ورلڈ اسلامک فورم کا دوسرا سالانہ میڈیا سیمینار

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کا دوسرا سالانہ میڈیا سیمینار ۱۴ اکتوبر ۹۵ء کو ٹامبے ہال ایسٹ لندن میں زیرصدارت جناب بیرسٹر یوسف اختر منعقد ہوا۔ اس کے مہمان خصوصی بی بی سی ورلڈ سروس کے ڈائریکٹر جنرل جان بیرڈ کے نو مسلم صاحبزادے جناب محمد یحیٰی صاحب تھے۔ سیمینار میں برطانیہ کے ممتاز صحافی، دانشور، میڈیا کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے علاوہ علمائے کرام نے شرکت کی۔ 

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روس کی شکست و ریخت کے بعد مغرب سمجھ رہا ہے کہ اب دنیا میں مغرب کی بالادستی کی راہ میں واحد رکاوٹ اسلام ہے۔ اسے اس بات کا خوف ہے کہ مستقبل قریب میں مغربی نظامِ حیات بھی روس کے کمیونزم کی طرح اسلام کے مقابلہ میں ریت کی دیوار کی طرح ڈھے جائے گا۔ اس خوف سے مغرب اسلام کے مقابلہ پر صف آرا ہو گیا ہے۔ مغرب نئی تیاریوں کے ساتھ اور نئے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر سامنے آیا ہے۔ وہ جسم کے بجائے انسانی ذہنوں کو غلام بنانا چاہتا ہے۔  ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے کہیں زیادہ بدتر اور خوفناک ہوتی ہے۔ اس دور میں ذہن و فکر کو غلام بنانے کا سب سے مؤثر ذریعہ میڈیا ہے۔ آج کا دور میڈیا کا دور ہے۔ اس کی طاقت ایٹم بم سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ میڈیا کروڑوں انسانوں کے ذہن و دماغ کو جدھر چاہتا ہے موڑ دیتا ہے۔ غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ مغرب محض مؤثر اور طاقتور میڈیا کے ذریعہ ہماری سوچ کو متاثر کرتا ہے۔ آج کا سب سے بڑا مسئلہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا کی یلغار کا ہے۔ ہمیں نہ صرف میڈیا کے اس بے رحم حملے کو روکنا ہے بلکہ مغربی میڈیا کا متبادل فراہم کرنا وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ 
انسانیت کی بدقسمتی ہے کہ میڈیا کا مؤثر ترین اور طاقتور ہتھیار ایسے لوگوں کے قبضے میں ہے جو اسلام کے بارے میں تعصب و عناد کا شکار ہیں۔ وہ عظیم طاقت کو تعمیر کی بجائے تخریب کے لیے، کردار و اخلاق کو سنوارنے کے بجائے بے حیائی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ آپ کو آج کے میڈیا کا چیلنج قبول کر کے، اس کے مختلف شعبوں میں مہارت و برتری حاصل کر کے انہیں انسانیت کی تعمیر، اخلاق کی تعلیم اور کردار سازی کے لیے استعمال کرنا ہے۔ الحمد للہ یہاں میڈیا کے مختلف شعبوں کے ماہرین تشریف فرما ہیں، میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ فورم کی میڈیا کی کوششوں میں رہنمائی و تعاون کریں۔

بی بی سی ورلڈ سروس کے ڈائریکٹر جنرل جان بیرڈ کے نومسلم صاحبزادے اور ممتاز اسکالر جناب محمد یحیٰی نے اپنے خطاب میں کہا کہ میڈیا ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔ میڈیا کے ذریعہ مفید معلومات بھی دی جاتی ہیں اور منفی معلومات کے ذریعہ صحیح معلومات پر پانی بھی پھیرا جاتا ہے۔ میڈیا اور ٹیلی ویژن میں زبردست انقلاب آ رہا ہے۔  ٹیلیویژن کے موجودہ سسٹم کی عمر ۶۰ / ۷۰ سال سے زائد نہیں۔ جو تبدیلی آ رہی ہے اس میں الفاظ، آواز اور تصاویر کو تقسیم کر دیا جائے گا۔ جدید ٹیکنالوجی قسم قسم کے لامتناہی پروگرام دے گی۔ اس میں ہم اپنا مشورہ اور ردعمل بھی شامل کر سکیں گے۔ گویا ٹیلی ویژن، عنقریب ٹیلی فون کی طرح مکالمے کی شکل اختیار کر جائے گا۔ ایک کیبل کے ذریعہ فائبر آپٹکس کے ذریعہ جو انسانی بال سے زیادہ باریک ہو گا ۳۰۰۰۰ قسم کے پروگرام منتقل کیے جا سکیں گے۔ تھوڑے دنوں میں ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، ریڈیو اور ٹیلی فون اکٹھے ہو جائیں گے، گویا ٹیلی ویژن ایک کمپیوٹر بن جائے گا اور جدید سسٹم کی قیمت بھی بہت کم ہوگی اور ٹیلی فون بل جتنا خرچہ آئے گا۔  آج کے ویڈیو سسٹم کی طرح ٹی وی پروگرام بھی چھوٹی کمپنیاں، ادارے اور افراد بنا سکیں گے۔ بی بی سی اور آئی ٹی وی کی اجارہ داری باقی نہیں رہے گی۔ اس کی جگہ مختلف معاشرتی ادارے و انجمنیں اپنے پروگرام بنا اور دکھا سکیں گے، اور امت کے مختلف حلقوں اور طبقوں کے لیے کم خرچ پر اپنا پروگرام پیش کر سکیں گے۔  کتابوں اور لائبریریوں کی بجائے ڈسک ہوں گی۔ گویا تمام اسلامی و دنیوی علوم ایک چھوٹی سی ڈسک پر جمع ہو سکیں گے جو مفت ہر جگہ بھیجی جا سکیں گی۔ آج کے انٹرنیٹ کی طرح ان پر کسی حکومت کا کنٹرول نہیں ہو گا۔ ان نئے نئے مواقع، نئی ٹیکنالوجی و ترقیات کو جانے بغیر مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے پاس وہ پروگرام ہونے چاہئیں جو افرادِ امت اور انسانیت کو سیٹلائیٹ اور ہوا کے ذریعہ پیش کیے جا سکیں۔ 

