد اجمل خان، پروفیسر ساجد میر اور علامہ ساجد نقوی سمیت تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ مذہبی قائدین نے شرکت کی۔ جبکہ ضابطۂ اخلاق کا اعلان کونسل کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی نے پریس کانفرنس میں کیا۔
ضابطۂ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ اختلافات اور بگاڑ دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام مکاتبِ فکر نظمِ مملکت اور نفاذِ شریعت کے لیے ایک بنیاد پر متفق ہوں۔ اس مقصد کے لیے ہم ۳۱ سرکردہ علماء کے ۲۲ نکات کو بنیاد بنانے پر متفق ہیں۔
ہم ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں۔ کسی بھی اسلامی فرقہ کو کافر قرار دینا یا کسی مکتبِ فکر سے متعلق شخص کو واجب القتل قرار دینا غیر اسلامی اور قابلِ نفرت فعل ہے۔
توہینِ رسالتؐ کے قانون میں تبدیلی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ توہینِ رسالتؐ کی سزا صرف موت ہے۔
عظمت ِصحابہؓ، عظمتِ اہلِ بیتؓ، عظمتِ ازواج ِمطہرات ایمان کا جزو ہے، ان کی تکفیر کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج اور ان کی توہین و تنقیص حرام اور قابلِ مذمت و تعزیر جرم ہے۔
ایسی ہر تقریر و تحریر سے گریز و اجتناب کیا جائے گا جو کسی بھی مکتبِ فکر کی دل آزاری اور اشتعال کا باعث بن سکتی ہے۔ شر انگیز اور دل آزار کتابوں، پمفلٹوں اور تحریروں کی اشاعت، تقسیم و ترسیل نہیں کی جائے گی۔ اشتعال انگیز اور نفرت انگیز مواد پر مبنی کیسٹوں پر مکمل پابندی ہو گی اور ایسی کیسٹیں چلانے والا قابل سزا ہو گا۔ دل آزار، نفرت انگیز اور اشتعال انگیز نعروں سے مکمل احتراز کیا جائے گا۔ دیواروں، ریل گاڑیوں، بسوں اور دیگر مقامات پر دل آزار نعروں اور عبارتوں پر مکمل پابندی ہو گی۔
تمام مسالک کے اکابرین کا احترام کیا جائے گا۔ تمام مکاتبِ فکر کے مقاماتِ مقدسہ اور عبادت گاہوں کے احترام و تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ جلسوں، جلوسوں، مساجد اور عبادت گاہوں میں اسلحہ خصوصاً غیر قانونی اسلحہ کی نمائش نہیں ہو گی۔ عوامی اجتماعات اور جمعہ کے خطبات میں ایسی تقریریں کی جائیں گی جن سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے میں مدد ملے۔ عوامی سطح پر ایسے اجتماعات منعقد کیے جائیں گے جن سے تمام مکاتبِ فکر کے علماء بیک وقت خطاب کر کے ملی یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔
مختلف مکاتبِ فکر کے متفقات اور مشترکہ عقائد و نکات کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کا اہتمام کیا جائے گا۔ باہمی تنازعات کو افہام و تفہیم اور تحمل و رواداری کی بنا پر طے کیا جائے گا۔
ضابطۂ اخلاق کے عملی نفاذ کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو اس ضابطہ کی خلاف ورزی کی شکایات کا جائزہ لے کر اپنا فیصلہ صادر کرے گا، اور خلاف ورزی کے مرتکب کے خلاف کاروائی کی سفارش کرے گا۔