’’مولانا ارشاد الحق اثری کا مجذوبانہ واویلا‘‘
فقہی اختلافات امت میں چودہ سو سال سے چلے آ رہے ہیں اور تعبیر و تشریح اور استنباط و استخراج کے مختلف اصولوں کے تحت فقہی مکاتبِ فکر کا وجود ایک مسلّمہ اور فطری حقیقت ہے۔ لیکن فقہائے امت اور اہلِ علم کا ہمیشہ سے یہ ذوق اور رویہ رہا ہے کہ اختلافِ رائے کے حق اور اس کے نتائج کا احترام کرتے ہوئے اپنے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کو ہی سلامتی کی راہ سمجھا جاتا رہا ہے۔
البتہ گزشتہ ایک صدی کے دوران برصغیر پاک و ہند میں فقہی اختلافات کے اظہار کے حوالے سے یہ رویہ اور ذوق اپنے مقام سے محروم رہا ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ تقلید سے گریز کرنے والے حضرات نے اہلِ حدیث کے نام سے اپنا جداگانہ تشخص قائم کرنا چاہا تو اس تشخص و امتیاز کو جلد از جلد منظر عام پر لانے کے جذبہ نے جارحیت کا راستہ اختیار کر لیا۔ اور رفع یدین، فاتحہ خلف الامام اور آمین بالجہر بھر جیسے صدیوں سے چلے آنے والے مسائل میں فتویٰ بازی کے عصر نے راہ پا لی۔ چنانچہ ان مسائل میں احناف کے خلاف جارحانہ انداز میں مختلف کتابیں سامنے آئیں اور تحریری و تقریری مناظرہ بازی کا بازار گرم ہو گیا۔
اس پس منظر میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے احناف کے موقف کی علمی ترجمانی کا بیڑا اٹھا لیا اور ان اختلافی مسائل پر ان کی متعدد علمی و تحقیقی تصانیف نے احناف کے مذہب اور دلائل کی محققانہ وضاحت کے باعث اہلِ علم سے داد وصول کی۔ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی ان تصانیف کے حوالے سے ممتاز اہلِ حدیث عالمِ دین مولانا ارشاد الحق اثری نے ان کی شخصیت کو موضوعِ بحث بنایا اور ’’مولانا سرفراز صفدر اپنی تصانیف کے آئینہ میں‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر فرمائی۔
زیر نظر کتاب مولانا اثری کی اس تصنیف کا جواب ہے جو حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کے فرزند اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے استاذ حدیث برادر عزیز مولانا عبد القدوس قارن سلّمہ کی تحریر کردہ ہے اور اس میں انہوں نے مولانا اثری کے استدلالات اور طرز استدلال کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے اس کی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ سوا تین سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ساٹھ روپے ہے اور اسے مکتبہ صفدریہ نزد مدرسہ نصرۃ العلوم گھنٹہ گھر گوجرانوالہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’میزان الحق‘‘
دیوبندی اور بریلوی مکاتبِ فکر میں علمِ غیب، حاضر و ناظر، مختار کل، نور و بشر اور ان جیسے دیگر اعتقادی مسائل پر ایک عرصہ سے بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور ان موضوعات پر سینکڑوں کتب و رسائل منظر عام پر آچکے ہیں۔ پیر جی سید مشتاق علی شاہ صاحب نے زیر نظر مجموعہ میں ’’دیوبندی بریلوی اختلافات کا شرعی فیصلہ‘‘ کے عنوان سے متعدد مفید رسائل کو یکجا کر دیا ہے، جن سے ان مسائل پر علمائے دیوبند کے موقف اور دلائل سے کافی حد تک آگاہی حاصل ہو جاتی ہے۔ ۴۲۸ صفحات کے اس مجموعہ کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے اور یہ مکتبہ فاروقیہ ۸ گوبند گڑھ گوجرانوالہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’فتویٰ دار الحرب، تاریخی و سیاسی اہمیت‘‘
برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر فرنگی استعمار کے تسلط اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی عمل داری کے بعد امام ولی اللہ دہلویؒ کے جانشین حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا جو جنگِ آزادی کی بنیاد بنا اور علماء حق نے اس کی بنا پر مسلسل ڈیڑھ سو برس تک آزادی کی جدوجہد کی۔ محترم ڈاکٹر ابو سلمان سندھی نے یہ تاریخی فتویٰ اس کی سیاسی و تاریخی اہمیت کی وضاحت کے ساتھ شائع کیا ہے۔ صفحات ۲۸، قیمت درج نہیں، ملنے کا پتہ: مکتبہ شاہد ۱ /۹ علی گڑھ کالونی، کراچی ۷۵۸۰۰