دو سال قبل اکابر علماء کرام کی محنت سے دونوں جماعتوں میں اتحاد کی راہ ہموار ہوئی اور دونوں تنظیموں کے راہنماؤں نے حرکۃ الجہاد الاسلامی اور حرکۃ المجاہدین کی بجائے ’’حرکۃ الانصار‘‘ کے نام سے ایک نئے مشترکہ پلیٹ فارم پر کام شروع کر دیا جو اس وقت مقبوضہ کشمیر اور دیگر خطوں میں اپنی جرأت مندانہ جہادی سرگرمیوں کے باعث عالمی سطح پر متعارف ہے اور دینی بیداری کی مسلح تحریکات میں ایک باوقار اور منظم جماعت کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل چند غیر مطمئن دوست حرکۃ الجہاد الاسلامی کے دوبارہ احیاء کی طرف متوجہ ہوئے اور مولانا سیف اللہ اختر کی سربراہی میں اس سمت عملی پیش رفت کا آغاز ہوگیا تو اکابر علماء نے صورتحال کا بروقت نوٹس لیا اور مجاہدین کے اس وسیع حلقہ کو ایک نئے خلفشار سے بچا لیا۔ اس سلسلہ میں دو عظیم افغان کمانڈروں حضرت مولانا محمد ارسلان رحمانی اور حضرت مولانا جلال الدین حقانی کے ساتھ انٹرنیشنل اسلامک مشن کے سربراہ مولانا عبد الحفیظ مکی کی توجہات اور مساعی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان بزرگوں نے شبانہ روز کی محنت کے ساتھ حرکۃ الانصار اور نو تشکیل شدہ حرکۃ الجہاد الاسلامی کے راہنماؤں میں پیدا ہوجانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوئے ان سب کو حرکۃ الانصار کے پلیٹ فارم پر دوبارہ مجتمع کر دیا جس کے نتیجہ میں نہ صرف حرکۃ الانصار کی متفقہ قیادت کا چناؤ عمل میں آگیا ہے بلکہ نیا دستور اور مجلس شوریٰ بھی طے پا گئی ہے۔
ہم اس مثبت اور مبارک پیشرفت پر مولانا ارسلان رحمانی، مولانا جلال الدین حقانی، مولانا عبد الحفیظ مکی اور حرکۃ الانصار کے تمام راہنماؤں اور کارکنوں بالخصوص مولانا قاری سیف اللہ اختر اور مولانا فضل الرحمان خلیل کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کی بھرپور کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، اللہم ربنا آمین۔