جناب ابراہیم آدمانی نے ریڈیو رپورٹ پیش کی جو فورم کے ریڈیو شعبے کے ماہرین نے اسپیکٹرم اور برطانیہ کے دیگر ریڈیو کے ذمہ داروں سے تبادلہ خیال کے بعد مرتب کی تھی۔ 

ڈڈلی کے چاند ٹی وی کے ڈائریکٹر جناب جمیل نے سیٹلائیٹ رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ یورپ کے لیے سیٹلائیٹ کا لائسنس بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔ 

فورم کے نائب صدر اور اسلامک کمپیوٹنگ سنٹر کے ڈائریکٹر مفتی برکت اللہ نے بھارت (بمبئی) کے سیٹلائیٹ کے ممتاز ماہر اور ویڈیو ویژن کے ڈائریکٹر جناب سلیم مرزا کا فیکس پڑھ کر سنایا اور ایک رپورٹ پیش کی۔ 

حزب التحریر کے رئیس جناب عمر بکری محمد نے کہا کہ اسلام اور حق کے خلاف میڈیا کا جہاد تخلیقِ آدمؑ سے چلا آ رہا ہے۔ دورِ نبوت میں کفارِ مکہ نے حضورؐ کے ساحر، کاہن اور مبتذل ہونے کا پراپیگنڈا کیا تھا۔ ہماری کوششیں نئی نسل کو انسانی اور فطری حوالے سے اسلام کی دعوت اور علم و دانش کے غلبے کی ہونی چاہئیں۔ یہود و نصاری نے پہلے بھی اللہ کی کتابوں میں تحریف کی اور اب بھی مغرب اسلام کو بددیانتی اور تحریف کے ساتھ پیش کر رہا ہے۔ 

ختم نبوت سنٹر لندن کے انچارج عبد الرحمن باوا، چبلنگلم کے مولانا عبد الرحمٰن چشتی، جمعیت العلماء برطانیہ کے قاری تصور الحق، جناب فیض اللہ خان، جناب عادل فاروقی اور مولانا عبد الرشید راوت نے تجاویز پیش کیں۔ 

صدر اجلاس اور مسلم لیگ کے سربراہ جناب بیرسٹر محمد یوسف اختر نے کہا کہ فورم نے میڈیا کے مختلف شعبوں کے ماہرین کو جمع کر کے بہت اچھی ابتداء کی ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ علم اور خبر ہی انسان کے لیے وجہ شرف بنا ہے۔ اور قرآن نے حضرت سلیمانؑ کے واقعہ سے، جس میں ملکہ بلقیس کے تخت کو ہزار ہا میل سے پل بھر میں حاضر کر دیا گیا تھا، فاصلوں کے ختم ہو جانے کی طرف بلیغ اشارہ دیا تھا۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے دور کے ابلاغ و میڈیا کے ممکنہ ذرائع استعمال کیے۔ آپ کے اتباع میں ملتِ اسلامیہ کو بھی ذرائع ابلاغ پر دستری اور بالادستی حاصل کرنی ہو گی۔ میں وقت کے اس اہم کام کی طرف توجہ دلانے پر فورم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ 

مولانا عمران خان جہانگیری کی دعا پر سیمینار اختتام پذیر ہوا۔


اخبار و آثار

(دسمبر ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter